زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 3236/46-8012

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کا اپنے محرم کے سامنے نہ تو سر کا کھولنا واجب ہے اور نہ ہی چھپانا واجب ہے۔ عورت کا اپنے محارم کے سامنے اپنے سر کو چھپانا احترام و ادب کے طور پر ہوتاہے۔ اس کو شرعی واجب خیال رکھنا تو یقینا غلط ہے تاہم ادب و حترام کے طور پر اگر وکئی عورت اپنے والد اور بڑے بھائی وغیرہ کے سامنے سر کو ڈھانکتی ہے تو اس کو بدعت نہیں کہاجائے گا، کیونکہ ہمارے معاشرہ میں بڑوں کے سامنے سر ڈھانکنا ادب کا حصہ شمارکیاجاتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 3224/46-7094

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محرم رشتہ داروں کے سامنے عورت کے لیے سر ، بال، گردن، کان، بازو، ہاتھ ، پاؤں ، پنڈلی، ، چہرہ اور گردن سے متصل سینہ کا اوپری حصہ کھولنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ چہر ہ اور ہاتھ پاؤں کے سوا باقی اعضاءکو محارم کے سامنے بھی  ڈھکا رکھا جائے۔ نیز محرم عورتوں کے   پیٹ، کمر اور  پیٹھ اور گھٹنے کا بھی پردہ ہے ان اعضاء کی  طرف  بھی دیکھنا جائز نہیں ہے۔

ینظر الرجل من ذوات محارمہ إلی الوجہ والرأس والصدر․․․ ولا ینظر إلی ظہرہا وبطنہا وفخذہا (ہدایہ: ۴۶۱/۴) قال فی الشامی:وقال الرحمتی: الظہر ما قابل البطن من تحت الصدر إلی السرة․․․ أی فما حاذی الصدر لیس من الظہر الذی ہو عورة اھ ومقتضی ہذا أن الصدر وما قابلہ من الخلف لیس من العورة وأن الثدی أیضًا غیر عورة وسیأتی فی الحظر والإباحة أنہ یجوز أن ینظر من أمة غیرہ ما ینظر من محرمہ، ولا شبہة أنہ یجوز النظر إلی صدر محرمة وثدیہا فلا یکون فی عورة منہا ولا من الأمة (شامی: ۷۷/۲، ط: زکریا دیوبند)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref.  No.  30/-

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   عورتوں کے لئے لمبے بال باعث زینت ہیں، عورتوں کا بلاعذر شرعی سرکے بالوں کا کاٹنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی عذر ہو کہ بال سرین سے نیچے ہوجائیں اور عیب دار معلوم ہوتے ہوں تو فقط زائد بالوں کو کاٹنا جائز ہے۔ لہذا عورت کے لئے کندھے سے دس سینٹی میٹر نیچے سے بال کاٹنا جائز نہیں ہے۔

عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المتشبهين من الرجال بالنساء، والمتشبهات من النساء بالرجال"،(صحیح البخاری، کتاب اللباس الرقم 5885)

قطعت شعر راسھا اثمت ولعنت فی البزازیۃ ولو باذن الزوج ، لانہ لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق ولذا یحرم علی الرجل قطع لحیتہ والمعنی الموثر التشبہ بالرجال “(الدر المختار، کتاب الحظر والاباحۃ: (407/6، 9/670)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2482/45-3805

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہم نے اس معالجہ کے بارے میں جو کچھ سمجھاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ: انسانی جلد پر ایک قسم کا روغن ہوتاہے جس کو میلانین کہاجاتاہے، اسی میلانین  روغن کو جو بے اثر ہوچکا ہوتاہے از سر نو پیداکرکے اگر فعال کردیا جائے تو جلد کے داغ دھبے ختم ہوسکتے ہیں۔ اس  حوالہ سے  وہائٹننگ کریم،فیشیئل  ماسک، گاجر اور چقندر کا جوس، سبز سیب اور انار کاجوس، پپیتا، لیموں اور کھیرے کاجوس،  برف،اور گلیسرین  کا مساج اور زیادہ پانی پینا بھی مفید بتایاجاتاہے جو قدرتی طریقہ کارہے۔  

ہماری معلومات کے مطابق 'لیزر اِسکِن وائٹننگ ٹریٹمنٹ' چہرہ کے سیاہ دھبوں پر لائٹ کی شعاعوں کی مدد سے جلد کو نرم کرکے اس دھبہ والے جلد کی اوپری سطح کوہٹانے کا  یہ ایک طریقہ کار ہے۔  اس میں چہرہ کی نرم جلدوں پر جب شعاعیں پڑتی ہیں تو انسان کو تکلیف بھی ہوتی ہے، اور جلد کی اوپری  انتہائی باریک سطح کو ہٹادیاجاتاہے، اس لئے یہ بھی سرجری کی ہی ایک ادنی قسم کہلائے گی ۔مزید برآں  لیزر وائٹننگ  معالجہ کے نقصانات بھی  برداشت کرنے پڑسکتے ہیں۔  جیسے کہ خراش، جلد کی خشکی، سورج کی روشنی میں حساسیت، جکڑن، سوجن، داغ، جلد کے انفیکشن، جلد کی ساخت میں فرق، رنگت، جلد کی سرخی اور جلن۔  اور اس طریقہ علاج کے بعد جلد کے ٹھیک  ہونے میں تقریبا تین ہفتے درکار ہوتے ہیں۔

الغرض اگرمیلانین روغن کی افزائش کا قدرتی اشیاء  کے ذریعہ علاج کیاجائے ، یعنی مخصوص غذاؤں اور جوس  کا استعمال، قدرتی چیزوں کا مساج اور میک اپ  کے کریم وغیرہ کا استعمال کیاجائے تو بہت بہتر ہے اور اس طرح گورا ہونا  اور چہرے کی رنگت کو نکھارنا درست جائز ہے، البتہ سوال میں مذکور طریقۂ علاج جائز نہیں ہے، یہ تغیر لخلق اللہ میں داخل ہے، اللہ رب العزت نے جس رنگ کا جس کو بنایا ہے، اسی پر انسان کو راضی رہنا چاہیے،  اور مذکورہ طریقہ علاج سے گریز کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 2485/45-3835

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر عورت اپنے گھر میں تنہائی میں یا شوہر کے سامنے پینٹ شرٹ پہنتی ہے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن دیگر محارم اور بچوں کے سامنے ایسا لباس پہننا جائز نہیں جس سے جسم کی ساخت نمایاں ہوتی ہو۔شریعت نے عورت کے لیے لباس تو متعین نہیں کیا، البتہ اس کے اصول متعین کردیے ہیں، جن کی بنیاد یہ ہے کہ: 1- لباس ساتر ہو، یعنی جسم کے جس حصے کو چھپانا لازم ہے، اس حصے اور اس کی بناوٹ کو  چھپالے۔2- اجنبی کے لیے جاذبِ نظر نہ ہو۔3- غیر اقوام یا مردوں کی مشابہت نہ ہو۔ لہٰذا عورت کو ایسا ڈھیلا ڈھالا ساتر لباس پہننا چاہیے جس سے نہ صرف اُس کا پورا بدن ڈھک جائے؛ بلکہ اعضاء کی بناوٹ اور اُبھار بھی ظاہر نہ ہو۔ اور عورت کے لیے اَجنبی مردوں کے سامنے پورے جسم (سر، چہرے، گردن، کلائیوں اور پنڈلی ٹخنوں سمیت) کا پردہ ہے، لہٰذا غیر محرم کے سامنے تو پورا جسم اور اس کی ساخت چھپانا لازم ہے، جب کہ محرم کے سامنے سر، چہرہ، گردن اور اس سے متصل (سینے سے اوپر)  حصہ، ہتھیلیاں، پاؤں، کلائیاں اور پنڈلی کھول سکتی ہے، باقی اعضاء  کا محرم سے بھی چھپانا لازم ہے، اور اگر کسی محرم سے اندیشہ ہو تو اس کے سامنے مذکورہ اعضاء بھی چھپانا لازم ہوگا۔اسلام نے عورت کو میک اپ کرنے سے منع نہیں کیا ہے لیکن اس کا اظہار غیر محرموں کے سامنے کرنے سے منع کیا گیاہے۔

قال اللّٰہ تعالیٰ:{يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَنْ يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا} [الأحزاب: ۵۹]ومن للتبعیض، ویحتمل ذلك علی ما في الکشاف وجهین: أحدهما أن یکون المراد بالبعض واحدًا من الجلابیب وإدناء ذلك علیهن أن یلبسنه علی البدن کلّه، وثانیهما أن یکون المراد بالبعض جزءًا منه، وإدناء ذلك علیهنّ أن یتقنّعن فیسترن الرأس والوجه بجزء من الجلباب مع إرخاء الباقي علی بقیة البدن." (روح المعاني ۱۲؍۱۲۸)وقال تعالیٰ:{وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰی}[الأحزاب: ۳۳]۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 41/1042

In the name of Allah the most gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

 Using lipstick is allowed for women provided it does not contain any impure thing.

And Allah knows best

Darul Ifta            

Darul Uloom Waqf Deoband

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1372/42-786

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  دونوں بھویں اگر ملی ہوئی ہیں اور گھنی ہیں جو بھدی معلوم ہوتی ہیں تودونوں بھؤوں کے درمیان کے بالوں کو بقدر ضرورت کاٹ کر معتدل کرنے کی گنجائش ہے، گرچہ ایسا کرنا بہتر نہیں ہے۔

  ولا باس باخذ الحاجبین وشعر وجہہ مالم یتشبہ بالمخنث  کذا فی الینابیع (الھندیۃ ، الباب التاسع عشر فی الختان 5/358) (حاشیۃ الطحطاوی، باب الجمعۃ 1/526)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1130 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ۱۔ ایک مشت داڑھی رکھنا واجب ہے، حدیث میں داڑھی بڑھانے کا حکم ہے ؛ حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن عمر کا عمل تھا کہ ایک مشت سے زائد بالوں کو کٹوادیتے تھے اور صحابہ نے دیکھا اور نکیر نہیں فرمائی۔[کتاب الآثار، عالمگیری، بذل المجہود اوررد المحتارمیں تفصیل موجود ہے۔ ]

۲-۳۔ داڑھ کے اوپر جو بال ہوتے ہیں ان کو داڑھی کہا جاتاہے، اس کے علاوہ جو بال رخسار اور حلقوم پر ہوں وہ داڑھی میں داخل نہیں ہیں اس لئے  ان کو صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

۴۔ ناک کے بالوں کو کاٹنا درست ہے، اسی طرح کان کے بالوں کوبھی کاٹنے کی اجازت ہے، نیز سینہ کا بال صاف کرنا بھی درست ہے تاہم خلافِ ادب ہے؛ اگر بیوی ناپسند کرے توکٹوانے میں  کوئی حرج نہیں  ہے۔

۵۔ خلاف سنت ہے، نماز مکروہ ہوگی۔

۶۔ شرعی اعذار کی بنا ء پر اگر ہو تو گنجائش ہے۔ جب استعمال کی ضرورت محسوس ہو ، صورت حال بتا کر مسئلہ معلوم کرلیں۔

۷۔ شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ کذا فی الفتاویٰ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 41/1079

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سونے اور چاندی سے بنے ہوئے کسی سامان کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ لہذا چاندی کی سلائی استعمال کرنا بھی جائز  نہیں  ہے۔ وَقَالَ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ: يُكْرَهُ وَمُرَادُهُ التَّحْرِيمُ وَيَسْتَوِي فِيهِ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ لِعُمُومِ النَّهْيِ، وَكَذَلِكَ الْأَكْلُ بِمِلْعَقَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالِاكْتِحَالُ بِمِيلِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَكَذَا مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ كَالْمُكْحُلَةِ وَالْمِرْآةِ وَغَيْرِهِمَا لِمَا ذَكَرْنَا. (فتح القدیر 10/6)۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 1213 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ کالا خضاب لگانا جس سے بالوں کی سیاہی اصلی سیاہی معلوم ہو ، مکروہ تحریمی ہے۔ ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کراہت سے خالی نہیں، تاہم نماز ہوجائے گی اور ایسے امام کے پیچھے پڑھی گئی نمازوں کا اعادہ لازم نہیں ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند