Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2971/45-4700
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ صف درمیان سے بنائی جائے یعنی امام کے پیچھے ایک آدمی کھڑا ہو اور پھر اس کے دائیں پھر بائیں لوگ صف بناتے جائیں۔ ہر صف امام کے پیچھے سے شروع ہو، اس لئے کہ حدیث میں ہے کہ امام کو درمیان میں رکھو اور اس کی شکل یہی ہے کہ درمیان سے ہی صف شروع ہو۔ امام کے کہنے کا شاید یہ مطلب ہو کہ اگلی صفوں میں جگہ باقی رہتے ہوئے دوسری و تیسری صفیں نہ بناؤ۔ اگر اگلی صف میں جگہ خالی ہوتو پیچھے صف بنانا مکروہ ہے۔
عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: أتموا الصف المقدم ثم الذي یلیہ فما کان من نقص فلیکن فی الصف الآخر رواہ بو داود(مشکوة شریف ص ۹۸، مطبوعہ: مکتبہ اشرفیہ دیوبند)
والحاصل أنہ یستحب توسط الإمام(انجاح الحاجہ حاشیہ سنن ابن ماجہ ص ۷۱)
وخیر صفوف الرجال أولھا“:لأنہ روي فی الأخبار ”أن اللہ تعالی إذا أنزل الرحمة علی الجماعة ینزلھا أولاً علی الإمام ، ثم تتجاوز عنہ إلی من بحذائہ فی الصف الأول،ثم إلی المیامن، ثم إلی المیاسر، ثم إلی الصف الثاني“، وتمامہ فی البحر (شامی ۲:۳۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2953/45-4676
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں عیدکی نماز ادا کرنا افضل ہے، البتہ جس علاقے میں کوئی میدان یا عیدگاہ نہ ہو تو اس صورت میں مسجد میں نماز عید ادا کرنا بھی درست ہے۔ فتاوی محمودیہ میں ہے :"عید کی نماز عید گاہ میں جاکر پڑھنا سنت ہے ،اگر کوئی عذر ہو تو مسجد میں بھی درست ہے ".(باب العیدین ،ج:8،ص:414،ادارۃ الفاروق)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"الخروج إلى الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات". (الھندیۃ، کتاب الصلاۃ،الباب السابع عشر فی صلاۃ العیدین،ج:1،ص:150،دارالفکر)
"ولو صلی العید في الجامع ولم یتوجه إلی المصلی، فقد ترک السنة". (البحر، کتاب الصلاۃ،باب العیدین ج:2،ص:171،دارالکتاب الاسلامی)
"وفي الخلاصة والخانية السنة أن يخرج الإمام إلى الجبانة، ويستخلف غيره ليصلي في المصر بالضعفاء بناء على أن صلاة العيدين في موضعين جائزة بالاتفاق، وإن لم يستخلف فله ذلك. اهـ" (شامی، کتاب الصلاۃ،باب العیدین ،ج:2،ص:169،سعید)"عن أبي إسحاق، «أن عليا أمر رجلا يصلي بضعفة الناس في المسجد ركعتين۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ، کتاب صلاۃ العیدین ،ج:2،ص:5،دارالتاج)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2925/45-4520
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر میں عشاء کے قرض اور تراویح کی جماعت جائز ہے، البتہ فرض نماز مسجد میں ادا کرنا افضل ہے۔
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ المرء في بیتہ أفضل من صلوتہ في مسجدی ہذا الا المکتوبۃ‘‘ (المعجم الأوسط: ج ٣، ص: ١٥٩، رقم: ٤١٧٨) وان صلی أحد فی البیت بالجماعۃ لم ینالوا افضل جماعۃ المسجد‘‘ (در مختار مع رد المحتار: ج ٢، ص: ٢٨٨، زکریا دیوبند)
(٢) گراؤنڈ فلورکی حیثیت اگرتہخانہ کی ہے تو پہلی منزل میں ادا کی گئیں نمازیں درست ہیں، اور اگر نیچے کا حصہ بھی شرعی مسجد ہے تو نیچے کی منزل چھوڑ کر اوپر جماعت کا نظم مناسب نہیں، تاہم ادا کی گئیں نمازیں درست ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 1757/43-1479
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیر تحریمہ امام و مقتدی سب پر ہرحال میں فرض ہے، اس لئے مقتدی جس وقت جماعت میں شریک ہو، تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہے پھر امام جس رکن میں ہو اس میں شریک ہوجائے۔ جس کو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع مل گیا اس کو رکعت مل گئی اور جس کو تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رکوع میں امام کے ساتھ شرکت نہیں مل سکی اس کی وہ رکعت فوت ہوگئی۔ بہرحال تکبیر تحریمہ کہہ کر ہی رکوع وسجدہ میں جانا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔
(من فرائضها) التي لا تصح بدونها (التحريمة) قائما (وهي شرط) قال الشامی: (قوله من فرائضها) جمع فريضة أعم من الركن الداخل الماهية والشرط الخارج عنها، فيصدق على التحريمة والقعدة الأخيرة والخروج بصنعه على ما سيأتي، وكثيرا ما يطلقون الفرض على ما يقابل الركن كالتحريمة والقعدة، وقدمنا في أوائل كتاب الطهارة عن شرح المنية أنه قد يطلق الفرض على ما ليس بركن ولا شرط كترتيب القيام والركوع والسجود والقعدة، وأشار بمن التبعيضية إلى أن لها فرائض أخر كما سيأتي في قول الشارح وبقي من الفروض إلخ أفاده ح (قوله التي لا تصح بدونها) صفة كاشفة إذ لا شيء من الفروض ما تصح الصلاة بدونه بلا عذر (شامی 1/442)
(الفصل الأول في فرائض الصلاة) وهي ست: (منها التحريمة) وهي شرط عندنا حتى أن من يحرم للفرائض كان له أن يؤدي التطوع هكذا في الهداية ولكنه يكره لترك التحلل عن الفرض بالوجه المشروع وأما بناء الفرض على تحريمة فرض آخر فلا يجوز إجماعا وكذا بناء الفرض على تحريمة النفل كذا في السراج الوهاج ۔ ۔ ۔ الی قولہ: ۔ ۔ ۔ ولا يصير شارعا بالتكبير إلا في حالة القيام أو فيما هو أقرب إليه من الركوع. هكذا في الزاهدي حتى لو كبر قاعدا ثم قام لا يصير شارعا في الصلاة ويجوز افتتاح التطوع قاعدا مع القدرة على القيام. كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاة 1/68)
(قوله فوقف) وكذا لو لم يقف بل انحط فرفع الإمام قبل ركوعه لا يصير مدركا لهذه الركعة مع الإمام فتح. ويوجد في بعض النسخ: فوقف بلا عذر أي بأن أمكنه الركوع فوقف ولم يركع، وذلك لأن المسألة فيها خلاف زفر؛ فعنده إذا أمكنه الركوع فلم يركع أدرك الركعة لأنه أدرك الإمام فيما له حكم القيام. (قوله لأن المشاركة) أي أن الاقتداء متابعة على وجه المشاركة ولم يتحقق من هذا مشاركة لا في حقيقة القيام ولا في الركوع فلم يدرك معه الركعة إذ لم يتحقق منه مسمى الاقتداء بعد، (شامی، باب ادراک الفریضۃ 2/60)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند