Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3213/46-7098
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کو قرض دے کر بطور رہن کے اس کی زمین اپنے قبضہ میں لے لینا درست ہے، لیکن اس زمین پر کھیتی کرکے اس سے نفع اٹھانا درست نہیں ہے، اس لئے کہ رہن سے نفع حاصل کرنا اگرچہ مالک کی اجازت ہو درست نہیں ہے یہ اپنے ہی قرض سے فائدہ اٹھانا ہے جو ناجائز ہے۔
کل قرض جر منفعۃ فھو ربا (مصنف ابن ابی شیبۃ 2069)
لایحل لہ ان ینتفع بشیئ منہ بوجہ من الوجوہ وان اذن لہ الراہن لانہ اذن لہ فی الربا لانہ یستوفی دینہ کاملا فتبقی لہ المنفعۃ فضلا فیکون ربا (ردالمحتار 6/482)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3194/46-7039
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نعت، نظم، غزل اور اشعار بناکر یا کوئی مضمون لکھ کر اس کو بیچنا اور اس سے پیسے کماناجائز اور درست ہے بشرطیکہ اشعار میں کوئی خلاف امر بات نہ ہو۔ شعرگوئی ایک فن ہے جس میں وقت اور محنت دونوں چیزیں شامل ہوتی ہیں، اس لئے اگر کوئی آدمی اپنے فن اور آرٹ کے ذریعہ کمائی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کام میں ممانعت کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے۔
وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشِّعْرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ كَلَامٌ فَحَسَنُهُ حَسَنٌ وَقَبِيحُهُ قَبِيحٌ» . رَوَاهُ الدَّارَ قُطْنِيّ. (مشکوٰۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 4807)
إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَةً.( بخاري، الصحیح، 5: 2276، رقم: 5793، دار ابن کثیر الیمامة بیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3165/46-6090
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کا گناہ اپنے سر لے کر قید ہونا اور اس قید پر صلح کرنا درست نہیں ہے، اس سے مجرم کی اعانت ہوتی ہے جوکہ ناجائز ہے، لہذا آپس میں جو معاہدہ ہوا تھا وہ غیرشرعی تھا، تاہم عمرو چونکہ اپنی ناواقفیت و جہالت کی بناء پر قید ہوگیا تو زید کا اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ عمرو کو قید سے رہاکرانے کی کوشش کرے اور خود بھی گناہ کے کام سے توبہ کرے۔
الصلح جائز بین المسلمین الا صلحا احل حراما او حرم حلالا (السنن الکبری 11686) ویجوز التوکیل بالخصومۃ فی سائر الحقوق ویجوز بالاستیفاء الا فی الحدود والقصاص (مختصر الضروری شرح مختصر القدوری 384)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3147/46-6091
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عالمی منڈی میں جو سونے کی خریدوفروخت ہوتی ہے وہ ناجائز ہے اس لئے کہ مجلس عقد میں سونے پر قبضہ نہیں پایا جاتا، اس کے علاوہ عالمی منڈی میں منافع کی بعض شکل وہ ہے جس میں صرف قیمت کا اتارچڑھاؤ سے منافع کمانا مقصود ہوتاہے جس کے لئے ایک معاہدہ ہوتاہے کہ اوپر جانے پر فلاں قیمت اور نیچے جانے پر فلاں قیمت پر در اصل قمار کی بھی ایک شکل ہے لہذا آن لائن سونے کی بیع خواہ فیوچرٹریڈنگ کے طور پر ہو یا کسی دوسرے فرم میں ہو تمام صورتیں قبضہ نہ پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔
جنسا بجنس او بغیر جنس ویشترط عدم التاجیل والخیار والتماثل ای التساوی وزنا والتقابض بلابراجم لا بالتخلیۃ قبل الافتراق وھو شرط بقائہ علی الصحیح (ردالمحتار 5/257)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3141/46-6041
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی کمپنی کا کاروبار اور اس میں سرمایہ کاری کا طریقہ شریعت کے مطابق ہے یعنی جس میوچول فنڈ میں منیجر حلال کمپنی میں پیسہ لگاتا ہے،نفع و نقصان میں شرکاء شریک ہوتے ہیں ، اور نفع کو فی صد کے حساب سے تقسیم کیاجاتاہے ، نیز بینک میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی ہے تو اس میں پیسہ لگانا جائز ہے۔ اب یہ تمام تفصیلات کا علم پہلے حاصل کرلیں پھر پیسے لگائیں، آگر آپ نے تحقیق کئے بغیر پیسے لگادئے تو اب تحقیق کریں اگر اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق سرمایہ کاری درست ہو تو اس کا فائدہ استعمال کرنا بھی درست ہوگا، ورنہ اپنی رقم لے کر فائدہ کی رقم کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3013/46-4802
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرنسی کی آن لائن خریدوفروخت 'بیع صرف' کہلاتی ہے، بیع صرف میں ایک اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ معاملہ نقد ہو، ادھار معاملہ ناجائز ہوتاہے۔ اس لئے اگر آن لائن خریدوفروخت کے اندر ایک ہی مجلس میں دونوں فریق اپنی اپنی کرنسی پر قبضہ کرلیں تو کاروبار کی یہ صورت جائز ہے ، اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔ تاہم چونکہ آن لائن کرنسی کا معاملہ عموما ادھار ہی ہوتاہے اس اگر یہ معاملہ ادھار ہوا تو بیع صرف فاسد ہوگی اور معاملہ سودی ہوکر حرام ہوجائے گا۔جواز کی شرائط کے ساتھ آپ خود آن لائن کرنسی خرید کر مہنگے داموں پر بیچیں یا کسی کو (ماہانہ یا سالانہ ) اجرت پر رکھ کر یہ کام کرائیں دونوں صورتیں جائز ہیں۔ سودی معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)." شامی، کتاب البیوع، باب الصرف، ج: 5، صفحہ: 257، ط: ایچ، ایم، سعید)
"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق."(الھندیۃ، كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنہ وحكمہ وشرائطہ، ج:3، صفحہ :217، ط: دار الفکر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3002/46-4787
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال واضح نہیں ہے کہ یہ پانچ لاکھ روپئے کس طرح لگائے گئے ہیں، آیا یہ کاروبار میں شرکت ہے یا منافع میں شرکت ہے۔ اگر منافع میں شرکت ہے کہ جو نفع ہوگا اس میں آٹھ فی صد دیں گے تو یہ درست ہے، اور اگر پانچ لاکھ کا آٹھ فیصد طے کیاگیا ہے تو یہ سودی معاملہ ہے جو حرام ہے۔ شرکت کے معاملہ میں نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہوتی ہے، اگر کمپنی بند ہوگی تو مال کے شرکت کے اعتبار سے نقصان میں دونوں شریک ہوں گے، نقصان کی خاص مقدار طے کرنا درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2944/45-4616
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری قوانین شہریوں کی بھلائی کے لئے ہی ہوتے ہیں، ڈرائیونگ لائسنس کا جو اہل ہو اسی کے لئے اس کو جاری کرنا چاہئے، جو لوگ قانونی طریقہ کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان سے عوام کو کافی نقصان پہونچ رہاہے اور روڈ اکسیڈنٹ میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ اس لئے کسی کو رشوت دے کر بلاامتحان پاس کرادینا جائز نہیں ہے۔ سرکاری فیس کے علاوہ اپنی فیس کی ایک متعین مقدار لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2936/45-4615
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو مکانات ابھی تک وجود میں نہیں آئے، ان کی بیع کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں کو مکانات بناکر دیدیئے گئے اور وہ ان کے مالک ہوگئے وہ لوگ اپنی ملکیت میں تصرف کرتے ہوئے اگر اپنے مکان فروخت کرتے ہیں تو ان کا ایسا کرنا جائز ہے، لیکن جن کے مکانات نہیں بنے ان کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ فی الحال صبر کریں اور انتظار کریں جب مکانات اپنے قبضہ و تصرف میں آجائیں تب ان کی خریدوفروخت جائز ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2945/45-4613
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سود کی رقم کا اصل مصرف یہ ہے کہ اصل مالک کو لوٹائی جائے یعنی جس سے وصول کی گئی ہے اسی کو لوٹا دی جائے ، غیر سرکاری بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم اگر انکم ٹیکس میں دی جائے تو رد إلی المالک کی شکل متحقق نہیں ہوتی؛ اس لیے غیر سرکاری بینکوں سے حاصل شدہ سود کی رقم انکم ٹیکس میں ادا کرنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ اس کا تصدق واجب ہے۔لہذا آپ کا پڑائیویٹ بینک کے سودی رقم کو انکم ٹیکس میں ادا کرنا جائز نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند