Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3220/46-8005
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ نے جو زیور یا مال کسی بیٹی یا بیٹے کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کا ہوگیا اس میں دیگر ورثہ کا حصہ نہیں ہوگا،اور زندگی میں کسی کو کچھ دیدینے سے مرنے کے بعد وراثت کے حصہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔الیکن اگر زبانی طور پر ہبہ کیا اور قبضہ میں نہیں دیا تو ہبہ مکمل نہیں ہوا، اور یہ زیور بھی مرحومہ کا ترکہ ہوگا، لڑکی اس کی مالک نہ ہوگی۔ہاں جو زمین لڑکی کے نام کردی گئی ہے وہ اس کی ملکیت ہے اس کو وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
البتہ مرنے کے وقت آپ کی والدہ کی ملکیت میں جو کچھ تھا چاہے وہ زمین ہو یا مکان یا زیورات اور روپئے پیسے ہوں۔ کل جائداد کو اس کے شوہر، بیٹی اور بیٹوں میں اس طرح تقسیم کیاجائے گا کہ شوہر کو کل جائداد کا چوتھا حصہ دینے کے بعد مابقیہ مال بیٹی اور بیٹوں کو للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے دیدیں گے۔ چنانچہ اگر کل ملکیت 6400000 روپئے ہی ہیں تو ان میں سے سولہ لاکھ (1600000) مرنے والی کے شوہر کو، چھ لاکھ پچاسی ہزار سات سو چودہ روپئے (685714) بیٹی کو، اور تیرہ لاکھ اکہتر ہزار چار سو اٹھائیس روپئے (1371428) ہر ایک بیٹے کو دیئے جائیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3210/46-7049
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر ایک سخت منزل ہے، ایک مسلمان کو اس جگہ سے عبرت حاصل کرنی چاہئے، تاہم اگر شراب پی کر قبر کھودی تو ایسی قبر میں مُردوں کی تدفین درست ہوگی اور گورکن اجرت کا مستحق ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3154/46-6050
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں تقسیم سے پہلے جو والد کے پیسے تجارت میں لگادئے گئے وہ تمام ورثہ کی رضامندی سے لگائے گئے تھے، اور اب اس پلاٹ کو نفع کے ساتھ بیچاگیا اور رقم کو تمام ورثہ میں تقسیم کیاگیا۔ تو اب ہر شخص اپنے حصہ کے بقدر گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرے گا۔ اور جس وقت پیسے لگائے گئے تھے اس وقت سے ہر سال جو اس پلاٹ کی قیمت بڑھتی یا گھٹتی رہی اسی کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے گی۔
تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح." (مجلۃ الاحکام العدلیہ،"المادة ١٠٧٣ ص 206 ط:نور محمد )
فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا" (بدائع الصنائع، کتاب الشرکۃ،فصل فی حکم الشرکۃ،65/6 ط: دار الکتب العلمیۃ
"(قوله: وملك نصاب حوليّ فارغ عن الدين وحوائجه الأصلية نامٍ ولو تقديراً) لأنّه - عليه الصّلاة والسّلام - قدّر السبب به، وقد جعله المصنف شرطاً للوجوب مع قولهم: إنّ سببها ملك مالٍ مُعدّ مُرصد للنماء والزيادةِ فاضلٍ عن الحاجة كذا في المحيط وغيره" . (البحر الرائق، البحر الرائق،کتاب الزکوۃ، شروط وجوب الزکوۃ، ج:۲،ص:۲۱۸،ط:دار الکتاب الاسلامی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3156/46-6048
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کی وفات کے بعد شوہر سے اس کا نکاح ختم ہوجاتاہے، اب شوہر کا اس بیوی پر کوئی حق نہیں ہے، اس لئے تدفین کے معاملہ میں اس کے اولیاء کو اختیار ہوگا۔
والنکاح بعد الموت باقٍ إلی أن تنقضي العدة بخلاف ما إذا ماتت فلا یغسلہا؛ لانتہاء ملک النکاح لعدم المحل فصار أجنبیًا (شامي: 3/91 باب صلاة الجنازة، مطبوعہ زکریا دیوبند)
ویمنع زوجھا من غسلھا ومسھا لا من النظر إلیھا علی الأصح وھي لا تمنع من ذلک أي من تغسیل زوجھا دخل بھا أو لا․ ولو ذمیةً بشرط بقاء الزوجیة (شامي: 3/91 مطبوعہ زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3158/46-7066
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبداللہ اور ان کی اہلیہ کے انتقال کے بعد مرحوم کی کل جائداد کو ان کی تمام اولاد میں شریعت کے مطابق تقسیم کیاجائے گا۔ اور بھائیوں کے ساتھ بہنیں بھی شامل ہوں گی۔ لہذا جو بٹوارا پہلے ہوا تھا جس میں بہنوں کوشامل نہیں کیاگیا وہ شرعی بٹوارا نہیں ہواتھا، اس لئے اس کو ختم کرکے دوبارہ دونوں مکانوں کو شرعی طریقہ پرتقسیم کرنا ضروری ہے۔ بھائیوں نے رفیق صاحب کو جو مکان اس وقت دیاتھا تو اس وقت مکان کی جو حالت تھی اس کی قیمت لگائی جائے گی، اور رفیق کی اولاد نے جو اضافی رقم خرچ کی وہ ان کو دیدی جائے گی۔ مرحوم عبداللہ کی کل جائداد کو سب سے پہلے چودہ (14) حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ہر بیٹے کو دو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ جوان میں سے فوت ہوچکے ہیں ان کا حصہ ان کی اولاد میں تقسیم کیاجائے گا، جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ کو اولاد میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا اور جس بہن کی کوئی اولاد نہیں ہے اس کا حصہ اس کے انتقال کے وقت جو بھائی اور بہنیں موجود تھیں ان میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کرلیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3146/46-6047
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب سے پہلے چند اصولی باتیں سمجھ لیجئے تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔ 1۔ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہوتا ہے وہ اپنی مرضی سے جس کو کتنا چاہے دے سکتاہے، یعنی ہبہ کرسکتاہے تاہم ہبہ صحیح ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کا اپنی زندگی میں ہی مالک بنادیاجائے، لہذا اگر کسی نے زبانی ہبہ کیا لیکن رجسٹریشن وغیرہ کے ساتھ مالک نہیں بنایا تو وہ یہ وعدہ ہے، ہبہ نہیں ہے اور اس زبانی ہبہ کا اس کے مرنے کے بعد کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور کسی کا دعوی مسموع نہیں ہوگا۔ 2۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد اپنے ورثہ میں تقسیم کرسکتاہے اور ورثہ کو دینے میں بقدر ضرورت کمی بیشی بھی کرسکتاہے۔3۔ کسی مصلحت سے رجسٹریشن کرادینا ملکیت کی دلیل نہیں ہے، لہذا جس کے نام پر کوئی پلاٹ رجسٹرد ہے اگر دینے والے نے مالک بنایا ہے اور کہا ہے کہ یہ خالص تمہارا ہے تو وہ موہوب لہ کا ہوگا۔ 4۔ باپ کی وراثت اس کی بیوی اور اولاد میں تقسیم ہوتی ہے، پوتے اور پوتیاں وغیرہ اس میں شامل نہیں ہوتی ہیں۔ 5۔ اگر مرحوم نے اپنی زندگی میں جائداد تقسیم کی اور اس موقع پر پوتوں یا پوتیوں میں سے کسی کو کچھ دے کر مالک بنادیا تو وہ خاص اسی کا ہوگا، یعنی اگر دادا نے اپنی زندگی میں پوتوں کو کوئی پلاٹ وغیرہ ہبہ کیا تھا تو اس کے مرنے کے بعد بھی وہ پوتوں کی ہی ہوگی۔ 6۔ باپ کی وراثت میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی حصہ دار ہیں، لہذا اگر کسی کے بیٹوں نے اپنے باپ کی پراپرٹی آپس میں یعنی بھائیوں میں تقسیم کی اور بہنوں کو حصہ نہیں دیا تو وہ شرعی تقسیم نہیں کہلائے گی۔
اب صورت مسئولہ میں اگر دادا شیخ محمد نے اپنی زندگی میں اپنی جائداد اپنے تین بیٹوں اور دوبیٹیوں میں تقسیم کردیا اور ہر ایک کو مالک بنادیا تو ہبہ تام ہوگیا اور ہر ایک اپنے حصہ کا جو اس کو دیاگیا مالک بن گیا۔ شیخ عبید کو جو جائداد ملی وہ اس کا مالک ہوگیا اب اس حصہ پر شیخ محمد کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا۔ لہذا شیخ عبید کے مرنے کے بعد اس کے حصہ کی جائداد اس کی بیوی ، بیٹے ، بیٹیوں اور والدین میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی۔ اب اس جائداد کا اگر دادا دادی نے اپنی رضامندی سے صرف مرحوم کی بیوی اور اس کےلڑکوں کو مالک بنادیا تو یہ غیرشرعی تقسیم ہوگی اور اب دوبارہ تقسیم کریں گے اور بیٹیوں کو بھی شامل کیاجائے گا۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ان کا جو حصہ شیخ عبید کی جائداد میں بنتاہے وہ شیخ عبید کی بیوی اور بیٹوں میں بطور ہبہ تقسیم ہوگی اور اس میں شیخ عبید کی بیٹیاں شامل نہیں ہوں گی ، لیکن اس کے علاوہ شیخ عبیدکی بقیہ جائداد میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی حصہ دار ہوں گی۔ اس سلسلہ میں بہتر ہوگا کہ کسی قریبی دارالقضا یا دارالافتا سے رجوع کرکے مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3150/46-6010
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد سب لوگوں کی رضامندی سے علماء کی نگرانی میں تمام زمین و جائداد وغیرہ کا بٹوارہ ہوگیا اور ہر ایک نے اپنے حصہ پر قبضہ کرلیا تو اب بعد میں تقسیم کے غلط ہونے کی بات کرنا درست نہیں ہے۔ زمین، مکان اور دوکان کی جائے وقوع کے اعتبار سے قیمت مختلف ہوتی ہے، اور تقسیم کے وقت سب کے اتفاق اور رضامندی سے ہر ایک کا حصہ اس کو دیدیاگیا ہے۔ اس میں تقسیم شریعت کے خلاف کہاں ہوئی ہے?، اس کی نشاندہی کی جانی چاہئے۔ اگر واقعی تقسیم کے وقت علماء سے کوئی چوک ہوئی ہے تو اس کی اصلاح کی جائے گی، ورنہ مذکورہ تقسیم کو بے بنیاد غلط کہنا جائز نہیں ہے۔ جو تقسیم ہوچکی ہے اس میں بار بار تقسیم کا مطالبہ تکلیف کا باعث ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبنداحکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3113/46-5087
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ متروکہ مال میں اگر مزید کوئی وارث نہیں ہے تو کل جائداد کو پانچ حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے دو حصے مرحومہ کے بیٹے محمد بلال کو اور ایک ایک حصہ تینوں بیٹیوں کو ملے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3077/46-4947
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس عورت کو جو زمین بطور مہر کے دی گئی ہے، اور جس عورت کو جورقم بطور مہر دی گئی وہ خاص اس کی ملکیت ہے، اس میں کوئی وراثت جاری نہیں ہوگی، لہذا راجہ بیگم اور نسیمہ کو ان کے سسر نے اپنے بیٹوں کی طرف سے بطور مہر جو زمین دی ہے یا حنیفہ اور فاطمہ کو جو رقم دی ہے وہ ان کی اپنی ملکیت ہے، اس میں کسی بھی وارث کا دعوی کرنا درست نہیں ہے۔ راجہ بیگم اور نسیمہ کو جو زمین مہر میں دی گئی ان کو منہا کرکے اسی طرح حنیفہ اور فاطمہ کو جو رقم دی گئی ان کو منہا کرکے ہی وراثت کی تقسیم ہوگی۔ راجہ بیگم اور نسیمہ کا دعوی کہ مہر پر ان کا ہی حق ہے، درست ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3058/46-4893
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ کا اپنی جائداد کووقف علی الاولاد کرنا شرعا معتبر ہے ، اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،اس طرح وقف کرنا جائز ہے ،اور اِس سلسلے میں کوئی تحدید نہیں ہے کہ ایک شخص کتنی جائداد وقف کر سکتا ہے ۔ اور اس سلسلہ میں آپ کا اپنی اولاد کو اپنے اعتماد میں لینا اور ان کا اس وقف پر راضی ہوجانا بھی شرعا پسندیدہ عمل ہے۔
متی وقف علی اولادہ حال صحتہ وقال علی الفریضۃ الشرعیۃ قسم علی ذکورھم واناثھم بالسویۃ وفی صحیح مسلم من حدیث النعمان بن بشیر : اتقو اللہ واعدلوا فی اولادکم ۔۔۔۔۔لانھم فسروا العدل فی الاولاد بالتسویۃ فی العطایا حال الحیاۃ ( ج: ۴، ص: ۴۴۴)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند