مساجد و مدارس

Ref. No. 3430/47-9319

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         بشرط صحت سوال، (۱) مذکورہ قبرستان کے اس حصہ میں جہاں ایک زمانہ سے تدفین نہیں ہوررہی ہے اور وہ جگہ  اگلے پچاسوں سال تک بھی خالی ہی رہے گی تو اس جگہ مسجد اور عیدگاہ بنانا جائز ہے۔(۲)   اور قبرستان  کو اگر قبرستان کی آمدنی کی ضرورت نہیں ہے تو مذکورہ مسجد و جنازہ گاہ میں اہل کمیٹی کے مشورہ سے  اس آمدنی کو استعمال کیاجاسکتاہے۔(۳)  اگر کھدائی کے دوران کوئی  قبرظاہرہوجائے اور میت کی ہڈیاں ملیں تو ان کو کہیں دوسری جگہ دفن کردیاجائے۔ یا پھر قبر میں  مٹی ڈال  کر اچھی  طرح بند کردیاجائے، اس کو کھولنے کی ضرورت نہیں ہے۔

والمقبرۃ إذاعفت ودثرت، تعود ملکًا لأربابہا، فإذا عادت ملکًا یجوز أن یبنی موضع المسجد دارًا أو موضع المقبرۃ مسجدًا وغیر ذٰلک۔ وأما المقبرۃ الداثرۃ إذا بُني فیہا مسجد لیصلي فیہا، فلم أر فیہ بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناہما واحد۔ (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري / باب ہل تنبش قبور مشرکي الجاہلیۃ ویتخذ مکانہا مساجد ۴؍۱۷۴ مکتبۃ الإدارۃ الطباعۃ المنیریۃ دمشق) وأما المتخذ لصلاۃ جنازۃ أو عیدٍ فہو مسجد في حق جواز الاقتداء، وإن انفصل الصفوف رفقًا بالناس، لا في حق غیرہ، بہ یفتی، نہایۃ۔ فحل دخولہ لجنب وحائض کفناء مسجد ورباط ومدرسۃ۔ (الدر المختار، کتاب الصلاۃ / باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیہا ۱؍۶۵۷ کراچی) ونقل في الذخیرۃ عن شمس الأئمۃ الحلواني أنہ سئل عن مسجد أو حوض خرب، ولا یحتاج إلیہ، لتفرق الناس عنہ: ہل للقاضي أن یصرف أوقافہ إلی مسجد أو حوض آخر؟ فقال: نعم۔ (شامي، کتاب الوقف / مطلب فیما لو خرب المسجد أو غیرہ ۴؍۳۵۹ کراچی، وکذا في البحر الرائق، کتاب الوقف / فصل في أحکام المسجد ۶؍۲۳۷ مصطفیٰ البابي الحلبي مصر

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3422/47-9330

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔مسجد شرعی کے حدود کے باہرمسجد کی  اس زمین کوجس کی ابھی ضرورت نہیں ہے،  اگر ٹاورکمپنی کو کرایہ پر دیدیا جائے اور اس کی آمدنی کو مسجد کے مصالح میں صرف کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ البتہ کسی ایسے حصہ کو کرایہ پر نہ دیاجائے جس سے تلویث مسجد یا توہین مسجد کا اندیشہ ہو۔  

(و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء، (واتخاذه طريقاً بغير عذر)، وصرح في القنية بفسقه باعتياده، (وإدخال نجاسة فيه)، وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس، (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ۔ (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه، إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد) علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام. ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه؛ ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي''۔(شامی، 1 / 656، مطلب فی احکام المسجد، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، ط:سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3402/46-9307

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  مسجد کمیٹی نے موجودہ امام صاحب کا تقرر کیاتھا، اور آئندہ کے امام کا تقرر بھی کمیٹی ہی کرے گی۔ نئے امام کے تقرر کے لئے موجود امام سے اجازت لینا یا مشورہ لینا ضروری نہیں ہے۔ تاہم اگر کمیٹی کا موجودہ امام کے ساتھ تقرری کے وقت کوئی معاہدہ ہوا ہو تو اس کا  خیال رکھنا ضروری ہے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی  درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref.  No.  3356/46-9227

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہر صف میں نمازیوں کی تعداد کا برابر ہونا ضروری نہیں ہے، اگر کسی وجہ سے پہلی صف میں نمازی کم ہوں اور دوسری صفوں میں زیادہ ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ صف میں خالی جگہ  ہو جہاں نمازی کھڑا ہوسکتاہو پھر بھی اس جگہ کو پُر نہ کرے تو پچھلی صف والوں کی نماز میں کراہت آئے گی۔ تاہم اگر مائک وغیرہ کے انتظام کی وجہ سے پہلی صف میں جگہ کم ہے تو دوسری صفوں میں زیادہ تعداد ہونے سے کوئی کراہت نہیں آئے گی۔ البتہ انتظامیہ کو چاہئے کہ صفوں سے علاحدہ مائک وغیرہ کا انتظام کیا جائے تاکہ صفوں میں خلل نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

مساجد و مدارس

Ref. No. 3296/46-9046

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو زمین مسجد کے لیے ایک بار  وقف  ہوگئی اور وقف کی نیت کے ساتھ اس پر قبضہ بھی ہو چکا ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ  شرعی طور پر وقف مکمل ہو چکا  ہے۔  اور جب وقف تام ہوجاتاہے تو وہ موقوفہ زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور واقف اس زمین کو واپس لینے کا اختیار نہیں رکھتا ہے۔ البتہ، اگر زمین کو  وقف نہیں کیاگیا  تھا بلکہ صرف استعمال کے لئے وقتی طور پر دیاگیا تھا ، اور وقف کی نیت ظاہر نہیں  کی گئی تھی ،  تو پھر اس کا حکم مختلف ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3233/46-8026

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واقف نے زمین مسجد کے لئے وقف کردی اور اس جگہ مسجد  بھی بن گئی تو اب رجوع کرنا درست نہیں ہے۔ وقف تام ہونے کے بعد زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے،  اب واقف اس کا مالک نہیں ہے۔ اگر زبردستی واپس لے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔ لیکن اگر واقف زمین کو مسجد کے لئے وقف کرچکاہے اور اس کو واپس نہیں لے رہاہے بلکہ محض مسجد کے نام رجسٹری کرانے سے منع کررہاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس  کوسمجھایاجائے کہ جب زمین وقف کردی ہے تو  بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو اس لئے اس کی رجسٹری ضروری ہے، ورنہ بعد میں ورثہ لوگوں کو پریشان کریں گے اور مسجد جو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے وہ محفوظ نہیں رہے گی۔البتہ اگر وہ رجسٹری کے لئے تیار نہ ہوں تو ایک کاغذ پر ان سے اقرارنامہ لکھوالیاجائے کہ انھوں نے فلاں فلاں گواہوں کی موجودگی میں اتنی زمین مسجد کے لئے وقف کردی ہے تاکہ مستقبل میں  ممکن ہے کہ اس کاغذ کی ضرورت پڑے ۔  (۱) پوری زمین خواہ اس پر عمارت ہو یا نہ ہو وقف شدہ ہے، اس کو واپس لینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔مسجد میں  تواب کوئی تبدیلی  بھی نہیں ہوسکتی ہے ۔ (۳،۲) اب اس مسجد میں واقف کا کوئی اختیار باقی نہیں ہے بلکہ وہ مسجد اب اللہ کی ملکیت  ہے، اور عام مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، جو نمازیں پڑھی گئیں سب  درست ہوگئیں اورآئندہ بھی اس میں نماز جاری رکھی جائے۔  واقف کو بالکل اختیار نہیں کہ کسی کو مسجد سے نماز اداکرنے سے روک ٹوک کرسکے۔

نوٹ:  اس مسئلہ کو سنجیدگی سے آپسی مشورہ اور بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الھندیۃ، كتاب الوقف ، الفصل الأول في تعريف الوقف ،ج: 2،ص: 350، ط: دار الفكر)

"وإذا كان الملك يزول عندهما يزول بالقول عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وهو قول الأئمة الثلاثة وهو قول أكثر أهل العلم وعلى هذا مشايخ بلخ وفي المنية وعليه الفتوى كذا في فتح القدير وعليه الفتوى كذا في السراج الوهاج،" (الھندیۃ، کتاب الوقف،الباب الاول فی تعریفه،وسببه وحكمه، ج:2، ص:351، ط:مکتبه رشیدیه)

"وعند الصاحبين وبرأيهما يفتى: إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه. وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته،" (الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي، الباب الخامس:الوقف، الفصل الثالث حكم الوقف، ج:10، ص:7617، ط:دارالفكر)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref.  No.  3032/46-4842

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی زمین جو مسجدسے علیحدہ ہواور مسجد کے لیے وقف ہو اور واقف نے اس بات کی تصریح کردی ہو کہ اس کی آمدنی سے مسجد کی  جملہ ضروریات کو پورا کیا جائے تو  اس زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ واقف کے منشاء کے خلاف ہے۔ اس لئے مصالح مسجد کے لئے وقف شدہ زمین پر مسجد  نہیں بنائی جائے گی۔  البتہ اگر بڑی مسجد  کی آمدنی کے دیگر ذرائع موجود ہوں اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کو اس وقف شدہ  زمین کی آمدنی کی  نہ تو فی الحال ضرورت ہے اور نہ ہی  آئندہ ضرورت پیش آنے کے امید ہے ،نیز اس زمین کی آمدنی کے ضائع ہونے یا غیر مصرف میں خرچ  ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں  اس زمین پر مسجد بنانا جائزہوگا۔

إن ‌شرائط ‌الواقف ‌معتبرةٌ إذا لم تخالف الشرع وهو مالكٌ، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخصّ صنفاً من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أنّ قولهم: شرط الواقف كنصّ الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به.  قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أنّ الواقف نفسه شرط ذلك حقيقةّ، أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط، وقد أخبرني بعض قوّام مدرسة إنّ واقفها كتب ذلك ليجعل حيلةً لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم .

(رد المحتار ، کتاب الوقف، مطلب متی ذکر للوقف مصرفاً....،ج:۴،ص:۳۶۶،ط:سعید)

البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصحّ أنه لا يجوز كذا في الغياثية. (الھندیۃ، کتاب الوقف، الباب الثانی فی مایجوز وقفہ ومالایجوز، ج:۲،ص:۳۶۲،ط:رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref.  No.  3014/46-4801

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  راشد کے مکان کا ایک حصہ  جوبہن کی زمین پر بناہوا ہے،وہ  بہن نے بیچ دیا ہے اورخریدنےوالے نے اس کو وقف کردیاہے، تو ایسی صورت میں راشد پر لازم ہوگا کہ وقف کی زمین کو خالی کرے۔ وقف زمین کو بیچنا جائز نہیں ہے اس لئے راشد سےاس زمین کی قیمت نہیں لی جاسکتی  ہے۔

وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الفتاوى العالمگيرية: 2/ 350، ط دار الفكر)

’’شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة و وجوب العمل به‘‘. (حاشية ابن عابدين، 4/433 ط: سعید)

"والحاصل أن ههنا مسألتين: الأولى أن بيع الوقف باطل ولو غير مسجد خلافا لمن أفتى بفساده." (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، باب بيع الفاسد 5/57 ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2964/45-4706

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے  جو رقم چندہ سے جمع کی جائے اس میں دینےوالوں کی نیت خاص مسجد  اور مصالح مسجد کے لئے ہی دینے کی  ہوتی ہے، لہذا اس کو دوسرے مصارف میں لگانا چندہ دہندگان کے منشا کے منافی ہے، اس لئے اس رقم کو مسجد ہی میں لگایا جائے، تاہم جو رقم صراحت کے ساتھ دوسرے دینی کاموں کے لئے ہی جمع کی گئی ہو اس کو  مسجد کمیٹی کے مشورہ  سے مسجد کے تحت چلنے والے دوسرے دینی کاموں میں بھی  لگایا جاسکتاہے۔ مسجد کے لئے جمع کی گئی رقم کو مسجد ہی میں استعمال کیاجائے گا اور اگر اس رقم کی فی الحال ضرورت نہ ہو تو بھی اس کو مسجد ہی کے آئندہ استعمال کے لئے محفوظ رکھاجائے گا اس رقم کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری مسجد میں بھی لگانا درست نہیں ہے۔ 

"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة." (شامی، کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." ) شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2956/45-4679

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد انتظامیہ اگر مناسب سمجھے اور اجازت دیدے تو اس  طرح سولر پینل مسجد کی چھت پر رکھنے کی گنجائش ہے۔  مسجد انتظامیہ کو اس سلسلہ میں آپسی مشورہ کرلینا چاہئے تاکہ بعد میں کوئی نزاع پیدا نہ ہو ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند