نکاح و شادی

Ref. No. 3451/47-9371

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      شریعت میں بالغہ لڑکی کے خود نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتاہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکی اپنے والدین اور گھروالوں سے الگ ہوکر اپنا نکاح کرے، ایسا نکاح شرعا پسندیدہ نہیں۔  ۱۴ سال کی عمر بہت چھوٹی عمر ہے، ابھی کسی چیز کا تجربہ نہیں ہے، دنیا کے احوال سے کوئی واقفیت نہیں ہے، لڑکے کے انتخاب میں غلطی کا بہت زیادہ امکان ہے، ظاہر ہے کہ شادی صرف وقتی طور پر اپنی خواہش پوری کرنے کا نام نہیں ہے، یہ ایک  طویل مدتی سفر ہے، اور زندگی بھر کے لئے ایک فیصلہ کن مرحلہ ہے۔ اگر ایسے میں کوئی غلط قدم اٹھالیا تو زندگی بھر کی جو اذیت ہے وہ بہت  دشوار کن ہے۔ ابھی اپنے جذبات پر کنٹرول رکھنے  کے لئے   خود کو پڑھائی لکھائی، کڑھائی، بُنائی سلائی وغیر امور میں مصروف رکھنا بہتر ہوگا تاکہ جلد بازی میں  کوئی فیصلہ غلط نہ ہوجائے۔ آپ اپنی والدہ سے بات کریں، دیگر رشتہ دار خواتین کو بھی شامل کریں تاکہ وہ والدین کو آمادہ کرسکیں۔ والدین اگر تیار ہوں تبھی آپ نکاح کے لئے راضی ہوں ، والدین کے خلاف جاکر کود سے نکاح کرنا آپ کے لئے بالکل  مناسب نہیں ہے۔ آپ ایک اچھی اور دیندار لڑکی ہیں ، آپ نے شرعی رہنمائی کے لئے دارالافتا سے رابطہ کیا۔ اللہ آپ کے لئے آسانیاں پیداکرے، آپ کی عصمت عفت کی حفاظت فرمائے، والدین کے زیرسایہ رہ کر  اپنے مستقبل کو طے کرنے کی توفیق بخشے۔ اگر شہوت کا غلبہ ہو تو نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3449/47-9367

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  ۔    رضاعت یعنی کسی عورت کا دودھ پینے سے حرمت چابت ہوجاتی ہے۔ اس لئے جب آپ نے خالہ کا دودھ پیا ہے تو خالہ کی بیٹی آپ کی رضاعی بہن ہوگئی، اس سے نکاح حرام ہے۔ وہ آپ کی حقیقی بہن کی مانند ہے۔ ایک مرتبہ دودھ پینے سے یا چند قطرے دودھ پینے سے  بھی رضاعت ثابت ہوجاتی ہے، متعدد مرتبہ پینا یا پیٹ بھرکر پینا ضروری نہیں ہے۔ عام حالات میں  تو اس رضاعی بہن سے پردہ بھی نہیں ہے، تاہم اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو پردہ کرنا لازم ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3434/47-9345

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔            عائشہ کی بیٹی مریم کا نکاح عامر سے کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے درمیان آپس میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ عامر مریم کا سوتیلا ماموں ہے حقیقی ماموں نہیں ہے؛ اس لیے اگر حرمت کی کوئی دوسری وجہ رضاعت وغیرہ  نہ ہو تو یہ  نکاح جائز ہے۔

" أن الرجل كما يحرم عليه تزوج أصله أو فرعه كذلك يحرم على المرأة تزوج أصلها أو فرعها، وكما يحرم عليه تزوج بنت أخيه يحرم عليها تزوج ابن أخيها وهكذا، فيؤخذ في جانب المرأة نظير ما يؤخذ في جانب الرجل لا عينه وهذا معنى، قوله في المنح: كما يحرم على الرجل أن يتزوج بمن ذكر يحرم على المرأة أن تتزوج بنظير من ذكر ."(شامی، کتاب النکاح ،فصل فی المحرمات ،3/ 29،ط:سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3396/46-9295

In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

The answer to your question is as follows:

Engaging in sexual relations with one’s wife during her menstrual period is considered a major sin (kabīrah) in Islam. The narration referenced highlights the gravity of this transgression. Therefore, it is incumbent upon the individual to immediately turn to Allah in sincere repentance (tawbah) and seek His forgiveness (istighfār). Additionally, it is recommended that he give an appropriate amount in charity (sadaqah), according to his financial capacity.

If he repents sincerely and firmly resolves never to return to this sin, it is hoped that he will be spared from divine punishment. Since the act was committed out of ignorance, there is greater hope that Allah, the Most Merciful, will accept his repentance.

However, it must be clearly understood that if she gets pregnant, it will not be not permissible to terminate the pregnancy unless there exists a valid reason.

And Allah knows best.

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf, Deoband

نکاح و شادی

Ref. No. 3375/46-9262

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  شرعی طور پر دونوں بیویوں کو برابر حقوق دینا شوہر پر لازم ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے طلاق لے کر دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضا سے رجوع کریں؛ دارالقضا میں اختلافی مسائل کو اچھی طرح حل کیاجاتاہے اور دونوں  فریق کی بات سن کر فیصلہ کیاجاتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3367/46-9235

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: دونوں طرف کے افراد اپنے موقف پر سخت رہیں گے تو بات نہیں بنے گی۔ آپ نے مشورہ طلب کیا ہے تو آپ کو ہی ہم مشورہ میں کچھ کہہ سکتے ہیں، اس لئے مشورہ یہ ہے کہ آپ کے گھروالوں میں سے  چند افراد جو سفر کی استطاعت رکھتے ہوں، وہ چلے جائیں اور نکاح کی مجلس میں شرکت کرلیں، گھر کے تمام افراد کا جانا ضروری نہیں ہے۔ اور لڑکی کا مجلس نکاح میں حاضر ہونا بھی ضروری نہیں ہے، لڑکی اپنے نکاح کا کسی کو وکیل بناکر مجلس نکاح میں بھیج دے۔  اسی طرح لڑکے والوں کا ندوہ میں نکاح پڑھوانے پر اصرار غیرضروری ہے، دونوں گھرانوں کے معزز افراد کو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے کہ کسی کو زحمت نہ ہو۔

حدثنا شعبة، عن عبد الله بن أبي السفر، وإسماعيل بن أبي خالد، عن الشعبي، عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، والمهاجر من هجر ما نهى الله عنه»." (صحیح البخاري، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، ج: 1، صفحہ: 11، رقم الحدیث: دار طوق النجاة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref.  No.  3351/46-9215

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (۲-۱) عاقلہ بالغہ لڑکی کا لڑکے کو وکیل بنانا درست ہے اور پھرلڑکے کا لڑکی کی طرف سے وکیل بن کر دوگواہوں کی موجودگی میں اس کو اپنے نکاح میں  قبول کرنے سے نکاح  منعقد ہوگیا۔ لہذا  اس نکاح کے بعد ان کا آپس میں ملنا درست اور صحیح  ہوا۔ البتہ لڑکی کا  والدین کی اجازت کے بغیر نکا ح کرناشرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ۔ (۳) چونکہ مذکورہ نکاح درست تھا اس لئے اس کی دی ہوئی تمام طلاقیں بھی واقع ہوں گی۔

كما للوكيل) الذي وكلته أن يزوجها على نفسه فإن له (ذلك) فيكون أصيلًا من جانب وكيلًا من آخر." (رد المحتار3/ 98ط:سعيد)

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (بدائع الصنائع، 2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3284/46-9014

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The right to initiate divorce (Talaq) is exclusively granted to the husband in Islamic law. For Khula to be considered valid, the husband's consent is also essential. A divorce or annulment granted solely by a civil court does not dissolve the marriage under Shariah. Consequently, if a woman obtains Khula from a civil court without her husband's consent, it is not recognized as valid in Islamic law, and any subsequent marriage based on such a decree would be considered unlawful.

However, if a woman files her case with an Islamic arbitration council (Darul Qaza), certain circumstances allow a Muslim Qadi (Islamic judge) to dissolve the marriage without the husband's consent. For example, if the husband neglects his marital obligations and refuses to issue a divorce, the Qadi, under specific conditions, can annul the marriage on behalf of the husband. Following such an annulment, the woman is required to observe a waiting period (Iddah) of three menstrual cycles. Once the Iddah is completed, she is free to marry another man of her choice.

"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد." (المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)

"و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع  الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول." (بدائع، 3 / 145، فصل في حکم الخلع، ط: سعید)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband 

نکاح و شادی

Ref. No. 3280/46-8097

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ روپئے کی قیمت گھٹنے بڑھنے والی چیز نہیں ہے، جس طرح کہ سونے چاندی ودیگر سامانوں کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ اس لئے مہر میں جو اکیاون روپئے  نکاح کے وقت طے ہوئے تھے وہی  اکیاون روپئےاب بھی واجب ہوں گے بشرطیکہ ساٹھ سال قبل اقل مہر دس درہم کی مقدار اکیاون روپئے ہو یا اس سے کم ہو۔ ان الدیون تقضی بامثالھا (رد المحتار 3/605)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3280/46-8097

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ روپئے کی قیمت گھٹنے بڑھنے والی چیز نہیں ہے، جس طرح کہ سونے چاندی ودیگر سامانوں کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ اس لئے مہر میں جو اکیاون روپئے  نکاح کے وقت طے ہوئے تھے وہی  اکیاون روپئےاب بھی واجب ہوں گے بشرطیکہ ساٹھ سال قبل اقل مہر دس درہم کی مقدار اکیاون روپئے ہو یا اس سے کم ہو۔ ان الدیون تقضی بامثالھا (رد المحتار 3/605)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند