فقہ

Ref. No. 3432/47-9321

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔           (۱)  اگر مسجد کے آداب  کا مکمل خیال کیاجائے تو سخت مجبوری میں اپنی ذاتی ضروریات کے لئے مسجد شرعی کی حدود میں اعلان کرنے کی گنجائش ہے تاہم مسجد کی حدود سے باہر اعلان  کرنا چاہئے۔  اسی طرح غیرشرعی چیزوں کے لئے بھی اعلان کرنا جائز نہیں ہے۔ (۲) مدارس و مساجد کی ضروریات کے لئے اعلان کرنا درست ہے۔ (۳) ظاہری اعتبار سے جو مستحق نظر آئے اس کو دے سکتے ہیں، زیادہ تحقیق حال کی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ اگر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیرمستحق تھا تب بھی آپ کی زکوۃ اداہوجائےگی اور ثواب ثابت ہوجائے گا۔

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم" (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 3411/46-9296

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      بشرط صحت سوال، مذکورہ کاروبار جب کہ تینوں بھائیوں کے درمیان مشترک تھا ، ایک بھائی کی وفات کے بعد تقسیم کے بغیر اس کا بھائی حسب سابق کاروبار کی دیکھ بھال کررہاہے۔ اور مرحوم بھائی کی اولاد کو بھی اپنے ساتھ لگالیا تو اس کاروبار میں مرحوم کی اولاد کی بھی شرکت قائم ہوگئی۔ لہذا مذکورہ کاروبار سے حاصل ہونے والی تمام جائدادوں میں مرحوم کی اولاد بھی برابر درجہ کی شریک رہے گی۔ یعنی مشترکہ تمام جائداد تین حصوں میں برابر تقسیم ہوگی۔ اور جس بھائی کا انتقال ہوگیا ہے اس کے حصے کے مالک اس کے ورثہ ہوں گے۔

والمراد ان شرکۃ الملک لا تبطل ای لا یبطل الاشتراک فیھا بل یبقی المال مشترکا بین الحیی وورثۃ المیت کما کان۔ (شامی، 6/504 کتاب الشرکۃ زکریا دیوبند)

فیہ ایضا: فما کان من ربح فھو بینھما علی قدر رووس اموالھا وماکان من وضعیۃ او تبعیۃ فکذالک (شامی، کتاب الشرکۃ 6/475 زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 3391/46-9284

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔  پردہ کا پورا خیال رکھتے ہوئے خواتین میں  شادی شدہ اور غیرشادی کا بیان کرنا درست ہے۔ آپ اپنے ساتھ چند مرد حضرات کو بھی ساتھ رکھتے ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں تو اس طرح خواتین میں بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، تاہم اس کا خیال رہے کہ عورتیں  بہت غیرمحتاط ہوتی ہیں ان سے بات کرنے میں آپ کو بہت احتیاط اختیار کرنی  چاہئے اور قرآن و حدیث کی باتیں ہی بیان کی جائیں، اپنی تعریف  اور  تعارف  سے مکمل احتراز کیاجائے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالی آپ کی کوششوں کو کامیاب کرے اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 3389/46-9283

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔   آپ نے جانور کو مارکیٹ سے خرید کر اپنی ملکیت قائم کرلی، اب اگر آپ اس کو قربانی کرانے والوں کو بیچتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ کاروبار حلال ہے۔ جو لوگ قربانی کرانے والوں سے پیشگی رقم لے لیتے ہیں پھر جانور ان کے پیسے سےخرید کر اس پر نفع کماتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ان کا یہ کاروبار درست نہیں ہے۔  کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا  لاتبع مالیس عندک ۔ لیکن اگر جانور خرید کر اور متعین کرکے بکنگ کرائی جاتی ہو تو اس میں کوئی  حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

فقہ

Ref. No. 3368/46-9234

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: زید کی اجازت اور زید کے ایجاب یا قبول سے اگر نکاح ہوگا تو فوری طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لئے زید کی اجازت کے بغیر ہی کوئی اس کا نکاح کراسکتاہے۔ مثلا راشد نے زید سے کوئی اجازت نہیں لی اور دوگواہوں کی موجودگی میں ہندہ سے کہا کہ میں نےزید کا نکاح تم سے کردیا ہندہ نے کہا کہ میں نے قبول کیا۔ تو یہ نکاح منعقد ہوگیا۔ اب راشد زید کو اطلاع کرے کہ میں نے تیرا نکاح ہندہ سے کردیا تو زید اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر راشد کو کہے کہ مہر کے یہ پیسے ہندہ کو پہنچادو، تو اس طرح نکاح پر رضامندی ہوجائے گی ، اور پھر زید ہندہ سے جاکر تنہائی میں مل سکتاہے۔ اگر بغیر مہر اداکئے بھی ہندہ سے ملاقات کرلیتاہے تو بھی رضامندی پائی گئی نکاح درست ہوگیا۔ لیکن ان تمام صورتوں میں زبان سے نکاح کرنے یا نکاح  کو قبول کرنے کی بات نہ کہے۔

"أن ‌نكاح ‌الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل." (شامی، کتاب طلاق،ج:3،ص:242،ط:دارالفکربیروت)

وفيه أيضاً: "(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك." (کتاب النکاح،ج:3،ص:9،ط:دارالفکربیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 3352/46-9214

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  إن القراءة بقراءات متعددة في صلاة واحدة جائزة من حيث الأصل، ما دامت هذه القراءات متواترة وثابتة عن النبي ﷺ، وقد ذكر ذلك أئمة القراء والفقهاء، كابن الجزري والنووي وغيرهما. و لکن الاولى والأفضل في حال وجود العامة: أن يلتزم الإمام بقراءة واحدة في الصلاة كلها، لأجل رفع الالتباس عن المأمومين، ودفع الشك والاضطراب عنهم، لأن أكثر الناس لا يعرفون القراءات، وقد يظنون أن الإمام قد أخطأ، مما يؤدي إلى الفتنة والبلبلة في قلوبهم. وقد قال الإمام النووي رحمه الله: "وإنما المستحب أن يقتصر على قراءة واحدة، لئلا يشك المأمومون." (التبيان في آداب حملة القرآن)

وقال ابن الجزري رحمه الله في "النشر":  "ويُكره خلط القراءات في موضعٍ واحد، خاصة إذا كان في صلاة إمام الجماعة، لما فيه من التشويش على المأمومين." فإذا كان الإمام يصلي بالناس، فالأفضل أن يقرأ برواية واحدة من أول الصلاة إلى آخرها، محافظة على الجماعة، وسدًا لذريعة الفتنة والاضطراب.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 3286/46-9033

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ باغ کو کئی سالوں کے لئے ٹھیکہ پر دینا شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ بلازمین پھلوں کی بیع ہے تو یہ معدوم کی بیع ہے کیونکہ ابھی پھل درختوں پر آئے نہیں ہیں، اور اس کو بیع سلم بھی قرار نہیں دیاجاسکتاہے، اس لئے کہ متعین باغ  یا متعین درختوں میں سلم کا معاملہ درست نہیں ہے، نیز اس کے عدم جواز پر صریح احادیث موجود ہیں، اسی کو بیع  معاومہ یا بیع سنین سے تعبیرکیاگیا ہے (سنن ترمذی ، باب ماجاء فی المخابرۃ) ۔ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنے باغ کی خود ہی دیکھ ریکھ کی جائے اور جب پھل آجائیں تو اب اس کی بیع کی جائے۔ جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ جس شخص کو باغ ٹھیکہ پر دینا مقصود ہو باغ کا مالک اس کو باغ مساقاۃ یعنی پیداوار کے حصہ معینہ پر سیرابی کے لئے دیدے اور اپنے لئے پیداوار کا کم حصہ رکھے اور اکثر اس کے لئے  رکھے، مثلا ایک فیصد یا پانچ فیصد اپنے لئے رکھے پھر اسی شخص کو وہ زمین ایک بڑی رقم (جو پھلوں کی قیمت کے مساوی ہو) کے بدلے ٹھیکہ پر دیدے اور باغ کے پھل میں جو حصہ مالک نے لے رکھا ہے  وہ  ٹھیکہ والے کے لئے چاہے تو مباح کردے ، تو اس طرح معاملہ درست ہوجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref. No. 3202/46-7055

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر سوال مذکورہ عورت کے سابق شوہر کی میراث کے تعلق سے ہے، تو مذکورہ عورت کو سابق شوہر کے متروکہ مال میں سے آٹھواں حصہ ملے گا۔ نکاح ثانی کرنے سے وہ وراثت سے محروم نہ ہوگی، ۔ فان کان لکم ولد فلھن الثمن مماترکتم (سورۃ النساء 12)۔

بقیہ ورثاء کی تفصیل لکھ کر مرحوم کے تمام ترکہ کی تقسیم کے لئے رجوع کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref.  No.  3101/46-5093

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   طلاق کے واقع ہونے کے لئے پورے ہوش و حواس کے ساتھ طلاق کے الفاظ اداکرنا ضروری ہوتاہے ؛ محض وہم سے یا وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔ اور نیند کی حالت میں طلاق کے الفاظ اگر نکل جائیں تو  بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لہذا نیند کی حالت میں طلاق کے وہم اور وسوسہ سے بدرجہ اولی طلاق  واقع نہ ہوگی۔

لا یقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ․․․ والنائم لانتفاء الإرادة إلخ․ (درمختار)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

فقہ

Ref.  No.  3007/46-4791

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔

اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

 صورت مسئولہ میں شوہر نے تعلیق نہیں کی ہے، تعلیق الگ ہے اور طلاق الگ ہے۔ ماں کی ناراضگی کو بتاتے ہوئے ان سے تنجیزا تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ تعلیق، طلاق کو ماں کے نظریہ پر محمول کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ماں سے ناراضگی کے اظہار کے لئے ہے۔ اس لئے اس تعلیق کا طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ طلاق فوری طور پر واقع ہوگئی ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند