Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 3545/47-9550
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جن لوگوں سے پردہ لازم ہے، ان سے عورت ہر حال میں پردہ کرے گی، عدت کے زمانہ میں بھی پردہ لازم ہے اور عدت کے بعد بھی پردہ لازم ہے۔ اگر عورت عدت گزاررہی ہے تو جو لوگ غیر محرم ہیں ان کو چاہئے کہ اس سے دور رہیں اور سامنے نہ آئیں۔ شوہرنے کتنی طلاق دی ہے وغیرہ وضاحت دوبارہ لکھ کر بھیجیں تاکہ تفصیل سے جواب دیاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3517/47-9485
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اگر غصہ کی شدت کو آپ نے جنون سے تعبیر کیا ہے لیکن اصلا جنون نہیں تھا تو شدید غصہ میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے، اگر تین طلاق دی گئی ہےتو اب ساتھ رہنا ہرگز جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3516/47-9484
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ خلع کے لئے شوہر کی رضامندی ضروری ہے۔ اگر شوہر خلع کے لئے تیار نہ ہو اور طلاق بھی نہ دیتا ہو تو کسی قریبی دار القضاء میں جاکر فسخ نکاح کا معاملہ درج کرائیں وہاں سے آپ کو ان شاء اللہ اطمینان بخش جواب ملے گا اور اس کا حل وہاں سے ہی ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3493/47-9444
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔اگر بیوی آپ کے حقوق ادانہیں کرتی اور بات نہیں مانتی تو گھر کے بڑوں اور بزرگوں سے اس سلسلہ میں مشورہ کریں، اگر پھر بھی بات نہ بنے اور اس کے رویہ میں کوئی تبدیلی محسوس نہ ہو تو اس کو ایک طلاق دے کر عدت گزارنے کے لئے چھوڑدیں۔ اور اگر چاہیں تو اس کو طلاق نہ دیں اور دوسری شادی کرلیں جو آپ کی ضرورت پوری کرسکے ۔ آپ کے پاس دوسری شادی کرنے کا معقول عذر ہے بشرطیکہ اسلامی قانون کے مطابق دونوں میں عدل کرنے کی اہلیت واستطاعت آپ کے اندر موجود ہو ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3489/47-9421
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بیوی کے علاوہ دیگر عورتوں کو ہمیشہ کے لئے حرام کہنایمین کلما کے درجہ میں ہے، لہذا آپ اپنی قسم کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کرسکتے۔ اگر آپ نے ہمیشہ کا لفظ استعمال نہ کیا ہوتا تو قسم کا کفارہ دینے سے مسئلہ کا حل نکل جاتا۔ اس لئے آپ اپنے الفاظ پر غور کرلیں۔
من حرّم أي علی نفسہ ․․․․ شیئاً ․․․․ ثم فعلہ ․․․․․ کفّر لیمینہ لما تقرّر أن تحریم الحلال یمین ․․․․․ کل حلّ أو حلال اللہ أو حلال المسلمین عليّ حرام ․․․․ فہو علی الطعام والشراب ولکن الفتوی فی زماننا علی أنہ تبین امرأتہ․․․․ وإن لم تکن امرأتہ وقت الیمین․․․․ فیمین الخ (درمختار مع ردّ المحتار: 5/000، کتاب الأیمان، مطبوعہ: مکتبہ زکریا، دیوبند)
الایمان مبنیۃ علی الالفاظ (قواعد الفقہ ص 65)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3471/47-9407
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ نامحرم مرد کا میسیج دیکھ کر آپ نے غصہ میں کہا کہ تم میری طرف سے آزاد ہو ،اس سے ایک طلاق صریح بائن واقع ہوگئی۔ نکاح ٹوٹ چکاہے ۔ اگر دونوں دوبارہ ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو گواہوں کی موجودگی میں جدید مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ دوبارہ نکاح کی صورت میں آئندہ کے لیے شوہرکوصرف دوطلاق کاحق حاصل ہوگا۔
’’وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية(الدر المختا ر مع رد المحتار ،کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق ج3ص252 سعید)
’’والأصل الذي عليه الفتوى في زماننا هذا في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيها لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع به الطلاق من غير نية إذا أضيف إلى المرأة، مثل أن يقول في عرف ديارنا: دها كنم أو في عرف خراسان والعراق بهشتم؛ لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان في الفارسية من الألفاظ ما يستعمل في الطلاق وفي غيره فهو من كنايات الفارسية فيكون حكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام والله أعلم.‘‘ (بدائع الصنائع کتاب الطلاق،فصل فی النیۃ،ج:3،ص:102،دار الکتب العلمیۃ)
’’ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو أنت حرة أو أنت أعلم بشأنك. فقالت: اخترت نفسي. يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء.‘‘ ف(تاوی ہندیہ کتاب الطلاق،الفصل الخامس،ج:1،ص:375،ط:دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3468/47-9396
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ دارالقضا کا اپنا ایک طریقہ کار ہے، اگر کوئی اپنی اہلیہ کو نہ تو صحیح طریقہ پر رکھتاہے اور نہ ہی طلاق دیتاہے تو دارالقضاء سے رجوع کیاجاسکتاہے، تاکہ عورت پر کوئی ظلم نہ کرسکے اور زمانہ جاہلیت کی طرح اس کو بیچ میں معلق نہ رکھاجائے۔ تاہم اس سلسلہ میں دارالقضا سے ہی رجوع کیاجائے کہ انہوں نے تفریق کا کیا طریقہ اختیار کیا ہے۔ تفصیل ان سے ہی مل سکتی ہے۔واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3448/47-9366
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ مشت زنی کا مطلب اپنے ہاتھ کے عمل سے منی خارج کرنا ہے ، لہذا جس نے مشت زنی پر طلاق کو معلق کیا تھا اگر انزال سے قبل رک گیا تو مشت زنی کا عمل مکمل نہیں ہوا اس لئے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ تاہم خیال رہے کہ مشت زنی ایک بہت ہی گندی حرکت ہے اور باعث گناہ ہے، اس سے احتراز لازم ہے۔ جب شہوت کا غلبہ ہو تو بیوی سے ملاقات کرلینی چاہئے، اور ایسی حرکت سے بچناچاہئے کہ اس کے جسمانی نقصانات بھی بہت زیادہ ہیں۔ پھر ابھی اگر شہوت کا غلبہ ہو تو نفلی روزوں کا اہتمام کیجئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3428/47-9329
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں عورت پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔کیونکہ شوہر کے وعدۂ طلاق سے یا طلاق کی دھمکی دینے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اور اس سلسلہ میں شوہر کا قول معتبر ہے، لہذا عورت کو چاہئے کہ شوہر کی بات پر اعتماد کرکے اس کے ساتھ رہے۔ اور شوہر پر لازم ہے کہ بیوی کو آئندہ طلاق دینے سے گریز کرے اور اگر کوئی بات پیش آئے تو دونوں اس کو مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش کریں۔ ضرورت پڑے تو اہل خانہ سے بھی مشورہ لیا جائے، اور طلاق دینے میں جلدی نہ کرے۔
"الوعد بالطلاق لا يقع به الطلاق" (الفتاویٰ الہندیہ 1/374)
التهديد بالطلاق لا يقع به الطلاق ما لم يصدر اللفظ. (رد المحتار، 3/246، دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3425/47-9323
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی اور شوہر پر حرام ہوگئی، اب دونوں کا ایک ساتھ رہنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ عورت پر تین ماہواری کی عدت گزارنا لازم ہے۔ عدت پوری ہونے م کے بعد اپنی مرضی سے جہاں چاہے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
على المبتوتة والمتوفى عنها زوجها إذا كانت بالغة مسلمة الحداد في عدتها كذا في الكافي. والحداد الاجتناب عن الطيب والدهن والكحل والحناء والخضاب ولبس المطيب والمعصفر والثوب الأحمر وما صبغ بزعفران إلا إن كان غسيلا لا ينفض ولبس القصب والخز والحرير ولبس الحلي والتزين والامتشاط كذا في التتارخانية» (الھندیۃ، کتاب الطلاق، الباب الرابع عشر فی الحداد،1/ 533، المطبعة الكبرى الأميرية)
"وإن کان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتین في الأمة لم تحل ل حتی تنکح زوجًا غیره نکاحًا صحیحًا ویدخل بها، ثم یطلقها أو یموت عنها". (کتاب الطلاق، الباب السادس،1/535، ط: زکریاجدید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند