طلاق و تفریق

Ref. No. 3253/46-8040

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلے، دوسرے  جملہ کا معنی یہ ہے کہ میں تجھکو طلاق دیدیوں گا، تیسرے جملہ (طلاق دےئی تھے نا)  کا مطلب ہے کہ  میں نے تجھکو  طلاق دی، پھر اپنے گھر جا اس کے بعد شوہر نے کہا کہ میں تجھکو طلاق دے رہاہوں۔ اگر اس طرح مفہوم ہے تو صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوئیں۔ اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی ہے تو ان دو طلاقوں کے بعد شوہر کو اختیار ہے کہ چاہے تو عدت میں رجعت کرلے اور  بیوی سے یا دوگواہوں کے سامنے کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لیا۔ تو بیوی نکاح میں باقی رہ جائے گی۔ اور اگر عدت (تین ماہواری)گزرچکی ہے  تو اب دوبارہ دونوں نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ خیال رہے  کہ اب شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر ایک طلاق بھی آئندہ دے دی تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ اور اگر مذکورہ بالا الفاظ کا کوئی اور مطلب ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کریں۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔الخ (القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 229) واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔ (الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2) فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا۔ (بدائع الصنائع: (180/3) اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ ان یتزوجھا فی العدۃوبعد انقضاءالعدۃ۔ (الفتاوی الھندیۃ: (473/1)

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب". ) رد المحتار) (3/ 409(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3253/46-8040

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلے، دوسرے  جملہ کا معنی یہ ہے کہ میں تجھکو طلاق دیدیوں گا، تیسرے جملہ (طلاق دےئی تھے نا)  کا مطلب ہے کہ  میں نے تجھکو  طلاق دی، پھر اپنے گھر جا اس کے بعد شوہر نے کہا کہ میں تجھکو طلاق دے رہاہوں۔ اگر اس طرح مفہوم ہے تو صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوئیں۔ اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی ہے تو ان دو طلاقوں کے بعد شوہر کو اختیار ہے کہ چاہے تو عدت میں رجعت کرلے اور  بیوی سے یا دوگواہوں کے سامنے کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لیا۔ تو بیوی نکاح میں باقی رہ جائے گی۔ اور اگر عدت (تین ماہواری)گزرچکی ہے  تو اب دوبارہ دونوں نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ خیال رہے  کہ اب شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر ایک طلاق بھی آئندہ دے دی تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ اور اگر مذکورہ بالا الفاظ کا کوئی اور مطلب ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کریں۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔الخ (القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 229) واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔ (الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2) فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا۔ (بدائع الصنائع: (180/3) اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ ان یتزوجھا فی العدۃوبعد انقضاءالعدۃ۔ (الفتاوی الھندیۃ: (473/1)

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب". ) رد المحتار) (3/ 409(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3252/46-8038

Answer

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Masha Allah! This is wonderful news. "Minha" (منحہ) is an Arabic word that means "gift" or "blessing," referring to something given as a favor or bestowed as a divine gift. It is a meaningful and beautiful name.

In addition, you may also consider the following names:

Ni'mah (نعمت): Blessing or divine favor.

Hibah (ہبہ): Gift or donation, symbolizing something given out of kindness.

Atiyah (عطیہ): Grant or bestowal, signifying a precious gift or blessing.

Fareeha (فریحہ): Joy and happiness, bringing a sense of delight and contentment.

Moreover, choosing names inspired by the companions of the Prophet (PBUH) and the female companions is a beautiful idea. Insha Allah, the blessings of these names will reflect in your children’s lives, bringing them prosperity and goodness.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Family Matters

Ref. No. 3251/46-8039

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بھائی کو جس بنیاد پر شبہہ ہو آپ ایسا کام ہی نہ کریں کہ الزام لگانے کی نوبت آئے، تاہم اگر آپ الگ مکان میں اپنے کرایہ پر رہنا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ زنا کا الزام لگانا بڑا گناہ ہے، اور بڑے بھائی کا رویہ شرعا بہت غلط ہے، بڑے بھائی کو بے بنیاد الزام لگانے سے گریز کرنا لازم ہے، اور آپ سے معافی مانگنا بھی اس پر لازم ہے۔ اگر کوئی شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کو ثابت نہ کرسکے تو  اسلامی حکومت میں اس کے لئے حد جاری کی جاتی ہے یعنی زنا کرنا بھی بڑا گناہ ہے اور کسی پر زنا کاالزام لگانا بھی اسی طرح بہت بڑا گناہ ہے۔

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(4)اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْاۚ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(سورۃ النور، 5)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3250/46-8042

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایام بیض کے روزے رکھنا اور پیر و جمعرات کے روزے رکھنا سنت سے ثابت ہے۔ صوم داؤدی بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ نفلی روزے ہر آدمی کی قدرت و استطاعت کے اعتبار سے افضل ہوں گے، ورنہ عام حالات میں ایام بیض کے روزے افضل ہوں گے، تاہم صوم داؤدی سے زیادہ روزہ رکھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ والدین اگر نفلی روزے سے منع کرتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر ان کو آپ سے جسمانی خدمت کی ضرورت ہے اور آپ کے روزہ رکھنے سے یہ خدمت متاثر ہو تو آپ روزہ نہ رکھیں، آپ کو ان شاء اللہ ثواب ملے گا، اور اگر کوئی وجہ نہ ہو تو والدین کے سامنے نفلی عبادات کے اجر وثواب کی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں، علماء کے بیانات سنوائیں تاکہ بخوشی آپ کو اجازت دیدیں۔

میں ہے:

"2449- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَخِي مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ مِلْحَانَ الْقَيْسِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَصُومَ الْبِيضَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ،  قَالَ:  وَقَالَ: «هُنَّ كَهَيْئَةِ الدَّهْرِ»." (سنن ابی داؤد،  بَابٌ فِي صَوْمِ الثَّلَاثِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، 2 / 328، ط: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت)

"حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ ، عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى فِي طَلَبِ مَالٍ لَهُ، فَكَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ : لِمَ تَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ كَبِيرٌ ؟ فَقَالَ : إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ : " إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ". (سنن ابی داؤد ، سنن أبي داود ،  كِتَاب  الصَّوْمُ ، بَابٌ  فِي صَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ ،  رقم الحديث : ٢٤٣٦)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref.  No.  3248/46-8041

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ طریقہ پر دعاکرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے، بشرطیکہ الفاظ ولہجہ سے شکوہ کا اظہار نہ ہو، اور اگر ماضی کے حوالہ کے بغیر دعا کی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اپنے تمام گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلینا کافی ہوگا، گناہوں کا نام لینا ضروری نہیں ہے۔

’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]

ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا." (الموسوعة الفقهية الكويتيه، ص:120، ج:14، ط:دار السلاسل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 3245/46-8034

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئو لہ میں امام نے قرات مکمل نہیں کی، اور 'حرم' کے بعد دونوں نمازوں میں مفعول کا تذکرہ نہیں کیا یعنی یہ کہا کہ اللہ نے حرام کیا ہے مگر کیا حرام کیا ہے اس کی تصریح نہیں ہے؛ تو ایسی صورت میں معنی میں کوئی خرابی پیدانہیں ہوئی  جس سے نماز فاسد ہو، اس لئے دونوں نمازیں درست ہوگئیں۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Ijmaa & Qiyas

Ref. No. 3241/46-8027

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ این ایف ٹی کے بارے میں  پڑھنے سے معلوم ہوا کہ  اس میں جاندار یا غیرجاندار تصویر کی خریدوفروخت ملٹی لیول مارکیٹنگ کےطور پرکرپٹو کرنسی کے  ذریعہ  ہوتی ہے۔ شرعی اعتبار سے ملٹی لیول مارکیٹنگ کا  معاملہ ناجائز ہے، اور کرپٹو کرنسی کو ابھی تک حکومت کی ذمہ  داری ، منظوری اور کرنسی کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی  ہے۔ اس لئے اگر صرف غیرجاندار کی تصویر کی خریدوفروخت ہو اور معاملہ مروجہ پیسوں میں اور حکومت کی منظورشدہ کرنسی میں قیمت طے کی جائے  تو اس حد تک اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن اگر تصویر جاندار کی ہو یاغیرجاندار کی تصویر ہو جس کی قیمت میں کئی لوگ شریک ہوں  اور اس میں شاخ در شاخ لوگ جڑتے ہوں ، اور اس کو کسی ملک کی خاص کرنسی میں نہ بیچاجاتاہو تو ایسامعاملہ ناجائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3240/46-8007

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ کو خواب میں بیمار یا غمزدہ دیکھنا اس بات کا اشارہ دیتاہے کہ ان کو ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہے۔ اس لئے آپ ان کے لئے ایصالِ ثواب اورصدقۂ جاریہ کا اہتمام کریں۔ نیز  یہ بھی معلوم کریں کہ ان کے ذمہ کچھ (نماز و روزہ وغیرہ) واجب الاداء تو نہیں ہیں اگر ہوں تو ان کی ادائیگی کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کا ان کو پورا فائدہ پہونچے گا اور ان کو قبرکی راحتیں میسر ہوں گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3239/46-8009

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈھول باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال شریعت میں ناجائز ہے اور حمدونعت رسول ﷺ کے ساتھ موسیقی کے استعمال  اور بھی برا ہے۔آج کےمروجہ قوالی میں بہت زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں،  اس لئے ایسی قوالی جس میں آلات موسیقی کا استعمال بہت نمایاں طور پر کیاگیا ہو، گرچہ قوالی کےمضامین کتنے ہی عمدہ ہوں ،  اس کا سننا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر قوالی کے مضامین اچھے اور شریعت کے مطابق ہیں ، عشقیہ اشعار پر مشتمل نہیں ہیں تو ان کو بغیر موسیقی کے سننا جائز ہے۔

"قال الشارح: زاد في الجوهرة: وما يفعله متصوفة زماننا حرام لا يجوز القصد والجلوس إليه ومن قبلهم لم يفعل كذلك، وما نقل أنه - عليه الصلاة والسلام - سمع الشعر لم يدل على إباحة الغناء. ويجوز حمله على الشعر المباح المشتمل على الحكمة والوعظ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/349)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند