مذاہب اربعہ اور تقلید

Ref.  No.  3124/46-6009

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   مس بالشہوۃ کی بنا پر حرمت مصاہرت کا فتوی دینے میں اگر غیرمعمولی حرج اور مشقت پیش آرہی ہو تو اس صورت میں مذہب غیر پر عمل کا مشورہ دینے کے سلسلہ میں علماء دیوبند کی  آراء مختلف ہیں۔ بعض علماء نے غیر معمولی حرج کے پیش نظر مذہب غیر پر فتوی کی اجازت دی ہے۔اس لئے بہتر ہے کہ ایسی صورت میں صورت واقعہ کو علاقہ کے معتبر مفتی صاحب کے پاس پیش کیاجائے اوران کی رائے اور فتوی پر عمل کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جو حضرات شیعیت میں غلو کرتے ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو برا کہتے ہیں یا جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں غلطی کے قائل ہیں وغیرہ کفریہ عقائد رکھتے ہیں وہ کافر ہیں اور جن کے عقائد کفریہ نہیں ہیں، وہ مسلمان ہیں اگر کسی خاص جماعت یا شخص کے بارے میں سوال مقصود ہو، تو اس کے موجود عقائد کی وضاحت کرکے سوال کرلیا جائے۔(۱)

(۱) فصل: وأما الشیعۃ فلہم أقسام، منہا: الشیعۃ والرافضۃ والغالیۃ والطاریۃأما الغالیۃ فیتفرق منہا إثنتا عشرۃ فرقۃ منہا البیانیۃ والطاریۃ والمنصوریۃ والمغیریۃ والخطابیۃ والمعمریۃ الخ … ومن ذلک تفضیلہم علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی جمیع الصحابۃ وتنصیصہم علی إمامتہ بعد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتبرؤہم من أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما وغیرہما من الصحابۃ الخ۔ (غنیۃ الطالبین: القسم الثاني: العقائد والفرق، فصل في بیان مقالۃ الفرقۃ الضالۃ: ص: ۱۷۹ - ۱۸۰)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: فہم في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص279

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کو روافض کہتے ہیں۔ فقہاء نے ان کو مبتدع لکھا ہے، کفر کا فتویٰ ان پر نہیں ہے(۱)۔ البتہ جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگاتے ہوں یا ضروریات دین میں سے کسی امر کے منکر ہوں، تو ان کے اس غلط عقیدے کی بناء پر ان پر کفر کا فتویٰ ہے۔ اور یہی فرقہ باطلہ ہے۔(۲)

(۱) وإن کان یفضل علیاً کرم اللّٰہ وجہہ علي أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ لا یکون کافراً إلا أنہ مبتدع۔ (من جماعۃ علماء الہند: الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۶)
(۲) إن جبرائیل علیہ السلام غلط في الوحي أو کان ینکر صحبۃ الصدیق أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۱۳۷۸)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص282

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہماری معلومات کے مطابق غالی شیعہ اثنا عشریہ کی معتبر کتابوں میں جو ان کے عقائد مذکور ہیں ان کی وجہ سے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں، ان کی لڑکیوں سے نکاح وغیرہ سے گریز لازم ہے۔(۱)

(۱) یجب إکفار الروافض في قولہم برجعۃ الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإلٰہ إلی الأئمۃ وبقولہم في خروج إمام باطن وہؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الإسلام۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص283

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کا وہ فرقہ جو ضروریات دین میں سے کسی امر کا منکر ہے(۱) اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں الوہیت کا قائل ہے یا حضرت جبرئیل علیہ السلام کے بارے میں غلط فی الوحی کا عقیدہ رکھتا ہے(۲) یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں قذف یعنی الزام وبہتان کا عقیدہ رکھتا ہے، تو وہ اسلام سے خارج ہے؛ لیکن جو شیعہ فضیلت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قائل ہیں وہ مسلمان ہیں، لیکن مبتدع ہیں، ایسے شیعہ افراد کی لڑکیوں سے سنی مرد کا نکاح جائز ہے اور جو افراد خارج اسلام ہوں ان کی لڑکیوں سے سنی کا نکاح جائز نہیں ہوگا اور جو حضرات شیعہ تفضیلیہ ہیں ان سے سنی لڑکی کا نکاح اس لئے مناسب نہیں ہوگا کہ اختلاف عقائد کی بنا پر مقاصد نکاح کے فوت ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔ مذکورہ صورت میں جن شیعہ لڑکیوں کا نکاح سنی مسلمان لڑکوں سے ہوا ہے ان نکاحوں کو صحیح کہا جائے گا اور اس کی وجہ سے جن سنی مسلمانوں نے لڑکیوں سے نکاح کیا ہے ان کو شیعہ نہیں کہا جائے گا، جب کہ وہ اپنے عقائد سنیہ پر قائم ہو ں اور چونکہ یہ نکاح پہلے ہوچکے ہیں؛ اس لئے مذکورہ علیحدگی کے ضمن میں وہ مرد وعورتیں نہیں ان کو بھی اس اعلان میں شمار کرنا صحیح نہ ہوگا، ہر وہ طریقہ جو باعث فتنہ بنتا ہے اس سے رکنا اور روکنا ضروری ہے۔

(۱) وإن أنکر بعض ما علم من الدین ضرورۃ کفر بہا۔ (ابن عابدین، الدرالمختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ’’باب الإمامۃ‘‘:ج ۲، ص: ۳۰۰)
(۲) بخلاف من أدعی أن علیاً إلہ وأن جبریل غلط لأنہ لیس عن شبہۃ واستفراغ وسع في الاجتہاد بل محض ہوی۔ (’’أیضاً‘‘)
بخلاف ما إذا کان یفضل علیا أو یسب الصحابۃؓ فإنہ مبتدع لا کافر۔ (ابن عابدین۔ الدر المختار مع رد المحتار: ج ۳، ص: ۱۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص284

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قتل وقتال کی یہاں کوئی اجازت نہیں، شیعوں سے یا کسی اورجماعت سے کتنا بھی اختلاف ہو، غیر اسلامی ملک میں تو قتال کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے اور اسلامی ممالک میں شرعی احکام کے مطابق عمل ہوگا۔ رہا مسئلہ شیعہ کا تو ان میں الگ الگ طرح کے لوگ ہیں جو غالی شیعہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے وحی لانے میں غلطی کا عقیدہ درست سمجھتے ہیں، اسی طرح نصوص شرعیہ صریحہ کے منکر ہیں۔ وہی خارج از اسلام ہیں، باقی شیعہ، جو ایسے نہیں؛ بلکہ صرف نام کے شیعہ ہیں ان پر کفر کا فتویٰ نہیں ہے۔(۱)

(۱) الرافضي إن کان ممن یعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ، أو أن جبرائیل علیہ السلام غلط في  الوحي، أو کان ینکر صحبۃ الصدیق، أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر لمخالفۃ القواطع المعلومۃ من الدین بالضرورۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطلاق: فروع طلق امرأتہ تطلیقتین ولہا منہ‘‘: ج ۳، ص: ۴۶)
بخلاف ما إذا کان یفضل علیاً أو یسب الصحابۃ فإنہ مبتدع لا کافر۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’فروع طلق امرأتہ تطلیقتین ولہا منہ‘‘:  ج ۳، ص: ۱۴۶)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: إذا رأیتم اللذین یسبون أصحابي فقولوا: لعنۃ اللّٰہ علی شرکم۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب‘‘: ج ۵، ص: ۶۹۷، رقم: ۳۸۶۶)
الرافضي إذا کان یسب الشیخین، ویلعنہما، والعیاذ باللّٰہ، فہو کافر۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین موجبات الکفر أنواع منہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم السلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص285

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نصوص قطعیہ شرعیہ کے انکار اور اسلام مخالف عقائد کی وجہ سے باتفاق علماء حق قادیانی کافر اور خارج از اسلام ہیں۔ مذکورہ اخباری بیان مکر وفریب اور شعبدہ بازی ہے، مسلمانوں کو اپنے کفریہ عقائد کے جال میں پھنسانے کی سازش ہے، یہ بیان کوئی نئی بات نہیں ہے، اس طرح کی سازشیں اس جماعت کے بانی اور اس کے متبعین ابتداء سے کرتے چلے آرہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسی سازشوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔(۱)

(۱) {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمَاہع۴۰}(سورۃ الأحزاب: ۴۰)…  عن أبي أسماء عن ثوبان، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: … وأنہ سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کلہم یزعم أنہ نبي، وأنا خاتم النبیین لا بني بعدي۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب المہدي‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۸، رقم: ۴۲۵۲)
عن ابن شہاب، عن محمد بن جبیر بن مطعم، عن أبیہ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لي خمسۃ أسمائٍ: أنا محمد، وأحمد وأنا الماحي الذي یمحو اللّٰہ بہ الکفر وأنا الحشر الذي یحشر الناس علی قدمي وأنا العاقب۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الفضائل: باب في أسمائہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۱، رقم: ۲۳۵۴)
قولہ: (ولک دعوی النبوۃ بعدہ وہوی) ش: لما ثبت أنہ خاتم النبیین علم أن من ادعی بعدہ النبوۃ فہو کاذب۔ (ابن أبي عز الحنفي، شرح العقیدہ الطحاوي: ج ۱۱، ص: ۱۶۶)
وقد أخبر تعالیٰ في کتابہ، ورسولہ في السنۃ المتواترۃ عنہ: أنہ لا نبي بعدہ، لیعلموا أن کل من ادعی ہذا المقام بعدہ فہو کذاب افاک دجال ضال مضل۔ (ابن کثیر، تفسیر إبن کثیر: ج ۶، ص: ۴۳۱)
ولا یجوز من الکفر إلا من أکفر ذلک الملحد (أي: غلام أحمد القادیاني) بلا تلعثم وتردد۔ (محمد أنور شاہ الکشمیري، إکفار الملحدین في ضروریات الدین: ج ۱، ص: ۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص287

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:کسی مسلمان سنی حنفی پر بلا تحقیق ایسی تہمت لگانا کہ وہ قادیانی ہوگیا ہے، گویا اس کو کافر کہنا ہے اور حدیث شریف میں ہے کہ اگر کسی کو بلا وجہ کافر کہا؛ جب کہ وہ ایسا نہ ہو، تو وہ کفر اس پر لوٹتا ہے جس نے کہا ہے؛ نیز حدیث میں ہے مسلمان کو گالی دینا فسق ہے۔ الغرض زید اس صورت میں فاسق ہے، اس کو توبہ کرنی چاہئے اور جس پر تہمت لگائی ہے اس سے معافی مانگنی چاہئے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا قال الرجل لأخیہ یا کافر فقد باء بہ أحدہما‘‘(۱) نیز حدیث شریف: ’’سباب المسلم فسوق وقتالہ کفر(۲) وقال اللّٰہ تبارک وتعالی: {ٰٓیأَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلَا نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی أَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْٓا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْأَلْقَابِ  بِئْسَ الإِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْإِیْمَانِ ج وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ ہ۱۱}(۱)۔
(۱) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأدب: باب من کفر أخاہ بغیر تأویل فہو کما قال‘‘: ج ۲، ص: ۹۰۱، رقم: ۶۱۰۳۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الإیمان: باب خوف المؤمن من أن یحبط عملہ: ج ۱، ص: ۱۲، رقم: ۴۸۔
(۱) (سورۃ الحجرات: ۱۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص289

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فرقۂ باطلہ کی تردید اہم فریضہ ہے، جسے اہل حق ہر دور میں انجام دیتے رہے۔ قادیانیت ایک باطل فرقے کا نام ہے اس کا رد بھی اہم فریضہ ہے، ان کے عقائد اور دجل وفریب کو واضح کرکے لوگوں کو گمراہی سے بچانے کی کوشش ایک ممدوح سعی ہے، اس سلسلہ میں اکابر علماء کی بہت کتابیں طبع ہو کر منظر عام پر آچکی ہیں، مذکور ہ فی السوال طریقہ بھی اس کے لئے بہتر ہے؛ لیکن تجربہ کار علماء کی نگرانی میں ہو، اسلام سچا اور کامل مذہب ہے اس کی ترجمانی اور اس کے خلاف اور باطل کے رد کے لئے علم وسلیقہ بھی ضروری ہے۔(۱) {وَلَا تَرْکَنُوْٓا إِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُلا} (۲)

(۱) حضرات اکابر علماء دیوبند سے قادیانیوں کے خلاف باضابطہ کتابیں لکھنا ثابت ہے؛ چنانچہ مفتی کفایت اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ’’البرہان‘‘ نامی مستقل رسالہ: ۱۹۰۳؍ میں مدرسہ عین العلم شاہجہاں پور سے جاری کیا اور اپنے شاگردوں کی ایک کھیپ اس میدان میں کام کرنے کے لیے تیار کی، اسی طرح حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ صاحب نے ختم نبوت نامی ایک کتاب لکھ دی ہے، نیز علامہ انور شاہ کشمیریؒ نے تو باقاعدہ ختم نبوت پر ’’اکفار الملحدین‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی اور عدالت میں جاکر مقدمہ بھی لڑے ہیں۔

(۲) سورۃ ہود: ۱۱۳۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص290

مذاہب اربعہ اور تقلید

الجواب وباللّٰہ التوفیق:إن غلام أحمد القادیاني قد ادعی الدعاوي الکاذبۃ و کذب النصوص الصریح من القرآن الکریم، والأحادیث الشریفۃ، ہو واتباعہ یفترون علی جمیع الأنبیاء علیہ السلام، وخاصۃ علی سیدنا خاتم النبیین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، مثلاً: یعتقد أن محمداً صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیس بخاتم النبیین بل یمکن أن یعتلی أحد علی ہذا المضب الشریف ویُنبّأ بوحی إلا لہ الواحد بعد محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أیضاً: وأنا (غلام أحمد قادیاني) نبي  کالأنبیاء السابقین ولا یختلف إثنان في أن ہذہ العقیدۃ تخالف النصوص الإسلامیۃ وتوجب التکفیر والارتداد، أنظر إلی قولہ تعالی: {مَا کَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمَا ہع۴۰} یقول إبن کثیر: تحت ہذہ الأٓیۃ فہذہ الأٓیۃ نص في أنہ لا نبي بعدہ، وإذا کان لا نبي بعدہ فلا رسول بالطریق الأولیٰ لأن مقام الرسالہ أخص من مقام النبوۃ فإن کل رسول نبي، ولا عکس، وبذلک وردت الأحادیث المتواترۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحادیث جماعۃ من الصحابۃؓ ویقول الزمخشري في الکشاف: قلت: معني کونہ آخرا لأنبیاء أنہ لا ینبأ أحد بعدہ، وعیسیٰ ممن ینبیء قبلہ وأخرج البخاري، والمسلم: إنہ کانت بنواسرائیل تسوسہم الأنبیاء کلما ہلک نبي خلفہ نبي، وأنہ لا نبي بعدہ، وسیکون خلفاء دل کل ذلک إن من یعتقد ذلک فہو کافر وضال ومضل، یقول ملا علی القاري: في شرح الفقہ الأکبر: دعوی النبوۃ بعد نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کفر بالإجماع؛ فہذہ: مثل من أمثال عقائد الباطلۃ الکثیرۃ التي تؤدي إلی الضلال المبین ولغلام أحمد القادیاني عقائد أخری باطلۃ تخالف القرآن الکریم وتواتر الأحادیث الشریفۃ وإجماع الطائفۃ التي علی الحق منصورین من أمۃ خاتم النبیین محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم؛ لذلک اتفق العلماء والمفتیون الکرام شرقا وغربا علی کفر وارتداد غلام أحمد قادیاني ویعتقدون بضلالتہ ویقولون: إن من صدق بکذبہ، أو أعانہ علی افسادہ الدین فہو کافر بلا ریب وخارج عن دائرۃ الإسلام بلا شبۃ ولذلک لا یجوز تدفین القادیانیین الذین یسمون أنفسہم تزویراً بالأحمدیین في مقابر المسلمین ولأنہ لا علاقہ بہم بالإسلام والمسلمین الخ۔(۱)

(۱) {وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ط} (سورۃ الأحزاب: ۴۰)    …سیکون في أمتي کذابون ثلاثون کلہم یزعم أنہ نبي، وأنا خاتم النبیین لا بني بعدي۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’أول کتاب الفتن: ذکر الفتن ودلائلہا‘‘: ج ۲، ص: ۵۷۴، رقم: ۴۲۵۲)
دعوی النبوۃ بعد نبینا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کفر بالإجماع۔ (أبو حنیفۃ، شرح الفقہ الأکبر: ۱۶۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص291