طہارت / وضو و غسل

Ref.  No.  3079/46-4949

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جس وقت سے کنویں کی  ناپاکی کا علم ہوا اس وقت سے ہی اس کو ناپاک شمار کیاجائے گا، اس لئے  ناپاکی کا علم ہونے سے پہلے  جو کپڑے  اس کنویں کے پانی سے دھلے گئے وہ سب پاک شمار ہوں گے۔ البتہ اگر نجاست گرنے کا وقت یقینی طور پر معلوم ہوجائے  تو پھر اس وقت سے اس کو ناپاک شمار کیاجائے گا ۔اوراس ناپاک پانی سے وضو یا غسل کرکے، یا اس سے کپڑے دھو کرجتنی نمازیں پڑھی ہیں ان کا اعادہ بھی ضروری  ہوگا ۔

فلا نحكم بنجاسته بالشك على الأصل المعهود إن ‌اليقين ‌لا ‌يزول بالشك." (بدائع الصنائع، كتاب الطهارة ،فصل في بيان المقدار الذي يصير الماء نجساّ،ج :1 ،ص :73 ،ط:رشيدية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2939/45-4619

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مصنوعی ہاتھ  کو  ہر بار اتار کر  اصل  ہاتھ اور پاؤں کا  جتنا حصہ وضو میں دھونا فرض ہے اس کو دھونا ضروری ہوگا، صرف مسح کرنے سے وضو درست نہیں ہوگا۔اس لئے امام صاحب جس طرح فجر میں مصنوعی ہاتھ کو اتار کر بقیہ ہاتھ دھوتے ہیں، اسی طرح باقی نمازوں میں بھی ان کو اتار کر ہی وضو کریں۔ اگر وضو نہیں ہوا تو نماز بھی نہیں ہوگی۔ ان کو صحیح مسئلہ سمجھادیاجائے۔  

ولو قطعت يده أو رجله فلم يبق من المرفق والكعب شيء سقط الغسل ولو بقي وجب، كذا في البحر الرائق. وكذا غسل موضع القطع، هكذا في المحيط.وفي اليتيمة: سئل الخجندي عن رجل زمن رجله بحيث لو قطع لايعرف هل يجب عليه غسل الرجلين في الوضوء؟ قال: نعم. كذا في التتارخانية". (الھندیۃ، الفصل الاول فی فرائض الوضوء، کتاب الطہارۃ ، جلد 1 ص:5 ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

Ref. No. 2937/45-4617

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وضو کے بعد اعضاء پر موجود وضو کا پانی پاک ہے، اس کا بدن پر لگنا ، کپڑے پر لگنا یا مسجد میں گرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔  اس کو ناپاک سمجھنا یا ناپاک پانی جیسا سلوک کرنا غلط ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2867/45-4581 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس ہاتھ میں چوٹ لگی ہے، اور اس پر پلاسٹر لگاہوا ہے اس پر مسح کرکے نماز درست ہوجائے گی، اور ان کی اقتداء میں نماز پڑھنا بھی درست ہے۔ایسی مجبوری میں ایک ہاتھ سے نیت باندھنا بھی جائز ہے، اس لئے ان کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ "(وصح اقتداء متوضئ) لا ماء معه (بمتيمم) ولو مع متوضئ بسؤر حمار مجتبى (وغاسل بماسح) ولو على جبيرة. (قوله: ولو على جبيرة) الأولى قوله في الخزائن: على خف أو جبيرة، إذ لا وجه للمبالغة هنا أيضاً، لأن المسح على الجبيرة أولى بالجواز، لأنه كالغسل لما تحته. على أنه استبعد في النهر شمول ماسح له فجعله مفهوماً بالأولى: أي فيدخل دلالة لا منطوقاً، تأمل". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 588) ویجوز المسح علی الجبائر وإن شدہا علی غیر وضوء لأنہ علیہ السلام فعل ذلک وأمر علیاً بہ۔ ولأن الحرج فیہ فوق الحرج في نزع الخف فکان أولی بشرع المسح ۔ (الہدایۃ ۱/۴۴۔۴۶، باب المسح علی الخفین) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2855/45-4498 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ وقفہ وقفہ سے نکلنے والا خون بھی اگر اتنی مقدار میں ہے کہ اگر ایک ساتھ نکلتا تو بہنے کے قابل ہوجاتا تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا، ایک ہی مجلس میں خون کا اپنی جگہ سے نکل کر بہنا یا سیلان کی مقدار کو پہونچنا شرط نہیں ہے۔ وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر(منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير.ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة، لما قالوا: لو مسح الدم كلما خرج ولو تركه لسال نقض وإلا لا، كما لو سال في باطن عين أو جرح أو ذكر ولم يخرج."(شامی، 134/1) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2854/45-4497 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اعضائے وضو کو دھونے میں اس قدر گیلا کرنا کافی ہے کہ ایک یا دو قطرے ٹپک جائیں، اس لئے کوشش ہو کہ گرم پانی کی تھوڑی مقدار سے وضو کرلیا جائے، اور باقی پانی پینے کے لئے بچالیاجائے، اور اگر پانی صرف پینے کے بقدر ہی ہو، تو پھر زمین کی جنس سے کسی چیز پر تیمم کیاجاسکتاہے۔ جو چیز جلانے سے نہ جلے، پگھلانے سے نہ پگھلے وہ زمین کی جنس سے ہے۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب ایسے علاقہ میں جانے کا ارادہ ہو تو مٹی کا ایک ٹکڑا اپنے ساتھ لے جائے، تاہم اگر وضو کے لئے پانی نہ ہو اور تیمم کے لئے مٹی یا اس کے جنس کی کوئی چیز میسر نہ ہو تو ایسی صورت میں نماز کے وقت میں تشبہ بالمصلین کرے یعنی نمازیوں کی طرح ہیئت اختیار کرے البتہ قرآن کی تلاوت نہ کرے ، بعد میں اس نماز کی قضا کرے، گرچہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے مطابق ایسی صورت میں نمازکو موٴخر کرنے کی گنجائش ہے۔(الدر المختار مع رد المحتار: 1/252، سعید) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:استنجا بائیں ہاتھ سے کرنا چاہیے، دائیں ہاتھ سے بلا عذر استنجا کرنا مکروہ اور خلاف سنت ہے۔(۲)

(۲) و کرہ بعظم و طعام و وروث و آجر و خذف و زجاج و شيء محترم کخرقۃ دیباج و یمین ولا عذر بیسراہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب: إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۲)؛ و یکرہ الإستنجاء بالید الیمنی (عالم بن العلاء، تاتارخانیہ، ’’نوع منہ في سنن الوضو آدابہ،‘‘ ج۱، ص:۲۱۱)، و یکرہ الاستنجاء بالعظم… و ھکذا بالیمین، ھکذا في التبیین۔ و إذا کان بالیسری عذر یمنع الاستنجاء بھا، جاز أن یستنجي بیمینہ من غیر کراھۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في النجاسۃ و أحکامھا، الفصل الثالث، في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۱۰۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص88

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کی گنجائش ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ طہارت اس ہاتھ سے نہ کرے، جس میں انگوٹھی ہے؛ مناسب ہے کہ تعویز ہو یا انگوٹھی اس کو نکال کر ہی جائے۔(۱)

(۱) قلت لکن نقلوا عندنا أن للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب : إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۵۵۲)؛  و یکرہ أن یدخل في الخلاء و معہ خاتم علیہ اسم اللّٰہ تعالیٰ أو شيء من القرآن۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الھندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع في النجاسۃ و أحکامہا، الفصل الثالث في الاستنجاء، الإستنجاء علی خمسۃ أوجہ،‘‘ ج۱، ص:۱۰۶)؛ و عن أنس رضی اللّٰہ عنہ: کان رسول اللّٰہ ﷺ إذا دخل الخلاء وضع خاتمہ۔ (بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۴۵)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں پیشاب کا قطرہ کپڑے پر لگا ہوگا؛ مگر وہ اتنی مقدار میں نہیں ہوتا کہ نماز کے لئے مانع ہو؛ اس لیے نماز درست ہوگئی، اعادہ کی ضرورت نہیں ہے مگر آئندہ ایسا نہ کریں، نماز جیسی اہم عبادت کو ذرا سی لاپرواہی (استنجا نہ کرنا) سے ناقص کردینا اچھا نہیں ہے، کیوںکہ اگر اس طرح پیشاب کے قطرات کی زیادہ مقدار ہو گئی، تو ظاہر ہے کہ نماز نہ ہوگی۔(۱)

(۱) و أما الفرض فھي ما إذا کانت النجاسۃ أکثر من قدر الدرھم، و أما السنۃ إذا کانت النجاسۃ أقل من قدر الدرھم فالاستنجاء حینئذ سنۃ۔ والدلیل أن المراد عدم الوجوب لأن قدر الدرھم معفو، فعلم أن الاستنجاء لیس بواجب۔ (بدرالدین العینی، البنایہ شرح الھدایۃ، ’’فصل فيالاستنجاء،‘‘ج۱، ص:۷۴۸)؛ والاستنجاء سنۃ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۷۸)؛  والغسل سنۃ و یجب إن جاوز المخرج نجس۔ (’’ابن، عابدین، در المختار،کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجی في ماء قلیل،‘‘ج۱، ص:۴۹-۵۵۰)؛  و في موضع آخر منہ، و عفا الشارع عن قدر درھم و إن کرہ تحریما فیجب غسلہ و ما دونہ تنزیھا فیسن و فوقہ مبطل فیفرض۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس،‘‘ ج۱، ص:۵۲۰)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص89

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ان کی امامت درست ہے۔ کتب فقہ میں ہے کہ صرف پانی یا صرف ڈھیلے سے استنجا کرنے سے سنت استنجا حاصل ہو جاتی ہے؛ لیکن افضل اور بہتر یہ ہے کہ دونوں سے استنجا کر ے ۔
فتاویٰ شامی میں ہے:ثم إعلم أن الجمع بین الماء والحجر أفضل ویلیہ في الفضل الاقتصار علی الماء أو علی الحجر وتحصل السنۃ بالکل۔(۲)
و غسلہ بالماء أفضل لقولہ تعالیٰ فِیْہِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا نزلت في أقوام کانوا یتبعون الحجارۃ الماء ثم ھو أدب و قیل سنۃ في زماننا۔(۳)
الأفضل الجمع بینھما، فإذا اقتصر علی أحدھما فالماء أولی۔ و إن اقتصر علی الحجر جاز۔(۱)
(۲)ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، مطلب إذا دخل المستنجي في ماء قلیل،‘‘ ج۱، ص:۵۵۰
(۳)المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الطہارات، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱، ص:۷۹۔
(۱) بدرالدین العیني، البنایہ شرح الھدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ، فصل في الاستنجاء،‘‘ ج۱،ص:۷۵۶

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص90