Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 3429/47-9320
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر کپڑے پر کوئی اس طرح کا نشان نہیں ہے تو بلاوجہ شک و شبہ میں پڑنا درست نہیں ہے۔ اس طرح تو پھر کسی بھی چیز پر اعتماد نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس لئے اگر کوئی ناپاکی لگی ہوئی نہیں ہے اور نہ ہی آپ نے اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھاہے تو بلاوجہ شبہ میں نہ پڑیں۔ اپنے وسوسہ اور وہم سے باہر نکلیں اور اس کو پاک شمار کرکے اس میں نماز وغیرہ پڑھ سکتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 3317/46-9182
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محض شک کی بنائ پر کوئی عمل نہ کریں۔ جب تک یقین نہ ہو شک کے مطابق عمل کرنے سے انسان وہم اور وسوسہ کے مرض میں مبتلا ہوجائیں گی۔ اس لئے آپ کی فجر کی نماز بھی درست ہے اور روزہ بھی صحیح ہے۔خیال رہے کہ روزہ کے صحیح ہونے کے لئے پاکی شرط نہیں ہے ۔ اورتری کے تعلق سے مذی، ودی، پسینہ یا پیشاب ہونے کے بھی احتمالات ہیں ، ان تمام صورتوں میں غسل کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے آپ کو جس وقت تری کے منی ہونے کا یقین یا غالب گمان ہو اسی صورت میں غسل کریں ورنہ وضو کرکے نماز پڑھ لیا کریں۔
"وإن رأى بللاً إلا أنه لم يتذكر الاحتلام، فإن تيقن أنه (مذي) لا يجب الغسل؛ لأن سبب خروج المني ههنا لم يوجد، فلا يمكن أن يقال بأنه مني ثم رق لطول المدة، بل هو مذي حقيقة، والمذي لا يوجب الغسل وإن شك أنه مني أو مذي، قال أبو يوسف رحمه الله: لا يوجب الغسل حتى يتيقن بالاحتلام، وقالا يجب الغسل، هكذا ذكر شيخ الإسلام رحمه الله." المحيط البرهاني في الفقه النعماني (1 / 85)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 3079/46-4949
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس وقت سے کنویں کی ناپاکی کا علم ہوا اس وقت سے ہی اس کو ناپاک شمار کیاجائے گا، اس لئے ناپاکی کا علم ہونے سے پہلے جو کپڑے اس کنویں کے پانی سے دھلے گئے وہ سب پاک شمار ہوں گے۔ البتہ اگر نجاست گرنے کا وقت یقینی طور پر معلوم ہوجائے تو پھر اس وقت سے اس کو ناپاک شمار کیاجائے گا ۔اوراس ناپاک پانی سے وضو یا غسل کرکے، یا اس سے کپڑے دھو کرجتنی نمازیں پڑھی ہیں ان کا اعادہ بھی ضروری ہوگا ۔
فلا نحكم بنجاسته بالشك على الأصل المعهود إن اليقين لا يزول بالشك." (بدائع الصنائع، كتاب الطهارة ،فصل في بيان المقدار الذي يصير الماء نجساّ،ج :1 ،ص :73 ،ط:رشيدية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2939/45-4619
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مصنوعی ہاتھ کو ہر بار اتار کر اصل ہاتھ اور پاؤں کا جتنا حصہ وضو میں دھونا فرض ہے اس کو دھونا ضروری ہوگا، صرف مسح کرنے سے وضو درست نہیں ہوگا۔اس لئے امام صاحب جس طرح فجر میں مصنوعی ہاتھ کو اتار کر بقیہ ہاتھ دھوتے ہیں، اسی طرح باقی نمازوں میں بھی ان کو اتار کر ہی وضو کریں۔ اگر وضو نہیں ہوا تو نماز بھی نہیں ہوگی۔ ان کو صحیح مسئلہ سمجھادیاجائے۔
ولو قطعت يده أو رجله فلم يبق من المرفق والكعب شيء سقط الغسل ولو بقي وجب، كذا في البحر الرائق. وكذا غسل موضع القطع، هكذا في المحيط.وفي اليتيمة: سئل الخجندي عن رجل زمن رجله بحيث لو قطع لايعرف هل يجب عليه غسل الرجلين في الوضوء؟ قال: نعم. كذا في التتارخانية". (الھندیۃ، الفصل الاول فی فرائض الوضوء، کتاب الطہارۃ ، جلد 1 ص:5 ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2937/45-4617
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وضو کے بعد اعضاء پر موجود وضو کا پانی پاک ہے، اس کا بدن پر لگنا ، کپڑے پر لگنا یا مسجد میں گرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ اس کو ناپاک سمجھنا یا ناپاک پانی جیسا سلوک کرنا غلط ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
طہارت / وضو و غسل
طہارت / وضو و غسل
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:استنجا بائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے، دائیں ہاتھ سے بلا عذر استنجا کرنا مکروہ اور خلاف سنت ہے۔(۲)
(۲) و کرہ بعظم و طعام و وروث و آجر و خذف و زجاج و شيء محترم کخرقۃ دیباج و یمین ولا عذر بیسراہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب: إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۲)؛ و یکرہ الإستنجاء بالید الیمنی (عالم بن العلاء، تاتارخانیہ، ’’نوع منہ في سنن الوضو آدابہ،‘‘ ج۱، ص:۲۱۱)، و یکرہ الاستنجاء بالعظم… و ھکذا بالیمین، ھکذا في التبیین۔ و إذا کان بالیسری عذر یمنع الاستنجاء بھا، جاز أن یستنجي بیمینہ من غیر کراھۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثالث، في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۱۰۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص88
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی گنجائش ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ طہارت اس ہاتھ سے نہ کرے، جس میں انگوٹھی ہے؛ مناسب ہے کہ تعویز ہو یا انگوٹھی اس کو نکال کر ہی جائے۔(۱)
(۱) قلت لکن نقلوا عندنا أن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب : إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۵۵۲)؛ و یکرہ أن یدخل في الخلاء و معہ خاتم علیہ اسم اللّٰہ تعالیٰ أو شيء من القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، الإستنجاء علی خمسۃ أوجہ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۶)؛ و عن أنس رضی اللّٰہ عنہ: کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا دخل الخلاء وضع خاتمہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۴۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89