Divorce & Separation

Ref. No. 3267/46-8069

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

اذا کان السؤال المذکور صحیحا، فقد وقعت على المرأة ثلاث تطلیقات وفقا لاحکام الشریعۃ الاسلامیۃ، مماادى إلى انقطاع عقد النكاح بشكل نهائي. وبذلك أصبح العيش مع الزوج السابق وإقامة العلاقة الجسدية معہ حرامًا قطعیا۔ ومما یجب ان یعلم ان عدة المرأة تبدأ من وقت وقوع الطلاق وذلک فی شھر فبرائر، وتكتمل بانقضاء ثلاث حيضات. وبعد انتهاء العدة کاملا، المرأة تختار في الزواج بمن تشاء.

قال تعالی: فإن طلقها (بالتطلیقۃ الثالثۃ) فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره (سورۃ البقرۃ الآیۃ 230). إذا طلق واحدة أو ثنتين فله الرجعة ما لم تنقض العدة کما قال سبحانہ وتعالی: الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ، اما اذا طلقھا الثالثۃ فلا تحل للزوج ان یصاحبھا، قال تعالی: فإن طلقهاای بالثالثة فلا رجعة له عليها حتى تنكح زوجا غير ۔  و عدة المرأة تبدأ من وقت وقوع الطلاق وھی ثلاث حیضات کما قال تعالی: والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء (سورۃ البقرۃ 228)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 3270/46-6068

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی میں شامل ہونے اور اس سے نفع حاصل ہونے کی جو شکلیں رائج ہیں وہ سب غیرشرعی اور ناجائز ہیں۔ اس لئے کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی کا ممبر بننے کے لئےایک متعینہ رقم اداکرکے اس کی مصنوعات خریدنے کی شرط ہوتی ہے جوغیر شرعی شرط ہے۔ اسی طرح  ممبرسازی بڑھنے پر بالواسطہ اور بلاواسطہ کمیشن بھی ملتارہتاہے جس میں آپ کو بلاکسی عمل کے بھی   کمیشن ملتاہے جو ناجائز ہے۔ نیزاس کمپنی کی مصنوعات کی ماہانہ خریداری  کی صورت میں ہی آپ کمیشن کے مستحق ہوں گے۔ اس لئے ان تمام مفاسد کی بناء پر کسی بھی نیٹ ورک مارکیٹنگ میں جس کی یہ صورت ہو شامل ہونا ، ممبربننا، کمیشن لینا اور ان کے ساتھ کاروبار کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔آپ نے جس کمپنی کا ذکر کیا ہے ہمیں اس کے  طریقہ کار کا کچھ علم نہیں ہے۔ اس لئے اگر  آپ کی کمپنی  کا طریقہ کار کچھ مختلف ہو تو دوبارہ پوری تفصیل کے ساتھ سوال بھیجیں تاکہ اسی کے مطابق جواب لکھاجائے۔

قال اللہ تعالی:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾(سورۃ المائدۃ:90) 

لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص۔(رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء وغيره، فصل في البيع ، ج:9 ص:577)

 فلو جوزناه لكان استحقاقا بغير عمل ولم يرد به الشرع۔(الھدایة،کتاب المساقاۃ،ج:4،ص:430)

الأمور بمقاصدھا:یعني أن الحکم الذی یترتب علی أمر یکون علی ما ھو المقصود من ذالک الأمر۔(شرح المجلة لسلیم رستم باز،المقالة الثانیة فی بیان القواعد الفقہیة،المادۃ:2،ص:(17

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref.  No.  3259/46-8056

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نکاح و طلاق کے باب میں مذاق بھی حقیقت کا حکم رکھتاہے، لہذا مذاق میں بھی اگر نکاح ہوگا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہوگیا اور اس سلسلہ میں گواہوں کا ایجاب و قبول سن لینا کافی ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3258/46-8057

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں سب برابر ہیں، اور حدیث میں آیاہے:"لا فضل لعربی علی عجمی الا بالتقوی" ، تاہم نکاح میں کفاءت کا حکم افضل اور غیرافضل ہونے کی بناء پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی مصلحت ہے، اس لئے کہ نکاح کے ذریعہ دو اجنبی ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور زندگی گزارنے اور رہن سہن کے مختلف ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نکاح میں وہ پائیداری نہیں ہوتی جو شرعا مطلوب ہے، اس لئے نکاح میں کفائت کا حکم دیاگیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ  پٹھان انصاری کا کفو ہے یا نہیں؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ عجمیوں کے حق میں نسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے، اس لئے کہ عام طور پر عجمیوں کے پاس نسب محفوظ نہیں ہے ، اس لئے پٹھان انصاری کا کفو ہوسکتاہے، ہمارے معاشرہ میں نکاح میں برادری وغیرہ کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح عرب و عجم میں کفاءت نہ ہونا بھی سابقہ مصلحت کے پیش نظر ہے، آپ غیرانصاری برادری میں شادی کرسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہندوستان میں کفاءت  دیانت، مال اور پیشہ میں معتبر ہے اس کے علاوہ میں نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

BottoTop of Form

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 3254/46-8066

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس سے پہلے بھی اس سے متعلق وضاحت کی گئی تھی کہ اس میں کئی چیزیں تحقیق طلب  اور قابل غورہیں، (1) ہر فرد حج و عمرہ مشن  کے تحت جو ممبر بنائے جائیں گے ان سے صرف ایک مرتبہ پانچ ہزار یا تین ہزار رجسٹریشن فیس لی جائے گی یا ہر ماہ کوئی فیس کی مقدارطے ہے۔ (2) اگر صرف رجٹریشن فیس لی جائےگی  اور اس پر ان کو فری گفٹ دیا جائے  گااور قرعہ اندازی کے ذریعہ جس کا نام آئے گا اس کو حج یا عمرہ پر بھیجاجائے گا تو ظاہر ہے کہ سو لوگوں نے پیسہ جمع کیا ایک کا نام نکلا اس  کو حج پر بھیجاگیا ،باقی لوگوں کا پیسہ ڈوب گیا،اور جو فری کوپن ہے وہ سفر کرنے کی صورت میں ایک قسم کی سہولت ہے ، کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی کو انٹرنیشنل سفر کی سہولت میسر ہو۔ اس لئے بظاہر اس میں قمار اور جوا کا پہلو نکلتاہے۔ اگر یہی صورت حال ہے جس کے جواب کا تذکرہ کیاگیا ہے تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر کوئی دوسری صورت ہے تو مزید وضاحت کرکے سوال کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3253/46-8040

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پہلے، دوسرے  جملہ کا معنی یہ ہے کہ میں تجھکو طلاق دیدیوں گا، تیسرے جملہ (طلاق دےئی تھے نا)  کا مطلب ہے کہ  میں نے تجھکو  طلاق دی، پھر اپنے گھر جا اس کے بعد شوہر نے کہا کہ میں تجھکو طلاق دے رہاہوں۔ اگر اس طرح مفہوم ہے تو صورت مسئولہ میں دو طلاقیں واقع ہوئیں۔ اگر اس سے پہلے کوئی طلاق نہیں دی ہے تو ان دو طلاقوں کے بعد شوہر کو اختیار ہے کہ چاہے تو عدت میں رجعت کرلے اور  بیوی سے یا دوگواہوں کے سامنے کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو اپنے نکاح میں واپس لیا۔ تو بیوی نکاح میں باقی رہ جائے گی۔ اور اگر عدت (تین ماہواری)گزرچکی ہے  تو اب دوبارہ دونوں نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ خیال رہے  کہ اب شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار ہوگا۔ اگر ایک طلاق بھی آئندہ دے دی تو بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ اور اگر مذکورہ بالا الفاظ کا کوئی اور مطلب ہے تو اس کی وضاحت کرکے دوبارہ سوال کریں۔

اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔الخ (القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 229) واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔ (الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2) فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا۔ (بدائع الصنائع: (180/3) اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ ان یتزوجھا فی العدۃوبعد انقضاءالعدۃ۔ (الفتاوی الھندیۃ: (473/1)

"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب". ) رد المحتار) (3/ 409(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Miscellaneous

Ref. No. 3252/46-8038

Answer

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Masha Allah! This is wonderful news. "Minha" (منحہ) is an Arabic word that means "gift" or "blessing," referring to something given as a favor or bestowed as a divine gift. It is a meaningful and beautiful name.

In addition, you may also consider the following names:

Ni'mah (نعمت): Blessing or divine favor.

Hibah (ہبہ): Gift or donation, symbolizing something given out of kindness.

Atiyah (عطیہ): Grant or bestowal, signifying a precious gift or blessing.

Fareeha (فریحہ): Joy and happiness, bringing a sense of delight and contentment.

Moreover, choosing names inspired by the companions of the Prophet (PBUH) and the female companions is a beautiful idea. Insha Allah, the blessings of these names will reflect in your children’s lives, bringing them prosperity and goodness.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Family Matters

Ref. No. 3251/46-8039

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بھائی کو جس بنیاد پر شبہہ ہو آپ ایسا کام ہی نہ کریں کہ الزام لگانے کی نوبت آئے، تاہم اگر آپ الگ مکان میں اپنے کرایہ پر رہنا چاہتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔ زنا کا الزام لگانا بڑا گناہ ہے، اور بڑے بھائی کا رویہ شرعا بہت غلط ہے، بڑے بھائی کو بے بنیاد الزام لگانے سے گریز کرنا لازم ہے، اور آپ سے معافی مانگنا بھی اس پر لازم ہے۔ اگر کوئی شخص کسی پر زنا کا الزام لگائے اور اس کو ثابت نہ کرسکے تو  اسلامی حکومت میں اس کے لئے حد جاری کی جاتی ہے یعنی زنا کرنا بھی بڑا گناہ ہے اور کسی پر زنا کاالزام لگانا بھی اسی طرح بہت بڑا گناہ ہے۔

وَ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَاْتُوْا بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجْلِدُوْهُمْ ثَمٰنِیْنَ جَلْدَةً وَّ لَا تَقْبَلُوْا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًاۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(4)اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَ اَصْلَحُوْاۚ-فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(سورۃ النور، 5)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3250/46-8042

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایام بیض کے روزے رکھنا اور پیر و جمعرات کے روزے رکھنا سنت سے ثابت ہے۔ صوم داؤدی بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ نفلی روزے ہر آدمی کی قدرت و استطاعت کے اعتبار سے افضل ہوں گے، ورنہ عام حالات میں ایام بیض کے روزے افضل ہوں گے، تاہم صوم داؤدی سے زیادہ روزہ رکھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ والدین اگر نفلی روزے سے منع کرتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر ان کو آپ سے جسمانی خدمت کی ضرورت ہے اور آپ کے روزہ رکھنے سے یہ خدمت متاثر ہو تو آپ روزہ نہ رکھیں، آپ کو ان شاء اللہ ثواب ملے گا، اور اگر کوئی وجہ نہ ہو تو والدین کے سامنے نفلی عبادات کے اجر وثواب کی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں، علماء کے بیانات سنوائیں تاکہ بخوشی آپ کو اجازت دیدیں۔

میں ہے:

"2449- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَخِي مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ مِلْحَانَ الْقَيْسِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَصُومَ الْبِيضَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ،  قَالَ:  وَقَالَ: «هُنَّ كَهَيْئَةِ الدَّهْرِ»." (سنن ابی داؤد،  بَابٌ فِي صَوْمِ الثَّلَاثِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، 2 / 328، ط: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت)

"حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ ، عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى فِي طَلَبِ مَالٍ لَهُ، فَكَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ : لِمَ تَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ كَبِيرٌ ؟ فَقَالَ : إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ : " إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ". (سنن ابی داؤد ، سنن أبي داود ،  كِتَاب  الصَّوْمُ ، بَابٌ  فِي صَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ ،  رقم الحديث : ٢٤٣٦)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

آداب و اخلاق

Ref.  No.  3248/46-8041

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ طریقہ پر دعاکرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے، بشرطیکہ الفاظ ولہجہ سے شکوہ کا اظہار نہ ہو، اور اگر ماضی کے حوالہ کے بغیر دعا کی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اپنے تمام گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلینا کافی ہوگا، گناہوں کا نام لینا ضروری نہیں ہے۔

’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]

ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا." (الموسوعة الفقهية الكويتيه، ص:120، ج:14، ط:دار السلاسل)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند