متفرقات

Ref. No. 3335/46-9142

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خواب میں پاخانہ کرتے دیکھنا اپنے آپ سے حرام کمائی اور حرام مال سے دور رکھنے کی کوشش کی علامت ہے، اور اپنے ارد گرد گندگیوں کو دیکھنا حرام کاروبار میں ملوث ہونے کے خطرے کی علامت ہے، لہذا حرام کمائی سے اپنے آپ کو دور رکھیں۔ اور حرام کاروبار کرنے والوں سے بھی دور رہیں، اور اگر آپ کسی حرام کمائی میں شامل ہیں تو اس سے اپنے آپ کو دور کرلیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3325-46-9143

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ حسن سلوک شرعا کتنا مطلوب و محمود ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں اللہ تعالی نے اپنی بندگی کا حکم فرمایا وہاں وبالوالدین احسانا کے ذریعہ حسن سلوک کی تعلیم دی۔ سورۃ الاسراء آیت نمبر ۲۳ تا ۲۴ میں کلمہ اف کہنے کی ممانعت کے ساتھ حکم فرمایا ، وقل لھما قولا کریما ، ان سے نرم لہجہ میں بات کرو، واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ یعنی والدین کے سامنے عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرو۔ آپ کا والدین کے ساتھ مذکورہ بالا طرز عمل دنیا وآخرت کے اعتبار سے نقصاندہ ہے۔ اپنے غصہ پر قابو کرنے کے لئے نمازوں کی پابندی ، اللہ تعالیٰ سے دعاء کے اہتمام کے ساتھ استغفار کی کثرت کیجئے۔ اور لاحول ولاقوۃ الا باللہ پڑھ کر سینہ پر پھونک مارئیے۔ ان شاء اللہ آپ کو فائدہ ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3334/46-9137

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ٹی وی وغیرہ پر میچ وغیرہ دیکھنا بہت سی خرابیاں پیدا کرتاہے مثلا قصداً  نامحرم عورتوں کو دیکھنا ، ستر کھلے ہوئے مردوں کو دیکھنا حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : قل للمومنین یغضوا من ابصارھم ویحفظوا فروجھم ذلک ازکی لھم (سورہ نور آیت 30) حدیث شریف میں ہے: لعن اللہ الناظر والمنظور الیھا (بیہقی فی شعب الایمان) ۔ اسی طرح  جماعت کی نماز کا چھوڑدینا اپنے منصبی کاموں میں کوتاہی کا ہونا ، کتابوں سے دور ہونا، مزید ٹی وی موبائل وغیرہ کی ایسی عادت پڑجانا جو گھر اور معاشرہ پر بھی غلط اثرات ڈالتی ہے۔ آپ اگر ان تمام مذکورہ خرابیوں سے اپنے آپ کو بچاسکتے ہیں تو دیکھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref.  No.  3337/46-9139

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ واقعہ کو امام نووی ؒ اور صاحب سیراعلام النبلاء ج۷ص۴۰۰ وغیرہ نے بھی تحریر کیا ہے۔ اور ایسا ہونا کیوں ممکن نہیں ہے جبکہ یہ حضرات کم کھانے کے عادی تھے ، اور موجودہ زمانے کے کھانوں کی طرح اس وقت کے کھانے میں دواؤں کا استعمال بھی تھا۔ مزید یہ کہ غلو کا تعلق دوسرے کو پابند بنانے سے ہے جو مذموم ہے، خود برضا ایسی صورت پو عمل کرنا غلو نہیں  ہوتا، آپ کو چاہئے کہ صوفیائے کرام کے معمولات کا مطالعہ کریں ، ایسے اور بہت سے حضرات گزرے ہیں ، آپ ان کو اپنی حالت پر قیاس نہ کریں۔  آپ ﷺ اور صحابہ کرام کی سیرتیں مطالعہ میں لانے سے بھی آپ انشاء اللہ مطمئن ہوسکتے ہیں۔

 تہذیب الکمال فی اسماءالرجال ج۷ ص۳۴۳ میں ہے: قال حماد بن قریش قال سمعت اسد بن عمرو یقول صلی ابوحنیفۃ فیما حفظ علیہ صلوۃ الفجر بوضوئ العشائ اربعین سنۃ فکان عامۃ اللیل یقرٰ القرآن  فی رکعۃ الخ (مطبوعۃ موسسۃ الدراسۃ، ھکذا فی ردالمحتار ۱/۱۴۴ زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 3324/46-9133

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بینک کی طرف سے جمع شدہ رقم پر ملنےوالے سودکو بینک کی قسط  کی سود میں استعمال کرسکتے ہیں۔  البتہ سودی معاملات سے احتراز کرنا چاہئے اور سودی قرضے لینے سے پہلے کسی ماہر مفتی سے مسئلہ پوچھ لینا چاہئے تاکہ کسی حرام کا ارتکاب نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3285/46-9012

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حصن المسلم دعاؤں پر مشتمل ایک کتاب ہے، جس میں تقریبا تمام مواقع کی دعائیں درج ہیں، یہ کتاب عمدہ اور بہت مفید ہے، اور اس کو پڑھ کر ان دعاؤں  کا اہتمام کرنا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3278/46-8088

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کسی شخص کی مکمل آمدنی حرام و ناجائز ہے،  تو اس کے گھر کا کھانا ،پینا اور اس سے ہدیہ لینا ناجائز ہے، اور اگر وہ سمجھانے کے باوجود ناجائز آمدنی ترک نہ کرے تو اس سے ترک تعلق کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3275/46-8087

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں دین میں کسی کام کا زیادہ یا کم کرنا جسکی اصل کتاب و سنت سے نہ ہو، اور جو صحابہ کرام، تابعین، اور تبع تابعین کے دور کے بعد ہواہو اور اس کو دین و ثواب کا کام سمجھ کر کیاجائے۔  ۔لیکن اگر کوئی کام یا عمل ایسا ہو جو شرعا ممنوع نہ ہو اور دین کا لازمی حصہ سمجھ کر نہ کیاجائے بلکہ محض تجربہ کی بنیاد پر کیاجائےتو اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،  اور بدعت کی مذکورہ بالا تعریف اس پر صادق نہیں  آتی۔ بسم اللہ کے بارے میں مخصوص تاریخ ومخصوص تعدادکے وظیفہ کا بھی یہی حکم ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3273/46-8093

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی نے سب کو پیدا کیا اور وہی سب کی تقدیر لکھنے والا اور بھلائی برائی کی تمیز دینے والا ہے،  دنی میں جو کچھ کسی بندے وہ وہ عطاکرتاہے اس کا فضل ہے، وہ جب چاہے کسی  کو کوئی نعمت دیدے اور جب چاہے کسی سے کوئی نعمت  سلب کرلے، وہ فعال لمایرید ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں اور کسی کے غلط یا صحیح کرنے سے اس کی ذات میں کوئی فرق نہیں آتاہے۔ اس نے بندوں کو نیکی کا حکم کیا ہے اور برائیوں سے ہر حال میں دور رہنے کی تلقین کی ہے، اگر کوئی بندہ پھر بھی گناہ کرتاہے اور اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتاہے تو اللہ تعالی اس کو دنیا میں بھی سزا دے سکتاہے اور یہ بھی ہوسکتاہے کہ دنیا میں چھوڑدے لیکن  آخرت میں اس کو سزا دے۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ گناہ سے زیادہ کسی کو سزا نہیں ملتی ہے ،کیونکہ گناہ پر سزا اور مصیبت کے تعلق سے اللہ تعالی کے یہاں ضابطہ عدل کا ہے اور اگر گناہ کرے اور اس پر سزا نہ ملے نہ دنیا میں نہ آخرت میں تو یہ اللہ کا فضل ہے۔  کس کو سزا دینی ہے اور کس کو معاف کرنا ہے  اور کس کو کس گناہ پر کتنی سزا دینی ہے وغیرہ یہ سب اس کے اختیار میں ہے، بندے صرف اس کے پابند ہیں کہ اللہ کے احکام کو بجالائیں اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کریں، اور ہر وقت اس کی جستجو میں رہیں کہ اللہ کی مرضی کیسے حاصل کی جائے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی بعض بندوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں اور اس میں ان سے گناہوں کو مٹاتے ہیں یا پھر یہ مشکلات زندگی، آخرت میں ان کےلئے رفع درجات کا سبب ہوتی ہیں۔  یہ تمام باتیں احادیث میں بہت تفصیل سے آئی ہیں کہ دنیا کی مشکلات کا اجر جب کل قیامت میں ملے گا تو آدمی یہ خواہش کرے گا کہ کاش دنیا میں اس کو کوئی راحت میسر نہ ہوتی وغیرہ۔ اس لئے آپ اللہ کے فیصلوں پر کوئی سوال قائم نہ کریں  اور اس کے بارے میں بالکل نہ سوچیں، بلکہ اپنی حالت بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں اور اللہ سے اچھے کی امید رکھیں کہ اللہ تعالی جو بھی کرتے ہیں وہ ہماری بھلائی کے لئے ہوتاہے گرچہ اس کے پیچھے سبب کا علم ہم کو نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3260/46-8071

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ صرف اپنے تین لاکھ روپئے اور تین تولہ سونا واپس لے سکتے ہیں، مزید نفع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فاسد میں مشتری صرف اپنے ثمن کا  ہی حق دار ہوتاہے، مزید کسی چیز کا بھی حق دار نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند