Frequently Asked Questions
Fiqh
Ref. No. 3091/46-4973
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نجاست کو مگ سے پانی پھینک کر دھونے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس سے نجاست دھلتی اور زائل ہوتی ہے، نجاست اس سے پھیلتی نہیں ہے۔ پانی جو نجاست پر لگا وہ بھی گرگیا اور جو ارد گرد لگا وہ بھی نیچے چلاگیا، ہاں اگر نجاست کے ذرات بھی پھیلے ہوں تو پھر ان کو دھونا لازم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3088/46-4975
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ 1:۔ اگر کسی ناپاک جگہ پر اتنا پانی بہادیاجائے کہ جس سے غالب گمان ہو کہ نجاست زائل ہوگئی تو وہ جگہ پاک ہوجائے گی۔ 2:۔ پاخانہ کے مقام کو دھونے میں جو پانی سائڈ میں لگ جاتاہے اس کو ناپاک نہیں کہاجائے گا بشرطیکہ کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہو، اگر نجاست لگی ہو تو اس کا دھونا لازم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3061/46-4896
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فضائل اعمال ایک معتبر کتاب ہے، اور پانچ منٹ کا مدرسہ بھی معتبر ہے، دونوں کتابیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور عام مسلمانوں کے فائدے کے لئے ہی لکھی گئی ہیں، دونوں میں قرآن و حدیث ہی کی باتیں شامل ہیں۔ اس لئے دونوں کتابوں میں سے کوئی بھی تعلیم کے لئے منتخب کی جاسکتی ہے، اور کونسی کتاب زیر تعلیم ہو اس سلسلہ میں امام صاحب کو اختیار دیدینا چاہئے ورنہ ہر شخص اپنے حساب سے کتابیں لائے گا اور امام کو اپنی مطلوبہ کتاب پڑھنے کا مکلف کرے گا اور اس طرح مسجدکا نظم و نسق ایک مذا ق بن جائے گا۔ مقتدیوں پر لازم ہے کہ وہ کتاب کی باتوں پر توجہ دیں اور اس پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو عمل پر لانے کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں، اوراختلافی چیزوں میں ہرگز نہ پڑھیں۔ مسجد میں مختلف مزاج و مذاق کے لوگ آتے ہیں اور ہر ایک کی رعایت کرنا امام صاحب کے بس میں نہیں ہے، اس لئے کتاب کا انتخاب امام کے سپرد کردیا جائے، شاید اسی میں خیرہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندFiqh
Ref. No. 3049/46-4860
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمیں اس ڈرنک کے بارے میں تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ کسی بھی ڈرنک میں اگر اس کے مشمولات پاک اور حلال ہوں تو ان کا استعمال جائز ہوتاہے، اگر آپ کو کسی ڈرنک میں ناپاکی یا حرام کایقین نہ ہو تو اس کو استعمال کرسکتے ہیں تاہم اگر شبہہ ہو تو احتراز کرنا بہتر ہے۔" اعلم أن الأصل في الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى {هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا} [البقرة: ٢٩] وقال {كلوا مما في الأرض حلالا طيبا} [البقرة: ١٦٨] وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة." (مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر كتاب الأشربة،ج:2،ص:568،ط: دار إحياء التراث العربي)
حكم الأطعمة:الأصل في جميع الأطعمة الحل إلا النجس، والضار، والخبيث، والمسكر، والمخدر، وملك الغير.فالنجس كله خبيث وضار، فهو محرم." (موسوعۃ الفقہ الاسلامی، الباب الثالث عشر كتاب الأطعمة والأشربة،باب الأطعمة،ج:4،ص:283،ط:بیت الافکار الدولیۃ)
"كل شيء كره أكله والانتفاع به على وجه من الوجوه فشراؤه وبيعه مكروه، وكل شيء لا بأس بالانتفاع به فلا بأس ببيعه". (الوجیز فی ایضاح القواعد الفقہیۃ الکلیۃ، المقدمة السابعة: نشأن القواعد الفقهية وتدوينها وتطورها،ج:1،ص:52،ط:مؤسسة الرسالة العالمية) واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3027/46-4837
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو مانگنے والے بدتمیزی کرتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں اور پیشہ ور ہیں ان کو دینا درست نہیں ہے تاہم ان کے شر اور فتنہ سے بچنے کے لئے ان کو کچھ دیدینے کی گنجائش ہے۔ البتہ کسی بہانے سے اگر وہ ٹالے جاسکیں تو ان کو ٹالنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ جو لوگ دوسروں کا مذاق اڑانے کے لئے یا تفریح کے لئے ان کو کسی کے گھر بھیجتے ہیں وہ گنہگار ہوں گے۔"حدثنا أبو كريب وواصل بن عبد الأعلى قالا: حدثنا ابن فضيل عن عمارة بن القعقاع عن أبي زرعة عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سأل الناس أموالهم تكثراً، فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر". (صحيح مسلم، كتاب الزكوة، باب كراهة المسألة للناس، ج: 3، ص: 96، ط: دار الطباعة العامرة)
"عن عبد الله بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لاتحل الصدقة لغني ولا لذي مرة سوي". (سنن أبي داؤد، كتاب الزكاة، باب من يعطي من الصدقة وحد الغنى، ج: 2، ص: 118، ط: المكتبة العصرية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 2999/46-4790
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اجارہ کا معاملہ آپسی معاہدہ اور رضامندی کے مطابق ہوتاہے، جیسا معاہدہ ہو ویسی اجرت لازم ہوگی، اس لئے جب شروع میں یہ معاہدہ طے پایا کہ ساڑی بنانے میں اگر کوئی عیب ہوگا تو اس ساڑی کی اجرت نہیں ملے گی، تو سیٹھ معاہدہ کے مطابق اس کی اجرت دینے کا پابند نہیں ہے، تاہم اگر اخلاقی طور پر مزدور کی محنت کو دیکھتے ہوئے کچھ دیدے تو بہتر ہے اور باعث اجروثواب ہے۔ مزدور جب تک معاہدہ کے مطابق ساڑی تیار کرکے نہیں دے گا طے شدہ اجرت کا بھی مستحق نہیں ہوگا۔ اور اگر عیب کی صورت میں کوئی معاہدہ طے نہیں ہوا تھا تو ایسی صورت میں عیب کو ٹھیک کرانے میں جو نقصان ہو اس کے بقدر کاٹ کر باقی اجرت لازم ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 2993/46-4765
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر عقد کرتے وقت ہی مبیع کی مجموعی قیمت اور اس کی ادائیگی کی مدت متعین طریقہ پر طے کردی جائے اور مدت بڑھنے پر کسی سود کا اضافہ نہ کیاجائے تو اس طرح قسطوں پر بیع و شراء کرنا جائز اور درست ہے۔ اور اگر عقد میں یہ طے ہوا کہ اتنی مدت کی قسط ادا نہ کرنے کی صورت میں ہر ماہ اضافی رقم دینی ہوگی تو ایسی صورت میں مدت متعینہ میں قسط کی ادائیگی لازم ہوگی، اور اگر مدت پوری ہوگئی اور قسط پوری نہ ہوئی تو اب اضافی رقم سود کی شکل میں ہر ماہ دینی ہوگی جو ناجائز ہے اس لئے یہ معاملہ ناجائز ہوجائے گا۔
البیع مع تاجیل الثمن وتقسیطہ صحیح ․․․․ یلزم أن تکون المدّة معلومة فی البیع التاجیل والتقسیط) شرح المجلة: ۱/۱۲۷، رقم المادة: ۲۴۵، ۲۴۶) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 2977/45-4727
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو لوگ مکہ میں رہائش پذیر ہیں ان کے لئے حرم میں جانے کے لئے احرام کی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم وہ اپنے عام لباس میں رہتے ہوئے طواف کرلیں تو یہ طواف شکرانہ مستحب ہے۔
ولا یشتغل بتحیة المسجد لأن تحیة المسجد الشریف ہي الطواف إن أرادہ ، بخلاف من لم یرِدہ وأراد أن یجلس حتی یصلي رکعتین إلا أن یکون الوقت مکروہا، وظاہرہ أنہ لا یصلي مرید الطواف للتحیة أصلاً لا قبلہ ولا بعدہ ولعل وجہہ إندراجھا في رکعتیہ ․ (شامي: ۲: ۴۶۰، ط، زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندFiqh
Ref. No. 2483/45-3773
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ میک اپ کی چیزوں میں یا کھانے پینے کی چیزوں میں جب تک یقین اورتحقیق کے ساتھ معلوم نہ ہو کہ اس میں حرام اور نجس چیز کی آمیزش ہے، تو محض کسی کے کہہ دینے سے یا شک کی بنا پر اس کو ناجائز نہیں کہا جاسکتا ہے اور اس کا استعمال حرام نہیں ہوگا۔ کسی چیز کے استعمال سے پہلے اس کے حلال یا حرام ہونے کے بارے میں عام حالات میں تحقیق کرنا ضروری نہیں ہے،البتہ اگرقرائن سے شک و شبہ پیداہوجائے تو احتیاط کرنا بہتر ہے۔
من شک في إنائہ، أوثوبہ، أوبدنہ أصابتہ نجاسۃ أولا فہو طاہر مالم یستیقن،وکذا مایتخذہ أہل الشرک، أوالجہلۃ من المسلمین کالسمن، والخبز، والأطعمۃ، والثیاب۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في أبحاث الغسل، زکریا۱/۲۸۳-۲۸۴، کراچي ۱/۱۵۱) ۔ (ایضاح المسائل ۱۴۶)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 2785/45-4351
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
A Muslim woman is not allowed to get her body waxed by a non- muslim woman. In such cases, she should do it by her own hands as much as possible or seek help from her husband only. She should avoid taking help of strangers in this regard.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband