اسلامی عقائد

Ref.  No.  3087/46-4969

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کوئی ایمان والا بندہ خواہ وہ کتنا ہی بڑا گنہگار ہو، اور کتنے ہی بڑے جرم کا مرتکب ہو،  اگراس  گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہے تو اس  کی  توبہ کے لئے اللہ تعالی کا دربار ہر وقت کھُلارہتاہے، اور جس طرح ایک ماں اپنے گمشدہ بیٹے کی واپسی کا بہت شدت  سے انتظار کرتی ہے، اللہ تعالی اپنے بھٹکے ہوئے بندہ کی واپسی کا  اس سے زیادہ شدت سے انتظار کرتے ہیں۔ جب بندہ توبہ کوتاہے تو اللہ تعالی اس کے دل کو صاف کردیتے ہیں مہر اور قساوت قلبی کو دور فرمادیتے ہیں،حدیث شریف میں آیا ہے" التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ"۔  اور اگر اس کا تعلق بندوں سے ہے تو بندوں  سے معافی مانگنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ  نزع کے وقت جبکہ آخرت کے احوال منکشف ہوجاتے ہیں  اورایمان بالغیب کا وقت نکل چکاہوتاہے، اس  وقت توبہ کا دروازہ بند ہوجاتاہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref.  No. 3067/46-4931

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

In this regard, you had better refer to Hafiz Ibne Hazm's book Ismat e Anbiyya translated by Hidayatullah Nadwi, and Risala Bayyinat by Allama Syed Muhammad Yusuf Banuri, as well as Darul Uloom's online Fatwa No. 40922. And also you can show it to your brother. Everyone should refrain from discussing the disputes of the Prophets and Companions. This is the tact of Ahle Sunnat wal Jamaat.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

اسلامی عقائد

Ref.  No.  3006/46-4793

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر سوال میں مذکورہ امور واقعی ہیں تو یقینا یہ امور غیرشرعی ہونے کے ساتھ  غیراخلاقی بھی ہیں۔ نیز دعا و تعویذ میں شرکیہ کلمات اور غیراللہ کے نام سے استعانت وغیرہ امور حرام بھی ہیں، اس لئے ایسے عامل سے علاج کرانا جائز نہیں ہے۔

وأما ما کان من الآیات القرآنیۃ والأسماء والصفات الربانیۃ والدعوات المأثورۃ النبویۃ فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذا أو فیہ أو نشرۃ وأما علی لفۃ العبرانیۃ نحوہا فیمتنع لاحتمال الشرک فیہا‘‘ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’الفصل الثاني: کتاب الطب والرقي‘‘: ج ۷، ص: ۱۸۱، رقم: ۴۵۵۳۔)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2988/46-4763

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے تمام سوالات تفصیل طلب ہیں اور ان کے متعلق علماء دیوبند کی کتب متداولہ میں کافی و شافی جوابات موجود ہیں، تاہم چند مختصر نکات کو بیان کرنے کے بعد ہم حوالہ پیش کردیتے ہیں تاکہ آپ مزید تفصیل کے لئے بوقت ضرورت رجوع کرسکیں۔

1. اللہ تعالی نے جو کچھ فرمایا اس کے خلاف کرنے پر قادر ہے، مگر باختیار خود اس کو نہیں کرے گا ، مثلا فرعون پر ادخال نار کی وعید ہے مگر فرعون کو جنت میں داخل کرنے پر  قادر ہے اگر چہ ہر گز اس کو جنت میں داخل نہیں کرے گا جیسا کہ خود اس نے متعدد بار قرآن  میں فرمایا ہے؛ اس کو علم کلام کی اصطلاح میں  امکان ذاتی اور امتناع بالغیر سے تعبیر کیاجاتاہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ص، جیسم بکڈپو113) 

2-6. کے سوالات کے متعلق مختصر اً یہ سمجھیں کہ : ہر صفت کا ایک دائرہ کار ہوتاہے، جس میں وہ اپنا کام کرتی ہے، قدرت کا دائرہ کار مقدورات یعنی ممکنات  ہیں، اس لئے اگر وہ محالات اور ممتنعات کی جانب متوجہ نہیں ہوتی تو اس کے کمال میں ہرگز کسی نقصان کا وہم بھی نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ محالات اس کے دائرہ کار میں داخل ہی نہیں ہیں، وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے کسی دائرہ خارج میں آنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے، یعنی کمال و نقصانِ فاعلیت ،  اور کمال و نقصانِ مفعولیت  دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اس حقیقت کو س پہونچنے کی بناء پر ایک شخص مقدوریت کے نقصان کو قادریت کا نقصان سمجھ بیٹھتاہے، موتِ خداوندی مقدور نہیں کیونکہ محال ہے، مگر اس سے اللہ کی قادریت میں کوئی  فرق اورنقصان لازم نہیں آئے گا ۔(انتصار الاسلام از حضرت نانوتویؒ ص 32 مکتبہ دارالعلوم دیوبند)

3. اللہ کا نور اجزاء و حصص سے پاک ہے، اس لئے اللہ کے نور سے کسی کا پیداہونا بھی محال ہے، ہاں اللہ کے نور سے مراد اگر اللہ کے نور کے فیض سے پیداہونا ہے تو یہ ممکنات کے قبیل سے ہے، چنانچہ جن روایات میں  پیغمبرکا نور سے پیدا ہونا  بیان ہوا یا ان کو  نور کہا گیا اس سے مراد بعینہ ذات نور خداوندی نہیں ہے بلکہ فیضِ نورخداوندی  مراد ہے۔ (رسالہ بینات ، محرم الحرام 1402 مطابق نومبر 1981ء جلد 40، شمارہ 1 ص21تا 39 بنوری ٹاؤن)  یہ اصول یاد رکھیں کہ جس چیز کے تسلیم کرنے سے  ذات و صفات خداوندی میں فرق آجائے  وہ محال ہے ، اور محال و ممتنع چیز باری تعالی کے لئے ثابت نہیں ہے، وہ ہر محال سے منزہ اور برتر ہے، ایسی چیزوں کو اللہ کی جانب منسوب کرنا سخت گستاخی کی بات ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ ج3 ص 35 مکتبہ محمودیہ)

7. کسی کا یہ کہنا کہ اگر اللہ تعالی شرک کے لئے کہتا تو میں شرک کرتا، یہ جملہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کرنے اور اس کے حکم کے زیر نگیں ہونے کو بتانے کے لئے ہے، اس لئے محض ایسا سوچنے یا زبان سے کہنے سے کوئی کافر نہیں ہوگا، اور تجدید ایمان و نکاح کی بھی حاجت نہیں ہوگی،  اور شرک کی اجازت پر اللہ کی قدرت کا عقیدہ اپنی جگہ درست ہے جیساکہ تفصیل اس کی آچکی ہے۔

قدرت باری تعالیٰ پر مزید تفصیل کے لئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کرسکتے ہیں: اتنصار الاسلام از حضرت نانوتوی ؒ ص 24 تا 33، بوادرالنوادر ج1 ص 207 تا 210 جسیم بکڈپو، فتاوی ٰ رشیدیہ ص 113 جسیم بکڈپو، فتاویٰ محمودیہ ج3 ص 35 مکتبہ محمودیہ، رسالہ بینات ، محرم الحرام 1402 مطابق نومبر 1981ء جلد 40، شمارہ 1 ص21تا 39 بنوری ٹاؤن

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2950/45-4673

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو شخص دارالاسلام میں یاکسی ایسی جگہ میں  مسلمان ہوا  جہاں اسلامی  احکام   عام ہیں اور اسلامی احکام سے واقف ہونا آسان ہے، تو ایسی جگہ پر اسلامی احکام سے ناواقفیت شخص مذکور کے حق میں عذ ر شمار نہیں ہوگی، اور اس سلسلہ میں معلومات حاصل نہ کرنے کی وجہ سے وہ گہنگار بھی ہوگا، اس پر لازم ہوگا  کہ جب وہ مسلمان ہے تو اسلامی احکام کو علماء سے  حاصل کرے  اور اس کے مطابق عمل کرے۔ اگر اس نے معلومات حاصل نہیں کی اور عمل نہیں کیا تو نماز و روزہ وغیرہ کی قضاء اس کے ذمہ میں لازم ہوگی؛ جلد از جلد ان کی ادائیگی کی کوشش کرے۔ جتنے سالوں کی نمازیں اور روزے اس کے ذمہ ہیں ان کی لسٹ بناکر پابندی کے ساتھ ان کو ادا کرتا رہے۔ البتہ اگر   کوئی شخص  دارالکفر یا کسی ایسی جگہ پر ہے جہاں اسلامی  احکام  کا کوئی رواج نہیں ہے، جہاں مسلمان  یا اسلامی حکومت نہیں ہیں اور اسلامی احکام سے واقف ہونے کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے، اور اسلامی احکام  کے علم کے حصول کا کوئی نظم نہیں ہے توایسے شخص کے حق میں احکام اسلام سے  ناواقف ہونا عذر  شمار ہوگا اور ایسی صورت میں خطاب علم اور دلیل علم کے نہ ہونے کی بناء پر اس پر احکام اسلام لازم نہ ہوں گے، اس لئے گذشتہ نمازوں اور روزوں کی قضاء بھی اس کے ذمہ میں نہیں ہوگی۔  

حربی اسلم فی دارالحرب ولم یعلم بالشرائع من الصوم والصلوۃ ونحوھما ثم دخل دارالاسلام او مات لم یکن علیہ قضاء الصوم والصلوۃ قیاسا واستحسانا ولا یعاقب علیہ اذا مات و لو اسلم فی دارالاسلام ولم یعلم بالشرائع یلزمہ القضاء استحسانا (الھندیۃ الحادی عشر فی قضاء الفوائت  1/124)

من اسلم فی دارالاحرب ولم یعلم بہ فانہ لایجب علیہ مالم یعلم فاذا علم لیس علیہ قضاء ما مضی اذ لاتکلیف بدون العلم ثمۃ للعذر بالجھل (شامی کتاب الصوم 2/371)

یعذر بالجھل حربی اسلم ثمۃ ومکث مدۃ فلا قضاء علیہ  لان الخطاب انما یلزم بالعلم او دلیلہ و لم یوجد (شامی باب قضاء الفوائت 2/75)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2924/45-4521

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کفر ہے آپ کی اہلیہ کو ایمان کی تجدید اور توبہ واستغفار کرنا چاہئے اور تجدید نکاح کرلیا جائے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد
Ref. No. 2887/45-4573 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرآن مجید میں محض کسی کا ذکر آنا یا کسی کا ذکر کئی بار آنا اس کی فضیلت کی دلیل نہیں ہے۔ قرآن مجید میں تو شیطان ، فرعون و ہامان اور ابولہب وغیرہ کا بھی ذکر ہے، اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جن صحابہ وانبیاء کا نام قرآن میں نہیں ہے ان سے یہ افضل ہوگئے۔ قرآن میں شیطان کا ذکر تقریبا 88 بار آیاہے، جہنم کا ذکر 77 بار آیاہے ، اس لئے اس طرح کی بات کے ذریعہ افضلیت پر استدلال انتہائی نادانی اور کم علمی کی وجہ سے ہے۔ مزید یہ کہ قرآن کریم رسالتمآب حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا ہے اور آپ ﷺ کو مخاطب کرکے احکام اور آیتیں اتری ہیں اور جس کو مخاطب کیاجاتاہے اس کا نام عام طور پر نہیں لیاجاتاہے۔اس لئے نام کا ذکر گرچہ کم ہے مگر آپ کی صفات اور آپ کے لئے ضمائر کا ذکر سیکڑوں میں ہیں۔ اس لئے اگر سائل کے یہاں کثرت ذکر افضلیت کی دلیل ہے تو اس صورت میں آپ ﷺ کے ذکر کثیر سے قرآن مجید بھرا ہوا ہے۔ یا ایھا المدثر، یاایھا المزمل، یاایھاالنبی، یا ایھا الرسول کے ذریعہ تخاطب کے علاوہ کہیں 'بعبدہ' انزل الیک، وما انت علیھم بوکیل، لست علھم بمصیطر وغیرہ سیکڑوں آیتیں ہیں جن میں آپ ﷺ کا ذکر ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1135/42-353

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مذکورہ میں پہلے شخص پر دیت واجب نہیں ہوگی، اس لئے کہ سانپ نے دوسرے کو نقصان پہونچایا ہے، اسی طرح دوسرے اور تیسرے پر بھی دیت واجب نہیں  ہوگی۔ چوتھے شخص پر دیت واجب ہونے کی یہ تفصیل ہے کہ آخری یعنی پانچویں شخص کو اگر سانپ نے گرتے ہی نہیں کاٹا بلکہ پانچواں شخص اگر بچنا چاہتا تو بچ سکتا تھا تو پھر چوتھے شخص پر بھی  دیت واجب نہیں ہوگی۔

یہ واقعہ حضرت امام صاحب سے علماء کرام کی ایک مجلس سے پوچھاگیا تھا جس مجلس میں ابن ابی لیلی اور سفیان ثوری وغیرہ کبار فقہاء موجود تھے تو امام صاحب نے یہی جواب دیا تھا۔ ۔ اور حاضرین علماء نے اس کی تصویب کی تھی۔۔

(وقعت حية عليه فدفعها عن نفسه فسقطت على آخر فدفعها عن نفسه فوقعت على ثالث فلسعته) أي الثالث (فهلك) فعلى من الدية؟ هكذا سئل أبو حنيفة بحضرة جماعة، فقال: لا يضمن الأول لأن الحية لم تضر الثاني، وكذلك لا يضمن الثاني والثالث لو كثروا وأما الأخير (فإن لسعته مع سقوطها) فورا (من غير مهلة فعلى الدافع الدية) لورثة الهالك (وإلا) تلسعه فورا (لا) يضمن دافعها عليه أيضا فاستصوبوه جميعا، وهذه من مناقبه(ردالمحتار 6/559)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 1587/43-1122

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو رکعت نفل نماز کی نیت کی اور دو رکعت پر قعدہ نہیں کیا اور چار رکعت  پڑھ کر قعدہ کرکے سجدہ سہو کے ساتھ سلام پھیرا تو استحسانا نماز درست ہوجائے گی۔

وأصل المسألة يصلي التطوع أربع ركعات إذا لم يقعد في الثانية قدر التشهد وقام وأتم صلاته أنه يجوز استحسانا عندهما، ولا يجوز عند محمد قياسا (بدائع، فصل فی سنن صلوۃ التراویح 1/289) ولو لم يقعد على رأس الشفع الأول القياس أنه لا يجوز وبه أخذ محمد وزفر ورواية عن أبي حنيفة، وفي " الاستحسان ": يجوز وهو ظاهر الرواية عن أبي حنيفة وهو قول أبي يوسف،(البنایۃ، صلوۃ الوتر جماعۃ فی غیر رمضان 2/559)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ جملہ اگر عیاذ ا باللہ نماز کا مذاق اڑانے کے لئے کہا تو ایمان سے خارج ہے اور اگر مذاق اڑانے کے لئے نہیں کہا، تب بھی ایسا جملہ کہنا گناہ کبیرہ ہے توبہ و استغفار لازم ہے ایسے شخص کو مناسب طریقہ پر نصیحت کی جانی چاہئے۔(۱

(۱) أو قال: ’’نماز کردہ وناکردہ یکے است‘‘  أو قال: ’’چنداں نماز کردم مرا دل بگرفت‘‘ أو قال: ’’نماز چیزے نیست کہ اگر بماند کندہ شود‘‘ فہٰذا کلہ کفر، کذا في خزانۃ المفتیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، وموجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بالصلاۃ، والصوم، والزکاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۰)

ولو قیل لرجل: صلّ فقال: ’’تو چندیں گاہ نماز کردے‘‘ أو قال: ’’چندین گاہ نماز کردم چہ بر سر آوردم‘‘ کفر۔ (الفتاویٰ السراجیہ، ’’کتاب السیر: باب ألفاظ الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۷)

الہازل أو المستہزي إذا تکلم بکفر استخفافاً استہزاء ومزاحاً یکون کفراً عند الکل وإن کان اعتقادہ خلاف ذلک۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۷)

 

 

 دار العلوم وقف دیوبند