اعتکاف
Ref. No. 2927/45-4517 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اعتکاف کا مقصد ہر طرف سے یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑنا اور قرب حاصل کرنا ہے اعتکاف کے دوران موبائل کا استعمال اس مقصد کے حصول میں رکاوٹ ہے، لہٰذا بلا ضرورت موبائل کا استعمال نہیں کرنا چاہئے، معتکف کے لئے نعت یا بیانات کی آڈیو سننے کی اگرچہ اجازت ہے لیکن مناسب نہیں بہتر یہ ہے کہ یہ وقت بھی نماز، قرآن کریم کی تلاوت ودیگر ذکر واذکار میں صرف کرے۔ نیز نعت یا تقریر کی ویڈیو دیکھنا جائز نہیں۔ وخص المعتکف (یأکل وشرب ونوم عقد احتاج الیہ) لنفسہ أو عیالہ فلو لتجارۃ کرہ (کبیع ونکاح ورجعۃ) قولہ (فلو لتجارۃ کرہ) أي وان لم یحضر السلعۃ واختارہ قاضی خان ورجحہ الزیلعی لأنہ منقطع الی اللہ تعالیٰ فلا ینبغی لہ أن یشتغل بأمور الدنیا بحر‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار: ج٢، ص: ٤٤٨) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف
Ref. No. 2930/45-4516 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معتکف کے بلا ضرورت شرعی مسجد سے باہر نکلنے سے اعتکاف فاسد ہو جاتا ہے اور اس پر ایک مرتبہ اعتکاف فاسد ہونے سے ایک دن کی قضا لازم ہوتی ہے، مسائل سے نا واقفیت اور لا علمی کوئی عذر نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ برتن دھونے اور کپڑے دھونے کے لئے کوئی نظم کرے۔ بھائی، بیٹے یا دوست سے مدد لے اگر کوئی نظم نہ ہو اور اس کے علاوہ کپڑے اس کے پاس نہ ہوں تو بقدر ضرورت مسجد شرعی سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی اسی طرح ہاتھ دھونے کے لئے شرعی مسجد کے کسی حصہ میں بالٹی رکھ لے۔ (٢) اگرزینہ شرعی مسجد کے اندر ہے تو نیچے کی منزل میں جماعت میں شرکت کرنا درست ہے، لیکن اگر زینہ شرعی مسجد سے خارج ہے تو معتکف کے جماعت میں شرکت کے لئے نیچے کی منزل میں آنے سے اعتکاف فاسد ہو جائے گا، اگر معتکف نے اوپر کی منزل میں تنہا ہی امام کے ساتھ نماز پڑھ لی تو نماز ادا ہو جائے گی، تاہم بہتر یہ ہے کہ نیچے کی منزل میں ہی اعتکاف کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف
Ref. No. 2892/45-4534 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رمضان کے پورے مہینہ کا اعتکاف کرنا بھی نبی کریم ﷺ کے عمل سے ثابت ہے؛ لہذا آپ ﷺ کے عمل کی اتباع میں رمضان کے پورے مہینہ کا اعتکاف کرنا باعثِ اجر و ثواب ہوگا، تاہم چونکہ یہ آپ ﷺ کا مستقل معمول نہیں تھا،اور آپ نے پورے رمضان کا اعتکاف شب قدر کی تلاش میں کیا تھا جس سے واضح ہوگیا تھا کہ شب قدر اخیر عشرہ میں ہے اور پھر آپ نے اسی کے اعتکاف کا حکم فرمایا۔ اس لئے پورے رمضان اعتکاف کرنے کو سنت قرار نہیں دیاجائے گا۔ بلکہ رمضان کے صرف اخیر عشرہ میں اعتکاف کرنا سنت ہوگا، اس کے علاوہ ایام میں اعتکاف کرنا مستحب قرار پائے گا۔ سنت اعتکاف ہو یا مستحب اعتکاف ہو دونوں میں ایک جیسی پابندیاں ہیں۔ رمضان کےاخیرہ عشرہ کا اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایۃ ہے، جس مطلب یہ ہے کہ اہل محلہ پر اس سنت پر عمل کرنا ضروری ہے، لیکن ایک شخص کے عمل سے سارے محلہ والے بری ہوجائیں گے اور ان سے گناہ ساقط ہوجائے گا، لیکن اگر اہل محلہ میں سے کوئی بھی اعتکاف میں نہیں بیٹھا اور مسجد خالی رہی تو سنت مؤکدہ کے ترک کا گناہ سب پر ہوگا۔ "وينقسم إلى واجب، وهو المنذور تنجيزا أو تعليقا، وإلى سنة مؤكدة، وهو في العشر الأخير من رمضان، وإلى مستحب، وهو ما سواهما، هكذا في فتح القدير". (الفتاوى الهندية (1 / 211) "وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنهم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتكف العشر الأول من رمضان ثم اعتكف العشر الأوسط في قبة تركية ثم أطلع رأسه، فقال: «إني اعتكفت العشر الأول ألتمس هذه الليلة ثم اعتكفت العشر الأوسط، ثم أتيت فقيل لي: إنها في العشر الأواخر، فمن اعتكف معي فليعتكف العشر الأواخر، فقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها، فالتمسوها في العشر الأواخر والتمسوها في كل وتر». قال: فمطرت السماء تلك الليلة وكان المسجد على عريش فوكف المسجد فبصرت عيناي رسول الله صلى الله عليه وسلم وعلى جبهته أثر الماء والطين والماء من صبيحة إحدى وعشرين. متفق عليه في المعنى واللفظ لمسلم إلى قوله: " فقيل لي: إنها في العشر الأواخر ". والباقي للبخاري". (مشكاة المصابيح (1 / 644) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معتکف کے لئے مسجد میں پردہ لگانا مستحب ہے، جس سے عبادت میں یکسوئی اور خلوت حاصل ہوتی ہے، اور سوتے وقت ستر کی بھی حفاظت ہوتی ہے، البتہ اس بات کا خیال رکھاجائے کہ ضرورت سے زیادہ جگہ نہ روکی جائے۔ عن عائشۃ قالت کان رسول اللہ ﷺ اذا اراد ان یعتکف صلی الفجر ثم دخل فی معتکفہ۔ (رواہ ابوداؤد وا بن ماجۃ ) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طبعی و شرعی ضرورت کے بغیر معتکف کے لئے مسجد سے نکلنا ممنوع ہے، اگر معتکف غلطی سے بھی شرعی مسجد سے باہر نکل گیا تو مسنون اعتکاف فاسد ہوجاتاہے، اور ایک دن کے اعتکاف کی قضاء لازم ہوتی ہے، عیدالفطر اور ایام تشریق کے علاوہ کسی بھی دن مغرب تا مغرب دن کے روزہ کے ساتھ قضا کرنا ضروری ہوگا۔ فلوخرج ولوناسیا ساعۃ زمانیۃ لا رملیۃ کما مر بلاعذر فسد۔ (الدرالمختار مع رد المحتار 2/447) (الھندیۃ 1/212) فان خرج ساعۃ بلاعذر فسد ای فسد اعتکافہ (التبیین الحقائق، باب الاعتکاف 2/230) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف

Ref. No. 40/1045

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورتوں کا اپنے گھروں سے نکل کر دوسری جگہ اعتکاف کرنا درست نہیں ۔ ان کو اپنے گھروں کے اندر ہی اعتکاف کرنا چاہئے؛ ازواج مطہرات کا یہی معمول تھا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف

Ref. No. 1267 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                           

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:ایسے گاوں جہاں جمعہ کی نماز درست نہیں وہاں اعتکاف میں بیٹھا شخص ظہر کی نماز ادا کرے گا، اس پر جمعہ واجب نہیں ، اگر دوسری مسجد میں  پہلے سے جمعہ ہوتا آرہا ہے تو بھی اس میں دوسری مسجد کے معتکف کو جانا درست نہیں، اگر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔  شہر میں جمعہ کی نماز واجب ہے، اس لئے اگر کوئی شخص کسی شہر کی ایسی مسجد میں اعتکاف کررہاہو جہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تو اس کو دوسری مسجد میں جمعہ کی نماز اداکرنے کے لئے نکلنا ضروری ہے۔  واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف

Ref. No. 40/1058

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غسل مسنون کے لئے بھی نکلنے کی  اجازت نہیں ہے ، اگر غسل مسنون کے لئے مسجد سے نکل کرباہر جائے گا تو اعتکاف فاسد ہوجائے گا، البتہ اگر قضائے حاجت  کے لئے جائے اور غسل بھی جلدی سے کرکے آجائے تو اس کی گنجائش ہے۔ اس میں غسل بھی ہوجائے گا اور اعتکاف بھی باقی  رہے گا۔ (حرم علیہ ای علی المعتکف الخروج الا لحاجۃ الانسان طبیعیۃ کبول و غائط وغسل لو احتلم ولایمکنہ الاغتسال فی المسجد (الدر مع الرد 30/435) ولو خرج من المسجد ساعۃ بغیرعذر فسد اعتکافہ عند ابی حنیفۃ (ھدایہ 1/294))۔

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف

Ref. No. 894/41-16B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال پشاور والوں کو اپنی ہی تاریخ کے اعتبار سے ایک دن پہلے ہی کربوغہ میں اعتکاف کے لئے بیٹھنا چاہئے، اور اختتام کربوغہ کی تاریخ کے اعتبار سے  کرنا چاہئے احتراما للوقت و موافقا للمسلمین۔ تاہم بہتر یہ ہے کہ پشاور والوں کو کربوغہ میں نفلی اعتکاف کی نیت کرنی چاہئے، اور اگر اعتکاف مسنون ہی کرنا چاہیں تو اپنے علاقوں میں کریں۔

وقالا: يتشبه) بالمصلين ای احتراما للوقت ۔۔۔ قوله كالصوم) أي في مثل الحائض إذا طهرت في رمضان، فإنها تمسك تشبها بالصائم لحرمة الشهر ثم تقضي (الدرالمختار 2/253)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اعتکاف

Ref. No. 896/41-14B

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جس زمین پر ایک مرتبہ مسجد بن جائے وہ زمین کی آخری تہہ  اور آسمان تک قیامت تک کے لئے مسجد ہی رہتی ہے۔ لہذا مذکورہ کمرے اب بھی مسجد ہی ہیں۔ اس حصہ میں جانے سے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا، اذان اور جنازہ کے لئے ان کا استعمال درست نہیں ہے،۔

(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي) (الدرالمختار 4/358)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند