Fiqh

Ref. No. 3157/46-6067

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    یہ بھی ہمبستری کے حکم میں ہے، اور اس سے بھی غسل واجب ہوتاہے۔ اس لئے اس صورت مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوگئی ، اور رجعت بھی ہوگئی۔ اب شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہے، آئندہ اس طرح کی بات کرنے سے گریز کرے۔ خیال رہے کہ دُبر (پیچھے کے راستہ ) میں وطی کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ اب مردوعورت دونوں پر لازم ہے کہ اپنے اس فعل حرام پر توبہ و استغفار کریں اور حسب گنجائش صدقہ  بھی کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3127/46-6005

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بظاہرآپ والد صاحب کی دوکان پر ان کا معاون بن کر بیٹھتے ہیں، وہ دوکان آپ کی نہیں ہے اور نہ ہی والد  نے کوئی تنخواہ مقرر کی ہے تو  آپ  اپنے والدکی اجازت کے بغیر اس کی آمدنی میں سے کچھ نہیں لے سکتے ہیں۔ اگر والد صاحب نے صراحتا یا اشارۃ اجازت نہیں دی ہے تو والد صاحب کو خبر کیجئے میں کبھی کبھی پیسے لیتارہتاہوں،  اگر وہ گذشتہ پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کی دائیگی آپ پر لازم ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3126/46-6004

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر شرمگا ہ پر کوئی نجاست لگی ہوئی نہیں تھی، تو محض منی جیسی بدبو کی وجہ سے آپ کی پاکی پر کوئی فرق نہیں آئے گا۔ پسینہ کی بدبو چاہے کتنی ہی خراب ہو اور کہیں پر بھی ہو اس سے آدمی ناپاک نہیں ہوتاہے۔ جب منی نہیں ہے تو منی جیسی بدبو آنے سے آپ ناپاک شمار نہیں ہونگے، تاہم صفائی کا خیال رکھیں اور استنجاکرتے وقت شرمگاہ کو اچھے سے دھولیا کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3129/46-6008

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   منت کا کھانا صرف غریبوں کے لئے ہوتاہے، اس میں سے مالدار لوگ اور منت ماننے والا  اور اس کے گھروالے نہیں کھاسکتے ؛ جبکہ مسجد کے اندر نماز پڑھنےوالے غریب اور مالدار دونوں طرح کے لوگ ہوتے ہیں، ۔ لہذا صورت مسئولہ میں آپ کا مستحق زکوۃ دس افراد کو کھانا کھلادینا یا دس افراد کے صدقہ الفطر کی مقدار گیہوں یا اس کی قیمت صدقہ کردینا کافی ہوگا۔ اور ایک مستحق کوپورا غلہ یا قیمت دیدیں  یا کئی مساکین میں تقسیم کریں ،دونوں کی اجازت ہے۔ خیال رہے کہ مسجد کے نمازیوں میں سے ہی دس مساکین کوکھانا کھلانا یا صدقہ الفطر کی مقدار دینا ضروری نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی مستحق زکوٰۃ ہو اس کو یہ صدقہ دینا کافی ہوگا۔ 

 نذر ‌لفقراء ‌مكة جاز الصرف ‌لفقراء غيرها) لما تقرر في كتاب الصوم أن النذر غير المعلق لا يختص بشيء نذر أن يتصدق بعشرة دراهم من الخبز فتصدق بغيره جاز إن ساوى العشرة) كتصدقه بثمنه۔ مطلب النذر غير المعلق لا يختص بزمان ومكان ودرهم وفقير (قوله لما تقرر في كتاب الصوم) ... فلو نذر التصدق يوم الجمعة بمكة بهذا الدرهم على فلان فخالف جاز وكذا لو عجل قبله فلو عين شهرا للاعتكاف أو للصوم فعجل قبله عنه صح، وكذا لو نذر أن يحج سنة كذا فحج سنة قبلها صح أو صلاة في يوم كذا فصلاها قبله لأنه تعجيل بعد وجود السبب، وهو النذر فيلغو التعيين بخلاف النذر المعلق، فإنه لا يجوز تعجيله قبل وجود الشرط اه.... قلت: وكما لا يتعين الفقير لا يتعين عدده ففي الخانية إن زوجت بنتي فألف درهم من مالي صدقة لكل مسكين درهم فزوج ودفع الألف إلى مسكين جملة جاز. (الدر المختار مع رد المحتار: (740/3، ط: الحلبي)

 [في النذر بالصدقة]النذر إما أن يكون بالصدقة أو بالصوم أو الصلاة أو الاعتكاف فنبدأ بالنذر بالصدقة فنقول: إما أن يعين الوقت بنذره فيقول: لله علي أن أتصدق بدرهم غدا أو يعين المكان فيقول: في مكان كذا أو يعين المتصدق عليه فيقول: على فلان المسكين أو يعين الدرهم فيقول: لله علي أن أتصدق بهذا الدرهم وفي الوجوه كلها يلزمه التصدق بالمنذور عندنا، ويلغو اعتبار ذلك التقييد حتى لو تصدق به قبل مجيء ذلك الوقت أو في غير ذلك المكان أو على غير ذلك المسكين أو بدرهم غير الذي عينه خرج عن موجب نذره . . . . . [وبعد اسطر بَين دليلهم بقوله:] وعلماؤنا - رحمهم الله - قالوا ما يوجبه المرء على نفسه معتبر بما أوجب الله تعالى عليه ألا ترى أن ما لله تعالى من جنسه واجبا على عباده صح التزامه بالنذر وما ليس لله تعالى من جنسه واجبا على عباده لا يصح التزامه بالنذر ثم ما أوجب الله تعالى من التصدق بالمال مضافا إلى وقت يجوز تعجيله قبل ذلك الوقت كالزكاة بعد كمال النصاب قبل حولان الحول وصدقة الفطر قبل مجيء يوم الفطر فكذلك ما يوجبه العبد على نفسه وهذا؛ لأن صحة النذر باعتبار معنى القربة وذلك في التزام الصدقة لا في تعيين المكان والزمان والمسكين والدرهم. (المبسوط للسرخسي: (129/3، ط: دار المعرفة)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3116/46-6017

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سوال کے تعلق سے  چند چیزوں کی وضاحت مطلوب ہے:۔ 1۔ ممبران سے جو فیس ممبرشپ کےنام سے لی جارہی ہے وہ صرف ایک بار کے لئے ہے یا ہر ماہ ان کو یہ فیس جمع کرنی ہوگی؟ 2۔ یہ بھی وضاحت ضروری ہے ممبران کو واوچرس دینے کے لئے آپ فنڈ کہاں سے مہیا کریں گے۔ 3۔ پروموپیکیج کے ممبران کے درمیان جو قرعہ اندازی ہوگی تو نام نکلنے والے کو عمرہ پر بھیجنے کے لئے فنڈ کا انتظام کہاں سے ہوگا؟ 4۔ اسی طرح بچت ڈائری میں پیسے جمع کرنے والے اپنے پیسے کے مالک ہوں گے اور ان سے کوئی چارج نہیں لیاجائے گا، تو پھر ایک شخص کو مفت میں عمرہ کرنے کے لئے فنڈ کہاں سے آئے گا۔ ان امور کی وضاحت کے بعد ہی سوال پر غور کیاجائے گا ان شاء اللہ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3111/46-5086

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  (1،2) ہونٹوں سے اجڑنے والی چمڑی اگر  بالکل خشک ہو کہ اس میں کوئی تری نہ ہو  تو وہ پاک  ہے خواہ چمڑے کو اجاڑنے میں درد ہو یا نہ ہو، اوراگر یہ پانی میں گرجائے تو پانی بھی پاک ہی رہے گا۔ اور اگر چمڑی کے ساتھ رطوبت ہو تو پھر ایسی صورت میں وہ چمڑی ناپاک ہوگی،  اور یہ رطوبت کم ہو یا زیادہ ہو پانی میں گرنے سے  پانی ناپاک ہوجائے گا اگر ماء قلیل ہو۔

"قال الولوالجي - رحمه الله - ‌جلد ‌الإنسان ‌إذا ‌وقع ‌في ‌الإناء ‌أو ‌قشره إن كان قليلا مثل ما يتناثر من شقوق الرجل وما أشبهه لا تفسد وإن كان كثيرا تفسد ومقدار الظفر كثير؛ لأن هذه من جملة لحم الآدمي ولو وقع الظفر في الماء لا يفسده اهـ. قال قاضي خان جلد الآدمي أو لحمه إذا وقع في الماء إن كان مقدار الظفر يفسده، وإن كان دونه لا يفسده." (تبیین الحقائق، كتاب الطهارة، ماء البئر إذا وقعت فيه نجاسة، ج:1، ص:27، ط:دار الكتاب الإسلامي)

"(قوله: جلدة الآدمي إذا وقعت في الماء القليل إلخ) قال ابن أمير حاج وإن كان دونه لا يفسده صرح به غير واحد من أعيان المشايخ ومنهم من عبر بأنه إن كان كثيرا أفسده وإن كان قليلا لا يفسده وأفاد أن الكثير ما كان مقدار الظفر وأن القليل ما دونه، ثم في محيط الشيخ رضي الدين تعليلا لفساد الماء بالكثير؛ لأن هذا من جملة لحم الآدمي، وقد بان من الحي فيكون نجسا إلا أن في القليل تعذر الاحتراز عنه فلم يفسد الماء لأجل الضرورة وفيه قبل هذا قال محمد عصب الميتة وجلدها ‌إذا ‌يبس ‌فوقع ‌في ‌الماء ‌لا ‌يفسده؛ لأن باليبس زالت عنه الرطوبة النجسة." (البحر الرائق، كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:‌‌جلدة آدمي إذا وقعت في الماء القليل، ج:1، ص:243، ط:دار الكتاب الإسلامي)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Fiqh

Ref. No. 3091/46-4973

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نجاست کو  مگ سے پانی پھینک کر دھونے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے نجاست دھلتی اور زائل ہوتی ہے، نجاست اس سے پھیلتی نہیں ہے۔ پانی جو نجاست پر لگا وہ بھی گرگیا اور جو ارد گرد لگا وہ بھی نیچے چلاگیا، ہاں اگر نجاست کے ذرات  بھی پھیلے ہوں تو پھر ان کو دھونا لازم ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3088/46-4975

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  1:۔ اگر کسی ناپاک جگہ پر اتنا پانی بہادیاجائے کہ جس سے غالب گمان ہو کہ نجاست زائل ہوگئی تو وہ جگہ پاک ہوجائے گی۔ 2:۔ پاخانہ کے مقام کو دھونے میں جو پانی سائڈ میں لگ جاتاہے اس کو ناپاک نہیں کہاجائے گا بشرطیکہ کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہو، اگر نجاست لگی ہو  تو اس کا دھونا لازم ہوگا۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3061/46-4896

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فضائل اعمال ایک معتبر کتاب ہے، اور پانچ منٹ کا مدرسہ بھی معتبر ہے، دونوں کتابیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور عام مسلمانوں کے فائدے کے لئے ہی لکھی گئی ہیں، دونوں میں قرآن و حدیث ہی کی باتیں شامل ہیں۔ اس لئے دونوں کتابوں میں سے کوئی بھی تعلیم کے لئے منتخب کی جاسکتی ہے، اور کونسی کتاب زیر تعلیم ہو اس سلسلہ میں امام صاحب کو اختیار دیدینا چاہئے ورنہ ہر شخص اپنے حساب سے کتابیں لائے گا اور امام کو اپنی مطلوبہ کتاب پڑھنے کا مکلف کرے گا اور اس طرح مسجدکا نظم و نسق ایک مذا ق بن جائے گا۔ مقتدیوں پر لازم ہے  کہ وہ کتاب کی باتوں پر توجہ دیں اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو عمل پر لانے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں، اوراختلافی چیزوں میں ہرگز نہ پڑھیں۔ مسجد میں مختلف مزاج و مذاق کے لوگ آتے ہیں اور ہر ایک کی رعایت کرنا امام صاحب کے بس میں نہیں ہے، اس لئے کتاب کا انتخاب امام کے سپرد کردیا جائے، شاید  اسی میں خیرہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3049/46-4860

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  ہمیں اس ڈرنک کے بارے میں تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ کسی بھی ڈرنک میں اگر اس کے مشمولات پاک اور حلال ہوں تو ان کا استعمال جائز ہوتاہے، اگر آپ کو کسی  ڈرنک میں ناپاکی یا حرام کایقین نہ ہو تو اس کو استعمال کرسکتے ہیں تاہم اگر  شبہہ ہو تو احتراز کرنا بہتر ہے۔" اعلم أن الأصل في الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى {هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: ٢٩] وقال {كلوا مما في الأرض حلالا طيبا} [البقرة: ١٦٨] وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة." (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر كتاب الأشربة،ج:2،ص:568،ط: دار إحياء التراث العربي)

حكم الأطعمة:الأصل في جميع الأطعمة الحل إلا النجس، والضار، والخبيث، والمسكر، والمخدر، وملك الغير.فالنجس كله خبيث وضار، فهو محرم." (موسوعۃ الفقہ الاسلامی، الباب الثالث عشر كتاب الأطعمة والأشربة،باب الأطعمة،ج:4،ص:283،ط:بیت الافکار الدولیۃ)

"كل شيء كره أكله والانتفاع به على وجه من الوجوه فشراؤه وبيعه مكروه، وكل شيء لا بأس بالانتفاع به فلا بأس ببيعه". (الوجیز فی ایضاح القواعد الفقہیۃ الکلیۃ، المقدمة السابعة: نشأن القواعد الفقهية وتدوينها وتطورها،ج:1،ص:52،ط:مؤسسة الرسالة العالمية)  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند