آداب و اخلاق

Ref. No. 3760/47-9879

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  یہ قول درست ہے اور بہت سی کتابوں میں مذکور ہے، اور یہاں سنت سے مراد دین ہے، یعنی امام اعظم ابوحنیفہ سے محبت کرنا دین کا ایک حصہ ہے، اور ایک دینی عمل ہے، جس کے ذریعہ ہم رب العالمین کاقرب حاصل کرسکتے ہیں۔ اس طرح کے اقوال امام صاحب کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام کے متعلق بھی منقول ہیں، اور وہاں بھی سنت کے  یہی  معنی ہیں جیساکہ حضرت ابوبکر ؓ کے فضائل میں ہے، حب ابی بکر وعمر ومعرفۃ فضلھما من السنۃ۔ اور دیگر صحابہ کے متعلق منقول ہے کہ حب اصحاب النبی کلھم سنۃ یعنی صحابہ کرام سے محبت کرنا سنت ہے، عینی دین کا ایک جز اور اس کا ایک حصہ ہے۔

حب ابی حنیفۃ من السنۃ ویقصد بالسنۃ ھنا الدین اللازم الثابت ، فمن لم یحب اباحنیفۃ و من بعدہ من ائمتنا فلیس من عبادالرحمن الموحدین المسلمین (خطیب دروس عبدالرحیم الطحان 10/37)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3800/47-9900

الجواب

الجواب وباللہ التوفیق: بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں کہ دادا ابو نے یہ رقم (22 لاکھ روپے) آپ کے والد صاحب کو ادھار کے طور پر دی تھی، اور والد صاحب نے بعد میں یہ رقم واپس نہیں کی، بلکہ کہا کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں،تو شرعاً وہ رقم دادا ابو کا قرض شمار ہوگی۔کیونکہ ضابطہ یہی ہے کہ جس نے کسی کو مال دیا بطورِ قرض، وہ مال دینے والے کی ملکیت میں باقی رہتا ہے، جب تک واپس نہ کیا جائے یا صاف طور پر معاف نہ کیا جائے۔ اس لئے دادا ابو جب تک اس قرض کو صاف لفظوں میں معاف نہ کریں، وہ رقم واجب الادا قرض رہے گی۔اگر دادا ابو نے صرف مجبوری یا ناراضگی میں کہا ہو کہ "میرے حصے سے کٹ جائیں"، تو یہ قرض کی معافی نہیں مانی جائے گی۔شریعت میں قرض، وراثت تقسیم ہونے سے پہلے ادا کیا جاتا ہے۔پھر یہ بھی یاد رکھئے کہ اگر دادا ابو کے انتقال سے قبل یہ رقم واپس نہ کی گئی اور انہوں نے معاف بھی نہ کی،تو یہ 22 لاکھ روپے ان کے ترکہ (وراثت) میں شمار ہوں گے۔اور والد صاحب پر لازم ہوگا کہ 22 لاکھ واپس کریں۔اس کے بعد  وہ ان کے تمام وارثوں (5 بیٹے اور 2 بیٹیاں) میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کیا جائے گا۔یعنی:ہر بیٹے کو دو حصے،ہر بیٹی کو ایک حصہ ملے گا۔ اگر والد صاحب نے دادا ابو سے جھوٹ بولا کہ "میرے پاس پیسے نہیں ہیں" حالانکہ پیسے تھے تو  یہ عمل باعث گناہ ہے ، ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہ سچی توبہ کرے اور قرض ادا کرے۔نبی ﷺ نے فرمایا:مطل الغنی ظلم “مالدار کا قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول  کرنا ظلم ہے۔” (صحیح بخاری: 2400)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3803/47-9898

الجواب

الجواب وباللہ التوفیق:  ۔    اگر بہو کو پلاٹ پر قبضہ نہیں ملا تھا  ، تو وہ پلاٹ دادا ہی کی ملکیت رہا، اور وراثت میں شامل ہوگا۔اگر بیٹے نے قسطیں بلا شرط دی تھیں  تو وہ واپسی کا حق نہیں رکھتا۔اگر قسطیں شرط کے ساتھ قرض کے طور پر دی تھیں  تو دادا پر واجب ہے کہ وہ رقم واپس کریں (اگر باحیات  ہوں)، یا ان کے ترکے سے ادا کی جائے۔پلاٹ کی شرعی تقسیم کے لیے قبضہ، نیتِ ہبہ، اور وراثت کی تفصیلات طے کر کے حساب لگانا ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3804/47-9899

الجواب

الجواب وباللہ التوفیق:  ۔     (۱) اگر وہ عورت فی الواقع اسلام قبول کرلیتی ہے  اور مسلمان ہوجاتی ہے تو اس کے بعد اس سے نکاح شرعاً جائز ہے، بشرطیکہ نکاح اسلامی طریقے سے شرعی گواہوں کے ساتھ کیا جائے۔ (۲)  شرعاً پہلی بیوی کی اجازت دوسری شادی کے لیے لازمی نہیں، لیکن اخلاقی، معاشرتی، اور عدالتی لحاظ سے بہتر ہے کہ اجازت یا کم از کم اطلاع دی جائے تاکہ نزاع نہ ہو۔ اگر پہلی بیوی اجازت نہ دے تو بھی نکاح ثانی شرعا درست ہے ، لیکن ظلم و جھگڑے کا اندیشہ ہوتا ہے، اور حقوقِ زوجین کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے۔اس سلسلہ میں غالبا آپ کے ملک کے خاندانی قوانین کے مطابق، دوسری شادی کے لیے تحصیل کمیٹی یا یونین کونسل سے اجازت لینا قانونی طور پر ضروری ہے۔اگر اجازت کے بغیر نکاح کر لیا جائے تو نکاح شرعاً درست ہوگا مگر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے، اس لئے اس کا ضرور خیال رکھاجائے۔(۳) بیویوں کے درمیان رہائش، نفقہ (خرچ)، وقت، لباس، اور ظاہری برتاؤ میں عدل لازم ہے۔دل کے میلان (محبت) میں برابری ممکن نہیں، لیکن عملی برابری یعنی:ایک رات ایک بیوی کے پاس، دوسری رات دوسری کے پاس؛خرچ و نان و نفقہ میں مساوات یہ سب  امور شرعا لازم ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 3802/47-9902

الجواب

الجواب وباللہ التوفیق:  ۔   اسلامی شریعت کے مطابق جب نکاح صحیح طور پر ہو جائے ، تو بیوی شوہر کے عقد اور حفاظت میں آ جاتی ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ بیوی کا رہنا، بات کرنا، اور تعلق رکھنا شوہر کا شرعی حق ہے۔والدین کو نکاح کے بعد بیٹی کو زبردستی الگ رکھنے یا بیوی کو شوہر سے ملنے سے روکنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر بیوی کے والدین شادی کے بعد شوہر سے رقم (20 لاکھ روپے، سونا، مکان وغیرہ) طلب کر رہے ہیں،تو یہ حرام، ناجائز اور ظلم ہے ۔بیوی پر شوہر کے حقوق میں سب سے پہلا حق ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ رہائش اختیار کرے، اس کے حقوق ادا کرے، والدین یا کسی کے کہنے پر ناجائز طور پر علیحدگی اختیار نہ کرے۔اگر آپ شرعی طور پر بیوی کے حقوق کے طالب ہیں لیکن بیوی اپنے والدین کے دباؤ میں آ کر آپ سے الگ ہو گئی ہے، تو آپ گناہ گار نہیں،بلکہ گناہ کی ذمہ داری والدین اور بیوی پر ہوگی (اگر وہ حق تلفی پر راضی   ہے)۔اللہ تعالیٰ نیت اور مجبوری دونوں کو جانتا ہے۔ ۔شوہر کے صبر اور اصلاح کی کوشش کے باوجود اگر اصلاح نہ ہو، تو طلاق یا خلع  کی گنجائش  ہے۔والدین کو بیٹی کی ازدواجی زندگی میں اس حد تک مداخلت کا کوئی شرعی اختیار نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref. No. 3801/47-9901

الجواب

الجواب وباللہ التوفیق:  ۔  جب کوئی بندہ خیر (نیکی) کی بات پھیلاتا ہے، تو شیطان اسے روکنے اور اس کے دل میں وسوسے ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ نیکی سے دل برداشتہ ہو جائیں۔ اسی لیے جب آپ کسی کو اچھی بات بتاتے ہیں، تو فوراً آپ کو کسی گناہ میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ آپ کو شرمندگی اور مایوسی ہو۔نیزکبھی کبھی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو آزما کر دیکھتے ہیں کہ جو بات وہ دوسروں کو کہہ رہا ہے، کیا خود اس پر قائم رہتا ہے؟ یہ تربیت کا ایک عمل ہوتا ہے تاکہ بندہ اپنی اصلاح کرے۔خیال رہے کہ انسان کامل نہیں ہے۔ اچھی بات کہنا اور اس پر عمل کرنا دو الگ مرحلے ہیں۔ پہلا آسان ہے، دوسرا مشکل۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کہنا ہی چھوڑ دیا جائے۔اس لئے آپ اچھی بات کہنا بند نہ کریں، بلکہ نرمی سے اور نیتِ اصلاح کے ساتھ امر بالمعروف جاری رکھیں۔  اگر خود سے کوئی غلطی ہو جائے تو مایوس نہ ہوں، فوراً توبہ کریں اور دوبارہ کوشش کریں۔ہر بار جب شیطان الٹا اثر ڈالے، تو سمجھ لیں کہ آپ نیکی کے راستے پر ہیں — اسی لیے وہ آپ کو گرانا چاہتا ہے۔آپ کو اس سے گھبرانا نہیں چاہیے، بلکہ ثابت قدم رہنا چاہیے۔ اچھی بات کہنا بھی نیکی ہے اور اس پر عمل کی کوشش کرنا بھی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3710/47-9839

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اگر کسی نے یہ کہا: "جب بھی میں یہ کام کروں گا، تو تین دن کے روزے رکھوں گا ۔ یہ دراصل ایک قسم (یمین ) ہے، لیکن اس میں روزے رکھنے کو شرط بنا دیا ہے۔ فقہاء کے نزدیک ایسی قسم بار بار توڑنے پر ایک ہی کفارہ لازم ہوتا ہے، جب تک کہ قسم ایک ہی انداز اور ایک ہی موضوع پر قائم ہو۔اگر وہ نقصان دہ عمل بار بار ہوا، تو شرعاً ہر بار الگ کفارہ لازم نہیں ہوگا، بلکہ صرف ایک مرتبہ کفّارہ ادا کرنا کافی ہے۔ البتہ، اس کے بعد اگر وہ چاہے تو اپنی اصلاح کے لیے نفل روزے رکھ سکتا ہے، لیکن وہ کفّارہ شمار نہیں ہوں گے۔

اللہ تعالیٰ نے قسم توڑنے کے کفّارہ کی تین صورتیں بتائی ہیں: دس مسکینوں کو کھانا کھلانا (ہر ایک کو اوسط درجے کا کھانا)یا دس مسکینوں کو کپڑا دینا یا ایک غلام آزاد کرنا (آج یہ ممکن نہیں) اگر ان تینوں میں سے کوئی بھی استطاعت نہ ہو توتین دن کے روزے رکھے جائیں۔

چونکہ یہ ایک ہی قسم ہے، اس لیے ہزار بار بھی عمل ہوا ہو تب بھی ایک ہی کفّارہ کافی ہے۔ کفّارہ کی ادائیگی کے بعد بھی اگر عادت برقرار ہے تو توبہ اور اصلاح کی کوشش لازمی ہے، تاکہ گناہ دوبارہ نہ دہرایا جائے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3798/47-9897

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اگر آپ کپڑے کے تاجر سے قیمت کے تعین کے ساتھ بات طے کریتے ہیں اورادائیگی کی مدت بھی بیان کردیتے ہیں پھر اپنی مرضی سے اپنی قیمت متعین کرکے لوگوں کو بیچتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ کاروبار بظاہر حلال ہے اور اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔ اگر کوئی شبہ کا پہلو ہو تو اس کو واضح کرکے دوبارہ سوال کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3798/47-9897

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اگر آپ کپڑے کے تاجر سے قیمت کے تعین کے ساتھ بات طے کریتے ہیں اورادائیگی کی مدت بھی بیان کردیتے ہیں پھر اپنی مرضی سے اپنی قیمت متعین کرکے لوگوں کو بیچتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ کاروبار بظاہر حلال ہے اور اس میں کوئی وجہ ممانعت نہیں ہے۔ اگر کوئی شبہ کا پہلو ہو تو اس کو واضح کرکے دوبارہ سوال کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3796/47-9887

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔     اگر زمین خریدتے وقت نیت صرف مدرسہ دینیہ قائم کرنے کی تھی تو وہ زمین شرعاً اسی مصرف کے لیے استعمال کرنا بہتر ہے، اسے دنیاوی اسکول یا کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنا بہترنہیں ہے۔البتہ اگر خریدتے وقت نیت عمومی تعلیمی یا فلاحی ادارہ قائم کرنے کی تھی تواس کو  اسکول بنانا جائز ہوگا۔عوامی چندہ ایک شرعی امانت ہے، اسے صرف اسی مصرف میں خرچ کرنا لازم ہے جس کے لیے جمع کیا گیا ہو۔اگر چندہ دینے والوں نے “مدرسہ کے لیے” چندہ دیا تھا، تو اس  کو اپنے ذاتی صرفہ میں لانا جائز نہیں ہے۔ البتہ مدرسہ کے لئے جمع شدہ چندہ سے مدرسہ کی زمین  کی خریداری  کا قرض اداکرنا جائز ہے،جبکہ لوگوں نے مدرسہ کی نیت سے چندہ دیا ہے۔  لیکن اگر یہ زکوۃ کی رقم ہے تو بلا تملیک شرعی اس سے قرض کی ادائیگی جائز نہیں ہے۔ اگر ٹرسٹی سب امانت دار اور دیانت دار ہوں تو ان کا اپنے گھر یا خاندان سے ہونا جائز ہے، بشرطیکہ وہ مالی بدعنوانی یا شرعی خلاف ورزی نہ کریں۔تاہم چونکہ یہ ادارہ دینی نوعیت کا ہے، اس لیے کمیٹی میں کم از کم ایک یا دو علماء کرام کا شامل ہونا شرعاً اور اخلاقاً ضروری ہے تاکہ ادارے کے فیصلے شریعت کے مطابق رہیں۔

"لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ" (سورہ آل عمران: 92)

«إذا وقف الشيء لله تعالى خرج عن ملك الواقف» (رد المحتار، ج4، ص431)

"إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا" (سورۃ النساء: 58)

«أَدِّ الأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ، وَلا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ» (ابوداؤد: 3534)

"إِنَّ خَيْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِيُّ الأَمِينُ" (القصص: 26)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند