Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 3479/47-9404
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ معنوی اعتبار سے اس جملہ دعائیہ کا استعمال غیرنبی کےلئے بھی جائز ہے، لیکن اصطلاحی اعتبار سے براہ راست غیرنبی کے لئے اس جملہ کا استعمال تعامل اہل سنت والجماعت کے خلاف ہے، اس لئے کہ اہلِ سنت والجماعت کے ہاں "علیہ السلام"انبیاء کے ساتھ خاص ہے، لہذا اس کو غیرنبی کے لئے استعمال کرنے سے بچنا ضروری ہے۔ البتہ نبی کریم ﷺ کے ذکر کے بعد تبعا صحابہ وتابعین وغیرہم کے لئے جائز ہے۔
"أن قوله "علي علیه السلام" من شعار أهل البدعة، فلایستحسن في مقام المرام". (الفقه الأکبر، ص:167،ط:قدیمی)
(بابُ الصَّلاة على الأنبياءِ وآلهم تبعاً لهم صلى الله عليه وسلم)
أجمعوا على الصلاة على نبيّنا محمّدٌ صلى الله عليه وسلم، وكذلك أجمع من يُعتدّ به على جوازها واستحبابها على سائر الأنبياء والملائكة استقلالاً. ۔ ۔ وأما غيرُ الأنبياء، فالجمهور على أنه لا يُصلّى عليهم ابتداء، فلا يقال: أبو بكر صلى الله عليه وسلم.۔ ۔ ۔ واختُلف في هذا المنع، فقال بعض أصحابنا: هو حرام، وقال أكثرهم: مكروه كراهة تنزيه، وذهب كثير منهم إلى أنه خلاف الأوْلَى وليس مكروهاً، والصحيحُ الذي عليه الأكثرون أنه مكروه كراهة تنزيه لأنه شعار أهل البدع، وقد نُهينا عن شعارهم. ۔ ۔ ۔ والمكروه هو ما ورد فيه نهيٌ مقصود. ۔۔۔ قال أصحابنا: والمعتمدُ في ذلك أن الصَّلاةَ صارتْ مخصوصةً في لسان السلف بالأنبياء صلواتُ الله وسلامُه عليهم، كما أن قولنا: عزَّ وجلَّ، مخصوصٌ بالله سبحانه وتعالى، فكما لا يُقال: محمد عزَّ وجلَّ - وإن كان عزيزاً جليلاً - لا يُقال: أبو بكر أو عليّ صلى الله عليه وسلم وإن كان معناه صحيحاً. ۔ ۔ ۔ واتفقوا على جواز جعل غير الأنبياء تبعاً لهم في الصلاة، فيُقال: اللَّهمّ صل على محمد وعلى آل محمد، وأصحابه، وأزواجه وذرِّيته، وأتباعه، للأحاديث الصحيحة في ذلك، وقد أُمرنا به في التشهد، ولم يزل السلفُ عليه خارج الصلاة أيضاً. ۔ ۔ وأما السلام، فقال الشيخ أبو محمد الجوينيُّ من أصحابنا: هو في معنى الصلاة، فلا يُستعمل في الغائب، فلا يفرد به غير الأنبياء، فلا يُقال: عليّ عليه السلام، وسواء في هذا الأحياء والأموات. ۔ ۔ ۔ وأما الحاضر، فيُخاطب به فيقال: سلام عليكَ، أو: سلام عليكم، أو: السَّلام عليكَ، أو: عليكم، وهذا مجمع عليه (الاذکار للنووی۔ كتاب الصّلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ص: ١١٨، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3466/47-9389
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جی، رکھ لیجئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3463/47-9386
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ پہلے آپ اپنی والدہ کی امانت والدہ کے حوالے کریں، پھر وراثت میں جو کچھ آپ کے حصہ میں آتاہے وہ آپ کو ملے گا اور اس سلسلہ میں والدہ کی بات قبول کرنی چاہئے۔ انھوں نے آپ پر اعتماد کرکے پیسے دئے تو آپ کو ان پر اعتماد رکھنا چاہئے جبکہ وہ خود بھی دینے کا وعدہ کررہی ہیں۔ اس لئے آپ امانت والے معاملہ کو وراثت کے معاملہ سے الگ رکھیں اور والدہ کو ان کی امانت لوٹادیں۔ والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی یہی صورت ہے، بصورت دیگر بدسلوکی شمار ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3456/47-9368
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جس فلیٹ میں والد کی رہائش تھی اس کو والد نے اپنی زندگی میں اپنی اہلیہ کےنام کیا ، خالی مکان ان کے حوالہ نہیں کیا تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا۔ ہبہ کے تام ہونے کے لئے خالی کرکےقبضہ میں دینا ضروری ہے۔ ہبہ تام نہ ہونے کی وجہ سے وہ فلیٹ والد کی ہی ملک شمار ہوگا اور اس میں مرحوم کی اہلیہ کے ساتھ تمام اولاد بھی وراثت میں شریک ہوگی۔ اور کسی وارث کے لئے وصیت بھی غیرمعتبر ہے، اس لئے وہ فلیٹ تمام ورثہ کا ہے۔
"قال: و لايجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة وهبة المشاع فيما لايقسم جائزة (و لايجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة) ش: أي مفرغة عن إملاك الواهب." (بنايه، الهبة فیما یقسم، ج۔۱۰،ص۔۱۶۸،ط۔دارالکتب العلمیة)
"و تتم الهبة بالقبض الکامل." (فتاوی شامی، ردّ المحتار علی الدر المختار، کتاب الهبة، ج: ۵، ص:۶۹۰،ط۔ سعید) "
ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة۔ (الفتاوى الهندية (90/6):
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3454/47-9374
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جو کچھ جوئے میں رقم آئی اس میں سے اپنی جمع کردوہ رقم حلال ہے اور باقی اضافی رقم حرام ہے، اور حرام ذریعہ سے کمائی ہوئی رقم کا صدقہ کردینا واجب ہے، اس کو کسی بھی طرح اپنے استعمال میں لانایا رفاہ عام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے اس رقم کو بلا نیت ثواب غریبوں میں بانٹ دیاجائےگا۔
"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبہ (شامی، ،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ". 5/99ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3431/47/9322
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ رسم و رواج اور مروجہ خرافات سے بچتے ہوئے اس طرح مجلس منعقد کرنے کی گنجائش ہے، تاہم بہتر ہوگا کہ ایک دو دن آگے پیچھے کرلے ۔ فتاوٰی رشیدیہ میں ہے:سالگرہ یادداشت عمرِاطفال کے واسطے کچھ حرج نہیں معلوم ہوتااور بعد سال کے بوجہ اللہ کھلانابھی درست ہے۔ (حرمت وجواز کے مسائل، ص: 567، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام) باقی کیک کاٹنے اور دیگر خرافات سے احتراز کریں۔
"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.
(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب." (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :كتاب اللباس، الفصل الثاني ،222/8، ط: مكتبة حنفية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3427/47-9324
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ حضرات انبیا کے علاوہ کسی کا بھی خواب شریعت میں حجت نہیں ہے۔ لہذا مذکورہ بزرگ ،خواب میں خلافت ملنے کا دعوی کرنے سے مرحوم بزرگ کے خلیفہ نہیں ہوں گے۔ اور نہ ان کو اس سلسلہ سے دوسروں کو بیعت کرنے کا حق حاصل ہوگا۔
ثم رویا عبداللاہ بن زید الخ بان غیرالانبیائ لایبنی علیھا حکم شرعی (شامی، ج۱ ص ۳۸۳)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3378/46-9259
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ چونکہ اس بنجر زمین کو نہ کرایہ پر دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں کاشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کو فروخت کرسکتے ہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3374/46-9263
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ مرحوم والدین کے لئے ایصالِ ثواب و دعائے مغفرت کی ضرورت ہے ۔ اور مرحوم بھائیوں نے اگر کچھ نصیحتیں یا وصیتیں کی ہوں تو ان پر عمل درآمد کرکے ان کی ارواح کو تسکین بخشیں، بالخصوص وراثت سے متعلق حقوق کی ادائیگی اور معاملات کی درستگی پر توجہ دیں۔ان کی اولاد اگرہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کئےجانے کی طرف بھی اشارہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3342/46-9183
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جن کھیلوں میں کوئی جسمانی فائدہ نہ ہو اور وہ کھیل فساق و فجار کا کھیل ہو یا جس کی وجہ سے کسی گناہ کا ارتکاب لازم آتاہو تو ایسے کھیل سے گریز کرنا ضروری ہے، تفریح طبع کے لئے بھی کوئی اس طرح کا کھیل مناسب نہیں ہے۔ اور مسجد کے اندر ایسا کوئی عمل مزید قبیح ہوجاتاہے قرآنِ مجید میں کامیاب ایمان والوں کا ایک وصف لہو ولعب سے اعراض کرنے والا ہونا بیان ہوا ہے۔حدیث میں بھی لایعنی امور سے اجتناب کا حکم ہے، اس لئے لڈو یا شطرنج کھیلنا درست نہیں ہے، پھر مسجد کے اندر کھیلنا گرچہ موبائل پر ہو یہ اور بھی برا ہے۔
"فالضابط في هذا ... أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريمًا،... وما كان فيه غرض ومصلحة دينية أو دنيوية فإن ورد النهي عنه من الكتاب أو السنة ... كان حرامًا أو مكروهًا تحريمًا، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس فهو بالنظر الفقهي على نوعين: الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه و مفاسده أغلب على منافعه، و أنه من اشتغل به ألهاه عن ذكر الله وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه؛ لاشتراك العلة فكان حرامًا أو مكروهًا، والثاني ماليس كذلك، فهو أيضًا إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، و إن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح، بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه ... وعلى هذا الأصل، فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل على معصية أخرى، وما لم يود الانهماك فيها إلى الإخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه". (تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط: دارالعلوم کراچی)
عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من حسن إسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ۔ (سنن الترمذی، أبواب الزہد / باب ما جاء من تکلّم بالکلمة لیضحک الناس ،رقم: ۲۲۱۷)۔
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ(1) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ(2) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ(3) (سورۃ المومنون 1-3)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند