متفرقات

Ref. No. 3549/47-9546

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         بہتر یہی ہے کہ آپ اپنے علاقہ کے کسی معتبر عالم سے مل کر کسی پیر طریقت کی رہنمائی حاصل کرلیں، ہماری نظر میں پھول پور کی خانقاہ، الہ آباد کے پیر طریقت حضرت مولانا قمرالزماں صاحب دامت برکاتہم کی خانقاہ بہتر رہیں گی۔ اور اطراف دیوبند میں حضرت مولانا حسین احمد صاحب پانڈولی ضلع سہارنپور اور میرٹھ میں حضرت مولانا صلاح الدین نقشبندی صاحب کی خانقاہ ہے، اسی طرح رائے پور کی مشہور خانقاہ اور وہیں پر حضرت مولانا محمد طاہر صاحب شیخ الحدیث قدیم مدرسہ رائے پور کی صحبت بھی آپ کے لئے مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ لکھنو کے اطراف کے علما سے ہماری زیادہ واقفیت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3531/47-9522

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔          مخلوط کوچنگ چلانا درست نہیں ہے، زید کو چاہئے کہ لڑکے لڑکیوں کا الگ الگ نظام بنائے۔ جھنڈا لہرانے کے وقت کھڑا ہونا ایک قومی عمل ہے جو درست ہے تاہم تصویروں کے سامنے ہاتھ جوڑنا درست نہیں ہے۔ مسلمان ٹیچر کو اس عمل سے پرہیز کرنا چاہئے۔ تاہم زید کی آمدنی حلال ہے، اس کے یہاں دعوت کھانا درست ہے۔

    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

-Ref. No. 3515/47-9483

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         دنیا میں بیماریاں ایک مسلمان کے لئے گناہوں کا کفارہ ، اور رفعِ درجات کا ذریعہ بھی ہوتی ہیں، اس لئے آپ بھی دعاء کرتے رہیں اور ان تکالیف پر اللہ کے لئے صبر کرتے رہیں، اللہ تعالیٰ آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور مشکلات کو دور فرما کر دنیا وآخرت میں راحت وسکون مقدر فرمائے۔ آمین

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3503/47-9500

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔        آپ کی کتاب آپ کی ملکیت ہے، آپ اس کو جس قیمت پر بیچنا چاہیں بیچ سکتے ہیں۔ اور بیچتے وقت مہنگا بیچنے کی وجہ بیان کردیتے ہیں تاکہ لوگوں کو کوئی بدگمانی نہ ہو تو اس طرح نفع زیادہ لینا درست ہے، اور پھر اسی نفع کی رقم سے مسابقہ کراکے  اعلی نمبرات والوں کو انعامات دیتے ہیں۔ اس طریقہ کار میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آپ مسابقہ کے اخراجات کے لئے الگ سے فیس لیتے ہیں مگر انعام آپ اپنے منافع کی رقم سے دیتے ہیں تو بھی کوئی تشویش کی بات نہیں ہے ایسا کرنا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3479/47-9404

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      معنوی اعتبار سے اس جملہ  دعائیہ کا استعمال غیرنبی کےلئے بھی جائز ہے، لیکن اصطلاحی اعتبار سے براہ راست غیرنبی کے لئے  اس جملہ کا استعمال  تعامل اہل سنت والجماعت کے خلاف ہے، اس لئے  کہ  اہلِ سنت والجماعت کے ہاں "علیہ السلام"انبیاء کے ساتھ خاص ہے، لہذا اس  کو غیرنبی کے لئے استعمال کرنے سے بچنا ضروری ہے۔  البتہ نبی کریم ﷺ  کے ذکر کے بعد تبعا  صحابہ وتابعین وغیرہم کے لئے جائز ہے۔

"أن قوله "علي علیه السلام" من شعار أهل البدعة، فلایستحسن في مقام المرام". (الفقه الأکبر، ص:167،ط:قدیمی)

(بابُ الصَّلاة على الأنبياءِ وآلهم تبعاً لهم صلى الله عليه وسلم)

أجمعوا على الصلاة على نبيّنا محمّدٌ صلى الله عليه وسلم، وكذلك أجمع من يُعتدّ به على جوازها واستحبابها على سائر الأنبياء والملائكة استقلالاً. ۔ ۔ وأما غيرُ الأنبياء، فالجمهور على أنه لا يُصلّى عليهم ابتداء، فلا يقال: أبو بكر صلى الله عليه وسلم.۔ ۔ ۔ واختُلف في هذا المنع، فقال بعض أصحابنا: هو حرام، وقال أكثرهم: مكروه كراهة تنزيه، وذهب كثير منهم إلى أنه خلاف الأوْلَى وليس مكروهاً، والصحيحُ الذي عليه الأكثرون أنه مكروه كراهة تنزيه لأنه شعار أهل البدع، وقد نُهينا عن شعارهم. ۔ ۔ ۔ والمكروه هو ما ورد فيه نهيٌ مقصود. ۔۔۔ قال أصحابنا: والمعتمدُ في ذلك أن الصَّلاةَ صارتْ مخصوصةً في لسان السلف بالأنبياء صلواتُ الله وسلامُه عليهم، كما أن قولنا: عزَّ وجلَّ، مخصوصٌ بالله سبحانه وتعالى، فكما لا يُقال: محمد عزَّ وجلَّ - وإن كان عزيزاً جليلاً - لا يُقال: أبو بكر أو عليّ صلى الله عليه وسلم وإن كان معناه صحيحاً. ۔ ۔ ۔ واتفقوا على جواز جعل غير الأنبياء تبعاً لهم في الصلاة، فيُقال: اللَّهمّ صل على محمد وعلى آل محمد، وأصحابه، وأزواجه وذرِّيته، وأتباعه، للأحاديث الصحيحة في ذلك، وقد أُمرنا به في التشهد، ولم يزل السلفُ عليه خارج الصلاة أيضاً. ۔ ۔ وأما السلام، فقال الشيخ أبو محمد الجوينيُّ من أصحابنا: هو في معنى الصلاة، فلا يُستعمل في الغائب، فلا يفرد به غير الأنبياء، فلا يُقال: عليّ عليه السلام، وسواء في هذا الأحياء والأموات.  ۔ ۔ ۔ وأما الحاضر، فيُخاطب به فيقال: سلام عليكَ، أو: سلام عليكم، أو: السَّلام عليكَ، أو: عليكم، وهذا مجمع عليه (الاذکار للنووی۔ كتاب الصّلاة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ص: ١١٨، ط: دار الفكر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3466/47-9389

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  جی،  رکھ لیجئے۔

   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3463/47-9386

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ پہلے آپ اپنی والدہ کی امانت والدہ کے حوالے کریں،  پھر وراثت میں جو کچھ آپ کے حصہ میں آتاہے وہ آپ کو ملے گا اور اس سلسلہ میں والدہ کی بات قبول کرنی چاہئے۔ انھوں نے آپ پر اعتماد کرکے پیسے دئے تو آپ کو ان پر اعتماد رکھنا چاہئے جبکہ وہ خود بھی دینے کا وعدہ کررہی ہیں۔ اس لئے آپ امانت والے معاملہ کو وراثت کے معاملہ سے الگ رکھیں اور والدہ کو ان کی امانت لوٹادیں۔ والدہ کے ساتھ حسن سلوک کی  یہی صورت ہے، بصورت دیگر بدسلوکی شمار ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3456/47-9368

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔         جس فلیٹ  میں والد کی رہائش تھی اس کو والد نے اپنی زندگی میں اپنی اہلیہ کےنام کیا  ، خالی مکان ان کے حوالہ نہیں کیا تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا۔ ہبہ کے تام ہونے کے لئے  خالی کرکےقبضہ میں دینا ضروری ہے۔ ہبہ تام نہ ہونے کی وجہ سے وہ فلیٹ والد کی ہی ملک شمار ہوگا اور اس میں مرحوم کی اہلیہ کے ساتھ تمام اولاد بھی وراثت میں شریک ہوگی۔ اور کسی وارث کے لئے وصیت بھی غیرمعتبر ہے، اس لئے وہ فلیٹ تمام ورثہ کا ہے۔

"قال: و لايجوز‌‌ الهبة فيما يقسم إلا ‌محوزة مقسومة وهبة المشاع فيما لايقسم جائزة (و لايجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة) ش: أي مفرغة عن إملاك الواهب." (بنايه، الهبة فیما یقسم، ج۔۱۰،ص۔۱۶۸،ط۔دارالکتب العلمیة)

"و تتم الهبة بالقبض الکامل." (فتاوی شامی، ردّ المحتار علی الدر المختار، کتاب الهبة، ج: ۵، ص:۶۹۰،ط۔ سعید) "

ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة۔ (الفتاوى الهندية (90/6):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3454/47-9374

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔        جو کچھ جوئے میں  رقم آئی اس میں سے اپنی جمع کردوہ رقم حلال ہے اور باقی اضافی رقم حرام ہے، اور حرام ذریعہ سے کمائی ہوئی رقم کا صدقہ کردینا واجب ہے، اس کو کسی بھی طرح اپنے استعمال میں  لانایا رفاہ عام میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لئے اس رقم کو بلا نیت ثواب غریبوں میں بانٹ دیاجائےگا۔

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبہ (شامی، ،مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ".  5/99ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3431/47/9322

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔          رسم و رواج اور مروجہ خرافات سے بچتے ہوئے اس طرح مجلس منعقد کرنے کی گنجائش ہے،  تاہم بہتر ہوگا کہ ایک دو دن آگے پیچھے کرلے ۔ فتاوٰی رشیدیہ میں ہے:سالگرہ یادداشت عمرِاطفال کے واسطے کچھ حرج نہیں معلوم ہوتااور بعد سال کے بوجہ اللہ کھلانابھی درست ہے۔ (حرمت وجواز کے مسائل، ص: 567، ط: عالمی مجلس تحفظ اسلام) باقی کیک کاٹنے  اور دیگر خرافات سے احتراز کریں۔

"قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «من تشبه بقوم فهو منهم» " رواه أحمد، وأبو داود.

(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب." (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :كتاب اللباس، الفصل الثاني ،222/8، ط: مكتبة حنفية)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند