روزہ و رمضان

Ref. No. 3485/47-9508

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔        بنیادی طور پریہ بات واضح رہنی چاہیے کہ حضراتِ فقہاء کے مابین اختلافِ مطالع کے سلسلے میں جو اختلاف ہے وہ اس بارے میں نہیں ہے کہ اختلاف ِ مطالع ہے یا نہیں؟اس لیے کہ اختلافِ مطالع ایک مسلّم اور ثابت شدہ شئی ہے جس کے بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں؛ البتہ اختلاف اس سلسلے میں ہے کہ کیا یہ اختلافِ مطالع احکام میں مؤثر ہوں گے یا نہیں؟چناں چہ علامہ شامیؒ لکھتے ہیں: ’’اعلم أن نفس اختلاف المطالع لا نزاع فيه بمعنى أنه قد يكون بين البلدتين بعد بحيث يطلع الهلال له ليلة كذا في إحدى البلدتين دون الأخرى وكذا مطالع الشمس  ۔۔۔ وإنما الخلاف في اعتبار اختلاف المطالع ۔۔ الخ ۔‘‘    (رد المحتار، ج ۳، ص: ۳۶۳۔۳۶۴، ط: زکریا دیوبند) اس عبارت سے واضح ہو ا کہ اختلافِ فقہاء اختلافِ مطالع کے اعتبار وعدمِ اعتبار کے سلسلے میں ہے ، چناں چہ اس بارے میں تین  نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں: (۱)  پہلا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا مطلقاً کوئی اعتبار نہیں،نہ بلادِ قریبہ میں نہ بلادِ بعیدہ میں، لہٰذا ایک شہر میں رؤیت ہوجائے تو بطریقِ موجب جس شہر وعلاقہ میں بھی یہ خبر پہنچے ،وہاں کے لوگوں پر اس رؤیت کا اعتبار لازم ہوگا: امام ابوحنیفہؒ، امامِ مالکؒ، امام احمدؒ وغیرہ کا یہی مسلک ہے ، اور کتب ِ فقہ ِ حنفی میں اسی قول کو ’’ظاہر الروایۃ‘‘ قرار دیا گیاہے ۔(الفقہ علی المذاھب الأربعۃ، ۵۰۰/۱،البحر الرائق،۴۷۰/۲،الدر مع الرد،۳۶۳/۳،بدایۃ المجتھد، ۲۹۴/۱، الاقناع، ۴۸۶/۱)   (۲) دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ اختلافِ مطالع کا ہر حال میں اعتبار کیا جائے ، بلادِ قریبہ میں بھی اور بلادِ بعیدہ میں بھی : ابن حجر عسقلانی ؒ نے بحوالہ ابن المنذر اس قول کو عکرمہ، قاسم ، سالم واسحاق رحمہم اللہ کی طر ف منسوب کیا ہے اور فرمایا کہ امام ترمذیؒ نے اہلِ علم سے صرف اسی قول کو نقل کیا ہے اور علامہ ماوردی شافعیؒ نے شافعیہ کا ایک قول یہی بیان کیا ہے ۔   (فتح الباری لا بن حجر، ج ۴، ص: ۱۲۳) (۳) تیسرا نقطۂ نظر اس سلسلے میں یہ ہے کہ بلادِ قریبہ میں اختلافِ مطالع معتبر نہیں ،اوربلادِ بعیدہ میں معتبر ہے ،لہٰذا ایک جگہ کی رؤیت اس جگہ سے قریب علاقوں میں مانی جائے گی ،اس سے بعید علاقوں میں نہیں ۔ شافعیہ میں سے اکثر حضرات نے اسی قول کو اختیار کیاہے ۔ (شرح النووی علی صحیح مسلم، ۱۹۷/۷، الفقہ علی المذاھب الأربعۃ،۵۰۰/۱) علماء ِ احناف میں سے بھی کچھ حضرات نے اسی تیسرے قول کو راجح قرار دیا ہے ، چناں چہ علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے علامہ طحطاویؒ، امام قدوریؒ، صاحب فتاویٰ تاتارخانیہ ، صاحبِ ہدایہ ، علامہ زیلعی رحمہم اللہ اور دیگر فقہاء کی عبارات سے واضح کیاہے اور خود علامہ عبدالحی لکھنویؒ نے بھی (مجموعۃ الفتاویٰ، ۱/۲۶۷) میں اسی قول کو اختیار کیاہے ، نیز محققین حنفیہ میں علامہ انور شاہ کشمیریؒ، علامہ محمد یوسف بنوریؒ ، علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب نے درسِ ترمذی میں، حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی نےجدید فقہی مسائل میں اسے قول کو اختیار کیا ہے اور اس پر مفصل بحث کی ہے ۔ (معارف السنن، ۵/۳۳۷، فتح الملہم ،۳/۱۱۳، جواہر الفقہ، ۳/۲۷۹، درسِ ترمذی،۲/۵۳۷ ، جدید فقہی مسائل، ۳/۱۵۹وغیرہم) نیز مجلسِ تحقیقات ِ شرعیہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ۳،۴ مئی ۱۹۶۷ ؁ء میں منعقدہ اجلاس میں باتفاقِ علماء ِ مسالک یہ تجویز طے پائی تھی کہ :  ’’نفس الا ٔمر میں پوری دنیا کا مطلع ایک نہیں ہے ،بلکہ اختلافِ مطالع مسلّم ہے، یہ ایک واقعاتی چیز ہے ۔۔ البتہ فقہاء اس باب میں مختلف ہیں کہ صوم اور افطارِ صوم کے باب میں یہ اختلافِ مطالع معتبر ہے یا نہیں؟ محققین فقہاء ِ احناف اور علماء ِ امت کی تصریحات کے مطابق اور ان کے پیش کردہ دلائل کی روشنی میں مجلس کی متّفقہ رائے ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اس باب میں بھی اختلافِ مطالع معتبر ہے ؛ البتہ بلادِ قریبہ میں اس کا اعتبار نہیں ہے ۔‘‘ (رؤیتِ ہلال کا مسئلہ، ص: ۱۱۳۔۱۱۴، مجلسِ تحقیقاتِ شرعیہ ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ متأخرینِ حنفیہ میں سے اکثر کے نزدیک راجح تیسرا قول ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع معتبر ہے ،بلادِ قریبہ میں نہیں ۔ اس قول کے راجح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ قرآن وسنت میں یہ بات منصوص اور قطعی ہے کہ کوئی مہینہ انتیس دن سے کم اور تیس دن سے زائد نہیں ہوسکتا، بلادِ بعیدہ اور مشرق ومغرب کے فاصلوں میں اگر اختلافِ مطالع کو مطلقاً نظر انداز کردیا جائے تو اس نصِ قطعی کے خلاف لازم آئے گا بایں طور کہ کسی شہر میں اٹھائیس کو بعید ملک سے اس کی شہادت پہنچ جائے کہ آج وہاں چاند دیکھ لیا گیا ہے تو اگر اس شہر کو دوسرے کے تابع کیا جائے تو اس کا مہینہ اٹھائیس کا رہ جائے گا، اسی طرح اگر کسی شہر میں رمضان کی تیس تاریخ کو کسی بعید ملک سے بذریعۂ شہادت یہ ثابت ہوجائے کہ وہاں ۲۹؍تاریخ ہے اور اگر چاند نظر نہ آیا توکل وہاں روزہ ہوگا اور اتفاقاً چاند نظر نہ آیا تو تیس تاریخ والوں کو اکتیس روزے رکھنے پڑیں گے اور ان کامہینہ اکتیس کا قرار دینا پڑے گا جو نصِ قطعی کے خلاف ہے ،اس لیے ناگزیر ہے کہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع کا اعتبار کیا جائے ۔ اب جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ متقدمین حنفیہ نے اس کا اعتبار نہیں کیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ جن بلاد میں مشرق ومغرب کا فاصلہ ہے ،وہاں ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا ان حضرات کے لیے محض ایک فرضی قضیہ اور تخیل سے زائد کوئی حیثیت نہیں رکھتاتھا اور ایسے فرضی قضایا سے احکام پر کوئی اثر نہیں پڑتا،یہی وجہ ہے کہ متقدمین فقہاء نے اختلافِ مطالع کو غیر معتبر قرار دیا ، لیکن موجودہ دور میں وسائل کی بہتات نے ساری دنیا کو ایک قالب میں ڈھال دیا ہے ، ایک جگہ کی شہادت دوسری جگہ پہنچنا چند منٹوں میںممکن ہوگیا ہے ؛ بلکہ ہوائی جہازوں کے ذریعہ مشرق ومغرب کے فاصلے چند گھنٹوں میں طے کیے جاسکتے ہیں ،لہٰذا اس صورت میں اگر مشرق کی شہادت مغرب میں اور مغرب کی مشرق میں حجت مانی جائے تو کسی جگہ مہینہ اٹھائیس دن کا ، کسی جگہ اکتیس دن کا ہونا لازم آئے گا ، اس لیے ایسے بلادِ بعیدہ میں جہاں مہینہ کے دنوں میں کمی بیشی کا امکان ہو تو اختلافِ مطالع کا اعتبار کرنا ہی ناگزیر اور مسلکِ حنفیہ کے عین مطابق ہوگا ، نیز یہ فقہی ضابطہ ’’تتغیر الأحکام بتغیر الزمان‘‘ کے بھی مطابق ہوگا ، یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اکثر علماء ِ مذاہب ِ اربعہ نے اختلافِ مطالع کے اعتبار کا فتویٰ دیاہے ۔ لہٰذا سوالِ مذکور میں ذکر کردہ حوالہ جات میں ظاہر الروایۃ والے قول کو اختیار کیا گیاہے ؛ جب کہ بعد کے فقہاء ِ حنفیہ کے فتاویٰ جات میں تیسرے قول کو اختیار کیا گیاہے ،اور اب یہی فقہاء کے مابین معمول بہا بھی ہے ،لہٰذا عمومی احوال میں اب اسی رائے پر عمل کرنا چاہیے ۔ فقط واللہ أعلم بالصواب

    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 3321/46-9135

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی فرض کو دوبار فرض کی نیت سے پڑھا جائے تو پہلا فرض اداہوگا اور دوسرا نفل ہوجائے گا۔ اس لئے قضائے عمری میں جو نمازیں ذمہ میں فرائض سے زائد آپ پڑھیں گےوہ  آپ کے حق میں نفل  شمار ہوں گی اور ان کا ثواب بھی آپ کے نامہ اعمال میں لکھاجائے گا، وہ ضائع نہیں ہوں گی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان

Ref. No. 3265/46-8094

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سحر و افطار کے اوقات میں مذکورہ احتیاط درست بلکہ ضروری ہے، اس لئے کہ جنتری کے اوقات میں پانچ چھ منٹ  تو عام طور پر مختلف جنتریوں کا فرق رہتاہے، چنانچہ تھانویؒ نے دس منٹ کے احتیاط کو ضروری قرار دیاہے ، لکھتے ہیں: نقشہ ہذا میں صبح صادق کا وقت جو درج ہے وہ علم ہیئت جدید اور مشاہدہ سے بالکل ابتدائے صبح ہے مگر احتیاطا لازم ہے کہ صبح کی اذان کم از کم دس منٹ بعد ہی کہی جائے ، سحری بیس منٹ پہلے ہی ختم کردی جائے، اس میں بداحتیاطی سے کام نہ لیاجائے۔ (بوادرالنوادر 429)۔ اس لئے مذکورہ احتیاط بالکل درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2862/45-4576 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر یقینی طور پر دوا کے ذرات حلق سے نیچے نہیں گئے، تو آپ کا روزہ درست ہوگیا، دوا کا اثر زبان پر صرف محسوس ہواتو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2881/45-4567 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روزہ کی حالت میں اگر ڈکار کے ساتھ کھانا یا کھٹا پانی وغیرہ حلق میں آگیا اور ابھی حلق میں ہی تھا کہ اس کو نگل لیا یا خود بخود وہ اندر چلاگیا تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، اسی طرح اگر منھ میں کھانا یا پانی آگیا اوراس کو تھوک دیا اور کلی کرلی تو اس سے بھی روزہ فاسد نہیں ہوگا، البتہ اگر کھانا یا پانی منھ میں آگیا اور واپس اس کو نگل لیا تو اب روزہ فاسد ہوجائے گا اور قضا لازم ہوگی، کفارہ نہیں ۔ (فإن عاد بنفسه لم يفطر وإن أعاده ففيه روايتان) أصحهما لايفسد محيط (وهذا) كله (في قيء طعام أو ماء أو مرة) أو دم (فإن كان بلغما فغير مفسد) مطلقا خلافا للثاني واستحسنه الكمال وغيره. )الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 415) "وَإِنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ وَخَرَجَ) وَلَمْ يَعُدْ (لَايُفْطِرُ مُطْلَقًا) مَلَأَ أَوْ لَا (فَإِنْ عَادَ) بِلَا صُنْعِهِ (وَ) لَوْ (هُوَ مِلْءُ الْفَمِ مَعَ تَذَكُّرِهِ لِلصَّوْمِ لَايَفْسُدُ) خِلَافًا لِلثَّانِي". (قَوْلُهُ: لَايُفْسِدُ) أَيْ عِنْدَ مُحَمَّدٍ، وَهُوَ الصَّحِيحُ؛ لِعَدَمِ وُجُودِ الصُّنْعِ؛ وَلِعَدَمِ وُجُودِ صُورَةِ الْفِطْرِ، وَهُوَ الِابْتِلَاعُ وَكَذَا مَعْنَاهُ؛ لِأَنَّهُ لَايَتَغَذَّى بِهِ بَلْ النَّفْسُ تَعَافُهُ، بَحْرٌ". (الدر المختار مع رد المحتار: (بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّوْمَ وَ مَا لَا يُفْسِدُهُ الْفَسَادُ، 424/2، ط: سعید) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2906/45-4548 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سحری اور افطار کے وقت روزہ دار جہاں موجود ہوگا وہیں کے منتہائے وقت کا اعتبار ہوگا، اس لئے سعودی میں سحری کرنے والا اگر افطار کے وقت انڈیا میں ہے تو انڈیا کے وقت کے مطابق افطار کرے گا۔ اسی طرح انڈیا میں سحری کے بعد سعودی جانے والا افطار سعودی وقت کے مطابق کرے گا۔ "حدثنا ‌الحميدي : حدثنا ‌سفيان : حدثنا ‌هشام بن عروة قال: سمعت ‌أبي يقول: سمعت ‌عاصم بن عمر بن الخطاب ، عن ‌أبيه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا أقبل الليل من هاهنا، وأدبر النهار من هاهنا، وغربت الشمس، فقد أفطر الصائم". (صحیح البخاری ، كتاب الصوم، باب: متى يحل فطر الصائم، 3/ 36 ط: المطبعة الكبرى الأميرية) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2903/45-4544 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ روزہ کی حالت میں منہ میں تھوک جمع کرنا اور پھر نگل جانا مکروہ ہے لیکن اس سے روزہ نہیں ٹوٹتاہے۔ اور اگر تھوک خود جمع ہوجائے ور اس کو نگل لے تو یہ مکروہ بھی نہیں ہے۔ بلغم اگر حلق کے اندر ہی اندر نگل لیاجائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، لیکن اگر بلغم کو منھ میں لا کر روک لیا اور پھراس کو جان بوجھ کر نگل لیا تو ایسا کرنا مکروہ ہتے مگر اس سے بھی روزہ فاسدنہیں ہو گا۔ "وَيُكْرَهُ لِلصَّائِمِ أَنْ يَجْمَعَ رِيقَهُ فِي فَمِهِ ثُمَّ يَبْتَلِعَهُ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ". (الفتاوى الهندية (1 / 199) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2902/45 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں دوہرا گناہ ہوگیا، رمضان کے روزہ توڑنے کا بھی گناہ ہوا اور حالت حیض میں جماع کرنے کا بھی گناہ ہوا یہ دونوں حرام کام سرزد ہوئے اس لئے خوب دل سے توبہ واستغفار کریں اور رمضان کے روزے پورے کریں۔ رمضان کے بعد ایک روزہ کی قضا اور کفارہ میں دوماہ کے لگاتار روزے لازم ہوں گے۔ "من جامع عمداً في أحد السبيلين فعليه القضاء والكفارة، ولايشترط الإنزال في المحلين، كذا في الهداية. وعلى المرأة مثل ما على الرجل إن كانت مطاوعةً، وإن كانت مكرهةً فعليها القضاء دون الكفارة (الفتاوى الهندية (1/ 205) أَنَّ أَبَا هرَیْرَة قَالَ بَیْنَمَا نَحْنُ جُلُوسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ إِذْ جَائَه رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُولَ اﷲِ هلَکْتُ قَالَ مَا لَکَ قَالَ وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ هلْ تَجِدُ رَقَبَة تُعْتِقُها؟ قَالَ لَا. قَالَ فَهلْ تَسْتَطِیعُ أَنْ تَصُومَ شَهرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ؟ قَالَ لَا. فَقَالَ فَهلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّینَ مِسْکِینًا؟ قَالَ لَا. قَالَ فَمَکَثَ النَّبِيُّ فَبَیْنَا نَحْنُ عَلَی ذَلِکَ أُتِيَ النَّبِيُّ بِعَرَقٍ فِیه تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِکْتَلُ قَالَ أَیْنَ السَّائِلُ؟ فَقَالَ أَنَا. قَالَ خُذُ هذَا فَتَصَدَّقْ بِه فَقَالَ الرَّجُلُ أَعَلَی أَفْقَرَ مِنِّي یَا رَسُولَ اﷲِ فَوَاﷲِ مَا بَیْنَ لَابَتَیْها یُرِیدُ الْحَرَّتَیْنِ أَهلُ بَیْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهلِ بَیْتِي. فَضَحِکَ النَّبِيُّ حَتَّی بَدَتْ أَنْیَابُه ثُمَّ قَالَ أَطْعِمْه أَهلَکَ. (• بخاري، الصحیح، 2: 684، رقم: 1834 / مسلم، الصحیح، 2: 731، رقم: 1111) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

روزہ و رمضان
Ref. No. 2861/45-4504 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ ﷺ شعبان کے مہینہ میں اکثر ایام روزہ رکھتے تھے۔ لیکن امت کو بطور شفقت آپ نے نصف آخر میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا تاکہ رمضان کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس لئے علماء نے لکھا کہ جو شخص ہر پیر وجمعرات کو یا ہر ماہ ایام بیض میں یا آخری تین دن روزہ رکھنے کا عادی ہو، یا شعبان کے نصفِ اول میں بھی وہ روزہ رکھتا ہو ، اور اس کو روزہ رکھنے سے کز وری اور طبیعت میں گراوٹ پیدا نہ ہوتی ہو تو اس کے لیے نصف شعبان کے بعد بھی روزہ رکھنا بلا کراہت جائز ہے ، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو پھر اس کے لئے نصف شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ ہوگا۔ نفلی روزوں میں تتابع کی کوئی شرط نہیں ہے۔ اس لئے حسب سہولت روزہ رکھ سکتاہے۔ "عن أبي سلمة، أن عائشة رضي الله عنها، حدثته قالت: لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شهرًا أكثر من شعبان، فإنه كان يصوم شعبان كله". (صحيح البخاري (3/ 38) قال القاري: إذا مضى النصف الأول من شعبان فلاتصوموا بلا انضمام شيء من النصف الأول، أو بلا سبب من الأسباب المذكورة، والنهي للتنزيه رحمةً على الأمة أن يضعفوا عن حق القيام بصيام رمضان على وجه النشاط، وأما من صام شعبان كله، فيتعود بالصوم وتزول عنه الكلفة، ولذا قيده بالانتصاف، أو نهى عنه لأنه نوع من التقدم المقدم، (بذل المجهود في حل سنن أبي داود (8/ 471) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند