Marriage (Nikah)

Red. No. 3172/46-7003

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر لڑکا اسلامی عقائد کا حامل ہے اور اس کے عقائد اہل سنت والجماعت والے ہیں اور اپنے شیعہ عقائد سے توبہ کرچکاہے تو اس سے نکاح میں کوئی حرج نہیں ۔ تاہم  والدین کی مرضی نہ ہو تو ضد نہیں کرنی چاہئے۔ والدین اپنے تجربات کی بنا پراپنے بچے کو مستقبل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جوانی میں  لوگ عام طور پر جذباتی اور ضدی  ہوتے ہیں؛صحیح فیصلہ نہیں کرپاتے  اور پھرنتیجہ اس کا اچھا نہیں ہوتاہے؛  اس لئے والدین کی مرضی کو مقدم رکھنا بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3149/46-6043

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows

In the mentioned case, your marriage is not valid because, according to Islamic principles, both the proposal (Ijab) and acceptance (Qubul) must occur in the same meeting for the Nikah to be valid. In the case of a video call, the two parties are in separate meetings; which does not meet the requirements. A valid way for the Nikah to take place is for the woman to appoint her prospective husband or any other man as her representative (Wakil), who would then make the proposal on her behalf, and the man would accept it. This would render the Nikah valid. However, it is crucial to perform the marriage with the consent of the parents, as causing them distress can never be appropriate. This aspect should also be considered.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3059/46-4894

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پسندیدہ نکاح یہی ہے کہ والدین کی رضامندی سے کیاجائے تاہم اگر بالغ لڑکا و لڑکی دوگواہوں کی موجودگی میں نکاح کرلیں تو نکاح فقہ حنفی کے اعتبار سے درست ہوجاتاہے،  نکاح کے بعد میاں بیوی کا اپنے گھروالوں کو نکاح کے بارے میں  بتانا شرعا لازم نہیں ہے۔ البتہ اگر نکاح میں ایک متعینہ مدت کی شرط  لگائی گئی تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا اور یہ نکاح  دائمی  ہی ہوگا۔ جب نکاح ہوگیا تو میاں بیوی کا آپس میں ملنا، بوس و کنار ہونا سب کچھ  جائز ہوگیا اب شرعا کوئی ممانعت نہیں رہی۔تاہم سب کے سامنے بوس و کنار ہونا بے حیائی ہے اورناجائز ہے۔ اپنی بیوی سے بھی تنہائی میں ہی ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔ شادی کے بعد اگر میاں بیوی تنہائی میں نہیں ہوتے ہیں تو عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی۔ لہذااگر میاں بیوی کے درمیان تھوڑی دیر کے لیے بھی خلوت (تنہائی) ہوگئی اور پھر طلاق ہوئی  تو بیوی پر عدت واجب ہے اور اگر خلوت بالکل نہیں ہوئی تو عدت واجب نہ ہوگی۔  خفیہ نکاح کرنے کے بعد جب والدین راضی ہوجائیں تو سب کے سامنے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اس کو پہلا نکاح لکھوانے میں کوئی حرج نہیں ، نکاح پر نکاح کرنا پہلے نکاح کو ختم نہیں کرتاہے۔

قال في الدر وسبب وجوبہا عقد النکاح التأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت أو خلوة أي صحیحة قال الشامي إن المذہب وجوب العدة للخلوة صحیحة أو فاسدةً (الدر مع الرد: ۲م۶۵۱)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3034/46-4928

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

As the husband uttered Kufriya words, he became infidel. Hence the marriage was annulled. However, with this annulment of the marriage, a divorce (Talaq e Bain) occurred on the woman, and Idah became obligatory on her. And if a divorce with clear words is given during her Iddah after the previous divorce (Talaq e Bain), the divorce will take place. Therefore, in the case mentioned in the question, if a clear divorce is given during the Iddah of annulment of the marriage, according to the Hanafi school, the divorce will take place as a punishment in an exceptional case.  

وأما الفسخ: فهو نقض العقد من أصله، أو منع استمراره، ولا يحتسب من عدد الطلاق، ويكون غالبا في العقد الفاسد أو غير اللازم. وبه يتبين أن الفسخ يفترق عن الطلاق من ثلاثة أوجه: ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الثالث: أثر كل منهما: الفسخ: لا ينقص عدد الطلقات التي يملكها الرجل، أما الطلاق فينقص به عدد الطلقات. وكذلك فرقة الفسخ لا يقع في عدتها طلاق، إلا إذا كانت بسبب الردة أو الإباء عن الإسلام، فيقع فيهما عند الحنفية طلاق زجرا وعقوبة. أما عدة الطلاق فيقع فيها طلاق آخر، ويستمر فيها كثير من أحكام الزواج. ثم إن الفسخ قبل الدخول لا يوجب للمرأة شيئا من المهر، أما الطلاق قبل الدخول فيوجب نصف المهر المسمى، فإن لم يكن المهر مسمى استحقت المتعة (تعويض بمثابة هدية۔ (الفقه الإسلامى و أدلته: (3153/4، ط: دار الفكر) ).الحیلة الناجزۃ: (ص: 119، ط: دار الاشاعت)

وارتداد أحدهما) أي الزوجين (فسخ) فلاينقص عددًا (عاجل) ... بلا قضاء ... وعليه نفقة العدة." قوله: بلاقضاء) أي بلا توقف على قضاء القاضي ...(قوله: و عليه نفقة العدة) أي لو مدخولًا بها إذ غيرها لا عدة عليها. وأفاد وجوب العدة سواء ارتد أو ارتدت بالحيض أو بالأشهر لو صغيرة أو آيسة أو بوضع الحمل، كما في البحر." (رد المحتار3/ 193ط:سعيد) (الحیلۃ الناجزہ، ص۲۰۸)

یقع طلاق زوج المرتدۃ وزوج المسلمۃ الآتی بعد التفریق علیھما مادامتا فی العدۃ، اما فی الاباء فلان الفرقۃ بالطلاق واما فی الردۃ فلان الحرمۃ بالردۃ غیر متابدۃ فانھا ترتفع بالاسلام فیقع طلاقہ علیھا فی العدۃ مستتبعا فائدتہ فی حرمتھا علیہ بعد الثلاث حرمۃ معیاۃ بوطئ زوج آخر۔ (فتح القدیر، باب نکاح اھل الشرک، ج3، ص 420)

و فی مسئلۃ الردۃ لوکان ھو المرتد ففی کونہ فسخا خلاف ابی یوسف، اما رتھا ففسخ اتفاقا ھذا ولکن سیاتی فی آخر کنایات الطلاق ان المرتد اذا لحق بدارالحرب وطلقھا فی العدۃ لم یقع طلاقہ لانقطاع العصمۃ فان عاد وھی فی العدۃ وقع الی آخر ما نقلہ عن البدائع الخ۔ (البحرالرائق، کتاب الطلاق، ج3 ص 255)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3036/46-4853

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر لڑکی والے  کسی قسم کی زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی و رضامندی سے لڑکے والوں کے متعلقین کو بھی  دعوت پر  بلائیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔  لڑکے والوں کو  چاہیے کہ بارات کی دعوت میں اتنے افراد کو لے کر جائیں جتنے افراد کو لڑکی والوں نے اپنی وسعت کے مطابق دعوت دی ہو، اس لیے پچیس پچاس افراد کو ان کی رضامندی سے لے جانے میں کوئی سنت کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ لڑکی والوں کی رضامندی  سے افراد کی تعیین کی جائے اور ان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالاجائے۔اسی طرح منگنی کے موقع پر چند افراد( جس تعداد  پر لڑکی والے راضی ہوں )لے جانے میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ مفتی کفایت اللہ صاحب نے لکھا ہے کہ: ’’لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کو یا برادری  والوں کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں'' ۔ (کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 2996/46-4768

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکا اور لڑکی جب راضی ہوں اور شرعی طور پر کوئی مانع موجود نہ ہو تو والدین کو شادی کے لئے منع نہیں کرنا چاہیے۔ زید کو چاہئے کہ اپنے والدین کو مذکورہ لڑکی سے نکاح کے لئےن  تیار کرے، اور اگر وہ منع کرتے ہیں اور کسی صورت تیار نہیں ہوتے ہیں تو یقینا کوئی خاص وجہ ہو گی جو وہ زید کو بتانا مناسب نہیں سمجھتے ہوں گے، اس لئے اگر زید اپنی والدین کی بات مان کر اس لڑکی سے شادی کرنے کی ضد چھوڑدے تو اس کی گنجائش ہے، تاہم والدین کا بلاوجہ اس شادی کو اپنی انا کا مسئلہ بنالینا بھی درست نہیں ہے۔ اس لئے والدین کو چاہئے کہ  بچہ کے جذبات کا بھی خیال رکھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 2980/46-4736

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بوقت رخصتی سادگی اختیار کرنا افضل ہے، خرافات اور ناجائز کاموں سے بچنا ضروری ہے، رخصتی کے لئے باقاعدہ بارات کا لیجانا  نبی کریم ﷺ اور اصحاب سے ثابت نہیں ہے، تاہم مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ ؒ فرماتے ہیں کہ لڑکی والوں کی طرف سے باراتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے۔ اگر بغیر التزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دیدیں تو مباح ہے ، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں ۔  خلاف شرع امور سے بچتے ہوئے لڑکے کے خاندان کے چند افراد اجتماعی صورت میں لڑکی کی رخصتی کرواکر لے آئیں اس کی بھی گنجائش ہے، بشرطیکہ پردہ کا اہتمام ہو، مردوں اور عورتوں کا اختلاط نہ ہو، اور غیرشرعی رسومات سے پرہیز کریں، لہذا لڑکی والے بخوشی اجازت دیں تو مختصر بارات لیجانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 40/988

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

There is nothing wrong in getting married with such a woman. Whatever people are saying is totally baseless in shariah. So you should ignore whatever people say and marry her if you like her.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

 

Marriage (Nikah)

Ref. No. 41/896

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Hurmate Musaharat is a sharia term which means laws of prohibition in relation to marriage. As the legal sexual relation establishes Hurmate Musaharat and a man cannot marry mother in-law and wife’s daughter (if any by the previous husband) etc., similarly the illegal sexual relation and sexual foreplay establishes this Hurmat too. Touching or kissing a woman with lust is considered a sexual foreplay which sets up Hurmate Musaharat. If a man touches his daughter with lust, his nikah will be invalidated and the wife will be forbidden on him for lifetime.

Ulama say that Hurmate Musaharat applies when seven conditions are met which are hereunder:

1.        If one touches the body of a woman directly with lust without the barrier of a thick cloth in between to prevent the heat of the woman's body from being felt then hurmat-e-musaharat will be established.

2.      If one touches the hairs of a woman inside the head area with lust then hurmat-e-musaharat will be established but if he touches the hairs which are hanging beyond the head area then there is no Hurmate Musaharat.

3.      Touching any part of the body establishes the Hurmat e Musaharat if it is done with lust. Otherwise if it is not with lust it will cause no Hurmat. The sign of perceiving lust in a male is that he perceives movement in his private part or has an erection. However, if a person is old and cannot have an erection, then for such a person, perceiving lust in the heart is sufficient to establish hurmat-e-musaaharah. The sign of perceiving lust in a female is that she perceives lust in her heart.

4.      If a woman touches the body of a man and she says that she touched him with lust, so if the man thinks her true in her words, then the Hurmat will take place.

5.       The lust must be found during foreplay to establish Hurmat. If the lust was before touching or after that but throughout touching process there was no lust or arousal then Hurmate Musaharat will not apply.

6.      There must be no ejaculation in sexual foreplay. If one touches a woman and ejaculated due to lust then the Hurmate Musaharat will not take place.

7.       The touched girl must be above 9 years old. If a man touches a girl below 9 years of age, then Hurmate Musaharat will not apply.

So, in the above mentioned case, whatever Maulana told in his speech maybe true if he clarified all the details written above.

And Allah knows best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Marriage (Nikah)

Ref. No. 945 Alif

In the name of Allah the Most Gracious the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

Loving a girl is unlawful and a big sin as per the Shariah; one must shun it. However, if one falls in love he should get up in the mid night of Friday and keeping her in mind read the following text to seek her from Allah.

The text is as follows:

                            فان تولوا فقل حسبی اللہ لاالہ الا ھو علیہ توکلت وھو رب العرش العظیم ، انت الرب حسبی من فلانۃ بنت فلانۃ اعطف قلبھا الی۔

For more detail, read ‘Ganjeena e Asraar’ by Allamah Kashmiri (ra).

And Allah Knows Best

 

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband