Frequently Asked Questions
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3182/46-7019
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالیٰ کی ذات، اسماء و صفات قدیم ہیں اور مخلوق کی ذات و صفات حادث ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ کا کوئی مشابہ نہ موجود ہے اور نہ ہی کوئی ہوسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ." یعنی اس کی طرح کا کوئی بھی نہیں ہے۔ اللہ تعالی کے لئے قرآن و حدیث میں جن اعضاء کا ثبوت ملتاہے ان سے مراد اللہ تعالی کی ذاتی صفات ہیں جن کے لئے نہ کسی عضو کی ضرورت ہے اور نہ کسی جسم کی۔ اللہ تعالی کا دیکھنا یا سننا وغیرہ امور ہماری طرح عضو ِکان اور عضوِ ناک وغیرہ کے محتاج نہیں ہیں۔ اس لئے ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے لئے دونوں ہاتھوں سے پکڑنا یا دونوں آنکھوں سے دیکھنا یا دونوں کانوں سے سننا وغیرہ صفات سے وہ متصف ہے مگر اس کی حقیقت کا علم نہیں کہ وہ کس طرح دیکھتا، سنتا اور پکڑتاہے۔ اس لئے یہ کہنا کہ اللہ تعالی اپنی دونوں آنکھوں سے دیکھ رہاہے جیسا کہ اس کی شان ہے کوئی گناہ یا گمراہی کی بات نہیں ہوگی ۔ جمہور اہل سنت والجماعت کا یہی مذہب ہے کہ نصوص میں وارد صفات اللہ تعالی کے لیے بلاکیف ثابت ہیں، اور متشابہات کے باب میں بہت زیادہ غور خوض کرنے سے منع کیاگیاہے۔
قولہ تعالی: ید اللہ فوقَ أیدِیہم، قولہ تعالی: ما منعک أن تسجد لما خلقتُ بیديَّ اور مثلاً نفس کما فی قولہ تعالی حکایة عن عیسی -علیہ السلام- تعلم ما في نفسي ولا أعلم ما في نفسک․ وفي الحدیث، وفي الحدیث الشریف: أنت کما أثنیتَ علی نفسک․ اور مثلاً لفظ عین (آنکھ) کما في قولہ تعالی: ولتصنع علی عیني وغیرہ۔ (القرآن)
والواجب أن ینظر في ہذا الباب أعني في باب الصفات فما أثبتہ اللہ ورسولہ أثبتناہ وما نفاہ اللہ ورسولہ نفیناہ (شرح الطحاویة: ۱۶۸، ط: سعودی) والمشہور عند الجمہور من أہل السنة وا لجماعة أنہم لا یریدون بنفي التشبیہ نفي الصفات بل یریدون أنہ سبحانہ لا یشبہ المخلوق في أسمائہ وصفاتہ وأفعالہ (شرح الفقہ الاکبر ص:۱۷ ط: اشرفی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3042/46-4864
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب آپ نے توبہ کرتے ہوئے پچھلے تمام کفریہ کلمات سے توبہ کرلی تو ہر ایک کفریہ کلمہ کو دوہرانے اور اس سے توبہ کرنے کی ضرورت نہیں رہی، تمام کفریہ کلمات سے توبہ کرنے کے بعد تجدید ایمان و تجدید نکاح کرلینا تو یہ کافی ہوگیا۔ اگر کوئی کفریہ جملہ کہا اور وہ کفریہ جملہ یاد ہے تو اس کے مقابل ایمان والا جملہ کہہ کر توبہ کرلینا زیادہ بہتر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3045/46-4867
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تحلیل وتحریم کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی وجہ سے شہد نہ کھانے کی قسم کھا لی تھی تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آیت نازل فرمائی (یا ایہا النبی لم تحرم ما احل اللہ لک) اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے سے منع کیا گیا اس لیے اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی ادارے یا فرد کو تحلیل وتحریم کا اختیار دینا ناجائز اور حرام ہے اور اگر اس کا اعتقاد بھی رکھا جائے تو یہ کفر ہے، اسی طرح ہر مسلمان کا فریضہ ہے کہ قرآن وحدیث کو اپنے جھگڑے میں حکم اور فیصل بنائے خود قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کی تاکید فرمائی ہے، لیکن جہاں پر اسلامی اصولوں پر مبنی عدالت نہ ہو تو ملکی دستور کے مطابق جس حد تک اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہے خاص طور پر عائلی مسائل میں دار القضاء میں فیصلہ کرانا چاہئے شرعی حکم پر عمل کے امکان کے باوجود جان بوجھ کر غیر شرعی فیصلہ کرانا یہ گناہ اور ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ فلا وربک لایؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم (القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3021/46-4825
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۱۔ حدیث شریف سے صرف یہ ثابت ہے کہ جس جانور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے معراج فرمائی تھی، وہ قد و قامت میں گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا تھا جس کی رفتار منتہائے نظر تک ایک قدم کا رکھنا تھی اور بس ، لہٰذا زید کا مذکورہ عقیدہ غلط ہے اور گمراہی پر مبنی ہے۔ اس لئے اس عقیدہ کی بناء پر اس کو راہ حق سے بھٹکاہوا اور گمراہ یا فاسق کہاجائے گا، ایسی لغو باتوں سے احتراز لازم ہے۔۲۔ بتوں پر پانی چڑھانا شرکیہ عمل ہے، اور شرکیہ عمل کو انجام دینے والاخواہ کچھ بھی نیت کرے، وہ ایمان سے خارج ہوجائے گا۔ ایسے شخص پر توبہ واستغفار کے ساتھ تجدید ایمان وتجدید نکاح بھی لازم ہوگا۔ خیال رہے کہ شرکیہ اعمال میں نیت کا اعتبار نہیں ہے، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ شرکیہ اعمال سے بالکلیہ براءت کا اظہار کرے اور کسی بھی شرکیہ عمل میں قطعا شرکت نہ کرے اور دنیا کے مفاد پر آخرت کو ترجیح دے اوراس ضمن میں ہونے والے نقصان کو برداشت کرے۔ اگر آج شرکیہ اعمال سے نہیں رکے گا تو دھیرے دھیرے ان عمال کی قباحت دل سے نکل جائے گی اور آخرت کا بڑا نقصان کربیٹھے گا۔ اس لئے شریعت مطہرہ میں شرکیہ اعمال کو نیک نیتی کے ساتھ کرنے کی بھی قطعا گنجائش نہیں ہے۔ ۳۔مسلمان کےلیےہولی کھیلنااسی طرح کفار،مشرکین اوربےدین لوگوں کے مذہبی رسومات ، تہواروں اوران کے کفریہ وشرکیہ اعمال پرمشتمل تقریبات ومحافل میں شریک ہونا،یاان کے امتیازی علامات کواستعمال کرنا ،یا ان کی طرح شکل وصورت بنانا یہ تمام افعال تشبہ بالکفار کی وجہ سے حرام و ناجائز ہیں ۔۴۔ اہل سنت والجماعت کے نزدیک تعزیہ بنانا بدعت ، نا جائزو حرام ہے، اور ناجائز امور میں کسی کی اعانت بھی حرام و ناجائز ہے۔ علماء اور مفتیان کرام تحریروتقریر کے ذریعہ لوگوں کر متنبہ کرتے رہیں اور اس کی قباحت پر روشنی ڈالتے رہیں اور اصل سنت کیا ہے اس کو بھی لوگوں کے مابین عام کریں۔ لوگوں کی ملامت اور طنزیہ جملوں کی پرواہ کئے بغیر پُرزور انداز میں برابر رسوم و بدعات کے خلاف مناسب طریقہ پر آواز اٹھاتے رہیں۔
عن أنس بن مالك أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال * أتيت بالبراق و هو دابة أبيض طويل فوق الحمار و دون البغل يضع حافره عند منتهى طرفه قال فركبته حتى أتيت بيت المقدس اھ (الصحیح لمسلم : ۱/۹۱)۔
(وَیَقْضِی مَا تَرَکَ مِنْ عِبَادَةٍ فِی الْإِسْلَام) لِأَنَّ تَرْکَ الصَّلَاةِ وَالصِّیَامِ مَعْصِیَةٌ وَالْمَعْصِیَةُ تَبْقَی بَعْدَ الرِّدَّةِ الخ (رد المحتار علی الدر المختار :۲۵۱/۴، کتاب الجہاد، باب المرتد،ط: دار الفکر، بیروت ، معارف القرآن :۵۲۰/۱، سورہ بقرہ، آیت نمبر ۲۱۸) ۔
قال الله تعالى: {ولن ترضى عنك اليهود ولا النصارى حتى تتبع ملتهم قل إن هدى الله هو الهدى ولئن اتبعت أهواءهم بعد الذي جاءك من العلم ما لك من الله من ولي ولا نصير۔ (سورۃ البقرۃ)"يكفر بوضع قلنسوة المجوس على رأسه على الصحيح إلا لضرورة دفع الحر والبرد وبشد الزنار في وسطه إلا إذا فعل ذلك خديعة في الحرب وطليعة للمسلمين.....وبخروجه إلى نيروز المجوس لموافقته معهم فيما يفعلون في ذلك اليوم وبشرائه يوم النيروز شيئا لم يكن يشتريه قبل ذلك تعظيما للنيروز لا للأكل والشرب وبإهدائه ذلك اليوم للمشركين ولو بيضة تعظيما لذلك لا بإجابة دعوة مجوسي حلق رأس ولده وبتحسين أمر الكفار اتفاقا
(الھندیۃ، کتاب السير:مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام،ج:2،ص:267،268،ط:رشيدية)
امداد الفتاوی میں ہے: "تعزیہ کے ساتھ جو معاملات کیے جاتے ہیں، ان کا معصیت و بدعت بلکہ بعض کا قریب بہ کفر و شرک ہونا ظاہر ہے، اس لیے اس کا بنانا بلا شک ناجائز ہوگا اور چوں کہ معصیت کی اعانت معصیت ہے، اس لیے اس میں باچھ یعنی چندہ دینا یا فرش و فروش و سامان روشنی سے اس میں شرکت کرنا سب ناجائز ہوگا اور بنانے والا اور اعانت کرنے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔(امداد۔ج۴۔ص۸۰)Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 3010/46-4803
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
All Shias are not infidels, but those whose beliefs are in accordance with the beliefs of the people of Islam are Muslims, and those who do not hold the beliefs of the people of Islam are called infidels. Among the Shias those who are out of faith, their beliefs are clearly against the Qur'an and Sunnah. They believe that Hazrat Jibreel betrayed the revelation; they believe that the Qur'an is distorted and the Qur'an is not safe. How can they be called Muslims with these beliefs? Ahle-Sunnat consider these shia kafir. And the Shias who do not hold these beliefs are yet Muslims.
However, it is also worth noting that these people hide their blasphemous beliefs as taqiyyah, and say that doing taqiyyah, - lying and hiding their blasphemous beliefs - is not only permissible but is part of their worship and religion. The belief of the Shias about Imamat is also a revolt against seal of the Prophet and it is an open conspiracy against Islam, and it is also disbelief.
When you read about them, you will realize how different their beliefs are from the beliefs of Ahle-Sunnat. Therefore, marriage with them is not permissible. Yes, the Shias whose beliefs are in accordance with the basic beliefs of the people of Islam and but they disagree on a few things, they are not infidels, but they will definitely be called the misguided due to these wicked things, therefore marriage with such people will be permitted in Sharia, however. For the sake of expediency, they have been forbidden to marry; otherwise there is a threat and fear of corruption after marriage.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2994/46-4766
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ دونوں کھلم کھلا حرام کے مرتکب ہیں، اس لئے ان سے تعلقات قائم کرنا جائز نہیں ہے، ان کا سماجی بائکاٹ ہونا ضروری ہے تاکہ دونوں اپنے گناہ کبیرہ سے توبہ کریں اور علیحدگی اختیار کریں،۔اگر وہ توبہ کرلیں اور علیحدگی اختیار کرلیں تو پھر بائکاٹ ختم کرکے ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا جائز ہوجائے گا۔
واما ینسینک الشیطان فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین۔ (سورۃ الانعام 68)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2966/45-4704
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ ضروری ہے ، اس قدر گھناؤنی حرکت کے باوجود اس کے گھر آناجانا بڑی ہی بے غیرتی کی بات ہے، ایمان کا تقاضہ ہے کہ اس سنگین گناہ کے مرتکب کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھاجائے ، یہاں تک کہ جولوگ تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی منع کیاجائے، اور اس شخص کی بیوی کو بھی سمجھایاجائےکہ وہ اب حرام کا مرتکب ہورہی ہے، اس کے لئے اپنے شوہرکے ساتھ رہنا قطعا ناجائز اورشرعی طور پر حرام ہے۔ پنچایت میں اس کو پیش کرکے اس سے توبہ کرائی جائے، اگر وہ بیوی کو طلاق دے کر الگ کردے اور اپنے گناہ پر نادم ہوکر توبہ کرلے اور پھر اس کے بائیکاٹ کو ختم کردیاجائے تو اس کی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندIslamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2683/45-4142
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If you wash the girl’s urine or stool and your hand is stained with the impurities of urine or stool, your hand became impure and it is necessary to wash the hands to get it pure. If the child’s impure body is dry and you hold it, you don’t need wash your hands just because you have touched the impure body. Hence if you prayer after that your prayer will be valid. If impure water splashes on your clothes or body while washing the girl's impure clothes or body, it is necessary to wash your clothes. So, you have to be very careful while washing your baby’s impurities.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 2831/45-4434
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Your question is not clear. If you want to know the status of one who throws the unused wrapper with the halal marks in the trash, so it does not make one a disbeliever and you should not be in doubt unreasonably. If you want to know anything else, do re-send your query.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1361/42-759
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
‘Rajaba’ (with the Fat;ha of Baa) is correct. You should recite: Allahumma baarik lana fi Rajaba wa Sha’bana wa balligh-na Ramadan.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband