Frequently Asked Questions
فقہ
Ref. No. 3391/46-9284
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ پردہ کا پورا خیال رکھتے ہوئے خواتین میں شادی شدہ اور غیرشادی کا بیان کرنا درست ہے۔ آپ اپنے ساتھ چند مرد حضرات کو بھی ساتھ رکھتے ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں تو اس طرح خواتین میں بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، تاہم اس کا خیال رہے کہ عورتیں بہت غیرمحتاط ہوتی ہیں ان سے بات کرنے میں آپ کو بہت احتیاط اختیار کرنی چاہئے اور قرآن و حدیث کی باتیں ہی بیان کی جائیں، اپنی تعریف اور تعارف سے مکمل احتراز کیاجائے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالی آپ کی کوششوں کو کامیاب کرے اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3389/46-9283
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ آپ نے جانور کو مارکیٹ سے خرید کر اپنی ملکیت قائم کرلی، اب اگر آپ اس کو قربانی کرانے والوں کو بیچتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ کاروبار حلال ہے۔ جو لوگ قربانی کرانے والوں سے پیشگی رقم لے لیتے ہیں پھر جانور ان کے پیسے سےخرید کر اس پر نفع کماتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ان کا یہ کاروبار درست نہیں ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا لاتبع مالیس عندک ۔ لیکن اگر جانور خرید کر اور متعین کرکے بکنگ کرائی جاتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3368/46-9234
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: زید کی اجازت اور زید کے ایجاب یا قبول سے اگر نکاح ہوگا تو فوری طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لئے زید کی اجازت کے بغیر ہی کوئی اس کا نکاح کراسکتاہے۔ مثلا راشد نے زید سے کوئی اجازت نہیں لی اور دوگواہوں کی موجودگی میں ہندہ سے کہا کہ میں نےزید کا نکاح تم سے کردیا ہندہ نے کہا کہ میں نے قبول کیا۔ تو یہ نکاح منعقد ہوگیا۔ اب راشد زید کو اطلاع کرے کہ میں نے تیرا نکاح ہندہ سے کردیا تو زید اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر راشد کو کہے کہ مہر کے یہ پیسے ہندہ کو پہنچادو، تو اس طرح نکاح پر رضامندی ہوجائے گی ، اور پھر زید ہندہ سے جاکر تنہائی میں مل سکتاہے۔ اگر بغیر مہر اداکئے بھی ہندہ سے ملاقات کرلیتاہے تو بھی رضامندی پائی گئی نکاح درست ہوگیا۔ لیکن ان تمام صورتوں میں زبان سے نکاح کرنے یا نکاح کو قبول کرنے کی بات نہ کہے۔
"أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل." (شامی، کتاب طلاق،ج:3،ص:242،ط:دارالفکربیروت)
وفيه أيضاً: "(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك." (کتاب النکاح،ج:3،ص:9،ط:دارالفکربیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3352/46-9214
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ إن القراءة بقراءات متعددة في صلاة واحدة جائزة من حيث الأصل، ما دامت هذه القراءات متواترة وثابتة عن النبي ﷺ، وقد ذكر ذلك أئمة القراء والفقهاء، كابن الجزري والنووي وغيرهما. و لکن الاولى والأفضل في حال وجود العامة: أن يلتزم الإمام بقراءة واحدة في الصلاة كلها، لأجل رفع الالتباس عن المأمومين، ودفع الشك والاضطراب عنهم، لأن أكثر الناس لا يعرفون القراءات، وقد يظنون أن الإمام قد أخطأ، مما يؤدي إلى الفتنة والبلبلة في قلوبهم. وقد قال الإمام النووي رحمه الله: "وإنما المستحب أن يقتصر على قراءة واحدة، لئلا يشك المأمومون." (التبيان في آداب حملة القرآن)
وقال ابن الجزري رحمه الله في "النشر": "ويُكره خلط القراءات في موضعٍ واحد، خاصة إذا كان في صلاة إمام الجماعة، لما فيه من التشويش على المأمومين." فإذا كان الإمام يصلي بالناس، فالأفضل أن يقرأ برواية واحدة من أول الصلاة إلى آخرها، محافظة على الجماعة، وسدًا لذريعة الفتنة والاضطراب.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3286/46-9033
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ باغ کو کئی سالوں کے لئے ٹھیکہ پر دینا شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ بلازمین پھلوں کی بیع ہے تو یہ معدوم کی بیع ہے کیونکہ ابھی پھل درختوں پر آئے نہیں ہیں، اور اس کو بیع سلم بھی قرار نہیں دیاجاسکتاہے، اس لئے کہ متعین باغ یا متعین درختوں میں سلم کا معاملہ درست نہیں ہے، نیز اس کے عدم جواز پر صریح احادیث موجود ہیں، اسی کو بیع معاومہ یا بیع سنین سے تعبیرکیاگیا ہے (سنن ترمذی ، باب ماجاء فی المخابرۃ) ۔ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنے باغ کی خود ہی دیکھ ریکھ کی جائے اور جب پھل آجائیں تو اب اس کی بیع کی جائے۔ جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ جس شخص کو باغ ٹھیکہ پر دینا مقصود ہو باغ کا مالک اس کو باغ مساقاۃ یعنی پیداوار کے حصہ معینہ پر سیرابی کے لئے دیدے اور اپنے لئے پیداوار کا کم حصہ رکھے اور اکثر اس کے لئے رکھے، مثلا ایک فیصد یا پانچ فیصد اپنے لئے رکھے پھر اسی شخص کو وہ زمین ایک بڑی رقم (جو پھلوں کی قیمت کے مساوی ہو) کے بدلے ٹھیکہ پر دیدے اور باغ کے پھل میں جو حصہ مالک نے لے رکھا ہے وہ ٹھیکہ والے کے لئے چاہے تو مباح کردے ، تو اس طرح معاملہ درست ہوجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3202/46-7055
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر سوال مذکورہ عورت کے سابق شوہر کی میراث کے تعلق سے ہے، تو مذکورہ عورت کو سابق شوہر کے متروکہ مال میں سے آٹھواں حصہ ملے گا۔ نکاح ثانی کرنے سے وہ وراثت سے محروم نہ ہوگی، ۔ فان کان لکم ولد فلھن الثمن مماترکتم (سورۃ النساء 12)۔
بقیہ ورثاء کی تفصیل لکھ کر مرحوم کے تمام ترکہ کی تقسیم کے لئے رجوع کیاجاسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3101/46-5093
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کے واقع ہونے کے لئے پورے ہوش و حواس کے ساتھ طلاق کے الفاظ اداکرنا ضروری ہوتاہے ؛ محض وہم سے یا وسوسہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے ۔ اور نیند کی حالت میں طلاق کے الفاظ اگر نکل جائیں تو بھی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ لہذا نیند کی حالت میں طلاق کے وہم اور وسوسہ سے بدرجہ اولی طلاق واقع نہ ہوگی۔
لا یقع طلاق المولی علی امرأة عبدہ․․․ والنائم لانتفاء الإرادة إلخ․ (درمختار)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3007/46-4791
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
صورت مسئولہ میں شوہر نے تعلیق نہیں کی ہے، تعلیق الگ ہے اور طلاق الگ ہے۔ ماں کی ناراضگی کو بتاتے ہوئے ان سے تنجیزا تین طلاقیں دی ہیں۔ یہ تعلیق، طلاق کو ماں کے نظریہ پر محمول کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ ماں سے ناراضگی کے اظہار کے لئے ہے۔ اس لئے اس تعلیق کا طلاق سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ طلاق فوری طور پر واقع ہوگئی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2978/45-4728
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر پانی کی ٹنکی میں مرغی گر کر زندہ نکل آئے اور اس کے بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہیں ہے تو پانی پاک رہے گا، مرغی حلال اور پاک جانور ہے، محض مرغی کے پانی میں گرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
إذا وقع في البئر فأرة أو عصفور أو دجاجة أو سنور أو شاة وأخرجت منها حيّة لا ينجس الماء و لا يجب نزح شيء منه۔( المحیط البرہانی 1/101)۔
قيد بالموت ؛ لأنه لو أخرج حيا و ليس بنجس العين ولا به حدث أو خبث لم ينزح شيء إلا أن يدخل فمه الماء فيعتبر بسؤره ، فإن نجسا نزح الكل وإلا لا هو الصحيح ، نعم يندب عشرة من المشكوك لأجل الطهورية كذا في الخانية، زاد التتارخانية : و عشرين في الفأرة، و أربعين في سنور و دجاجة مخلاة كآدمي محدث۔ (الدر المختار : 213/1)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 2481/45-3764
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے اپنا گوڈاؤن براہ راست فلم والوں کو نہیں دیاہے، بلکہ آپ نے جس کو دیا ہے اس نے جہاں اوروں کا سامان کرایہ پر رکھاہے وہیں فلم والوں کا بھی رکھ لیا ہے، تو اس سے آپ کی کرایہ والی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس لئے اس شخص کو گوڈاؤں کرایہ پر دینا جائز ہے اورآپ کے لئے اس کا پورا کرایہ حلال ہے۔ تاہم اگرایساہوتا رہاتو آپ کو یہ کرایہ داری ختم کردینی چاہئے۔
وَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُؤَاجِرَ الْمُسْلِمُ دَارًا مِنْ الذِّمِّيِّ لِيَسْكُنَهَا فَإِنْ شَرِبَ فِيهَا الْخَمْرَ، أَوْ عَبَدَ فِيهَا الصَّلِيبَ، أَوْ أَدْخَلَ فِيهَا الْخَنَازِيرَ لَمْ يَلْحَقْ الْمُسْلِمَ إثْمٌ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُؤَاجِرْهَا لِذَلِكَ وَالْمَعْصِيَةُ فِي فِعْلِ الْمُسْتَأْجِرِ وَفِعْلُهُ دُونَ قَصْدِ رَبِّ الدَّارِ فَلَا إثْمَ عَلَى رَبِّ الدَّارِ فِي ذَلِكَ. (سرخسى، المبسوط، 16: 39، بيروت: دارالمعرفة) (الشيخ نظام و جماعة من علماء الهنديه، الفتاویٰ الهنديه، 4: 450، بيروت: دارالفکر)
وَمَنْ أَجَّرَ بَيْتًا لِيُتَّخَذَ فِيهِ بَيْتُ نَارٍ أَوْ كَنِيسَةٌ أَوْ بِيعَةٌ أَوْ يُبَاعُ فِيهِ الْخَمْرُ بِالسَّوَادِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.(مرغيناني، الهداية، 4: 94، المکتبة الاسلاميه)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند