فقہ

Ref. No. 2481/45-3764

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے اپنا گوڈاؤن براہ راست فلم والوں کو نہیں  دیاہے، بلکہ  آپ نے جس کو دیا ہے اس نے  جہاں اوروں کا سامان کرایہ پر رکھاہے وہیں فلم والوں کا بھی رکھ لیا ہے، تو اس سے آپ کی کرایہ والی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے اس شخص کو گوڈاؤں کرایہ پر دینا جائز ہے  اورآپ کے لئے  اس کا پورا کرایہ حلال  ہے۔ تاہم اگرایساہوتا رہاتو آپ کو یہ کرایہ داری ختم کردینی چاہئے۔

وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ. (سرخسى، المبسوط، 16: 39، بيروت: دارالمعرفة) (الشيخ نظام و جماعة من علماء الهنديه، الفتاویٰ الهنديه، 4: 450، بيروت: دارالفکر)

وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.(مرغيناني، الهداية، 4: 94، المکتبة الاسلاميه)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1101 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  سفیر جو چندہ کرے ، پہلے مکمل ذمہ دار کے پاس جمع کردے، وہ اس سفیر کو بطور انعام کچھ دے اور سفیر لے تو گنجائش ہے، مگرصدقات واجبہ کی رقوم میں قبل از حیلہ تملیک تصرف درست نہیں ہے۔ کذا فی کتب الفتاوی۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2486/45-3782

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استنجاء کرتے وقت قبلہ کی طرف چہرہ یا پیٹھ کرنا مکروہ ہے، یہ قبلہ کی تعظیم کے خلاف ہے، بعض صحابہ سے منقول ہے کہ جب وہ دوسرے ملکوں میں گئے تو وہاں کے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے تھے تو صحابہ ضرورت کی وجہ سے استعمال تو کرتے  تھے لیکن قبلہ رخ ہونے سے بچنے کے لئے ٹیڑھا ہوکر بیٹھتے تھے۔ آپ کے لئے مناسب یہ ہے کہ ویسٹرن ٹائلٹ کا رخ تبدیل کرائیں تاکہ ہمیشہ کے لئے قبلہ کی طرف پیشاب کرنا لازم نہ آئے، اور جب تک تبدیل نہیں ہوجاتاہے مجبوری میں کراہت کے ساتھ اسی کو استعمال کیاجاسکتاہے اور جتنا ٹیڑھا ہونا ممکن ہو اس کا خیال رکھاجائے،اور توبہ واستغفار کرتے رہیں ۔

اذا اتیتم الغائط لاتستقبلوا القبلۃ  بغائط ولابول ولکن شرقوا او غربوا فقدمنا الشام فوجدنا مراحیض قد بنیت قبل القبلۃ فکنا ننحرف عنھا ونستغفراللہ (سنن ابی داؤد 1/9)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1033/41-202

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وضاحت مطلوب ہے کہ جب اقبال کے نام ایگریمنٹ ہوگیا تھا تو پھر رسید زید کے نام سے ہی کیوں کٹتی رہی اوررسید کے پیسے کون اور کس کے حصہ سے دیتا رہا۔ کیالگان کے پیسے اقبال کے حصہ سے بھی ادا ہوتے رہے، یہ بھی واضح کریں کہ مذکورہ 22 کٹھہ  زمین کیا اقبال کو زید کی جائداد سے حصہ میں ملی تھی ، نیز یہ بھی بتائیں کہ اقبال مرحوم کے کل وارثین کتنے ہیں؟

سوال کو اچھی طرح تفصیل کے ساتھ مرتب کریں اور پھر ارسال کریں تاکہ جواب دیا جاسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1375/42-780

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اقرار طلاق سے بھی شرعا طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ نیز جس طرح زبان سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح تحریر سے یا طلاق نامہ پر برضا دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ زبان سے تلفظ کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں بیوی پر فقہ حنفی کے مطابق  تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں۔۔ بیوی عدت گزار نے کے بعد اگر نکاح کرنا چاہے تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

"الاقرار بالطلاق کاذبا یقع بہ قضاءً لا دیانۃً ۔" (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 2/113) ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2697/45-4193

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام صاحب نے اپنی بساط بھر کوشش کی لیکن ان کے لڑکے نہیں مانتے، اس لئے امام صاحب معذور ہوں گے اور ان کے پیچھے نماز درست ہوگی، جو لوگ امام کے پیچھے نماز نہیں بڑھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ان کو تمام نمازیں مسجد میں امام کے پیچھے ادا کرنی چاہئے،امام کو چاہئے کہ مزید سختی کر کے بچے کو اس کی غلط حرکتوں سے روکے۔  عاق کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اپنی جائداد سے محروم کردے شریعت میں عاق کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اولاد کو شرعی حصہ بدستور ملے گا۔

عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ‘‘ (ابن ماجہ، ’’باب الوصایا‘‘: ج ١، ص: ٦٦٢)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1116 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  اپنے عقیدہ کی درستگی، اعمال صالحہ کی تحصیل اور دین کے  دیگربنیادی  مسائل  کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ تمام امور دینی  مدرسہ، خانقاہ  وغیرہ سے جس طرح حاصل ہوتے ہیں اسی طرح تبلیغی جماعت   میں نکلنے سے بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ آج کے دور میں اپنی اصلاح اور لوگوں میں دینی بیداری پیداکرنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  کا حکم عام ہے؛ ہر دور میں ہر شخص پر وقت اور حالت کے تقاضہ کے مطابق فرض ہے۔  اپنے گھر پر رہ کر بھی لوگوں کو نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا حتی الوسع ضروری ہے۔ اگرآپ اس راہ میں نکلیں گے تو آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور آپ کی ذات سے دوسروں کا بھی فائدہ ہوگا جو ذخیرہ آخرت ہوگا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی ہم سب کو دین  کوسمجھنے  اور اس کو پھیلانے کی توفیق عطافرمائے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ خود بھی شامل ہوں اور اپنے متعلقین کو بھی شامل کریں ۔کچھ دن اس راستہ میں لگانے کے بعد ہی اس کا فائدہ آپ کے سمجھ میں آئے گا۔علاوہ ازیں اپنی اصلاح اور دینی مسائل کو سمجھنے کیلئے علماء سے بھی رابطہ رکھیں۔  واللہ الموفق۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 39 / 895

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  تقدیر کی بحث وتحقیق  میں زیادہ پڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ بچنا چاہئے۔ مختصرا سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں، تقدیر معلق اور تقدیر مبرم۔  تقدیر مبرم میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں البتہ تقدیر معلق میں اس کا امکان ہے ۔ 

    واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2206/44-2327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  فقہی بصیرت کے لئے بنیادی طور پر دوچیزیں ضروری ہیں، کتب فقہیہ کا مطالعہ اور فقہ وفتاویٰ سے مزاولت۔ بہتر ہوگا کہ علاقہ کے کسی دارالافتاء سے منسلک ہوجائیں اور مطالعہ کی روشنی میں استفتاء کے جوابات تیار کریں، اور کچھ دن کسی ماہر مفتی کو معائنہ کرادیاکریں۔

کتب فتاویٰ کے مطالعہ میں متون سے مطالعہ کا آغاز کرنا بہتر ہے، من حفظ المتون نال الفنون۔ حوالہ میں بھی متون کی سب سے زیادہ اہمیت ہے، فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر متون و شروح میں ٹکراؤ ہوجائے تو متون کو مقدم کیاجائے گا، اس لئے کہ متون نقلِ مذہب کے لئے ہی لکھی گئی ہیں۔ عربی فتاویٰ میں مذکورہ فتاویٰ کا مطالعہ مفید ہوگا:  رد المحتار، بدائع الصنائع، عالمگیری، البحرالرائق، فتح القدیر، المبسوط وغیرہ۔ اردو میں امداد الفتاویٰ ، فتاویٰ محمودیہ، کفایت المفتی، فتاویٰ دارالعلوم ، احسن الفتاویٰ، کتاب الفتاویٰ مفید ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1037/41-265

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال، مذکورہ زمین پر اقبال مرحوم کے تینوں بیٹوں کا حق یقینی ہے، کیونکہ وہ بھی اقبال مرحوم کے وارث ہیں۔  اقبال مرحوم کی کل جائداد کو 24 حصوں میں تقسیم کریں گے جن میں سے بیوی کو تین  حصے اور ہر ایک بیٹے کو سات ساتھ حصے ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند