احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3359/46-9229

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: کسی کےانتقال سے پہلے ان کی بیوی اور اولاد میں سے جو بھی انتقال کرچکے ان کومرحوم کی راثت میں سے  شرعا کوئی حصہ نہیں ملتاہے۔  دادا کے انتقال کے وقت ان کی بیوی اور تمام اولاد زندہ تھی اس لئے ان کی جائداد میں سب کا حصہ ہوگا، البتہ  دادی کے انتقال کے وقت ان کی دوبیٹیاں فوت ہوچکی تھی اس لئے ان دو بیٹیوں کا مرحومہ کی جائداد  میں شرعا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اور ان بیٹی فوت شدہ بیٹیوں کی اوالاد (نواسوں اور نواسیوں) کو آپ کی دادی کے حصہ میں سے کچھ نہیں ملے گا البتہ ان کی ماں کا جو حصہ ہوگا وہ دادا کی وراثت میں سے ملے گا۔

۔ مزید معلومات چاہئے تو ہر ایک کا نام مع تاریخ وفات اور موجودہ ورثا  کے نام اورمکمل تفصیل لکھ کر بھیجئے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3358/46-9228

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: حاجی صاحب کے انتقال سے پہلے ان کی بیوی اور اولاد میں سے جو بھی انتقال کرچکے ان کوحاجی صاحب کی وراثت میں سے کوئی حصہ نہیں ملے گا۔  حاجی صاحب کی تمام جائداد ان کے انتقال کے بعد موجود بیوی اور بچوں میں تقسیم ہوگی چاہے وہ اولاد کسی بھی بیوی سے ہوں۔  اگر آپ کی دادی کا انتقال آپ کے دادا کی زندگی میں ہوگیا تھا تو ان کا دادا کی وراثت میں  کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ دادا کے انتقال کے بعد ان کے جو بیٹے یا بیٹیاں زندہ ہیں  ان میں وراثت تقسیم ہوگی ، پوتوں یاپوتیوں کو اس میں سے کچھ نہیں ملے گا البتہ اگر کسی کے لئے دادا نے وصیت کی ہو تو وصیت جاری ہوگی۔ جن بیٹوں کا انتقال ہوگیا ان کی اولاد دادا کی جائداد میں سے اپنے باپ کا حصہ نہیں مانگ سکتی ہے۔ مزید معلومات چاہئے تو ہر ایک کا نام مع تاریخ وفات اور موجودہ ورثا کی مکمل تفصیل لکھ کر بھیجئے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3347/46-9207

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر پر آیات و ادعیہ کا پڑھنا لازم و ضروری نہیں ہے بلکہ ہر آدمی کا اختیاری عمل ہے، کوئی بھی سورت اور دعا کا پڑھنا جائز ہے۔  قبر کے سرہانے کھڑے ہوکرسورہ بقرۃ ازابتداء تا"مفلحون" اورپاؤں کی جانب کھڑے ہوکرسورہ بقرہ کی آخری آیات" آمن الرسول" سے آخرتک پڑھنامستحب ہے۔ اور سورہ فاتحہ  سے آغاز کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ سورہ فاتحہ پڑھنے کو ناجائز کہنا درست نہیں ہے۔ان آیات کو جہری اور سری دونوں طرح پڑھنا جائز ہے۔ تدفین کے  بعدآپ ﷺ سے انفرادی طورپرلمبی دعاء کرنا،دعامیں ہاتھ اٹھانا اورصحابہ کرام  کودعاء کاحکم دینا وغیرہ ہے، اور تدفین میں آئے ہوئے لوگوں کے ساتھ اجتماعی دعابھی درست ہے۔ سول اللہ ﷺ نے حضرت عبداللہ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کے لیے قبلہ رُخ ہاتھ اٹھا کر بآواز دعا فرمائی جسے سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے، البتہ جہر کو لازم نہ سمجھا جائے۔

وعن عبد الله بن عمر قال : سمعت النبي صلى الله عليه و سلم يقول : " إذا مات أحدكم فلا تحبسوه وأسرعوا به إلى قبره وليقرأ عند رأسه فاتحة البقرة وعند رجليه بخاتمة البقرة " رواه البيهقي في شعب الإيمان . وقال: والصحيح أنه موقوف عليه۔ (مشكاة المصابيح " 1 / 387)

قوله: (ويقول الخ) قال في الفتح: والسنة زيارتها قائما، والدعاء عندها قائما، كما كان يفعله (ص) في الخروج إلى البقيع ويقول: السلام عليكم،،،،ثم يدعو قائما طويلا، وإن جلس يجلس بعيدا أو قريبا بحسب مرتبته في حال حياته ۔ (حاشية رد المحتار"2 / 263)

قال النووی فی الأذکار: قال محمد بن أحمد المروزی: سمعت أحمد بن حنبل یقول: إذا دخلتم المقابر فاقروٴا بفاتحة الکتاب والمعوذتین، وقل ہو اللہ أحد، واجعلوا ثواب ذلک لأہل المقابر، فإنہ یصل إلیہم․ (مرقاة: ۴/ ۸۱باب دفن المیت)

أنهم إذا فرغوا من دفنه يستحب الجلوس عند قبره بقدر ما ينحر جزور ويقسم لحمه يتلون القرآن ويدعون للميت فقد ورد أنه يستأنس بهم وينتفع به وعن عثمان رضي الله عنه قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا فرغ من دفن الميت وقف عليه فقال استغفروا لأخيكم وسلوا له التثبيت فإنه الآن يسأل ۔رواه أبو داود۔ حاشية الطحطاوي"1 / 408

وفي حديث بن مسعود رأيت رسول الله صلى الله عليه و سلم في قبر عبد الله ذي النجادين الحديث وفيه فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعا يديه أخرجه أبو عوانة في صحيحه۔ (فتح الباري لابن حجر " 11 / 144)

’’عن ابن مسعود قال: والله لكأني أرى رسول الله في غزوة تبوك، وهو في قبر عبد الله ذي البجادين وأبو بكر وعمر، يقول: أدنيا مني أخاكما، وأخذه من قبل القبلة حتى أسنده في لحده، ثم خرج رسول الله وولاهما العمل، فلما فرغ من دفنه استقبل القبلة رافعاً يديه يقول: اللّٰهم إني أمسيت عنه راضياً فارض عنه، وكان ذلك ليلاً، فوالله لقد رأيتني ولوددت أني مكانه۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح - (5 / 452)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3340/46-9181

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ :۔ ڈیجیٹل تصاویر اور ویڈیوگرافی اگرچہ مختلف فیہ مسئلہ ہے،  لیکن ہندوستان کے اکثر اہل علم نے اس کو تصاویر محرمہ کے  ہی دائرہ میں رکھا ہے، اور صرف اشاعت دین اور دفاع دین کے لئے ہی ویڈیو گرافی  کی گنجائش دی گئی ہے، لیکن سوال میں جس وقت اور جگہ  ویڈیو گرافی کا تذکرہ کیاگیاہے ظاہر ہے کہ یہ ایک مذموم اور قابل ترک عمل ہے، جنازہ کا منظر عبرت حاصل کرنے  اور موت کو یاد کرنے کے لئے ہے، جنازہ کے ساتھ ذکرواذاکر کے ساتھ چلنے کاحکم ہے، اس لئے اس موقع پر لائیو اسٹریمنگ اور ویڈیوریکارڈنگ جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3318/46-9136

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں  اگر دیگر ورثاء نہ ہوں تو والدین کے انتقال کے بعد ساری جائداد کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے دو حصے بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا۔  ان کے علاوہ دیگر ورثہ  اگر موجود ہوں تو ان کی تفصیل  لکھ کر رجوع کیاجائے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3313/46-9176

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ کی امی کو آپ کے نانا کی وراثت سے جو کچھ حصہ ملا  نیز جو کچھ امی کی ملکیت میں ان کے مرنے کے وقت تھا، اگرآپ کے علاوہ کوئی اور وارث نہیں ہے تو  آپ چاروں میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم ہوگا۔ لہذا والدہ کے کل ترکہ کو پانچ حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں محمد بلال کو دوحصے اور ہر ایک بہن کو ایک ایک حصہ ملے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3310/46-9108

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ یقینا اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے اور حرام موت کو اختیار کیا مگر وہ پھر بھی مسلمان ہے ، اس لئے اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کی قبرستان میں اس کو دفن کیاجائے گا۔ اور جس حدیث کا آپ نے حوالہ  دیا ہے وہ درست ہے کہ آپ  ﷺ منے نماز جنازہ اس کی نہیں پڑھی تھی مگر اس میں یہ تذکرہ نہیں ملتا کہ آپ نے نماز جنازہ پڑھنے سے بھی منع فرمایا ہو، اس لئے یہی کہاجائے گا کہ آپ ﷺ نے بطور تنبیہ و توبیخ اس کی نماز نہیں پڑھی ، اسی لئے مقتدر اور بااثر لوگوں کا ایسے جنازہ میں شریک نہ ہونا بہتر ہوگا تاکہ دوسروں کو تنبیہ ہو اور عبرت حاصل ہو۔

"(مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ) وَلَوْ (عَمْدًا يُغَسَّلُ وَيُصَلَّى عَلَيْهِ) بِهِ يُفْتَى، وَإِنْ كَانَ أَعْظَمَ وِزْرًا مِنْ قَاتِلِ غَيْرِهِ. وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي بِمَا فِي مُسْلِمٍ: «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»".

"(قَوْلُهُ: بِهِ يُفْتَى)؛ لِأَنَّهُ فَاسِقٌ غَيْرُ سَاعٍ فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ، وَإِنْ كَانَ بَاغِيًا عَلَى نَفْسِهِ كَسَائِرِ فُسَّاقِ الْمُسْلِمِينَ، زَيْلَعِيٌّ. (قَوْلُهُ: وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي إلَخْ) أَيْ قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ: إنَّهُ يُغَسَّلُ، وَلَايُصَلَّى عَلَيْهِ، إسْمَاعِيلُ عَنْ خِزَانَةِ الْفَتَاوَى. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ وَالْكِفَايَةِ وَغَيْرِهِمَا عَنْ الْإِمَامِ السَّعْدِيِّ: الْأَصَحُّ عِنْدِي أَنَّهُ لَايُصَلَّى عَلَيْهِ لِأَنَّهُ لَا تَوْبَةَ لَهُ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: فَقَدْاخْتَلَفَ التَّصْحِيحُ، لَكِنْ تَأَيَّدَ الثَّانِي بِالْحَدِيثِ. اهـ. أَقُولُ: قَدْ يُقَالُ: لَا دَلَالَةَ فِي الْحَدِيثِ عَلَى ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ سِوَى «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»، فَالظَّاهِرُ أَنَّهُ امْتَنَعَ زَجْرًا لِغَيْرِهِ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْفِعْلِ كَمَا امْتَنَعَ عَنْ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَدْيُونِ، وَلَايَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ عَدَمُ صَلَاةِ أَحَدٍ عَلَيْهِ مِنْ الصَّحَابَةِ؛ إذْ لَا مُسَاوَاةَ بَيْنَ صَلَاتِهِ وَصَلَاةِ غَيْرِهِ. قَالَ تَعَالَى: {إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ} [التوبة: ١٠٣] ثُمَّ رَأَيْت فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ بَحْثًا كَذَلِكَ" . [الدر مع الرد : ٢/ ٢١١-٢١٢] 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3294/46-9050

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحومہ مالیہ کا کل ترکہ اولا 13 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے ہر ایک بھائی کو 2 حصے اور ہر ایک بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ پھر جو کچھ محمد رفیق کو ملا اس کو اس کی بیوہ اور اولاد کے درمیان ، اور جو کچھ فضل محبوب کو ملا اس کو اس کی بیوہ اور اولاد کےدرمیان اس طرح تقسیم کریں گے کہ بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ میں سے بیٹوں کو دوہرا اور بیٹیوں کو اکہرا حصہ دیں گے۔ چھ لاکھ چالیس ہزار کی تقسیم اس طرح ہوگی  کہ  مرحومہ کے ہر ایک بھائی کو 98461 روپئے ، اور ہر ایک بہن کو 49231 روپئے ملیں گے۔ محمد رفیق کے  حصہ کی رقم  میں سے اس کی بیوہ کو 12307 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 12307 روپئے، اور ہر ایک بیٹی کو 6153 روپئے ملین گے۔ اور فضل محبوب کے حصہ کی رقم میں سے اس کی بیوہ کو 12307 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 24615 روپئے  اور ایک بیٹی کو 12307 روپئے ملیں گے۔  مالیہ کے بھائی بہن جو ابھی بھی زندہ ہیں ان کی رقم کے وہ خود مالک ہوں گے ،   اپنی زندگی میں  ہی اپنا حصہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے۔  وراثت کی تقسیم ہوجانے کے بعد ہرایک کو اپنے حصہ کا اختیار ہے اگر وہ چاہے تو کسی کو اپنا کل یابعض حصہ دے سکتاہے۔  اور اگر کوئی وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی  اپنا حصہ بغیر کسی دباؤ کے چھوڑنا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No.  3295/46-9047

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید کی نانی کی جائداد پر اس کے نانا کا کوئی اختیار نہیں تھا، لہذا ان کا زبردستی نانی کی اجازت کے بغیر بلکہ منع کرنے کے باوجود ان کی پروپرٹی کو تقسیم کرنا شرعا ناجائز اور غیر نافذ العمل ہے۔ جن لوگوں کو معلوم تھا ان کو اس تقسیم سے روکنا چاہئے تھا، یا پھر تقسیم کے بعد بھی نانی کو وہ جائداد واپس کرنی چاہئے تھی۔ لیکن اگر اس وقت واپس نہیں کیا تو اب  نانی کے مطالبہ پر ان کی پراپرٹی ان کو لوٹانا لازم ہوگا۔ اور زید کی نانی کو مکمل اختیار ہوگا کہ اپنی زندگی میں وہ وراثت کے مطابق سب میں تقسیم کریں یا سب کو برابر تقسیم کریں، اور چاہیں تو کسی اور کو ہدیہ میں بھی کچھ جائداد دے سکتی ہیں۔   زید کے نانا کے مالک بنانے سے مامو لوگ مالک نہیں ہوں گے بلکہ ان کو وہ جائداد مالک کو ہی لوٹانی  لازم ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3255/46-8066

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(۱) سوال میں مذکور مفتی صاحب سے منع کرنے کی وجہ معلوم کریں، نیز مقامی علماء سے معلوم کریں ، وہ وہاں کے حالات کے اعتبار سے جو فتوی دیں اس پر عمل کریں۔ (۲) جن صاحب نے قبرستان کے لئے زمین دی ہے ان کے ورثاء سے تحریری طور پر لکھوالیاجائے اور اسے سرکاری طور پر قبرستان کے نام پر رجسٹرڈ کرالیا جائے تاکہ آئندہ اس زمین کے تعلق سے کوئی نزاع نہ پیدا ہو، (۳) جب وہ زمین قبرستان کے لئے ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں دوسرے میت کو بھی دفن کرنا چاہئے تاکہ قبرستان ہونے کی حیثیت واضح ہوسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند