اجماع و قیاس

Ref. No. 3212/46-7081

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وہ ضعیف حدیث جو  صحیح حدیث کی ہی  ایک ذیلی قسم ہے  وہ باطل اور موضوع نہیں ہے تو اگر متعلقہ باب میں کوئی  متصادم اثر ۔ کسی صحابی کا قول نہ ملے اور اجماع کے خلاف بھی نہ ہو تو احناف کے نزدیک قیاس کے مقابلہ میں اس حدیث ضعیف پر عمل کرنا اولیٰ ہوگا۔

مثال کے طور پر  امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے نماز میں قہقہہ لگانے والی حدیث ضعیف  کو  قیاس پر ترجیح دی ہے، کھجور کے نبیذ سے وضو والی حدیث ضعیف  کو قیاس پر ترجیح دی ہے،  اسی طرح حیض کی اکثر مدت دس دن والی حدیث ضعیف کو  قیاس پر ترجیح دی ہے، اسی طرح  دس درہموں سے کم حق مہر نہیں ہے کی حدیث ضعیف کو قیاس پر ترجیح دی ہے۔ اس لئے احناف کے یہاں حدیث ضعیف کو قیاس پر ترجیح حاصل ہوگی۔

’’وأصحابنا ہم المتمسکون بالسنۃ والرأي في الـحقيقۃ فقد ظہر منہم من تعظيم السّنۃ ما لم يظہر من غيرہم ممّن يدعي أنہ صاحب الحديث، لأنہم جوزوا نسخ الکتاب بالسنۃ لقوّۃ درجتہا وجوزوا العمل بالمراسيل وقدموا خبر المجہول علی القياس وقدموا قول الصّحابيّ علی القياس، لأن فيہ شبہۃ السماع من الوجہ الّذي قررنا، ثمّ بعد ذٰلک کلہ عملوا بالقياس الصّحيح وہو المعنی الّذي ظہر أثرہ بقوتہ۔ فأما الشّافعي رحمہ اللہ حين لم يجوز العمل بالمراسيل فقد ترک کثيرا من السّنن وحين لم يقبل روايۃ المجہول فقد عطل بعض السّنۃ أيضا وحين لم ير تقليد الواحد من الصّحابۃ فقد جوز الإعراض عمّا فيہ شبہۃ السماع .. وتبين أن أصحابنا ہم القدوۃ في أحکام الشّرع أصولہا وفروعہا وأن بفتواہم اتّضح الطّريق للنّاس إلّا أنہ بحر عميق لا يسلکہ کل سابح ولا يستجمع شرائطہ کل طالب، واللہ الموفق ۔(أصول السرخسي:۲/ ۱۱۳)

﴿وھو الذی رحّجہ علی القیاس ولیس المراد بالضعیف عندہ الباطل ولا المنکر ولا مافی رواتہ متھم بحیث لا یسوغ الذھاب الیہ والعمل بہ ، بل الحدیث الضعیف عندہ قسم الصحیح وقسم من اقسام الحسن ولم یکن یقسم الحدیث الی صحیح وحسن وضعیف ، بل الی صحیح وضعیف﴾

​(اعلام الموقعین۲،ص۵۵ فصل الرابع اخذا لمرسل)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اجماع و قیاس

Ref. No. 2734/45-4467

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنے کے ہیں اور دو چیز کو ایک دوسرے کے برابر کرنے کے بھی۔  قیاس کے اصطلاحی معنی ہیں غیر منصوص واقعہ میں علت کے اشتراک کی وجہ سے نص کا حکم لگانا، یہ  قیاس کہلاتا ہے، قیاس سے متعلق مختلف شرطیں  ہیں،  ان شرطوں کے پائے جانے پر ہی قیاس کرنا درست ہے، شرطوں میں بعض کا تعلق مقیس علیہ یعنی اصل  سےہے ، بعض کا مقیس سے، بعض کا  حکم سےاور بعض کا علت سے۔  ان کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں۔ قیاس کو ہی قیاس جلی کہتے ہیں اور استحسان کو قیاس خفی کہتے ہیں احناف کے بہت سے مسائل قیاس سے ثابت ہیں اس کی کوئی تحدید وتعیین نہیں ہو سکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اجماع و قیاس
Ref. No. 41/ In the name of Allah the most Gracious the most Merciful The answer to your question is as follows: The detail regarding Hoor you mentioned in the question is correct. The Holy Quran says: the God-fearing will have great achievements, gardens and grapes, and buxom maidens of matching age. (Quran Surah No. 78, verse No. 31, 32, 33). And in a hadith, the Messenger of Allah (saws) said that a martyr will have six blessings from Allah and one of them is that he will be married to seventy-two wives from hoor (beautiful and special girls of paradise). See Faizul Qadeer 4/183, Hadith No. 4963 And Allah knows best Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband

اجماع و قیاس

Ref. No. 2350/44-3538

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     بعض لوگوں کی مصروفیات ایسی ہیں  کہ مدرسہ کے تعلیمی اوقات میں ان کے لئے مدرسہ آنا مشکل ہوتاہے، اس لئے ایسے لوگوں کے لئے  کسی بھی مناسب پلیٹ فارم سے  آن لائن مسائل معلوم کرنے کی سہولت مہیاکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، یہ بھی  وقت کا تقاضا اور دین کی خدمت  ہے۔ البتہ تصویر کے ساتھ مسائل بیان کرنے کی  کوئی ضرورت نہیں ہے اس لئے تصویر سے بچنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اجماع و قیاس

Ref. No. 40/884

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجماع حجت شرعی فرعی ہے، اسے ماننا ضروری ہے لیکن منکر خارج از ایمان نہیں ہے، اور اہل حدیث کو بھی خارج از ایمان کہنا غلط ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اجماع و قیاس
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں۔(۱) (۱) حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: …سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا، جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا، اس کی دیگر گھناؤنی حرکات کا علم صحابہؓ کرام کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا، جیسا کہ ابن خلدون نے نقل کیا ہے۔ (خاتم النبیین مترجم: ص: ۱۹۷) محمد إدریس کاندھلوی، احتساب قادیانیت: ج ۲، ص: ۱۰۔ فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص166