Fiqh

Ref. No. 3287/46-9013

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار  لوگ فوت ہوئے مگرآپ کا معمول غائبانہ نماز جنازہ کا نہیں تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم  کی وفات کے بعد  دور دراز علاقوں میں مقیم صحابہ سے بھی  غائبانہ نماز جنازہ  ثابت نہیں ہے۔  اس لئے ویڈیو کال پر نماز جنازہ پڑھنا یا جنازہ کی نماز کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے، اس طرح کے رواج کو جلد ختم  کرنے کی ضرورت ہے۔  (2) مسجد میں کچھ صفیں خالی ہیں ان کو چھوڑ کر مسجد کی دیوار سے متصل مسجد کے باہر صف بنانا مکروہ ہے البتہ نماز درست ہوجائے گی۔ لیکن اگرمسجد  اور باہر کی صفوں کے درمیان گزرگاہ  ہے تو پھر اس طرح قتداء درست نہ ہوگی بلکہ پہلے مسجد کی صفوں کو پُرکرنا ضروری ہوگا۔

(1) فلاتصح علی غائب وصلاة النبي صلی الله علیه وسلم علی النجاشي لغویة أوخصوصیة(شامی، باب صلاۃ الجنازۃ، 2/209،ط:سعید)

 عن عمران بن حصین أنّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن أخاکم النجاشي توفي فقوموا فصلّوا علیہ، فقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وصفّوا خلفہ فکبروا اربعًا وہم لا یظنّون إلا إن جنازتہ بین یدیہ رواہ ابن حبان کما في نصب الرایة وفي روایة: فصلینا خلفہ ونحن لا نری إلا أن الجنازة قُدّامنا (فتح الباري، نقلاً عن إعلاء السنن)

 أخرج الحاکم وصحّحہ عن النبي - علیہ السلام- أنہ قال: کان آدم رجلاً أشعر طوالا کأنہ نخلة سحوق فلمّا حضرہ الموت، نزلت الملائکة بحنوطہ․․․ فلما مات علیہ الصلاة والسلام․․․ صلّوا علیہ (الطحطاوي علی المراقي: ۱/۵۸۰)

(2) في الدر المختار: (ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقا، كأن قام في الطريق ثلاثة، وكذا اثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنه لكراهة صلاته صار وجوده. كعدمه في حق من خلفه.اھ وفي رد المحتار: (قوله إلا إذا اتصلت الصفوف) الاستثناء عائد إلى الطريق والنهر دون الخلاء لأن الصفوف إذا اتصلت في الصحراء لم يوجد الخلاءتأمل، وكذا لو اصطفوا على طول الطريق صح إذا لم يكن بين الإمام والقوم مقدار ما تمر فيه العجلة، وكذا بين كل صف وصف كما في الخانية وغيرها.اھ (1/ 584)۔ وفی الطحطاوی: وأن لایفصل بین الإمام والماموم نہر یمر فیه الزوروق (إلی قوله) ولا طریق تمر فیة العجلة ولیس فیه صفوف متصلة ولامنع فی الصلاة فاصل یسع فیه صفین علی المفتی بهاھ (۱/ ۱۵۹)۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3260/46-8071

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ صرف اپنے تین لاکھ روپئے اور تین تولہ سونا واپس لے سکتے ہیں، مزید نفع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فاسد میں مشتری صرف اپنے ثمن کا  ہی حق دار ہوتاہے، مزید کسی چیز کا بھی حق دار نہیں ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3258/46-8057

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں سب برابر ہیں، اور حدیث میں آیاہے:"لا فضل لعربی علی عجمی الا بالتقوی" ، تاہم نکاح میں کفاءت کا حکم افضل اور غیرافضل ہونے کی بناء پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی مصلحت ہے، اس لئے کہ نکاح کے ذریعہ دو اجنبی ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور زندگی گزارنے اور رہن سہن کے مختلف ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نکاح میں وہ پائیداری نہیں ہوتی جو شرعا مطلوب ہے، اس لئے نکاح میں کفائت کا حکم دیاگیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ  پٹھان انصاری کا کفو ہے یا نہیں؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ عجمیوں کے حق میں نسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے، اس لئے کہ عام طور پر عجمیوں کے پاس نسب محفوظ نہیں ہے ، اس لئے پٹھان انصاری کا کفو ہوسکتاہے، ہمارے معاشرہ میں نکاح میں برادری وغیرہ کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح عرب و عجم میں کفاءت نہ ہونا بھی سابقہ مصلحت کے پیش نظر ہے، آپ غیرانصاری برادری میں شادی کرسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہندوستان میں کفاءت  دیانت، مال اور پیشہ میں معتبر ہے اس کے علاوہ میں نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

BottoTop of Form

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3221/46-7093

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت اسلامیہ میں انسانی اعضاء و اجزاء  کے احترام کے پیش نظر بلاضرورت شدیدہ ان کا استعمال اور ان سے انتفاع  جائز نہیں ہے۔ عورت کا دودھ اس کا جزء ہے اس سے بھی انتفاع جائز نہیں ہے، تاہم بچے کی شیرخوارگی کے زمانہ میں ضرورتاً بچے کے لیے  ماں کا دودھ پینے کی اجازت ہے اور بچہ کے دو سال کا ہوجانے کے بعد جب ضرورت نہیں رہی تو اب دودھ پینا بچہ کے لئے بھی جائز نہیں رہتاہے۔یعنی  کسی بڑے یا چھوٹے کا کسی عورت کا دودھ پینا جائز نہیں ہے چاہے عورت کی مرضی سے ہو ، اور شوہر کے لئے  بھی اپنی بیوی کا دودھ پینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کبھی پستان منھ میں لیا اور دودھ نکل آیا تو اس کو تھو ک دے، اس کو نگل لیناجائز  نہیں ہے ۔ تاہم اس سے رشتہ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

"(مص من ثدي آدمية) ولو بكرا أو ميتة أو آيسة، وألحق بالمص الوجور والسعوط (في وقت مخصوص) هو (حولان ونصف عنده وحولان) فقط (عندهما وهو الأصح) ولو بعد الفطام محرم وعليه الفتوى،.... لأنه جزء آدمي والانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح شرح الوهبانية". (شامی، كتاب الرضاع، ج:3، ص:209/210/211، ط:ايج ايم سعيد)

"(ولم يبح الإرضاع بعد مدته)؛ لأنه جزء آدمي، و الانتفاع به لغير ضرورة حرام على الصحيح، شرح الوهبانية". )الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 211(

"مص رجل ثدي زوجته لم تحرم". )الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (3 / 225(

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3201/46-7053

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چوری کرکے  بجلی استعمال کرنا جائز نہیں ہے، نیز اس میں ملکی  قانون کی خلاف ورزی  بھی ہے اور اپنی توہین کا شدید خطرہ بھی ۔اس لئے بلامیٹر کے بجلی استعمال کرنا درست نہیں ہے۔   البتہ جو کھانا پکایا اس کا کھانا جائز ہے ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3187/46-7020

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کرنسی کے بدلے سونے کی خرید و فروخت "بیعِ صرف" کہلاتی ہ۔ اگر آپ نے بینک کو پیسے دئے اور اس نے اس رقم کے بدلے سونے کی مقدار متعین کرکے آپ کے اکاونٹ میں سونا لکھ دیا اور آپ کو اس کااختیار دیا کہ جب چاہیں آپ اس  سونے کو بھی سکتے ہیں اور بیچ کر اس کی مقدار کو بھی لے سکتے ہیں تو یہ صورت جائز ہے۔ کیونکہ آپ نے بینک سے سونا خریدا اور اس کو بینک کے پاس ہی رکھ دیا اورسونا بینک میں موجود ہے کہ جب آپ چاہیں اس کو لے سکتے ہیں، تو یہ آپ کا قبضہ شمار ہوگا جو بیع صر ف میں ضروری ہے۔

شیئرمارکیٹ میں جو سونے کی خریدوفروخت ہے اس میں سونا حقیقتا موجود نہیں ہوتاہے بلکہ صرف ڈیجیٹل طور پر نظر آتاہے، اور اگر آپ اس سونے کو لینا چاہیں تو وہ آپ کو سونا فراہم نہیں کریں گے، بلکہ آپ کو ہر حال میں اس کو بیچنا ہی ہوگا تاکہ ڈیجیٹل طریقہ پر اس کا نفع یا نقصان آپ کو بتایاجاسکے۔ اس لئے جب اس میں سونے پر قبضہ نہیں ہے کیونکہ آپ کو سونا نہیں مل سکتاہے تو یہ بیع قبل القبض والی شکل ہوگئی جو ناجائز ہے۔ اس لئے آن لائن سونے کا کاروبار درست نہیں ہے۔   

هو بيع بعض الأثمان ببعض) كالذهب والفضة إذا بيع أحدهما بالآخر أي بيع ما من جنس الأثمان بعضها ببعض وإنما فسرناه به ولم نبقه على ظاهره ليدخل فيه بيع المصوغ بالمصوغ أو بالنقد فإن المصوغ بسبب ما اتصل به من الصنعة لم يبق ثمنا صريحا ولهذا يتعين في العقد ومع ذلك بيعه صرف ...شرائطه فأربعة، الأول قبض البدلين قبل الافتراق بالأبدان.

قوله: فلو تجانسا شرط التماثل والتقابض) أي النقدان بأن بيع أحدهما بجنس الآخر فلا بد لصحته من التساوي وزنا ومن قبض البدلين قبل الافتراق." (البحر الرائق، باب الصرف، ج:6، ص:209، ط:دارالكتب الاسلامى)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3176/46-8029

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر چار رکعت والی نماز میں غلطی سے دو رکعت پر سلام پھیر دے تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ جب تک کوئی منافی نماز عمل نہ کیا ہو اور اس کا رخ قبلہ سے نہ ہٹاہو تو وہ کھڑے ہوکر اسی حالت میں باقی رکعت نماز پڑھ لے، اور سجدہ سہو کرلے، اس کی نماز ہوجائے گی۔ جہاں تک مولانا رفعت صاحب کی کتاب کا مسئلہ ہے مجھے مذکورہ مسئلہ نہیں ملا۔

 مصل رباعیۃ فریضۃ او ثلاثیۃ و لو وترا انہ اتمھا ثم علم قبل اتیانہ بمناف انہ صلی رکعتین او علم انہ ترک سجدۃ صلبیۃ او تلاویۃ اتمھا بفعل ما ترکہ وسجد للسھو لبقاء حرمۃ الصلوۃ ۔ حاصل المسئلۃ انہ سلم ساھیا علی الرکعتین مثلا وھو فی مکانہ ولم یصرف وجھہ عن القبلۃ ولم یات بمناف عاد الی الصلوۃ من غیر تحریمۃ وبنی علی ما مضی واتم ما علیہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3176/46-8029

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر چار رکعت والی نماز میں غلطی سے دو رکعت پر سلام پھیر دے تو اس کے لئے حکم یہ ہے کہ جب تک کوئی منافی نماز عمل نہ کیا ہو اور اس کا رخ قبلہ سے نہ ہٹاہو تو وہ کھڑے ہوکر اسی حالت میں باقی رکعت نماز پڑھ لے، اور سجدہ سہو کرلے، اس کی نماز ہوجائے گی۔ جہاں تک مولانا رفعت صاحب کی کتاب کا مسئلہ ہے مجھے مذکورہ مسئلہ نہیں ملا۔

 مصل رباعیۃ فریضۃ او ثلاثیۃ و لو وترا انہ اتمھا ثم علم قبل اتیانہ بمناف انہ صلی رکعتین او علم انہ ترک سجدۃ صلبیۃ او تلاویۃ اتمھا بفعل ما ترکہ وسجد للسھو لبقاء حرمۃ الصلوۃ ۔ حاصل المسئلۃ انہ سلم ساھیا علی الرکعتین مثلا وھو فی مکانہ ولم یصرف وجھہ عن القبلۃ ولم یات بمناف عاد الی الصلوۃ من غیر تحریمۃ وبنی علی ما مضی واتم ما علیہ۔ )حاشیۃ الطحطاوی ص 473)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3157/46-6067

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    یہ بھی ہمبستری کے حکم میں ہے، اور اس سے بھی غسل واجب ہوتاہے۔ اس لئے اس صورت مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوگئی ، اور رجعت بھی ہوگئی۔ اب شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہے، آئندہ اس طرح کی بات کرنے سے گریز کرے۔ خیال رہے کہ دُبر (پیچھے کے راستہ ) میں وطی کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اب مردوعورت دونوں پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل حرام پر توبہ و استغفار کریں اور حسب گنجائش صدقہ  بھی کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3127/46-6005

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بظاہرآپ والد صاحب کی دوکان پر ان کا معاون بن کر بیٹھتے ہیں، وہ دوکان آپ کی نہیں ہے اور نہ ہی والد  نے کوئی تنخواہ مقرر کی ہے تو  آپ  اپنے والدکی اجازت کے بغیر اس کی آمدنی میں سے کچھ نہیں لے سکتے ہیں۔ اگر والد صاحب نے صراحتا یا اشارۃ اجازت نہیں دی ہے تو والد صاحب کو خبر کیجئے میں کبھی کبھی پیسے لیتارہتاہوں،  اگر وہ گذشتہ پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کی دائیگی آپ پر لازم ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند