متفرقات

Ref. No. 3173/46-7002

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر موٹر مسجد کے لئے کسی نے وقف کیا ہو تو اس کو مسجد کے لئے ہی استعمال کیاجائے گا، اس سے مدرسہ میں پانی بھرنا جائز نہیں ہوگا، اور مسجد کا متولی مسجد کے سامان کا منتظم ہوتاہے وہ مالک نہیں ہوتاہے کہ جیسا چاہے تصرف کرسکے۔ البتہ اگر مسجد کےمصلین سے  چندہ لے کر موٹر خریداگیاہے اور چندہ سے ہی اس کا بجلی بل اداکیاجاتاہے تو نماز کے وقت ایک اعلان کرکے مصلین سےاجازت لی جاسکتی ہے ، اگر مصلین راضی ہوں تو اس کی گنجائش ہوگی، ورنہ مدرسہ اپنا کوئی اور انتظام کرے۔

 مراعاة غرض الواقفین واجبة (رد المحتار: ۶/۶۶۵، ط زکریا دیوبند) شرط الواقف کنص الشارع․ (۶/۶۴۹، ط زکریا دیوبند)

”متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد“ کذا في فتاوی قاضي خان اھ (فتاوی عالمگیري: ۲:۴۶۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، ”ولا تجوز إعارة أدواتہ لمسجد آخر اھ“ (الأشباہ والنظائر ص۴۷۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)، ”ولا تجوز إعارة الوقف والإسکان فیہ کذا في محیط السرخسي“ اھ (فتاوی عالمگیري ۲:۴۲۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3142/46-6034

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  یہ بے معنی سا لفظ ہے، اس لئے بہتر ہے کہ کوئی اچھے معنی والا لفظ دیکھ کر نام رکھاجائے۔ اور نام رکھنے کے معاملہ میں صحابہ اور بزرگان دین کے ناموں کا انتخاب کرنا چاہئے ۔ نام میں جدت پیداکرنے کے لئے مہمل الفاظ کا انتخاب بالکل غیرمناسب ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3132/46-6012

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسے موقع پر قانون کا سہارا لینا اور قانونی کارروائی کرنی چاہئے ، نیز نبی کریم ﷺ کے اوصاف کو لوگوں میں بیان کرنا چاہئے۔  مثبت طریقہ پر کام کرنے سے زیادہ فائدہ ہوتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3119/46-5099

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب کوئی گنہگار اللہ تعالی سے  اپنے گناہوں پر توبہ کرتاہے تو اللہ تعالی اس کے تمام گناہوں کو معاف کردیتاہے، اور اس کو سیدھے راستہ کی ہدایت عطا کرتاہے، تاہم توبہ کے لئے شرط یہ ہے کہ اپنے ماضی کے گناہوں پر شرمندگی کے ساتھ  اب اور آئندہ گناہوں سے بچے اور بچنے کا پختہ عزم کرے۔ گناہوں  کا ارتکاب کرتے ہوئے توبہ کا کوئی معنی نہیں، البتہ اگرتوبہ کرتے وقت گناہ چھوڑدیا اور گناہ نہ کرنے کا عزم کیا مگر بتقاضائے بشریت توبہ کرنے کے بعد پھر اس سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا تو دوبارہ توبہ کرنا لازم ہوگا۔اس لئے اگر آپ نے گناہ ترک کردیاہے اور یہ دعا کررہے ہیں تو دعا قبول ہوگی اور آئندہ گناہوں سے بچنے میں مدد ملے گی۔  نیز اگر گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو ان کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3108/46-5084

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قبرستان کے درختوں کا ضرورت مندوں  کی قبروں میں استعمال کرنا جائز ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی غریب کی تجہیز و تکفین کے اخراجات میسر نہ ہوں تو قبرستان کے درختوں کو بیچ کراس کے کفن دفن میں رقم خرچ کرنا بھی درست ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3086/46-4968

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مریض کو اپنے مرض کے مطابق دوائیاں لینے میں کوئی حرج نہیں ہےآپ کسی ماہر طبیب سے رابطہ کریں اور ان کی ہدایات کے مطابق علاج کریں، اور اس سلسلہ میں بیوی کو مطلع کرنا ضروری نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3073/46-4924

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  حدیث شریف میں مندرجہ درج ذیل  دعا موجود ہے، اس مسنون دعا کا کثرت کے ساتھ اہتمام کریں ان شاء اللہ ، اللہ تعالی آسانیاں پیدا کریں گے: "اَللّهمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ مِنَ البَرصِ وَ الْجُنُونِ وَ الْجُذَامِ وَ مِنْ سَيْئِ الأسْقَامِ". 

نیز مندرجہ ذیل آیاتِ شفاء ہر روز صبح پڑھ کر ایک بوتل  پانی پر دم کرکے دن بھر مریض  کو پلائیں، اس سے بھی افاقہ ہوگا ان شاء اللہ۔

 "وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِينَ. يٰاَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَآءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ. وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ. يَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُه‘ فِيْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ. وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ وَلَا يَزِيْدُ الظّٰلِمِيْنَ اِلَّا خَسَارًا. وَاِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ. قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَآءٌ".(اعمال قرآنی،ص:29،ط:دار الاشاعت کراچی )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3072/46-4923

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پنجوقتہ نماز باجماعت کی پابندی سب سے پہلے ضروری ہے، اسی سے گناہوں اور  فحاشی کے کاموں سے نجات حاصل ہوگی۔ نیز آخرت کی فکر اور جہنم کا تصوربھی گناہوں سے اجتناب میں  بہت مؤثر ہے۔ ہر وقت اور خاص طور پر گناہ کے وقت  یہ دھیان میں رہے کہ اللہ تعالی ہم کو اس حالت میں بھی دیکھ رہاہے ، یہ خیال جس قدر مضبوط ہوگا اسی قدر اللہ کا خوف پیدا ہوگا اور گناہوں سے بچنے میں کافی مدد ملے گی۔ یقینا اللہ تعالی کا عذاب سخت ترین  ہے اور کس حالت میں موت آجائے کسی کو نہیں معلوم، اس لئے ہر وقت  اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی گناہ کی حالت میں  موت آجائے تو اللہ  کو کیا منھ دکھائیں  گے۔  بہتر ہوگا کہ کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرلی جائے اور بری صحبتوں سے مکمل اجتناب کیاجائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.   No.  3069/46-4922

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ قبر میں نیک اور برے ہمسایہ کا اثر دوسرے مردوں تک پہنچتا ہے۔ "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے مردوں کو نیک لوگوں کی  قبروں کے درمیان دفن کرو، اس واسطے کہ مردوں کو برے ہمسائے سے تکلیف پہنچتی ہے، جیسے زندوں کو برے ہمسایہ سے تکلیف پہنچتی ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارا کوئی مر جائے تو اس کو اچھا کفن دو اور جلدی لے جاؤ، اور قبر گہری تیار کرو، ،اور برے ہمسایہ سے اس کو دور رکھو، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آخرت میں بھی نیک ہمسایہ سے نفع ہوتا ہے؟ آپ نے پوچھا دنیا میں نفع ہوتا ہے، سب نے عرض کیا : ہاں ہوتا ہے، آپ نے فرمایا: اسی طرح آخرت میں بھی ہوتا ہے۔"

 نیک ہمسایہ کی وجہ سے عذاب میں تخفیف کرنا یا عذاب دور کردینا یہ اللہ تعالی کا فعل ہے،  کوئی نبی یا ولی اپنی مرضی سے کسی کے عذاب میں کمی کردے یا کسی سےعذاب دور کردے یہ اختیار کسی کو حاصل نہیں ۔  اس سلسلہ میں کسی پیر ،  ولی یا نبی کو خود مختارسمجھنا عقیدہ توحید کے خلاف ہے۔

تاہم جس کی برائیاں ظاہر ہوں اس کو نیک لوگوں کے درمیان دفن  کرنے سے نیک لوگوں کو تکلیف ہوگی، اس لئے ایسے شخص کی تدفین نیک لوگوں سے  دورکرنی چاہئے۔

"وأخرج أبو نعيم، وابن مندة ، عن أبي هريرة قال : قال رسول الله ﷺ ادفنوا موتاكم وسط قوم صالحين، فإن الميت يتأذى بجار السوء ، كما يتأذى الحى بجار السوء .۔۔واخرج ابن عساكر في تاريخ دمشق ، بسند ضعيف ، عن ابن مسعود ، قال : قال رسول الله ﷺ : ادفنوا موتاكم في وسط قوم صالحين فإن الميت يتأذى بجار السوء  ..""وأخرج الماليني عن ابن عباس عن النبي الا الله قال : إذا مات لأحد كم ا لميت ، فأحسنوا كفته، وعجلوه بإنجا زوصيته وأعمقوا له في قبره ، وجنبوه الجار السوء ، قيل يا رسول الله !وهل ينفع  الجار الصالح في الاخرة:قال هل ينفع في الدنيا،قال: نعم، قال:كذالك ينفع في الاخرة..." (شرح الصدور بشرح حال المونى والقبور ،با ب دفن العبد في الأرض التى خلق منها ،ص: 133۔۔۔ 135، ط: المكتبة التوفيقية)

قال علماؤنا: ويستحب لك ـ رحمك الله ـ أن تقصد بميتك قبور الصالحين.ومدافن أهل الخير.فندفنه معهم، وتنزله بإزائهم، وتسكنه في جوارهم، تبركا بهم، وتوسلاً إلى الله عز وجل بقربهم، وأن تجتنب به قبور من سواهم، ممن يخاف التأذي بمجاورته، والتألم بمشاهدة حاله حسب ما جاء في الحديث."(التذكرة بأحوال الموتى وأمور الآخرة،لشمس الدين القرطبي (ت ٦٧١)، ص:٣١٥،  ط:دار المنهاج)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3052/46-4920

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مذکورہ کا حکم نیت کے اعتبار سے مختلف ہوگا۔ اگر مقصد عیب کو کھولنا اور کسی کو ذلیل کرنا ہے تو یہ عمل ناجائز اور حرام ہے، لیکن اگر مقصد کسی کی اصلاح و تربیت اور گناہ سے بچانا ہے تو یہ عمل جائز ہے۔ مذکورہ صورت میں کوشش کی جائے کہ براہ راست لڑکی کے گھروالوں کو ہی ثبوت فراہم کئے جائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہوسوائے مذکورہ صورت کے  توپھر اس کو بھی اختیار کرنے کی گنجائش ہے۔ اس شرط کے ساتھ کہ بعد میں اس کو ڈیلیٹ کردیاجائے، اور حتی الامکان احتیاط سے کام لیاجائے ، حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ غیبت کا مقصد اگر اس کی اصلاح ہے تو اس پر غیبت کا اطلاق نہیں ہوگا۔الامور بمقاصدھا (الاشباہ)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند