طلاق و تفریق

Ref. No. 3169/46-7000

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب تک زبان سے طلاق دینے کا یقین نہ ہو طلاق واقع نہیں ہوگی، خواہ اس نے واقع میں طلاق دے دی ہو۔ یہ وسوسہ  اور وہم ہے کہ شاید زبان سے طلاق دیدی شاید زبان سے نہیں دل ہی دل میں دی۔ شاید میں حرام رشتہ  سے منسلک ہوں، شاید یہ بچہ میرا نہیں ہے،وغیرہ ؛ یہ سب وساوس و اوہام  ہیں ۔ اس طرح کے وسوسے سے باہر نکلنے کی کوشش کریں ورنہ زندگی بہت مشکل ہوجائے گی۔ کبھی میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی شدت میں شوہر اپنے دل میں صد فی صد بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کرلیتاہے  اور بعد میں اس کو ایسا لگتاہے کہ میں نے اس وقت شاید زبان سے بھی طلاق دیدی تھی تو بھی جب تک یقین نہ ہو کہ زبان سے طلاق دی ہے کوئی طلاق واقع نہیں گی۔ یقین نہ ہونا ہی شک کہلاتاہے۔  ہاں جو شک کا مریض نہ ہو تو اس کے حق میں غالب گمان بھی یقین کے درجہ میں ہوتاہے۔

ومنھا شک ھل طلق أم لا لم یقع قال الحموي قال المصنف في فتواہ ولا اعتبار بالشک (الأشباہ: ۱۰۸) قال في الأشباہ إلا أن یکون أکبر ظنہ علی خلافہواللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3134/46-6014

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں دوسرا مسلمان مرتد نہیں ہوا، اس کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تم جو زبردستی زبان سے کہلوانا چاہتے ہو حالانکہ زبانی کلمہ پڑھنا ضروری نہیں اور جو پہلے سے مسلمان ہو اس کے لئے زبان سے سب کے سامنے کلمہ پڑھنا  ضروری نہیں ہے۔ کہنے والے کا یہ مقصد ہرگز نہیں تھا کہ میں مسلمان ہی نہیں ہوں۔سیاق و سباق سے گرچہ ایمان سے خارج نہیں ہوا تاہم شوہر پر لازم ہے کہ وہ توبہ واستغفار کرے اور آئندہ کے لیے ایسے الفاظ کہنے سے سخت اجتناب کرے۔

رجل ضرب امرأته فقالت المرأة: لست بمسلم، فقال الرجل: هب أني لست بمسلم، قال الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن الفضل رحمه الله تعالى: لا يصير كافرا بذلك، فقد حكي عن بعض أصحابنا أن رجلا لو قيل له :ألست بمسلم؟ فقال: لا ،لايكون ذلك كفرا ؛لأن قول الناس: لیس بمسلم معناہ: أن أفعالہ لیست من أفعال المسلمین. وقال الشیخ الامام الزاهد رحمه الله تعالی: اذا لم یکن ذلك کفرا عند بعض الناس فقوله: هب أني لست بمسلم أبعد من ذلك. (الفتاوی الخانیة: (کتاب السیر، باب ما یکون کفرا من المسلم وما لا یکون، 425/3، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3125/46-6003

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  طلا ق کا مسئلہ سمجھانے کے طور پر طلاق کا استعمال کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ، اگرچہ اپنی بیوی کو طلاق دینے  کی مثال بیان کرے، اور اس دوران اگر خودبخود خیال آجائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اس لئے صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3122/46-6001

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر  طلاق کی دھمکی دی تو طلاق واقع نہیں ہوئی، اور اگر طلاق دیدی مگر عورت نے قبول کرنے سے انکار کردیا تو طلاق واقع ہوگئی اور پھر آزاد ہو کہنے سے دوسری طلاق واقع ہوگئی؛ بہردو صورت عورت سے عدت میں رجعت کی گنجائش ہے۔ پہلی مرتبہ بیوی سے جو طلاق کے الفاظ کہے ہیں اگر بعینہ وہی الفاظ نقل کرکے سوال کرلیا جائے تو بہتر ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref.  No.  3095/46-5092

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عدت گزارنے والی عورت پر سوگ واجب ہے، لہذا عدت کے دوران اس کا گھر سے بلاعذر شدید نکلنا جائز نہیں ہے، گھر کے دیگر افراد ضروری سامان خریدیں اور انتظام میں تعاون کریں۔ عورت گھر کے اندر رہتے ہوئے تمام امور انجام دے، تاہم خیال رہے کہ عورت کے لئے زیب و زینت ترک کرنا لازم ہے، اس لئے شادی کے دنوں میں بھی زیب و زینت اختیار نہ کرے۔ اور اگر عورت کے باہر نکلے بغیر شادی کی تیاری نہ ہوسکتی ہو تو پھر شادی کی تاریخ مؤخر کردی جائے اور عدت گزرنے کے بعد شادی کی تاریخ طے کرلی جائے۔

"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه،"(شامی، كتاب الطلاق، ج:3، ص:536، ط:ايج ايم سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3076/46-4927

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، طلاق کے معاملہ میں مذاق اور دھمکی کا اعتبار نہیں ہوتاہے، صریح طلاق سے بہرصورت  طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ طلاق اور طلاخ کا فرق بھی قابل اعتناء نہیں ہے۔ اور دوبار دیتاہوں دیتاہوں کہنے سے تاکید ہوئی کوئی مزید طلاق واقع نہیں ہوئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت میں ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے، اگر عدت کے دوران شوہر رجعت کرلے تو نکاح باقی رہے گا، اور اگر عدت گزرگئی  تو دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرنا ہوگا، تاہم اس کا بھی خیال رہے کہ شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3063/46-4895

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بیوی نے شوہر سے خلع کا مطالبہ کیا اور شوہر نے اس کو منظور کرلیا توخلع درست ہوگیا اور عورت پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔ خلع کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے جس طرح طلاق کے لئے گواہ کا ہونا ضروری نہیں ہے اور جس طرح فون پر طلاق واقع ہوجاتی ہے اسی طرح فون پر خلع بھی صحیح ہوجاتاہے۔

"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"

(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)

"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref.  No.  3051/46-4879

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شخص مذکور کی بیوی پر شرط کے پائے جانے کی وجہ سے  طلاق واقع ہوگئی۔  طلاق مغلظہ کے واقع ہونے کے بعد عورت عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."

(الھندیۃ، كتاب الطلاق، الباب الرابع في الطلاق بالشرط، الفصل الثالث في تعليق الطلاق بكلمة إن وإذا وغيرهما، ١ / ٤٢٠)

"والأصل في جنس هذه المسائل أنه إذا عقد اليمين على عين موصوفة بصفة فإن كانت الصفة داعية إلى اليمين تقيد اليمين ببقائها وإلا فلا كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان." (الھندیۃ، كتاب الأيمان، الباب الخامس في اليمين على الأكل والشرب وغيرهما، ٢ / ٨٢)

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة." (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ، كتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ٣ / ١٨٧، ، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3020/46-4818

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   پورا سوال پڑھنے سے یہ معلوم ہوا کہ آپ نے ایک مرتبہ اپنی بیوی کو فون پر کہا ہے کہ میں تم کو چھوڑرہاہوں۔ پس اس کہنے کی وجہ سے ایک طلاق واقع ہوگئی تھی، اگر اس طلاق کے بعد آپ نے قولی یا عملی رجعت نہیں کی اور عورت کی عدت پوری ہوگئی تو نکاح آپ دونوں کا ختم ہوگیا ۔ اب اس لڑکی سے دوبارہ نئے مہر کے ساتھ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ میاں بیوی کے طور پر رہ سکتے ہیں۔ خیال رہے کہ  یہ جملہ 'میں تم کو چھوڑرہاہوں " آپ نے عدت کے دوران  جتنی بار بولا ہے اتنی ہی طلاقیں واقع ہوں گی۔ اگر آپ نے ایک طلاق دی ہے تو آئندہ نکاح کے بعد دو طلاق کا مزید اختیار باقی ہے، اس لئے آئندہ احتیاط کریں اور طلاق دینے سے بچیں۔  لیکن اگر دوران عدت کئی مرتبہ یہ جملہ بولا ہے تو اس کی تفصیل لکھ کر دوبارہ سوال کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2966/45-4704

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ ضروری ہے ،  اس قدر گھناؤنی حرکت کے باوجود اس  کے گھر آناجانا بڑی ہی بے غیرتی کی بات ہے،  ایمان کا تقاضہ ہے کہ اس سنگین گناہ کے مرتکب کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھاجائے ، یہاں تک کہ جولوگ تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی منع کیاجائے، اور اس شخص  کی بیوی کو بھی سمجھایاجائےکہ وہ اب حرام کا مرتکب ہورہی ہے،  اس کے لئے اپنے شوہرکے ساتھ رہنا قطعا  ناجائز اورشرعی طور پر حرام ہے۔  پنچایت  میں اس کو پیش کرکے اس سے توبہ کرائی جائے، اگر وہ بیوی کو طلاق دے کر الگ کردے اور اپنے گناہ پر نادم ہوکر توبہ کرلے اور پھر  اس کے بائیکاٹ کو ختم کردیاجائے  تو اس کی گنجائش ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند