Fiqh

Ref. No. 3473/47-9399

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔    نابالغ بہن کے حصہ کی زمین کو بیچنے کا اختیار اس کے بھائی کو حاصل نہیں ہے۔ لہذا نابالغ بہن کی زمین بیچنا کسی کے لئے جائز نہ ہوگا۔ جب تک بالغ نہ ہوجائے اس زمین میں کسی طرح کے تصرف کا کسی کو اختیار نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3460/47-9378

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر آپ چند مردوں کے ساتھ باپردہ  عورتوں میں  بیان کریں تو اس میں فتنہ کا بھی اندیشہ نہیں ہے، اس لئے آپ کا عورتوں میں تمام احتیاطی تدابیر کے ساتھ بیان کرنا درست ہے،  محض اس وجہ سے کہ آپ کی شادی نہیں ہوئی ہے آپ کا بیان کرنا ناجائز نہیں ہوگا۔ آپ اپنا کام جاری رکھیں تاہم احتیاط میں کوئی کمی واقع نہ ہو اور جب بھی محسوس ہو کہ بے احتیاطی ہورہی ہے اور جو فائدہ مطلوب تھا  وہ نقصان کا باعث ہورہاہے اور بار بار کہنے کے بعد بھی عورتیں  پردہ کا خیال نہیں کررہی ہیں  تو آپ اس سلسلہ کو بند کردیں۔

   واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3444/47-9364

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:  ۔    چندہ دینے والوں نے جس مقصد کے لئے چندہ دیا ہے اسی میں اس رقم کو صَرف کرنا لازم ہے۔ لیکن اگر مطلوبہ مقصد میں صرف کرنا کسی وجہ سے دشوار ہو تو چندہ دینے والوں سے دوبارہ اجازت لے کر اس کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کیاجاسکتاہے۔ اگر مسجد میں اعلان کردیا جائے کہ چندہ جس مقصد کے لئے جمع کیا گیا تھا وہاں بھیجنا ممکن نہیں ہے اس لئے اگر آپ چندہ دینے والے اجازت دیں تو یہ رقم امام صاحب کو بطور تعاون دیدیاجائے اور جو لوگ اپنی رقم واپس لینا چاہیں وہ واپس لے سکتے ہیں، تو اس طرح امام صاحب کو وہ رقم دی جاسکتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3404/46-9305

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔    جس زیور کے بنانے کا موصوفہ نے آرڈر دیا ہے  اس کی زکوۃ ان پر لازم نہیں ہوگی جب تک کہ ان کے پاس وہ زیور تیار ہوکر نہ آجائے۔ البتہ سال پورا ہونے کے دن جتنے پیسے ان کے پاس تھے اور جو اڈوانس رقم جمع کی تھی وہ سب زکوۃ میں محسوب ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3395/46-9260

In the name of Allah the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Yes, it is permissible to do so. Offering a sacrifice on behalf of the Prophet Muhammad ﷺ is allowed and considered a virtuous (recommended) act. It is performed as a gesture of love, reverence, and devotion.

If you are sacrificing a buffalo—which allows for up to seven participants—you may dedicate one share with the intention of offering it on behalf of the Prophet ﷺ.

Sacrificing on behalf of the Prophet ﷺ and the righteous predecessors (may Allah have mercy on them), with the intention of conveying the reward to them, is valid and commendable, and it carries spiritual reward.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Fiqh

Ref. No. 3343/46-9208

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فصل کاٹنے والے کی اجرت اسی خاص فصل سے طے کرنا جائز نہیں ہے، اس میں اجیر کا اپنے عمل کی اجرت لینا لازم آتاہے، جو کہ”قفیزطحان“کے قبیل سے ہے جس کی حدیث میں واضح ممانعت آئی ہے۔ البتہ اگر مستاجر غلہ کی ایک مقدار متعین کردے اور اس کو اجازت ہو کہ وہ کہیں سے بھی وہ غلہ دے تو پھر یہ معاملہ جائز ہوگا اور جو فصل کاٹی گئی ہے اس میں سے بھی دینا اس کے لئے درست ہوگا۔

ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)

’’وَكَذَا قَالُوا: لَايجوز إِذا اسْتَأْجر حماراً يحمل طَعَاماً بقفيز مِنْهُ، لِأَنَّهُ جعل الْأجر بعض مَا يخرج من عمله، فَيصير فِي معنى قفيز الطَّحَّان وَقد نهى عَنهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَأخرجه الدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيّ من حَدِيث أبي سعيد الْخُدْرِيّ، قَالَ: نهى عَن عسب الْفَحْل وَعَن قفيز الطَّحَّان، وَتَفْسِير: قفيز الطَّحَّان: أَن يسْتَأْجر ثوراً ليطحن لَهُ حِنْطَة بقفيز من دقيقه، وَكَذَا إِذا اسْتَأْجر أَن يعصر لَهُ سمسماً بِمن من دهنه أَو اسْتَأْجر امْرَأَة لغزل هَذَا الْقطن أَو هَذَا الصُّوف برطل من الْغَزل، وَكَذَا اجتناء الْقطن بِالنِّصْفِ، ودياس الدخن بِالنِّصْفِ، وحصاد الْحِنْطَة بِالنِّصْفِ، وَنَحْو ذَلِك، وكل ذَلِك لَا يجوز۔(عمدۃ القاری شرح البخاری، کتاب الزراعۃ، باب المزارعۃ بالشطر و نحوہ، 12/166 ،ط: دار احیاء التراث)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3341/46-9179

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (۱) سودی رقم سے مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلا اور غسل خانہ بنانا درست نہیں ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اتنی مقدار رقم غریبوں  میں بلا نیت ثواب تقسیم کردی جائے، پھر اس کے بعد بیت الخلا اور غسل خانہ کا استعمال درست ہوگا۔

(۲) خرچ کم ہو اور آمدنی زیادہ  بتاکر چندہ کرنا دینی کام کے لئے جھوٹ بولنا ہے ، جھوٹ بولنا عام حالات میں گناہ کبیرہ ہے تو پھر دینی کام کرنے والے جھوٹ کا سہارا لے کر چندہ کریں ، یہ اور بھی قبیح عمل ہے۔ بہتر ہوگا کہ کام اور ضرورت کے مواقع تلاش کریں پھر اس ضرورت کے نام پر چندہ کریں تاکہ جھوٹ کے گناہ سے بچ سکیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3331/46-9144

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جامعہ بنوریہ کا فتوی صحیح ہے، امام شافعی ؒ کے یہاں دن میں نیت کرنے سے روزہ صحیح نہیں ہوتاہے اس لئے اس مسئلہ میں شبہہ پیدا ہوگیا اور شبہہ کی بناءپر کفارہ ساقط ہوجاتاہے۔

واذا اصبح غیرناو للصوم ثم نوی قبل الزوال ثم اکل فلاکفارۃ علیہ کذا فی الکثف الکبیر (فتاوی ہندیہ 1/206)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3316/46-9184

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال سود سے بچنے کے جو دو حیلے اختیار کیے گئے ہیں (1) قسطوں کے ذریعہ خرید و فروخت (2) کرنسی کی قسط وار خرید و فروخت دونوں شکلیں اپنی شرائط کے ساتھ درست ہیں مثلاََ قسطوں کی خرید و فروخت میں قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ کرتے وقت یہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھارکا وغیرہ، اسی طرح کرنسی کی قسط میں دو باتوں کا لحاظ ہونا چاہئے: (۱) مجلس عقد میں بدلے میں دی جانے والی کرنسی کی مقدار طے ہوجائے، تاکہ آئندہ نزاع کا اندیشہ نہ رہے۔ (۲) ایک کرنسی پر مجلس عقد میں پوری طرح قبضہ پایا جائے؛ تاکہ اُدھار در اُدھار بیع کی حرمت متحقق نہ ہو. ان شرائط و قیود کے ساتھ یہ دونوں شکلیں شرعا درست ہوں گی۔

 و يجوز البيع بثمن حال و مؤجل إذا كان الأجل معلوما ...  واذا عدم الوصفان الجنس و المعنى المضموم إليه حل التفاضل و النساء .. الخ. (الهداية للمرغينانى، كتاب البيوع، ج ٣، ص: ٧٩/٢١، ط: فيصل ديوبند) يجوز أن يتفق العاقدان على أن الثمن يدفع بأقساط بشرط أن يكون قدر كل قسط و موعد تسليمه معلوما فإن كان فيه جهالة مفضية إلى النزاع فسد العقد ... الخ (فقه البيوع، ج ٢، ص: ١١٢٢، ط: دار القلم دمشق) تعتبر عملات الدولتين جنسين مختلفين، فتجوز مبادلة عملة دولة بعملة دولة أخرى بالزيادة والنقصان إذا رضى به الجانبان .. الخ. (نوازل فقهية معاصرة، ج ١، ص: ٤٤٨، ط: مكتبة الأيمان سهارنفور(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3344/46-9178

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ایسی بات بولنے سے احتراز کرنا چاہئے، البتہ اس مذکورہ صورت میں کفر نہیں ہوا اور نکاح باقی ہے، اس میں فرض نماز کا انکار یا استہزا نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند