مساجد و مدارس

Ref. No. 3521/47-9496

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         "جب تک زمین کو باقاعدہ وقف نہ کیا جائے، اس پر بنائی گئی مسجد شرعی اعتبار سے 'مسجد' نہیں کہلاتی، بلکہ وہ صرف نماز کی جگہ (مصلّٰی) ہوگی۔" اس پر مسجد کے احکام مرتب نہیں ہوں گے اور اس میں نماز پڑھنے پر مسجد کا ثواب نہیں ملے گا۔  جب زمین وقف کی جاتی ہے، تو وہ ہمیشہ کے لیے اللہ کی ملکیت بن جاتی ہے، اور وہاں مسجد کے تمام احکام (مثلاً: اعتکاف، اذان،  عورتوں کا داخلہ، خریدوفروخت کی ممانعت وغیرہ) لاگو ہو جاتے ہیں۔

"ولا تصير مسجدًا حتى يوقفها مالكها على وجه التأبيد لله تعالى." (رد المحتار، جلد 3، صفحہ 371)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3445/47-9365

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  ۔     مذکورہ دینی مکتب کا اصل مقصد قرآن کریم اور دینی کتابوں کی تعلیم ہے، تاہم اگر اس کے ساتھ کوئی عصری تعلیم بھی ضمنا ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ مسجد کے آداب کا بہمہ وجوہ خیال رکھنا ضروری ہے، عصری تعلیم کی کتابوں میں تصاویر وغیرہ عموما  شامل ہوتی ہیں جن کا مسجد میں لانا آدابِ مسجد کے بھی خلاف ہے، اس لئے بہتر ہے کہ مسجد کے باہر کسی جگہ تعلیم کا انتظام کیاجائے جہاں دینی وعصری دونوں تعلیم دی جائے، اس میں بہت احتیاط ہے، ورنہ مشاہدہ یہ ہے کہ شروع میں مسجد کے آداب کا خیال رہتاہے لیکن آہستہ آہستہ یہ آداب فوت ہوجاتے ہیں اور بے احتیاطی ہونے لگتی ہے۔ اس لئے گوکہ اس دینی مکتب میں کچھ عصری تعلیم کی بھی گنجائش ہے مگر بہتر ہے کہ الگ نظم کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3439/47-9361

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  ۔    اگر ستر مکمل طور پر چھپا ہواہو تو شرعی طور پر ٹروزر اور شرٹ میں نماز پڑھنا جائز ہے، تاہم اگر  ٹروزر اتنا چست ہو کہ جسم کی بناوٹ بالکل واضح ہورہی ہو نماز تو درست ہوجائے گی البتہ ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اور اگر رکوع وسجدہ کرتے وقت ستر کھلا رہ جائے  تو اس سے نماز فاسد ہوجائے گی۔ نیز یہ بھی یاد رہے کہ   نماز میں زینت اختیار کرنے کا حکم ہے اس لئے ایسا لباس نماز کے لئے منتخب کرنا چاہئے جو صلحاء اور نیک لوگوں کا لباس ہو ۔ نیز یہ بھی سوچنا چاہئے کہ نماز میں احکم الحاکمین کے دربار میں حاضری ہے ، کیا ٹروزر وغیرہ پہن کر دنیاوی بادشاہوں کے دربار میں یا شادی وغیرہ کی تقریبات میں شرکت کی جاسکتی ہے۔ اگر نہیں تو پھر بادشاہوں کے بادشاہ کے  دربار میں ایسا لباس کیوں؟

{یَا بَنِیْ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ} [الأعراف:۳۱]

 ويجوز أن ينظر الرجل إلى الرجل إلا إلى عورته كذا في المحيط وعليه الإجماع، كذا في الاختيار شرح المختار. وعورته ما بين سرته حتى تجاوز ركبته، كذا في الذخيرة وما دون السرة إلى منبت الشعر عورة في ظاهر الرواية (الفتاوى الهندية (5 / 327)

"(و) كره (كفه) أي رفعه ولو لتراب كمشمر كمّ أو ذيل. (قوله: كمشمر كمّ أو ذيل) أي كما لو دخل في الصلاة وهو مشمر كمه أو ذيله". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 640):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3433/47-9424

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔           (۱)  مدرسہ کی رقم مدرسہ کے ذمہ دار کے پاس بطور امانت ہوتی ہے۔ اس لئے اگر بغیرتعدی کے ہلاک ہو تو  امین پر کوئی ضمان نہیں آتاہے، اس لئے اگر وہ رقم بعینہ آپ کی دوکان میں آپ نے فوری طور پر رکھ لیاتھا کہ آپ بعد میں مدرسہ میں رکھ دیں گے تو پھر ا ٓپ پر اس کا ضمان نہیں آئے گا۔ لیکن اگر آپ نے دوکان میں وہ پیسے شامل کردئے تھے تو یہ آپ کی جانب سے تعدی ہوئی لہذا آپ کو وہ رقم مدرسہ میں جمع کرنی پڑے گی۔مدرسہ کی کتنی رقم دوکان میں تھی اس کو  حضرات اساتذہ  جنہوں نے رقم دی تھی  ان سے پوچھئے یا پھر رسید کے ذریعہ چیک  کیجئے۔ رسید کی جو رقم مدرسہ میں ہے وہ الگ کرلیں تو دوکان میں رکھی رقم کی مقدار معلوم ہوسکتی ہے۔   (۲)   اگر آپ سے حفاظت میں کوتاہی ہوئی ہے تو آپ  کے ضمان  ادا کرنے سے  ان لوگوں کی زکوۃ ادا ہوجائے گی۔ اور اگر آپ  پر ضمان نہیں ہے تو بھی امید ہے کہ ان کی زکوۃ ادا ہوجائے گی کیونکہ ان کا مال  مستحقین کے کفیل  تک پہنچ گیا ۔ تاہم اگر ذمہ دار احتیاطاً ادا کردے تو بہتر ہے تاکہ ان پر کوئی تہمت نہ آئے۔

کما فی الدرالمختار:و لا يخرج عن العهدة بالعزل بل بالأداء للفقراء اھ(2/270) و فی ردالمحتار:(قوله:و لا يخرج عن العهدة بالعزل)فلو ضاعت لا تسقط عنه الزكاة اھ(2/270) فی درر الحكام في شرح مجلة الأحكام:الأمانة غير مضمونة. يعني على تقدير هلاكها أو ضياعها بدون صنع الأمين و تقصيره و لا يلزم الضمان.(الی قولہ)يعني إذا هلكت الأمانة أو فقدت أو طرأ نقصان على قيمتها في يد الأمين بدون صنعه و تعديه و تقصيره في الحفظ لا يلزم الضمان على الأمين المذكور،سواء أهلكت بسبب ممكن التحرز منه كالسرقة أم بسبب غير ممكن التحرز منه كالحريق الغالب و سواء أهلك مال الأمين مع الأمانة المذكورة أم لم يهلك و سواء أشرط الضمان أم لم يشرط راجع شرح المادة(٨٣)۔(2/235) و فی البحر الرائق:و في الفتاوى رجلان دفع كل واحد منهما زكاة ماله إلى رجل ليؤدي عنه فخلط مالهما ثم تصدق ضمن الوكيل(الی قولہ)فإذا ضمن في صورة الخلط لا تسقط الزكاة عن أربابها فإذا أدى صار مؤديا مال نفسه كذا في التجنيس(2/227)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3430/47-9319

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         بشرط صحت سوال، (۱) مذکورہ قبرستان کے اس حصہ میں جہاں ایک زمانہ سے تدفین نہیں ہوررہی ہے اور وہ جگہ  اگلے پچاسوں سال تک بھی خالی ہی رہے گی تو اس جگہ مسجد اور عیدگاہ بنانا جائز ہے۔(۲)   اور قبرستان  کو اگر قبرستان کی آمدنی کی ضرورت نہیں ہے تو مذکورہ مسجد و جنازہ گاہ میں اہل کمیٹی کے مشورہ سے  اس آمدنی کو استعمال کیاجاسکتاہے۔(۳)  اگر کھدائی کے دوران کوئی  قبرظاہرہوجائے اور میت کی ہڈیاں ملیں تو ان کو کہیں دوسری جگہ دفن کردیاجائے۔ یا پھر قبر میں  مٹی ڈال  کر اچھی  طرح بند کردیاجائے، اس کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔

والمقبرۃ إذاعفت ودثرت، تعود ملکًا لأربابہا، فإذا عادت ملکًا یجوز أن یبنی موضع المسجد دارًا أو موضع المقبرۃ مسجدًا وغیر ذٰلک۔ وأما المقبرۃ الداثرۃ إذا بُني فیہا مسجد لیصلي فیہا، فلم أر فیہ بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناہما واحد۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري / باب ہل تنبش قبور مشرکي الجاہلیۃ ویتخذ مکانہا مساجد ۴؍۱۷۴ مکتبۃ الإدارۃ الطباعۃ المنیریۃ دمشق) وأما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عیدٍ فہو مسجد في حق جواز الاقتداء، وإن انفصل الصفوف رفقًا بالناس، لا في حق غیرہ، بہ یفتی، نہایۃ۔ فحل دخولہ لجنب وحائض کفناء مسجد ورباط ومدرسۃ۔ (الدر المختار، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ۱؍۶۵۷ کراچی) ونقل في الذخیرۃ عن شمس الأئمۃ الحلواني أنہ سئل عن مسجد أو حوض خرب، ولا یحتاج إلیہ، لتفرق الناس عنہ: ہل للقاضي أن یصرف أوقافہ إلی مسجد أو حوض آخر؟ فقال: نعم۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب فیما لو خرب المسجد أو غیرہ ۴؍۳۵۹ کراچی، وکذا في البحر الرائق، کتاب الوقف / فصل في أحکام المسجد ۶؍۲۳۷ مصطفیٰ البابي الحلبي مصر

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3422/47-9330

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔مسجد شرعی کے حدود کے باہرمسجد کی  اس زمین کوجس کی ابھی ضرورت نہیں ہے،  اگر ٹاورکمپنی کو کرایہ پر دیدیا جائے اور اس کی آمدنی کو مسجد کے مصالح میں صرف کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ البتہ کسی ایسے حصہ کو کرایہ پر نہ دیاجائے جس سے تلویث مسجد یا توہین مسجد کا اندیشہ ہو۔  

(و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء، (واتخاذه طريقاً بغير عذر)، وصرح في القنية بفسقه باعتياده، (وإدخال نجاسة فيه)، وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس، (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ۔ (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه، إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد) علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام. ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه؛ ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي''۔(شامی، 1 / 656، مطلب فی احکام المسجد، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، ط:سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3402/46-9307

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  مسجد کمیٹی نے موجودہ امام صاحب کا تقرر کیاتھا، اور آئندہ کے امام کا تقرر بھی کمیٹی ہی کرے گی۔ نئے امام کے تقرر کے لئے موجود امام سے اجازت لینا یا مشورہ لینا ضروری نہیں ہے۔ تاہم اگر کمیٹی کا موجودہ امام کے ساتھ تقرری کے وقت کوئی معاہدہ ہوا ہو تو اس کا  خیال رکھنا ضروری ہے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی  درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref.  No.  3356/46-9227

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہر صف میں نمازیوں کی تعداد کا برابر ہونا ضروری نہیں ہے، اگر کسی وجہ سے پہلی صف میں نمازی کم ہوں اور دوسری صفوں میں زیادہ ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ صف میں خالی جگہ  ہو جہاں نمازی کھڑا ہوسکتاہو پھر بھی اس جگہ کو پُر نہ کرے تو پچھلی صف والوں کی نماز میں کراہت آئے گی۔ تاہم اگر مائک وغیرہ کے انتظام کی وجہ سے پہلی صف میں جگہ کم ہے تو دوسری صفوں میں زیادہ تعداد ہونے سے کوئی کراہت نہیں آئے گی۔ البتہ انتظامیہ کو چاہئے کہ صفوں سے علاحدہ مائک وغیرہ کا انتظام کیا جائے تاکہ صفوں میں خلل نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

مساجد و مدارس

Ref. No. 3296/46-9046

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو زمین مسجد کے لیے ایک بار  وقف  ہوگئی اور وقف کی نیت کے ساتھ اس پر قبضہ بھی ہو چکا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ  شرعی طور پر وقف مکمل ہو چکا  ہے۔  اور جب وقف تام ہوجاتاہے تو وہ موقوفہ زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور واقف اس زمین کو واپس لینے کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔ البتہ، اگر زمین کو  وقف نہیں کیاگیا  تھا بلکہ صرف استعمال کے لئے وقتی طور پر دیاگیا تھا ، اور وقف کی نیت ظاہر نہیں  کی گئی تھی ،  تو پھر اس کا حکم مختلف ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3233/46-8026

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واقف نے زمین مسجد کے لئے وقف کردی اور اس جگہ مسجد  بھی بن گئی تو اب رجوع کرنا درست نہیں ہے۔ وقف تام ہونے کے بعد زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے،  اب واقف اس کا مالک نہیں ہے۔ اگر زبردستی واپس لے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔ لیکن اگر واقف زمین کو مسجد کے لئے وقف کرچکاہے اور اس کو واپس نہیں لے رہاہے بلکہ محض مسجد کے نام رجسٹری کرانے سے منع کررہاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس  کوسمجھایاجائے کہ جب زمین وقف کردی ہے تو  بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو اس لئے اس کی رجسٹری ضروری ہے، ورنہ بعد میں ورثہ لوگوں کو پریشان کریں گے اور مسجد جو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے وہ محفوظ نہیں رہے گی۔البتہ اگر وہ رجسٹری کے لئے تیار نہ ہوں تو ایک کاغذ پر ان سے اقرارنامہ لکھوالیاجائے کہ انھوں نے فلاں فلاں گواہوں کی موجودگی میں اتنی زمین مسجد کے لئے وقف کردی ہے تاکہ مستقبل میں  ممکن ہے کہ اس کاغذ کی ضرورت پڑے ۔  (۱) پوری زمین خواہ اس پر عمارت ہو یا نہ ہو وقف شدہ ہے، اس کو واپس لینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔مسجد میں  تواب کوئی تبدیلی  بھی نہیں ہوسکتی ہے ۔ (۳،۲) اب اس مسجد میں واقف کا کوئی اختیار باقی نہیں ہے بلکہ وہ مسجد اب اللہ کی ملکیت  ہے، اور عام مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، جو نمازیں پڑھی گئیں سب  درست ہوگئیں اورآئندہ بھی اس میں نماز جاری رکھی جائے۔  واقف کو بالکل اختیار نہیں کہ کسی کو مسجد سے نماز اداکرنے سے روک ٹوک کرسکے۔

نوٹ:  اس مسئلہ کو سنجیدگی سے آپسی مشورہ اور بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الھندیۃ، كتاب الوقف ، الفصل الأول في تعريف الوقف ،ج: 2،ص: 350، ط: دار الفكر)

"وإذا كان الملك يزول عندهما يزول بالقول عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وهو قول الأئمة الثلاثة وهو قول أكثر أهل العلم وعلى هذا مشايخ بلخ وفي المنية وعليه الفتوى كذا في فتح القدير وعليه الفتوى كذا في السراج الوهاج،" (الھندیۃ، کتاب الوقف،الباب الاول فی تعریفه،وسببه وحكمه، ج:2، ص:351، ط:مکتبه رشیدیه)

"وعند الصاحبين وبرأيهما يفتى: إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه. وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته،" (الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي، الباب الخامس:الوقف، الفصل الثالث حكم الوقف، ج:10، ص:7617، ط:دارالفكر)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند