Frequently Asked Questions
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3305/46-9072
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Friendship has a profound impact on those involved, that is why it is crucial to choose good friends carefully who will have a positive impact on you. In a society like India, where people of various religions live side by side, maintaining harmonious relationships and fostering tolerance is of utmost importance. If your non-Muslim classmates treat you with respect and kindness, cultivating a good relationship with them is certainly not contrary to Islamic principles. In fact, Islam teaches us to interact with others with good manners and to uphold their rights. The life of Prophet Muhammad (saws) is filled with examples of how to build positive relationships and show kindness, even towards non-Muslims.
The core message of this hadith is that your closest friends should be those who enhance your spiritual life and help you stay on the righteous path. It is important to be cautious of friendships that might jeopardize your beliefs, lead you astray, or cause harm in any way. If your non-Muslim friends respect your faith and treat you with kindness, then forming a friendship with them is permissible, as long as they do not negatively influence your religious views, and you are surrounded by companions who encourage you toward righteousness. May Allah grant us the wisdom to live with the best character and the guidance to follow the right path! Ameen
قوله: باب ما يجوز من الهجران لمن عصى۔۔۔ أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز؛ لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع، فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها". (فتح الباری،10/497،ط:دارالمعرفة بیروت)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3292/46-9024
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "ثاقب " عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے روشن ،چمک دار ، "مُحسِن" عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے: احسان کرنے والا۔ "اسرائیل" یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے، یہ ”اسرا“ اور”ایل“ دو لفظوں سے مرکب ہے، جس کا معنی ہے عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ معنی کے اعتبار سے یہ سب نام اچھے ہیں، اس لئے ان میں سے کوئی بھی نام رکھنا درست ہے۔ انگریزی میں آپ اس طرح لکھ سکتے ہیں۔ Saqib, Muhsin, Israeel.
(2) مفرد نام رکھنا ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ مرکب نام رکھنا بھی درست ہے بشرطیکہ معنی میں کوئی خرابی نہ ہو، البتہ نام رکھنے میں بہتر یہ ہے کہ صحابہ و تابعین کے ناموں سے انتخاب کیاجائے؛ وہ نام اچھے بھی ہوتے ہیں اور ان میں برکت بھی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3276/46-8086
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لاشعوری اور غفلت کی زندگی گزارنا، اپنے فرائض منصبی سے پہلو تہی اختیار کرنا ، تعلیمی اور فنی میدان میں پیچھے رہ جانا، اسلامی طرز زندگی اور اسلامی اخلاق کا ان کی زندگی سے عنقاء ہوجانا مسلمانوں کے زوال کے اہم اسباب ہیں۔ جب تک ان امور پر محنت نہیں ہوگی اور قومی مفاد پر اپنے ذاتی مفاد کو ہی ترجیح دی جاتی رہے گی مسلمانوں کا عروج واپس نہیں آئے گا۔
آپ نے مدارس کے حوالہ سے جو دو باتیں ذکر کی ہیں یقینا وہ قابل توجہ ہیں اور قابل عمل بھی۔ اس سلسلہ میں اہل علم کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں میں موجودہ عوامل پر قابو پایاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3242/46-9016
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اپنے نام کے ساتھ اپنے والد کے نام کو جوڑ نا اور اپنا نام تبدیل کرنا جائز اور درست ہے اور آپ اپنا ثاقب بن محسن (Saqib bin mohsin) رکھ سکتے ہیں۔ عربی میں نام کے بعد ابن بن اور بنت کا ضابطہ یہ ہے کہ نام یا تو مذکر ہوگا یا مؤنث ہوگا، اگر مذکر ہو تو مندرجہ ذیل شروط پائی جائیں گی تو پھر نام کے بعد لفظ بن لکھا جائے گا۔(۱) لفظ ابن سے پہلے اور بعد میں کوئی علم ہو۔(۲) ابن اور اس علم کے درمیان کوئی فاصلہ نہ ہو، بلکہ دونوں متصل ہوں۔ (۳) لفظ ابن ماقبل والے اسم کی صفت ہو۔(۴) دوسرا اسم پہلے والے اسم کا حقیقی والد ہو۔تو اگر مذکورہ چاروں شرطیں پائی جائیں تو پھر لفظ بن بغیر ہمزہ کے لکھا جائے گا، اور اس کے علاوہ باقی صورتوں میں لفظ ابن ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے گا، جیسا کہ:(۱) جب کسی انسان کی نسبت دادا، یا پر دادا یا اس سے اوپر شجرہ نسب کی طرف کردی جائے، جیسے محمد ابن عبد المطلب، یاابن آدم وغیرہ۔(۲) جب دونوں میں باپ بیٹے کا رشتہ نہ ہو، جیسے زید ابن الجزائز، ابن السبیل وغیرہ۔(۳) جب دونوں میں حقیقی باپ بیٹے کا رشتہ نہ ہو، جیسے زید ابن محمد۔(۴) جب دونوں (لفظ بن اور علم) کے درمیان اتصال نہ ہو، جیسے طارق ہوا بن زیاد۔(۵) جب بیٹے کی نسبت ماں کی طرف ہو، جیسے عیسی ابن مریم۔(۶) جب پہلے یا بعد میں علم نہ ہو، جیسے زید ابن الشجعان۔(۷) جب لفظ ابن سے ابتداء کی جائے جیسے ابن عبد اللہ، ابن مسعود۔(۸) جب التقائے ساکنین ہو، جیسے رسولنا ابن عبد اللہ۔(۹) جب لفظ ابن خبر واقع ہو، جیسے کوئی پوچھے محمد ابن من؟(۱۰) جب فلاں کو ولد اور فلاں کو والد بنایا جائے جیسے فلاں ابن فلاں۔(۱۱) جب لفظ ابن کو تثنیہ بنایا جائے جیسے قاسم، ابراہیم، ابا محمد۔ (۱۲) جب لفظ ابن پر حرف ندا داخل ہو جیسے یا ابن اخی۔پس مذکورہ سب صورتوں میں لفظ ابن ہمزہ کے ساتھ لکھا جائے گا اور اگر وہ مؤنث ہے تو پھر لفظ بنت لکھا جائے گا، جیسے فاطمۃ بنت محمد۔نیز اسلامی نام رکھنے کا کوئی متعین طریقہ نہیں ہے، بہتر ہے کہ اچھے معنی پر مشتمل نام رکھا جائے، نام کا اثر بچے پر پڑتا ہے، اس لیے یا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نام رکھا جائے یا جو آپ نے نام پسند کئے ہیں وہ نام رکھے جائیں، مختلف احادیث میں محمد نام رکھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے، اس سلسلہ میں آب نام کیسے رکھیں مصنف مفتی خالد قاسمی، راہنمائے اسلامی نام مصنف مولانا عبد الشکور قاسمی ،نام ہوں تو ایسے ہوں مصنف مولانا غیاث الدین رشادی، اسلامی ناموں کی فہرست مصنف مفتی محمد رضوان راولپنڈی ،اسلامی ناموں کی لغت مصنف پروفیسر ندیم احمد صدیقی جیسی کتابوں سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
’’ما ضر أحدکم لو کان في بیتہ محمد ومحمد ان وثلثۃ‘‘ (فیض القدیر: ج ۵، ص: ۴۵۳)’’قال بعض الحفاظ واصحہا أي اقربہا للصحۃ مر ولد لہ مولود فسماہ محمد حبایی وتبرکا باسمي کان ہو ومولودہ في الجنۃ‘‘ (السیرۃ الحلبیۃ: ج ۱، ص: ۱۲۱، دار الکتب، العلمیۃ، بیروت)’’عن ابن عمر عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أحب الأسماء إلی اللّٰہ عز وجل عبد اللّٰہ وعبد الرحمن‘‘ (ابن ماجہ: رقم الحدیث: ۳۷۲۸)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3038/46-4852
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فجر کی نماز طلوع آفتاب سے اتنی دیر پہلے پڑھنی چاہئے کہ مسنون قراءت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد اگر نماز میں کسی فساد کا علم ہو اور نماز کے اعادہ کی ضرورت پڑے تو وقت کے اندر ہی نماز کا اعادہ ممکن ہو۔ عام طور پر فجر میں مسنون قراءت کرنے کے لئے دس سے پندرہ منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اس لئے فجر کی نماز طلوع آفتاب سے کم از کم پچیس منٹ قبل پڑھنی چاہئے۔ اتنی تاخیر کردینا کہ نماز میں شبہہ ہوجائے یا نماز فاسد ہونے کی صورت میں اعادہ کا وقت باقی نہ رہے ، بالکل مناسب نہیں ہے۔ لیکن اگر تاخیر سے نماز ہوتی ہے اور مسنون قراءت کے ساتھ ہوتی ہے مگر مسنون قراءت کے ساتھ اعادہ کا وقت باقی نہیں رہتاہے تو ایسا کرنا مناسب نہیں لیکن یہ وعید میں داخل نہیں ہوگا، کیونکہ اس نے نماز میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندHadith & Sunnah
Ref. No. 2974/45-4711
Answer
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is not permissible for a woman to go on a long journey without a mahram, so it is better to leave the girl behind with a mahram. However, if the mahram is not available and you fear fitnah, you can take her with you in this case only. Your statement that the brother-in-law is a temporary mahram is wrong and it has no root in Sharia.
And Allah knows best
Darul Ifta Darul Uloom Waqf Deoband
Hadith & Sunnah
Ref. No. 2759/45-4306
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Dyeing white hair is preferable and leaving white hair undyed is also correct. It is recommended to dye hair with colors other than pure black. Dyeing with red colour or henna is masnoon.
You can dye your beard and hair or leave it white, but the hair should be well-groomed and tidy.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deaband
Hadith & Sunnah
Ref. No. 1149/42-374
In the name of Allah the most gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Singing Dua like a song is not allowable, but if one beautifies his voice in dua while he is sincere in it, then it will be permissible.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Hadith & Sunnah
Ref. No. 1508/42-986
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
According to the experts of Hadith, as the sayings and actions of the Prophet (saws) are called hadith, the same way the sayings and actions of the companions are called hadith. But, the sayings and actions attributed to the Prophet (saws) are called ‘Hadith-e Marfooa’ and the sayings and actions attributed to a companion are called ‘Hadith-e Mauqoof’.
فصل في ألفاظ يتداولها أهل الحديث) المرفوع ما أضيف إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم خاصة لا يقع مطلقه على غيره سواء كان متصلا أو منقطعا وأما الموقوف فما أضيف إلى الصحابي قولا له او فعلا أو نحوه متصلا كان أو منقطعا ويستعمل في غيره مقيدا فيقال حديث كذا وفقه فلان على عطاء مثلا وأما المقطوع فهو الموقوف على التابعى قولا له أو فعلا متصلا كان أو منقطعا )شرح النووی علی مسلم، فصل فی الفاظ یتداولھا اھل الحدیث 1/29) والمراد بالحديث في عرف الشرع ما يضاف إلى النبي وكأنه لوحظ فيه مقابلة القرآن لأنه قديم وهذا حديث انتهى وفي شرح الألفية الحديث ويرادفه الخبر على الصحيح ما أضيف إلى النبي أو إلى الصحابي أو إلى دونه قولا أو فعلا أو تقريرا أو صفة. (فیض القدیر، مقدمۃ المؤلف 1/17)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Hadith & Sunnah
Ref. No. 934
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The Sunnah of the Prophet Muhammad (saws) of two types; Sunnat-e Muakkadah (which the Prophet did persistently) and Sunnat-e Ghair-Muakkadah (which the prophet did but did not do persistently).
Sunnat-e Muakkadah brings a great deal of reward. Hence, it is a sin to abandon the sunnat e muakkadah for no reason. While leaving the sunnat e Ghair muakkadah is not a sin. But the one who neglects this suunah is missing out on a great reward. Acting upon sunnat Ghair Muakkadah is also a virtuous deed, one should follow it too. For detail you had better study the book “Talimul Islam”.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband