Frequently Asked Questions
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3318/46-9136
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اگر دیگر ورثاء نہ ہوں تو والدین کے انتقال کے بعد ساری جائداد کو تین حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے دو حصے بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا۔ ان کے علاوہ دیگر ورثہ اگر موجود ہوں تو ان کی تفصیل لکھ کر رجوع کیاجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3310/46-9108
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ یقینا اس نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے اور حرام موت کو اختیار کیا مگر وہ پھر بھی مسلمان ہے ، اس لئے اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور مسلمانوں کی قبرستان میں اس کو دفن کیاجائے گا۔ اور جس حدیث کا آپ نے حوالہ دیا ہے وہ درست ہے کہ آپ ﷺ منے نماز جنازہ اس کی نہیں پڑھی تھی مگر اس میں یہ تذکرہ نہیں ملتا کہ آپ نے نماز جنازہ پڑھنے سے بھی منع فرمایا ہو، اس لئے یہی کہاجائے گا کہ آپ ﷺ نے بطور تنبیہ و توبیخ اس کی نماز نہیں پڑھی ، اسی لئے مقتدر اور بااثر لوگوں کا ایسے جنازہ میں شریک نہ ہونا بہتر ہوگا تاکہ دوسروں کو تنبیہ ہو اور عبرت حاصل ہو۔
"(مَنْ قَتَلَ نَفْسَهُ) وَلَوْ (عَمْدًا يُغَسَّلُ وَيُصَلَّى عَلَيْهِ) بِهِ يُفْتَى، وَإِنْ كَانَ أَعْظَمَ وِزْرًا مِنْ قَاتِلِ غَيْرِهِ. وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي بِمَا فِي مُسْلِمٍ: «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَتَلَ نَفْسَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»".
"(قَوْلُهُ: بِهِ يُفْتَى)؛ لِأَنَّهُ فَاسِقٌ غَيْرُ سَاعٍ فِي الْأَرْضِ بِالْفَسَادِ، وَإِنْ كَانَ بَاغِيًا عَلَى نَفْسِهِ كَسَائِرِ فُسَّاقِ الْمُسْلِمِينَ، زَيْلَعِيٌّ. (قَوْلُهُ: وَرَجَّحَ الْكَمَالُ قَوْلَ الثَّانِي إلَخْ) أَيْ قَوْلَ أَبِي يُوسُفَ: إنَّهُ يُغَسَّلُ، وَلَايُصَلَّى عَلَيْهِ، إسْمَاعِيلُ عَنْ خِزَانَةِ الْفَتَاوَى. وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ وَالْكِفَايَةِ وَغَيْرِهِمَا عَنْ الْإِمَامِ السَّعْدِيِّ: الْأَصَحُّ عِنْدِي أَنَّهُ لَايُصَلَّى عَلَيْهِ لِأَنَّهُ لَا تَوْبَةَ لَهُ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: فَقَدْاخْتَلَفَ التَّصْحِيحُ، لَكِنْ تَأَيَّدَ الثَّانِي بِالْحَدِيثِ. اهـ. أَقُولُ: قَدْ يُقَالُ: لَا دَلَالَةَ فِي الْحَدِيثِ عَلَى ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ فِيهِ سِوَى «أَنَّهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ»، فَالظَّاهِرُ أَنَّهُ امْتَنَعَ زَجْرًا لِغَيْرِهِ عَنْ مِثْلِ هَذَا الْفِعْلِ كَمَا امْتَنَعَ عَنْ الصَّلَاةِ عَلَى الْمَدْيُونِ، وَلَايَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ عَدَمُ صَلَاةِ أَحَدٍ عَلَيْهِ مِنْ الصَّحَابَةِ؛ إذْ لَا مُسَاوَاةَ بَيْنَ صَلَاتِهِ وَصَلَاةِ غَيْرِهِ. قَالَ تَعَالَى: {إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ} [التوبة: ١٠٣] ثُمَّ رَأَيْت فِي شَرْحِ الْمُنْيَةِ بَحْثًا كَذَلِكَ" . [الدر مع الرد : ٢/ ٢١١-٢١٢]
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3294/46-9050
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحومہ مالیہ کا کل ترکہ اولا 13 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے ہر ایک بھائی کو 2 حصے اور ہر ایک بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ پھر جو کچھ محمد رفیق کو ملا اس کو اس کی بیوہ اور اولاد کے درمیان ، اور جو کچھ فضل محبوب کو ملا اس کو اس کی بیوہ اور اولاد کےدرمیان اس طرح تقسیم کریں گے کہ بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ میں سے بیٹوں کو دوہرا اور بیٹیوں کو اکہرا حصہ دیں گے۔ چھ لاکھ چالیس ہزار کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ مرحومہ کے ہر ایک بھائی کو 98461 روپئے ، اور ہر ایک بہن کو 49231 روپئے ملیں گے۔ محمد رفیق کے حصہ کی رقم میں سے اس کی بیوہ کو 12307 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 12307 روپئے، اور ہر ایک بیٹی کو 6153 روپئے ملین گے۔ اور فضل محبوب کے حصہ کی رقم میں سے اس کی بیوہ کو 12307 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 24615 روپئے اور ایک بیٹی کو 12307 روپئے ملیں گے۔ مالیہ کے بھائی بہن جو ابھی بھی زندہ ہیں ان کی رقم کے وہ خود مالک ہوں گے ، اپنی زندگی میں ہی اپنا حصہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے۔ وراثت کی تقسیم ہوجانے کے بعد ہرایک کو اپنے حصہ کا اختیار ہے اگر وہ چاہے تو کسی کو اپنا کل یابعض حصہ دے سکتاہے۔ اور اگر کوئی وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی اپنا حصہ بغیر کسی دباؤ کے چھوڑنا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3295/46-9047
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید کی نانی کی جائداد پر اس کے نانا کا کوئی اختیار نہیں تھا، لہذا ان کا زبردستی نانی کی اجازت کے بغیر بلکہ منع کرنے کے باوجود ان کی پروپرٹی کو تقسیم کرنا شرعا ناجائز اور غیر نافذ العمل ہے۔ جن لوگوں کو معلوم تھا ان کو اس تقسیم سے روکنا چاہئے تھا، یا پھر تقسیم کے بعد بھی نانی کو وہ جائداد واپس کرنی چاہئے تھی۔ لیکن اگر اس وقت واپس نہیں کیا تو اب نانی کے مطالبہ پر ان کی پراپرٹی ان کو لوٹانا لازم ہوگا۔ اور زید کی نانی کو مکمل اختیار ہوگا کہ اپنی زندگی میں وہ وراثت کے مطابق سب میں تقسیم کریں یا سب کو برابر تقسیم کریں، اور چاہیں تو کسی اور کو ہدیہ میں بھی کچھ جائداد دے سکتی ہیں۔ زید کے نانا کے مالک بنانے سے مامو لوگ مالک نہیں ہوں گے بلکہ ان کو وہ جائداد مالک کو ہی لوٹانی لازم ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبنداحکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3255/46-8066
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(۱) سوال میں مذکور مفتی صاحب سے منع کرنے کی وجہ معلوم کریں، نیز مقامی علماء سے معلوم کریں ، وہ وہاں کے حالات کے اعتبار سے جو فتوی دیں اس پر عمل کریں۔ (۲) جن صاحب نے قبرستان کے لئے زمین دی ہے ان کے ورثاء سے تحریری طور پر لکھوالیاجائے اور اسے سرکاری طور پر قبرستان کے نام پر رجسٹرڈ کرالیا جائے تاکہ آئندہ اس زمین کے تعلق سے کوئی نزاع نہ پیدا ہو، (۳) جب وہ زمین قبرستان کے لئے ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں دوسرے میت کو بھی دفن کرنا چاہئے تاکہ قبرستان ہونے کی حیثیت واضح ہوسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3220/46-8005
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدہ نے جو زیور یا مال کسی بیٹی یا بیٹے کو دے کر مالک بنادیا وہ اس کا ہوگیا اس میں دیگر ورثہ کا حصہ نہیں ہوگا،اور زندگی میں کسی کو کچھ دیدینے سے مرنے کے بعد وراثت کے حصہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔الیکن اگر زبانی طور پر ہبہ کیا اور قبضہ میں نہیں دیا تو ہبہ مکمل نہیں ہوا، اور یہ زیور بھی مرحومہ کا ترکہ ہوگا، لڑکی اس کی مالک نہ ہوگی۔ہاں جو زمین لڑکی کے نام کردی گئی ہے وہ اس کی ملکیت ہے اس کو وراثت میں تقسیم نہیں کیا جائے گا۔
البتہ مرنے کے وقت آپ کی والدہ کی ملکیت میں جو کچھ تھا چاہے وہ زمین ہو یا مکان یا زیورات اور روپئے پیسے ہوں۔ کل جائداد کو اس کے شوہر، بیٹی اور بیٹوں میں اس طرح تقسیم کیاجائے گا کہ شوہر کو کل جائداد کا چوتھا حصہ دینے کے بعد مابقیہ مال بیٹی اور بیٹوں کو للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے دیدیں گے۔ چنانچہ اگر کل ملکیت 6400000 روپئے ہی ہیں تو ان میں سے سولہ لاکھ (1600000) مرنے والی کے شوہر کو، چھ لاکھ پچاسی ہزار سات سو چودہ روپئے (685714) بیٹی کو، اور تیرہ لاکھ اکہتر ہزار چار سو اٹھائیس روپئے (1371428) ہر ایک بیٹے کو دیئے جائیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3210/46-7049
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبر ایک سخت منزل ہے، ایک مسلمان کو اس جگہ سے عبرت حاصل کرنی چاہئے، تاہم اگر شراب پی کر قبر کھودی تو ایسی قبر میں مُردوں کی تدفین درست ہوگی اور گورکن اجرت کا مستحق ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3154/46-6050
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں تقسیم سے پہلے جو والد کے پیسے تجارت میں لگادئے گئے وہ تمام ورثہ کی رضامندی سے لگائے گئے تھے، اور اب اس پلاٹ کو نفع کے ساتھ بیچاگیا اور رقم کو تمام ورثہ میں تقسیم کیاگیا۔ تو اب ہر شخص اپنے حصہ کے بقدر گذشتہ سالوں کی زکوۃ ادا کرے گا۔ اور جس وقت پیسے لگائے گئے تھے اس وقت سے ہر سال جو اس پلاٹ کی قیمت بڑھتی یا گھٹتی رہی اسی کے حساب سے زکوۃ ادا کی جائے گی۔
تقسيم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابهم بنسبة حصصهم. فلذلك إذا شرط لأحد الشركاء حصة أكثر من حصته من لبن الحيوان المشترك أو نتاجه لا يصح." (مجلۃ الاحکام العدلیہ،"المادة ١٠٧٣ ص 206 ط:نور محمد )
فأما شركة الأملاك فحكمها في النوعين جميعا واحد، وهو أن كل واحد من الشريكين كأنه أجنبي في نصيب صاحبه، لا يجوز له التصرف فيه بغير إذنه لأن المطلق للتصرف الملك أو الولاية ولا لكل واحد منهما في نصيب صاحبه ولاية بالوكالة أو القرابة؛ ولم يوجد شيء من ذلك وسواء كانت الشركة في العين أو الدين لما قلنا" (بدائع الصنائع، کتاب الشرکۃ،فصل فی حکم الشرکۃ،65/6 ط: دار الکتب العلمیۃ
"(قوله: وملك نصاب حوليّ فارغ عن الدين وحوائجه الأصلية نامٍ ولو تقديراً) لأنّه - عليه الصّلاة والسّلام - قدّر السبب به، وقد جعله المصنف شرطاً للوجوب مع قولهم: إنّ سببها ملك مالٍ مُعدّ مُرصد للنماء والزيادةِ فاضلٍ عن الحاجة كذا في المحيط وغيره" . (البحر الرائق، البحر الرائق،کتاب الزکوۃ، شروط وجوب الزکوۃ، ج:۲،ص:۲۱۸،ط:دار الکتاب الاسلامی)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3156/46-6048
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کی وفات کے بعد شوہر سے اس کا نکاح ختم ہوجاتاہے، اب شوہر کا اس بیوی پر کوئی حق نہیں ہے، اس لئے تدفین کے معاملہ میں اس کے اولیاء کو اختیار ہوگا۔
والنکاح بعد الموت باقٍ إلی أن تنقضي العدة بخلاف ما إذا ماتت فلا یغسلہا؛ لانتہاء ملک النکاح لعدم المحل فصار أجنبیًا (شامي: 3/91 باب صلاة الجنازة، مطبوعہ زکریا دیوبند)
ویمنع زوجھا من غسلھا ومسھا لا من النظر إلیھا علی الأصح وھي لا تمنع من ذلک أي من تغسیل زوجھا دخل بھا أو لا․ ولو ذمیةً بشرط بقاء الزوجیة (شامي: 3/91 مطبوعہ زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3158/46-7066
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبداللہ اور ان کی اہلیہ کے انتقال کے بعد مرحوم کی کل جائداد کو ان کی تمام اولاد میں شریعت کے مطابق تقسیم کیاجائے گا۔ اور بھائیوں کے ساتھ بہنیں بھی شامل ہوں گی۔ لہذا جو بٹوارا پہلے ہوا تھا جس میں بہنوں کوشامل نہیں کیاگیا وہ شرعی بٹوارا نہیں ہواتھا، اس لئے اس کو ختم کرکے دوبارہ دونوں مکانوں کو شرعی طریقہ پرتقسیم کرنا ضروری ہے۔ بھائیوں نے رفیق صاحب کو جو مکان اس وقت دیاتھا تو اس وقت مکان کی جو حالت تھی اس کی قیمت لگائی جائے گی، اور رفیق کی اولاد نے جو اضافی رقم خرچ کی وہ ان کو دیدی جائے گی۔ مرحوم عبداللہ کی کل جائداد کو سب سے پہلے چودہ (14) حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے ہر بیٹے کو دو دو حصے اور ہر ایک بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ جوان میں سے فوت ہوچکے ہیں ان کا حصہ ان کی اولاد میں تقسیم کیاجائے گا، جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ کو اولاد میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کیاجائے گا اور جس بہن کی کوئی اولاد نہیں ہے اس کا حصہ اس کے انتقال کے وقت جو بھائی اور بہنیں موجود تھیں ان میں للذکر مثل حظ الانثیین کے حساب سے تقسیم کرلیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند