Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 3285/46-9012
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حصن المسلم دعاؤں پر مشتمل ایک کتاب ہے، جس میں تقریبا تمام مواقع کی دعائیں درج ہیں، یہ کتاب عمدہ اور بہت مفید ہے، اور اس کو پڑھ کر ان دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3278/46-8088
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی شخص کی مکمل آمدنی حرام و ناجائز ہے، تو اس کے گھر کا کھانا ،پینا اور اس سے ہدیہ لینا ناجائز ہے، اور اگر وہ سمجھانے کے باوجود ناجائز آمدنی ترک نہ کرے تو اس سے ترک تعلق کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3275/46-8087
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں دین میں کسی کام کا زیادہ یا کم کرنا جسکی اصل کتاب و سنت سے نہ ہو، اور جو صحابہ کرام، تابعین، اور تبع تابعین کے دور کے بعد ہواہو اور اس کو دین و ثواب کا کام سمجھ کر کیاجائے۔ ۔لیکن اگر کوئی کام یا عمل ایسا ہو جو شرعا ممنوع نہ ہو اور دین کا لازمی حصہ سمجھ کر نہ کیاجائے بلکہ محض تجربہ کی بنیاد پر کیاجائےتو اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور بدعت کی مذکورہ بالا تعریف اس پر صادق نہیں آتی۔ بسم اللہ کے بارے میں مخصوص تاریخ ومخصوص تعدادکے وظیفہ کا بھی یہی حکم ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3273/46-8093
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی نے سب کو پیدا کیا اور وہی سب کی تقدیر لکھنے والا اور بھلائی برائی کی تمیز دینے والا ہے، دنی میں جو کچھ کسی بندے وہ وہ عطاکرتاہے اس کا فضل ہے، وہ جب چاہے کسی کو کوئی نعمت دیدے اور جب چاہے کسی سے کوئی نعمت سلب کرلے، وہ فعال لمایرید ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں اور کسی کے غلط یا صحیح کرنے سے اس کی ذات میں کوئی فرق نہیں آتاہے۔ اس نے بندوں کو نیکی کا حکم کیا ہے اور برائیوں سے ہر حال میں دور رہنے کی تلقین کی ہے، اگر کوئی بندہ پھر بھی گناہ کرتاہے اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتاہے تو اللہ تعالی اس کو دنیا میں بھی سزا دے سکتاہے اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ دنیا میں چھوڑدے لیکن آخرت میں اس کو سزا دے۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ گناہ سے زیادہ کسی کو سزا نہیں ملتی ہے ،کیونکہ گناہ پر سزا اور مصیبت کے تعلق سے اللہ تعالی کے یہاں ضابطہ عدل کا ہے اور اگر گناہ کرے اور اس پر سزا نہ ملے نہ دنیا میں نہ آخرت میں تو یہ اللہ کا فضل ہے۔ کس کو سزا دینی ہے اور کس کو معاف کرنا ہے اور کس کو کس گناہ پر کتنی سزا دینی ہے وغیرہ یہ سب اس کے اختیار میں ہے، بندے صرف اس کے پابند ہیں کہ اللہ کے احکام کو بجالائیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کریں، اور ہر وقت اس کی جستجو میں رہیں کہ اللہ کی مرضی کیسے حاصل کی جائے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی بعض بندوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور اس میں ان سے گناہوں کو مٹاتے ہیں یا پھر یہ مشکلات زندگی، آخرت میں ان کےلئے رفع درجات کا سبب ہوتی ہیں۔ یہ تمام باتیں احادیث میں بہت تفصیل سے آئی ہیں کہ دنیا کی مشکلات کا اجر جب کل قیامت میں ملے گا تو آدمی یہ خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کو کوئی راحت میسر نہ ہوتی وغیرہ۔ اس لئے آپ اللہ کے فیصلوں پر کوئی سوال قائم نہ کریں اور اس کے بارے میں بالکل نہ سوچیں، بلکہ اپنی حالت بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں اور اللہ سے اچھے کی امید رکھیں کہ اللہ تعالی جو بھی کرتے ہیں وہ ہماری بھلائی کے لئے ہوتاہے گرچہ اس کے پیچھے سبب کا علم ہم کو نہ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3260/46-8071
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ صرف اپنے تین لاکھ روپئے اور تین تولہ سونا واپس لے سکتے ہیں، مزید نفع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فاسد میں مشتری صرف اپنے ثمن کا ہی حق دار ہوتاہے، مزید کسی چیز کا بھی حق دار نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3301/46-9057
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آیت لا تضار والدۃ کا مفہوم یہ ہےکہ اگر میاں بیوی کے درمیان علاحدگی ہوجائے اور بیوی اجرت مثل یا بلا اجرت کے دودھ پلانے پر راضی ہوجائے تو بچے کو ماں سے جد ا کرکے اس کو تکلیف نہ دی جائے گی ،اسی طرح اگر بچہ ماں کے علاوہ کا دودھ قبول کررہاہو اور ماں دودھ پلانے کے لیے تیار نہ ہو تو ماں کو مجبور کرکے تکلیف نہیں دی جائے گی اسی طرح ایک مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر ماں دودھ پلاتی ہے تو باپ کو اجرت مثل سے زیادہ دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔اس آیت کا تعلق جرم و سزا اور قصاص سے متعلق نہیں ہےاس لیے اگر چہ قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا لیکن دیت وغیرہ دینی ہوگی،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں بیٹے کو قاتل کو میراث نہیں ملے گی۔ ۔ لا تُضَارَّ والِدَةٌ بِوَلَدِها يعني لا ينزع الولد من أمه بعد أن رضيت بإرضاعه ولا يدفع إلى غيرها وقيل معناه لا تكره الأم على إرضاع الولد إذا قبل الصبي لبن غيرها لأن ذلك ليس بواجب عليها وَلا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ يعني لا تلقي المرأة الولد إلى أبيه وقد ألفها تضاره بذلك، وقيل معناه لا يلزم الأب أن يعطي أم الولد أكثر مما يجب عليه لها إذا لم يرضع الولد من غير أمه، فعلى هذا يرجع الضرار إلى الوالدين فيكون المعنى: لا يضار كل واحد منهما صاحبه بسبب الولد. وقيل يحتمل أن يكون الضرر راجعا إلى الولد. والمعنى: لا يضار كل واحد من الأبوين الولد فلا ترضعه حتى يموت فيتضرر(تفسیر خازن،1/166)ومعنى {لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَّه بِوَلَدِهِ}: لا تضار والدة زوجها بسبب ولدها، بأن تطلب منه ما ليس بعدل من الرزق والكسوة، وأن تشغل قلبه بالتفريط في شأن الولد، وأن تقول له: اطلب مرضعًا، بعد أن ألفها الرضيع، ولا يضر مولود له - وهو الأب - زوجته المرضعة بسبب ولده، بأن يمنعها شيئًا مما وجب لها عليه من رزق أو كسوة، أو يأخذ منها الصبي - وهي تريد إرضاعه - أو يكرهها على الإرضاع(.التفسیر الوسیط،1/393) "ولا قصاص على الأبوين، والأجداد، والجدات من قبل الآباء، والأمهات عندنا، وقال مالك إن رمى الأب ولده بسيف أو سكين فقتله فلا قصاص عليه... وحجتنا في ذلك قوله: عليه السلام «لا يقاد الوالد بولده ولا السيد بعبده» وقضى عمر بن الخطاب رضي الله عنه في من قتل ابنه عمدا بالدية في ماله، ومنهم من استدل بقوله - عليه السلام - «أنت ومالك لأبيك» فظاهر هذه الإضافة يوجب كون الولد مملوكا لأبيه ثم حقيقة الملك تمنع وجوب القصاص كالمولى إذا قتل عبده فكذلك شبهة الملك باعتبار الظاهر ... ثم على الآباء، والأجداد الدية بقتل الإبن عمدا في أموالهم في ثلاث سنين...وإن كان الوالد قتل ولده خطأ فالدية على عاقلته، وعليه الكفارة في الخطأ، ولا كفارة عليه في العمد عندنا؛ لأن فعله محظور محض كفعل الأجنبي والمحظور المحض لا يصلح سببا لإيجاب الكفارة عندنا." (کتاب المبسوط ،كتاب الديات،109،10،11،12/25/26،ط:دار الكتب العلمية)
"(سئل) هل يحبس الوالد في دين ولده أم لا؟ (الجواب) : لا يحبس والد في دين ولده كما صرح به في الملتقى وغيره من الكتب المعتبرة ونكر الوالد ليدخل جميع الأصول فلا يحبس أصل في دين فرعه؛ لأنه لا يستحق العقوبة بسبب ولده وكذا لا قصاص عليه بقتله ولا بقتل مورثه ولا يحد بقذفه ولا بقذف أمه الميتة كما في البحر من الحبس وقال في محيط السرخسي من آخر كتاب أدب القضاء لا يحبس أحد الأبوين والجدين والجدتين إلا في النفقة لولدهما لقوله تعالى {وصاحبهما في الدنيا معروفا} [لقمان: 15] وليس الحبس من المعروف ولأن في الحبس نوع عقوبة تجب ابتداء للولد ولا يجوز أن يعاقب ابتداء بتفويت حق على الولد كالقصاص اهـ."(العقود الدریۃ،كتاب القضاء،باب الحبس،مسائل شتى،307/1،ط:دارالمعرفة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3288/46-9006
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شرعی طور پر حویلی کی تقسیم ہوچکی ہے اور بہنوں نے اپنا حصہ فروخت بھی کر دیا ہے تو اب دوبارہ اس طرح کا مطالبہ کرنا جس میں دوسرے فریق کو اس قدر ضرر اور نقصان لازم آئے بالکل درست نہیں ہے، بہنوں کو جائداد کی تقسیم کے وقت یہ مطالبہ کرنا چاہئے تھا۔ اب جس قدر آپسی رضامند سے طے ہو جائے وہ کر لیا جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3250/46-8042
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایام بیض کے روزے رکھنا اور پیر و جمعرات کے روزے رکھنا سنت سے ثابت ہے۔ صوم داؤدی بھی حدیث سے ثابت ہے اور یہ نفلی روزے ہر آدمی کی قدرت و استطاعت کے اعتبار سے افضل ہوں گے، ورنہ عام حالات میں ایام بیض کے روزے افضل ہوں گے، تاہم صوم داؤدی سے زیادہ روزہ رکھنے سے آپ نے منع فرمایا ہے۔ والدین اگر نفلی روزے سے منع کرتے ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے؟ اگر ان کو آپ سے جسمانی خدمت کی ضرورت ہے اور آپ کے روزہ رکھنے سے یہ خدمت متاثر ہو تو آپ روزہ نہ رکھیں، آپ کو ان شاء اللہ ثواب ملے گا، اور اگر کوئی وجہ نہ ہو تو والدین کے سامنے نفلی عبادات کے اجر وثواب کی قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کریں، علماء کے بیانات سنوائیں تاکہ بخوشی آپ کو اجازت دیدیں۔
میں ہے:
"2449- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَخِي مُحَمَّدٍ، عَنْ ابْنِ مِلْحَانَ الْقَيْسِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا أَنْ نَصُومَ الْبِيضَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ، وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ، وَخَمْسَ عَشْرَةَ، قَالَ: وَقَالَ: «هُنَّ كَهَيْئَةِ الدَّهْرِ»." (سنن ابی داؤد، بَابٌ فِي صَوْمِ الثَّلَاثِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، 2 / 328، ط: المكتبة العصرية، صيدا – بيروت)
"حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبَانٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ مَوْلَى قُدَامَةَ بْنِ مَظْعُونٍ ، عَنْ مَوْلَى أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ انْطَلَقَ مَعَ أُسَامَةَ إِلَى وَادِي الْقُرَى فِي طَلَبِ مَالٍ لَهُ، فَكَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ لَهُ مَوْلَاهُ : لِمَ تَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ وَأَنْتَ شَيْخٌ كَبِيرٌ ؟ فَقَالَ : إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَصُومُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، وَسُئِلَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ : " إِنَّ أَعْمَالَ الْعِبَادِ تُعْرَضُ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَيَوْمَ الْخَمِيسِ ". (سنن ابی داؤد ، سنن أبي داود ، كِتَاب الصَّوْمُ ، بَابٌ فِي صَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ ، رقم الحديث : ٢٤٣٦)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندمتفرقات
Ref. No. 3240/46-8007
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ کو خواب میں بیمار یا غمزدہ دیکھنا اس بات کا اشارہ دیتاہے کہ ان کو ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہے۔ اس لئے آپ ان کے لئے ایصالِ ثواب اورصدقۂ جاریہ کا اہتمام کریں۔ نیز یہ بھی معلوم کریں کہ ان کے ذمہ کچھ (نماز و روزہ وغیرہ) واجب الاداء تو نہیں ہیں اگر ہوں تو ان کی ادائیگی کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کا ان کو پورا فائدہ پہونچے گا اور ان کو قبرکی راحتیں میسر ہوں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3239/46-8009
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈھول باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال شریعت میں ناجائز ہے اور حمدونعت رسول ﷺ کے ساتھ موسیقی کے استعمال اور بھی برا ہے۔آج کےمروجہ قوالی میں بہت زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں، اس لئے ایسی قوالی جس میں آلات موسیقی کا استعمال بہت نمایاں طور پر کیاگیا ہو، گرچہ قوالی کےمضامین کتنے ہی عمدہ ہوں ، اس کا سننا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر قوالی کے مضامین اچھے اور شریعت کے مطابق ہیں ، عشقیہ اشعار پر مشتمل نہیں ہیں تو ان کو بغیر موسیقی کے سننا جائز ہے۔
"قال الشارح: زاد في الجوهرة: وما يفعله متصوفة زماننا حرام لا يجوز القصد والجلوس إليه ومن قبلهم لم يفعل كذلك، وما نقل أنه - عليه الصلاة والسلام - سمع الشعر لم يدل على إباحة الغناء. ويجوز حمله على الشعر المباح المشتمل على الحكمة والوعظ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/349)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند