ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref.  No.  3372/46-9243

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  قرآن کریم میں  اس ذبیحہ کے کھانے سے منع کیاگیا ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو، علما احناف نے اس کو عمدا  ترک تسمیہ پر محمول کیا ہے،  اگر عمدا ترک تسمیہ پر بھی جانور حلال گردانا گیا تو قرآن کا حکم (ولا تاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ ) مرتفع ہوجائے گا، اس لئے سہوا اگر تسمیہ چھوٹ جائے تو حرج نہیں ہے  ذبیحہ حلال ہوگا مگر عمدا ترک تسمیہ کی صورت میں ذبیحہ حرام و مردار ہوگا، اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ ترک تسمیہ کے سلسلہ میں  ذابح صحیح مسئلہ سے واقف تھا یا نہیں۔ لیکن اگر ذابح نے تسمیہ کے علاوہ ذبح کے وقت کوئی اور ذکر کیا تھا مثلا اللہ اکبر ، سبحان اللہ ، الحمدللہ وغیرہ تو وہ بھی ذاکر کے حکم میں ہوگا اور اس کے ذبیحہ کا کھانا حلال ہوگا۔

لا تحل ذبیحة ……تارک تسمیة عمداً……فإن ترکھا ناسیاً حل ………والشرط فی التسمیة ھو الذکر الخالص عن شوب الدعاء وغیرہ……والمستحب أن یقول: بسم اللہ أللہ أکبر الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الذبائح، ۹: ۴۳۱-۴۳۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، ویجري ذلک المذکور في کل ما یتعلق بنطق کتسمیة علی ذبیحة الخ (المصدر السابق، ۲: ۲۵۳)، قولہ: ”ویجري ذلک المذکور“:یعنی: کون أدنی ما یتحقق بہ الکلام إسماع نفسہ أو من بقربہ (رد المحتار)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 3362/46-9240

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: سب سے پہلے آپ یہ سمجھ لیجیے کہ ہر سوال  کے جواب کا قرآن وحدیث میں صراحت کے ساتھ پایا جانا ضروری نہیں ہے۔ اور قرآن و حدیث  سے نئے  مسائل کا حکم معلوم کرنے کے لئے جن باریکیوں سے گزرنا ہوتاہے اس کاعام لوگوں کی سمجھ میں آنا ضروری نہیں ۔ اس لئے مجتہدین اور کبار علماء نے بڑی عرق ریزی کے ساتھ قرآن و حدیث سےمسلمہ اصول وضوابط کے تحت جدید مسائل  اخذ کرکے کتابیں مرتب کی ہیں اور مسائل بیان کرتے وقت اس کی علت کی جانب بھی رہنمائی کی ہے، اس لئے ہمیں ان کتابوں کا حوالہ بھی کافی ہونا چاہئے۔

چھوٹے جانور میں یا  بڑے جانور کے  ایک  حصے میں شرعاً   ایک  ہی نیت کی جاسکتی ہے، خواہ قربانی کی نیت  ہو یا  عقیقہ کی، ایک حصے میں دو نیتیں درست نہیں ۔

البتہ قربانی کے بڑے  جانور (اونٹ ، بھینس وغیرہ) کے سات حصوں میں قربانی کے حصہ کے علاوہ عقیقہ کی نیت سے مستقل حصہ شامل کیا جاسکتا ہے، جو حصہ عقیقہ کی نیت کا ہوگا وہ عقیقہ شمار ہوگا، باقی حصے قربانی کے شمار ہوں گے۔ قربانی کے ساتھ عقیقہ کرتے ہوئے  قربانی کی  بھینس  وغیرہ  میں لڑکے کے لیے دو حصے اور لڑکی کے لیے ایک حصہ رکھ لے۔ چونکہ  قربانی اور عقیقہ دونوں کا مقصد تقرب الی اللہ ،  اللہ کی رضا وخوشنودی حاصل کرنا ہے، اس لئے دونوں کو ایک جانور میں شامل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جیسا کہ ایک ہی جانور میں سات لوگوں کی طرف سے قربانی کی نیت درست ہے اور یہ حدیث سے ثابت ہے۔

’’حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا مالك، ح وحدثنا يحيى بن يحيى، - واللفظ له - قال: قرأت على مالك، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: «نحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة»‘‘۔۔۔’’ وحدثني محمد بن حاتم، حدثنا وكيع، حدثنا عزرة بن ثابت، عن أبي الزبير، عن جابر بن عبد الله، قال: «حججنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فنحرنا البعير عن سبعة، والبقرة عن سبعة»‘‘(مسلم (2/ 955)

" والبقر والبعير يجزي عن سبعة إذا كانوا يريدون به وجه الله تعالى، والتقدير بالسبع يمنع الزيادة، ولا يمنع النقصان، (الهندية (5/ 304)

"فَلَا يَجُوزُ الشَّاةُ وَالْمَعْزُ إلَّا عَنْ وَاحِدٍ وَإِنْ كَانَتْ عَظِيمَةً سَمِينَةً تُسَاوِي شَاتَيْنِ مِمَّا يَجُوزُ أَنْ يُضَحَّى بِهِمَا ؛ لِأَنَّ الْقِيَاسَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ أَنْ لَا يَجُوزَ فِيهِمَا الِاشْتِرَاكُ ؛ لِأَنَّ الْقُرْبَةَ فِي هَذَا الْبَابِ إرَاقَةُ الدَّمِ وَأَنَّهَا لَا تَحْتَمِلُ التَّجْزِئَةَ ؛ لِأَنَّهَا ذَبْحٌ وَاحِدٌ وَإِنَّمَا عَرَفْنَا جَوَازَ ذَلِكَ بِالْخَبَرِ فَبَقِيَ الْأَمْرُ فِي الْغَنَمِ عَلَى أَصْلِ الْقِيَاسِ". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (10/ 278)

"وكذا لو أراد بعضهم العقيقة عن ولد قد ولد له من قبل؛ لأن ذلك جهة التقرب بالشكر على نعمة الولد ذكره محمد". (فتاوی شامی 6/ 326، کتاب الاضحیة، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref.  No.  3338/46-9185

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ :۔ کتاب و سنت میں مردوعورت دونوں کے لئے ایک ضابطہ و قانون ہے۔ سورہ نور آیت ۳۰، ۳۱ میں مردوعورت دونوں کو نگاہ نیچی رکھنے اور شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم کے ساتھ واضح فرمایاگیا کہ عورت کن لوگوں کےسامنے آئے اور کن لوگوں کے سامنے نہ آئے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عورتوں کے پاس جانے سے بچو ایک انصاری صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ دیور کے متعلق آپ کی کیارائے ہے ؟ تو حضور ﷺ نے فرمایا دیور تو موت ہے۔  اس لئے عید کے موقعہ پر مردوعورت کا ایسا اجتماع جس میں بے پردگی ہو جائز نہیں ہے، ایسے اجتماعات سے پرہیز لازم ہے۔

عن عقبۃ بن عامر ان رسول اللہ ﷺ قال ایاکم والدخول علی النساء فقال رجل من الانصار یا رسول اللہ افرأیت الحمو قال الحمو الموت (صحیح البخاری، باب لایخلون رجل بامراۃ الا ذو محرم والدخول علی المغیبۃ ۵۲۳۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 3270/46-6068

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی میں شامل ہونے اور اس سے نفع حاصل ہونے کی جو شکلیں رائج ہیں وہ سب غیرشرعی اور ناجائز ہیں۔ اس لئے کہ نیٹ ورک مارکیٹنگ کمپنی کا ممبر بننے کے لئےایک متعینہ رقم اداکرکے اس کی مصنوعات خریدنے کی شرط ہوتی ہے جوغیر شرعی شرط ہے۔ اسی طرح  ممبرسازی بڑھنے پر بالواسطہ اور بلاواسطہ کمیشن بھی ملتارہتاہے جس میں آپ کو بلاکسی عمل کے بھی   کمیشن ملتاہے جو ناجائز ہے۔ نیزاس کمپنی کی مصنوعات کی ماہانہ خریداری  کی صورت میں ہی آپ کمیشن کے مستحق ہوں گے۔ اس لئے ان تمام مفاسد کی بناء پر کسی بھی نیٹ ورک مارکیٹنگ میں جس کی یہ صورت ہو شامل ہونا ، ممبربننا، کمیشن لینا اور ان کے ساتھ کاروبار کرنا شرعا جائز نہیں ہے۔آپ نے جس کمپنی کا ذکر کیا ہے ہمیں اس کے  طریقہ کار کا کچھ علم نہیں ہے۔ اس لئے اگر  آپ کی کمپنی  کا طریقہ کار کچھ مختلف ہو تو دوبارہ پوری تفصیل کے ساتھ سوال بھیجیں تاکہ اسی کے مطابق جواب لکھاجائے۔

قال اللہ تعالی:﴿يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾(سورۃ المائدۃ:90) 

لأن القمار من القمر الذي يزداد تارة وينقص أخرى، وسمي القمار قمارا لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص۔(رد المحتار، كتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء وغيره، فصل في البيع ، ج:9 ص:577)

 فلو جوزناه لكان استحقاقا بغير عمل ولم يرد به الشرع۔(الھدایة،کتاب المساقاۃ،ج:4،ص:430)

الأمور بمقاصدھا:یعني أن الحکم الذی یترتب علی أمر یکون علی ما ھو المقصود من ذالک الأمر۔(شرح المجلة لسلیم رستم باز،المقالة الثانیة فی بیان القواعد الفقہیة،المادۃ:2،ص:(17

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2961/45-4712

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کوئی پورا جانور ایک ساتھ لیتاہے تو اس کو 13000 میں یعنی  ایک ہزار کی رعایت کے ساتھ  بیچنے والا  بیچ دیگا، تاکہ خریدار اپنی قربانی ادا  کرے اور اپنے اہل خانہ کو شریک کرلے۔ اور اگر ایک جانور میں مختلف لوگوں کو  2000 کے حساب سے شریک کرکے 14000 کا جانور قربانی میں ذبح کیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے اس طرح کا اعلان نکالنے اور اس کے مطابق جانور بیچنے اور خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2967/45-4707

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قربانی کے جانور کی کھال  جب تک فروخت نہ کی جائے اس کا حکم مختلف ہے،  خود قربانی کرنے والا اپنے  استعمال  میں لاسکتاہے اور کسی امیر و غریب کو ہدیہ کردے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ تاہم اگر اس کو فروخت کردیا گیا تو اس کی قیمت کا تصدق واجب ہوجاتاہے۔  اس لئے اگر کھال مسجد کو استعمال کے لئے دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن عام طور پر مسجد کو کھال دینے کا مطلب ہوتاہے کہ متولی اس کھال کو بیچ کر اس کی رقم مسجد میں استعمال کرے اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد واجبی صدقہ کا مصرف نہیں ہے، واجبی صدقہ کا مصرف مستحق زکوٰة غریب شخص ہے یعنی اس کو تملیکاً دینا واجب ہے اور مسجد میں قیمت صرف کردینے سے تملیک شرعی کا تحقق نہیں ہوتاہے۔  اس لیے مسجد کے لئے کھال کا جمع کرنا ہی درست نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص  اپنی قربانی کی کھال  امام یا مؤذن یا کسی کو بھی ہدیہ کے طور پر دیدے  اور وہ اس کو بیچ کر اپنے علاج وغیرہ میں استعمال کرے تو اس کی گنجائش ہے۔

وعند أبي يوسف لا ينفذ لما ذكرنا فيما قبل الذبح ويتصدق بثمنه؛ لأن القربة ذهبت عنه فيتصدق به ولأنه استفاده بسبب محظور وهو البيع فلا يخلو عن خبث فكان سبيله التصدق وله أن ينتفع بجلد أضحيته في بيته بأن يجعله سقاء أو فروا أو غير ذلك

(بدائع الصنائع، كتاب التضحية ، فصل في بيان ما يستحب قبل التضحية وبعدها وما يكره ، ج : 5 ص : 81 ط : دارالكتب العلمية)

وكذلك لا يشترى به اللحم، ولا بأس ببيعة بالدارهم ليتصدق بها، وليس له أن يبيعها بالدارهم لينفقه على نفسه، الخانية: أو عياله، م: ولو فعل ذلك تصدق بثمنها (التاتارخانیۃ كتاب الاضحية، الفصل: الانتفاع بالاضحية:440/17، فاروقية) (الهندية:كتاب الاضحية، الباب السادس، في بيان ما يستحب في الاضحية والاتنفاع بها:347/5، دار الفكر)’’(فإن بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدارهم تصدق بثمنه)‘‘.( التنويرمع الدر:  كتاب الاضحية:543/9، رشيدية)

’’لایصرف إلی بناء نحو مسجد إلخ‘‘.  (قولہ:نحو مسجد کبناء القناط والسقیات إلخ) وکل مالاتملک فیہ‘‘.(التنویر مع الدر، کتاب الاضحیۃ:62/2،بیروت)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1491/43-1313

الجواب وباللہ التوفیق:۔ داڑھی مونڈنے پریا ایک مشت سے کم کرنے پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ لیکن بال کاٹنے یا سر مونڈنے  کی اجرت جائز ہے۔ اس لئے ایسا شخص قربانی کے جانور میں اگر حصہ لیتاہے تو کوئی حرج نہیں ہے ، حلال کمائی کے ساتھ شرکت مان کر تمام شرکاء کی قربانی درست ہوگی۔  البتہ اگر کسی کا کام محض  داڑھی تراشنا ہو اور پوری کمائی اس کی یہی ہو اور وہ اس ناجائز آمدنی کے ساتھ قربانی کے جانور میں شرکت کرے تو بھی بعض علماء نے گنجائش دی ہے تاہم ایسے شخص کو شریک نہ کیاجائے یہی احوط ہے، اور اگرشریک  کرلیا ہے  تو اس شخص سمیت سب کی قربانی درست ہوجائے گی۔ اگر شریک کرتے وقت یقینی طور پر معلوم نہ ہوکہ اس کی رقم حرام ہے تو بھی باقی شرکاء کی قربانی درست ہوجائے گی۔ 

ولا تجوز الإجارة على شيء من الغناء والنوح والمزامير والطبل أو شيء من اللهو ولا على الحداء وقراءة الشعر ولا غيره ولا أجر في ذلك، وهذا كله قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد، لأنه معصية ولهو ولعب (البنایۃ علی الھدایۃ اجارۃ المشاع 10/183)۔ ولا يجوز أن يستحق على المرء فعل به يكون عاصيا شرعا (المبسوط للسرخسی، باب الاجارۃ الفاسدۃ 16/38) (ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتحب الزکاۃ ویورث عنہ) لان الخلط استہلاک اذا لم یمکن تمییزہ عند امام ابی حنیفہ (شامی، باب زکوۃ الغنم 2/290)

وان مات  احدالسبعۃ المشترکین فی البدنۃ وقال الورثۃ اذبحو عنہ وعنکم صح عن الکل استحسانا  لقصد القربۃ من الکل ولو ذبحوھا بلا اذن الورثۃ لم یجزھم لان بعضھا لم یقع قربۃ وان کان شریک الستۃ نصرانیا  او مریدا اللحم لم یجز عن واحد منہم  لان الاراقۃ لا تتجزا ھدایہ لما مر۔ وقولہ وان کان شریک الستۃ نصرانیا الخ وکذا اذا  کان عبدا او مدبرا یرید الاضحیۃ لان نیتہ باطلۃ لانہ لیس من اھل ھذہ القربۃ فکان نصیبہ لحما فمنع الجواز اصلا بدائع۔(شامی، کتاب الاضحیۃ 6/326) زکاۃ المال الحلال من مال حرام ذکر فی الوھبانیۃ انہ یجزئ عندالبعض۔(شامی، باب زکوۃ الغنم 2/291)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1028/41-196

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قربانی واجب ہے اور صاحب نصاب پر ایام قربانی میں قربانی کرنا ضروری ہے، اس کا کوئی بدل نہین ہے۔ لیکن اگر حالات کی ناموافقت کی وجہ سے کوئی قربانی نہ کرسکا تو ایام قربانی کے بعد اگر بکرا خرید لیاتھا تو زندہ بکرا یا بکرے کی قیمت صدقہ کرنا لازم و ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1494/42-996

وباللہ التوفیق:۔ مسئلہ صحیح ہے اگر ایام قربانی میں غریب قربانی کی نیت سے جانور  خریدے گا تو اس مخصوص جانور کی قربانی اس پر واجب ہوگی۔ غریب کے حق میں قربانی کی نیت سے جانور خریدنا نذر کے درجہ میں ہے جس کا پورا کرنا واجب ہے۔ ایام قربانی سے پہلے خریدنے کا یہ حکم نہیں ہے، اور نہ ہی اس  کی قربانی اس پر واجب ہوگی۔

وإن كان معسرا أجزأته إذ لا أضحية في ذمته، فإن اشتراها للأضحية فقد تعينت الشاة للأضحية (الھندیۃ الباب الخامس بی بیان محل اقامۃ الواجب 5/299) وتجب على الفقير بالشراء بنية التضحية عندنا، فإذا فات الوقت وجب عليه التصدق إخراجا له عن العهدة (فتح القدیرللکمال، کتاب الاضحیۃ 9/514)۔ وأما الذي يجب على الفقير دون الغني فالمشتري للأضحية إذا كان المشتري فقيرا بأن اشترى فقير شاة ينوي أن يضحي بها --- (ولنا) أن الشراء للأضحية ممن لا أضحية عليه يجري مجرى الإيجاب وهو النذر بالتضحية عرفا؛ لأنه إذا اشترى للأضحية مع فقره فالظاهر أنه يضحي فيصير كأنه قال: جعلت هذه الشاة أضحية ۔۔۔ ولو كان في ملك إنسان شاة فنوى أن يضحي بها أو اشترى شاة ولم ينو الأضحية وقت الشراء ثم نوى بعد ذلك أن يضحي بها لا يجب عليه سواء كان غنيا أو فقيرا؛ لأن النية لم تقارن الشراء فلا تعتبر (بدائع الصنائع، صفۃ التضحیۃ 5/62)۔

وفي الاختيار: لا تجب الأضحية على الفقير، لكنها تجب بالشراء، ويتعين ما اشتراه للأضحية. فإن مضت أيام الأضحية ولم يذبح، تصدق بها حية؛ لأنها غير واجبة على الفقير، فإذا اشتراها بنية الأضحية تعينت للوجوب، والإراقة إنما عرفت قربة في وقت معلوم، وقد فات فيتصدق بعينها (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ، الالتزام او التعیین بالنیۃ او القول 12/167).

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 1496/42-995

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسئلہ درست ہے، غریب نے خریدے ہوئے جانور کے گم ہونے پر دوسرا جانور جب قربانی کی نیت سے خریداتو دوسرے کی قربانی بھی نذر کے درجہ میں ہوکر واجب ہوگئی۔ لیکن اگر نیت یہ تھی کی پہلے جانور کی جگہ یہ دوسرا خریدرہاہے تو اس میں  پھر ایک ہی جانور قربانی کی نیت سے خریدنا  کہاجائے گا اور ایک ہی کی نذر مانی جائے گی۔ ایسے میں اگر پہلا جانور مل گیا تو چونکہ ایک ہی کی نیت تھی اس لئے ایک کی  قربانی کافی ہوگی۔

وفي فتاوى أهل سمرقند: الفقير إذا اشترى شاة للأضحية فسرقت فاشترى مكانها، ثم وجد الأولى فعليه أن يضحي بهما، ولو ضلت فليس عليه أن يشتري أخرى مكانها (البحر، کتاب الاضحیۃ 8/199) وفي «فتاوى أهل سمرقند» : الفقير إذا اشترى أضحية، فسرقت، فاشترى أخرى مكانها، ثم وجد الأولى، فعليه أن يضحي بهما، فرق بينه وبينما إذا كان غنياً، والفرق: أن الوجوب على الفقر بالشراء، والشراء يتعدد، فيتعدد الوجوب، والوجوب على الغني بإيجاب الشرع، والشرع لم يوجب الأضحية إلا واحدة. (المحیط البرھانی فی الفقہ النعمانی، الفصل الثانی فی وجوب الاضحیۃ بالنذر 6/87) وإن كان معسرا يلزمه ذبح الكل لأن الوجوب على الغني بالشرع ابتداء لا بالشراء فلم يتعين له وعلى الفقير بشرائه بنية الأضحية فتعينت عليه (الجوھرۃ النیرۃ علی القدوری، وقت الاضحیۃ 2/187) قالوا: إذا ماتت المشتراة للتضحية؛ على الموسر مكانها أخرى ولا شيء على الفقير، ولو ضلت أو سرقت فاشترى أخرى ثم ظهرت الأولى في أيام النحر على الموسر ذبح إحداهما وعلى الفقير ذبحهما (العنایۃ شرح الھدایۃ کتاب الاضحیۃ 9/516)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند