اسلامی عقائد

Ref. No. 3206/46-9017

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی جسم واعضاء سے منزہ ہے لیکن قرآن و حدیث میں  اللہ تعالی کے کچھ صفات متشابہات واردہوئی ہیں، کہ جن کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاترہے۔ پس ان صفات باری تعالٰی کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات اللہ تعالٰی کے لیے قرآن وحدیث میں ثابت ہیں، ان صفات کو ثابت مانیں گے اور جن صفات کی نفی کی گئی ہے ان کی نفی کریں گے۔ صورت مسئولہ میں پیر کی انگلی ناک وغیرہ چوں کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن و حدیث میں ثابت نہیں ہیں، تو ان کا انکار کرنے سےکفر لازم نہیں آئے گا۔ اس طرح کی چیزوں میں بہت زیادہ غور و خوض مناسب نہیں ہے۔  شرح الطحاویہ میں ہے:

والواجب ان ينظر في هذا الباب اعنى فى باب الصفات فما اثبته الله ورسوله اثبتناہ و ما نفاه الله ورسوله نفيناه ) (شرح الطحاوية ١٦٨)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 3206/46-9013

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی جسم واعضاء سے منزہ ہے لیکن قرآن و حدیث میں  اللہ تعالی کے کچھ صفات متشابہات واردہوئی ہیں، کہ جن کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاترہے۔ پس ان صفات باری تعالٰی کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات اللہ تعالٰی کے لیے قرآن وحدیث میں ثابت ہیں، ان صفات کو ثابت مانیں گے اور جن صفات کی نفی کی گئی ہے ان کی نفی کریں گے۔ صورت مسئولہ میں پیر کی انگلی ناک وغیرہ چوں کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن و حدیث میں ثابت نہیں ہیں، تو ان کا انکار کرنے سےکفر لازم نہیں آئے گا۔ اس طرح کی چیزوں میں بہت زیادہ غور و خوض مناسب نہیں ہے۔

شرح الطحاویہ میں ہے: والواجب ان ينظر في هذا الباب اعنى فى باب الصفات فما اثبته الله ورسوله اثبتناہ و ما نفاه الله ورسوله نفيناه ) (شرح الطحاوية ١٦٨)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 3269/46-8075

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In matters of Waqf, it is crucial to respect the intent of the donor (Waqif), and the land dedicated for a specific purpose must be utilized strictly for the same purpose. Consequently, land designated as a cemetery for the burial of the deceased cannot be repurposed or incorporated into an Eidgah.

However, if the cemetery is extensive and the portion of land near the Eidgah under consideration is clearly not required for burial purposes now or in the foreseeable future (e.g., the next 10-20 years), certain conditions may permit its use. This would only be allowed if the graves in that area are very old and the buried remains have fully decomposed into the soil. In such cases, a few graves may be leveled, and the land incorporated into the Eidgah.

If, on the other hand, the graves are relatively recent, it would not be permissible to include that portion of the cemetery in the Eidgah premises.

قد تقرر عند الفقہاء أن مراعاة غرض الواقفین واجبة و أن نص الواقف کنص الشارع، کذا في عامة کتب الفقہ والفتاوی،مستفاد:البقعة الموقوفة علی جھة إذا بنی رجل فیھا بناء ووقفھا علی تلک الجھة یجوز بلا خلاف تبعاً لھا، فإن وقفھا علی جھة أخری ، اختلفوا في جوازہ ، والأصح أنہ لا یجوز(الفتاوی الھندیة، ۲: ۳۶۲،ط:المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)عن الغیاثیة) اھ، وإن اختلف أحدھما بأن بنی رجلان مسجدین أو رجل مسجداً ومدرسة ووقف علیھما أوقافاً لا یجوز لہ ذلک (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف، ۶: ۵۵۱،ط: مکتبة زکریا دیوبند)، قال الخیر الرملي: أقول: ومن اختلاف الجھة ما إذا کان الوقف منزلین أحدھما للسکنی والآخر للاستغلال، فلا یصرف أحدھما إلی الآخر، وھي واقعة الفتوی اھ (رد المحتار ۶: ۵۵۱)۔

"قال ابن القاسم: لو أن مقبرة من مقابر المسلمین عفت، فبنی قوم فیها مسجدًا لم أر بذٰلک بأسًا؛ لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمین لدفن موتاهم، لا یجوز لأحد أن یملکها، فإذا درست واستغنی عن الدفن فیها جاز صرفها إلی المسجد؛ لأن المسجد أیضًا وقف من أوقاف المسلمین لا یجوز تملیکه لأحد، فمعناهما واحد. وأما المقبرة الداثرة إذا بُني فیها مسجد لیصلي فیها، فلم أر فیه بأسًا؛ لأن المقابر وقف، وکذا المسجد فمعناهما واحد". (عمدة القاري شرح صحیح البخاري / باب هل تنبش قبور مشرکي الجاهلیة ویتخذ مکانها مساجد ۴؍۱۷۴And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref. No. 2990/46-4759

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ کی ذات یا صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک کہلاتاہے، اسی طرح نجومیوں سے غیب کی خبریں معلوم کرنا، ہاتھ دکھانا، نذرونیاز گزارنا، اللہ کے سوا کسی کے نام کی قسم کھانا ، کسی پیر یا ولی کو حاجت روا و مشکل کشا کہنا وغیرہ امور بھی شرک کی فہرست میں آتے ہیں۔ زیادہ پیسے کمانا شرک نہیں ہے، البتہ یہ بات قابل غور ہے کہ زیادہ پیسے کیوں کمانا چاہتے ہیں، ان پیسوں کے مصارف کیا ہوں گے اور کہاں خرچ کریں گے۔ شریعت حلال طریقہ پر زیادہ پیسے کمانے سے نہ تو منع کرتی ہے اور نہ ہی اس کو ناپسند کرتی ہے، بلکہ شرعی حدود میں  رہ کر شرعی حقوق کی ادائیگی کی تلقین کرتی ہے۔ اس لئے زیادہ پیسے کمانے کے لئے حلال ذرائع اختیار کریں اور لوگوں کے حقوق کی ادائیگی  کے ساتھ زکوۃ و صدقات میں بھی کوتاہی سے بچیں۔ عقیدہ کے بارے میں مزید تفصیل کے لئے مطالعہ کریں: بہشتی زیور از حضرت تھانوی ؒ ۔ تعلیم الاسلام از حضرت مولانا اسماعیل میرٹھیؒ۔ آسان اسلامی عقائد از مفتی امانت علی قاسمی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 3193/46-7031

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  یہ تمام باتیں عقائد اہل سنت والجماعت کے خلاف ہیں۔ علمائے دیوبند کے عقیدہ کے خلاف ہو کر کوئی دیوبندی کیسے ہو سکتا ہے۔ علماء دیوبند کے عقائد کا حامل ہی دیوبندی کہلا سکتا ہے چاہے وہ دنیا کے کسی گوشہ میں ہو اور علماء دیوبند سے بھی ناواقف ہو۔

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ عقائد ونظریات کا حامل شخص شیعہ ہے جو تقیہ کر رہا ہے اور دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے خود کو دیوبندی کہہ رہا ہے۔ حالانکہ حقیقت میں وہ دیوبندی نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 3152/46-6049

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اللہ تعالیٰ کی ذات کسی مکان کے ساتھ اس طرح خاص نہیں ہے جس طرح انسانی جسم ایک محدود مکان کا احاطہ کئے ہوئے ہوتاہے، ۔ اگر کسی نے لاپتہ کہدیا  جبکہ مقصود یہی لا مکان ہو کیونکہ پتہ بھی مخصوص مکان کا ہوتاہے تو اس سے بھی مکان کی نفی ہوتی ہے اس لئے اس  سے کفر لازم نہیں آیا۔ البتہ ان جیسے الفاظ سے اجتناب کرنا چاہئے اور اللہ تعالی کے لئے وہی الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جو قرآن و حدیث میں مذکور ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No.  3133/46-6013

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد کےامور امام صاحب یا متولی صاحب ہی طے کریں، ہر شخص کی رائے پر عمل ممکن نہیں ہے۔ جنتریوں میں جو ایک دو منٹ کا فرق ہوتاہے وہ احتیاط کا ہوتاہے، کسی جنتری میں اصل وقت لکھاہوتاہے اور کسی میں دو یا تین منٹ کی  احتیاط رکھ کر وقت لکھاجاتاہے، اس لئے جو جنتری کے وقت پر اذان دیدے وہ بھی درست ہے اور جو دو  تین منٹ کے احتیاط  پر عمل کرے  وہ بھی  ٹھیک ہے۔ اس لئے کوئی شخص بھی اپنی ذاتی رائے سے امام و متولی کو پریشان کرکے فسادپیدا نہ کرے۔ امام صاحب کو چاہئے کہ متولی  یا مسجد کمیٹی کے مشورہ سے امور طے کرلیا کریں ۔  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No.  3087/46-4969

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کوئی ایمان والا بندہ خواہ وہ کتنا ہی بڑا گنہگار ہو، اور کتنے ہی بڑے جرم کا مرتکب ہو،  اگراس  گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے تو اس  کی  توبہ کے لئے اللہ تعالی کا دربار ہر وقت کھُلارہتاہے، اور جس طرح ایک ماں اپنے گمشدہ بیٹے کی واپسی کا بہت شدت  سے انتظار کرتی ہے، اللہ تعالی اپنے بھٹکے ہوئے بندہ کی واپسی کا  اس سے زیادہ شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ جب بندہ توبہ کوتاہے تو اللہ تعالی اس کے دل کو صاف کردیتے ہیں مہر اور قساوت قلبی کو دور فرمادیتے ہیں،حدیث شریف میں آیا ہے" التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ"۔  اور اگر اس کا تعلق بندوں سے ہے تو بندوں  سے معافی مانگنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ  نزع کے وقت جبکہ آخرت کے احوال منکشف ہوجاتے ہیں  اورایمان بالغیب کا وقت نکل چکاہوتاہے، اس  وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No. 3067/46-4931

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In this regard, you had better refer to Hafiz Ibne Hazm's book Ismat e Anbiyya translated by Hidayatullah Nadwi, and Risala Bayyinat by Allama Syed Muhammad Yusuf Banuri, as well as Darul Uloom's online Fatwa No. 40922. And also you can show it to your brother. Everyone should refrain from discussing the disputes of the Prophets and Companions. This is the tact of Ahle Sunnat wal Jamaat.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref.  No.  3006/46-4793

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر سوال میں مذکورہ امور واقعی ہیں تو یقینا یہ امور غیرشرعی ہونے کے ساتھ  غیراخلاقی بھی ہیں۔ نیز دعا و تعویذ میں شرکیہ کلمات اور غیراللہ کے نام سے استعانت وغیرہ امور حرام بھی ہیں، اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانا جائز نہیں ہے۔

وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ والأسماء والصفات الربانیۃ والدعوات المأثورۃ النبویۃ فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذا أو فیہ أو نشرۃ وأما علی لفۃ العبرانیۃ نحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا‘‘ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’الفصل الثاني: کتاب الطب والرقي‘‘: ج ۷، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۵۵۳۔)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند