عائلی مسائل
Ref. No. 2897/45-4538 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نےاز راہ تبرع و احسان اپنے گھروالوں کو باغبانی سے ہونے والے نفع میں برابر کا شریک کیا ہے اور ہر ایک کو ایک مناسب مقدار میں نفع پہونچانے کی کوشش کی۔ اب گھروالوں کا اس نفع میں اپنے حق کا دعوی درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل
Ref. No. 2893/45-4535 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان کو گھر سے نکالنا شاید اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ گھر سے باہرنکال دیا گیا تو مزید پریشانیاں آسکتی ہیں۔ اگر ان کی بیوی نہیں ہیں تو ان کی شادی کردی جائے، ایک دو تین اور چار شادیاں شریعت میں اسی لئے جائز قرار پائی ہیں تاکہ آدمی زنا جیسی لعنت میں مبتلا نہ ہو۔ ان کو کسی تدبیر کے ذریعہ کسی جائز کام میں لگادیں تاکہ ہمہ وقت اسی کام میں مصروف رہیں اور اس طرح خالی ذہن کی وجہ سے جو پریشانیاں آرہی ہیں وہ کم ہوجائیں گی۔ ان کو جماعت وغیرہ میں جانے کے لئے آمادہ کریں، نیک لوگوں کی مجلس میں بھیجیں۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1359/42-770

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ لڑکی غیرمحرم ہے، بالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ لازم ہوگا۔ البتہ اگر عورت اپنا دودھ پلادے تو پھر عورت رضاعی ماں اور شوہر رضاعی باپ ہوجائےگا اور پردہ نہیں ہوگا۔ عورت کو دودھ نہ آتاہو تو کسی ڈاکٹر سے رابطہ کریں ، نیز اگر شوہر کی ماں دودھ پلادے تو اس سے بھی لڑکی محرم ہوجائے گی اور پردہ لازم نہیں ہوگا۔

فَلَمَّا قَضٰیْ زَیدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِھِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا (سورۃ الاحزاب 37) (قوله: رضاع) فيحرم به ما يحرم من النسب إلا ما استثني (شامی فصل فی المحرمات 3/28)

لا خلاف بين الأمة أنه يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب؛ لقوله تعالى: (وأمهاتكم اللاتى أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة) [النساء: 23] ، فإذا كانت الأم من الرضاع محرمة، كان كذلك زوجها، وصار أبًا لمن أرضعته زوجته؛ لأن اللبن منهما جميعًا، وإذا كان زوج التى أرضعت أبًا كان أخوه عمًا، وكانت أخت المرأة خالة، يحرم من الرضاع العمات، والخالات، والأعمام، والأخوال، والأخوات، وبناتهن، كما يحرم من النسب، هذا معنى قوله عليه السلام: (الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة) (شرح صحیح البخاری لابن بطال، باب وامھاتکم الاتی ارضعنکم - النساء 7/193)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1141/42-370

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید نے چونکہ اپنی زندگی میں مکان فروخت کردیا اور آٹھ بیٹوں اور ایک بیٹی کا حصہ متعین کردیا تھا، اس لئے باپ کے مرنے کے بعد بقیہ رقم ان بیٹوں وبیٹی میں تقسیم کی جائے گی جن کو ان کا حصہ نہیں ملا۔ یہ رقم ترکہ شمار نہ ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1762/43-1495

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قسم کا مدار الفاظ کے استعمال پر ہے، سوال میں اطلاع دینے یعنی کسی واقعہ کی خبر دینے پر قسم کھائی ہے، اس لئے اگر کوئی اطلاع دیگا تو حانث ہوجائے گا، مگر انشاء سے یعنی کسی کو  کسی کام کا حکم کرنے اور منع کرنے سے اس  کی قسم کا تعلق نہیں ہوگا اور اس سے قسم نہیں ٹوٹے گی۔ نیز ایک بار قسم ٹوٹ گئی تو اس کا کفارہ اداکردے اس کے بعد کچھ لکھے گا یا اطلاع دے گا تو اب دوبارہ حانث نہیں ہوگا۔ اور باربار قسم نہیں ٹوٹے گی جب تک دوبارہ قسم نہ کھالے۔

إذا علمت ذلك ظهر لك أن قاعدة بناء الأيمان على العرف معناه أن المعتبر هو المعنى المقصود في العرف من اللفظ المسمى، وإن كان في اللغة أو في الشرع أعم من المعنى المتعارف، ولما كانت هذه القاعدة موهمة اعتبار الغرض العرفي وإن كان زائدا على اللفظ المسمى وخارجا عن مدلوله كما في المسألة الأخيرة وكما في المسائل الأربعة التي ذكرها المصنف دفعوا ذلك الوهم بذكر القاعدة الثانية وهي بناء الأيمان على الألفاظ لا على الأغراض، فقولهم لا على الأغراض دفعوا به توهم اعتبار الغرض الزائد على اللفظ المسمى، وأرادوا بالألفاظ الألفاظ العرفية بقرينة القاعدة الأولى، ولولاها لتوهم اعتبار الألفاظ ولو لغوية أو شرعية فلا تنافي بين القاعدتين (الدرالمختار مع رد المحتار، باب الیمین فی الدخول 3/744)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1591/43-1148

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Zimal means burden, this name is not appropriate. So choose another name that has a good meaning or after the name of a companion.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

عائلی مسائل

Ref. No. 1592/43-1138

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "زمل" لے معنی بوجھ کے ہیں ، یہ نام مناسب نہیں ہے۔  "اِیزِل" (الف اور زاء کے  نیچے زیر کے ساتھ) کے معنی ہیں:  تصویر بنانے میں استعمال ہونے والی لکڑی۔ یہ نام مناسب نہیں ہے۔''آیت '' کے معنی ہیں :علامت اور نشانی ۔ہمارے عرف میں جب آیت بولا جائے تو اس سے قرآن کی آیت مراد ہوتی ہے اور اسی کی طرف ذہن منتقل ہوتاہے۔گوکہ آیت  نام رکھنا جائز ہے، لیکن مناسب نہیں۔ "یشفع" کامعنی ہے: وہ سفارش کرتا ہے۔ یہ نام مناسب نہیں ہے، شفیعۃ(سفارش کرنےوالی) مناسب نام ہے۔  "اسراء" کے معنی : رات کے وقت چلنا، یہ نام لڑکی کے لیے رکھنا درست ہے۔  "یسری"  کا معنی ہے:آسانی ،  سہولت اور مالی وسعت۔ یہ لڑکی کا نام رکھا جاسکتا ہے،  قرآن عظیم میں یہ لفظ  جنت کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ یسرا (الف کے  ساتھ)  مناسب  نام نہیں ہے۔'سحر'' کا معنی ہے: طلوع آفتاب سے کچھ پہلے کا وقت۔ اور "نورِسحر" کا معنی ہوگا: طلوع آفتاب سے پہلے کی ہلکی روشنی۔ یہ نام رکھنا جائز ہے۔ "فجر" کا معنی ہے: رات کی تاریکی چھٹنا، صبح کی روشنی۔  مذکورہ نام رکھنا جائز ہے، البتہ بچے  اور بچیوں کے نام انبیاء علیہم السلام یا صحابہ  و صحابیات رضوان اللہ علیہم  وعلیہن اجمعین کے اسماء میں سے کسی کے نام پر رکھنا چاہئے۔  اس لئے کوئی دوسرا نام تجویز کریں جو اچھے معنی والا ہو یا کسی صحابی و صحابیہ کے نام پر ہو۔

وقال أبو عبيد عن أصحابه سريت بالليل وأسريت فجاء باللغتين وقال أبو إسحق في قوله عز وجل سبحان الذي أسرى بعبده قال معناه سير عبده يقال أسريت وسريت إذا سرت ليلا (لسان العرب  (14 / 377)

"الفَجْرُ : انكشافُ ظلمةِ الليل عن نور الصُّبْح. وهما فَجْرَانِ: أَحدهما: المستطيلُ، وهو الكاذبُ: والآخر: المستطيرُ المنتشرُ الأُفُقِ، وهو الصادقُ. يقال: طريقٌ فَجْرٌ: واضحٌ." (معجم الوسيط)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1783/43-1516

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آن لائن فتاوی عوام و خواص کے استفادہ کے لئے ہی ہوتے ہیں؛ اگر کوئی عالم دین مسئلہ بیان کرے اور اس میں آپ کو کوئی غلطی محسوس ہو تو ان سے اس کی وضاحت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عالم صاحب نے جو مسئلہ بیان کیا پہلے ان سے ادب کے ساتھ اس کی وضاحت کرنے کی درخواست کریں پھر بھی کوئی بات خلاف واقعہ معلوم ہو تو ان کو آن لائن فتاوی کا حوالہ دینے میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

فقہ فتاوی کا میدان کافی وسیع ہے ، مفتی اور عالم دین بھی انسان ہوتے ہیں اور غلطی کا امکان ہے، اس لئے مسئلہ کو سمجھنے اورحق کی  رہنمائی کرنے میں کوئی  حرج نہیں، نیز مفتی صاحب کو اصلاح قبول کرنے میں بھی دل تنگ نہ ہونا چاہئے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1597/43-1201

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اذان دے کر جماعت کی طرف بلانے والا خود اس مسجد سے نکلے یہ مناسب معلوم نہیں ہوتاہے، اس لئے اذان سے قبل امام صاحب کو دوسری مسجد کی طرف سے روانہ ہوجاناچاہئے۔ چونکہ آپ کے ذمہ دوسری مسجد میں جماعت کی ذمہ داری ہے اس لئے نکلنے کی گنجائش ہوگی۔ اور آپ پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔

وكره) تحريماً للنهي (خروج من لم يصل من مسجد أذن فيه) جرى على الغالب، والمراد دخول الوقت أذن فيه أو لا (إلا لمن ينتظم به أمر جماعة أخرى) أو كان الخروج لمسجد حيه ولم يصلوا فيه، أو لاستاذه لدرسه، أو لسماع الوعظ، أو لحاجة ومن عزمه أن يعود. نهر (و) إلا (لمن صلى الظهر والعشاء) وحده (مرة) فلايكره خروجه بل تركه للجماعة (إلا عند) الشروع في (الاقامة) فيكره لمخالفته الجماعة بلا عذر، بل يقتدي متنفلا لما مر (و) إلا (لمن صلى الفجر والعصر والمغرب مرة) فيخرج مطلقا (وإن أقيمت) لكراهة النفل بعد الاوليين، وفي المغرب أحد المحظورين البتيراء، أو مخالفة الإمام بالاتمام". (الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار96) ﻭﻣﻨﻬﺎ) - ﺃﻥ ﻣﻦ ﺃﺫﻥ ﻓﻬﻮ اﻟﺬﻱ ﻳﻘﻴﻢ، ﻭﺇﻥ ﺃﻗﺎﻡ ﻏﻴﺮﻩ: ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻥ ﻳﺘﺄﺫﻯ ﺑﺬﻟﻚ ﻳﻜﺮﻩ؛ ﻷﻥ اﻛﺘﺴﺎﺏ ﺃﺫﻯ اﻟﻤﺴﻠﻢ ﻣﻜﺮﻭﻩ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻻ ﻳﺘﺄﺫﻯ ﺑﻪ ﻻ ﻳﻜﺮﻩ۔(البنایۃ ج:2،ص: 97،ط: دارالکتب العلمیہ)

ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﺆﺫﻥ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻳﻦ(الدر)قال الشامي:ﻗﻮﻟﻪ: ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪﻳﻦ) ﻷﻧﻪ ﺇﺫا ﺻﻠﻰ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻷﻭﻝ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺘﻨﻔﻼ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻭاﻟﺘﻨﻔﻞ ﺑﺎﻷﺫاﻥ ﻏﻴﺮ ﻣﺸﺮﻭﻉ؛ ﻭﻷﻥ اﻷﺫاﻥ ﻟﻠﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻳﺼﻠﻲ اﻟﻨﺎﻓﻠﺔ، ﻓﻼ ﻳﻨﺒﻐﻲ ﺃﻥ ﻳﺪﻋﻮ اﻟﻨﺎﺱ ﺇﻟﻰ اﻟﻤﻜﺘﻮﺑﺔ ﻭﻫﻮ ﻻ ﻳﺴﺎﻋﺪﻫﻢ ﻓﻴﻬﺎ. اﻩـ.(شامی، ج:1، ص: 400،ط: دارالفکر بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 2708/45-4218

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بیوی اس طرح کی غلط حرکت کرتی ہے اور شوہر کو یقین ہو تو شوہر کو چاہئے کہ اسے سمجھائے اور خدا اور آخرت کا واسطہ دے، اس کے علاوہ اگر خود سمجھانے سے کام نہ چل سکے تو عورت کے گھر والوں سے بات چیت کرے اس کے علاوہ سمجھانے کی حد تک جو ضروری اور مناسب ہو وہ اقدام کرے، اسی طرح ایک شوہر کا حق ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر عورت گھر سے باہر نہ نکلے شوہر اپنےاس حق کو استعمال کر سکتا ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند