Frequently Asked Questions
نکاح و شادی
Ref. No. 3259/46-8056
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔نکاح و طلاق کے باب میں مذاق بھی حقیقت کا حکم رکھتاہے، لہذا مذاق میں بھی اگر نکاح ہوگا تو نکاح منعقد ہوجائے گا، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہوگیا اور اس سلسلہ میں گواہوں کا ایجاب و قبول سن لینا کافی ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3075/46-4926
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ مردوعورت کا ایک ہی مجلس میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرنا نکاح کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے۔ نکاح میں خطبہ ہونا ضروری نہیں ہے البتہ مسنون ہے ۔ صورت مسئولہ میں جب نکاح عورت کے پاس پڑھایاجائے گا تو صرف عورت کی طرف سے ایجاب بغیر قبول کے ہوگا، اور جب لڑکے کا نکاح ہوگا تو وہ بھی قبول بغیر ایجاب کے ہوگا، تو ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول کی شرط نہیں پائی گئی، اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ ہاں اگر لڑکی کسی کو اپنا وکیل بنادے اور وہ لڑکے کی موجودگی میں یہ کہے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح تم سے کردیا اور لڑکا قبول کرلے تو اب نکاح درست ہوجائے گا۔ کیونکہ وکیل کی طرف سے ایجاب اور لڑکے کی طرف سے قبول دونوں چیزیں ایک ہی مجلس میں پائی گئیں۔
ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)
ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3055/46-4883
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دارالعلوم اور دارالعلوم وقف دونوں کے فتاوی میں کوئی تعارض نہیں ہے، دارالعلوم کے جس فتوی کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں حکم قضاء مذکورہے، جبکہ دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں جو حکم بیان کیاگیا ہے وہ دیانتا ہے، چنانچہ مذکورہ فتوی میں بھی یہ عبارت مذکور ہے، اما بینہ وبین اللہ تعالی ان کان کاذبا فیما امر لم تثبت الحرمۃ (ردالمحتار) دارالافتاء سے عموما دیانت پر ہی فتوی دیاجاتاہے، اگرچہ بعض حضرات طلاق جیسے مسائل میں قضاء پر بھی فتوی دیتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3046/46-4861
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا شرط ہے اور ویڈیو کال میں لڑکا اپنی جگہ اور لڑکی اپنی جگہ بیٹھ کر ایجاب و قبول کرتے ہیں جس میں ایک مجلس نہیں پائی جاتی ہے ، اس لئے شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے یہ نکاح درست نہیں ہوتاہے۔ البتہ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک فون پر کسی شخص کو اپنا وکیل بنادے جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔
ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)
ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3015/46-4812
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب بچے بالغ ہوجائیں اور بیوی کا خرچہ اٹھانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان کی جلد ازجلد شادی کردینا چاہیے، جو لوگ اپنی اولاد کی شادی میں بلاعذرتاخیر کریں تو گناہ میں مبتلاہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا جیساکہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ جو بچے اپنی شادی کے لئے والدین سے کہہ رہے ہیں اور پھر بھی والدین توجہ نہیں دیتے تو ایسی بچے بچیاں اپنی مرضی سے مناسب رشتہ دیکھ کر خود نکاح کرسکتے ہیں، تاہم بہتر ہے کہ والدین کو پہلے مطلع کردیں کہ اگر آپ نے ایک دو ماہ میں شادی نہیں کی تو ہم خود اپنا رشتہ کرلیں گے ، شاید اس طرح کہنے سے وہ تیار ہوجائیں ، ورنہ آپ اپنا نکاح خود کرسکتے ہیں اگر بیوی کا مہر اور خرچ دینے کی استطاعت ہے۔ جب والدین خود حکم شرعی کی خلاف ورزی کررہے ہوں تو اولاداس سلسلہ میں نافرمان شمار نہیں ہوگی۔ اس سلسلہ میں خاندان کے دیگر بزرگوں کے ذریعہ بھی والدین پر دباؤ بنایاجاسکتاہے۔
"و عن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه و أدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ و لم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»." (مشكاة المصابيح (2/ 939)"و عن عمر بن الخطاب و أنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً و لم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان." (مشكاة المصابيح (2/ 939) "(و يكون واجبًا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية، و هذا إن ملك المهر و النفقة و إلا فلا إثم بتركه بدائع ... و يندب إعلانه و تقديم خطبة و كونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد و شهود عدول و الاستدانة له." (کتاب النکاح ،ج:3، ص:8، ط:دارالفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3012/46-4800
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے یقینی طور پر حرارت کے احساس کے ساتھ شہوت کاپایا جانا ضروری ہے، شبہہ اور جھوٹے اقرارسے حرمت مصاہرت کا تحقق نہیں ہوگا، لہذا اگر شہوت پیدا نہیں ہوئی تھی یقینی طور پر تو ایسی صورت میں حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور خالہ کی لڑکی سے رشتہ جائز ہوگا۔ سوال میں اگر آپ غلط بیانی کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے سخت مواخذہ کا اندیشہ ہے، اس لئے صحیح صورت حال سامنے رکھ کر ہی عملی اقدام کریں۔
قوله: بحائل لا يمنع الحرارة) أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، وكذا لو جامعها بخرقة على ذكره، فما في الذخيرة من أن الإمام ظهير الدين أنه يفتى بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس، وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت رقيقة تصل الحرارة معها بحر.(قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ"(شامی، كتاب النكاح، فصل في المحرمات (3/ 33)، ط. سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند