عائلی مسائل

Ref. No. 3388/46-9282

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  والد کے انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم میں جلدی کرنی چاہئے۔ اور ہر ایک کو اپنے حصہ میں ہی تصرف کرنا چاہئے۔ اس لئے اب فوری طور پر وراثت کی تقسیم عمل میں لائی جائے، اور والد کی وفات کے بعد بھائی بہن میں سے جس کی شادی میں جتنا خرچہ ہوا اس کو اس کے حصہ سے منہا کردیا جائے گا۔ والدہ کا جہیزوغیرہ میں زیادہ رقم خرچہ کرنے پر زور دینا جائز نہیں ہے۔ ان کو چاہئے کہ شرعی طور ہر پہلے حصوں کی تقسیم کریں پھر جس کے حصہ میں جتنا آئے اس میں سے ہی اس پر خرچ کیاجائے۔ بھائیوں کو بھی چاہئے کہ اپنی بہن کی شادی میں   واجبی خرچ  کو پورا کرنے میں والدہ کا تعاون کریں۔ 

ولایجوز لأحدہما أن یتصرف فی نصیب الآخر إلا بأمرہ وکل واحد منہما کالأجنبی فی نصیب صاحبہ۔ (عالمگیری، کتاب الشرکۃ، الباب الأول، الفصل الأول، زکریا قدیم ۲/۳۰۱، جدید ۲/۳۱۱، ہدایہ اشرفی دیوبند ۲/۶۲۴) أما إذا کان بغیر أمرہ فلأنہ تبرع بإسقاط الحق عنہ فلا یملک أن یجعل ذٰلک مضمونا علیہ۔ (بدائع الصنائع، فصل فی حکم الہبۃ کرچی ۶/۱۳۲، زکریا ۵/۱۸۹)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 3387/46-9281

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔     پینشن کی رقم  متعلقہ ادارہ کی طرف سے عطیہ اور ہدیہ ہے، اس کا مالک وہی ہوگا جس کے نام سے  ادارہ پینشن جاری کرے گا، اس میں کوئی وراثت جاری نہیں  ہوگی، بلکہ ادارہ جس کے نام سے پینشن جاری کرے گا وہی شخص اس کا مالک ہوگا، دیگرورثہ کا اس میں کوئی حصہ اور حق نہیں ہوگا۔

"أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض." (بدائع الصنائع، کتاب الہبۃ،ج: 6، ص: 127، ط: دار الکتب العلمیۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

عائلی مسائل

Ref. No. 3421/46-9285

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔        (۱) نکاح ہوجانے کے بعد بلا وجہ شرعی اپنی بیٹی کو اس کے شوہر کے خلاف اکسانا ہرگز جائز نہیں ہے۔ (۲) اپنے داماد پر دباو  ڈال کر اور دھمکیاں دے کر اس سے تفویض طلاق لکھوانا بھی درست نہیں ہے۔ تاہم  اگر شوہر نے تفویض طلاق لکھدی تو وہ معتبر ہوگی۔ (۳) لڑکی کا مال لڑکی کا ہے اس میں اس کے نانا کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ باپ بھی اس میں تصرف کا حق نہیں رکھتاہے۔ اگر کسی نے کوئی چیز ہدیہ میں اس بچی کو دی ہو تو وہ ہدیہ کی چیز خالص اسی بچی کی ہے جو باپ کے قبضہ میں رہے گی۔ اس کے باپ پر زبردستی کرکے اس بچی کا کوئی سامان لینا نانا کے لئے ناجائز و حرام ہے۔ (۴) لڑکی کا باپ اگر لڑکی کا مکمل خیال رکھتاہے اور شرعی طور پر  کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر نانا کا اس طرح ہرمعاملہ میں دخل اندازی کرنا گناہ عظیم ہے۔ باپ نے اگر مناسب  سمجھ کر بچی کا ہدیہ لے لیا تو اس کو واپس کرنے کے لئے خسر کا زبردستی کرنا جائز نہیں ہے۔  باپ فی الحال اس ہدیہ کو چھپاکر رکھ سکتاہے تاکہ بعد میں بچی کو دے سکے۔ (۵) میاں بیوی کے معاملات میں  بلاوجہ شرعی خسر کا اپنا حکم چلانا جائز نہیں ہے۔ (۶) اگر باپ کسی غیرشرعی امر کے لئے مصر ہے تو عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کا ساتھ دے، اگر باپ کا ساتھ دے گی تو ناشزہ  شمار ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 3369/46-9245

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: سرکار نے اپنےقانون کے اعتبار سے نوکری کے لئے جس کو منتخب کیا ہے،  وہی  اس نوکری کا مستحق ہے۔ یہ سرکار کی طرف سے ایک انعام ہے، لہذا سرکار جس کو انعام دے گی وہی اس کا مستحق ہوگا، اور اس میں دوسروں کا کوئی حصہ نہیں ہوگا، اس کو باپ کی وراثت کے طور پر نہیں لیا جائے گا۔ اس لئے  باپ کے انتقال کے بعد ملنے والی سرکاری نوکری  میں دیگر بھائی اور بہنوں کا شرعاً کوئی حصہ نہیں ہوگا۔  تاہم اگر بھائی بہنوں میں سے کوئی کمزور ہو تو اس کی مدد کرنا اخلاقی ذمہ داری ہے اور شریعت میں باعث اجروثواب ہے۔ وآت ذا القربیٰ حقہ والمسکین وابن السبیل الآیۃ (سورۃ الاسراء ۲۶)

  تاہم خیال رہے کہ والدین کی وراثت میں اس نوکری کی وجہ سے کوئی کمی نہیں ہوگی، بلکہ بڑے بھائی کو بھی وراثت میں پورا حصہ ملے گا۔ مذکور ملازمت ملنے کی وجہ سے سائل اپنے شرعی حصہ سے محروم نہ ہوگا۔

لان ارث انما یجری فی المتروک من ملک او حق للمورث علی ما قال علیہ السلام : من ترک مالا او حقاً فھو لورثتہ۔ (البدائع الصنائع 5/57)۔ واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 2984/46-4735

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب ایک ساتھ رہنے میں اس طرح کی باتیں شروع ہوجائیں تو جلد الگ ہوجانا چاہئے تاکہ دلوں میں نفرت پیدا نہ ہو۔ اس لئے اگر شروع ہی میں الگ ہونے کی بات کہہ دیں تاکہ آئندہ بھائیوں کاآپسی  پیار برقرار رہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔  تاہم ایک ساتھ رہنا اور ایک دوسرے کو برداشت کرنا  زیادہ اجروثواب کا باعث ہوگا۔    

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 3197/46-7043

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بطور علامت کے کوئی پتھر وغیرہ لگانے کی اجازت ہے، بشرطیکہ کسی مفسدہ کا اندیشہ نہ ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل
Ref. No. 2897/45-4538 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نےاز راہ تبرع و احسان اپنے گھروالوں کو باغبانی سے ہونے والے نفع میں برابر کا شریک کیا ہے اور ہر ایک کو ایک مناسب مقدار میں نفع پہونچانے کی کوشش کی۔ اب گھروالوں کا اس نفع میں اپنے حق کا دعوی درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل
Ref. No. 2893/45-4535 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ان کو گھر سے نکالنا شاید اس مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ گھر سے باہرنکال دیا گیا تو مزید پریشانیاں آسکتی ہیں۔ اگر ان کی بیوی نہیں ہیں تو ان کی شادی کردی جائے، ایک دو تین اور چار شادیاں شریعت میں اسی لئے جائز قرار پائی ہیں تاکہ آدمی زنا جیسی لعنت میں مبتلا نہ ہو۔ ان کو کسی تدبیر کے ذریعہ کسی جائز کام میں لگادیں تاکہ ہمہ وقت اسی کام میں مصروف رہیں اور اس طرح خالی ذہن کی وجہ سے جو پریشانیاں آرہی ہیں وہ کم ہوجائیں گی۔ ان کو جماعت وغیرہ میں جانے کے لئے آمادہ کریں، نیک لوگوں کی مجلس میں بھیجیں۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1359/42-770

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ لڑکی غیرمحرم ہے، بالغ ہونے کے بعد اس سے پردہ لازم ہوگا۔ البتہ اگر عورت اپنا دودھ پلادے تو پھر عورت رضاعی ماں اور شوہر رضاعی باپ ہوجائےگا اور پردہ نہیں ہوگا۔ عورت کو دودھ نہ آتاہو تو کسی ڈاکٹر سے رابطہ کریں ، نیز اگر شوہر کی ماں دودھ پلادے تو اس سے بھی لڑکی محرم ہوجائے گی اور پردہ لازم نہیں ہوگا۔

فَلَمَّا قَضٰیْ زَیدٌ مِّنْھَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَھَا لِکَیْ لاَ یَکُوْنَ عَلٰی الْمُوْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْ اَزْوَاجِ اَدْعِیَائِھِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْھُنَّ وَطَرًا (سورۃ الاحزاب 37) (قوله: رضاع) فيحرم به ما يحرم من النسب إلا ما استثني (شامی فصل فی المحرمات 3/28)

لا خلاف بين الأمة أنه يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب؛ لقوله تعالى: (وأمهاتكم اللاتى أرضعنكم وأخواتكم من الرضاعة) [النساء: 23] ، فإذا كانت الأم من الرضاع محرمة، كان كذلك زوجها، وصار أبًا لمن أرضعته زوجته؛ لأن اللبن منهما جميعًا، وإذا كان زوج التى أرضعت أبًا كان أخوه عمًا، وكانت أخت المرأة خالة، يحرم من الرضاع العمات، والخالات، والأعمام، والأخوال، والأخوات، وبناتهن، كما يحرم من النسب، هذا معنى قوله عليه السلام: (الرضاعة تحرم ما تحرم الولادة) (شرح صحیح البخاری لابن بطال، باب وامھاتکم الاتی ارضعنکم - النساء 7/193)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 1141/42-370

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ زید نے چونکہ اپنی زندگی میں مکان فروخت کردیا اور آٹھ بیٹوں اور ایک بیٹی کا حصہ متعین کردیا تھا، اس لئے باپ کے مرنے کے بعد بقیہ رقم ان بیٹوں وبیٹی میں تقسیم کی جائے گی جن کو ان کا حصہ نہیں ملا۔ یہ رقم ترکہ شمار نہ ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند