Frequently Asked Questions
بدعات و منکرات
Ref. No. 3303/46-9058
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس طرح نیکی کی ترغیب دینے والے کو نیکی کا ثواب ملتاہے، اسی طرح گناہ کی ترغیب دینے والے کو بھی گناہ کئے جانے پر گناہ ملتاہے۔ البتہ دونوں میں فرق یہ ہے کہ گناہ کی صرف ترغیب دینے پر گناہ نہیں ملتاہے بلکہ جب دوسرا شخص گناہ کا ارتکاب کرتاہے تو اس کا گناہ ترغیب دینے والے کو بھی جاتاہے۔ اور نیکی کی ترغیب دینے سے ہی ثواب ملنا شروع ہوجاتاہے۔
والمجاهرون هم الذين جاهروا بمعاصيهم وأظهروها وكشفوا ما ستر الله عليهم منها فيتحدثون يقال: جهر وجاهر وأجهر، أقول: قول الأشرف: كل أمتي لا ذنب عليهم لايصح على إطلاقه بل المعنى كل أمتي لايؤاخذون أو لايعاقبون عقابًا شديدًا إلا المجاهرون. و أما ما ذكره الطيبي من التقييد بالغيبة فلا دلالة للحديث عليه و لا عبرة بعنوان الباب كما لايخفى على أولي الألباب بل في نفس الحديث ما يؤيد ما ذكرناه و هو قوله على طريق الاستئناف البياني وإن من المجانة بفتح الميم وخفه الجيم مصدر مجن يمجن من باب نصر وهي أن لا يبالي الإنسان بما صنع ولا بما قيل له من غيبة ومذمة ونسبة إلى فاحشة أن يعمل الرجل بالليل أي مثلا عملا أي من أعمال المعصية ثم يصبح بالنصب وفي نسخة بالرفع أي ثم هو يدخل في الصباح وقد ستره الله أي عمله عن الناس أو ستره ولم يعاقبه في ليله حتى عاش إلى النهار فيقول بالنصب ويرفع أي فينادي صاحبا له يا فلان عملت البارحة أي في الليلة الماضية كذا وكذا أي من الأعمال السيئة وقد بات أي والحال أن الرجل العاصي دام في ليله يستره ربه أي عن غيره ولم يكشف حاله بالعقوبة ويصبح أي الرجل مع ذلك يكشف خبر يصبح أي يرفع ويزيل ستر الله عنه." (مرقاۃ المفاتیح ، باب حفظ اللسان والغیبة والشتم: ج؛7، ص:3034، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 3300/46-9059
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پیسہ بھیجنے پر یا ایپ استعمال کرنے پربلا معاوضہ جو کوپن یا رقم ایپ کمپنی کی طرف سے ملتی ہے وہ تبرع اور ہدیہ ہوتاہے جس کا صارف کے لئے لینا اور استعمال کرنا جائز ہے۔
وأمّا الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحا، أو أقرضه وشرط شرطا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه «نهى عن قرض جرّنفعا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لا يقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطة في القرض، فأما إذا كانت غير مشروطة فيه ولكن المستقرض أعطاه أجودهما؛ فلا بأس بذلك؛ لأن الربا اسم لزيادة مشروطة في العقد، ولم توجد، بل هذا من باب حسن القضاء، وأنه أمر مندوب إليه قال النبي - عليه السلام -: «خيار الناس أحسنهم قضاء» . (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، فصل في شرائط ركن القرض، ج:7، ص:395)
لايتم الهبة إلا بقبض،فإذا وهب أحد شيئا إلى أخر لاتتم الهبة قبل القبض.(مجلة الأحكام العدلية،المقدمة،المقالة الثانية في القواعد الكلية،رقم المادة:57،ص:22)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قبولیت کا علم تو اللہ تعالیٰ کو ہے، فقہی اور قانونی اعتبار سے نماز تراویح کو جائز کہا جائے گا؛ کیوں کہ اس کے لیے روزہ شرائط میں سے نہیں ہے۔ مگر بلا عذر رمضان کا روزہ چھوڑنا ایسا بڑا گناہ ہے کہ اس کی بنا پر تراویح کا ثواب بھی سوخت ہوجائے تو تعجب نہیں۔(۱)
(۱) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أفطر یوما من رمضان من غیر رخصۃ ولا مرض لم یقض عنہ صوم الدہر کلہ وإن صامہ۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الصیام: باب التغلیظ في من أفطر عمداً‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۶، رقم: ۲۳۹۸؛ و أخرجہ الترمذي في سننہ، ’’کتاب الصوم: باب ماجاء في الإفطار متعمداً‘‘: ج ۱، ص: ۱۵۳؛ و ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصوم: باب تنزیہ الصوم، الفصل الثاني‘‘: ج ۴، ص: ۴۴، رقم: ۲۰۱۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 59
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز میں پہلی رکعت کو چھوٹی اور دوسری رکعت کو بڑی کرنا مکروہ ہے، لیکن سنن ونوافل میں ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے اس لیے تراویح میں ایسا کرنا درست ہے۔’’وفي الدرایۃ: و إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ علی الأولی بثلاث آیات فصاعداً في الفرائض مکروہ، و في السنن و النوافل لایکرہ؛ لأن أمرہا سہل‘‘(۱)’’و استظہر في النوافل عدم الکراہۃ مطلقاً‘‘’’(قولہ: مطلق) … أطلق في جامع المحبوبي عدم کراہۃ إطالۃ الأولی علی الثانیۃ في السنن و النوافل، لأن أمرہا سہل، و اختارہ أبو الیسر ومشی علیہ في خزانۃ الفتاوی، فکان الظاہر عدم الکراہۃ الخ‘‘(۲)
(۱) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ: مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 58
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: قرآن پاک مکمل تراویح میں سننا سنت ہے، ضروری نہیں ہے۔(۲) اگر اس کے لیے اچھے قاری ملیں تو اس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔ جن جگہوں پر حافظ نہ ملیں یا اچھے پڑھنے والے نہ ہوں وہاں اچھے پڑھنے والے امام سے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔ اتنا تیز پڑھنا، کہ الفاظ مکمل طور پر ادا نہ ہوتے ہوں یا پیچھے کھڑے حافظ وعالم کو بھی سمجھ میں نہ آتا ہو، درست نہیں ہے؛(۱) بلکہ نماز کے فاسد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ غلطیاں اور بھول ہو جایا کرتی ہیں؛ اس کے لیے ایک سامع بھی رکھنا چاہئے۔ اور اگر حافظ صاحب سے غلطیاں اور بھول بکثرت صادر ہوتی ہوں، لوگوں کو دشواری ہو اور تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو، تو کسی دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کرلیا جائے(۲) اور وہ بھی نہ ہوسکے، تو پھرالم ترکیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔ (۲) والسنۃ فیہا الختم مرۃ فلایترک لکسل القوم۔ (إبراہیم محمد الحلبي، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۴؛ وابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۳، ص: ۱۱۵؛ وعالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’الفصل الثالث عشر في التراویح‘‘: ج۲، ص: ۳۲۴، زکریا بکڈپو، دیوبند؛ الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)(۱) ورتل القرآن ترتیلا أي إقرأ علی تمہل فإنہ یکون عونا علی فہم القرآن وتدبرہ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ المزمل‘‘: ج ۶، ص: ۳۲۹، زکریا بکڈپو، دیوبند)(۲) ولایترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأفضل في زماننا قدر مالایثقل علیہم وأقرہ المصنف وغیرہ وفي المجتبی عن الإمام لو قرأ ثلاثا قصارا أو آیۃ طویلۃ في الفرض فقد أحسن ولم یسئ فما ظنک بالتراویح۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 57
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ختم قرآن کے بعد {وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۵} تک پڑھنے کی فقہاء کرام نے اجازت دی ہے اور یہ مستحب ہے اس کے سواء دیگر آیات کا اس وقت پڑھنا منقول نہیں اس کا ترک کر دینا مناسب ہے۔’’ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ‘‘(۲)’’قال في شرح المنیۃ وفي الولوا لجیۃ من یختم القرآن في الصلاۃ إذا فرغ من المعوذتین في الرکعۃ الأولیٰ یرکع ثم یقرأ في الثانیۃ بالفاتحۃ وشيء من سورۃ البقرۃ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر الناس الحال المرتحل، أي الخاتم المفتتح‘‘(۱)(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹۔(۱) أیضاً:
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 56
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3298/46-9049
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو امام صاحب مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے مقرر ہیں ان کو حق ہے کہ وہ خود نماز پڑھائیں، اور اگر کوئی وجہ ہو تو دوسروں کو بھی کسی وقت امامت کے لئے آگے بڑھاسکتے ہیں۔ اگر کوئی علاقہ کی یا دینی شخصیت آجائے کہ جس کے پیچھے عوام نماز پڑھنے کی خواہاں ہو تو امام ان کو نماز پڑھانے کے لئے موقع دے سکتاہے ، اور اگر ان کو موقع نہ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر انتظامیہ نے پہلے سے امام صاحب کو دوسرے عالم سے امامت کے بارے میں کہا ہو تو امام کو چاہئے کہ ان کو نماز پڑھانے دیں، لیکن اگر انتظامیہ نے پہلے سے کچھ نہیں کہا تو اب ان کوامام پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Marriage (Nikah)
Ref. No. 3297/46-9048
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر نکاح کے وقت مہر میں پیسے متعین ہوئے تھے، مثلا ساٹھ ہزار کا زیور دینا طے ہوا تھا ، تو ایسی صورت میں تیار شدہ زیور مع اجرت ساٹھ ہزار کا ہوگا۔ اور اگر زیور کی مقدار طے ہوئی تھی مثلا ایک تولہ سونا دینا طے ہوا جس کی قیمت ساٹھ ہزار ہوتی ہے تو ایسی صورت میں ادادئیگی کے وقت ایک تولہ سونا مع اجرت کے لازم ہوگا اور اس میں نکاح کے وقت کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا۔
"و المعتمد البناء على العرف كما علمت." (شامی، (3/157، باب المہر، ط؛ سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3294/46-9050
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحومہ مالیہ کا کل ترکہ اولا 13 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے ہر ایک بھائی کو 2 حصے اور ہر ایک بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ پھر جو کچھ محمد رفیق کو ملا اس کو اس کی بیوہ اور اولاد کے درمیان ، اور جو کچھ فضل محبوب کو ملا اس کو اس کی بیوہ اور اولاد کےدرمیان اس طرح تقسیم کریں گے کہ بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ میں سے بیٹوں کو دوہرا اور بیٹیوں کو اکہرا حصہ دیں گے۔ چھ لاکھ چالیس ہزار کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ مرحومہ کے ہر ایک بھائی کو 98461 روپئے ، اور ہر ایک بہن کو 49231 روپئے ملیں گے۔ محمد رفیق کے حصہ کی رقم میں سے اس کی بیوہ کو 12307 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 12307 روپئے، اور ہر ایک بیٹی کو 6153 روپئے ملین گے۔ اور فضل محبوب کے حصہ کی رقم میں سے اس کی بیوہ کو 12307 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 24615 روپئے اور ایک بیٹی کو 12307 روپئے ملیں گے۔ مالیہ کے بھائی بہن جو ابھی بھی زندہ ہیں ان کی رقم کے وہ خود مالک ہوں گے ، اپنی زندگی میں ہی اپنا حصہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے۔ وراثت کی تقسیم ہوجانے کے بعد ہرایک کو اپنے حصہ کا اختیار ہے اگر وہ چاہے تو کسی کو اپنا کل یابعض حصہ دے سکتاہے۔ اور اگر کوئی وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی اپنا حصہ بغیر کسی دباؤ کے چھوڑنا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 3292/46-9051
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلامی بینک کے اکاونٹ میں جو منافع جمع ہوتے ہیں، ان کی حیثیت متعین کرنے کے بعد ہی اس کے بارے میں جواز و دعدم جواز کے تعلق سے کچھ کہاجاسکتاہے۔ تاہم جس طرح نقد رقم دینا جائز ہے، اسی طرح اس رقم سے کوئی سامان خرید کر دینا بھی جائز ہے۔ نقد رقم ہی دینا ضروری نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند