Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 3395/46-9260
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Yes, it is permissible to do so. Offering a sacrifice on behalf of the Prophet Muhammad ﷺ is allowed and considered a virtuous (recommended) act. It is performed as a gesture of love, reverence, and devotion.
If you are sacrificing a buffalo—which allows for up to seven participants—you may dedicate one share with the intention of offering it on behalf of the Prophet ﷺ.
Sacrificing on behalf of the Prophet ﷺ and the righteous predecessors (may Allah have mercy on them), with the intention of conveying the reward to them, is valid and commendable, and it carries spiritual reward.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Fiqh
Ref. No. 3343/46-9208
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فصل کاٹنے والے کی اجرت اسی خاص فصل سے طے کرنا جائز نہیں ہے، اس میں اجیر کا اپنے عمل کی اجرت لینا لازم آتاہے، جو کہ”قفیزطحان“کے قبیل سے ہے جس کی حدیث میں واضح ممانعت آئی ہے۔ البتہ اگر مستاجر غلہ کی ایک مقدار متعین کردے اور اس کو اجازت ہو کہ وہ کہیں سے بھی وہ غلہ دے تو پھر یہ معاملہ جائز ہوگا اور جو فصل کاٹی گئی ہے اس میں سے بھی دینا اس کے لئے درست ہوگا۔
ولو دفع غزلًا لآخر لینسجہ لہ بنصفہ أی بنصف الغزل أو استأجر بغلًا لیحمل طعامہ ببعضہ أو ثورًا لیطحن برّہ ببعض دقیقہ فسدت فی الکلّ؛ لأنّہ استأجرہ بجزءٍ من عملہ، والأصل فی ذلک نہیہ - صلّی اللّہ علیہ وسلّم - عن قفیز الطّحّان إلخ (درمختار مع الشامي: ۹/۷۹، باب الإجارة الفاسدة، ط: زکریا، دیوبند)
’’وَكَذَا قَالُوا: لَايجوز إِذا اسْتَأْجر حماراً يحمل طَعَاماً بقفيز مِنْهُ، لِأَنَّهُ جعل الْأجر بعض مَا يخرج من عمله، فَيصير فِي معنى قفيز الطَّحَّان وَقد نهى عَنهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَأخرجه الدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيّ من حَدِيث أبي سعيد الْخُدْرِيّ، قَالَ: نهى عَن عسب الْفَحْل وَعَن قفيز الطَّحَّان، وَتَفْسِير: قفيز الطَّحَّان: أَن يسْتَأْجر ثوراً ليطحن لَهُ حِنْطَة بقفيز من دقيقه، وَكَذَا إِذا اسْتَأْجر أَن يعصر لَهُ سمسماً بِمن من دهنه أَو اسْتَأْجر امْرَأَة لغزل هَذَا الْقطن أَو هَذَا الصُّوف برطل من الْغَزل، وَكَذَا اجتناء الْقطن بِالنِّصْفِ، ودياس الدخن بِالنِّصْفِ، وحصاد الْحِنْطَة بِالنِّصْفِ، وَنَحْو ذَلِك، وكل ذَلِك لَا يجوز۔(عمدۃ القاری شرح البخاری، کتاب الزراعۃ، باب المزارعۃ بالشطر و نحوہ، 12/166 ،ط: دار احیاء التراث)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3341/46-9179
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (۱) سودی رقم سے مسجد یا مدرسہ کے بیت الخلا اور غسل خانہ بنانا درست نہیں ہے، اس لئے ضروری ہے کہ اتنی مقدار رقم غریبوں میں بلا نیت ثواب تقسیم کردی جائے، پھر اس کے بعد بیت الخلا اور غسل خانہ کا استعمال درست ہوگا۔
(۲) خرچ کم ہو اور آمدنی زیادہ بتاکر چندہ کرنا دینی کام کے لئے جھوٹ بولنا ہے ، جھوٹ بولنا عام حالات میں گناہ کبیرہ ہے تو پھر دینی کام کرنے والے جھوٹ کا سہارا لے کر چندہ کریں ، یہ اور بھی قبیح عمل ہے۔ بہتر ہوگا کہ کام اور ضرورت کے مواقع تلاش کریں پھر اس ضرورت کے نام پر چندہ کریں تاکہ جھوٹ کے گناہ سے بچ سکیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3331/46-9144
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جامعہ بنوریہ کا فتوی صحیح ہے، امام شافعی ؒ کے یہاں دن میں نیت کرنے سے روزہ صحیح نہیں ہوتاہے اس لئے اس مسئلہ میں شبہہ پیدا ہوگیا اور شبہہ کی بناءپر کفارہ ساقط ہوجاتاہے۔
واذا اصبح غیرناو للصوم ثم نوی قبل الزوال ثم اکل فلاکفارۃ علیہ کذا فی الکثف الکبیر (فتاوی ہندیہ 1/206)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3316/46-9184
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال سود سے بچنے کے جو دو حیلے اختیار کیے گئے ہیں (1) قسطوں کے ذریعہ خرید و فروخت (2) کرنسی کی قسط وار خرید و فروخت دونوں شکلیں اپنی شرائط کے ساتھ درست ہیں مثلاََ قسطوں کی خرید و فروخت میں قسط کی رقم متعین ہو، مدت متعین ہو، معاملہ کرتے وقت یہ متعین ہو کہ نقد کا معاملہ کیا جارہا ہے یا ادھارکا وغیرہ، اسی طرح کرنسی کی قسط میں دو باتوں کا لحاظ ہونا چاہئے: (۱) مجلس عقد میں بدلے میں دی جانے والی کرنسی کی مقدار طے ہوجائے، تاکہ آئندہ نزاع کا اندیشہ نہ رہے۔ (۲) ایک کرنسی پر مجلس عقد میں پوری طرح قبضہ پایا جائے؛ تاکہ اُدھار در اُدھار بیع کی حرمت متحقق نہ ہو. ان شرائط و قیود کے ساتھ یہ دونوں شکلیں شرعا درست ہوں گی۔
و يجوز البيع بثمن حال و مؤجل إذا كان الأجل معلوما ... واذا عدم الوصفان الجنس و المعنى المضموم إليه حل التفاضل و النساء .. الخ. (الهداية للمرغينانى، كتاب البيوع، ج ٣، ص: ٧٩/٢١، ط: فيصل ديوبند) يجوز أن يتفق العاقدان على أن الثمن يدفع بأقساط بشرط أن يكون قدر كل قسط و موعد تسليمه معلوما فإن كان فيه جهالة مفضية إلى النزاع فسد العقد ... الخ (فقه البيوع، ج ٢، ص: ١١٢٢، ط: دار القلم دمشق) تعتبر عملات الدولتين جنسين مختلفين، فتجوز مبادلة عملة دولة بعملة دولة أخرى بالزيادة والنقصان إذا رضى به الجانبان .. الخ. (نوازل فقهية معاصرة، ج ١، ص: ٤٤٨، ط: مكتبة الأيمان سهارنفور(
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندFiqh
Ref. No. 3344/46-9178
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایسی بات بولنے سے احتراز کرنا چاہئے، البتہ اس مذکورہ صورت میں کفر نہیں ہوا اور نکاح باقی ہے، اس میں فرض نماز کا انکار یا استہزا نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3287/46-9013
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار لوگ فوت ہوئے مگرآپ کا معمول غائبانہ نماز جنازہ کا نہیں تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دور دراز علاقوں میں مقیم صحابہ سے بھی غائبانہ نماز جنازہ ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ویڈیو کال پر نماز جنازہ پڑھنا یا جنازہ کی نماز کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے، اس طرح کے رواج کو جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ (2) مسجد میں کچھ صفیں خالی ہیں ان کو چھوڑ کر مسجد کی دیوار سے متصل مسجد کے باہر صف بنانا مکروہ ہے البتہ نماز درست ہوجائے گی۔ لیکن اگرمسجد اور باہر کی صفوں کے درمیان گزرگاہ ہے تو پھر اس طرح قتداء درست نہ ہوگی بلکہ پہلے مسجد کی صفوں کو پُرکرنا ضروری ہوگا۔
(1) فلاتصح علی غائب وصلاة النبي صلی الله علیه وسلم علی النجاشي لغویة أوخصوصیة(شامی، باب صلاۃ الجنازۃ، 2/209،ط:سعید)
عن عمران بن حصین أنّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن أخاکم النجاشي توفي فقوموا فصلّوا علیہ، فقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وصفّوا خلفہ فکبروا اربعًا وہم لا یظنّون إلا إن جنازتہ بین یدیہ رواہ ابن حبان کما في نصب الرایة وفي روایة: فصلینا خلفہ ونحن لا نری إلا أن الجنازة قُدّامنا (فتح الباري، نقلاً عن إعلاء السنن)
أخرج الحاکم وصحّحہ عن النبي - علیہ السلام- أنہ قال: کان آدم رجلاً أشعر طوالا کأنہ نخلة سحوق فلمّا حضرہ الموت، نزلت الملائکة بحنوطہ․․․ فلما مات علیہ الصلاة والسلام․․․ صلّوا علیہ (الطحطاوي علی المراقي: ۱/۵۸۰)
(2) في الدر المختار: (ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقا، كأن قام في الطريق ثلاثة، وكذا اثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنه لكراهة صلاته صار وجوده. كعدمه في حق من خلفه.اھ وفي رد المحتار: (قوله إلا إذا اتصلت الصفوف) الاستثناء عائد إلى الطريق والنهر دون الخلاء لأن الصفوف إذا اتصلت في الصحراء لم يوجد الخلاءتأمل، وكذا لو اصطفوا على طول الطريق صح إذا لم يكن بين الإمام والقوم مقدار ما تمر فيه العجلة، وكذا بين كل صف وصف كما في الخانية وغيرها.اھ (1/ 584)۔ وفی الطحطاوی: وأن لایفصل بین الإمام والماموم نہر یمر فیه الزوروق (إلی قوله) ولا طریق تمر فیة العجلة ولیس فیه صفوف متصلة ولامنع فی الصلاة فاصل یسع فیه صفین علی المفتی بهاھ (۱/ ۱۵۹)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3260/46-8071
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں آپ صرف اپنے تین لاکھ روپئے اور تین تولہ سونا واپس لے سکتے ہیں، مزید نفع کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ بیع فاسد میں مشتری صرف اپنے ثمن کا ہی حق دار ہوتاہے، مزید کسی چیز کا بھی حق دار نہیں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3258/46-8057
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ صحیح ہے کہ اسلام میں سب برابر ہیں، اور حدیث میں آیاہے:"لا فضل لعربی علی عجمی الا بالتقوی" ، تاہم نکاح میں کفاءت کا حکم افضل اور غیرافضل ہونے کی بناء پر نہیں ہے بلکہ یہ ایک انتظامی مصلحت ہے، اس لئے کہ نکاح کے ذریعہ دو اجنبی ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتے ہیں، اور زندگی گزارنے اور رہن سہن کے مختلف ہونے کی وجہ سے بسا اوقات نکاح میں وہ پائیداری نہیں ہوتی جو شرعا مطلوب ہے، اس لئے نکاح میں کفائت کا حکم دیاگیا ہے۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پٹھان انصاری کا کفو ہے یا نہیں؟ تو معلوم ہونا چاہئے کہ عجمیوں کے حق میں نسب میں کفاءت کا اعتبار نہیں ہے، اس لئے کہ عام طور پر عجمیوں کے پاس نسب محفوظ نہیں ہے ، اس لئے پٹھان انصاری کا کفو ہوسکتاہے، ہمارے معاشرہ میں نکاح میں برادری وغیرہ کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔ اسی طرح عرب و عجم میں کفاءت نہ ہونا بھی سابقہ مصلحت کے پیش نظر ہے، آپ غیرانصاری برادری میں شادی کرسکتے ہیں، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، ہندوستان میں کفاءت دیانت، مال اور پیشہ میں معتبر ہے اس کے علاوہ میں نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
BottoTop of Form
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3225/46-7096
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ (۱) کتاب المسائل کا مسئلہ درست ہے، کتب فقہ سے اسی مسئلہ کی تائید ہوتی ہے کہ سجدہ کرنے سے پہلے پہلے واپس آکر سورہ ملانا واجب ہے اور دوبارہ رکوع کرنا فرض ہے ، اس لئے کہ ضم سورہ کی طرف عود کرنے سے رکوع ختم ہوگیا ، اب اگردوبارہ رکوع نہیں کیا تو فرض کے ترک کی وجہ سے نماز سجدہ سہو کے باوجود درست نہیں ہوگی۔ (٢) فقہی عبارتوں سے یہی واضح ہوتاہے کہ رکوع سے قیام کی طرف عود کرکے سورہ ملانا واجب ہے ، اگر عود نہ کرے بلکہ نماز کو جاری رکھے اور سجدہ سہو کرلے تو بھی نماز درست ہوجائے گی۔ (٣، ۴) سورہ ملانے کے لئے رکوع سے قیام کی طرف عود کرنے سے رکوع کالعدم ہوگیا، اس لئے کہ قرات فرض ہے اور قرات کا جو کچھ حصہ پڑھاجائے وہ پہلے ہو یا بعد میں وہ فرض ہی واقع ہوگا ، نیز قرات اور رکوع میں ترتیب کو فرض قراردیاگیاہے، اس لئے دوبارہ رکوع نہ کرنے کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائےگی اور سجدہ سہو سے بھی نماز درست نہ ہوگی بلکہ نمازلوٹانی ہوگی۔
(و تذكرها) أي السورة (فی رکوعہ قرأها) أي بعد عوده إلى القيام (وأعاد الركوع) لأن ما يقع من القراءة في الصلاة يكون فرضاً فيرتفض الركوع ويلزمه إعادته لأن الترتيب بين القراءة والركوع فرض كما مر بيانه في الواجبات، حتى لو لم يعده تفسد صلاته (رد المحتار مع الدر المختار،کتاب الصلاۃ، ج02، ص311)
لوتذکر فی الرکوع او بعد ما رفع رأسہ منہ أنہ ترک الفاتحۃ أو السورۃ یعود وینتقض رکوعہ (بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ،فصل فی القنوت، ج02 ،ص234)
لو قرأ الفاتحۃ و آیتین فخر راکعاً ساھیاً ثم تذکر عاد و اتم ثلاث آیات و علیہ سجود السھو (فتاوی عالمگیری،کتاب الصلاۃ، ج01، ص126)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند