Frequently Asked Questions
حج و عمرہ
Ref. No. 3366/46-9237
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: طواف میں اضطباع یعنی چادر بائیں بغل میں ڈال کر داہنے کندھے کو کھلارکھنا ساتوں چکروں میں مسنون ہے لہٰذا ساتوں چکروں میں اضطباع کرنا چاہیے۔ اگر بھول جائے توبھی طواف درست ہوجائے گا۔
وأما سنن الطواف فالاضطباع في جمیع أشواطہ وینبغي أن یفعلہ قبل الشروع في الطواف بقلیل․ (غنیة الناسک: ۱۱۸)
"واعلم أن الاضطباع سنۃ فی جمیع أشواط الطواف کما صرح بہ ابن الضیاء ، فإذا فرغ من الطواف ترکہ حتی إذا صلی رکعتی الطواف مضطجعاً تکرہ لکشفہ منکبہ، ویأتی الکلام علی أنہ لا اضطباع فی السعي، قولہ : (استناناً) أی فی کل طواف بعدہ سعی کطواف القدوم والعمرۃ، وکطواف الزیارۃ إن کان أخر السعی ولم یکن لابساً."(شامی ج:3، ص:448)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 3365/46-9236
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: (۱) زندوں کی طرف سے طواف کرنے کا مطلب ہے طواف کرکے یا عمرہ کرکے زندہ کو اس کا ثواب پہنچانا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے کہ دوسرے کی طرف سے طواف اور عمرہ کیاجاسکتاہے۔ (۲)حجر اسو د کا استلام سنت ہے،واجب نہیں ،اگر طواف میں استلام بھول گیا توبھی طواف ادا ہوجائےگا؛بعد میں اس کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ۔
الأصل أن کل من أتی بعبادة مّا لہ جعل ثوابہا لغیرہ وإن نواہا عند الفعل لنفسہ لظاہر الأدلة اھ در مختار وفي شرحہ الفتاوی رد المحتار (قولہ بعبادة ما) أي سواء کانت صلاة أو صوما أو صدقة أو قراء ة أو ذکرا أو طوافا أو حجّا أو عمرة أو غیر ذلک ا ھ․․․ (قولہ لغیرہ) أي من الأحیاء والأموات ( بحر عن البدائع اھ ج۲/۲۳۶، مطبوعہ نعمانیہ (أول باب الحج عن الغیر فی کتاب الحج)
"ثم يبدأ بالحجر.......ويستلمه، وصفة الاستلام أن يضع كفيه على الحجر ويقبله يفعل ذلك إن أمكنه من غير أن يؤذي أحدا........وإلا مس الحجر بيده وقبل يده، وإن لم يستطع ذلك أمس الحجر شيئا في يده من عرجون وغيره ثم قبل ذلك الشيء كذا في الكافي فإن لم يستطع شيئا من ذلك يستقبله ويرفع يديه مستقبلا بباطنهما إياه ويكبر ويهلل ويحمد ويصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم - كذا في فتح القدير وهذا الاستقبال مستحب وليس بواجب كذا في السراج الوهاج.
وترك الاستلام فيما بين ذلك أجزأه، وإذا ترك رأسا فقد أساء كذا في شرح الطحاوي." (فتاوی ہندیہ، کتاب المناسک،ج1،ص225،ط؛دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 3254/46-8066
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اس سے پہلے بھی اس سے متعلق وضاحت کی گئی تھی کہ اس میں کئی چیزیں تحقیق طلب اور قابل غورہیں، (1) ہر فرد حج و عمرہ مشن کے تحت جو ممبر بنائے جائیں گے ان سے صرف ایک مرتبہ پانچ ہزار یا تین ہزار رجسٹریشن فیس لی جائے گی یا ہر ماہ کوئی فیس کی مقدارطے ہے۔ (2) اگر صرف رجٹریشن فیس لی جائےگی اور اس پر ان کو فری گفٹ دیا جائے گااور قرعہ اندازی کے ذریعہ جس کا نام آئے گا اس کو حج یا عمرہ پر بھیجاجائے گا تو ظاہر ہے کہ سو لوگوں نے پیسہ جمع کیا ایک کا نام نکلا اس کو حج پر بھیجاگیا ،باقی لوگوں کا پیسہ ڈوب گیا،اور جو فری کوپن ہے وہ سفر کرنے کی صورت میں ایک قسم کی سہولت ہے ، کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر آدمی کو انٹرنیشنل سفر کی سہولت میسر ہو۔ اس لئے بظاہر اس میں قمار اور جوا کا پہلو نکلتاہے۔ اگر یہی صورت حال ہے جس کے جواب کا تذکرہ کیاگیا ہے تو یہ درست نہیں ہے، اور اگر کوئی دوسری صورت ہے تو مزید وضاحت کرکے سوال کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 3005/46-4807
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی عورت کا بغیر محرم مرد کےسفر شرعی پر جانا جائز نہیں ہے، وہ عورت جو بغیر محرم مرد کے سفر کرتی ہے، اس کے لئے حدیث میں سخت ممانعت وارد ہے، اس لئے جب تک محرم مرد یعنی عورت کا بھائی ، باپ چچا یا شوہر وغیرہ ساتھ میں نہ ہو اس کا سفر کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے ابھی اپنی بیوی کو ماں اور بھائی کے ساتھ ہرگز نہ بھیجیں، جب استطاعت ہوجائے تو اپنی بیوی کے ساتھ خود آپ جائیں یا کسی محرم مرد کو اس کے ساتھ بھیج دیں۔ عمرہ کا سفر ایک مبارک سفر ہے، غیرشرعی طریقہ پر عمرہ پر جانا ہرگز مناسب نہیں ہے۔"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم۔ (الصحیح لمسلم، 1/433، کتاب الحج، ط: قدیمی)" عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لا يخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك»". (صحيح البخاري (4/ 59(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع (الھندیۃ: (218/1، ط: دار الفکر)
والمحرم في حق المرأۃ شرط، شابۃ کانت أو عجوزا۔ -إلی قولہ-: والمحرم الزوج ومن لا یجوز لہ مناکحتہا علی التأبید برضاع، أو صہریۃ۔(الفتاوی التاتارخانیة: (474/3، ط: زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 2969/45-4702
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حج کی استطاعت مکمل طور پر پائے جانے کی صورت میں حج فرض ہوجاتاہے، اس لئے جلد از جلد اس کی ادائیگی کرلینی چاہئے، اور اگر کسی نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا اور ٹال دیا تو اس کے ذمہ حج فرض باقی رہے گا۔ پھر اگر مال ختم ہوگیا اور غریب ہوگیا تو بھی حج اس پر فرض ہی رہے گا۔ یعنی ایک مرتبہ حج فرض ہوجانے کے بعد ادائیگی کے بغیر ذمہ سے حج ساقط نہیں ہوگا۔ لہذا اگر موت سے پہلے استطاعت ہوجائے تو حج اداکرلے اور اگر موت تک استطاعت نہ ہوئی تومرنے سے پہلے حج بدل کی وصیت کرکے جائے تاکہ اس کے تہائی مال سے حج بدل کرادیاجائے۔
وکذلک لو لم یحج حتی افتقرتقرر وجوبہ دینا في ذمتہ بالاتفاق ولا یسقط عنہ بالفقر (غنیة الناسک ص۳۳ ومثلہ في الہندیة وغیرہا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
حج و عمرہ
Ref. No. 2432/45-3688
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگروالد نے اب تک حج نہیں کیا ہے اور زمین بیچنے سے اتنی رقم آگئی کہ وہ اس سے حج کرسکتے ہیں تو ان کو پہلے اپنا فرض حج ادا کرنا چاہئے، تاہم چونکہ ابھی حج کا موسم نہیں ہے، اس لئے اگرفیملی کے افراد کو عمرہ پر لیجائیں تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 2057/44-2162
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
و باللہ التوفیق: طائف سے مکہ آتے ہوئے میقات آتی ہے اور احناف کے یہاں میقات سے بلا احرام کے گزرنا جائز نہیں ہے گنہگار ہوگا اور اس کو میقات جا کر احرام باندھنااور حج یا عمرہ کرنا لازم ہوگااس لیے بغیر احرام کے میقات سے گزرنے کی وجہ سے ایک دم لازم ہوتاہے لیکن اگر کوئی واپس میقات جاکر احرام باندھ کر حج یا عمرہ کرلے تو دم ساقط ہوجاتاہے ۔آپ نے کہاں یہ مسئلہ دیکھا نہیں معلوم ۔
ولا یجوز للآفاقی أن یدخل مکة بغیر إحرام نوی النسک أو لا ولو دخلہا فعلیہ حجة أو عمرة کذا فی محیط السرخسی(الفتاوی الہندیة:۱/۲۲۱)
وفی الدرالمختار: (وَ) یَجِبُ (عَلَی مَنْ دَخَلَ مَکَّةَ بِلَا إحْرَامٍ) لِکُلِّ مَرَّةٍ (حَجَّةٌ أَوْ عُمْرَةٌ) فَلَوْ عَادَ فَأَحْرَمَ بِنُسُکٍ أَجْزَأَہُ عَنْ آخِرِ دُخُولِہِ، وَتَمَامُہُ فِی الْفَتْحِ (وَصَحَّ مِنْہُ) أَیْ أَجْزَأَہُ عَمَّا لَزِمَہُ بِالدُّخُولِ (لَوْ أَحْرَمَ عَمَّا عَلَیْہِ) مِنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ أَوْ نَذْرٍ أَوْ عُمْرَةٍ مَنْذُورَةٍ لَکِنْ (فِی عَامِہِ ذَلِکَ) لِتَدَارُکِہِ الْمَتْرُوکَ فِی وَقْتِہِ (لَا بَعْدَہُ) لِصَیْرُورَتِہِ دَیْنًا بِتَحْوِیلِ السَّنَةِ(الدرالمختار مع ردالمحتار:۳/۲۶۶ط:زکریا دیوبند)
(جَاوَزَ الْمِیقَاتَ) بِلَا إحْرَامٍ (فَأَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ أَفْسَدَہَا مَضَی وَقَضَی وَلَا دَمَ عَلَیْہِ) لِتَرْکِ الْوَقْتِ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ(الدرالمختار)وفی ردالمحتار: (قَوْلُہُ لِجَبْرِہِ بِالْإِحْرَامِ مِنْہُ فِی الْقَضَاءِ) عِلَّةٌ لِقَوْلِہِ وَلَا دَمَ عَلَیْہِ إلَخْ وَضَمِیرُ مِنْہُ لِلْوَقْتِ أَشَارَ بِہِ إلَی أَنَّہُ لَا بُدَّ فِی سُقُوطِ الدَّمِ مِنْ إحْرَامِہِ فِی الْقَضَاءِ مِنْ الْمِیقَاتِ کَمَا صُرِّحَ بِہِ فِی الْبَحْرِ، فَلَوْ أَحْرَمَ مِنْ الْمِیقَاتِ الْمَکِّیِّ لَمْ یَسْقُطْ الدَّمُ وَہُوَ مُسْتَفَادٌ أَیْضًا مِمَّا قَدَّمْنَاہُ عَنْ الشُّرُنْبُلَالِیَّةِ(الدرالمختار مع ردالمحتار :۳/۶۲۷ط:زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 39/1106
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ماہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد ہی سے غیر حاجی لوگوں کواپنی قربانی کے ذبح ہونے سے پہلے بال و ناخن وغیرہ نہ کاٹنا مستحب ہے۔ لیکن حاجیوں کے لئے ایسا نہیں ہے بلکہ وہ ساتویں ذی الحجہ کو احرام باندھنے سے پہلےتک کاٹ سکتے ہیں؛ حاجیوں کے لئے احرام کے بعد کاٹنا ممنوع ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حج و عمرہ
Ref. No. 2065/44-2061
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Taking usurious loans is absolutely forbidden. The prophet of Allah (saws) has cursed the one who takes usury, gives usury, writes usury and bears witness to it. (Mishkat: 244) Usury based transactions are completely forbidden; these things should not be taken lightly. There can be a scope for taking a loan only in a very dire need when there is no any other way. If need is not severe, then this loan is not permissible for you. In this case, it is not appropriate to perform Umrah with this amount.
It is also not permissible to take a usurious loan by pledging jewelry. If one is compelled to take loan in his severe need while he dislikes it, then he should not be blamed for it.
﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾[البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]
’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلاثین زنیةً في الخطیئة‘‘. (دار قطني)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband