ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3168/46-6094

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کریڈٹ کارڈ  میں بینک کی طرف سے جو رقم بطور قرض کارڈہولڈر کو دی جاتی ہے  اس میں ایک میعاد مقرر ہوتی ہے کہ اس میعاد سے پہلے اگر قرض کی رقم اداکردی جائے تو کارڈ ہولڈر پر کوئی اضافی رقم بطور سود دینا نہیں پڑتی ۔ لہذا اگر کسی کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ وہ سود لازم ہونے سے پہلے ہی قرض کی رقم اداکردے گا تو اس کے لئے کریڈٹ  کارڈ بنوانا جائز ہے، البتہ کمپنی  اگر حلال کاروبار بھی کرتی ہے اور کریڈٹ کارڈ سے سود بھی کماتی ہے تو غالب آمدنی کے حلال ہونے کی صورت میں اس میں ملازمت کرنا جائز ہے اور وہاں کی چیزوں کو استعمال کرنا بھی جائز ہوگا۔ اور اگر کمپنی  صرف اپنے سودی منافع سے چلتی ہے تو پھر اس میں ملازمت کرنا اور وہاں کی چیزوں کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔ اور جب تک اس کے ذریعہ آمدنی کے بارے میں تحقیق نہ ہو اس میں کام کرنے سے حتراز کیاجائے۔   

وما لا یبطل بالشرط الفاسد القرض بأن أقرضتک ہذہ المأة بشرط أن تخدمني شہرًا مثلاً فإنہ لا یبطل بہذا الشرط وذلک لأن الشروط الفاسدة من باب الربا وأنہ یختص بالمبادلة المالیّة، وہذہ العقود کلہا لیست بمعاوضة مالیة فلا توٴثر فیہا الشروط الفاسدة الخ (البحر الرائق ۶/۳۱۲، کتاب البیع باب المتفرقات، ط: زکریا، وللمزد من التفصیل راجع: الفتاوی العثمانیة (۳/۳۵۲، فصل فی البطاقات وأحکامہا، ط: نعیمیہ دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3162/46-6053

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بینک اسٹیٹمنٹ کے ذریعہ اس رقم کو جانا جاسکتاہے۔ یا جب سود کی رقم بینک میں آئے اور اس کا میسیج آپ کو ملے تو اتنی رقم کسی لفافہ میں رکھ دیاکریں یا اسی وقت اتنی رقم کسی غریب کو دیدیاکریں۔ انٹرسٹ کی رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کو بلانیت ثواب کسی غریب کو مالک بنادینا ضروری ہے۔ کسی رفاہی کام میں بھی اس کو استعمال نہیں کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2959/45-4713

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ بلانیتِ ثواب فقراء و مساکین وغیرہ پر صدقہ کردیاجائے ، اسی طرح اگر اس رقم سے اصلاحی کتابیں  یا درسی کتابیں یا ضرورت کی اشیاء خرید کر غریب طلبہ میں تقسیم کردی جائیں اور ان کو مالک بنادیاجائے  تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔  سودی رقم  بعینہ صرف کرنا لازم نہیں ہے۔

''والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام فلا يحل له، وتصدق به بنية صاحبه''. (شامی، مطلب فيمن ورث مالاً حراماً، ٥/ ٥٥،ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2960/45-4693

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اس طرح کا کھیل طلبہ میں بطور ترغیب درست ہے، تاہم  پارٹی دینے کی  شرط لگانا جائز نہیں ہے۔ اس لئے یہ شرط ہٹادیں اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھیں۔

إن شرط لمال) في المسابقة (من جانب واحد وحرم لو شرط) فيها (من الجانبين) لانه يصير قمارا (إلا إذا أدخلا ثالثا) محللا (بينهما) بفرس كف ء لفرسيهما يتوهم أن يسبقهما وإلا لم يجز، ثم إذا سبقهما أخذ منهما، وإن سبقاه لم يعطهما، وفيما بينهما أيهما سبق أخذ من صاحبه (و) كذا الحكم (في المتفقهة) فإذا شرط لمن معه الصواب صح، وإن شرطاه لكل على صاحبه لا۔ (الدر المختار للحصفكي - (ج 5 / ص 723)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2871/45-4585 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا دوست سودی قرض سے رہائی کے لئے آپ سے مدد طلب کرتاہے، اگر آپ کو اس پر اطمینان ہے تو آپ اس کی مدد کرسکتے ہیں، اور سودی معاملہ میں ملوث ہونے میں اعانت نہیں ہے بلکہ سود سے نجات حاصل کرنے میں اعانت ہے، اس لئے یہ آپ کےلئے جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2876/45-4562 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرام شیئرز سے جو منافع حاصل ہوئے ہیں ان کو بلا نیت ثواب غریبوں میں تقسیم کردینا واجب ہے۔ جو اصل سرمایہ آپ کا ہے وہ آپ کی ملکیت ہے اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز اور درست ہے، لیکن اس پیسے سے حرام طریقہ پر جو منافع کمائے اس نفع والی رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ "والملك الخبيث ‌سبيله ‌التصدق به، ولو صرفه في حاجة نفسه جاز. ثم إن كان غنيا تصدق بمثله، وإن كان فقيرا لا يتصدق." (الاختیار لتعلیل المختار ، كتاب الغصب ،ج:3، ص:61، ط:دارالفكر) "قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرہا: أن من ملک بملک خبیث، ولم یمکنه الرد إلی المالک، فسبیله التصدقُ علی الفقراء … قال: إن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولا یرجو به المثوبة." )معارف السنن، كتاب الطهارة، باب ما جاء لا تقبل صلاۃ بغیر طھور، ج:1، ص:34، ط: سعید) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 2900/45-4541 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کمپنی کاجاری کردہ کارڈ اگر اسی نوعیت کا ہے جو آپ نے ذکر کیا جس میں شروع میں کاغذی کارروائی کے لئے کچھ فیس لی جاتی ہے پھر ایک متعین رقم کارڈ میں ڈال دی جاتی ہے اور آپ اس کو اپنی ضروریات میں استعمال کرتے ہیں، اور اس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر وقت پر قسط ادا نہ کی تو اتنا جرمانہ دینا ہوگا، تو ایسی صورت میں اس کارڈ کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگی، اور جرمانہ سے بچنے کے لئے وقت سے پہلے قسط کی ادائیگی لازم ہوگی تاکہ سود ی لین دین سے بچاجاسکے۔ معاہدہ نامہ میں جرمانہ کا ذکر آپ کی مرضی سے نہیں ہے اس لئے اس کا گناہ آپ پر نہیں ہوگا۔ہاں اگر قسط وقت پر آپ نے ادا نہیں کی اور جرمانہ دینا پڑا تو اب آپ گنہگار ہوں گے۔ اس لئے علاوہ سخت مجبوری اور ضرورت کے سودی لون کے کسی بھی طرح کے معاملہ سے بچنا چاہئے ۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 41/855

الجواب وباللہ التوفیق:

بسم اللہ الرحن الرحیم:۔ بینک کے ذریعہ گاڑی خریدنے کی ایک صورت یہ ہے کہ بینک گاڑی کی قیمت مع منافع ایک ساتھ طے کردے اور پھر گاڑی خرید کراپنے گراہک کو  بیچ دے۔ اگر قسط مقرر کرے تو گراہک وقت  مقررہ پر قسط اداکرتا رہے تاکہ تاخیر کی وجہ سے کوئی سود نہ دینا پڑے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں اس زمانہ میں ضرورت کے پیش نظر بینک سے لون پر گاڑی خریدنے کی   بھی  گنجائش ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 1239/42-643

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرپٹو کرنسی یا دیگر ڈیجیٹل کرنسیاں جن کو کسی حکومت کی منظوری حاصل نہیں ہے ان کا معاملہ ابھی مشکوک ہے، اس لئے ابھی اس طرح کے معاملات سے احتراز کیا جائے،  ورنہ بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2269/44-2426

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں ملازمین کی تنخواہ سے جو رقم کاٹی گئی، اور اس پر ادارہ نے اپنی جانب سے جو اضافہ کیا اس کا لینا جائز ہے، اور یہ حلال آمدنی ہےجس میں اپنا پیسہ اور حکومت کا تحفہ شامل ہے،  البتہ ان دونوں رقموں پر بینک کی طرف سے جو انٹرسٹ (سود) ملتاہے، اس رقم  کا لیناجائزنہیں ہے۔

قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها". (البحر الرائق ج:7،ص:300،ط: دارالكتاب الإسلامي)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند