نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2953/45-4676

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کھلے میدان یعنی عیدگاہ میں عیدکی نماز ادا کرنا افضل ہے، البتہ جس علاقے میں کوئی میدان یا عیدگاہ نہ ہو تو اس صورت میں مسجد میں نماز عید ادا کرنا بھی درست ہے۔ فتاوی محمودیہ میں ہے :"عید کی نماز عید گاہ میں جاکر پڑھنا سنت ہے ،اگر کوئی عذر ہو تو مسجد میں بھی درست ہے ".(باب العیدین ،ج:8،ص:414،ادارۃ الفاروق)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"الخروج إلى الجبانة في صلاة العيد سنة وإن كان يسعهم المسجد الجامع، على هذا عامة المشايخ وهو الصحيح، هكذا في المضمرات". (الھندیۃ، کتاب الصلاۃ،الباب السابع عشر فی صلاۃ العیدین،ج:1،ص:150،دارالفکر)

 "ولو صلی العید في الجامع ولم یتوجه إلی المصلی، فقد ترک السنة". (البحر، کتاب الصلاۃ،باب العیدین ج:2،ص:171،دارالکتاب الاسلامی)

"وفي الخلاصة والخانية السنة أن يخرج الإمام ‌إلى ‌الجبانة، ويستخلف غيره ليصلي في المصر بالضعفاء بناء على أن صلاة العيدين في موضعين جائزة بالاتفاق، وإن لم يستخلف فله ذلك. اهـ" (شامی، کتاب الصلاۃ،باب العیدین ،ج:2،ص:169،سعید)"عن أبي إسحاق، «أن عليا أمر رجلا يصلي ‌بضعفة الناس في المسجد ركعتين۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ، کتاب صلاۃ العیدین ،ج:2،ص:5،دارالتاج)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2925/45-4520

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ گھر میں عشاء کے قرض اور تراویح کی جماعت جائز ہے، البتہ فرض نماز مسجد میں ادا کرنا افضل ہے۔

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ المرء في بیتہ أفضل من صلوتہ في مسجدی ہذا الا المکتوبۃ‘‘ (المعجم الأوسط: ج ٣، ص: ١٥٩، رقم: ٤١٧٨) وان صلی أحد فی البیت بالجماعۃ لم ینالوا افضل جماعۃ المسجد‘‘ (در مختار مع رد المحتار: ج ٢، ص: ٢٨٨، زکریا دیوبند)

(٢) گراؤنڈ فلورکی حیثیت اگرتہخانہ کی ہے تو پہلی منزل میں ادا کی گئیں نمازیں درست ہیں، اور اگر نیچے کا حصہ بھی شرعی مسجد ہے تو نیچے کی منزل چھوڑ کر اوپر جماعت کا نظم مناسب نہیں، تاہم ادا کی گئیں نمازیں درست ہیں اعادہ کی ضرورت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2928/45-4518 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرات فقہاء کرام نے عام حالات میں آدھی آستین والا کرتہ یا شرٹ پہن کر نماز ادا کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آستین چڑھانے سے منع فرمایا ہے۔ تاہم اگر کسی وقت آدھی آستین کی شرٹ پہنے ہونے کی حالت میں نماز کا وقت ہو جائے تو نماز ترک کرنا جائز نہیں، اس حالت میں نماز ادا کرلی جائے۔ عن ابن عباس رضي الله عنه عن النبي صلي الله عليه وسلم قال أمرت أن أسجد علي سبعة أعظم ولا أكف ثوبا ولا شعرا‘‘ (بخاري، رقم: 816) وتشير كميه عنهما لنهي عنه لما فيه من الجفاء المنافي للخشوع‘‘ (مراقي الفلاح،’’فصل في المكروهات‘‘: ج 1، 128) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2934/45-4515 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بہتر یہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی جائے نماز عید گاہ لیکر جائیں، لیکن اگر مسجد کی چٹائی عیدگاہ میں استعمال کرنے کی ضرورت ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2870/45-4584 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قراءت میں ایسی تبدیلی جس میں عربی زبان میں غیرعربی زبان کا لفظ شامل کردیاجائے پھر اگر اس کی نماز ہی میں تصحیح بھی کردی جائے تب بھی نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لئے صورت مسئولہ میں نماز فاسد ہوگئی، اور اعادہ لازم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2877/45-4563 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تراویح کی نماز سنت ہے ، اور عشاء کی نماز فرض ہے، امام کے پیچھے اقتداء کے لئے ضروری ہے کہ امام کی نماز مقتدی کی نماز سے اعلی ہو، اعلی کے پیچھے ادنی کی نماز ہوجاتی ہے لیکن ادنی کے پیچھے اعلی کی نماز درست نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ سنت اور فرض میں سے فرض اعلی ہے اور سنت ادنی ہے، اس لئے سنت پڑھنے والے کے پیچھے فرض پڑھنے والے کی نماز نہیں ہوگی۔ لہذا اگر کبھی آپ کی عشاء کی جماعت فوت ہوجائے تو پہلے انفرادی طور پر عشاء کی نماز پڑھ لیں پھر امام کے ساتھ تراویح میں شامل ہوجائیں۔ اور تراویح کی جو رکعتیں رہ جائیں ان کو وتر سے پہلے یا وتر کے بعد بھی پڑھ سکتے ہیں۔ اگر وتر شروع ہوجائے تو بہتر ہے کہ امام کے ساتھ وتر پڑھ لے پھر تراویح کی باقی رکعتیں پڑھے۔ "ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرض آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا، وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً .... الخ " (الدر المختار: باب الإمامة، 324/2- 325، ط: زکریا) الدر المختار: (باب الوتر و النوافل، 43/2، ط: سعید) ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر قبل الوتر وبعدہ في الأصح، فلو فاتہ بعضہا وقام الإمام إلی الوتر أوتر معہ، ثم صلی ما فاتہ۔ (بدائع الصنائع: فصل فی مقدار التراویح، 288/1، ط: سعید) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2859/45-4502 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام خاموشی سے قراءت کررہاہے ، اب اگر مائک میں تھوڑی سی آواز آجائے تو اس پر جہری قراءت کا حکم نہیں لگے گا۔اور ایسی صورت میں اما م پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2852/45-4494 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ساہیوال سے آپ کی منزل مقصود نورپورتھل کی مسافت دیکھی جائے گی، اور یہ مسافت یقینا مسافت سفر ہے، اس لئے آپ قصر کریں گے۔ منزل مقصود کے لئے جو راستہ آپ نے اختیار کیا ہے اس کے اعتبار سے سفر کی مسافت پوری ہوجاتی ہے اس لئے آپ مسافر ہوں گے اور نماز قصر کریں گے۔ "ولو لموضع طريقان: أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني. (قوله: قصر في الأول) أي ولو كان اختار السلوك فيه بلا غرض صحيح، خلافاً للشافعي، كما في البدائع". (لدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 123) "وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق. فإذا قصد بلدةً وإلى مقصده طريقان: أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والآخر دونها، فسلك الطريق الأبعد كان مسافراً عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان. وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق". (الفتاوى الهندية (1/ 138) "وقال أبو حنيفة: إذا خرج إلى مصر في ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليه من طريق آخر في يوم واحد قصر" (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 1757/43-1479

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ تکبیر تحریمہ امام و مقتدی سب پر ہرحال میں فرض ہے، اس لئے مقتدی جس وقت جماعت میں شریک ہو، تکبیر تحریمہ کھڑے ہوکر کہے پھر امام جس رکن میں ہو اس میں شریک ہوجائے۔ جس کو تکبیر تحریمہ کے بعد رکوع مل گیا اس کو رکعت مل گئی اور جس کو تکبیر تحریمہ کہنے کے بعد رکوع میں امام کے ساتھ شرکت نہیں مل سکی اس کی وہ رکعت فوت ہوگئی۔ بہرحال تکبیر تحریمہ کہہ کر ہی رکوع وسجدہ میں جانا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی۔   

(من فرائضها) التي لا تصح بدونها (التحريمة) قائما (وهي شرط) قال الشامی: (قوله من فرائضها) جمع فريضة أعم من الركن الداخل الماهية والشرط الخارج عنها، فيصدق على التحريمة والقعدة الأخيرة والخروج بصنعه على ما سيأتي، وكثيرا ما يطلقون الفرض على ما يقابل الركن كالتحريمة والقعدة، وقدمنا في أوائل كتاب الطهارة عن شرح المنية أنه قد يطلق الفرض على ما ليس بركن ولا شرط كترتيب القيام والركوع والسجود والقعدة، وأشار بمن التبعيضية إلى أن لها فرائض أخر كما سيأتي في قول الشارح وبقي من الفروض إلخ أفاده ح (قوله التي لا تصح بدونها) صفة كاشفة إذ لا شيء من الفروض ما تصح الصلاة بدونه بلا عذر (شامی 1/442)

(الفصل الأول في فرائض الصلاة) وهي ست: (منها التحريمة) وهي شرط عندنا حتى أن من يحرم للفرائض كان له أن يؤدي التطوع هكذا في الهداية ولكنه يكره لترك التحلل عن الفرض بالوجه المشروع وأما بناء الفرض على تحريمة فرض آخر فلا يجوز إجماعا وكذا بناء الفرض على تحريمة النفل كذا في السراج الوهاج ۔ ۔ ۔  الی قولہ: ۔ ۔ ۔ ولا يصير شارعا بالتكبير إلا في حالة القيام أو فيما هو أقرب إليه من الركوع. هكذا في الزاهدي حتى لو كبر قاعدا ثم قام لا يصير شارعا في الصلاة ويجوز افتتاح التطوع قاعدا مع القدرة على القيام. كذا في محيط السرخسي. (الھندیۃ، الفصل الأول في فرائض الصلاة 1/68)

(قوله فوقف) وكذا لو لم يقف بل انحط فرفع الإمام قبل ركوعه لا يصير مدركا لهذه الركعة مع الإمام فتح. ويوجد في بعض النسخ: فوقف بلا عذر أي بأن أمكنه الركوع فوقف ولم يركع، وذلك لأن المسألة فيها خلاف زفر؛ فعنده إذا أمكنه الركوع فلم يركع أدرك الركعة لأنه أدرك الإمام فيما له حكم القيام. (قوله لأن المشاركة) أي أن الاقتداء متابعة على وجه المشاركة ولم يتحقق من هذا مشاركة لا في حقيقة القيام ولا في الركوع فلم يدرك معه الركعة إذ لم يتحقق منه مسمى الاقتداء بعد، (شامی، باب ادراک الفریضۃ 2/60)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر کسی شخص کو قرض دیتے وقت کوئی چیز رہن رکھ دی جائے، تو شرعاً درست ہے؛ لیکن سود یا شبہ سود کی صورت نہ ہو۔شرائط رہن کی پابندی ضروری ہے جو شخص ایسا کرے اس کی امامت شرعاً درست ہے۔(۱)

(۱) الودیعۃ أمانۃ في ید المودع إذا ہلکت لم یضمنہا، لقولہ علیہ السلام: لیس علی المستعیر غیر المغل ضمان ولا علی المستودع غیر المغل ضمان ولأن بالناس حاجۃ إلی الاستیداع فلو ضمناہ یمتنع الناس عن قبول الودائع فیتعطل مصالحہم۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الودیعۃ‘‘:ج۳، ص: ۲۷۳، دارالکتاب دیوبند)
 

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص53