فقہ

Ref.  No.  3101/46-5093

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   طلاق کے واقع ہونے کے لئے پورے ہوش و حواس کے ساتھ طلاق کے الفاظ اداکرنا ضروری ہوتاہے ؛ محض وہم سے یا وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔ اور نیند کی حالت میں طلاق کے الفاظ اگر نکل جائیں تو  بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لہذا نیند کی حالت میں طلاق کے وہم اور وسوسہ سے بدرجہ اولی طلاق  واقع نہ ہوگی۔

لا یقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ․․․ والنائم لانتفاء الإرادة إلخ․ (درمختار)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref.  No.  3007/46-4791

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

 صورت مسئولہ میں شوہر نے تعلیق نہیں کی ہے، تعلیق الگ ہے اور طلاق الگ ہے۔ ماں کی ناراضگی کو بتاتے ہوئے ان سے تنجیزا تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ تعلیق، طلاق کو ماں کے نظریہ پر محمول کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ماں سے ناراضگی کے اظہار کے لئے ہے۔ اس لئے اس تعلیق کا طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ طلاق فوری طور پر واقع ہوگئی ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref.  No. 2978/45-4728

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پانی کی ٹنکی میں مرغی گر کر زندہ نکل آئے  اور اس کے بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہیں ہے تو پانی پاک رہے گا، مرغی حلال اور پاک جانور ہے، محض مرغی کے  پانی میں گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔

 إذا وقع في البئر فأرة أو عصفور أو دجاجة أو سنور أو شاة وأخرجت منها حيّة لا ينجس الماء و لا يجب نزح شيء منه۔( المحیط البرہانی 1/101)۔

قيد بالموت ؛ لأنه لو أخرج حيا و ليس بنجس العين ولا به حدث أو خبث لم ينزح شيء إلا أن يدخل فمه الماء فيعتبر بسؤره ، فإن نجسا نزح الكل وإلا لا هو الصحيح ، نعم يندب عشرة من المشكوك لأجل الطهورية كذا في الخانية، زاد التتارخانية : و عشرين في الفأرة، و أربعين في سنور و دجاجة مخلاة كآدمي محدث۔ (الدر المختار : 213/1)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2481/45-3764

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے اپنا گوڈاؤن براہ راست فلم والوں کو نہیں  دیاہے، بلکہ  آپ نے جس کو دیا ہے اس نے  جہاں اوروں کا سامان کرایہ پر رکھاہے وہیں فلم والوں کا بھی رکھ لیا ہے، تو اس سے آپ کی کرایہ والی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے اس شخص کو گوڈاؤں کرایہ پر دینا جائز ہے  اورآپ کے لئے  اس کا پورا کرایہ حلال  ہے۔ تاہم اگرایساہوتا رہاتو آپ کو یہ کرایہ داری ختم کردینی چاہئے۔

وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ. (سرخسى، المبسوط، 16: 39، بيروت: دارالمعرفة) (الشيخ نظام و جماعة من علماء الهنديه، الفتاویٰ الهنديه، 4: 450، بيروت: دارالفکر)

وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.(مرغيناني، الهداية، 4: 94، المکتبة الاسلاميه)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1101 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  سفیر جو چندہ کرے ، پہلے مکمل ذمہ دار کے پاس جمع کردے، وہ اس سفیر کو بطور انعام کچھ دے اور سفیر لے تو گنجائش ہے، مگرصدقات واجبہ کی رقوم میں قبل از حیلہ تملیک تصرف درست نہیں ہے۔ کذا فی کتب الفتاوی۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2486/45-3782

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ استنجاء کرتے وقت قبلہ کی طرف چہرہ یا پیٹھ کرنا مکروہ ہے، یہ قبلہ کی تعظیم کے خلاف ہے، بعض صحابہ سے منقول ہے کہ جب وہ دوسرے ملکوں میں گئے تو وہاں کے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے تھے تو صحابہ ضرورت کی وجہ سے استعمال تو کرتے  تھے لیکن قبلہ رخ ہونے سے بچنے کے لئے ٹیڑھا ہوکر بیٹھتے تھے۔ آپ کے لئے مناسب یہ ہے کہ ویسٹرن ٹائلٹ کا رخ تبدیل کرائیں تاکہ ہمیشہ کے لئے قبلہ کی طرف پیشاب کرنا لازم نہ آئے، اور جب تک تبدیل نہیں ہوجاتاہے مجبوری میں کراہت کے ساتھ اسی کو استعمال کیاجاسکتاہے اور جتنا ٹیڑھا ہونا ممکن ہو اس کا خیال رکھاجائے،اور توبہ واستغفار کرتے رہیں ۔

اذا اتیتم الغائط لاتستقبلوا القبلۃ  بغائط ولابول ولکن شرقوا او غربوا فقدمنا الشام فوجدنا مراحیض قد بنیت قبل القبلۃ فکنا ننحرف عنھا ونستغفراللہ (سنن ابی داؤد 1/9)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1033/41-202

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  وضاحت مطلوب ہے کہ جب اقبال کے نام ایگریمنٹ ہوگیا تھا تو پھر رسید زید کے نام سے ہی کیوں کٹتی رہی اوررسید کے پیسے کون اور کس کے حصہ سے دیتا رہا۔ کیالگان کے پیسے اقبال کے حصہ سے بھی ادا ہوتے رہے، یہ بھی واضح کریں کہ مذکورہ 22 کٹھہ  زمین کیا اقبال کو زید کی جائداد سے حصہ میں ملی تھی ، نیز یہ بھی بتائیں کہ اقبال مرحوم کے کل وارثین کتنے ہیں؟

سوال کو اچھی طرح تفصیل کے ساتھ مرتب کریں اور پھر ارسال کریں تاکہ جواب دیا جاسکے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 1375/42-780

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اقرار طلاق سے بھی شرعا طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ نیز جس طرح زبان سے طلاق واقع ہو جاتی ہے اسی طرح تحریر سے یا طلاق نامہ پر برضا دستخط کرنے سے بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ زبان سے تلفظ کیا ہو یا نہ کیا ہو ۔ لہٰذا صورت مسئولہ میں بیوی پر فقہ حنفی کے مطابق  تین طلاقیں مغلظہ واقع ہوگئیں۔۔ بیوی عدت گزار نے کے بعد اگر نکاح کرنا چاہے تو کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ 

"الاقرار بالطلاق کاذبا یقع بہ قضاءً لا دیانۃً ۔" (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار 2/113) ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب (شامی، مطلب فی الطلاق بالکتابۃ 3/246)
واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 2697/45-4193

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ امام صاحب نے اپنی بساط بھر کوشش کی لیکن ان کے لڑکے نہیں مانتے، اس لئے امام صاحب معذور ہوں گے اور ان کے پیچھے نماز درست ہوگی، جو لوگ امام کے پیچھے نماز نہیں بڑھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ان کو تمام نمازیں مسجد میں امام کے پیچھے ادا کرنی چاہئے،امام کو چاہئے کہ مزید سختی کر کے بچے کو اس کی غلط حرکتوں سے روکے۔  عاق کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اپنی جائداد سے محروم کردے شریعت میں عاق کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ اولاد کو شرعی حصہ بدستور ملے گا۔

عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ من قطع میراث وارثہ قطع اللہ میراثہ من الجنۃ یوم القیامۃ‘‘ (ابن ماجہ، ’’باب الوصایا‘‘: ج ١، ص: ٦٦٢)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 1116 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  اپنے عقیدہ کی درستگی، اعمال صالحہ کی تحصیل اور دین کے  دیگربنیادی  مسائل  کا جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ یہ تمام امور دینی  مدرسہ، خانقاہ  وغیرہ سے جس طرح حاصل ہوتے ہیں اسی طرح تبلیغی جماعت   میں نکلنے سے بھی حاصل ہوتے ہیں ۔ آج کے دور میں اپنی اصلاح اور لوگوں میں دینی بیداری پیداکرنے کا سب سے موثر طریقہ ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر  کا حکم عام ہے؛ ہر دور میں ہر شخص پر وقت اور حالت کے تقاضہ کے مطابق فرض ہے۔  اپنے گھر پر رہ کر بھی لوگوں کو نیکی کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا حتی الوسع ضروری ہے۔ اگرآپ اس راہ میں نکلیں گے تو آپ کو بھی فائدہ ہوگا اور آپ کی ذات سے دوسروں کا بھی فائدہ ہوگا جو ذخیرہ آخرت ہوگا ان شاء اللہ۔ اللہ تعالی ہم سب کو دین  کوسمجھنے  اور اس کو پھیلانے کی توفیق عطافرمائے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ خود بھی شامل ہوں اور اپنے متعلقین کو بھی شامل کریں ۔کچھ دن اس راستہ میں لگانے کے بعد ہی اس کا فائدہ آپ کے سمجھ میں آئے گا۔علاوہ ازیں اپنی اصلاح اور دینی مسائل کو سمجھنے کیلئے علماء سے بھی رابطہ رکھیں۔  واللہ الموفق۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند