نکاح و شادی

Ref. No. 3075/46-4926

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  خیال رہے کہ  مردوعورت کا ایک ہی مجلس میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول کرنا نکاح کے درست ہونے کے لیے ضروری ہے۔ نکاح میں خطبہ ہونا ضروری نہیں ہے البتہ مسنون ہے ۔ صورت مسئولہ میں  جب نکاح عورت کے پاس پڑھایاجائے گا تو صرف عورت کی طرف سے ایجاب بغیر قبول کے  ہوگا، اور جب لڑکے کا نکاح ہوگا تو وہ بھی  قبول بغیر ایجاب کے ہوگا،   تو ایک ہی مجلس میں ایجاب و قبول کی شرط نہیں پائی گئی، اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوگا۔ ہاں اگر لڑکی کسی کو اپنا وکیل بنادے اور وہ لڑکے کی موجودگی میں یہ کہے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح تم سے کردیا اور لڑکا قبول کرلے تو اب نکاح درست ہوجائے گا۔ کیونکہ وکیل کی طرف سے ایجاب اور لڑکے کی طرف سے قبول دونوں چیزیں ایک ہی  مجلس میں پائی گئیں۔  

ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)

ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نکاح و شادی

Ref.  No.  3055/46-4883

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔دارالعلوم اور دارالعلوم وقف دونوں کے فتاوی میں کوئی تعارض نہیں ہے، دارالعلوم کے جس فتوی کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس میں حکم قضاء مذکورہے، جبکہ دارالعلوم وقف دیوبند کے فتوی میں جو حکم بیان کیاگیا ہے وہ دیانتا ہے، چنانچہ مذکورہ فتوی میں بھی یہ عبارت مذکور ہے، اما بینہ وبین اللہ تعالی ان کان کاذبا فیما امر لم تثبت الحرمۃ (ردالمحتار) دارالافتاء سے عموما دیانت پر ہی فتوی دیاجاتاہے، اگرچہ بعض حضرات طلاق جیسے مسائل میں قضاء پر بھی فتوی دیتے ہیں۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref.  No.  3046/46-4861

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نکاح کے درست ہونے کے لیے ایجاب وقبول  کا ایک ہی مجلس میں ہونا شرط ہے اور ویڈیو کال میں لڑکا اپنی جگہ اور لڑکی اپنی جگہ بیٹھ کر ایجاب و قبول کرتے ہیں جس میں ایک مجلس نہیں پائی جاتی ہے ، اس لئے شرط کے مفقود ہونے کی وجہ سے یہ نکاح درست نہیں ہوتاہے۔ البتہ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ لڑکا یا لڑکی میں سے کوئی ایک فون پر  کسی شخص کو اپنا وکیل بنادے  جو دوسرے فریق کے پاس موجود ہو اور وہ وکیل شرعی گواہوں (یعنی دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں فریقِ اول (غائب) کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کرلے تو اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہونے کی وجہ سے یہ نکاح صحیح ہوجائے گا۔

ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لا ينعقد، وكذا إذا كان أحدهما غائباً لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانةً وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين وهذا قول أبي حنيفة ومحمد -رحمهما الله تعالى - ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب؛ جاز لاتحاد المجلس من حيث المعنى". (الفتاوى الهندية (1/ 269)

ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلا يخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده، والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3015/46-4812

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب بچے بالغ ہوجائیں اور بیوی کا خرچہ اٹھانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان کی جلد ازجلد شادی کردینا چاہیے، جو لوگ اپنی اولاد کی شادی میں بلاعذرتاخیر کریں  تو گناہ میں مبتلاہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا جیساکہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ جو بچے اپنی شادی کے لئے والدین سے کہہ رہے ہیں اور پھر بھی والدین توجہ نہیں دیتے تو ایسی بچے بچیاں اپنی مرضی سے مناسب رشتہ دیکھ کر خود نکاح کرسکتے ہیں،  تاہم بہتر ہے کہ والدین کو پہلے مطلع کردیں کہ اگر آپ نے ایک دو ماہ میں شادی نہیں کی تو ہم خود اپنا رشتہ کرلیں گے ، شاید اس طرح کہنے سے وہ تیار ہوجائیں ، ورنہ آپ اپنا نکاح  خود کرسکتے ہیں اگر بیوی کا مہر اور خرچ دینے کی استطاعت ہے۔  جب والدین خود حکم شرعی کی خلاف ورزی کررہے ہوں تو اولاداس سلسلہ میں نافرمان  شمار نہیں ہوگی۔   اس سلسلہ میں خاندان کے دیگر بزرگوں کے ذریعہ بھی والدین پر دباؤ بنایاجاسکتاہے۔

"و عن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ولد له ولد فليحسن اسمه و أدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ و لم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه»." (مشكاة المصابيح (2/ 939)"و عن عمر بن الخطاب و أنس بن مالك رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " في التوراة مكتوب: من بلغت ابنته اثنتي عشرة سنةً و لم يزوّجها فأصابت إثماً فإثم ذلك عليه. رواهما البيهقي في شعب الإيمان." (مشكاة المصابيح (2/ 939) "(و يكون واجبًا عند التوقان) فإن تيقن الزنا إلا به فرض نهاية، و هذا إن ملك المهر و النفقة و إلا فلا إثم بتركه بدائع ... و يندب إعلانه و تقديم خطبة و كونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد و شهود عدول و الاستدانة له." (کتاب النکاح ،ج:3، ص:8، ط:دارالفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref.  No.  3012/46-4800

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حرمت مصاہرت کے ثبوت کے لئے یقینی طور پر حرارت کے احساس کے ساتھ  شہوت کاپایا جانا ضروری ہے، شبہہ اور جھوٹے اقرارسے حرمت مصاہرت کا تحقق نہیں ہوگا، لہذا اگر شہوت پیدا نہیں ہوئی تھی   یقینی طور پر تو ایسی صورت میں حرمت ثابت نہیں ہوگی، اور خالہ کی لڑکی سے رشتہ جائز ہوگا۔ سوال میں اگر آپ غلط بیانی کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے سخت مواخذہ کا اندیشہ ہے، اس لئے صحیح صورت  حال سامنے رکھ کر ہی عملی اقدام کریں۔

قوله: بحائل لا يمنع الحرارة) أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، وكذا لو جامعها بخرقة على ذكره، فما في الذخيرة من أن الإمام ظهير الدين أنه يفتى بالحرمة في القبلة على الفم والذقن والخد والرأس، وإن كان على المقنعة محمول على ما إذا كانت رقيقة تصل الحرارة معها بحر.(قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ"(شامی، كتاب النكاح،  فصل في المحرمات (3/ 33)، ط. سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2932/45-4523 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر لڑکا لڑکی بالغ ہوں اور دونوں مسلمان گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کریں اور دونوں گواہ یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ دونوں نکاح کر رہے ہیں، اور دونوں گواہوں نے دونوں کے ایجاب وقبول کو سنا ہوتو نکاح درست ہوگیا، نکاح کے وقت والدین یا رشتہ دار اور قاضی کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم والدین کی مرضی کے خلاف شادی کا فیصلہ والدین کے لئے تکلیف کا باعث ہے، اولاد کو ان کی رضا مندی کا خیال رکھنا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2872/45-4585 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔مہر کی تعیین کے وقت اگر چاندی کی مقدار متعین کی گئی تھی تو اسی مقدار میں چاندی یا آج کے وقت میں اس مقدار چاندی کی جو قیمت ہو اس کو ادا کرنا ضروری ہوگا۔ اور اگر رقم متعین تھی تومتعینہ رقم یا اس رقم میں جو چاندی آج بازار میں ملے اس کا اعتبار ہوگا۔ مہر فاطمی کی مقدار ڈیڑھ کلو 31 گرام چاندی ہے، بوقت ادا ئےمہر اتنی مقدار چاندی کی جو قیمت بنتی ہو اسے دیدیا جائے۔ آج 9 مارچ 2024 کو مہر فاطمی کی قیمت تقریبا ایک لاکھ پندرہ ہزار نو سو روپئے (115900) ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2874/45-4560 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ دونوں کا اس طرح خفیہ ملاقات کرنا اور پھر کورٹ میرج کرلینا بڑی نادانی اور شرعی طور پر ناجائز عمل تھا۔کورٹ میریج کرتے وقت جب ایجاب و قبول ہوا تو نکاح منعقد ہوگیا، اور اگر مسلمان گواہ موجود نہیں تھے تو نکاح ہی منعقد نہیں ہوا اور دونوں اگر ساتھ رہے تو گناہ گار ہوئے ، دونوں پرتوبہ واستغفار لازم ہے، اور اگر نکاح صحیح ہوگیا تھا تو اب لڑکی والوں کو زبردستی نہیں کرنی چاہئے، تاہم اگر لڑکی طلاق کا مطالبہ کررہی ہے اور آپ طلاق دیدیں تو گنہگار نہیں ہوں گے۔ ابھی تھوڑا انتظار کرلیں ہوسکتاہے کچھ وقت گزرنے پر لڑکی اور اس کے والدین راضی ہوجائیں۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2913/45-4531 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب عورت نے اس نکاح کو قبول کرلیا تھا تو نکاح مذکورصحیح ہوگیا تھا، دباؤ میں ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس لئے عورت کا اس طرح اپنے میکہ میں جاکر بیٹھ جانا انتہائی بے حیائی کی بات ہے، یہ عورت کی نافرمانی شمار ہوگی جس پر اللہ کی لعنت آئی ہے۔ اور عورت کی اس طرح کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، نکاح اب بھی باقی ہے۔ اس کے گھروالوں کو چاہئے کہ لڑکی کو سمجھاکر اس کے شوہرکے پاس بھیج دیں، تاکہ یہ ازدواجی زندگی عام معمول کے مطابق آگے بڑھ سکے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی
Ref. No. 2898/45-4539 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نکاح میں مہر کی جو رقم طے ہوئی ہے وہ عورت کا حق واجب ہے اس کو جلد از جلد بیوی کے سپرد کردینا چاہئے۔ اور اس سلسلہ میں بیوی کو بھی حق ہے کہ مہر وصول ہونے سے پہلے شوہر کو اپنے پاس آنے سے منع کرسکتی ہے۔ "و كذا لها أن تحبس نفسها حتى يفرض لها المهر و يسلّم إليها بعد الفرض، و ذلك كله دليل الوجوب بنفس العقد". (بدائع الصنائع 5/468) "قال رحمه الله: (ولها منعه من الوطء والإخراج للمهر ، وإن وطئها ) أي لها أن تمنع نفسها إذا أراد الزوج أن يسافر بها أو يطأها حتى تأخذ مهرها منه، ولو سلمت نفسها ووطئها برضاها لتعين حقها في البدل، كما تعين حق الزوج في المبدل وصار كالبيع". "وأما إذا ، نصا على تعجيل جميع المهر أو تأجيله فهو على ما شرطا حتى كان لها أن تحبس نفسها إلى أن تستوفي كله فيما إذا شرط تعجيل كله ، وليس لها أن تحبس نفسها فيما إذا كان كله مؤجلاً؛ لأن التصريح أقوى من الدلالة فكان أولى (تبیین الحقائق (5/490) "قال: (وللمرأة أن تمنع نفسها وأن يسافر بها حتى يعطيها مهرها )؛ لأن حقه قد تعين في المبدل فوجب أن يتعين حقها في البدل تسويةً بينهما، وإن كان المهر كله مؤجلاً ليس لهاذلك؛ لأنها رضيت بتأخير حقها". (الاختیار لتعلیل المختار 3/122) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند