نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) اگر نماز کے مقررہ وقت میں گنجائش ہو تو تقریر یا نعت وغیرہ پڑھنا درست ہے اور تقریر میںنماز عیدین کے مسائل اوراحکام کو بیان کرنا بہت ہی زیادہ بہتر ہے۔(۲) نماز عیدین کا خطبہ واجب ہے اس میں غلطی نہ ہونی چاہئے اس لئے اول تو انہیں امام کو  چاہئے کہ خطبہ پڑھنے کی مشق کریں تاکہ غلطی نہ ہونے پائے اور لوگوں کا اعتراض ختم ہوجائے۔ تاہم اگرمعقول وجہ ناراضگی کی ہو تو ایسے امام کو خود ہی امامت سے سبکدوش ہوجانا چاہئے تاکہ نماز جیسا اہم فریضہ کسی دوسرے امام کے پیچھے لوگ باتفاق ادا کرسکیں۔(۱)(۱) قولہ: (ویعلم الأضحیۃ وتکبیر التشریق في الخطبۃ) لأنہا شرعت لتعلیم أحکام الوقت … فینبغي للخطیب أن یعلمہم أحکامہ في الجمعۃ التي قبل عید الأضحی کما أنہ ینبغي لہ أن یعلمہم أحکام صدقۃ الفطر لیتعلموہا ویخرجوہا قبل الخروج إلی المصلی … ویستفاد من کلامہم أن الخطیب إذا رأی بہم حاجۃ إلی معرفۃ بعض الأحکام فإنہ یعلمہم إیاہا في خطبۃ الجمعۃ خصوصا في زماننا من کثرۃ الجہل وقلۃ العلم فینبغي أن یعلمہم أحکام الصلاۃ کما لا یخفی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۵)……(۲) قولہ: (ویعلم الأضحیۃ وتکبیر التشریق في الخطبۃ) لأنہا شرعت لتعلیم أحکام الوقت … فینبغي للخطیب أن یعلمہم أحکامہ في الجمعۃ التي قبل عید الأضحی کما أنہ ینبغي لہ أن یعلمہم أحکام صدقۃ الفطر لیتعلموہا وخرجوہا قبل الخروج إلی المصلیٰ … ویستفاد من کلامہم أن الخطیب إذا رأی بہم حاجۃ إلی معرفۃ بعض الأحکام فإنہ یعلمہم إیاہا في خطبۃ الجمعۃ خصوصا في زماننا من کثرۃ الجہل وقلۃ العلم فینبغي أن یعلمہم أحکام الصلاۃ کما لا یخفی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۵)قولہ: (وہکذا الخ) … ویستفاد من کلامہم أن الخطیب إذا رأی حاجۃ إلی معرفۃ بعض الأحکام فإنہ یعلمہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸)ویعلم الناس صدقۃ الفطر وأحکامہا، وہي خمسۃ … وفي عید النحر یکبر الخطیب ویسبح، ویحظ الناس، ویعلمہم أحکام الذبح والنحر والقربان، کذا في التتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 290

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدالفطر کے دن روزہ رکھنا حرام اورناجائز ہے پس امام  صاحب نے جو نماز عید پڑھائی وہ تو ادا ہوگئی اس لیے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے؛ البتہ روزہ رکھنے کا گناہ ان کے ذمہ پر ہے جس سے ان پر لازم ہے کہ توبہ واستغفار کریں۔(۱)(۱) ویکرہ صوم یوم العیدین وأیام التشریق … ولا قضاء علیہ إن شرع فیہا ثم أفطر، کذا في الکنز ہذا في ظاہر الروایۃ عن الثلاثۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصوم: الباب الثالث فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۳)(وأما) القسم السادس وہو (المکروہ فہو قسمان تنزیہا ومکروہ تحریماً … (والثاني) الذي کرہ تحریماً (صوم العیدین) الفطر والنحر للإعراض عن ضیافۃ اللّٰہ ومخالفۃ الأمر۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصوم: فصل، في صفۃ الصوم وتقسیمہ‘‘: ص: ۶۴۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 289

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن غسل کرتے تھے اور عورتوں کے لئے بھی مستحب ہے کہ وہ غسل کریں اور علیحدہ لباس پہنیں کیوں کہ یہ ان کی خوشی اور زینت کا دن ہے۔(۱)(۱) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یغتسل یوم الفطر ویوم الاضحی۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’ما جاء في صلاۃ العیدین، باب ما جاء في الإغتسال في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۹۳)(و) ندب أي سن أن (یغتسل) وتقدم أنہ للصلاۃ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یغتسل یوم الفطر، ویوم النحر، ویوم عرفۃ … قولہ: (تقدم أنہ للصلاۃ ذکر السرخسي عن الجوہر: یغتسل بعد الفجر فإن فعل قبلہ أجزاہ، ویستوی في ذلک الذاہب إلی الصلاۃ القاعد لأنہ یوم زینۃ … واختار في الدرر أیضاً کون الغسل والنظافۃ فیہ للیوم فقط، وعللہ في النہر بأن السرور فیہ عام فیندب فیہ التنظیف لکل قادر علیہ صلی أم لا۔ (أحمد بن إسماعیل، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۲۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 288

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدالاضحی کے روز مستحب یہ ہے کہ نماز عید کے بعد اپنی قربانی کا گوشت کھائے، اس سے پہلے کچھ نہ کھائے اور جو شخص قربانی نہ کرے اس کے لیے بھی یہی مستحب ہے کہ قربانی کا گوشت میسر آئے تو وہی کھائے اس سے پہلے کچھ نہ کھائے۔ کذا فی الہندیہ والشامی۔ لیکن اس دن کے ابتدائی حصہ میں نہ کھانے کو لازم سمجھنا یا اسے روزہ کہنا غلط ہے نہ اس میں روزہ کا ثواب ہے، نہ روزہ کی نیت، ایسے غلط اعتقاد کو ترک کرنا لازم ہے۔’’عن بریدۃ رضي اللّٰہ عنہ قال کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کان یوم الفطر لم یخرج حتی یأکل شیئاً وإذا کان الأضحی لم یأکل شیئاً حتی یرجع وکان إذا رجع أکل من کبد أضحیۃ‘‘(۱)’’فمن کانت لہ أضحیۃ فقد اتفق الفقہاء علی أنہ یسن لہ تأخیر الفطر یوم النحر والإمساک عن الأکل لیفطر علی کبد أضحیۃ لما ورد عن بریدۃ رضي اللّٰہ عنہ قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لا یخرج یوم الفطر حتی یفطر ولا یطلع یوم الأضحیٰ حتی یصلی وفي روایۃ ولا یأکل یوم النحر حتی یذبح ولأن في الأضحیٰ شرعت الأضحیۃ والأکل منہا فاستحب أن یکون الفطر علیٰ شيء منہا‘‘(۲)(۱) أخرجہ البیہقي في السنن الکبری، ’’کتاب الصلاۃ العیدین: باب یترک الأکل یوم النحر حتی یرجع‘‘: ج ۳، ص: ۴۰۱۔(۲) الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ: ج ۴۵، ص: ۳۴۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 287

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز عیدین میں مجمع زیادہ ہوتا ہے اور مجمع میں ضعیف وکمزور اور بچے بھی ہوتے ہیں جن کی رعایت امام کے لیے ضروری ہے اس لیے امام کو تاخیر نہیں کرنی چاہئے، امام کی تاخیر سے سب کو پریشانی ہوگی؛ البتہ کسی وجہ سے اگر امام کو معمولی تاخیر ہوجائے تو مقتدیوں کو بھی پرسکون رہنا چاہئے اور تکبر تو کسی بھی انسان کے لیے جائز نہیں امام کو بھی متواضع ہونا چاہئے تواضع انسان کا بہترین زیور ہے۔(۱)(۱) قولہ: (وإلا فلا بأس) … ولفظۃ ’’لا بأس‘‘ تفید في الغالب أن ترکہ أفضل، وینبغي أن یکون ہنا کذلک، فإن فعل العبادۃ لأمر فیہ شبہۃ عدم إخلاصہا للہ تعالیٰ لا شک أن ترکہ أفضل، لقولہ علیہ السلام: ’’دع مایر یبک إلی مایریبک‘‘ قولہ: (ولو أراد التقرب إلی اللہ تعالیٰ) … فالحاصل أن تاخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب: في إطالۃ الرکوع للجائی‘‘: ج ۲، ص: ۱۹۸، ۱۹۹)وعن أبي ہریرۃ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلث منجیات وثلث مہلکات فأما المنجیات فتقویٰ اللّٰہ في السر والعلانیۃ والقول بالحق في الرضا والسخط والقصد في الغني والفقر، وأما المہلکات فہویً متبع وشح مطاع وإعجاب المرء بنفسہ وہي أشدہن۔ (خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، ’’باب الغضب والکبر الفصل الثالث‘‘: ج ۵، ص: ۴۳۴، رقم: ۵۱۲۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 286

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: خوشی کا موقع ہے، لہٰذا عیدگاہ کی صفائی اور تزئین کاری درست ہے تاہم یہ خیال رہے کہ مسجد اور عیدگاہ کی رقم تزئین کاری میں استعمال نہ کی جائے، کوئی شخص انفرادی طور پر کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، البتہ تزئین کاری میں غیروں کی مشابہت سے گریز کیا جائے۔(۱)(۱) (ولا بأس بنقشہ خلا محرابہ) فإنہ یکرہ؛ لأنہ یلہي المصلي، ویکرہ التکلف بدقائق النقوش ونحوہا خصوصاً في جدار القبلۃ قالہ الحلبي، وفي حظر المجتبی: وقیل: یکرہ في المحراب دون السقف والمؤخر انتہی، وظاہرہ أن المراد بالمحراب جدار القبلۃ فلیحفظ (بجص وماء ذہب) لو (بمالہ) الحلال (لامن مال الوقف) فإنہ حرام (وضمن متولیہ لوفعل) النقش أو البیاض، إلا إذا خیف طمع الظلمۃ فلا بأس بہ کافي، وإلا إذا کان لإحکام البناء۔ (الحصکفی، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا، مطلب: في أفضل المساجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۳۰، ۴۳۱)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 285

نماز / جمعہ و عیدین

الجـواب وباللّٰہ التــوفیــق: نماز عید کے لیے ایک ہی راستہ سے جانا اور اسی سے واپس آجانا بلا کراہت جائز ہے، البتہ ایک راستہ سے جانا اور دوسرے سے واپس آنا مستحب ہے۔(۲)(۲) عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللہ عنہما، قال: (کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کان یوم عید خالف الطریق)۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب العیدین:  باب من خالف الطریق إذا رجع یوم العید‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۴، رقم: ۹۸۶)ولا بأس بعودہ راکبا، وندب کونہ من طریق آخر، قولہ: (من طریق آخر) لما رواہ البخاري ’’أنہ کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا کان یوم عید خالف الطریق‘‘ ولأن فیہ تکثیر الشہود  لأن أمکنۃ القریۃ تشہد لصاحبہا شرح المنیۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: یطلق المستحب علی السنۃ وبالعکس‘‘: ج ۳، ص: ۴۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 285

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس خوشی کے موقع پر امام صاحب کو ذاتی رقم سے ہدیہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، امام صاحب کے لیے اس پیسے کا لینا اور استعمال کرنا درست ہے۔ مسجد کے فنڈ سے نہ دیا جائے؛ کیوں کہ مسجد میں چندہ دینے والوں کی نیت ان سب کاموں میں رقم صرف کرنے کی نہیں ہوتی ہے۔(۱)(۱) ألا لا تظلموا، ألا لا تظلموا، ألا لاتظلموا، إنہ لایحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (أخرجہ أحمد في مسندہ، حدیث عم أبي حرۃ الرقاشي، دار الکتب العلمیۃ، بیروت: ج ۳۴، ص: ۲۹۹، رقم: ۲۰۶۹۵)قالوا مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ۔ ( ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الوقف: مطلب: مراعاۃ غرض واقفین واجبۃ والعرف یصلح مخصص‘‘: ج ۶، ص: ۶۶۵)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 284

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عید کے روز اپنے پاس موجود عمدہ سے عمدہ لباس پہننا سنت ہے، اگر کوئی شخص بغیر وجہ شرعی گندے یا میلے کچیلے کپڑے پہنے رکھے اور اس کے پاس عمدہ کپڑے موجود ہوں تو سنت کا ترک کرنے والا کہلائے گا۔ اور اگر کپڑے دوسرے ہوں ہی نہیں تو مجبوری ہے۔(۱)(۱) (ولبسہ أحسن ثیابہ)، ولو غیر أبیض، قولہ: (ولو غیر أبیض) قال في البحر: وظاہر کلامہم تقدیم الأحسن من الثیاب في الجمعۃ والعیدین وإن لم یکن أبیض، والدلیل دال علیہ فقد روی البیہقي (أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان یلبس یوم العید بردۃً حمراء) وفي الفتح: الحلۃ الحمراء عبارۃ عن ثوبین من الیمن فیہما خطوط حمر وخضر لا أنہا أحمر بحت فلیکن محمل البردۃ أحدہما۔ اھـ۔ أي أحد الثوبین اللذین ہما الحلۃ أي فلا یعارض ذلک حدیث النہي عن لبس الأحمر، والقول مقدم علی الفعل والحاظر علی المبیح إذا تعارضا فکیف إذا لم یتعارضا بالحمل المذکور۔ اہـ۔ بزیادۃ وسیأتي إن شاء اللّٰہ تعالیٰ تمام الکلام علی لبس الأحمر في کتاب الحظر والإباحۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: یطلق المستحب علی السنۃ وبالعکس‘‘: ج ۳، ص: ۴۸)ویستحب یوم الفطر للرجل الاغتسال، والسواک، ولبس أحسن ثیابہ، کذا في القنیۃ جدیداً کان أو غسیلا، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 283

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس صورت میں دونوں نمازیں پڑھنا ضروری ہے؛ کیوں کہ دونوں مستقل نماز ہیں ایک پر اکتفا جائز نہیں ہے۔(۱)(۱) من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فعلیہ الجمعۃ إلا مریض أو مسافر أو امرأۃ أو صبي أو مملوک۔ (أخرجہ دار قطني في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب من تجب علیہ الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۶۳، رقم: ۱۵۷۶)(ہي فریضۃ) لقولہ تعالیٰ {فاسعوا إلی ذکر اللّٰہ} (سورۃ الجمعۃ: ۹) والأمر بالسعي إلی شيء خالیا عن الصارف لایکون إلا لإیجابہ (شرط صحتہا المصر) فلا تجوز في القری خلافا للشافعي (وہو مالا یسع أکبر مساجدہ أہلہ) یعني من یجب علیہ الجمعۃ لا سکانہ مطلقاً۔ (عليحیدر، درر الحکام، ’’باب صلوٰۃ الجماعۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۶)فخطب عثمان الناس بعد الصلاۃ، ثم قال: إن ہذین العیدین قد اجتمعا في یوم واحد، فمن کان من أہل العوالي فأحب أن یمکث حتی یشہد الجمعۃ فلیفعل، ومن أحب أن ینصرف قد أذنا لہ۔ (أخرجہ عبد الرزاق في مصنفہ، ’’باب اجتماع العیدین‘‘دار الکتب العلمیہ، بیروت: ج ۳، ص: ۳۰۵، رقم: ۵۷۳۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 282