Frequently Asked Questions
عائلی مسائل
Ref. No. 3467/47-9388
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) بیوی کا شوہر کو بلاعذر قریب آنے سے روکنا اور ملنے سے منع کرنا جائز نہیں ہے (۲) تاہم اس طرح کئی ماہ گزرجائیں تو بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے اور نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔ (۳) اگر شوہرکو طبعی ضرورت ہے اور وہ دوسرا نکاح کرسکتاہے تو اس کو دوسرے نکاح کی اجازت ہے۔ اور اگر بیوی سمجھانے کے باوجود ملاقات کے لئے تیار نہ ہو تو اس کو طلاق دینے سے شوہر گنہگار نہ ہوگا۔ (۴) حمل کے دوران طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہے لیکن ایسا کرنا پسندیدہ نہیں ہے۔ خیال رہے کہ حالت حمل میں صحبت کرنا بعض مرتبہ نقصاندہ ہوسکتاہے اس لئے اگر عورت اس حالت میں منع کررہی ہے تو شوہر کو اس کا خیال رکھنا چاہئے۔ (۵) حمل کی حالت میں بیوی کا خصوصی خیال رکھیں اور ابھی طلاق کی بات نہ سوچیں، ولادت کے بعد جب حالات نارمل ہوجائیں اور پھر بھی بیوی مباشرت سے منع کرے تو اس کو سمجھائیں اور دوسرے نکاح کی بات کریں یا پھر طلاق کی دھمکی دیں، اگر یہ تمام صورتیں ناکام ہوجائیں تو ایک طلاق دے کر اس سے الگ ہوجائیں اور عدت گزارنے کے لئے چھوڑدیں۔ اگر عدت کے دوران عورت مباشرت کے لئے راضی ہوجاتی ہے تو ٹھیک ہے اس سے رجعت کرلیں یا تعلقات قائم کرلیں۔ ورنہ عدت گزرتے ہی وہ نکاح سے نکل جائے گی اور ساتھ رہنے کے لئے دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3441/47-9327
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) شادی کے وقت جو زیورات لڑکی کو دئے جاتے ہیں ان میں عرف یہی ہے کہ وہ لڑکی کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اور بعد میں والدین ان کو واپس نہیں لیتے ہیں۔ اس لئے لڑکیوں کو جو زیورات دئے گئے وہ ان کی ملکیت ہیں، ان میں وراثت جاری نہ ہوگی۔ (۲) ۲۵ لاکھ کی سوسائٹی پر ایک بہن کا دعوی کرنا جبکہ اس کے پاس کوئی اور ثبوت نہیں ہے، یہ دعوی بلا دلیل ہے جس کا شرعا کوئی اعتبار نہیں۔ تاہم مرحوم نے اپنی زندگی میں اگر کسی کو کوئی فلیٹ یا مکان دے کر مالک بنادیا اور قبضہ میں دیدیا ہو تو اس کا حکم الگ ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3413/46-9299
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) مشترکہ خاندانی نظام میں بیٹے باپ کو رقوم دینے یا بھیجنے میں اس کے حوالے سے عرف یہی ہے کہ وہ رقوم باپ ہی کی ملک سمجھی جاتی ہیں ، لہٰذا ایسی رقوم اور ان کے ذریعہ خریدی گئی جائیداد باپ ہی کی ملکیت شمار ہوگی اور ان کی وفات کے بعد ان کے وفات کے وقت زندہ وارثین میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی لہٰذا مذکورہ 2400 اسکوائر فٹ کا پلاٹ وراثت میں شمار ہوگا۔(۲ )مگر مذکورہ پلاٹ پر مکان بنانے میں جو بھی خرچ دونوں بھائیوں نے از خود کیا ہے وہ دونوں بھائی مکان کے تبدیل کا خرچہ منہا کر سکتے ہیں۔
إذا عمل رجل في صنعة هو وابنه الذي في عياله مجميع الكسب لذلك الرجل ولده بعد معينا له فيه قيدان احتراز بان كما تشير عبارة المتن الأول أن يكون الابن في عياله الأب الثاني أن يعملا معا في صنعة واحدة إذ لو كان لكل منهما صنعة يعمل فيهما وحده فريحه له (شرح المجلة: سم باز المبحث الثاني: ج 2، ص: 582، ماده: 1398، رشيديه)
(۳) پورے پلاٹ کی قیمت کے چودہ حصے کئے جائیں گے جن میں سے ٢/٢ حصے پر بھائی کے اور ایک ایک حصہ پر ایک بہن کا حق ہوگا۔
(۴) اگر مذکورہ دوکانیں بھائیوں کی کمائی سے بنی ہیں تو دوکان کی تقسیم کے وقت کی قیمت کے مٹیریل کے لئے ان ہی کی رضا کافی ہوگی مگر زمین پر ملکیت منتقل کرنے کے حق میں تمام وارثین کا راضی ہونا ضروری ہوگا بہر صورت مسجد کی ملکیت کے لئے مسجد کے نام رجسٹری یا مسجد انتظامیہ کو سپرد یعنی قبضہ کرانے سے پوری ہوگی جو ابھی تک عمل میں نہیں آیا، لہٰذا اب مسجد کی ملکیت تمام وارثین مستحقین کی رضا پر موقوف ہوگی اور ایک مرتبہ راضی ہوکر پلٹ جانا اخلاقا مذموم ہے۔
(۵) والد کی ملکیت والے گھر کو یقیناً سب وارثین کے ما بین مذکورہ تقسیم کے مطابق تقسیم کیا جائے گا زبانی وعدہ کافی نہیں ہوگا ہاں باپ نے کسی ایک یا دو بھائیوں کو م کسی مکان یا زمین کا مالک اور قابض بھی بنا دیا تھا تو پھر وہی بھائی اس مکان و زمین کے مالک ہوں گے باقی کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ زندگی میں والد اپنی جائیداد کا مالک ومختار ہوتا ہے جس کو جتنا چاہے دے سکتاہے۔ تاہم دیگر ورثا کو بالکلیہ محروم کردینا گناہ ہے۔ (شامی: ’’وتنح الہبۃ بالقبض الکامل‘‘: ج ٥، ص: ٦٩٠، سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3388/46-9282
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ والد کے انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم میں جلدی کرنی چاہئے۔ اور ہر ایک کو اپنے حصہ میں ہی تصرف کرنا چاہئے۔ اس لئے اب فوری طور پر وراثت کی تقسیم عمل میں لائی جائے، اور والد کی وفات کے بعد بھائی بہن میں سے جس کی شادی میں جتنا خرچہ ہوا اس کو اس کے حصہ سے منہا کردیا جائے گا۔ والدہ کا جہیزوغیرہ میں زیادہ رقم خرچہ کرنے پر زور دینا جائز نہیں ہے۔ ان کو چاہئے کہ شرعی طور ہر پہلے حصوں کی تقسیم کریں پھر جس کے حصہ میں جتنا آئے اس میں سے ہی اس پر خرچ کیاجائے۔ بھائیوں کو بھی چاہئے کہ اپنی بہن کی شادی میں واجبی خرچ کو پورا کرنے میں والدہ کا تعاون کریں۔
ولایجوز لأحدہما أن یتصرف فی نصیب الآخر إلا بأمرہ وکل واحد منہما کالأجنبی فی نصیب صاحبہ۔ (عالمگیری، کتاب الشرکۃ، الباب الأول، الفصل الأول، زکریا قدیم ۲/۳۰۱، جدید ۲/۳۱۱، ہدایہ اشرفی دیوبند ۲/۶۲۴) أما إذا کان بغیر أمرہ فلأنہ تبرع بإسقاط الحق عنہ فلا یملک أن یجعل ذٰلک مضمونا علیہ۔ (بدائع الصنائع، فصل فی حکم الہبۃ کرچی ۶/۱۳۲، زکریا ۵/۱۸۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3387/46-9281
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ پینشن کی رقم متعلقہ ادارہ کی طرف سے عطیہ اور ہدیہ ہے، اس کا مالک وہی ہوگا جس کے نام سے ادارہ پینشن جاری کرے گا، اس میں کوئی وراثت جاری نہیں ہوگی، بلکہ ادارہ جس کے نام سے پینشن جاری کرے گا وہی شخص اس کا مالک ہوگا، دیگرورثہ کا اس میں کوئی حصہ اور حق نہیں ہوگا۔
"أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض." (بدائع الصنائع، کتاب الہبۃ،ج: 6، ص: 127، ط: دار الکتب العلمیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3421/46-9285
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) نکاح ہوجانے کے بعد بلا وجہ شرعی اپنی بیٹی کو اس کے شوہر کے خلاف اکسانا ہرگز جائز نہیں ہے۔ (۲) اپنے داماد پر دباو ڈال کر اور دھمکیاں دے کر اس سے تفویض طلاق لکھوانا بھی درست نہیں ہے۔ تاہم اگر شوہر نے تفویض طلاق لکھدی تو وہ معتبر ہوگی۔ (۳) لڑکی کا مال لڑکی کا ہے اس میں اس کے نانا کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ باپ بھی اس میں تصرف کا حق نہیں رکھتاہے۔ اگر کسی نے کوئی چیز ہدیہ میں اس بچی کو دی ہو تو وہ ہدیہ کی چیز خالص اسی بچی کی ہے جو باپ کے قبضہ میں رہے گی۔ اس کے باپ پر زبردستی کرکے اس بچی کا کوئی سامان لینا نانا کے لئے ناجائز و حرام ہے۔ (۴) لڑکی کا باپ اگر لڑکی کا مکمل خیال رکھتاہے اور شرعی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر نانا کا اس طرح ہرمعاملہ میں دخل اندازی کرنا گناہ عظیم ہے۔ باپ نے اگر مناسب سمجھ کر بچی کا ہدیہ لے لیا تو اس کو واپس کرنے کے لئے خسر کا زبردستی کرنا جائز نہیں ہے۔ باپ فی الحال اس ہدیہ کو چھپاکر رکھ سکتاہے تاکہ بعد میں بچی کو دے سکے۔ (۵) میاں بیوی کے معاملات میں بلاوجہ شرعی خسر کا اپنا حکم چلانا جائز نہیں ہے۔ (۶) اگر باپ کسی غیرشرعی امر کے لئے مصر ہے تو عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کا ساتھ دے، اگر باپ کا ساتھ دے گی تو ناشزہ شمار ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3369/46-9245
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: سرکار نے اپنےقانون کے اعتبار سے نوکری کے لئے جس کو منتخب کیا ہے، وہی اس نوکری کا مستحق ہے۔ یہ سرکار کی طرف سے ایک انعام ہے، لہذا سرکار جس کو انعام دے گی وہی اس کا مستحق ہوگا، اور اس میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اس کو باپ کی وراثت کے طور پر نہیں لیا جائے گا۔ اس لئے باپ کے انتقال کے بعد ملنے والی سرکاری نوکری میں دیگر بھائی اور بہنوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ تاہم اگر بھائی بہنوں میں سے کوئی کمزور ہو تو اس کی مدد کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے اور شریعت میں باعث اجروثواب ہے۔ وآت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل الآیۃ (سورۃ الاسراء ۲۶)
تاہم خیال رہے کہ والدین کی وراثت میں اس نوکری کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوگی، بلکہ بڑے بھائی کو بھی وراثت میں پورا حصہ ملے گا۔ مذکور ملازمت ملنے کی وجہ سے سائل اپنے شرعی حصہ سے محروم نہ ہوگا۔
لان ارث انما یجری فی المتروک من ملک او حق للمورث علی ما قال علیہ السلام : من ترک مالا او حقاً فھو لورثتہ۔ (البدائع الصنائع 5/57)۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 2984/46-4735
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب ایک ساتھ رہنے میں اس طرح کی باتیں شروع ہوجائیں تو جلد الگ ہوجانا چاہئے تاکہ دلوں میں نفرت پیدا نہ ہو۔ اس لئے اگر شروع ہی میں الگ ہونے کی بات کہہ دیں تاکہ آئندہ بھائیوں کاآپسی پیار برقرار رہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ تاہم ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا زیادہ اجروثواب کا باعث ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3197/46-7043
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بطور علامت کے کوئی پتھر وغیرہ لگانے کی اجازت ہے، بشرطیکہ کسی مفسدہ کا اندیشہ نہ ہو۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند