Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah

Ref. No. 3376/46-9258

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  کرایہ پر دی ہوئی چیز جب تک کرایہ پر ہوتی ہے وہ حاجت اصلیہ سے زائد شمار ہوتی ہے۔ لہذا آپ کا کرایہ پر دیا ہوا ذاتی مکان جب تک کرایہ پر ہے زائد ازضرورت شمار ہوگا اور اس کی قیمت کو نصاب میں شامل کیاجائے گا اور ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی۔

فتاوی رحیمیہ میں ہے :"(سوال ۲۰)جس کے پاس ایک ہی مکان ہو،  لیکن اس میں خود نہیں رہتا ہے کرایہ پر دے رکھاہے اور وہ خود کرایہ کے گھر میں رہتا ہے تو قربانی کے متعلق مال داری  میں اس گھر کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا؟

(الجواب)اپنا گھر چاہے کرایہ پر دیا ہو یا مفت یا خالی پڑا ہو اورخود د وسرے مکان میں کرایہ پر رہتا ہے یا مفت ہر ایک صورت میں قربانی اور فطرہ کے متعلق مال داری میں اس مکان کی قیمت کااعتبار ہوگا؛ کیوں کہ یہ مکان فی الحال حاجت اصلیہ سے زائد ہے ۔" (فتاوی رحیمیہ 10/31دارالاشاعت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3378/46-9259

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔    چونکہ اس بنجر زمین کو نہ کرایہ پر دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں کاشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کو فروخت کرسکتے ہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہ ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Zakat / Charity / Aid

Ref. No. 3377/46-9261

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔   صرف سونا ہو تو سونے کا نصاب معتبر ہے اور سونا چاندی اور اموال تجارت جمع ہونے کی صورت میں چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا گیا ہے اور اس کی وجہ انفع للفقرائ ہونا ہے۔ یعنی زکاۃ کے وجوب میں فقراء کی حاجت کو بنیادی اہمیت  دی گئی ہے، چنانچہ جس میں فقراء کا فائدہ ہو فقہاء کرام نے اس کو اختیار کیا ہے، چونکہ موجودہ دور میں چاندی کا نصاب کم ہے، لہٰذاچاندی کا اعتبار کرکے  زکاۃ واجب ہونے کی صورت میں فقراء کا فائدہ  زیادہ ہوگا۔ نیز سونا چاندی رقم اور اموال تجارت ثمنیت میں برابر ہیں۔ لہذا ان سب میں چالیسواں حصہ زکوۃ میں نکالنا ضروری ہوتاہے۔  رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کا طریقہ  سونے کو چاندی کے ساتھ ملا کر اور چاندی کو سونے کے ساتھ ملاکر زکاۃ نکالنے  کا تھا‘‘۔

یعنی اگر سونا یا چاندی میں سے کوئی ایک نصاب کو نہ پہنچے، لیکن دونوں کو ملاکر کسی ایک کے نصاب کو پہنچ جائے تو صحابہ کرام اس کی زکاۃ ادا کیا کرتے تھے۔اس لئے آج کل چاندی کو معیار بنایاجائے گا اور چاندی کے حساب سے اگر کوئی صاحب نصاب  ہے تو اس پر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہوگی۔

""فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال. وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر".(بدائع الصنائع " (2/ 19):)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3375/46-9262

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  شرعی طور پر دونوں بیویوں کو برابر حقوق دینا شوہر پر لازم ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے طلاق لے کر دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضا سے رجوع کریں؛ دارالقضا میں اختلافی مسائل کو اچھی طرح حل کیاجاتاہے اور دونوں  فریق کی بات سن کر فیصلہ کیاجاتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 3368/46-9234

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: زید کی اجازت اور زید کے ایجاب یا قبول سے اگر نکاح ہوگا تو فوری طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لئے زید کی اجازت کے بغیر ہی کوئی اس کا نکاح کراسکتاہے۔ مثلا راشد نے زید سے کوئی اجازت نہیں لی اور دوگواہوں کی موجودگی میں ہندہ سے کہا کہ میں نےزید کا نکاح تم سے کردیا ہندہ نے کہا کہ میں نے قبول کیا۔ تو یہ نکاح منعقد ہوگیا۔ اب راشد زید کو اطلاع کرے کہ میں نے تیرا نکاح ہندہ سے کردیا تو زید اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر راشد کو کہے کہ مہر کے یہ پیسے ہندہ کو پہنچادو، تو اس طرح نکاح پر رضامندی ہوجائے گی ، اور پھر زید ہندہ سے جاکر تنہائی میں مل سکتاہے۔ اگر بغیر مہر اداکئے بھی ہندہ سے ملاقات کرلیتاہے تو بھی رضامندی پائی گئی نکاح درست ہوگیا۔ لیکن ان تمام صورتوں میں زبان سے نکاح کرنے یا نکاح  کو قبول کرنے کی بات نہ کہے۔

"أن ‌نكاح ‌الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل." (شامی، کتاب طلاق،ج:3،ص:242،ط:دارالفکربیروت)

وفيه أيضاً: "(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك." (کتاب النکاح،ج:3،ص:9،ط:دارالفکربیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3374/46-9263

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  مرحوم والدین کے لئے ایصالِ ثواب و دعائے مغفرت کی ضرورت ہے ۔ اور مرحوم بھائیوں نے اگر کچھ نصیحتیں یا وصیتیں کی ہوں تو ان پر عمل درآمد کرکے ان کی ارواح کو تسکین بخشیں، بالخصوص وراثت سے متعلق حقوق   کی ادائیگی اور معاملات کی درستگی پر  توجہ دیں۔ان کی اولاد  اگرہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کئےجانے کی طرف بھی  اشارہ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 3373/46-9246

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ قبروں میں کچی اینٹ اور بانس وغیرہ کا استعمال کرنا چاہئے،  پکی اینٹ یا سیمنٹ کے بلاک استعما ل کرنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئے، تاہم اگر قبر کی مٹی بہت نرم ہے اور قبر کی دیواریں گرنے کا اندیشہ ہے تو ایسی ضرورت میں پکی اینٹ اور سیمنٹ کے بلاک استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ پکی اینٹ یا سیمنٹیڈ بلاک  کی دیواروں کو اگرمٹی سے لیپ دیاجائے تو بہتر ہے۔

ویسوي اللبن علیہ والقصب لا الآجر المطبوخ (الدر) وفي الرد: ونصّوا علی استحباب القصب فیہا کاللبن (رد المحتار: ۳/ ۴۱۲، زکریا)

ويكره الآجر ودفوف الخشب، لما روي عن إبراهيم النخعي أنه قال: كانوا يستحبون اللبن والقصب على القبور، وكانوا يكرهون الآجر" انتهى. ( 1 / 318(بدائع الصنائع" للكاساني1/318)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref.  No.  3372/46-9243

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  قرآن کریم میں  اس ذبیحہ کے کھانے سے منع کیاگیا ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، علما احناف نے اس کو عمدا  ترک تسمیہ پر محمول کیا ہے،  اگر عمدا ترک تسمیہ پر بھی جانور حلال گردانا گیا تو قرآن کا حکم (ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ ) مرتفع ہوجائے گا، اس لئے سہوا اگر تسمیہ چھوٹ جائے تو حرج نہیں ہے  ذبیحہ حلال ہوگا مگر عمدا ترک تسمیہ کی صورت میں ذبیحہ حرام و مردار ہوگا، اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ ترک تسمیہ کے سلسلہ میں  ذابح صحیح مسئلہ سے واقف تھا یا نہیں۔ لیکن اگر ذابح نے تسمیہ کے علاوہ ذبح کے وقت کوئی اور ذکر کیا تھا مثلا اللہ اکبر ، سبحان اللہ ، الحمدللہ وغیرہ تو وہ بھی ذاکر کے حکم میں ہوگا اور اس کے ذبیحہ کا کھانا حلال ہوگا۔

لا تحل ذبیحة ……تارک تسمیة عمداً……فإن ترکھا ناسیاً حل ………والشرط فی التسمیة ھو الذکر الخالص عن شوب الدعاء وغیرہ……والمستحب أن یقول: بسم اللہ أللہ أکبر الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الذبائح، ۹: ۴۳۱-۴۳۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویجري ذلک المذکور في کل ما یتعلق بنطق کتسمیة علی ذبیحة الخ (المصدر السابق، ۲: ۲۵۳)، قولہ: ”ویجري ذلک المذکور“:یعنی: کون أدنی ما یتحقق بہ الکلام إسماع نفسہ أو من بقربہ (رد المحتار)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3371/46-9244

In the name of Allah, the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Your issue (seeking khula) does not fall under the jurisdiction of the Darul Ifta. You maybe Islamically entitled to seek khula, but if the husband is not willing to grant it, then you should approach the Darul Qaza (Islamic judicial panel). The Darul Qaza has proper procedures and solutions for such matters.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

عائلی مسائل

Ref. No. 3369/46-9245

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: سرکار نے اپنےقانون کے اعتبار سے نوکری کے لئے جس کو منتخب کیا ہے،  وہی  اس نوکری کا مستحق ہے۔ یہ سرکار کی طرف سے ایک انعام ہے، لہذا سرکار جس کو انعام دے گی وہی اس کا مستحق ہوگا، اور اس میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اس کو باپ کی وراثت کے طور پر نہیں لیا جائے گا۔ اس لئے  باپ کے انتقال کے بعد ملنے والی سرکاری نوکری  میں دیگر بھائی اور بہنوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوگا۔  تاہم اگر بھائی بہنوں میں سے کوئی کمزور ہو تو اس کی مدد کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے اور شریعت میں باعث اجروثواب ہے۔ وآت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل الآیۃ (سورۃ الاسراء ۲۶)

  تاہم خیال رہے کہ والدین کی وراثت میں اس نوکری کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوگی، بلکہ بڑے بھائی کو بھی وراثت میں پورا حصہ ملے گا۔ مذکور ملازمت ملنے کی وجہ سے سائل اپنے شرعی حصہ سے محروم نہ ہوگا۔

لان ارث انما یجری فی المتروک من ملک او حق للمورث علی ما قال علیہ السلام : من ترک مالا او حقاً فھو لورثتہ۔ (البدائع الصنائع 5/57)۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند