Frequently Asked Questions
عائلی مسائل
Ref. No. 2984/46-4735
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب ایک ساتھ رہنے میں اس طرح کی باتیں شروع ہوجائیں تو جلد الگ ہوجانا چاہئے تاکہ دلوں میں نفرت پیدا نہ ہو۔ اس لئے اگر شروع ہی میں الگ ہونے کی بات کہہ دیں تاکہ آئندہ بھائیوں کاآپسی پیار برقرار رہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ تاہم ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا زیادہ اجروثواب کا باعث ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3197/46-7043
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بطور علامت کے کوئی پتھر وغیرہ لگانے کی اجازت ہے، بشرطیکہ کسی مفسدہ کا اندیشہ نہ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
عائلی مسائل
عائلی مسائل
Ref. No. 1359/42-770
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ لڑکی غیرمحرم ہے، بالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ لازم ہوگا۔ البتہ اگر عورت اپنا دودھ پلادے تو پھر عورت رضاعی ماں اور شوہر رضاعی باپ ہوجائےگا اور پردہ نہیں ہوگا۔ عورت کو دودھ نہ آتاہو تو کسی ڈاکٹر سے رابطہ کریں ، نیز اگر شوہر کی ماں دودھ پلادے تو اس سے بھی لڑکی محرم ہوجائے گی اور پردہ لازم نہیں ہوگا۔
فَلَمَّا قَضٰیْ زَیدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِھِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا (سورۃ الاحزاب 37) (قوله: رضاع) فيحرم به ما يحرم من النسب إلا ما استثني (شامی فصل فی المحرمات 3/28)
لا خلاف بين الأمة أنه يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب؛ لقوله تعالى: (وأمهاتكم اللاتى أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة) [النساء: 23] ، فإذا كانت الأم من الرضاع محرمة، كان كذلك زوجها، وصار أبًا لمن أرضعته زوجته؛ لأن اللبن منهما جميعًا، وإذا كان زوج التى أرضعت أبًا كان أخوه عمًا، وكانت أخت المرأة خالة، يحرم من الرضاع العمات، والخالات، والأعمام، والأخوال، والأخوات، وبناتهن، كما يحرم من النسب، هذا معنى قوله عليه السلام: (الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة) (شرح صحیح البخاری لابن بطال، باب وامھاتکم الاتی ارضعنکم - النساء 7/193)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1141/42-370
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید نے چونکہ اپنی زندگی میں مکان فروخت کردیا اور آٹھ بیٹوں اور ایک بیٹی کا حصہ متعین کردیا تھا، اس لئے باپ کے مرنے کے بعد بقیہ رقم ان بیٹوں وبیٹی میں تقسیم کی جائے گی جن کو ان کا حصہ نہیں ملا۔ یہ رقم ترکہ شمار نہ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1762/43-1495
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قسم کا مدار الفاظ کے استعمال پر ہے، سوال میں اطلاع دینے یعنی کسی واقعہ کی خبر دینے پر قسم کھائی ہے، اس لئے اگر کوئی اطلاع دیگا تو حانث ہوجائے گا، مگر انشاء سے یعنی کسی کو کسی کام کا حکم کرنے اور منع کرنے سے اس کی قسم کا تعلق نہیں ہوگا اور اس سے قسم نہیں ٹوٹے گی۔ نیز ایک بار قسم ٹوٹ گئی تو اس کا کفارہ اداکردے اس کے بعد کچھ لکھے گا یا اطلاع دے گا تو اب دوبارہ حانث نہیں ہوگا۔ اور باربار قسم نہیں ٹوٹے گی جب تک دوبارہ قسم نہ کھالے۔
إذا علمت ذلك ظهر لك أن قاعدة بناء الأيمان على العرف معناه أن المعتبر هو المعنى المقصود في العرف من اللفظ المسمى، وإن كان في اللغة أو في الشرع أعم من المعنى المتعارف، ولما كانت هذه القاعدة موهمة اعتبار الغرض العرفي وإن كان زائدا على اللفظ المسمى وخارجا عن مدلوله كما في المسألة الأخيرة وكما في المسائل الأربعة التي ذكرها المصنف دفعوا ذلك الوهم بذكر القاعدة الثانية وهي بناء الأيمان على الألفاظ لا على الأغراض، فقولهم لا على الأغراض دفعوا به توهم اعتبار الغرض الزائد على اللفظ المسمى، وأرادوا بالألفاظ الألفاظ العرفية بقرينة القاعدة الأولى، ولولاها لتوهم اعتبار الألفاظ ولو لغوية أو شرعية فلا تنافي بين القاعدتين (الدرالمختار مع رد المحتار، باب الیمین فی الدخول 3/744)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1591/43-1148
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Zimal means burden, this name is not appropriate. So choose another name that has a good meaning or after the name of a companion.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
عائلی مسائل
Ref. No. 1592/43-1138
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "زمل" لے معنی بوجھ کے ہیں ، یہ نام مناسب نہیں ہے۔ "اِیزِل" (الف اور زاء کے نیچے زیر کے ساتھ) کے معنی ہیں: تصویر بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی۔ یہ نام مناسب نہیں ہے۔''آیت '' کے معنی ہیں :علامت اور نشانی ۔ہمارے عرف میں جب آیت بولا جائے تو اس سے قرآن کی آیت مراد ہوتی ہے اور اسی کی طرف ذہن منتقل ہوتاہے۔گوکہ آیت نام رکھنا جائز ہے، لیکن مناسب نہیں۔ "یشفع" کامعنی ہے: وہ سفارش کرتا ہے۔ یہ نام مناسب نہیں ہے، شفیعۃ(سفارش کرنےوالی) مناسب نام ہے۔ "اسراء" کے معنی : رات کے وقت چلنا، یہ نام لڑکی کے لیے رکھنا درست ہے۔ "یسری" کا معنی ہے:آسانی ، سہولت اور مالی وسعت۔ یہ لڑکی کا نام رکھا جاسکتا ہے، قرآن عظیم میں یہ لفظ جنت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ یسرا (الف کے ساتھ) مناسب نام نہیں ہے۔'سحر'' کا معنی ہے: طلوع آفتاب سے کچھ پہلے کا وقت۔ اور "نورِسحر" کا معنی ہوگا: طلوع آفتاب سے پہلے کی ہلکی روشنی۔ یہ نام رکھنا جائز ہے۔ "فجر" کا معنی ہے: رات کی تاریکی چھٹنا، صبح کی روشنی۔ مذکورہ نام رکھنا جائز ہے، البتہ بچے اور بچیوں کے نام انبیاء علیہم السلام یا صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم وعلیہن اجمعین کے اسماء میں سے کسی کے نام پر رکھنا چاہئے۔ اس لئے کوئی دوسرا نام تجویز کریں جو اچھے معنی والا ہو یا کسی صحابی و صحابیہ کے نام پر ہو۔
وقال أبو عبيد عن أصحابه سريت بالليل وأسريت فجاء باللغتين وقال أبو إسحق في قوله عز وجل سبحان الذي أسرى بعبده قال معناه سير عبده يقال أسريت وسريت إذا سرت ليلا (لسان العرب (14 / 377)
"الفَجْرُ : انكشافُ ظلمةِ الليل عن نور الصُّبْح. وهما فَجْرَانِ: أَحدهما: المستطيلُ، وهو الكاذبُ: والآخر: المستطيرُ المنتشرُ الأُفُقِ، وهو الصادقُ. يقال: طريقٌ فَجْرٌ: واضحٌ." (معجم الوسيط)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 1783/43-1516
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آن لائن فتاوی عوام و خواص کے استفادہ کے لئے ہی ہوتے ہیں؛ اگر کوئی عالم دین مسئلہ بیان کرے اور اس میں آپ کو کوئی غلطی محسوس ہو تو ان سے اس کی وضاحت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عالم صاحب نے جو مسئلہ بیان کیا پہلے ان سے ادب کے ساتھ اس کی وضاحت کرنے کی درخواست کریں پھر بھی کوئی بات خلاف واقعہ معلوم ہو تو ان کو آن لائن فتاوی کا حوالہ دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
فقہ فتاوی کا میدان کافی وسیع ہے ، مفتی اور عالم دین بھی انسان ہوتے ہیں اور غلطی کا امکان ہے، اس لئے مسئلہ کو سمجھنے اورحق کی رہنمائی کرنے میں کوئی حرج نہیں، نیز مفتی صاحب کو اصلاح قبول کرنے میں بھی دل تنگ نہ ہونا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند