Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 3258/46-8057
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں سب برابر ہیں، اور حدیث میں آیاہے:"لا فضل لعربی علی عجمی الا بالتقوی" ، تاہم نکاح میں کفاءت کا حکم افضل اور غیرافضل ہونے کی بناء پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی مصلحت ہے، اس لئے کہ نکاح کے ذریعہ دو اجنبی ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور زندگی گزارنے اور رہن سہن کے مختلف ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نکاح میں وہ پائیداری نہیں ہوتی جو شرعا مطلوب ہے، اس لئے نکاح میں کفائت کا حکم دیاگیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پٹھان انصاری کا کفو ہے یا نہیں؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ عجمیوں کے حق میں نسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے، اس لئے کہ عام طور پر عجمیوں کے پاس نسب محفوظ نہیں ہے ، اس لئے پٹھان انصاری کا کفو ہوسکتاہے، ہمارے معاشرہ میں نکاح میں برادری وغیرہ کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح عرب و عجم میں کفاءت نہ ہونا بھی سابقہ مصلحت کے پیش نظر ہے، آپ غیرانصاری برادری میں شادی کرسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہندوستان میں کفاءت دیانت، مال اور پیشہ میں معتبر ہے اس کے علاوہ میں نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
BottoTop of Form
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3221/46-7093
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت اسلامیہ میں انسانی اعضاء و اجزاء کے احترام کے پیش نظر بلاضرورت شدیدہ ان کا استعمال اور ان سے انتفاع جائز نہیں ہے۔ عورت کا دودھ اس کا جزء ہے اس سے بھی انتفاع جائز نہیں ہے، تاہم بچے کی شیرخوارگی کے زمانہ میں ضرورتاً بچے کے لیے ماں کا دودھ پینے کی اجازت ہے اور بچہ کے دو سال کا ہوجانے کے بعد جب ضرورت نہیں رہی تو اب دودھ پینا بچہ کے لئے بھی جائز نہیں رہتاہے۔یعنی کسی بڑے یا چھوٹے کا کسی عورت کا دودھ پینا جائز نہیں ہے چاہے عورت کی مرضی سے ہو ، اور شوہر کے لئے بھی اپنی بیوی کا دودھ پینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کبھی پستان منھ میں لیا اور دودھ نکل آیا تو اس کو تھو ک دے، اس کو نگل لیناجائز نہیں ہے ۔ تاہم اس سے رشتہ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
"(مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى،.... لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية". (شامی، كتاب الرضاع، ج:3، ص:209/210/211، ط:ايج ايم سعيد)
"(ولم يبح الإرضاع بعد مدته)؛ لأنه جزء آدمي، و الانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح، شرح الوهبانية". )الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 211(
"مص رجل ثدي زوجته لم تحرم". )الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 225(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3201/46-7053
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چوری کرکے بجلی استعمال کرنا جائز نہیں ہے، نیز اس میں ملکی قانون کی خلاف ورزی بھی ہے اور اپنی توہین کا شدید خطرہ بھی ۔اس لئے بلامیٹر کے بجلی استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ البتہ جو کھانا پکایا اس کا کھانا جائز ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3187/46-7020
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرنسی کے بدلے سونے کی خرید و فروخت "بیعِ صرف" کہلاتی ہ۔ اگر آپ نے بینک کو پیسے دئے اور اس نے اس رقم کے بدلے سونے کی مقدار متعین کرکے آپ کے اکاونٹ میں سونا لکھ دیا اور آپ کو اس کااختیار دیا کہ جب چاہیں آپ اس سونے کو بھی سکتے ہیں اور بیچ کر اس کی مقدار کو بھی لے سکتے ہیں تو یہ صورت جائز ہے۔ کیونکہ آپ نے بینک سے سونا خریدا اور اس کو بینک کے پاس ہی رکھ دیا اورسونا بینک میں موجود ہے کہ جب آپ چاہیں اس کو لے سکتے ہیں، تو یہ آپ کا قبضہ شمار ہوگا جو بیع صر ف میں ضروری ہے۔
شیئرمارکیٹ میں جو سونے کی خریدوفروخت ہے اس میں سونا حقیقتا موجود نہیں ہوتاہے بلکہ صرف ڈیجیٹل طور پر نظر آتاہے، اور اگر آپ اس سونے کو لینا چاہیں تو وہ آپ کو سونا فراہم نہیں کریں گے، بلکہ آپ کو ہر حال میں اس کو بیچنا ہی ہوگا تاکہ ڈیجیٹل طریقہ پر اس کا نفع یا نقصان آپ کو بتایاجاسکے۔ اس لئے جب اس میں سونے پر قبضہ نہیں ہے کیونکہ آپ کو سونا نہیں مل سکتاہے تو یہ بیع قبل القبض والی شکل ہوگئی جو ناجائز ہے۔ اس لئے آن لائن سونے کا کاروبار درست نہیں ہے۔
هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.
قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق." (البحر الرائق، باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتب الاسلامى)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3176/46-8029
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر چار رکعت والی نماز میں غلطی سے دو رکعت پر سلام پھیر دے تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ جب تک کوئی منافی نماز عمل نہ کیا ہو اور اس کا رخ قبلہ سے نہ ہٹاہو تو وہ کھڑے ہوکر اسی حالت میں باقی رکعت نماز پڑھ لے، اور سجدہ سہو کرلے، اس کی نماز ہوجائے گی۔ جہاں تک مولانا رفعت صاحب کی کتاب کا مسئلہ ہے مجھے مذکورہ مسئلہ نہیں ملا۔
مصل رباعیۃ فریضۃ او ثلاثیۃ و لو وترا انہ اتمھا ثم علم قبل اتیانہ بمناف انہ صلی رکعتین او علم انہ ترک سجدۃ صلبیۃ او تلاویۃ اتمھا بفعل ما ترکہ وسجد للسھو لبقاء حرمۃ الصلوۃ ۔ حاصل المسئلۃ انہ سلم ساھیا علی الرکعتین مثلا وھو فی مکانہ ولم یصرف وجھہ عن القبلۃ ولم یات بمناف عاد الی الصلوۃ من غیر تحریمۃ وبنی علی ما مضی واتم ما علیہ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3176/46-8029
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر چار رکعت والی نماز میں غلطی سے دو رکعت پر سلام پھیر دے تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ جب تک کوئی منافی نماز عمل نہ کیا ہو اور اس کا رخ قبلہ سے نہ ہٹاہو تو وہ کھڑے ہوکر اسی حالت میں باقی رکعت نماز پڑھ لے، اور سجدہ سہو کرلے، اس کی نماز ہوجائے گی۔ جہاں تک مولانا رفعت صاحب کی کتاب کا مسئلہ ہے مجھے مذکورہ مسئلہ نہیں ملا۔
مصل رباعیۃ فریضۃ او ثلاثیۃ و لو وترا انہ اتمھا ثم علم قبل اتیانہ بمناف انہ صلی رکعتین او علم انہ ترک سجدۃ صلبیۃ او تلاویۃ اتمھا بفعل ما ترکہ وسجد للسھو لبقاء حرمۃ الصلوۃ ۔ حاصل المسئلۃ انہ سلم ساھیا علی الرکعتین مثلا وھو فی مکانہ ولم یصرف وجھہ عن القبلۃ ولم یات بمناف عاد الی الصلوۃ من غیر تحریمۃ وبنی علی ما مضی واتم ما علیہ۔ )حاشیۃ الطحطاوی ص 473)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3157/46-6067
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ بھی ہمبستری کے حکم میں ہے، اور اس سے بھی غسل واجب ہوتاہے۔ اس لئے اس صورت مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوگئی ، اور رجعت بھی ہوگئی۔ اب شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہے، آئندہ اس طرح کی بات کرنے سے گریز کرے۔ خیال رہے کہ دُبر (پیچھے کے راستہ ) میں وطی کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اب مردوعورت دونوں پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل حرام پر توبہ و استغفار کریں اور حسب گنجائش صدقہ بھی کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3127/46-6005
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بظاہرآپ والد صاحب کی دوکان پر ان کا معاون بن کر بیٹھتے ہیں، وہ دوکان آپ کی نہیں ہے اور نہ ہی والد نے کوئی تنخواہ مقرر کی ہے تو آپ اپنے والدکی اجازت کے بغیر اس کی آمدنی میں سے کچھ نہیں لے سکتے ہیں۔ اگر والد صاحب نے صراحتا یا اشارۃ اجازت نہیں دی ہے تو والد صاحب کو خبر کیجئے میں کبھی کبھی پیسے لیتارہتاہوں، اگر وہ گذشتہ پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کی دائیگی آپ پر لازم ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3126/46-6004
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شرمگا ہ پر کوئی نجاست لگی ہوئی نہیں تھی، تو محض منی جیسی بدبو کی وجہ سے آپ کی پاکی پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ پسینہ کی بدبو چاہے کتنی ہی خراب ہو اور کہیں پر بھی ہو اس سے آدمی ناپاک نہیں ہوتاہے۔ جب منی نہیں ہے تو منی جیسی بدبو آنے سے آپ ناپاک شمار نہیں ہونگے، تاہم صفائی کا خیال رکھیں اور استنجاکرتے وقت شرمگاہ کو اچھے سے دھولیا کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3129/46-6008
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ منت کا کھانا صرف غریبوں کے لئے ہوتاہے، اس میں سے مالدار لوگ اور منت ماننے والا اور اس کے گھروالے نہیں کھاسکتے ؛ جبکہ مسجد کے اندر نماز پڑھنےوالے غریب اور مالدار دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ۔ لہذا صورت مسئولہ میں آپ کا مستحق زکوۃ دس افراد کو کھانا کھلادینا یا دس افراد کے صدقہ الفطر کی مقدار گیہوں یا اس کی قیمت صدقہ کردینا کافی ہوگا۔ اور ایک مستحق کوپورا غلہ یا قیمت دیدیں یا کئی مساکین میں تقسیم کریں ،دونوں کی اجازت ہے۔ خیال رہے کہ مسجد کے نمازیوں میں سے ہی دس مساکین کوکھانا کھلانا یا صدقہ الفطر کی مقدار دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی مستحق زکوٰۃ ہو اس کو یہ صدقہ دینا کافی ہوگا۔
نذر لفقراء مكة جاز الصرف لفقراء غيرها) لما تقرر في كتاب الصوم أن النذر غير المعلق لا يختص بشيء نذر أن يتصدق بعشرة دراهم من الخبز فتصدق بغيره جاز إن ساوى العشرة) كتصدقه بثمنه۔ مطلب النذر غير المعلق لا يختص بزمان ومكان ودرهم وفقير (قوله لما تقرر في كتاب الصوم) ... فلو نذر التصدق يوم الجمعة بمكة بهذا الدرهم على فلان فخالف جاز وكذا لو عجل قبله فلو عين شهرا للاعتكاف أو للصوم فعجل قبله عنه صح، وكذا لو نذر أن يحج سنة كذا فحج سنة قبلها صح أو صلاة في يوم كذا فصلاها قبله لأنه تعجيل بعد وجود السبب، وهو النذر فيلغو التعيين بخلاف النذر المعلق، فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط اه.... قلت: وكما لا يتعين الفقير لا يتعين عدده ففي الخانية إن زوجت بنتي فألف درهم من مالي صدقة لكل مسكين درهم فزوج ودفع الألف إلى مسكين جملة جاز. (الدر المختار مع رد المحتار: (740/3، ط: الحلبي)
[في النذر بالصدقة]النذر إما أن يكون بالصدقة أو بالصوم أو الصلاة أو الاعتكاف فنبدأ بالنذر بالصدقة فنقول: إما أن يعين الوقت بنذره فيقول: لله علي أن أتصدق بدرهم غدا أو يعين المكان فيقول: في مكان كذا أو يعين المتصدق عليه فيقول: على فلان المسكين أو يعين الدرهم فيقول: لله علي أن أتصدق بهذا الدرهم وفي الوجوه كلها يلزمه التصدق بالمنذور عندنا، ويلغو اعتبار ذلك التقييد حتى لو تصدق به قبل مجيء ذلك الوقت أو في غير ذلك المكان أو على غير ذلك المسكين أو بدرهم غير الذي عينه خرج عن موجب نذره . . . . . [وبعد اسطر بَين دليلهم بقوله:] وعلماؤنا - رحمهم الله - قالوا ما يوجبه المرء على نفسه معتبر بما أوجب الله تعالى عليه ألا ترى أن ما لله تعالى من جنسه واجبا على عباده صح التزامه بالنذر وما ليس لله تعالى من جنسه واجبا على عباده لا يصح التزامه بالنذر ثم ما أوجب الله تعالى من التصدق بالمال مضافا إلى وقت يجوز تعجيله قبل ذلك الوقت كالزكاة بعد كمال النصاب قبل حولان الحول وصدقة الفطر قبل مجيء يوم الفطر فكذلك ما يوجبه العبد على نفسه وهذا؛ لأن صحة النذر باعتبار معنى القربة وذلك في التزام الصدقة لا في تعيين المكان والزمان والمسكين والدرهم. (المبسوط للسرخسي: (129/3، ط: دار المعرفة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند