Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 3502/47-9502
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اس عورت کو شہوت کی نگاہ سے محض دیکھنے سے حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی، اسی طرح اس عورت کی تصویر کو چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی، لہذا مذکورہ عورت کی بیٹی سے اس شخص کا نکاح جائز ہے۔ تاہم آپ کا دل چونکہ اس کی والدہ کی طرف مائل رہاہے تو بعد میں بہت احتیاط رکھیں ، کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں وہ میلان دوبارہ غالب آجائے اور اس کی وجہ سے کوئی ایسی غلطی ہوجائے کہ اس کی بیٹی بھی ہمیشہ کے لئے آپ پر حرام ہوجائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3488/47-9420
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ کفو کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا دین،دیانت، نسب، پیشہ ، مال اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو۔ نیز کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے۔ لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔ لہذا سوال میں ذکرکردہ احوال کی روشنی میں ، مذکور لڑکا مذکورہ لڑکی کا کفو نہیں ہے۔
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض۔ ( بدائع الصنائع، 2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3487/47-9423
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ متعدد بیویوں کے درمیان صرف رات کے اوقات میں برابری ضروری ہے، رات میں سب کو برابر وقت دینا شوہر پر واجب ہے،اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، تاہم دن کے اوقات میں یہ پابندی نہیں ہے۔ دن کے اوقات میں دیگر بیویوں کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ صحبت کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اس عورت کی حق تلفی ہوگی جس کے لئے وہ دن متعین ہے۔
"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوماً وليلةً) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لايدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد، ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفي أو تموت، انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.
(قوله: لكن إلخ) قال في الفتح: لانعلم خلافاً في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى، بل ذلك في البيتوتة، وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل، نهر (قوله: ولا يجامعها في غير نوبتها) أي ولو نهاراً ط". (شامی، کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ج: 3،صفحه:207، ط: ایچ، ایم، سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3451/47-9371
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ شریعت میں بالغہ لڑکی کے خود نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتاہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکی اپنے والدین اور گھروالوں سے الگ ہوکر اپنا نکاح کرے، ایسا نکاح شرعا پسندیدہ نہیں۔ ۱۴ سال کی عمر بہت چھوٹی عمر ہے، ابھی کسی چیز کا تجربہ نہیں ہے، دنیا کے احوال سے کوئی واقفیت نہیں ہے، لڑکے کے انتخاب میں غلطی کا بہت زیادہ امکان ہے، ظاہر ہے کہ شادی صرف وقتی طور پر اپنی خواہش پوری کرنے کا نام نہیں ہے، یہ ایک طویل مدتی سفر ہے، اور زندگی بھر کے لئے ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اگر ایسے میں کوئی غلط قدم اٹھالیا تو زندگی بھر کی جو اذیت ہے وہ بہت دشوار کن ہے۔ ابھی اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنے کے لئے خود کو پڑھائی لکھائی، کڑھائی، بُنائی سلائی وغیر امور میں مصروف رکھنا بہتر ہوگا تاکہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ غلط نہ ہوجائے۔ آپ اپنی والدہ سے بات کریں، دیگر رشتہ دار خواتین کو بھی شامل کریں تاکہ وہ والدین کو آمادہ کرسکیں۔ والدین اگر تیار ہوں تبھی آپ نکاح کے لئے راضی ہوں ، والدین کے خلاف جاکر کود سے نکاح کرنا آپ کے لئے بالکل مناسب نہیں ہے۔ آپ ایک اچھی اور دیندار لڑکی ہیں ، آپ نے شرعی رہنمائی کے لئے دارالافتا سے رابطہ کیا۔ اللہ آپ کے لئے آسانیاں پیداکرے، آپ کی عصمت عفت کی حفاظت فرمائے، والدین کے زیرسایہ رہ کر اپنے مستقبل کو طے کرنے کی توفیق بخشے۔ اگر شہوت کا غلبہ ہو تو نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3449/47-9367
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ رضاعت یعنی کسی عورت کا دودھ پینے سے حرمت چابت ہوجاتی ہے۔ اس لئے جب آپ نے خالہ کا دودھ پیا ہے تو خالہ کی بیٹی آپ کی رضاعی بہن ہوگئی، اس سے نکاح حرام ہے۔ وہ آپ کی حقیقی بہن کی مانند ہے۔ ایک مرتبہ دودھ پینے سے یا چند قطرے دودھ پینے سے بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، متعدد مرتبہ پینا یا پیٹ بھرکر پینا ضروری نہیں ہے۔ عام حالات میں تو اس رضاعی بہن سے پردہ بھی نہیں ہے، تاہم اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو پردہ کرنا لازم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3434/47-9345
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ عائشہ کی بیٹی مریم کا نکاح عامر سے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے درمیان آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ عامر مریم کا سوتیلا ماموں ہے حقیقی ماموں نہیں ہے؛ اس لیے اگر حرمت کی کوئی دوسری وجہ رضاعت وغیرہ نہ ہو تو یہ نکاح جائز ہے۔
" أن الرجل كما يحرم عليه تزوج أصله أو فرعه كذلك يحرم على المرأة تزوج أصلها أو فرعها، وكما يحرم عليه تزوج بنت أخيه يحرم عليها تزوج ابن أخيها وهكذا، فيؤخذ في جانب المرأة نظير ما يؤخذ في جانب الرجل لا عينه وهذا معنى، قوله في المنح: كما يحرم على الرجل أن يتزوج بمن ذكر يحرم على المرأة أن تتزوج بنظير من ذكر ."(شامی، کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،3/ 29،ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3396/46-9295
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
The answer to your question is as follows:
Engaging in sexual relations with one’s wife during her menstrual period is considered a major sin (kabīrah) in Islam. The narration referenced highlights the gravity of this transgression. Therefore, it is incumbent upon the individual to immediately turn to Allah in sincere repentance (tawbah) and seek His forgiveness (istighfār). Additionally, it is recommended that he give an appropriate amount in charity (sadaqah), according to his financial capacity.
If he repents sincerely and firmly resolves never to return to this sin, it is hoped that he will be spared from divine punishment. Since the act was committed out of ignorance, there is greater hope that Allah, the Most Merciful, will accept his repentance.
However, it must be clearly understood that if she gets pregnant, it will not be not permissible to terminate the pregnancy unless there exists a valid reason.
And Allah knows best.
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf, Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 3375/46-9262
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ شرعی طور پر دونوں بیویوں کو برابر حقوق دینا شوہر پر لازم ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے طلاق لے کر دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضا سے رجوع کریں؛ دارالقضا میں اختلافی مسائل کو اچھی طرح حل کیاجاتاہے اور دونوں فریق کی بات سن کر فیصلہ کیاجاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3367/46-9235
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: دونوں طرف کے افراد اپنے موقف پر سخت رہیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ آپ نے مشورہ طلب کیا ہے تو آپ کو ہی ہم مشورہ میں کچھ کہہ سکتے ہیں، اس لئے مشورہ یہ ہے کہ آپ کے گھروالوں میں سے چند افراد جو سفر کی استطاعت رکھتے ہوں، وہ چلے جائیں اور نکاح کی مجلس میں شرکت کرلیں، گھر کے تمام افراد کا جانا ضروری نہیں ہے۔ اور لڑکی کا مجلس نکاح میں حاضر ہونا بھی ضروری نہیں ہے، لڑکی اپنے نکاح کا کسی کو وکیل بناکر مجلس نکاح میں بھیج دے۔ اسی طرح لڑکے والوں کا ندوہ میں نکاح پڑھوانے پر اصرار غیرضروری ہے، دونوں گھرانوں کے معزز افراد کو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ کسی کو زحمت نہ ہو۔
حدثنا شعبة، عن عبد الله بن أبي السفر، وإسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه»." (صحیح البخاري، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، ج: 1، صفحہ: 11، رقم الحدیث: دار طوق النجاة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3351/46-9215
الجواببسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (۲-۱) عاقلہ بالغہ لڑکی کا لڑکے کو وکیل بنانا درست ہے اور پھرلڑکے کا لڑکی کی طرف سے وکیل بن کر دوگواہوں کی موجودگی میں اس کو اپنے نکاح میں قبول کرنے سے نکاح منعقد ہوگیا۔ لہذا اس نکاح کے بعد ان کا آپس میں ملنا درست اور صحیح ہوا۔ البتہ لڑکی کا والدین کی اجازت کے بغیر نکا ح کرناشرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ۔ (۳) چونکہ مذکورہ نکاح درست تھا اس لئے اس کی دی ہوئی تمام طلاقیں بھی واقع ہوں گی۔
كما للوكيل) الذي وكلته أن يزوجها على نفسه فإن له (ذلك) فيكون أصيلًا من جانب وكيلًا من آخر." (رد المحتار3/ 98ط:سعيد)
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (بدائع الصنائع، 2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند