Frequently Asked Questions
مساجد و مدارس
Ref. No. 3233/46-8026
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واقف نے زمین مسجد کے لئے وقف کردی اور اس جگہ مسجد بھی بن گئی تو اب رجوع کرنا درست نہیں ہے۔ وقف تام ہونے کے بعد زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اب واقف اس کا مالک نہیں ہے۔ اگر زبردستی واپس لے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔ لیکن اگر واقف زمین کو مسجد کے لئے وقف کرچکاہے اور اس کو واپس نہیں لے رہاہے بلکہ محض مسجد کے نام رجسٹری کرانے سے منع کررہاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس کوسمجھایاجائے کہ جب زمین وقف کردی ہے تو بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو اس لئے اس کی رجسٹری ضروری ہے، ورنہ بعد میں ورثہ لوگوں کو پریشان کریں گے اور مسجد جو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے وہ محفوظ نہیں رہے گی۔البتہ اگر وہ رجسٹری کے لئے تیار نہ ہوں تو ایک کاغذ پر ان سے اقرارنامہ لکھوالیاجائے کہ انھوں نے فلاں فلاں گواہوں کی موجودگی میں اتنی زمین مسجد کے لئے وقف کردی ہے تاکہ مستقبل میں ممکن ہے کہ اس کاغذ کی ضرورت پڑے ۔ (۱) پوری زمین خواہ اس پر عمارت ہو یا نہ ہو وقف شدہ ہے، اس کو واپس لینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔مسجد میں تواب کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوسکتی ہے ۔ (۳،۲) اب اس مسجد میں واقف کا کوئی اختیار باقی نہیں ہے بلکہ وہ مسجد اب اللہ کی ملکیت ہے، اور عام مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، جو نمازیں پڑھی گئیں سب درست ہوگئیں اورآئندہ بھی اس میں نماز جاری رکھی جائے۔ واقف کو بالکل اختیار نہیں کہ کسی کو مسجد سے نماز اداکرنے سے روک ٹوک کرسکے۔
نوٹ: اس مسئلہ کو سنجیدگی سے آپسی مشورہ اور بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الھندیۃ، كتاب الوقف ، الفصل الأول في تعريف الوقف ،ج: 2،ص: 350، ط: دار الفكر)
"وإذا كان الملك يزول عندهما يزول بالقول عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وهو قول الأئمة الثلاثة وهو قول أكثر أهل العلم وعلى هذا مشايخ بلخ وفي المنية وعليه الفتوى كذا في فتح القدير وعليه الفتوى كذا في السراج الوهاج،" (الھندیۃ، کتاب الوقف،الباب الاول فی تعریفه،وسببه وحكمه، ج:2، ص:351، ط:مکتبه رشیدیه)
"وعند الصاحبين وبرأيهما يفتى: إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه. وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته،" (الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي، الباب الخامس:الوقف، الفصل الثالث حكم الوقف، ج:10، ص:7617، ط:دارالفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 3032/46-4842
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی زمین جو مسجدسے علیحدہ ہواور مسجد کے لیے وقف ہو اور واقف نے اس بات کی تصریح کردی ہو کہ اس کی آمدنی سے مسجد کی جملہ ضروریات کو پورا کیا جائے تو اس زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ واقف کے منشاء کے خلاف ہے۔ اس لئے مصالح مسجد کے لئے وقف شدہ زمین پر مسجد نہیں بنائی جائے گی۔ البتہ اگر بڑی مسجد کی آمدنی کے دیگر ذرائع موجود ہوں اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کو اس وقف شدہ زمین کی آمدنی کی نہ تو فی الحال ضرورت ہے اور نہ ہی آئندہ ضرورت پیش آنے کے امید ہے ،نیز اس زمین کی آمدنی کے ضائع ہونے یا غیر مصرف میں خرچ ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اس زمین پر مسجد بنانا جائزہوگا۔
إن شرائط الواقف معتبرةٌ إذا لم تخالف الشرع وهو مالكٌ، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخصّ صنفاً من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أنّ قولهم: شرط الواقف كنصّ الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به. قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أنّ الواقف نفسه شرط ذلك حقيقةّ، أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط، وقد أخبرني بعض قوّام مدرسة إنّ واقفها كتب ذلك ليجعل حيلةً لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم .
(رد المحتار ، کتاب الوقف، مطلب متی ذکر للوقف مصرفاً....،ج:۴،ص:۳۶۶،ط:سعید)
البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصحّ أنه لا يجوز كذا في الغياثية. (الھندیۃ، کتاب الوقف، الباب الثانی فی مایجوز وقفہ ومالایجوز، ج:۲،ص:۳۶۲،ط:رشیدیہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 3014/46-4801
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ راشد کے مکان کا ایک حصہ جوبہن کی زمین پر بناہوا ہے،وہ بہن نے بیچ دیا ہے اورخریدنےوالے نے اس کو وقف کردیاہے، تو ایسی صورت میں راشد پر لازم ہوگا کہ وقف کی زمین کو خالی کرے۔ وقف زمین کو بیچنا جائز نہیں ہے اس لئے راشد سےاس زمین کی قیمت نہیں لی جاسکتی ہے۔
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الفتاوى العالمگيرية: 2/ 350، ط دار الفكر)
’’شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة و وجوب العمل به‘‘. (حاشية ابن عابدين، 4/433 ط: سعید)
"والحاصل أن ههنا مسألتين: الأولى أن بيع الوقف باطل ولو غير مسجد خلافا لمن أفتى بفساده." (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، باب بيع الفاسد 5/57 ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2964/45-4706
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے جو رقم چندہ سے جمع کی جائے اس میں دینےوالوں کی نیت خاص مسجد اور مصالح مسجد کے لئے ہی دینے کی ہوتی ہے، لہذا اس کو دوسرے مصارف میں لگانا چندہ دہندگان کے منشا کے منافی ہے، اس لئے اس رقم کو مسجد ہی میں لگایا جائے، تاہم جو رقم صراحت کے ساتھ دوسرے دینی کاموں کے لئے ہی جمع کی گئی ہو اس کو مسجد کمیٹی کے مشورہ سے مسجد کے تحت چلنے والے دوسرے دینی کاموں میں بھی لگایا جاسکتاہے۔ مسجد کے لئے جمع کی گئی رقم کو مسجد ہی میں استعمال کیاجائے گا اور اگر اس رقم کی فی الحال ضرورت نہ ہو تو بھی اس کو مسجد ہی کے آئندہ استعمال کے لئے محفوظ رکھاجائے گا اس رقم کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری مسجد میں بھی لگانا درست نہیں ہے۔
"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة." (شامی، کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)
"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." ) شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اسعد
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2956/45-4679
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد انتظامیہ اگر مناسب سمجھے اور اجازت دیدے تو اس طرح سولر پینل مسجد کی چھت پر رکھنے کی گنجائش ہے۔ مسجد انتظامیہ کو اس سلسلہ میں آپسی مشورہ کرلینا چاہئے تاکہ بعد میں کوئی نزاع پیدا نہ ہو ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2941/45-4621
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس مدرسہ کے لئے آپ نے محنت کی ، لوگوں سے رابطہ کیا اور چندہ جمع کیا، اس مدرسہ نے آپ کو بطور انعام کے اگر کچھ پیسے دئے تو وہ پیسے آپ کے لئے جائز اور حلال ہیں۔ ان کو آپ اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
مساجد و مدارس
مساجد و مدارس
Ref. No. 1080 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سود کی رقم مال حرام ہے،اور مال حرام کو بلاتملیک فقراء،مسجد کی تعمیر میں لگانا یا رمضان میں کھانے کی چیزوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیرمیں بھی استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ سود کی رقم کسی غریب کو بلا نیت ثواب دیدینا لازم ہے۔ اما اذا کان عند رجل مال خبیث فاما ان ملکہ بعقد فاسد او حصل لہ بغیر عقد ولایمکنہ ان یردہ الی مالکہ ویرید ان یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلة الا ان یدفعہ الی الفقراء۔ ﴿بذل المجھود﴾ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 2192/44-2333
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سرکار سے اجازت لئے بغیر اس طرح لائٹ لگانا غیرقانونی ہے، اس لئے شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ لائٹ سرکار کی ملکیت ہے اس لئے سرکاریعنی مذکورہ محکمہ سے اجازت لینا ضروری ہے۔
ولا یجوز حمل تراب ربض المصر الخ (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۷۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، إن المحظور لغیرہ لا یمتنع أن یکون سببا لحکم شرعي الخ (تبیین الحقائق، ۶: ۳۲۴، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند