طلاق و تفریق

Ref. No. 3471/47-9407

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔   نامحرم مرد کا میسیج دیکھ کر آپ نے غصہ میں کہا کہ تم میری طرف سے  آزاد ہو ،اس سے ایک طلاق صریح بائن واقع ہوگئی۔ نکاح ٹوٹ چکاہے ۔ اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو گواہوں کی موجودگی میں جدید مہر کے ساتھ   دوبارہ نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔  دوبارہ نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہرکوصرف دوطلاق کاحق حاصل ہوگا۔

’’وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية(الدر المختا ر مع رد المحتار ،کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق ج3ص252 سعید)

’’والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم.‘‘ (بدائع الصنائع کتاب الطلاق،فصل فی النیۃ،ج:3،ص:102،دار الکتب العلمیۃ)

’’ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو أنت حرة أو أنت أعلم بشأنك. فقالت: اخترت نفسي. يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء.‘‘ ف(تاوی ہندیہ  کتاب الطلاق،الفصل الخامس،ج:1،ص:375،ط:دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3468/47-9396

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  دارالقضا کا اپنا ایک طریقہ کار ہے، اگر کوئی اپنی اہلیہ کو نہ تو صحیح طریقہ پر رکھتاہے اور نہ ہی طلاق دیتاہے تو دارالقضاء سے رجوع کیاجاسکتاہے، تاکہ عورت پر کوئی ظلم نہ کرسکے اور زمانہ جاہلیت کی طرح اس کو بیچ میں معلق نہ رکھاجائے۔ تاہم اس سلسلہ میں دارالقضا سے ہی رجوع کیاجائے کہ انہوں نے تفریق کا کیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ تفصیل ان سے ہی مل سکتی ہے۔واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3448/47-9366

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  ۔     مشت زنی کا مطلب اپنے ہاتھ کے عمل سے منی  خارج کرنا ہے ، لہذا جس نے مشت زنی پر طلاق کو معلق کیا تھا اگر انزال سے قبل رک گیا تو مشت زنی کا عمل مکمل نہیں ہوا اس لئے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں  ہوئی۔ تاہم خیال رہے کہ مشت زنی ایک بہت ہی گندی حرکت ہے اور باعث گناہ ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔ جب شہوت کا غلبہ ہو تو بیوی سے ملاقات کرلینی چاہئے، اور ایسی حرکت سے بچناچاہئے کہ اس  کے جسمانی نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔  پھر ابھی اگر شہوت کا غلبہ ہو تو نفلی روزوں کا اہتمام کیجئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3428/47-9329

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔        بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں عورت پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔کیونکہ شوہر کے وعدۂ طلاق سے یا طلاق کی دھمکی دینے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اور اس سلسلہ میں شوہر کا قول معتبر ہے، لہذا عورت کو چاہئے کہ شوہر کی بات پر اعتماد کرکے اس کے ساتھ رہے۔ اور شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو آئندہ طلاق دینے سے گریز کرے اور اگر کوئی بات پیش آئے تو دونوں  اس کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کریں۔ ضرورت پڑے تو اہل خانہ سے بھی مشورہ لیا جائے، اور طلاق دینے میں جلدی نہ کرے۔

"الوعد بالطلاق لا يقع به الطلاق" (الفتاویٰ الہندیہ 1/374)

التهديد بالطلاق لا يقع به الطلاق ما لم يصدر اللفظ. (رد المحتار، 3/246، دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3425/47-9323

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

 بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی اور شوہر پر حرام ہوگئی، اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا  ہرگز جائز نہیں ہے۔ عورت پر تین ماہواری کی عدت گزارنا لازم ہے۔  عدت  پوری ہونے م کے بعد اپنی مرضی سے جہاں چاہے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔

على المبتوتة والمتوفى عنها زوجها إذا كانت بالغة مسلمة ‌الحداد ‌في ‌عدتها ‌كذا ‌في ‌الكافي. والحداد الاجتناب عن الطيب والدهن والكحل والحناء والخضاب ولبس المطيب والمعصفر والثوب الأحمر وما صبغ بزعفران إلا إن كان غسيلا لا ينفض ولبس القصب والخز والحرير ولبس الحلي والتزين والامتشاط كذا في التتارخانية» (الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الرابع عشر فی الحداد،1/ 533، المطبعة الكبرى الأميرية)

"وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل ل حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها". (کتاب الطلاق، الباب السادس،1/535، ط:  زکریاجدید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3450/47-9328

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر نے رخصتی سے قبل جو طلاق دی تھی اس سے عورت بائنہ ہوگئی تھی، اور نکاح ختم ہوگیا تھا، اور وہ لڑکی آپ کی بیوی باقی نہیں رہ گئی تھی۔ آپ کو تجدید نکاح کا حکم ہوا تو آپ نے تجدید نکاح نہیں کیا، پھر شادی یعنی رخصتی ہوئی؛ ظاہر ہے کہ یہ رخصتی بلانکاح شرعا غلط تھی، جب نکاح ہی باقی نہ رہا تو رخصتی بے معنی ہوئی۔ آپ کوتجدید نکاح کرنی چاہئے تھی۔ البتہ اب بھی آپ دونوں آپسی رضامندی سے تجدید نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ تاہم خیال رہے کہ ایک طلاق رخصتی سے قبل ہی واقع ہوچکی ہے، لہذا  آئندہ آپ کو مزید صرف  دو طلاقوں کا اختیار رہے گا۔ بلا شرعی مجبوری کے طلاق دینا شرعا پسندیدہ نہیں ہے، اس لئے آئندہ طلاق دینے سے لازمی احتراز کریں۔ اگر کوئی بات پیش آجائے تو اہل خانہ سے مشورہ کرکے ہی کوئی قدم اٹھائیں۔

"(وَإِنْ فَرَّقَ) بِوَصْفٍ أَوْ خَبَرٍ أَوْ جُمَلٍ بِعَطْفٍ أَوْ غَيْرِهِ (بَانَتْ بِالْأُولَى) لَا إلَى عِدَّةٍ (وَ) لِذَا (لَمْ تَقَعْ الثَّانِيَةُ)(ردالمحتار شامی، "(3/286، با ب طلاق غیر المدخول بھا، ط؛ سعید)

{لَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ مَا لَمْ تَمَسُّوهُنَّ أَوْ تَفْرِضُوا لَهُنَّ فَرِيضَةً وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ (236) وَإِنْ طَلَّقْتُمُوهُنَّ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَمَسُّوهُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِيضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ إِلَّا أَنْ يَعْفُونَ أَوْ يَعْفُوَ الَّذِي بِيَدِهِ عُقْدَةُ النِّكَاحِ وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَلَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (237)} [البقرة]

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3426/47-9326

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ واضح ہو کہ خلع بھی دیگر مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے۔ اور مالی معاملات کے درست ہونے کے لئے عاقدین کی رضامندی شرعا ضروری ہوتی ہے۔ اسی طرح خلع کے معتبر ہونے اور درست ہونے کے لئے بھی زوجین کی رضامندی شرعاً ضروری ہے۔صورت مسئولہ میں چونکہ شوہر کی رضامندی شامل نہیں تھی، اس وجہ سے مذکورہ خلع ایک طرفہ ہے جو شرعا معتبر نہیں ہوگا۔ لہذا آپ کا نکاح بدستور باقی ہے، تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔

فقالت خلعت نفسی بکزا ففی ظاھر الروایۃ لایتم الخلع مالم یقبل بعدہ (شامی، کتاب الطلاق، باب الخلع 3/440 سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3397/46-9311

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔        جب تک زبان سے طلاق کا تلفظ نہیں کرے گا، خواہ وہ کتنے ہی یقین کے ساتھ طلاق کا ارادہ اور نیت کرلے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ طلاق کا تلفظ زبان سے واضح طور پر کرنا ضروری ہے، چاہے وہ کسی بھی طرح کے الفاظ ہوں جو طلاق کے معنی رکھتے ہوں۔ اس لئے اگر طلاق کی پکی نیت کرے یا دل ہی دل میں طلاق دیدے تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔  

وأما ركنه فهو اللفظ الدال على منع النفس عن الجماع في الفرج مؤكدا باليمين بالله تعالى أو بصفاته أو باليمين بالشرط والجزاء (بدائع، كتاب الطلاق، ج:3، ص:161، دار الكتب العلم )

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي. ۔ ۔ ۔ وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي." (شامی، كتاب الطلاق،ركن الطلاق،ج:3، ص:230، ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3394/46-9276

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔    ’    ’اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے‘‘۔

ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بھی تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ اس لئے بشرط صحت سوال  صورت مسئولہ میں عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے لئے حرام اور اجنبی ہوگئی۔

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

'' عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول (صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی):

'' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (سنن ابی داؤد ، 1/324، باب فی اللعان)

 عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔ (سنن ابن ماجه (1 /145):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3393/46-9275

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔    نشہ کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس لئے اگر شوہر نے دو طلاقیں دی ہیں تو دو طلاقیں واقع ہوگئیں۔ اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو رجعت کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ، البتہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا، آئندہ اگر ایک طلاق بھی دی تو عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

اگر شوہر طلاق کا اقرار کررہاہے تو طلاق واقع ہوگی، اور اگر انکار کررہاہے  اور طلاق پر گواہ بھی نہیں ہیں تو طلاق واقع نہیں ہوگی، تاہم اگر عورت کو یقین ہے کہ شوہر نے دو طلاقیں دی ہیں تو بھی ابھی رجعت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے۔

طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط (الھندیۃ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب الاول، فصل فیمن یقع طلاقہ و فیمن لا یقع طلاقہ، ص: 353، ط: مکتبہ رشیدیہ)

وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء۔ (شامی، جلد3، کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران و حکمہ، ص: 239، ط: ایچ ایم سعید)

"وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَاَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ". (البقرۃ، الآیۃ: 282)

"والمرأۃ کا لقاضی إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ والفتویٰ علی أنہ لیس لہا قتلہ ولا تقتل نفسہا بل تفدی نفسہا بمال أوتھرب (إلی قولہ) فان حلف ولا بینۃ لہا فالإثم علیہ الخ". رد المحتار: (کتاب الطلاق، مطلب فی قول البحر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند