طلاق و تفریق

Ref. No. 2942/45-4611

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

احناف کے یہاں شہوت کے ساتھ چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے خواہ مس بالشہوت جان بوجھ کر ہو یا انجانے اور غلطی سے۔

‘‘ولا فرق فيما ذكر بين اللمس والنظر بشهوة بين عمد ونسيان’’ (در مختار مع رد المحتار مع تحقيق دكتور فرفور: ج 8، ص: 119)

ہاں انفرادی واقعہ میں اگر مس بالشہوت سے ثبوت حرمت میں غیر معمولی دشواری ہو اور ثبوت شہوت خطاً ہو عمداً نہ ہو تو مفتی حالات اور قرائن کا جائزہ لے کر مذہب غیر پر عمل کرتے ہوئے عدم وقوع حرمت کا فتویٰ دے سکتا ہے۔

(١)مس بالشہوت سے ثبوت  حرمت مصاہرت کی صورت میں ضروری ہے جس کو مس کیا ہے شہوت اور میلان ِجماع بھی اسی سے ہو اگر شہوت کسی دوسری عورت سے اور مس کسی اور کو کیا ہے تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

‘‘والعبرۃ للشہوۃ عند المس والنظر لا بعدھما قلت: ویشترط وقوع الشہوۃ علیہا لا علی غیرہا لما في الفیض لو نظر إلي فرج ابنته بلا شهوة فتمنی جارية مثلها فوقعت له الشهوة علي البنت ثبتت الحرمت وإن وقعت علی من تمناها فلا’’ (رد المحتار: ج 8، ص: 112)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2960/45-4693

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کا کھیل طلبہ میں بطور ترغیب درست ہے، تاہم  پارٹی دینے کی  شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اس لئے یہ شرط ہٹادیں اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھیں۔

إن شرط لمال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لانه يصير قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بينهما) بفرس كف ء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز، ثم إذا سبقهما أخذ منهما، وإن سبقاه لم يعطهما، وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه (و) كذا الحكم (في المتفقهة) فإذا شرط لمن معه الصواب صح، وإن شرطاه لكل على صاحبه لا۔ (الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 723)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 2958/45-4694

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ مسافت سفر پر نوکری کررہے ہیں، اس لئے جب پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو قصر کریں اورجب پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو  اتمام یعنی پوری چار رکعتیں پڑھیں۔ اور اگر  مقام ملازمت میں کتنے دن قیام کرنا ہے متعین نہ ہو  تو قصر کرتے رہیں یہاں  تک کہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہوجائے۔  اگر ایک ہفتہ ٹھہرنے کی نیت تھی پھر ایک ہفتہ کے بعد دس دن مزید ٹھہرنے کی ضرورت پڑگئی تو ان تمام دنوں میں قصر کرتارہے گا کیونکہ اس نے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ایک ساتھ نہیں کی ۔

و لايزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية۔"

(الھندیۃ، كتاب الصلوة،الباب الخامس عشر:1/ 139،ط:دارالفكر)

من خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامہ نصف شھر بموضع صالح لھا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو …بموضعین مستقلین (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹- ۶۰۶) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 2940/45-4620

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کی زندگی اور موت سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی  کے قبضہ میں ہے، کسی عورت کے بچے اگر فوت ہوگئے تو بھی اللہ ہی کے حکم سے فوت ہوئے، اس عورت کا اس میں کوئی دخل نہیں، جولوگ اس عورت کو منحوس سمجھتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں یا دوسری عورتوں کو اس سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں ، وہ بڑی غلطی پر ہیں، ان پر لازم ہے کہ اپنے عقیدہ کی اصلاح کریں، اور دیگر عورتوں کی طرح اس عورت سے بھی اظہار ہمدردی کریں اور میل جول رکھیں۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2939/45-4619

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مصنوعی ہاتھ  کو  ہر بار اتار کر  اصل  ہاتھ اور پاؤں کا  جتنا حصہ وضو میں دھونا فرض ہے اس کو دھونا ضروری ہوگا، صرف مسح کرنے سے وضو درست نہیں ہوگا۔اس لئے امام صاحب جس طرح فجر میں مصنوعی ہاتھ کو اتار کر بقیہ ہاتھ دھوتے ہیں، اسی طرح باقی نمازوں میں بھی ان کو اتار کر ہی وضو کریں۔ اگر وضو نہیں ہوا تو نماز بھی نہیں ہوگی۔ ان کو صحیح مسئلہ سمجھادیاجائے۔  

ولو قطعت يده أو رجله فلم يبق من المرفق والكعب شيء سقط الغسل ولو بقي وجب، كذا في البحر الرائق. وكذا غسل موضع القطع، هكذا في المحيط.وفي اليتيمة: سئل الخجندي عن رجل زمن رجله بحيث لو قطع لايعرف هل يجب عليه غسل الرجلين في الوضوء؟ قال: نعم. كذا في التتارخانية". (الھندیۃ، الفصل الاول فی فرائض الوضوء، کتاب الطہارۃ ، جلد 1 ص:5 ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 2938/45-4618

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موبائل میں قرآن مجید کا پی ڈی ایف یا ایپ رکھنا اور اس کو کھول کر تلاوت کرنا جائز ہے اور اس پر ثواب بھی ملتاہے، قرآن کریم کو بلاچھوئے زبانی  پڑھنا بھی جائز ہے تو موبائل میں دیکھ کرپڑھنا بھی جائز ہے، البتہ جب قرآن کریم اسکرین پر کھلاہوا ہو تو اسکرین کو بلا وضو کےہاتھ لگانا جائز نہیں ہے، علاوہ ازیں بہتر ہے کہ قرآن مجید کو براہ راست ہاتھ میں لے کر پڑھاجائے۔ 

"ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب". (خلاصة الفتاویٰ، ج:۱ ؍ ۱۰۴ )"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لايحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لايكره مسه كما في حيض، القهستاني وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل.... (قوله: غير مشرز) أي غير مخيط به، وهو تفسير للمتجافي قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤه مشدود بعضها إلى بعض من الشيرازة وليست بعربية اهـ فالمراد بالغلاف ما كان منفصلاً كالخريطة وهي الكيس ونحوها؛ لأن المتصل بالمصحف منه حتى يدخل في بيعه بلا ذكر. وقيل: المراد به الجلد المشرز، وصححه في المحيط والكافي، وصحح الأول في الهداية وكثير من الكتب، وزاد في السراج: أن عليه الفتوى. وفي البحر: أنه أقرب إلى التعظيم. قال والخلاف فيه جار في الكم أيضاً. ففي المحيط: لايكره عند الجمهور، واختاره في الكافي معللاً بأن المس اسم للمباشرة باليد بلا حائل. وفي الهداية: أنه يكره هو الصحيح؛ لأنه تابع له، وعزاه في الخلاصة إلى عامة المشايخ، فهو معارض لما في المحيط فكان هو أولى. اهـ. أقول: بل هو ظاهر الرواية كما في الخانية، والتقييد بالكم اتفاقي فإنه لايجوز مسه ببعض ثياب البدن غير الكم كما في الفتح عن الفتاوى. وفيه قال لي بعض الإخوان: أيجوز بالمنديل الموضوع على العنق؟ قلت: لاأعلم فيه نقلاً. والذي يظهر أنه إذا تحرك طرفه بحركته لايجوز وإلا جاز، لاعتبارهم إياه تبعاً له كبدنه في الأول دون الثاني فيما لو صلى وعليه عمامة بطرفها الملقى نجاسة مانعة، وأقره في النهر والبحرقوله: أو بصرة) راجع للدرهم، والمراد بالصرة ما كانت من غير ثيابه التابعة له. (قوله: وحل قلبه بعود) أي تقليب أوراق المصحف بعود ونحوه لعدم صدق المس عليه (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 173)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2937/45-4617

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وضو کے بعد اعضاء پر موجود وضو کا پانی پاک ہے، اس کا بدن پر لگنا ، کپڑے پر لگنا یا مسجد میں گرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔  اس کو ناپاک سمجھنا یا ناپاک پانی جیسا سلوک کرنا غلط ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2944/45-4616

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری قوانین شہریوں کی بھلائی کے لئے ہی ہوتے ہیں، ڈرائیونگ لائسنس کا جو اہل ہو اسی کے لئے اس کو جاری کرنا چاہئے، جو لوگ قانونی طریقہ  کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان سے   عوام کو کافی نقصان پہونچ رہاہے اور روڈ اکسیڈنٹ میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ اس لئے کسی کو رشوت دے کر بلاامتحان پاس کرادینا جائز نہیں ہے۔ سرکاری فیس کے علاوہ اپنی فیس کی ایک متعین مقدار لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2936/45-4615

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جو مکانات ابھی تک وجود میں نہیں آئے، ان کی بیع کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں کو مکانات بناکر دیدیئے گئے اور وہ ان کے مالک ہوگئے وہ لوگ اپنی ملکیت میں تصرف کرتے ہوئے اگر اپنے مکان  فروخت کرتے ہیں تو ان کا ایسا کرنا جائز ہے، لیکن جن کے مکانات نہیں بنے ان کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ فی الحال صبر کریں اور انتظار کریں جب مکانات اپنے قبضہ و تصرف میں آجائیں تب  ان کی خریدوفروخت جائز ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2920/45-4614

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صور مذکورہ میں  بھتیجیاں اور بھانجے اور بھانجیاں سب ذوی الارحام ہیں اور ایک ہی درجہ کے ہیں ، اور ذوی الارحام کے لئے عصبہ اور اصحاب فرائض میں سے کوئی نہیں ہے، اس لئے صورت مذکورہ میں فاطمہ جان کی جائداد کو بارہ حصوں میں تقسیم کرکے ایک ایک حصہ سب کو دیدیاجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند