Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 3076/46-4927
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، طلاق کے معاملہ میں مذاق اور دھمکی کا اعتبار نہیں ہوتاہے، صریح طلاق سے بہرصورت طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق اور طلاخ کا فرق بھی قابل اعتناء نہیں ہے۔ اور دوبار دیتاہوں دیتاہوں کہنے سے تاکید ہوئی کوئی مزید طلاق واقع نہیں ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے، اگر عدت کے دوران شوہر رجعت کرلے تو نکاح باقی رہے گا، اور اگر عدت گزرگئی تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا، تاہم اس کا بھی خیال رہے کہ شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3063/46-4895
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی نے شوہر سے خلع کا مطالبہ کیا اور شوہر نے اس کو منظور کرلیا توخلع درست ہوگیا اور عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ خلع کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے جس طرح طلاق کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے اور جس طرح فون پر طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح فون پر خلع بھی صحیح ہوجاتاہے۔
"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"
(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)
"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)
"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3051/46-4879
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر شرط کے پائے جانے کی وجہ سے طلاق واقع ہوگئی۔ طلاق مغلظہ کے واقع ہونے کے بعد عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."
(الھندیۃ، كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١ / ٤٢٠)
"والأصل في جنس هذه المسائل أنه إذا عقد اليمين على عين موصوفة بصفة فإن كانت الصفة داعية إلى اليمين تقيد اليمين ببقائها وإلا فلا كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان." (الھندیۃ، كتاب الأيمان، الباب الخامس في اليمين على الأكل والشرب وغيرهما، ٢ / ٨٢)
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣ / ١٨٧، ، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3020/46-4818
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پورا سوال پڑھنے سے یہ معلوم ہوا کہ آپ نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو فون پر کہا ہے کہ میں تم کو چھوڑرہاہوں۔ پس اس کہنے کی وجہ سے ایک طلاق واقع ہوگئی تھی، اگر اس طلاق کے بعد آپ نے قولی یا عملی رجعت نہیں کی اور عورت کی عدت پوری ہوگئی تو نکاح آپ دونوں کا ختم ہوگیا ۔ اب اس لڑکی سے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ جملہ 'میں تم کو چھوڑرہاہوں " آپ نے عدت کے دوران جتنی بار بولا ہے اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی۔ اگر آپ نے ایک طلاق دی ہے تو آئندہ نکاح کے بعد دو طلاق کا مزید اختیار باقی ہے، اس لئے آئندہ احتیاط کریں اور طلاق دینے سے بچیں۔ لیکن اگر دوران عدت کئی مرتبہ یہ جملہ بولا ہے تو اس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کیاجاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2966/45-4704
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ ضروری ہے ، اس قدر گھناؤنی حرکت کے باوجود اس کے گھر آناجانا بڑی ہی بے غیرتی کی بات ہے، ایمان کا تقاضہ ہے کہ اس سنگین گناہ کے مرتکب کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھاجائے ، یہاں تک کہ جولوگ تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی منع کیاجائے، اور اس شخص کی بیوی کو بھی سمجھایاجائےکہ وہ اب حرام کا مرتکب ہورہی ہے، اس کے لئے اپنے شوہرکے ساتھ رہنا قطعا ناجائز اورشرعی طور پر حرام ہے۔ پنچایت میں اس کو پیش کرکے اس سے توبہ کرائی جائے، اگر وہ بیوی کو طلاق دے کر الگ کردے اور اپنے گناہ پر نادم ہوکر توبہ کرلے اور پھر اس کے بائیکاٹ کو ختم کردیاجائے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندطلاق و تفریق
Ref. No. 2982/45-4726
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شہوت کا سبب بیوی ہے اوراسی حالت شہوت میں انجانے میں مرد نے بلاحائل بیٹی کو چھودیا اور بیٹی کو چھونے سے شہوت میں اضافہ نہیں ہوا تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
تثبت حرمۃ المصاہرۃ بالزنا والمس والنظر بدون نکاح والملک وشبہتہ لان المس والنظرسبب داع الی الوطء فیقام مقامہ احتیاطا ( الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۹/۶۶۳۰)
و الجواب ان العلۃ ہو الوطء السبب للولد و ثبوت الحرمۃ بالمس لیس الا لکونہ سببا لہذا الوطء ( فتح القدیر ۳/۲۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2942/45-4611
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
احناف کے یہاں شہوت کے ساتھ چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے خواہ مس بالشہوت جان بوجھ کر ہو یا انجانے اور غلطی سے۔
‘‘ولا فرق فيما ذكر بين اللمس والنظر بشهوة بين عمد ونسيان’’ (در مختار مع رد المحتار مع تحقيق دكتور فرفور: ج 8، ص: 119)
ہاں انفرادی واقعہ میں اگر مس بالشہوت سے ثبوت حرمت میں غیر معمولی دشواری ہو اور ثبوت شہوت خطاً ہو عمداً نہ ہو تو مفتی حالات اور قرائن کا جائزہ لے کر مذہب غیر پر عمل کرتے ہوئے عدم وقوع حرمت کا فتویٰ دے سکتا ہے۔
(١)مس بالشہوت سے ثبوت حرمت مصاہرت کی صورت میں ضروری ہے جس کو مس کیا ہے شہوت اور میلان ِجماع بھی اسی سے ہو اگر شہوت کسی دوسری عورت سے اور مس کسی اور کو کیا ہے تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
‘‘والعبرۃ للشہوۃ عند المس والنظر لا بعدھما قلت: ویشترط وقوع الشہوۃ علیہا لا علی غیرہا لما في الفیض لو نظر إلي فرج ابنته بلا شهوة فتمنی جارية مثلها فوقعت له الشهوة علي البنت ثبتت الحرمت وإن وقعت علی من تمناها فلا’’ (رد المحتار: ج 8، ص: 112)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2951/45-4674
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احناف کے نزدیک غلطی سے بھی مس بالشہوۃ حرمت مصاہرت کا سبب ہے۔ اس لئے اس سلسلہ میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے تھی۔ البتہ سبب پائے جانے کے بعد حرمت مصاہرت کا ہی حکم ہوگا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان حرمت ثابت ہوچکی ہے اور دونوں کا ایک ساتھ رہنا اب کسی صورت جائز نہیں ہے، شوہر کو چاہئے کہ بیوی کو ایک طلاق دے کر الگ کردے۔ بچوں کا پورا خرچ مع ان کی رہائش ان کے والد کے ذمہ ہے۔ تاہم امام شافعی ؒ کے قول پر فتویٰ دینے کی گنجائش ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں قریبی کسی ماہر مفتی سے براہِ راست ملاقات کرکے صورت حال بتاکر مسئلہ معلوم کرلیں۔
قال رجل: یارسول الله إني زینت بامرأة في الجاهلیة، أفأنکح ابنتها؟ قال : لا أری ذلك، و لایصلح أن تنکح امرأة تطلع من ابنتها علی ماتطلع علیه منها". الخ (فتح القدیر، فصل في بیان المحرمات تحت قوله: لأنها نعمة ج:3،ص:221۔
ومن زنی با مرأة حرمت علیه أمها وبنتها". ( ہدایہ اولین، ص ۲۸۹)
حرمة الصهر تثبت بالعقد الجائز وبالوطئ حلالاً کان أو حراماً أو عن شبهة أو زناً".( فتاویٰ تاتارخانیہ: الفصل السابع في أسباب التحریم، ج:۲، ص:618 )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2955/45-4678
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنا گھر بسانے کی کوشش کرے ، اس لیے کہ بغیر شرعی عذر کے عورت کا خلع کا مطالبہ کرنا گناہ ہے، اور اس پر حدیث شریف میں سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگرخاندان کے بزرگوں اور بڑوں کے سامنے یہ مسائل رکھے جائیں جوشوہر کو سمجھائیں اورنباہ کی شکل نکل آئے تو بہتر ہے، لیکن اگر کسی صورت گھر بسانا ممکن نہ ہو تو شوہر سے کسی طرح عورت طلاق لینے کی کوشش کرے، اگر شوہر طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو پھر اس کو کچھ مال وغیرہ دے کر یا مہر نہ لیا ہو تو اس کے عوض شوہر کی رضامندی سے خلع لے سکتی ہے۔ جب اس کے حقوق تلف ہورہے ہوں اور نباہ کی شکل نہ بن پائے اور شوہر کی زیادتی کی وجہ سے عورت خلع لینے پر مجبور ہو تو پھروہ گہنگار نہیں ہوگی۔ لیکن یہ خیال رہے کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر کورٹ کا یک طرفہ خلع نامہ جاری کرنا شرعا معتبر نہیں۔
حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة". (سنن أبي داود (2/ 234)
"اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال". (الھندیۃ، كتاب الطلاق ، الباب الثامن في الخلع، 1/ 519 ط:قديمي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند