احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3459/47-9377

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ آدمی اپنی حیات میں اپنے جائداد کا مالک اور خودمختار ہوتاہے، اور اس میں اپنی مرضی کے مطابق جیسا چاہے تصرف کرسکتاہے، شریعت نے  ہر شخص کو اپنے مال میں آزادانہ تصرف کا اختیار دیاہے،  تاہم اس بات کا خیال رہے کہ کسی شرعی وارث کو محروم کردینے کی نیت سے کسی دوسرے کو زیادہ دینا از روئے حدیث ممنوع ہے۔  (۱) آ پ کے لئے بہترہے   کہ تمام اولاد کے درمیان برابر تقسیم کریں تاہم اگر کوئی لڑکا زیادہ کمزور ہے یا کسی کی خدمت سے خوش ہوکر یا اس کا خرچ زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ دیدیں اور نیت کسی دوسرے وارث کو نقصان پہنچانے کی نہ ہو تو ایسا کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (۲) زندگی میں والد کا اپنامال تقسیم کرنا ہبہ کہلاتاہے اس لئے  حدیث میں اولاد کو ہبہ کرنے میں برابری کا حکم ہے ،  تاہم اگر کوئی شخص اس نیت سے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد اولاد کے درمیان تقسیم کرے کہ اس کی بچیوں کو جائیداد میں سے حصہ مل جائےاور  موت کے بعد بیٹیوں کا وراثت سے محروم رہنے کا خطرہ ختم ہوجائے اورشرعی میراث کے اعتبار سے لڑکوں کو دوہرا اور لڑکیوں کو اکہرا  دیتے ہوئے تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو شرعا اس کی بھی اجازت ہے البتہ لڑکیوں کو اعتماد میں لے کر ایسا کرنا بہتر ہوگا۔

'' وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»''۔ (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

"أقول: حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه صلى الله عليه وسلم قال: «سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرًا أحدًا لآثرت النساء على الرجال»، رواه سعيد في سننه وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير: «اتقوا الله واعدلوا في أولادكم»، فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية : و لو وهب شيئًا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره، و روى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم، وعليه الفتوى، و قال محمد : ويعطي للذكر ضعف الأنثى، وفي التتارخانية معزيًا إلى تتمة الفتاوى قال: ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف :وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث، وتبعه أعيان المجتهدين، وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل". (رد المحتار، كتاب الوقف 4/ 444 ط:سعيد)

   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3441/47-9379

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  ۔      بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں موجودہ موروثہ گھر میں جو کچھ ترمیم ہوئی یا جو ورثہ کے منع کرنے کے باوجود اوپری منزل تعمیر کر لی گئی ، اب تقسیم کے وقت اس کی رقم منہا نہیں کی جائے گی۔ اگر تعمیر کے وقت دیگر ورثا کی رضامندی اور  اتفاق سے اوپری منزل  تعمیر ہوئی ہوتی تو تعمیر کا خرچ منہا کر کے باقی رقم تقسیم ہوتی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لہذا صورت مسئولہ میں موجودہ مکان کو بیچ کر کل رقم تمام ورثہ میں موافق شرعی حصص تقسیم ہو گی۔ اور دیگر ورثہ نے جو کچھ ترمیم یا تعمیر میں خرچ کیا وہ از راہ تبرع شمار ہو گا اور اس کا کوئی معاوضہ دوسرے ورثہ سے جبرا  لینا درست نہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3405/47-9346

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔     اگر دادا کی جائیداد  کی تقسیم کے وقت آپ کی پھوپھی کو حصہ نہیں دیا گیا تھا، اور یہ جائیداد وراثت کی تھی (نہ کہ ہبہ کی)، تو آپ کی پھوپھی کا ان میں شرعی حصہ بنتا ہےاور تقسیم سے قبل آپ کی دادی کا ہبہ کرنا شرعا غیرمعتبر ہے۔  لہٰذا: اگر جائیداد کا قبضہ کسی کو ہبہ کی بنیاد پر ان کی زندگی میں نہیں دیا گیا تھا، تو سب ورثاء (پانچ بھائی اور ایک بہن) اس میں برابر شریک ہوں گے، اور بہن کو آدھا حصہ ملے گا جتنا ایک بھائی کو ملتا ہے۔ اگر جائیداد کی تقسیم میں پھوپھی کی رضامندی نہیں لی گئی تھی، یا ان کو کچھ دیا ہی نہیں گیا تھا، تو اب وہ اپنی شرعی میراث کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3399/46-9309

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر زید نے نومنیشن کے کاغذات میں یہ لکھا ہے کہ میں نے یہ مکان ان دوبچیوں کو دیدیا ہے تو یہ مکان صرف ان دو نابالغ بچوں کا ہی ہوگا اور اس میں کسی وارث کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کاغذات میں یہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد یہ مکان میرے دو نابالغ بچوں کو دیاجائے تو پھر اس میں وراثت جاری ہوگی۔ اس لئے کاغذات کو غور سے پڑھ لیاجائے۔ مرنے والے نے اپنی زندگی میں جس کو جو چیز دے کر مالک بنادیا وہ اسی کا ہوگیا اس میں دیگر ورثا کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اور مابقیہ ڈھائی روپئے میں وراثت جاری  ہوگی۔

(و) شرائط صحتھا (في الموھوب: أن یکون مقبوضا، غیر مشاع، ممیزا غیر مشغول) کما سیتضح (ورکنھا):ھو (الإیجاب والقبول) کما سیجیئ‘‘. وتحتہ في الرد:’’(قولہ:أن یکون مقبوضا) فلا یثبت الملک للموھوب لہ قبل القبض کما قدمنا. وفي الزیلعي: وأما القبض فلا بد منہ لثبوت الملک، إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق‘‘.(التنویر مع الدر: (کتاب الھبۃ: ١٢/ ٥٣٨:دار الفکر بیروت)

الھبۃ عقد مشروع لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:تھادوا تحابوا وعلی ذلک انعقد الإجماع، وتصح بالإیجاب والقبول والقبض، أما الإیجاب والقبول فلأنہ عقد، والعقد ینعقد بالإیجاب والقبول، والقبض لا بد منہ لثبوت الملک، وقال مالک رحمہ اللہ: یثبت الملک فیہ قبل القبض اعتبارا بالبیع، وعلی ھذا الخلاف الصدقۃ، ولنا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا تجوز الھبۃ إلا مقبوضۃ‘‘.(الھدایۃ: کتاب الھبۃ: ٣/ ٢٨٥:رحمانیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3359/46-9229

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: کسی کےانتقال سے پہلے ان کی بیوی اور اولاد میں سے جو بھی انتقال کرچکے ان کومرحوم کی راثت میں سے  شرعا کوئی حصہ نہیں ملتاہے۔  دادا کے انتقال کے وقت ان کی بیوی اور تمام اولاد زندہ تھی اس لئے ان کی جائداد میں سب کا حصہ ہوگا، البتہ  دادی کے انتقال کے وقت ان کی دوبیٹیاں فوت ہوچکی تھی اس لئے ان دو بیٹیوں کا مرحومہ کی جائداد  میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور ان بیٹی فوت شدہ بیٹیوں کی اوالاد (نواسوں اور نواسیوں) کو آپ کی دادی کے حصہ میں سے کچھ نہیں ملے گا البتہ ان کی ماں کا جو حصہ ہوگا وہ دادا کی وراثت میں سے ملے گا۔

۔ مزید معلومات چاہئے تو ہر ایک کا نام مع تاریخ وفات اور موجودہ ورثا  کے نام اورمکمل تفصیل لکھ کر بھیجئے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3358/46-9228

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: حاجی صاحب کے انتقال سے پہلے ان کی بیوی اور اولاد میں سے جو بھی انتقال کرچکے ان کوحاجی صاحب کی وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔  حاجی صاحب کی تمام جائداد ان کے انتقال کے بعد موجود بیوی اور بچوں میں تقسیم ہوگی چاہے وہ اولاد کسی بھی بیوی سے ہوں۔  اگر آپ کی دادی کا انتقال آپ کے دادا کی زندگی میں ہوگیا تھا تو ان کا دادا کی وراثت میں  کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ دادا کے انتقال کے بعد ان کے جو بیٹے یا بیٹیاں زندہ ہیں  ان میں وراثت تقسیم ہوگی ، پوتوں یاپوتیوں کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا البتہ اگر کسی کے لئے دادا نے وصیت کی ہو تو وصیت جاری ہوگی۔ جن بیٹوں کا انتقال ہوگیا ان کی اولاد دادا کی جائداد میں سے اپنے باپ کا حصہ نہیں مانگ سکتی ہے۔ مزید معلومات چاہئے تو ہر ایک کا نام مع تاریخ وفات اور موجودہ ورثا کی مکمل تفصیل لکھ کر بھیجئے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3347/46-9207

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر پر آیات و ادعیہ کا پڑھنا لازم و ضروری نہیں ہے بلکہ ہر آدمی کا اختیاری عمل ہے، کوئی بھی سورت اور دعا کا پڑھنا جائز ہے۔  قبر کے سرہانے کھڑے ہوکرسورہ بقرۃ ازابتداء تا"مفلحون" اورپاؤں کی جانب کھڑے ہوکرسورہ بقرہ کی آخری آیات" آمن الرسول" سے آخرتک پڑھنامستحب ہے۔ اور سورہ فاتحہ  سے آغاز کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ سورہ فاتحہ پڑھنے کو ناجائز کہنا درست نہیں ہے۔ان آیات کو جہری اور سری دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ تدفین کے  بعدآپ ﷺ سے انفرادی طورپرلمبی دعاء کرنا،دعامیں ہاتھ اٹھانا اورصحابہ کرام  کودعاء کاحکم دینا وغیرہ ہے، اور تدفین میں آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ اجتماعی دعابھی درست ہے۔ سول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کے لیے قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر بآواز دعا فرمائی جسے سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، البتہ جہر کو لازم نہ سمجھا جائے۔

وعن عبد الله بن عمر قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة " رواه البيهقي في شعب الإيمان . وقال: والصحيح أنه موقوف عليه۔ (مشكاة المصابيح " 1 / 387)

قوله: (ويقول الخ) قال في الفتح: والسنة زيارتها قائما، والدعاء عندها قائما، كما كان يفعله (ص) في الخروج إلى البقيع ويقول: السلام عليكم،،،،ثم يدعو قائما طويلا، وإن جلس يجلس بعيدا أو قريبا بحسب مرتبته في حال حياته ۔ (حاشية رد المحتار"2 / 263)

قال النووی فی الأذکار: قال محمد بن أحمد المروزی: سمعت أحمد بن حنبل یقول: إذا دخلتم المقابر فاقروٴا بفاتحة الکتاب والمعوذتین، وقل ہو اللہ أحد، واجعلوا ثواب ذلک لأہل المقابر، فإنہ یصل إلیہم․ (مرقاة: ۴/ ۸۱باب دفن المیت)

أنهم إذا فرغوا من دفنه يستحب الجلوس عند قبره بقدر ما ينحر جزور ويقسم لحمه يتلون القرآن ويدعون للميت فقد ورد أنه يستأنس بهم وينتفع به وعن عثمان رضي الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال استغفروا لأخيكم وسلوا له التثبيت فإنه الآن يسأل ۔رواه أبو داود۔ حاشية الطحطاوي"1 / 408

وفي حديث بن مسعود رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم في قبر عبد الله ذي النجادين الحديث وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه أخرجه أبو عوانة في صحيحه۔ (فتح الباري لابن حجر " 11 / 144)

’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (5 / 452)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3340/46-9181

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ :۔ ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوگرافی اگرچہ مختلف فیہ مسئلہ ہے،  لیکن ہندوستان کے اکثر اہل علم نے اس کو تصاویر محرمہ کے  ہی دائرہ میں رکھا ہے، اور صرف اشاعت دین اور دفاع دین کے لئے ہی ویڈیو گرافی  کی گنجائش دی گئی ہے، لیکن سوال میں جس وقت اور جگہ  ویڈیو گرافی کا تذکرہ کیاگیاہے ظاہر ہے کہ یہ ایک مذموم اور قابل ترک عمل ہے، جنازہ کا منظر عبرت حاصل کرنے  اور موت کو یاد کرنے کے لئے ہے، جنازہ کے ساتھ ذکرواذاکر کے ساتھ چلنے کاحکم ہے، اس لئے اس موقع پر لائیو اسٹریمنگ اور ویڈیوریکارڈنگ جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3318/46-9136

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں  اگر دیگر ورثاء نہ ہوں تو والدین کے انتقال کے بعد ساری جائداد کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے دو حصے بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا۔  ان کے علاوہ دیگر ورثہ  اگر موجود ہوں تو ان کی تفصیل  لکھ کر رجوع کیاجائے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3313/46-9176

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کی امی کو آپ کے نانا کی وراثت سے جو کچھ حصہ ملا  نیز جو کچھ امی کی ملکیت میں ان کے مرنے کے وقت تھا، اگرآپ کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں ہے تو  آپ چاروں میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم ہوگا۔ لہذا والدہ کے کل ترکہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں محمد بلال کو دوحصے اور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند