تجارت و ملازمت

Ref.  No.  3363/46-9239

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: رشوت کا لین دین شریعت  اسلام  میں حرام ہے۔ تاہم اگر احمد اس نوکری کا اہل ہے اور نوکری کا حق ادا کررہا ہے تو اس کی نوکری درست ہے۔  اور اس کی کمائی میں کوئی خرابی نہیں ہے۔ البتہ رشوت دینے کا جوگناہ ہوا اس کے لئے  توبہ و استغفارکرے اور اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔

"عن عبد الله بن عمرو قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي". (مشكاة المصابيح (2/ 1108)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3350/46-9212

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کرپٹو کرنسی یا ڈ یجیٹل کرنسی ایک فرضی کرنسی ہے ،اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط اب تک  موجود نہیں ہیں؛ سرکاری طور پر اس کی وہ حیثیت نہیں ہے جو عام کرنسیوں کی ہوتی ہے۔  لہذا کرپٹو کرنسی  کی خرید و فروخت اور اس کے ذریعہ کاروبار کرنا   جائز  نہیں ہے۔  اس کرنسی میں مبیع کا کوئی حقیقی وجود نہیں ہوتاہے ، صرف ڈیجٹیل طور پر اکاونٹ کا حساب چلتا رہتاہے؛  لہذا کرپٹو کرنسی یا ڈیجیٹل کرنسی  کے لین دین سےاجتناب کیا جائے۔

"(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لايكون مالًا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصًا عن الكشف الكبير. ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،» ... وفي التلويح أيضًا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك ... وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لايجوز قتله وإهلاكه." (شامی، کتاب البیوع،ج:4،ص:501،سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3213/46-7098

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی کو قرض دے کر بطور رہن کے اس کی زمین اپنے قبضہ میں لے لینا درست ہے، لیکن اس زمین پر کھیتی کرکے اس سے نفع اٹھانا درست نہیں ہے، اس لئے کہ  رہن سے نفع حاصل کرنا اگرچہ مالک کی اجازت ہو درست نہیں ہے یہ اپنے ہی قرض سے فائدہ اٹھانا ہے جو ناجائز ہے۔

  کل قرض جر منفعۃ فھو ربا (مصنف ابن ابی شیبۃ 2069)

لایحل لہ ان ینتفع بشیئ منہ بوجہ من الوجوہ وان اذن لہ الراہن لانہ اذن لہ فی الربا لانہ یستوفی دینہ کاملا فتبقی لہ المنفعۃ فضلا فیکون ربا (ردالمحتار 6/482)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3194/46-7039

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نعت، نظم، غزل اور اشعار بناکر یا کوئی مضمون لکھ کر اس کو بیچنا  اور اس سے پیسے کماناجائز اور درست ہے بشرطیکہ اشعار میں کوئی خلاف امر بات نہ ہو۔ شعرگوئی ایک فن ہے جس میں وقت اور محنت دونوں چیزیں شامل ہوتی ہیں، اس لئے اگر کوئی آدمی اپنے فن  اور آرٹ کے ذریعہ کمائی کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کام میں ممانعت کی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے۔

وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشِّعْرُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «هُوَ كَلَامٌ فَحَسَنُهُ حَسَنٌ وَقَبِيحُهُ قَبِيحٌ» . رَوَاهُ الدَّارَ قُطْنِيّ. (مشکوٰۃ المصابیح: (رقم الحدیث: 4807)

إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَةً.( بخاري، الصحیح، 5: 2276، رقم: 5793، دار ابن کثیر الیمامة بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3165/46-6090

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   کسی کا گناہ اپنے سر لے کر قید ہونا اور اس  قید پر صلح کرنا درست نہیں ہے، اس سے مجرم کی اعانت ہوتی ہے جوکہ ناجائز ہے، لہذا آپس میں جو معاہدہ ہوا تھا وہ غیرشرعی تھا، تاہم عمرو چونکہ اپنی ناواقفیت و جہالت کی بناء پر قید ہوگیا تو زید کا اخلاقی فریضہ ہے  کہ وہ عمرو کو قید سے رہاکرانے کی کوشش کرے اور خود بھی گناہ کے کام سے توبہ کرے۔

الصلح جائز بین المسلمین الا صلحا احل حراما او حرم حلالا  (السنن الکبری 11686) ویجوز التوکیل بالخصومۃ فی سائر الحقوق ویجوز بالاستیفاء الا فی الحدود والقصاص (مختصر الضروری شرح مختصر القدوری 384)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3147/46-6091

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عالمی منڈی میں جو سونے کی خریدوفروخت ہوتی ہے وہ ناجائز ہے اس لئے کہ مجلس عقد میں سونے پر قبضہ نہیں پایا جاتا، اس کے علاوہ عالمی منڈی میں منافع کی بعض شکل وہ ہے جس میں صرف قیمت کا اتارچڑھاؤ سے منافع کمانا مقصود ہوتاہے جس کے لئے ایک معاہدہ ہوتاہے کہ اوپر جانے پر فلاں قیمت اور نیچے جانے پر فلاں قیمت پر در اصل قمار کی بھی ایک شکل ہے لہذا آن لائن سونے کی بیع خواہ فیوچرٹریڈنگ کے طور پر ہو یا کسی دوسرے فرم  میں ہو تمام صورتیں قبضہ نہ پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔

جنسا بجنس او بغیر جنس ویشترط عدم التاجیل والخیار والتماثل ای التساوی وزنا والتقابض  بلابراجم لا بالتخلیۃ قبل الافتراق وھو شرط بقائہ علی الصحیح (ردالمحتار 5/257)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref.  No.  3141/46-6041

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کسی کمپنی کا کاروبار اور اس میں سرمایہ کاری کا طریقہ شریعت کے مطابق ہے یعنی جس میوچول فنڈ میں منیجر حلال کمپنی میں پیسہ لگاتا ہے،نفع و نقصان میں شرکاء شریک ہوتے ہیں ، اور نفع کو فی صد کے حساب سے تقسیم کیاجاتاہے ، نیز بینک میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی ہے تو اس میں پیسہ لگانا جائز ہے۔ اب یہ تمام تفصیلات کا علم پہلے حاصل کرلیں پھر پیسے لگائیں، آگر آپ نے تحقیق کئے بغیر پیسے لگادئے تو اب تحقیق کریں اگر اسلامی اصول و ضوابط  کے مطابق سرمایہ کاری درست ہو تو اس کا فائدہ استعمال کرنا بھی درست ہوگا، ورنہ اپنی رقم لے کر فائدہ کی رقم کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref.  No.  3013/46-4802

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کرنسی کی آن لائن خریدوفروخت  'بیع صرف' کہلاتی ہے، بیع صرف میں ایک اہم شرط یہ ہوتی ہے کہ معاملہ نقد ہو، ادھار معاملہ ناجائز ہوتاہے۔ اس لئے اگر آن لائن خریدوفروخت کے اندر  ایک ہی مجلس میں دونوں فریق اپنی اپنی کرنسی پر قبضہ کرلیں تو کاروبار کی یہ صورت جائز ہے ، اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔ تاہم چونکہ آن لائن کرنسی کا معاملہ عموما ادھار ہی ہوتاہے اس  اگر یہ معاملہ ادھار ہوا تو بیع صرف فاسد ہوگی اور معاملہ سودی ہوکر حرام ہوجائے گا۔جواز کی شرائط کے ساتھ آپ خود آن لائن کرنسی خرید کر مہنگے داموں پر بیچیں یا  کسی کو (ماہانہ یا سالانہ ) اجرت پر رکھ کر یہ کام کرائیں دونوں صورتیں جائز ہیں۔  سودی معاملات میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

"(هو) لغةً: الزيادة. وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)." شامی، کتاب البیوع، باب الصرف، ج: 5، صفحہ:  257، ط: ایچ، ایم، سعید)

"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق."(الھندیۃ، كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنہ وحكمہ وشرائطہ، ج:3، صفحہ :217، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3002/46-4787

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال واضح نہیں ہے کہ یہ پانچ لاکھ روپئے کس طرح لگائے گئے ہیں، آیا یہ کاروبار میں شرکت ہے یا منافع میں شرکت ہے۔ اگر منافع میں شرکت ہے کہ جو نفع ہوگا اس میں آٹھ فی صد دیں گے تو یہ درست ہے، اور اگر پانچ لاکھ کا  آٹھ فیصد طے کیاگیا ہے تو یہ سودی معاملہ ہے جو حرام ہے۔ شرکت کے معاملہ میں نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہوتی ہے، اگر کمپنی بند ہوگی تو مال کے شرکت کے اعتبار سے نقصان میں دونوں شریک ہوں گے، نقصان کی خاص مقدار طے کرنا درست نہیں ہے۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2944/45-4616

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری قوانین شہریوں کی بھلائی کے لئے ہی ہوتے ہیں، ڈرائیونگ لائسنس کا جو اہل ہو اسی کے لئے اس کو جاری کرنا چاہئے، جو لوگ قانونی طریقہ  کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان سے   عوام کو کافی نقصان پہونچ رہاہے اور روڈ اکسیڈنٹ میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ اس لئے کسی کو رشوت دے کر بلاامتحان پاس کرادینا جائز نہیں ہے۔ سرکاری فیس کے علاوہ اپنی فیس کی ایک متعین مقدار لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند