Frequently Asked Questions
فقہ
Ref. No. 3462/47-9387
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ عاشوراء کے دن کا روزہ رکھنا حدیث سے ثابت ہے، لیکن اس دن نمازوں کی کوئی مخصوص رکعت یا نفلی نماز کی کوئی خاص کیفیت کسی حدیث میں نہیں ملتی ہے۔ لوگوں کے درمیان نفلی نماز کے تعلق سے بہت ساری باتیں رائج ہیں لیکن سب بے اصل ہیں۔ اس لئے رات میں عام دنوں کی طرح نفلی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ ان کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3455/47-9373
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ شرک کی ایک قسم :شرک فی الذات ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالی کی ذات میں کسی کو شریک کرنا یعنی دو یا زیادہ خدا ماننا اور کائنات کا متصرف اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی ماننا ۔ شرک کی دوسری قسم ہے : شرک فی الصفات - اللہ تعالی کی صفات میں کسی کو شریک ٹھرانا۔ اس کی بہت سی قسمیں ہیں ، جیسے : شرک فی العلم یعنی کسی دوسرے کے لئے اللہ تعالی کی مانند علم کی صفت ثابت کرنا۔ شرک فی العبادة ۔ یعنی اللّٰہ تعالٰی کی طرح کسی اور کو عبادت کا مستحق سمجھنا یا کسی مخلوق کے لئے عبادت کی قسم کا کوئی فعل کرنا مثلاً کسی پیر یا قبر کو سجدہ کرنا یا کسی پیر یا نبی یا ولی کے نام کا روزہ رکھنا یا غیراللہ کی نذر ماننا یا کسی جگہ مکان گھر یا قبر کا خانہ کعبہ کی طرح طواف کرنا. شرک فی القدرة یعنی اللہ تعالی کی مانند نفع و نقصان دینے یا کسی چیزکی موت و زندگی یا کسی اور کام کی قدرت کسی اور کے لئے ثابت کرنا۔ اور اسی طرح شرک فی الصفات کی ایک قسم شرک فی القدرة ہے یعنی اللہ تعالی کی مانند نفع و نقصان دینے یا کسی چیزکی موت و زندگی یا کسی اور کام کی قدرت اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے لئے ثابت کرنا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3432/47-9321
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) اگر مسجد کے آداب کا مکمل خیال کیاجائے تو سخت مجبوری میں اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مسجد شرعی کی حدود میں اعلان کرنے کی گنجائش ہے تاہم مسجد کی حدود سے باہر اعلان کرنا چاہئے۔ اسی طرح غیرشرعی چیزوں کے لئے بھی اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔ (۲) مدارس و مساجد کی ضروریات کے لئے اعلان کرنا درست ہے۔ (۳) ظاہری اعتبار سے جو مستحق نظر آئے اس کو دے سکتے ہیں، زیادہ تحقیق حال کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیرمستحق تھا تب بھی آپ کی زکوۃ اداہوجائےگی اور ثواب ثابت ہوجائے گا۔
(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3411/46-9296
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بشرط صحت سوال، مذکورہ کاروبار جب کہ تینوں بھائیوں کے درمیان مشترک تھا ، ایک بھائی کی وفات کے بعد تقسیم کے بغیر اس کا بھائی حسب سابق کاروبار کی دیکھ بھال کررہاہے۔ اور مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی اپنے ساتھ لگالیا تو اس کاروبار میں مرحوم کی اولاد کی بھی شرکت قائم ہوگئی۔ لہذا مذکورہ کاروبار سے حاصل ہونے والی تمام جائدادوں میں مرحوم کی اولاد بھی برابر درجہ کی شریک رہے گی۔ یعنی مشترکہ تمام جائداد تین حصوں میں برابر تقسیم ہوگی۔ اور جس بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اس کے حصے کے مالک اس کے ورثہ ہوں گے۔
والمراد ان شرکۃ الملک لا تبطل ای لا یبطل الاشتراک فیھا بل یبقی المال مشترکا بین الحیی وورثۃ المیت کما کان۔ (شامی، 6/504 کتاب الشرکۃ زکریا دیوبند)
فیہ ایضا: فما کان من ربح فھو بینھما علی قدر رووس اموالھا وماکان من وضعیۃ او تبعیۃ فکذالک (شامی، کتاب الشرکۃ 6/475 زکریا دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3391/46-9284
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ پردہ کا پورا خیال رکھتے ہوئے خواتین میں شادی شدہ اور غیرشادی کا بیان کرنا درست ہے۔ آپ اپنے ساتھ چند مرد حضرات کو بھی ساتھ رکھتے ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں تو اس طرح خواتین میں بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، تاہم اس کا خیال رہے کہ عورتیں بہت غیرمحتاط ہوتی ہیں ان سے بات کرنے میں آپ کو بہت احتیاط اختیار کرنی چاہئے اور قرآن و حدیث کی باتیں ہی بیان کی جائیں، اپنی تعریف اور تعارف سے مکمل احتراز کیاجائے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالی آپ کی کوششوں کو کامیاب کرے اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3389/46-9283
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ آپ نے جانور کو مارکیٹ سے خرید کر اپنی ملکیت قائم کرلی، اب اگر آپ اس کو قربانی کرانے والوں کو بیچتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ کاروبار حلال ہے۔ جو لوگ قربانی کرانے والوں سے پیشگی رقم لے لیتے ہیں پھر جانور ان کے پیسے سےخرید کر اس پر نفع کماتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ان کا یہ کاروبار درست نہیں ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا لاتبع مالیس عندک ۔ لیکن اگر جانور خرید کر اور متعین کرکے بکنگ کرائی جاتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3368/46-9234
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: زید کی اجازت اور زید کے ایجاب یا قبول سے اگر نکاح ہوگا تو فوری طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لئے زید کی اجازت کے بغیر ہی کوئی اس کا نکاح کراسکتاہے۔ مثلا راشد نے زید سے کوئی اجازت نہیں لی اور دوگواہوں کی موجودگی میں ہندہ سے کہا کہ میں نےزید کا نکاح تم سے کردیا ہندہ نے کہا کہ میں نے قبول کیا۔ تو یہ نکاح منعقد ہوگیا۔ اب راشد زید کو اطلاع کرے کہ میں نے تیرا نکاح ہندہ سے کردیا تو زید اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر راشد کو کہے کہ مہر کے یہ پیسے ہندہ کو پہنچادو، تو اس طرح نکاح پر رضامندی ہوجائے گی ، اور پھر زید ہندہ سے جاکر تنہائی میں مل سکتاہے۔ اگر بغیر مہر اداکئے بھی ہندہ سے ملاقات کرلیتاہے تو بھی رضامندی پائی گئی نکاح درست ہوگیا۔ لیکن ان تمام صورتوں میں زبان سے نکاح کرنے یا نکاح کو قبول کرنے کی بات نہ کہے۔
"أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل." (شامی، کتاب طلاق،ج:3،ص:242،ط:دارالفکربیروت)
وفيه أيضاً: "(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك." (کتاب النکاح،ج:3،ص:9،ط:دارالفکربیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3352/46-9214
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ إن القراءة بقراءات متعددة في صلاة واحدة جائزة من حيث الأصل، ما دامت هذه القراءات متواترة وثابتة عن النبي ﷺ، وقد ذكر ذلك أئمة القراء والفقهاء، كابن الجزري والنووي وغيرهما. و لکن الاولى والأفضل في حال وجود العامة: أن يلتزم الإمام بقراءة واحدة في الصلاة كلها، لأجل رفع الالتباس عن المأمومين، ودفع الشك والاضطراب عنهم، لأن أكثر الناس لا يعرفون القراءات، وقد يظنون أن الإمام قد أخطأ، مما يؤدي إلى الفتنة والبلبلة في قلوبهم. وقد قال الإمام النووي رحمه الله: "وإنما المستحب أن يقتصر على قراءة واحدة، لئلا يشك المأمومون." (التبيان في آداب حملة القرآن)
وقال ابن الجزري رحمه الله في "النشر": "ويُكره خلط القراءات في موضعٍ واحد، خاصة إذا كان في صلاة إمام الجماعة، لما فيه من التشويش على المأمومين." فإذا كان الإمام يصلي بالناس، فالأفضل أن يقرأ برواية واحدة من أول الصلاة إلى آخرها، محافظة على الجماعة، وسدًا لذريعة الفتنة والاضطراب.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3286/46-9033
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ باغ کو کئی سالوں کے لئے ٹھیکہ پر دینا شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ بلازمین پھلوں کی بیع ہے تو یہ معدوم کی بیع ہے کیونکہ ابھی پھل درختوں پر آئے نہیں ہیں، اور اس کو بیع سلم بھی قرار نہیں دیاجاسکتاہے، اس لئے کہ متعین باغ یا متعین درختوں میں سلم کا معاملہ درست نہیں ہے، نیز اس کے عدم جواز پر صریح احادیث موجود ہیں، اسی کو بیع معاومہ یا بیع سنین سے تعبیرکیاگیا ہے (سنن ترمذی ، باب ماجاء فی المخابرۃ) ۔ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنے باغ کی خود ہی دیکھ ریکھ کی جائے اور جب پھل آجائیں تو اب اس کی بیع کی جائے۔ جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ جس شخص کو باغ ٹھیکہ پر دینا مقصود ہو باغ کا مالک اس کو باغ مساقاۃ یعنی پیداوار کے حصہ معینہ پر سیرابی کے لئے دیدے اور اپنے لئے پیداوار کا کم حصہ رکھے اور اکثر اس کے لئے رکھے، مثلا ایک فیصد یا پانچ فیصد اپنے لئے رکھے پھر اسی شخص کو وہ زمین ایک بڑی رقم (جو پھلوں کی قیمت کے مساوی ہو) کے بدلے ٹھیکہ پر دیدے اور باغ کے پھل میں جو حصہ مالک نے لے رکھا ہے وہ ٹھیکہ والے کے لئے چاہے تو مباح کردے ، تو اس طرح معاملہ درست ہوجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3202/46-7055
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر سوال مذکورہ عورت کے سابق شوہر کی میراث کے تعلق سے ہے، تو مذکورہ عورت کو سابق شوہر کے متروکہ مال میں سے آٹھواں حصہ ملے گا۔ نکاح ثانی کرنے سے وہ وراثت سے محروم نہ ہوگی، ۔ فان کان لکم ولد فلھن الثمن مماترکتم (سورۃ النساء 12)۔
بقیہ ورثاء کی تفصیل لکھ کر مرحوم کے تمام ترکہ کی تقسیم کے لئے رجوع کیاجاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند