تجارت و ملازمت

Ref. No. 2944/45-4616

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سرکاری قوانین شہریوں کی بھلائی کے لئے ہی ہوتے ہیں، ڈرائیونگ لائسنس کا جو اہل ہو اسی کے لئے اس کو جاری کرنا چاہئے، جو لوگ قانونی طریقہ  کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان سے   عوام کو کافی نقصان پہونچ رہاہے اور روڈ اکسیڈنٹ میں روز بروز اضافہ دیکھنے کو مل رہاہے۔ اس لئے کسی کو رشوت دے کر بلاامتحان پاس کرادینا جائز نہیں ہے۔ سرکاری فیس کے علاوہ اپنی فیس کی ایک متعین مقدار لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2936/45-4615

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جو مکانات ابھی تک وجود میں نہیں آئے، ان کی بیع کسی طرح بھی جائز نہیں ہے۔ جن لوگوں کو مکانات بناکر دیدیئے گئے اور وہ ان کے مالک ہوگئے وہ لوگ اپنی ملکیت میں تصرف کرتے ہوئے اگر اپنے مکان  فروخت کرتے ہیں تو ان کا ایسا کرنا جائز ہے، لیکن جن کے مکانات نہیں بنے ان کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ فی الحال صبر کریں اور انتظار کریں جب مکانات اپنے قبضہ و تصرف میں آجائیں تب  ان کی خریدوفروخت جائز ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 2945/45-4613

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سود کی رقم کا اصل مصرف یہ ہے کہ اصل مالک کو لوٹائی جائے یعنی  جس سے وصول کی گئی ہے اسی کو لوٹا دی جائے ، غیر سرکاری بینک سے حاصل شدہ سود کی رقم اگر انکم ٹیکس میں دی جائے تو رد إلی المالک کی شکل متحقق نہیں ہوتی؛ اس لیے غیر سرکاری بینکوں سے حاصل شدہ سود کی رقم انکم ٹیکس میں ادا کرنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ اس کا تصدق واجب ہے۔لہذا آپ کا پڑائیویٹ بینک کے سودی رقم کو انکم ٹیکس میں ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت
Ref. No. 2929/45-4528 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان تمام صورتوں میں چوں کہ پلاٹ تجارت کے لیے نہیں خریدا گیا ہے اور جو گھر یا زمین تجارت کی نیت سے نہ خریدا گیا ہو اس پر زکات لازم نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت
Ref. No. 2935/45-4527 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں اگردکان کی غالب آمدنی حلال ہو تو وہاں وہ کام کرنا جس میں براہ راست شراب سے تعلق نہ ہو اور نہ ہی گاہک کو شراب پیش کرنا ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اس دکان میں ملازمت کرنا درست ہے، تاہم بہتر ہے کہ ایسی جگہ کام تلاش کیا جائے جہاں اس طرح کی حرام اشیاء فروخت نہ ہوتی ہوں۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت
Ref. No. 2880/45-4566 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جان بوجھ کر حرام کمائی استعمال کرنا جائز نہیں تھا، تاہم جب آپ نے علم حاصل کرلیا اورملازمت مل گئی اور ملازت ایمانداری سے کررہے ہیں تو اب اس سرکاری نوکری سے ملنے والی تنخواہ آپ کے لئے حلال ہے۔ حرام کمائی سے پڑھائی کرنے کی بناء پر اب محنت کرکے جائز ملازمت سے کمائی حاصل کرنے پر کمائی حرام نہیں ہوگی۔ تاہم اگر وسعت ہو اور پڑھائی میں استعمال ہوئے حرام مال کے بقدر تھوڑا تھوڑا مال غریبوں میں تقسیم کرتےر ہیں تو بہت بہتر ہوگا، اور اس طرح حرام کمائی کا گناہ شاید کم ہوجائےگا۔ "والقبح المجاور لا يعدم المشروعية أصلا كالصلاة في الارض المغصوبة والبيع وقت النداء" (البحر الرائق: 346/4) "ويكره له أن يستأجرامرأة حرة أو أمة يستخدمها ويخلو بها لقوله صلى الله عليه وسلم لايخلون رجل بامرأة ليس منها بسبيل فان ثالثهما الشيطان ولانه لايأمن من الفتنة على نفسه أو عليها إذا خلا بها ولكن هذا النهى لمعنى في غير العقد فلا يمنع صحة الاجارة ووجوب الاجر إذا عمل كالنهي عن البيع وقت النداء" (المبسوط للسرخسي: 101/9) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت
Ref. No. 2896/45-4537 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جانوروں کی خوراک بیچنا جائز ہے، جانور حلال ہو یا حرام ہو اس کی خوراک بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور یہ کمائی حلال ہے۔ البتہ جوچیز غیر قانونی دائرہ میں آتی ہو اس سے احتراز کرنا چاہئے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت
Ref. No. 2857/45-4500 الجواب بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو شخص آپ کو اسٹامپ لکھنے کے لئے کہے آپ کو اسی سے پیسے کا مطالبہ کرنا چاہئے ۔ عام طور پر ہمارے یہاں عرف یہ ہے کہ گاڑی یا زمین و پلاٹ خریدنے والا اسٹامپ کے پیسے دیتاہے ۔ آپ کے یہاں جو عرف ہو اس کو بھی دیکھاجاسکتاہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No.41/856

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ایزی لوڈ کے بارے میں ہمیں تفصیلات کا علم نہیں ہے۔ آپ تفصیلات  کے ساتھ مشتبہ امور کی نشاندہی کریں تاکہ جواب میں سہولت ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

تجارت و ملازمت

Ref. No. 928/41-50B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اپنی زمین کسی کو اس طرح کرایہ پر دینا کہ اس میں جو بھی غلہ پیدا ہوگا وہ مالک زمین اور کاشتکار میں نصف نصف  تقسیم ہوگا، یہ معاملہ  درست ہے۔  البتہ اس کا خیال رہے کہ غلہ کی پیداوار کم یا زیادہ بھی ہوسکتی ہے اس لئے فی صد ہی متعین ہو، اگر کسی نے اپنے لئے  کچھ غلہ متعین کرلیا کہ پیداوار جو بھی مجھے اس میں سے اتنی مقدار پہلے نکال دی جائے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہوگا۔

فكل شرط يكون قاطعا للشركة يكون مفسدا للعقد ومنها أن يكون ذلك البعض من الخارج معلوم القدر من النصف أو الثلث أو الربع أو نحوه ومنها أن يكون جزءا شائعا من الجملة حتى لو شرط لأحدهما قفزان معلومة لا يصح العقد وكذا إذا ذكرا جزءا شائعا وشرطا زيادة أقفزة معلومة لا تصح المزارعة. (الفتاوی الھندیۃ 5/235)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند