حدیث و سنت

Ref. No. 2986/46-4762

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ کاحاصل یہ ہے کہ جن نمازوں کے بعد سنن مؤکدہ نہیں ہیں ان کے بعد اذکارواورادووظائف پڑھنا مطلقا جائز بلکہ مستحب ہے۔اور  بلندآواز سے پڑھنا اور مقتدیوں کا اس میں شامل ہونا جائز ہے۔

شامی میں ہے: وفی حاشیۃ الحموی عن الامام الشعرابی اجمع العلماء سلفا وخلفا علی استحباب ذکر الجماعۃ  فی المساجد وغیرھا الا ان یشوش جھرھم علی نائم او مصل او قارئ الخ (شامی، 1ص449)

لیکن کسی خاص دعا یا درود کا اہتمام کرنا اور دوسروں کو اس کا پابند کرنا درست نہیں ہے، جہاں تک مذکورہ  درود کا تعلق ہے، اس میں نبی پاک ﷺ سے رحم کی دعا  درخواست ہے جو جائز نہیں ہے، مذکورہ درود پڑھنا اور تلقین کرنا بدعت ہے کیونکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں  ملتا ہے۔ (روح المعانی ج 6ص128)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں ہی تمام قسم کے خیر انجام پاتے تھے، بہت سے وہ کام جو آج مسجد میں نہیں ہوتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں انجام دئے جاتے تھے۔ تعلیم وتزکیہ کی مجلس مسجد میںہی ہوتی تھیں، وعظ ونصیحت مسجد میں ہوتے تھے، صحابہ قرآن کی تلاوت مسجد میں کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگی امور کے مشورہ مسجد میں ہی کیا کرتے تھے، دو لوگوں کے درمیان اگر نزاع ہوجائے، تو اس کا تصفیہ مسجد میں ہوتا تھا، ابتداء میں بہت سے صحابہ کے پاس رہنے کے لیے گھر نہیں تھا، تو صحابہ مسجد میں ہی سوتے تھے، غرض کہ آپ کے زمانہ میں ہر امور خیر کو مسجد میں ہی انجام دیا جاتا تھا، رات میں بھی صحابہ سے مسجد میں قرآن پڑھنا اور نفل پڑھنا ثابت ہے؛ اس لیے اگریہ کام تبلیغی حضرات مسجد میں اس طرح انجام دیں کہ کسی دوسرے کو اپنی عبادت میں کوئی خلل نہ ہو، تو یہ درست اور عہد صحابہ کے معمول سے ثابت ہے۔(۱)

(۱) {فِيْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ أَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗلا یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْأٰصَالِہلا ۳۶} (سورۃ النور: ۳۶)
عن أبي ہریرۃ: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: الملائکۃ تصلي علی أحدکم مادام في مصلاہ، ما لم یحدث: اللہم اغفرلہ، اللہم أرحمہ، لا یزال أحدکم في صلاۃٍ مادامت الصلاۃ تحبسہ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب من جلس في المسجد ینتظر الصلوٰۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۲، رقم: ۶۵۹)
وقد کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا سلم من صلاتہ قال بصوتہ إلا علی لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ وتقدم وقد کان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمر من یقرأ القرآن في المسجد أن یسمع قراء تہ وکان ابن عمر یأمر من یقرأ علیہ وعلی أصحابہ وہم یستمعون ولأنہ أکثر عملاً وأبلغ في التدبر ونفعہ متعد لإیقاظ قلوب الغافلین وجمع بین الأحادیث الواردۃ بأن ذلک یختلف بحسب الأشخاص والأحوال فمتی خاف الریاء أو تأذی بہ أحد کان الإسرار أفضل ومتی فقد ما ذکر کان الجہر أفضل قال في الفتاوی لا یمنع من الجہز بالذکر في المساجد۔ (أحمد بن محمد، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صفۃ الأذکار‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۸)
عبد اللّٰہ بن عمر، (أنہ کان ینام وہو شاب أعذب لا أہل لہ في مسجد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم) (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب لزم الرجال فی المسجد‘‘: ج ۱، ص: ۸۰، رقم: ۴۴۰)
ولا بأس للغریب ولصاحب الدار أن ینام في المسجد في الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد والقبلۃ‘‘ : ج ۵، ص: ۳۲۱)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص87

حدیث و سنت

Ref. No. 1964/44-1885

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  مذکور مولوی صاحب کا یہ کہنا کہ حضرت معاویہ کی فضیلت سے تعلق رکھنے والی تمام احادیث غلط ہیں درست نہیں ہے۔ حضرت معاویہ ایک جلیل القدر صحابی ء رسول  ﷺ ہیں، جن کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہوئی ہیں، جن میں صحیح سند کے ساتھ حضرت امام احمد بن حنبل کے واسطہ سے یہ حدیث بھی ہے۔

حدثنا علي بن بحر، حدثنا الولید بن مسلم، حدثنا سعید بن عبد العزیز عن ربیعۃ بن یزید عن عبد الرحمن بن أبي عمیرۃ الأزدي عن النبي ﷺأنہ ذکر معاویۃ وقال: اللھم اجعلہ ھادیاً مھدیاً وأھد بہ ‘‘ (مسند احمد: الرقم 17895) مشکوۃ المصابیح 2/579 جامع المناقب)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند 

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حدیث سوال میں مذکورہ ہے، وہ بعض کے نزدیک متکلم فیہ ہے؛ تا ہم مذکورہ صورت میں حدیث شریف سے مؤمن کا جھوٹا پینے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا؛ بلکہ اباحت واستحباب کا ثبوت ہے۔ اور وہ بھی کمالِ ایمان کے ساتھ؛ اس لئے کہ ’’المؤمن‘‘ پر ’’الف، لام‘‘ سے کمالِ ایمان پر دلالت ہے، اور اس صورت میں واضح ہے کہ اگر دیگر عوارض بیڑی، سگریٹ یا کسی اور مرض وغیرہ کی وجہ سے کراہت ہو، تو اس کے جھوٹے سے احتراز میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر کوئی صاحبِ ایمان ایسا ہے کہ اس میں کراہت کی کوئی وجہ نہ ہو، تو خوامخواہ اس کے جھوٹے سے کراہت بھی درست نہیں؛ بلکہ کسی صاحب نسبت کا جھوٹا ہو، تومستحسن ہے۔(۱)

(۱) وأما حدیث (سؤر المؤمن شفاء) فغیر معروف۔ (ملا علي قاري،  مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الحج: باب خطبۃ یوم النحر ورمي أیام التشریق‘‘: ج ۵، ص: ۱۸۳۹، رقم: ۲۶۶۶)
حدیث ریق المؤمن شفاء کذا سؤر المؤمن شفاء لیس لہ اصل مرفوع۔ (ملا علي القاري، المصنوع، في معرفۃ الحدیث الموضوع: ج ۱، ص: ۱۰۶، رقم: ۱۴۴)
عبد اللّٰہ بن عمر رضي اللّٰہ عنہما، قال: سمعت أبي یقول: سمعت عمر بن الخطاب یقول: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: (کلوا جمیعاً، ولا تفرقوا، فإن البرکۃ مع الجماعۃ)۔ (أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الأطعمۃ: باب الاجتماع علی الطعام‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۳۲۸۷)
عن ابن عباس رفعہ من التواضع أن یشرب الرجل مع سؤر أخیہ۔ (شمس الدین ابن محمد، المقاصد الحسنۃ: ج ۱، ص: ۲۷۳)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص88

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:حیاء کہتے ہیں وقار سنجیدگی اور متانت کو اصطلاح میں: ’’ہو صفۃ وخلق یکون في النفس فیبعث علی اجتناب القبیح ویمنع من التقصیر في حق ذي الحق‘‘(۱)   نفس کا کسی کام کے کرنے میں انقباض اور تنگی محسوس کرنا ملامت اور سزا کے ڈر سے نہ کرنے کو حیاء کہتے ہیں۔
حیاء انسانی زندگی میں ایک ضروری حیثیت رکھتی ہے شرم وحیاء کے ذریعے انسان کو خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، افعال میں ہو، اخلاق میں ہو یا اقوال میں، جس میں حیاء کا جذبہ نہ رہے اس سے خیر رخصت ہو جاتی ہے۔ امام بخاریؒ نے ایک روایت نقل کی ہے: ’’إذا لم تستحي فاصنع ما شئت‘‘(۲) جب حیاء نہ رہے تو جو چاہے کر۔

اللہ تعالیٰ سے حیاء کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کو امام ترمذیؒ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے:
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: استحیوا من اللّٰہ حق الحیاء، قال: قلنا یا رسول اللّٰہ إنا نستحي والحمد للّٰہ، قال: لیس ذاک ولکن الاستحیاء من اللّٰہ حق الحیاء أن تحفظ الرأس وما وعی، والبطن وما حوی ولتذکر الموت والبلی ومن أراد الآخرۃ ترک زینۃ الدنیا فمن فعل ذلک فقد استحییٰ من اللّٰہ حق الحیاء‘‘(۱)
ترجمہ:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کیا کرو۔ جیسا کہ اس سے شرم وحیاء کرنے کا حق ہے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کرتے ہیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء کا یہ مطلب نہیں جو تم نے سمجھا ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ سے شرم وحیاء کرنے کا جو حق ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنے سر اور اس کے ساتھ جتنی چیزیں ہیں ان سب کی حفاظت کرو اور اپنے پیٹ اور اس کے اندر جو چیزیں ہیں ان کی حفاظت کرو اور موت اور ہڈیوں کے سڑ جانے کو یاد کرو اور جسے آخرت کی چاہت ہو وہ دنیا کی زینت کو ترک کردے، تو جس شخص نے اسے پورا کیا حقیقت میں اسی نے اللہ تعالیٰ سے حقیقی حیاء کی۔
امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیا ہے، حیاء ایمان کا جزء ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے اور بے حیائی بدکاری ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جاتی ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: الحیاء من الإیمان والإیمان في الجنۃ والبذاء من الجفاء والجفاء في النار‘‘(۲)
حیاء اخلاقیات میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتی ہے اس سے خیر وبھلائی حاصل ہوتی ہے، اگر حیاء ہے تو دوسرے خصائل بھی حاصل ہو سکتے ہیں، ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ کا فرمان ہے:ہر  دین کے لئے ایک خُلق ہے اور اسلام کا خُلق حیاء ہے۔
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إن لکل دین خُلقا وإن خُلق الإسلام الحیاء‘‘(۱)

(۱) ابن حجر، فتح الباري شرح البخاري، باب أمور الإیمان، ج۱، ص:۵۲
(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب إذا لم تسحتي فاصنع ما شئت‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۴، رقم: ۶۱۲۰؛ وأخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الأدب: باب في الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۶۶۸، رقم: ۴۷۹۷۔
(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب صفۃ القیامۃ‘‘: ج ۲، ص: ۸۰، رقم: ۲۴۵۸۔
(۲) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الإیمان، باب ما جاء في الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۲۱، رقم: ۲۰۰۹۔
(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الزہد، باب الحیاء‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۸، رقم: ۴۱۸۱۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص89

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صحیح روایت میں ہے کہ مسجد حرام میں ایک نماز ایک لاکھ کے برابر اور مسجد نبوی میں ایک نماز ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ پچاس ہزار والی روایت ضعیف ہے، اور اس وقت مسجد حرام اور مسجد نبوی میں جو اضافہ کیا گیا ہے ان تمام حصوں میں نماز پڑھنے سے یہ ثواب حاصل ہو جاتا ہے، کسی مخصوص حصہ میں نماز پڑھنا ضروری نہیں ہے اور یہ ثواب فرض نمازوں کے بارے میں ہے، نفل نماز کے بارے میں نہیں، اس لیے کہ حدیث کے اندر نفل نماز گھر میں پڑھنے کو افضل قرار دیا ہے۔
’’ومعلوم أنہ قد زید في المسجد النبوي؛ فقد زاد فیہ عمر ثم عثمان ثم الولید ثم المہدي، والإشارۃ بہذا إلی المسجد المضاف المنسوب إلیہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ولا شک أن جمیع المسجد الموجود الآن یسمی مسجدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقد اتفقت الإشارۃ والتسمیۃ علی شیئ واحد، فلم تلغ التسمیۃ، فتحصل المضاعفۃ المذکورۃ في الحدیث فیما زید فیہ۔ وخصہا الإمام النووي بما کان في زمنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عملاً بالإشارۃ،(۱) قولہ: (إلا المسجد الحرام) وفي المفاضلۃ بین المسجد الحرام والمسجد النبوي کلام وحقق في الحاشیۃ أن الاستثناء لزیادۃ الأجر في المسجد الحرام۔ ثم ادعی العلماء بتضعیف أجر المسجد النبوي بعدہ، إلا أن ما استدلوا بہ لا یوازي روایۃ الصحیح۔ بقی أن الفضل یقتصر علی المسجد الذي کان في عہد صاحب النبوۃ خاصۃً أو یشمل کل بناء بعدہ أیضاً؟ فالمختار عند العیني رحمہ اللّٰہ تعالیٰ أنہ یشمل الکل، وذلک لأن الحدیث ورد بلفظ: مسجدي ہذا۔ فاجتمع فیہ الإشارۃ والتسمیہ۔ وفي مثلہ یعتبر بالتسمیۃ، کما یظہر من الضابطۃ التی ذکرہا صاحب (الہدایۃ) تنبیہ: قال الطحاوي رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: إن الفضیلۃ في الحرمین تختص بالفرائض، أما النوافل فالفضل فیہا في البیت۔ قلت: وہو الصواب، فإن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یؤدہا إلا في البیت مع کونہ بجنب المسجد‘‘ (۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاو: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۲۶۔
(۲) علامۃ أنور شاہ الکشمیري، فیض الباري، ’’باب في مسجد قبا‘‘: ج ۳، ص: ۵۸۹۔


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص91

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:(۱) احادیث مبارکہ میں ستر کا عدد میری نگاہ سے نہیں گزرا، ہاں حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کل رحمت کا ایک حصہ مخلوق میں تقسیم کیا اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھے، مخلوق جو ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے، وہ اسی ایک حصے کی وجہ سے ہے، یہاں تک کہ گھوڑا جو اپنے بچے کو تکلیف پہنچنے کے ڈر سے اس کے اوپر سے اپنا کھر اٹھائے وہ بھی اسی ایک حصے سے ہے۔
’’جعل اللّٰہ الرّحمۃ مائۃ جزء، فأمسک عندہ تسعۃ وتسعین جزأً، وأنزل في الأرض جزئا واحدا، فمن ذلک الجزء یتراحم الخلق، حتی ترفع الفرس حافرہا عن ولدہا، خشیۃ أن تصیبہ‘‘(۱)
اسی طرح بخاری کی ایک روایت می
ں ہے کہ جتنا ایک عورت اپنے بچے پر مہربان ہوتی ہے  اس سے زیادہ اللہ اپنے بندے پرمہربان ہوتاہے؛ چنانچہ روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے، قیدیوں میں ایک عورت بھی تھی، جس کا پستان دودھ سے بھرا ہوا تھا اور وہ دوڑ رہی تھی، اتنے میں ایک بچہ ا سکو قیدیوں میں ملا، اس نے جھٹ اپنے پیٹ سے لگایا اور اس کو دودھ پلانے لگی، ہم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ کیا تم خیال کرسکتے ہو کہ یہ عورت اپنے بچہ کو آگ  میںڈال سکتی ہے؟ ہم نے عرض کیا: کہ نہیں، جب تک اس کو قدرت ہوگی یہ اپنے بچے کو آگ میں نہیں پھینک سکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت کرتا ہے، جتنا یہ عورت اپنے بچہ پر مہربان ہو سکتی ہے۔
’’عن عمر بن الخطاب رضي اللّٰہ عنہ: قدم علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم سبي، فإذا امرأۃ من السبي قد تحلب ثدیہا تسقي، إذا وجدت صبیا في السبي أخذتہ، فألصقتہ ببطنہا وأرضعتہ، فقال لنا النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: أترون ہذہ طارحۃ ولدہا في النار قلنا: لا، وہي تقدر علی أن لا تطرحہ، فقال: اللّٰہ أرحم بعبادہ من ہذہ بولدہا‘‘(۱)
(۲) ناخن کاٹنے کا کوئی طریقہ احادیث سے ثابت نہیں ہے؛ اس لیے بعض حضرات کی رائے ہے کہ جس طرح مناسب سمجھے ناخن کاٹ سکتا ہے؛ البتہ امام غزالی نے اسی طرح فتاوی عالمگیری میں اور ملا علی قاری نے مرقات شرح مشکوٰۃ میں ایک مستحب طریقہ لکھا ہے، وہ یہ کہ پہلے داہنے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرے، پھر وسطی پھر بنصر اور خنصر کو کاٹے، اس کے بعد بائیں ہاتھ میں چھوٹی انگلی سے کاٹتا ہوا آئے اور موٹی انگلی پر ختم کرے، اس کے بعد داہنے ہاتھ کی موٹی انگلی کے ناخن کو کاٹے، اس طرح ابتداء اور انتہاء دونوں داہنے سے ہوجائے گی۔ دوسرا طریقہ یہ ہے پہلے داہنے ہاتھ کے مکمل ناخون مکمل کاٹ لے، پھر بائیں ہاتھ کی انگلیوں کے کاٹے، پاؤں میں بھی اسی دوسری ترتیب کو ملحوظ رکھے۔
’’وفي شرح الغزاویۃ روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدأ بمسبحتہ الیمنی إلی الخنصر ثم بخنصر الیسری إلی الإبہام وختم بإبہام الیمنیٰ وذکر لہ الغزالي في الإحیاء وجہا وجیہا ولم یثبت في أصابع الرجل نقل، والأولی تقلیمہا کتخلیلہا۔ قلت: وفي المواہب اللدنیۃ قال الحافظ ابن حجر: إنہ یستحب کیفما احتاج إلیہ ولم یثبت في کیفیتہ شیء۔ وفي الشامي۔ وفي شرح الغزاویۃ روي أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم بدأ بمسبحتہ الیمنی إلی الخنصر ثم بخنصر الیسری إلی الإبہام وختم بإبہام الیمنی وذکر لہ الغزالي في الإحیاء وجہا وجیہا ولم یثبت في أصابع الرجل نقل، والأولی تقلیمہا کتخلیلہا۔ قلت: وفي المواہب اللدنیۃ قال الحافظ ابن حجر: إنہ یستحب کیفما احتاج إلیہ ولم یثبت في کیفیتہ شيء‘‘ (۱)

(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب جعل اللّٰہ الرحمۃ مأۃ جزء‘‘: ج ۲، ص: ۸۸۹، رقم: ۶۰۰۰۔
(۱) ’’أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الأدب، ج ۲، ص:۸۸۹، رقم: ۵۹۹۹۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ: باب الاستبراء وغیرہ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۳۰۶۔


(۲) فتاوی دارالعلوم  وقف دیوبند ج2ص93

حدیث و سنت

Ref. No. 1495/43-1048

الجواب وباللہ التوفیق

ذکر کردہ سوال میں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا واقعہ جو نبی پاک صلی اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا گیا ہے تتبع اور تلاش کے باوجود حدیث کی معتبر کتابوں میں حتی کہ موضوع احادیث پر لکھی ہوئی کسی کتاب میں بھی یہ مجھے نہیں مل سکا؛ اس لئے اس طرح کے من گھڑت واقعہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر کے بیان کرنے سے اجتناب کریں۔

 بخاری شریف کی روایت ہے: ’’من تعمد علی کذباً، فلیتبوأ مقعدہ من النار، وأیضاً: من یقل علی مالم أقل فلیتبوأ مقعدہ من النار‘‘ (أخرجہ البخاری، فی صحیحہ: ج ۱، ص: ۳۳، رقم: ۱۰۸، و ۱۰۹)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے، دوسری روایت کا مفہوم ہے جو میری طرف ایسی بات کی نسبت کرے جو میں نے نہیں کہی اس کو چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔

ان دونوں روایتوں سے یہ صاف ہو جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف غلط بات منسوب کرنا یعنی جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہی ہے اس کے بارے میں کہنا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، سخت گناہ ہے، اس سے بچنا ضروری ہے؛ نیز ترغیب وترہیب کی نیت ہو یا کسی اور وجہ سے اس طرح کی بے سند باتوں کو بیان کرنا جس کی کوئی اصل نہ ہو، شریعت مطہرہ میں جائز نہیں ہے، آئندہ اس کا خاص خیال رکھا جائے۔فقط

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:سنت کی دو قسمیں ہیں، موکدہ اور غیر موکدہ، اول کے اصرار کے ساتھ ترک پر گناہ ہے اور دوسرے پر نہیں(۲)۔ اگرچہ غیرموکدہ میں بھی اتباع سنت ہی میں خیر ہے اور اسی کو اپنانا چاہئے۔
(۲) السنۃ سنتان: سنۃ أخذہا ہدی وترکہا ضلالۃ: وسنۃ أخذہا حسن وترکہا لا بأس بہ۔ (السرخسي، أصول السرخسي: ج۱، ص: ۴۱۱)… وذکر في المبسوط قال مکحول: السنۃ سنتان: سنۃ أخذہا ہدی وترکہا ضلالۃ، وسنۃ أخذہا حسن وترکہا لا بأس بہ، السنن التی لم یواظب علیہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذہا ہدی وترکھا ضلالۃ کالأذان والإقامۃ وصلاۃ العید۔ (البزدوي، کشف الأسرار شرح أصول البزدوي، ’’أقسام العزیمۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۱۰)

فتاوی دارلعلوم وقف دیوبند ج2ص95

 

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ روایت سنن ابن ماجہ میں ہے اور سند کے اعتبار سے ضعیف ہے۔ البتہ اس سلسلے میں زیادہ صحیح روایت یہ ہے کہ مسجد نبوی میں نماز کا ثواب ایک ہزار نماز کے برابر ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’صلاۃ في مسجدي ہذا أفضل من ألف صلاۃ في غیرہ من المساجد إلا المسجد الحرام، وإسنادہ علی شرط الشیخین‘‘(۱)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’کتاب إمامۃ الصلاۃ: باب ماجاء في الصلوۃ في المسجد الجامع‘‘: ص: ۱۰۲، رقم: ۱۴۱۳)
ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب المساجد ومواضع الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۶، رقم: ۶۹۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص96