حج و عمرہ
Ref. No. 2921/45-4522 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مدینہ منورہ یا آفاق سے مکہ مکرمہ جانے والا احرام کے بغیر میقات سے نہیں گزر سکتا ہے، احرام باندھ کر حج یا عمرہ کی نیت کرنا ضروری ہے، اور اگر کوئی بغیر احرام کے مکہ میں داخلہ ہو گیا تو اس پر دم واجب ہوگا ہاں اگر واپس میقات آکر احرام باندھ لے تو دم ساقط ہو جاتا ہے۔ آفاقی مسلم بالغ برید الحج ولو نفلا أو العمرۃ وجاوز وقتہ ثم احرم لزمہ دم کما اذا لم یحرم فان عاد الی میقات ما ثم احرم سقط دمہ‘‘ (الدر المختار مع رد المحتار، ’’باب الجنایات‘‘: ج ٣، ص: ٦٢) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 2432/45-3688

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگروالد نے اب تک حج نہیں کیا ہے اور زمین بیچنے سے اتنی رقم آگئی کہ وہ اس سے حج کرسکتے ہیں تو ان کو پہلے اپنا فرض حج ادا کرنا چاہئے، تاہم چونکہ ابھی حج کا موسم نہیں ہے، اس لئے اگرفیملی کے افراد کو  عمرہ پر لیجائیں  تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2057/44-2162

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

 و باللہ التوفیق: طائف سے مکہ آتے ہوئے میقات آتی ہے اور احناف کے یہاں میقات سے بلا احرام کے گزرنا جائز نہیں ہے گنہگار ہوگا اور اس کو میقات جا کر احرام باندھنااور حج یا عمرہ کرنا لازم ہوگااس لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کی وجہ سے ایک دم لازم ہوتاہے لیکن اگر کوئی واپس میقات جاکر احرام باندھ کر حج یا عمرہ کرلے تو دم ساقط ہوجاتاہے ۔آپ نے کہاں یہ مسئلہ دیکھا نہیں معلوم ۔

ولا یجوز للآفاقی أن یدخل مکة بغیر إحرام نوی النسک أو لا ولو دخلہا فعلیہ حجة أو عمرة کذا فی محیط السرخسی(الفتاوی الہندیة:۱/۲۲۱)

وفی الدرالمختار: (وَ) یَجِبُ (عَلَی مَنْ دَخَلَ مَکَّةَ بِلَا إحْرَامٍ) لِکُلِّ مَرَّةٍ (حَجَّةٌ أَوْ عُمْرَةٌ) فَلَوْ عَادَ فَأَحْرَمَ بِنُسُکٍ أَجْزَأَہُ عَنْ آخِرِ دُخُولِہِ، وَتَمَامُہُ فِی الْفَتْحِ (وَصَحَّ مِنْہُ) أَیْ أَجْزَأَہُ عَمَّا لَزِمَہُ بِالدُّخُولِ (لَوْ أَحْرَمَ عَمَّا عَلَیْہِ) مِنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ أَوْ نَذْرٍ أَوْ عُمْرَةٍ مَنْذُورَةٍ لَکِنْ (فِی عَامِہِ ذَلِکَ) لِتَدَارُکِہِ الْمَتْرُوکَ فِی وَقْتِہِ (لَا بَعْدَہُ) لِصَیْرُورَتِہِ دَیْنًا بِتَحْوِیلِ السَّنَةِ(الدرالمختار مع ردالمحتار:۳/۲۶۶ط:زکریا دیوبند)

(جَاوَزَ الْمِیقَاتَ) بِلَا إحْرَامٍ (فَأَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ أَفْسَدَہَا مَضَی وَقَضَی وَلَا دَمَ عَلَیْہِ) لِتَرْکِ الْوَقْتِ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ(الدرالمختار)وفی ردالمحتار: (قَوْلُہُ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ) عِلَّةٌ لِقَوْلِہِ وَلَا دَمَ عَلَیْہِ إلَخْ وَضَمِیرُ مِنْہُ لِلْوَقْتِ أَشَارَ بِہِ إلَی أَنَّہُ لَا بُدَّ فِی سُقُوطِ الدَّمِ مِنْ إحْرَامِہِ فِی الْقَضَاءِ مِنْ الْمِیقَاتِ کَمَا صُرِّحَ بِہِ فِی الْبَحْرِ، فَلَوْ أَحْرَمَ مِنْ الْمِیقَاتِ الْمَکِّیِّ لَمْ یَسْقُطْ الدَّمُ وَہُوَ مُسْتَفَادٌ أَیْضًا مِمَّا قَدَّمْنَاہُ عَنْ الشُّرُنْبُلَالِیَّةِ(الدرالمختار مع ردالمحتار :۳/۶۲۷ط:زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 39/1106

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد ہی سے غیر حاجی لوگوں کواپنی قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے   بال و ناخن وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے۔ لیکن حاجیوں کے لئے ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ساتویں ذی الحجہ کو احرام باندھنے سے پہلےتک کاٹ سکتے ہیں؛ حاجیوں کے لئے احرام کے بعد کاٹنا ممنوع ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 2065/44-2061

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Taking usurious loans is absolutely forbidden. The prophet of Allah (saws) has cursed the one who takes usury, gives usury, writes usury and bears witness to it. (Mishkat: 244) Usury based transactions are completely forbidden; these things should not be taken lightly. There can be a scope for taking a loan only in a very dire need when there is no any other way. If need is not severe, then this loan is not permissible for you. In this case, it is not appropriate to perform Umrah with this amount.

It is also not permissible to take a usurious loan by pledging jewelry. If one is compelled to take loan in his severe need while he dislikes it, then he should not be blamed for it.

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

 ’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطني)

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

حج و عمرہ

Ref. No. 41/922

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسی عورت مستحاضہ ہے، ایام حیض کے بعد گرچہ خون جاری رہے وہ عمرہ کرسکتی ہے، اس کے لئےطواف کرنے سے قبل وضو کرلینا کافی ہوگا۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 1888/43-1758

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قانونی پابندیوں کا خیال رکھنا چاہئے،  تاہم مذکورہ  صورت میں طواف درست ہوجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند  

 

حج و عمرہ

Ref. No. 2664/45-4191

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  باضابطہ لوگوں کو دعوت دے کر دعا کے لئے جمع کرنا   مناسب نہیں ہے البتہ  اگر کچھ لوگ جمع ہوگئے اور دعا کرلی گئی جس میں ایک اجتماعی شکل بن گئی  تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔البتہ عمرہ یا حج پر جانے والے سے دعا کے لئے کہنا ثابت ہے۔   عمرہ کے لئے جانے سے پہلے انفرادی طور پر  توبہ و استغفار کرناچاہئے اور کسی کے ساتھ بدسلوکی یا کسی کی حق تلفی ہوئی ہو تو اس کی معافی تلافی کی کوشش کرنی چاہئے۔ اجتماعی دعا کو ضروری سمجھنا یا اس کو عمرہ کی قبولیت کا ضامن سمجھنا نادانی اور کم عقلی ہے۔  

عن العرباض بن ساریۃ رضي اللّٰہ عنہ قال : قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم في خطبتہ…: إیاکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (سنن أبي داؤد، رقم : ٤٦٠٧)

عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ۔ (صحیح مسلم، رقم : ١٧١٨)فقط

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 1894/43-1780

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قانونی پابندیاں  کسی نہ کسی وجہ سے ہوتی ہیں، حکومتی قوانین کی خلاف ورزی درست نہیں ہے، اس لئے اس طرح کی دھوکہ دہی سے احتراز لازم ہے، جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

حج و عمرہ

Ref. No. 1532/43-1035

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسا کرنا  کسی عذر کی بناء پر مکروہ  نہیں ہے، لیکن اس کی عادت بنالینا مکروہ ہوگا۔ اس لئے کہ سنت طریقہ یہی ہے کہ ہر طواف  کی تکمیل پر دو رکعت واجب ادا کرے، اور پھر اس کے بعد دوسرا طواف شروع کرے۔  

ويكره أن يجمع بين أسبوعين فصاعدا قبل أن يصلي الركعتين بينهما عند أبي حنيفة ومحمد، وهو مذهب عمر وجماعة أخر وقال أبو يوسف لا بأس به إن انصرف عن وتر مثل أن ينصرف عن ثلاثة أسابيع أو خمسة أو سبعة (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، باب الاحرام، 2/19)

(قال) ، ويكره أن يجمع بين أسبوعين من الطواف قبل أن يصلي في قول أبي حنيفة ومحمد رحمها الله تعالى، وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - لا بأس بذلك إذا انصرف على وتر ثلاثة أسابيع أو خمسة أسابيع لحديث عائشة - رضي الله عنها - أنها طافت ثلاثة أسابيع ثم صلت لكل أسبوع ركعتين، ولأن مبنى الطواف على الوتر في عدد الأشواط فإذا انصرف على وتر لم يخالف انصرافه مبنى الطواف، واشتغاله بأسبوع آخر قبل الصلاة كاشتغاله بأكل أو نوم، وذلك لا يوجب الكراهة فكذا هنا إذا انصرف على ما هو مبنى الطواف بخلاف ما إذا انصرف على شفع؛ لأن الكراهة هناك لانصرافه على ما هو خلاف مبنى الطواف لا لتأخيره الصلاة وأبو حنيفة ومحمد رحمهما الله تعالى قالا إتمام كل أسبوع من الطواف بركعتين فيكره له الاشتغال بالأسبوع الثاني قبل إكمال الأول كما أن إكمال كل شفع من التطوع لما كان بالتشهد يكره له الاشتغال بالشفع الثاني قبل إكمال الأول (المبسوط للسرخسی، الطواف قبل طلوع الشمس 4/47) (فتح القدیر، باب الاحرام 2/294) البنایۃ، حکم السعی بین الصفا والمروۃ 4/210)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند