Frequently Asked Questions
آداب و اخلاق
Ref. No. 3559/47-9565
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر کسی نے کسی غیر مسلم پر ظلم کیا ہو تو اس کا حق براہِ راست معافی یا نقصان کی تلافی سے ادا کرنا واجب ہے۔ اگر معافی مانگنے سے فتنہ یا خطرہ ہو تو کسی اور جائز طریقے سے اس کا نقصان پورا کرے، اور نیز صدقہ کرکے اس کے لیے ہدایت کی دعا کرے اوربرابر اپنے لئے استغفار بھی کرتارہے۔ تاہم صرف دعا اور صدقہ حق العبد کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہے۔صدقہ سے اس کو دنیا میں فائدہ پہونچ سکتاہے۔ اور اس کے علاوہ معافی کے لئے آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے۔
"من كانت عنده مظلمة لأخيه من عرضه أو من شيء فليتحلله منه اليوم قبل أن لا يكون دينار ولا درهم" (صحیح بخاری، حدیث: 2449)
"إن لم يقدر على الاستحلال منه لخوف ضرر أو فتنة، فليدع له ويستغفر له، وليتصدق عنه بما أمكن" (رد المحتار، ج 6، ص 144)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 3552/47-9554
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ مشت زنی یقینا حرام و ناجائز عمل ہے، اور اس پر سچی توبہ و استغفار اس کا کفارہ ہے۔ اس عمل کو اب فوری طور پر روک دیں ، اور آئندہ اس سے بچنے کا عزم کریں اور گزشتہ عمل پر جو اب تک ہوتا رہا اپنی ندامت اور شرمندگی کا ظہار کریں، یہی توبہ اور ماضی پر افسوس اس گناہ کا کفارہ ہے۔ اگر کچھ حسب حیثیت صدقہ کردیں تو بہت اچھا ہوگا ا اس لئے کہ صدقہ بھی گناہوں کو مٹانے میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔
’عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "سبعة لاينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولايزكيهم، ولايجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره". " تفرد به هكذا مسلمة بن جعفر هذا ". قال البخاري في التاريخ".(شعب الإيمان 7/ 329)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 3540/47-9537
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) اگر آپ کو لگتاہے کہ آپ نے غلط کیاتھا اور آپ نے اس پر ظلم کیا ہے تو صرف اللہ سے توبہ کافی نہیں ہے، آپ کو اس شخص سے معافی مانگنی پڑے گی، کیونکہ حقوق العباد میں بندوں سے معافی ہوسکتی ہے۔ (۲) اللہ سے اپنے اس عمل پر توبہ بھی کریں اور اس شخص سے معافی بھی مانگیں۔ (۳) اگر معافی مانگنے میں خطرہ ہے تو ساتھ میں کسی کو لے کر جائیں ، اور اگر آپ اس معاملہ کا ذکر ہی نہیں کرناچاہتے تو کوئی گفٹ دیدیں جس سے وہ خوش ہوجائے تو اس سے بھی معافی ہوسکتی ہے۔
قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيْهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ مِنْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُوْنَ دِيْنَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ. (بخاری، حدیث: 2449)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 3523/47-9488
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جو اصل باپ ہے وہی باپ رہے گا اس سے باپ کی نسبت کبھی ختم نہیں ہوگی۔اس لئے بیٹا اپنے باپ کو بلاشبہہ ابو کہہ سکتاہے، اور بچہ کو اس کے باپ کی طرف ہی منسوب کیاجائے گا۔ خیال ہے کہ کاغذی کارروائیوں میں بھی باپ کی جگہ باپ کا نام ہی لکھاجائے گا۔ بہنوئی کا بچہ کی باپ کی جگہ اپنا نام لکھنا بھی جائز نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 3496/47-9507
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ مستورات کا واٹساپ گروپ، جس میں صرف خواتین ہوں اس میں ایک مرد کا ہونا فتنہ کا سبب بن سکتاہے، اس لئے ایسا کرنا مناسب نہیں ہے۔ نوجوان عالم صاحب اپنی اہلیہ کو واٹساپ گروپ میں شامل کردیں اور گروپ میں پیش آمدہ مسئلہ ان کی اہلیہ ان سے معلوم کرکے گروپ میں بتادیں تو یہ زیادہ بہتر طریقہ ہوگا۔ اہلیہ کے موبائل پر وائس میسیج کے ذریعہ متعلقہ مسئلہ کی وضاحت کرنے میں بھی عالم صاحب کے لئے کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 3248/46-8041
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ طریقہ پر دعاکرنے میں کوئی خرابی نہیں ہے، بشرطیکہ الفاظ ولہجہ سے شکوہ کا اظہار نہ ہو، اور اگر ماضی کے حوالہ کے بغیر دعا کی جائے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ اپنے تمام گناہوں سے سچے دل سے توبہ کرلینا کافی ہوگا، گناہوں کا نام لینا ضروری نہیں ہے۔
’’قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ‘‘ [الزمر:53]
ذكر أكثر الفقهاء والمفسرين أن للتوبة أربعة شروط: الإقلاع عن المعصية حالا، والندم على فعلها في الماضي، والعزم عزما جازما أن لا يعود إلى مثلها أبدا." (الموسوعة الفقهية الكويتيه، ص:120، ج:14، ط:دار السلاسل)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 2954/45-4677
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کو تکلیف پہونچانا یا اس کے سامان کو نقصان پہونچانا جائز نہیں ہے۔ مسجدوں میں نمازیوں کے جوتے چپل پر پیر رکھ کر اس کو مٹی آلود کرنا یا ان کو اس طرح روندنا کہ اس کا نقشہ بگڑجائے، شکن آجائے اسی طرح اس کی پالش کو نقصان پہونچانا یہ سب ایذائے مسلم کے قبیل سے ہوگا ، اس لئے باہر نکلتے ہوئے ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے، تاہم اگر ایسی چپلیں ہوں جن پر پیر رکھنا کسی طرح بھی نقصاندہ نہیں ہے تو ان پر پیر رکھنے میں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ تاہم جن لوگوں کو اپنی چپل اور جوتے کی حفاظت مقصود ہو وپ اپنی چپلیں اور جوتے کسی محفوظ جگہ پر رکھیں۔ آپس میں اس مسئلہ پر بحث و مباحثہ کرنے کے بجائے مسجد کے تمام نمازیوں اور اہل محہ پر لازم ہے کہ جوتے رکھنے کے لئے ریک بنوالیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
آداب و اخلاق
Ref. No.
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایام حیض میں بیوی سے جماع کرنا ناجائز اورحرام ہے، حیض کے ایام دس دن ہوتے ہیں ، اگر کسی عورت کو دس دن سے زیادہ خون آئے تو اس کو حیض کا خون نہیں بلکہ استحاضہ کا خون کہاجاتا ہے، حیض کے ایام گزرنے کے بعد گرچہ خون جاری ہو بیوی سے ہمبستری کرنا جائز ہے۔ اسی طرح حالت نفاس میں بھی بیوی سے ہمبستری جائز نہیں ہے اور نفاس کی اکثرمدت چالیس دن ہے، بچہ کی ولادت کے بعد جب بھی خون آنا بند ہوجائے، شوہر و بیوی مل سکتے ہیں۔ اور اگر چالیس دن بعد بھی خون بند نہ ہوا تو چونکہ نفاس کی اکثر مدت گزرگئی ہے اور ایام ممنوعہ ختم ہوگئے لہذا اب(۴۰دن بعد ) ہمبستری جائز ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 39/1076
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حدود شرعیہ میں رہ کرعصری علوم جائز ہیں ،والدین کو اللہ تعالی ان کی نیتوں کےمناسب اجر دیں گے ۔ اور اگر حدود شرعیہ کا لحاظ نہیں کیا گیا اور مخلوط کالجوں میں اپنی بڑی بچیوں کو بھیجا گیا تو یہ جائز نہیں ہے۔ دینی تعلیم بھی ضروری ہے اس سے آنکھیں موند کر صرف عصری تعلیم پر زور دینا درست نہیں ہے۔ گھر میں خود اس کی دینی تعلیم کا نظم کریں ۔ اور جب اردو کی کچھ سمجھ پیدا ہوجائے تو بہشتی زیور وغیرہ کا مطالعہ کرائیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند