Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 3375/46-9262
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ شرعی طور پر دونوں بیویوں کو برابر حقوق دینا شوہر پر لازم ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے طلاق لے کر دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضا سے رجوع کریں؛ دارالقضا میں اختلافی مسائل کو اچھی طرح حل کیاجاتاہے اور دونوں فریق کی بات سن کر فیصلہ کیاجاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3367/46-9235
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: دونوں طرف کے افراد اپنے موقف پر سخت رہیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ آپ نے مشورہ طلب کیا ہے تو آپ کو ہی ہم مشورہ میں کچھ کہہ سکتے ہیں، اس لئے مشورہ یہ ہے کہ آپ کے گھروالوں میں سے چند افراد جو سفر کی استطاعت رکھتے ہوں، وہ چلے جائیں اور نکاح کی مجلس میں شرکت کرلیں، گھر کے تمام افراد کا جانا ضروری نہیں ہے۔ اور لڑکی کا مجلس نکاح میں حاضر ہونا بھی ضروری نہیں ہے، لڑکی اپنے نکاح کا کسی کو وکیل بناکر مجلس نکاح میں بھیج دے۔ اسی طرح لڑکے والوں کا ندوہ میں نکاح پڑھوانے پر اصرار غیرضروری ہے، دونوں گھرانوں کے معزز افراد کو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ کسی کو زحمت نہ ہو۔
حدثنا شعبة، عن عبد الله بن أبي السفر، وإسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه»." (صحیح البخاري، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، ج: 1، صفحہ: 11، رقم الحدیث: دار طوق النجاة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3351/46-9215
الجواببسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (۲-۱) عاقلہ بالغہ لڑکی کا لڑکے کو وکیل بنانا درست ہے اور پھرلڑکے کا لڑکی کی طرف سے وکیل بن کر دوگواہوں کی موجودگی میں اس کو اپنے نکاح میں قبول کرنے سے نکاح منعقد ہوگیا۔ لہذا اس نکاح کے بعد ان کا آپس میں ملنا درست اور صحیح ہوا۔ البتہ لڑکی کا والدین کی اجازت کے بغیر نکا ح کرناشرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ۔ (۳) چونکہ مذکورہ نکاح درست تھا اس لئے اس کی دی ہوئی تمام طلاقیں بھی واقع ہوں گی۔
كما للوكيل) الذي وكلته أن يزوجها على نفسه فإن له (ذلك) فيكون أصيلًا من جانب وكيلًا من آخر." (رد المحتار3/ 98ط:سعيد)
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (بدائع الصنائع، 2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3284/46-9014
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The right to initiate divorce (Talaq) is exclusively granted to the husband in Islamic law. For Khula to be considered valid, the husband's consent is also essential. A divorce or annulment granted solely by a civil court does not dissolve the marriage under Shariah. Consequently, if a woman obtains Khula from a civil court without her husband's consent, it is not recognized as valid in Islamic law, and any subsequent marriage based on such a decree would be considered unlawful.
However, if a woman files her case with an Islamic arbitration council (Darul Qaza), certain circumstances allow a Muslim Qadi (Islamic judge) to dissolve the marriage without the husband's consent. For example, if the husband neglects his marital obligations and refuses to issue a divorce, the Qadi, under specific conditions, can annul the marriage on behalf of the husband. Following such an annulment, the woman is required to observe a waiting period (Iddah) of three menstrual cycles. Once the Iddah is completed, she is free to marry another man of her choice.
"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد." (المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)
"و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول." (بدائع، 3 / 145، فصل في حکم الخلع، ط: سعید)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 3280/46-8097
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ روپئے کی قیمت گھٹنے بڑھنے والی چیز نہیں ہے، جس طرح کہ سونے چاندی ودیگر سامانوں کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ اس لئے مہر میں جو اکیاون روپئے نکاح کے وقت طے ہوئے تھے وہی اکیاون روپئےاب بھی واجب ہوں گے بشرطیکہ ساٹھ سال قبل اقل مہر دس درہم کی مقدار اکیاون روپئے ہو یا اس سے کم ہو۔ ان الدیون تقضی بامثالھا (رد المحتار 3/605)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3280/46-8097
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ روپئے کی قیمت گھٹنے بڑھنے والی چیز نہیں ہے، جس طرح کہ سونے چاندی ودیگر سامانوں کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ اس لئے مہر میں جو اکیاون روپئے نکاح کے وقت طے ہوئے تھے وہی اکیاون روپئےاب بھی واجب ہوں گے بشرطیکہ ساٹھ سال قبل اقل مہر دس درہم کی مقدار اکیاون روپئے ہو یا اس سے کم ہو۔ ان الدیون تقضی بامثالھا (رد المحتار 3/605)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3259/46-8056
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نکاح و طلاق کے باب میں مذاق بھی حقیقت کا حکم رکھتاہے، لہذا مذاق میں بھی اگر نکاح ہوگا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہوگیا اور اس سلسلہ میں گواہوں کا ایجاب و قبول سن لینا کافی ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3075/46-4926
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ مردوعورت کا ایک ہی مجلس میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرنا نکاح کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے۔ نکاح میں خطبہ ہونا ضروری نہیں ہے البتہ مسنون ہے ۔ صورت مسئولہ میں جب نکاح عورت کے پاس پڑھایاجائے گا تو صرف عورت کی طرف سے ایجاب بغیر قبول کے ہوگا، اور جب لڑکے کا نکاح ہوگا تو وہ بھی قبول بغیر ایجاب کے ہوگا، تو ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول کی شرط نہیں پائی گئی، اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ ہاں اگر لڑکی کسی کو اپنا وکیل بنادے اور وہ لڑکے کی موجودگی میں یہ کہے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح تم سے کردیا اور لڑکا قبول کرلے تو اب نکاح درست ہوجائے گا۔ کیونکہ وکیل کی طرف سے ایجاب اور لڑکے کی طرف سے قبول دونوں چیزیں ایک ہی مجلس میں پائی گئیں۔
ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)
ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3055/46-4883
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دارالعلوم اور دارالعلوم وقف دونوں کے فتاوی میں کوئی تعارض نہیں ہے، دارالعلوم کے جس فتوی کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں حکم قضاء مذکورہے، جبکہ دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں جو حکم بیان کیاگیا ہے وہ دیانتا ہے، چنانچہ مذکورہ فتوی میں بھی یہ عبارت مذکور ہے، اما بینہ وبین اللہ تعالی ان کان کاذبا فیما امر لم تثبت الحرمۃ (ردالمحتار) دارالافتاء سے عموما دیانت پر ہی فتوی دیاجاتاہے، اگرچہ بعض حضرات طلاق جیسے مسائل میں قضاء پر بھی فتوی دیتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3046/46-4861
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا شرط ہے اور ویڈیو کال میں لڑکا اپنی جگہ اور لڑکی اپنی جگہ بیٹھ کر ایجاب و قبول کرتے ہیں جس میں ایک مجلس نہیں پائی جاتی ہے ، اس لئے شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے یہ نکاح درست نہیں ہوتاہے۔ البتہ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک فون پر کسی شخص کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔
ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)
ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند