مساجد و مدارس

Ref.  No.  3032/46-4842

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی زمین جو مسجدسے علیحدہ ہواور مسجد کے لیے وقف ہو اور واقف نے اس بات کی تصریح کردی ہو کہ اس کی آمدنی سے مسجد کی  جملہ ضروریات کو پورا کیا جائے تو  اس زمین پر مسجد بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ واقف کے منشاء کے خلاف ہے۔ اس لئے مصالح مسجد کے لئے وقف شدہ زمین پر مسجد  نہیں بنائی جائے گی۔  البتہ اگر بڑی مسجد  کی آمدنی کے دیگر ذرائع موجود ہوں اور اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کو اس وقف شدہ  زمین کی آمدنی کی  نہ تو فی الحال ضرورت ہے اور نہ ہی  آئندہ ضرورت پیش آنے کے امید ہے ،نیز اس زمین کی آمدنی کے ضائع ہونے یا غیر مصرف میں خرچ  ہونے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں  اس زمین پر مسجد بنانا جائزہوگا۔

إن ‌شرائط ‌الواقف ‌معتبرةٌ إذا لم تخالف الشرع وهو مالكٌ، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخصّ صنفاً من الفقراء، وكذا سيأتي في فروع الفصل الأول أنّ قولهم: شرط الواقف كنصّ الشارع أي في المفهوم والدلالة، ووجوب العمل به.  قلت: لكن لا يخفى أن هذا إذا علم أنّ الواقف نفسه شرط ذلك حقيقةّ، أما مجرد كتابة ذلك على ظهر الكتب كما هو العادة فلا يثبت به الشرط، وقد أخبرني بعض قوّام مدرسة إنّ واقفها كتب ذلك ليجعل حيلةً لمنع إعارة من يخشى منه الضياع والله سبحانه أعلم .

(رد المحتار ، کتاب الوقف، مطلب متی ذکر للوقف مصرفاً....،ج:۴،ص:۳۶۶،ط:سعید)

البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناء ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصحّ أنه لا يجوز كذا في الغياثية. (الھندیۃ، کتاب الوقف، الباب الثانی فی مایجوز وقفہ ومالایجوز، ج:۲،ص:۳۶۲،ط:رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref.  No.  3014/46-4801

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  راشد کے مکان کا ایک حصہ  جوبہن کی زمین پر بناہوا ہے،وہ  بہن نے بیچ دیا ہے اورخریدنےوالے نے اس کو وقف کردیاہے، تو ایسی صورت میں راشد پر لازم ہوگا کہ وقف کی زمین کو خالی کرے۔ وقف زمین کو بیچنا جائز نہیں ہے اس لئے راشد سےاس زمین کی قیمت نہیں لی جاسکتی  ہے۔

وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الفتاوى العالمگيرية: 2/ 350، ط دار الفكر)

’’شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة و وجوب العمل به‘‘. (حاشية ابن عابدين، 4/433 ط: سعید)

"والحاصل أن ههنا مسألتين: الأولى أن بيع الوقف باطل ولو غير مسجد خلافا لمن أفتى بفساده." (حاشية ابن عابدين، كتاب البيوع، باب بيع الفاسد 5/57 ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2964/45-4706

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے  جو رقم چندہ سے جمع کی جائے اس میں دینےوالوں کی نیت خاص مسجد  اور مصالح مسجد کے لئے ہی دینے کی  ہوتی ہے، لہذا اس کو دوسرے مصارف میں لگانا چندہ دہندگان کے منشا کے منافی ہے، اس لئے اس رقم کو مسجد ہی میں لگایا جائے، تاہم جو رقم صراحت کے ساتھ دوسرے دینی کاموں کے لئے ہی جمع کی گئی ہو اس کو  مسجد کمیٹی کے مشورہ  سے مسجد کے تحت چلنے والے دوسرے دینی کاموں میں بھی  لگایا جاسکتاہے۔ مسجد کے لئے جمع کی گئی رقم کو مسجد ہی میں استعمال کیاجائے گا اور اگر اس رقم کی فی الحال ضرورت نہ ہو تو بھی اس کو مسجد ہی کے آئندہ استعمال کے لئے محفوظ رکھاجائے گا اس رقم کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری مسجد میں بھی لگانا درست نہیں ہے۔ 

"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة." (شامی، کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." ) شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2956/45-4679

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد انتظامیہ اگر مناسب سمجھے اور اجازت دیدے تو اس  طرح سولر پینل مسجد کی چھت پر رکھنے کی گنجائش ہے۔  مسجد انتظامیہ کو اس سلسلہ میں آپسی مشورہ کرلینا چاہئے تاکہ بعد میں کوئی نزاع پیدا نہ ہو ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2941/45-4621

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس مدرسہ کے لئے آپ نے محنت کی ، لوگوں سے رابطہ کیا اور چندہ جمع کیا،  اس مدرسہ نے آپ کو بطور انعام کے اگر کچھ پیسے دئے تو وہ پیسے آپ کے لئے جائز اور حلال ہیں۔ ان کو آپ اپنے استعمال میں لاسکتے ہیں۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس
Ref. No. 2875/45-4561 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چندہ دینے والوں نے مسجد اور مصالح مسجد کے لئے چندہ دیا ہے، اور چندہ جس مقصد سے جمع کیاجائےاس کے علاوہ امور میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ افطار پارٹی مصالح مسجد میں سے نہیں ہے اس لئے مسجد فنڈ کو افطار پارٹی میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ "( ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح، وتمامه في البحر وإن لم يشترط الوقف لثبوته اقتضاء". ". (شامی، 4/367 دارالفکر بیروت) ‌"شرط ‌الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة". (شامی، كتاب الوقف، مطلب في شرط الواقف...،ج:4،ص:433، ط:سعيد) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس
Ref. No. 2914/45-4531 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، جس نے مسجد بنائی اس نے وہ زمین اور مکان اللہ کو دے دیا، اس میں مالک زمین کا کوئی حق اب باقی نہیں رہا، اس لئے اس شخص کا یہ کہنا کہ یہ میری مسجد ہے اور پھر مسجد سے لوگوں کو روکنا حرام ہے، قرآن میں واضح طور پر اس کو بیان کیاگیا ہے۔ اہل محلہ کو چاہئے کہ اس مسجد کی باقاعدہ طور پر رجسٹری کرائیں اور اسی میں نماز ادا کریں۔ بانی شخص کا اس مسجد کے اندر اب کوئی دخل نہیں ہے، اس لئے اس کا روکنا بھی معتبر نہیں ہے۔ اہل محلہ مسجد میں ہی نماز ادا کریں گے اور بانی کے روکنے سے اہل محلہ کا رک جانا جائز نہیں ہے۔ وَمَن أَظلَمُ مِمَّن مَنَعَ مَسَاجِدَ اللَّہِ أَن یُذکَرَ فِیہَا اسمُہُ۔۔۔۔الخ القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 114) عام لکل من خرّب مسجداً أو سعی فی تعطیل مکان مرشح للصلاۃ۔ (تفسیر البیضاوی: (البقرۃ، الآیۃ: 104) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1080 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  سود کی رقم  مال حرام ہے،اور مال حرام کو بلاتملیک فقراء،مسجد کی تعمیر میں لگانا یا رمضان میں کھانے کی چیزوں میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد کے بیت الخلاء کی تعمیرمیں بھی استعمال کرنا درست نہیں  ہے۔  سود کی رقم کسی غریب کو بلا نیت ثواب دیدینا لازم ہے۔  اما اذا کان عند رجل مال خبیث فاما ان ملکہ بعقد فاسد او حصل لہ بغیر عقد ولایمکنہ ان یردہ الی مالکہ ویرید ان یدفع مظلمتہ عن نفسہ فلیس لہ حیلة الا ان یدفعہ الی الفقراء۔ ﴿بذل المجھود﴾ واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2192/44-2333

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔سرکار سے اجازت لئے بغیر اس طرح لائٹ لگانا غیرقانونی ہے، اس لئے شرعی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ لائٹ سرکار کی ملکیت ہے اس لئے سرکاریعنی مذکورہ محکمہ  سے اجازت لینا ضروری ہے۔

ولا یجوز حمل تراب ربض المصر الخ (الفتاوی الھندیة، ۵: ۳۷۳، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)، إن المحظور لغیرہ لا یمتنع أن یکون سببا لحکم شرعي الخ (تبیین الحقائق، ۶: ۳۲۴، ط: المکتبة الإمدادیة، ملتان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1363/42-760

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بچوں کو سکھانے کے لئے ان کو بآواز بلند کلمے کہلوانا اور نماز واذان زور سے کہلوانا درست ہے۔ البتہ نماز کے اوقات  میں اس کو موقوف کردینا چاہئے تاکہ نمازیوں کو خلل نہ ہو۔ اذان سے پہلے اس کو بند کردیا جائے تاکہ لوگوں کو سنت وغیرہ پڑھنے میں کوئی حرج نہ ہو۔

لأن المسجد مابنی إلا لہا من صلاة واعتکاف وذکر شرعی وتعلیم علم وتعلمہ وقراء ة قرآن (البحرالرائق: ۲/۶۰، ط: زکریا، دیوبند) تعلیم الصبیان فی المسجد لا بأس بہ (ردالمحتار: ۹/۶۱۳، ط: زکریا، دیوبند(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند