Frequently Asked Questions
Business & employment
Ref. No. 3461/47-9376
In the name of Allah, the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Insurance involves interest (usury) and gambling, therefore working directly in an insurance company is not permissible. However, your work involves developing software, and you put your effort into creating this software and then hand it over to your company, which in turn sells it to hospitals. Since you are not directly employed by an insurance company, your salary is halal (permissible).
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Fiqh
Ref. No. 3460/47-9378
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر آپ چند مردوں کے ساتھ باپردہ عورتوں میں بیان کریں تو اس میں فتنہ کا بھی اندیشہ نہیں ہے، اس لئے آپ کا عورتوں میں تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ بیان کرنا درست ہے، محض اس وجہ سے کہ آپ کی شادی نہیں ہوئی ہے آپ کا بیان کرنا ناجائز نہیں ہوگا۔ آپ اپنا کام جاری رکھیں تاہم احتیاط میں کوئی کمی واقع نہ ہو اور جب بھی محسوس ہو کہ بے احتیاطی ہورہی ہے اور جو فائدہ مطلوب تھا وہ نقصان کا باعث ہورہاہے اور بار بار کہنے کے بعد بھی عورتیں پردہ کا خیال نہیں کررہی ہیں تو آپ اس سلسلہ کو بند کردیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3459/47-9377
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ آدمی اپنی حیات میں اپنے جائداد کا مالک اور خودمختار ہوتاہے، اور اس میں اپنی مرضی کے مطابق جیسا چاہے تصرف کرسکتاہے، شریعت نے ہر شخص کو اپنے مال میں آزادانہ تصرف کا اختیار دیاہے، تاہم اس بات کا خیال رہے کہ کسی شرعی وارث کو محروم کردینے کی نیت سے کسی دوسرے کو زیادہ دینا از روئے حدیث ممنوع ہے۔ (۱) آ پ کے لئے بہترہے کہ تمام اولاد کے درمیان برابر تقسیم کریں تاہم اگر کوئی لڑکا زیادہ کمزور ہے یا کسی کی خدمت سے خوش ہوکر یا اس کا خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ دیدیں اور نیت کسی دوسرے وارث کو نقصان پہنچانے کی نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (۲) زندگی میں والد کا اپنامال تقسیم کرنا ہبہ کہلاتاہے اس لئے حدیث میں اولاد کو ہبہ کرنے میں برابری کا حکم ہے ، تاہم اگر کوئی شخص اس نیت سے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرے کہ اس کی بچیوں کو جائیداد میں سے حصہ مل جائےاور موت کے بعد بیٹیوں کا وراثت سے محروم رہنے کا خطرہ ختم ہوجائے اورشرعی میراث کے اعتبار سے لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا دیتے ہوئے تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو شرعا اس کی بھی اجازت ہے البتہ لڑکیوں کو اعتماد میں لے کر ایسا کرنا بہتر ہوگا۔
'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔ (مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل". (رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 3458/47-9370
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی ﷺ کو خواب میں دیکھنے کی سچی تمنا ایک عظیم سعادت اور نیک خواہش ہے۔ لیکن یہ عظیم نعمت عام طور پر ان لوگوں کو عطا ہوتی ہے جو ظاہری و باطنی طور پر سچے عاشقِ رسول ﷺ ہوتے ہیں۔ نیچے چند اعمال دیے جا رہے ہیں جو اس مقصد میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔؛۔ (۱) کثرت سے درود شریف پڑھنا (۲) سنتِ نبوی ﷺ کی پیروی (۳) سونے سے پہلے نبی کریم ﷺ کا ذکر و سیرت پڑھنا(۴) حلال کمائی اور طہارت کا اہتمام (۵) نماز کی پابندی(۶) خلوص نیت اور گریہ و زاری سے دعا۔ (۷) پابندی سے مسواک کرنا وغیرہ۔ اسی طرح سونے سے پہلے وضو کر کے بستر پر جائیں، درود شریف پڑھتے پڑھتے سوئیں۔ دل کی صفائی، عشقِ رسول ﷺ، اور خلوص کی شرط کے ساتھ بعض اوقات یہ زیارت جلدی نصیب ہوتی ہے، بعض اوقات وقت لگتا ہے۔عمل کرتے ہوئے صبر، استقامت، اور امید رکھیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Family Matters
Ref. No. 3457/47-9369
In the name of Allah, the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
You should not have done this; however, since you used the ₹5000 to purchase clothes and later gave them to him as a gift, this may be regarded as a valid form of fulfilling the trust. Therefore, you are not required to repay the amount again. Nonetheless, it is essential that you sincerely repent and seek Allah’s forgiveness for the wrongdoing.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 3456/47-9368
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جس فلیٹ میں والد کی رہائش تھی اس کو والد نے اپنی زندگی میں اپنی اہلیہ کےنام کیا ، خالی مکان ان کے حوالہ نہیں کیا تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا۔ ہبہ کے تام ہونے کے لئے خالی کرکےقبضہ میں دینا ضروری ہے۔ ہبہ تام نہ ہونے کی وجہ سے وہ فلیٹ والد کی ہی ملک شمار ہوگا اور اس میں مرحوم کی اہلیہ کے ساتھ تمام اولاد بھی وراثت میں شریک ہوگی۔ اور کسی وارث کے لئے وصیت بھی غیرمعتبر ہے، اس لئے وہ فلیٹ تمام ورثہ کا ہے۔
"قال: و لايجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة وهبة المشاع فيما لايقسم جائزة (و لايجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة) ش: أي مفرغة عن إملاك الواهب." (بنايه، الهبة فیما یقسم، ج۔۱۰،ص۔۱۶۸،ط۔دارالکتب العلمیة)
"و تتم الهبة بالقبض الکامل." (فتاوی شامی، ردّ المحتار علی الدر المختار، کتاب الهبة، ج: ۵، ص:۶۹۰،ط۔ سعید) "
ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة۔ (الفتاوى الهندية (90/6):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3455/47-9373
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ شرک کی ایک قسم :شرک فی الذات ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کی ذات میں کسی کو شریک کرنا یعنی دو یا زیادہ خدا ماننا اور کائنات کا متصرف اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی ماننا ۔ شرک کی دوسری قسم ہے : شرک فی الصفات - اللہ تعالی کی صفات میں کسی کو شریک ٹھرانا۔ اس کی بہت سی قسمیں ہیں ، جیسے : شرک فی العلم یعنی کسی دوسرے کے لئے اللہ تعالی کی مانند علم کی صفت ثابت کرنا۔ شرک فی العبادة ۔ یعنی اللّٰہ تعالٰی کی طرح کسی اور کو عبادت کا مستحق سمجھنا یا کسی مخلوق کے لئے عبادت کی قسم کا کوئی فعل کرنا مثلاً کسی پیر یا قبر کو سجدہ کرنا یا کسی پیر یا نبی یا ولی کے نام کا روزہ رکھنا یا غیراللہ کی نذر ماننا یا کسی جگہ مکان گھر یا قبر کا خانہ کعبہ کی طرح طواف کرنا. شرک فی القدرة یعنی اللہ تعالی کی مانند نفع و نقصان دینے یا کسی چیزکی موت و زندگی یا کسی اور کام کی قدرت کسی اور کے لئے ثابت کرنا۔ اور اسی طرح شرک فی الصفات کی ایک قسم شرک فی القدرة ہے یعنی اللہ تعالی کی مانند نفع و نقصان دینے یا کسی چیزکی موت و زندگی یا کسی اور کام کی قدرت اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے لئے ثابت کرنا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3454/47-9374
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جو کچھ جوئے میں رقم آئی اس میں سے اپنی جمع کردوہ رقم حلال ہے اور باقی اضافی رقم حرام ہے، اور حرام ذریعہ سے کمائی ہوئی رقم کا صدقہ کردینا واجب ہے، اس کو کسی بھی طرح اپنے استعمال میں لانایا رفاہ عام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے اس رقم کو بلا نیت ثواب غریبوں میں بانٹ دیاجائےگا۔
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبہ (شامی، ،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ". 5/99ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 3452/47-9372
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں کمیٹی کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے اس میں سود اور جوے کی شکل ہے، کہ جس ممبر نے صرف چند قسطیں جمع کی ہیں اس کا نام قرعہ اندازی میں نکل آنے سے باقی قسطیں معاف ہوجاتی ہیں اور اس کو اپنے ایک دو ہزار جمع کرنے کے بدلہ میں تیس ہزار روپئے مل جاتے ہیں۔ یہ غرر اور دھوکہ کے زمرے میں ہے اور یہ حرام ہے۔ اگر ہر ممبر ایک ہزار تیس ماہ تک دیتارہے قرعہ اندازی میں نام نکلنے کے بعد بھی دیتارہے تبھی یہ کمیٹی جائز ہوگی کہ جس میں ہر آدمی بعجلت یا بدیر پوری رقم جمع کرتاہے اور اپنی پوری رقم واپس لیتاہے۔ کم رقم جمع کرکے زائد رقم لینا تو کھلاہوا سود ہے جس سے بچنا لازم ہے۔ نیز کمپنی کیا کام کرتی ہے یہ بھی واضح نہیں ہے۔
"(قوله: کل قرض جر نفعاً فهو حرام) أی اذا کان مشروطاً." (ج:۵،ص:۱۶۶،ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3451/47-9371
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ شریعت میں بالغہ لڑکی کے خود نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتاہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکی اپنے والدین اور گھروالوں سے الگ ہوکر اپنا نکاح کرے، ایسا نکاح شرعا پسندیدہ نہیں۔ ۱۴ سال کی عمر بہت چھوٹی عمر ہے، ابھی کسی چیز کا تجربہ نہیں ہے، دنیا کے احوال سے کوئی واقفیت نہیں ہے، لڑکے کے انتخاب میں غلطی کا بہت زیادہ امکان ہے، ظاہر ہے کہ شادی صرف وقتی طور پر اپنی خواہش پوری کرنے کا نام نہیں ہے، یہ ایک طویل مدتی سفر ہے، اور زندگی بھر کے لئے ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اگر ایسے میں کوئی غلط قدم اٹھالیا تو زندگی بھر کی جو اذیت ہے وہ بہت دشوار کن ہے۔ ابھی اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنے کے لئے خود کو پڑھائی لکھائی، کڑھائی، بُنائی سلائی وغیر امور میں مصروف رکھنا بہتر ہوگا تاکہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ غلط نہ ہوجائے۔ آپ اپنی والدہ سے بات کریں، دیگر رشتہ دار خواتین کو بھی شامل کریں تاکہ وہ والدین کو آمادہ کرسکیں۔ والدین اگر تیار ہوں تبھی آپ نکاح کے لئے راضی ہوں ، والدین کے خلاف جاکر کود سے نکاح کرنا آپ کے لئے بالکل مناسب نہیں ہے۔ آپ ایک اچھی اور دیندار لڑکی ہیں ، آپ نے شرعی رہنمائی کے لئے دارالافتا سے رابطہ کیا۔ اللہ آپ کے لئے آسانیاں پیداکرے، آپ کی عصمت عفت کی حفاظت فرمائے، والدین کے زیرسایہ رہ کر اپنے مستقبل کو طے کرنے کی توفیق بخشے۔ اگر شہوت کا غلبہ ہو تو نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند