Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2938/45-4618
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موبائل میں قرآن مجید کا پی ڈی ایف یا ایپ رکھنا اور اس کو کھول کر تلاوت کرنا جائز ہے اور اس پر ثواب بھی ملتاہے، قرآن کریم کو بلاچھوئے زبانی پڑھنا بھی جائز ہے تو موبائل میں دیکھ کرپڑھنا بھی جائز ہے، البتہ جب قرآن کریم اسکرین پر کھلاہوا ہو تو اسکرین کو بلا وضو کےہاتھ لگانا جائز نہیں ہے، علاوہ ازیں بہتر ہے کہ قرآن مجید کو براہ راست ہاتھ میں لے کر پڑھاجائے۔
"ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب". (خلاصة الفتاویٰ، ج:۱ ؍ ۱۰۴ )"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لايحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لايكره مسه كما في حيض، القهستاني وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل.... (قوله: غير مشرز) أي غير مخيط به، وهو تفسير للمتجافي قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤه مشدود بعضها إلى بعض من الشيرازة وليست بعربية اهـ فالمراد بالغلاف ما كان منفصلاً كالخريطة وهي الكيس ونحوها؛ لأن المتصل بالمصحف منه حتى يدخل في بيعه بلا ذكر. وقيل: المراد به الجلد المشرز، وصححه في المحيط والكافي، وصحح الأول في الهداية وكثير من الكتب، وزاد في السراج: أن عليه الفتوى. وفي البحر: أنه أقرب إلى التعظيم. قال والخلاف فيه جار في الكم أيضاً. ففي المحيط: لايكره عند الجمهور، واختاره في الكافي معللاً بأن المس اسم للمباشرة باليد بلا حائل. وفي الهداية: أنه يكره هو الصحيح؛ لأنه تابع له، وعزاه في الخلاصة إلى عامة المشايخ، فهو معارض لما في المحيط فكان هو أولى. اهـ. أقول: بل هو ظاهر الرواية كما في الخانية، والتقييد بالكم اتفاقي فإنه لايجوز مسه ببعض ثياب البدن غير الكم كما في الفتح عن الفتاوى. وفيه قال لي بعض الإخوان: أيجوز بالمنديل الموضوع على العنق؟ قلت: لاأعلم فيه نقلاً. والذي يظهر أنه إذا تحرك طرفه بحركته لايجوز وإلا جاز، لاعتبارهم إياه تبعاً له كبدنه في الأول دون الثاني فيما لو صلى وعليه عمامة بطرفها الملقى نجاسة مانعة، وأقره في النهر والبحرقوله: أو بصرة) راجع للدرهم، والمراد بالصرة ما كانت من غير ثيابه التابعة له. (قوله: وحل قلبه بعود) أي تقليب أوراق المصحف بعود ونحوه لعدم صدق المس عليه (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 173)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
قرآن کریم اور تفسیر
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2191/44-2335
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اردو تفسیر کا نام "معارف القرآن" ہے جس کے مصنف مولانا مفتی شفیع صاحب ہیں،اور ہندی زبان میں معارف القرآن کا ترجمہ مولانا عمران بگیانوی صاحب نے کیا ہے۔ یہ دونوں تفسیریں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ مشکوۃ المصابیح کو اردو میں سمجھنے کے لئے 'مظاہر حق جدید' پڑھیں جس کے مرتب مولانا عبداللہ جاوید صاحب ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 847 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: قاری صاحب اپنا وقت فارغ کرکے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے جلسہ میں جاتے ہیں جسکی وجہ سے مدرسہ سے ان کی تنخواہ بھی وضع ہوتی ہے، اس لئے اہل جلسہ کو چاہئے کہ قاری صاحب کو حسب استطاعت ضرور دیں۔تاہم قاری صاحب کا قرآن پڑھنے کی اجرت طے کرنا درست نہیں ہے، اس پر اصرار نہ ہونا چاہئے۔ البتہ سفرخرچ وغیرہ یقینا اہل جلسہ پر ہی لازم ہے، اور اس کا مطالبہ اور تعیین بھی درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2046/44-2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ لحن خفی مکروہ تنزیہی اور لحن جلی مکروہ تحریمی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2071/44-2066
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سجدہ تلاوت کے لئے سجدہ کی آیت کا ذہن میں ہونا یا اس کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو سجدہ ذمہ میں ہے اس کی نیت کرے۔ سجدہ کے وقت سجدوں کے تعداد کے مطابق سجدہ کرلینا کافی ہے، ہر آیت یا یاد ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ جب آدمی تلاوت کرے تو آیت سجدہ پڑھنے کے بعد تلاوت روک کر سجدہ کرلے پھر آگے پڑھے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2349/44-3537
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ، ابو الشیخ اصفہانی کی العظمۃ مطبوعہ دارالعاصمۃ الریاض، اور امام قرطبی کی التذکرۃ مطبوعہ المنہج للنشر والتوزیع بالریاض ، اور معارف القرآن میں سورہ رحمن کی تفسیر کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ نیز جنت اور اہل جنت، جنت کی زندگی، جنت کے حسین مناظر کا بھی مطالعہ آپ کے لئے مفید ثابت ہوسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعنت وبددعا کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الٰہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کو ن سا فریق حق پرہے۔
قرآن کریم کی سورہ آل عمران میں مباہلہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصاری کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئیں (۱) اسلام قبول کرو (۲) یا جزیہ ادا کرو (۳) یا جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ نصاریٰ نے آپس میں مشورہ کرکے شرحبیل، عبد اللہ بن شرحبیل، اور جبار بن قیص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت کی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث وتکرار سے کام لیا اتنے میں یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کو مباہلہ کی دعوت اور انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی؛ لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلے سے اجتناب کیا؛ کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی: فاطمہ زہراء، اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ، اپنے نواسوں اور فرزندوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر آئے ہیں، چنانچہ شرحبیل نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہاکہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ اللہ کانبی ہے اور نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت اور بربادی یقینی ہے؛ اس لیے نجات کا کوئی راستہ تلاش کرو بالآخر ان لوگوں نے صلح کی تجویز منظور کرلی اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت ظاہر ہوگئی۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۲، ص: ۸۵۔
وکان أہل نجران جاؤا إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیناظروہ في أمر عیسیٰ علیہ السلام فلما لم یقبلوا الحق دعاہم إلی المباہلۃ، فہذا دلیل علی أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد بأہلہم علی حیاتہ أیضاً۔ (الکشمیري، فیض الباري علی صحیح البخاري، ’’باب قصۃ أہل نجران‘‘: ج ۵، ص: ۱۴۰، رقم: ۴۳۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص51
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزمل اس شخص کو کہتے ہیں جو بڑے کپڑے کو اپنے اوپر لپیٹ لے اور مدثر اس شخص کو کہا جاتا ہے جو آدمی عام لباس کے اوپر سردی وغیرہ سے بچنے کے لئے لپیٹ لیتا ہے۔(۱) حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے ترجمہ میں کیا خوب فرق ہے۔
{یآ أیہا المزمل} اے کپڑے میں لپٹنے والے، {یا أیہا المدثر} اے لحاف میں لپٹنے والے۔
(۱) {یا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} یعني الذي ضم علیہ ثیابہ، یعني النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وذلک أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج من البیت وقد لیس ثیابہ، فناداہ جبریل علیہ السلام: {یا أَیُّہَا الْمُزَّمِّلُ} الذي قد تزمل بالثیاب وقد ضمہا علیہ۔ (أبو الحسن مقاتل بن سلمان، تفسیر مقاتل بن سلیمان، ’’سورۃ مزمل:۱‘‘ ج ۴، ص: ۴۷۵)
والتزمیل: اللف في الثوب، ومنہ حدیث قتلی أحد: زملوہم بثیابہم، أي لفوہم فیہا، وفي حدیث السقیفۃ: فإذا رجل مزمل بین ظہرانیہم، أي مغطي مدثر، یعني سعد بن عبادۃ، وقال إمرؤ القیس: کبیر أناس في بجاد مزمل وتزملأ: تلفف بالثوب، وتدثر بہ، کازمل، علی أفعل، ومنہ قولہ تعالی: یا أیہا المزمل، قال أبو إسحاق: أصلہ المتزمل، والتاء تدغم في الزای لقربہا منہا، یقال: تزمل فلان،… إذا تلفف بثیابہ۔ (محمد بن محمد، تاج العروس: ج ۲۹، ص: ۱۳۸)
وقال الفراء: في قولہ تعالی {یأیہا المدثر} یعني المتدثر بثیابہ إذا نام۔ وفي الحدیث: (کان إذا نزل علیہ الوحي یقول: دثروني دثرون) أي غطوني بما أدفأ بہ۔ وفي حدث الأنصار: (أنتم الشعار والناس الدثار) یعني أنتم الخاصۃ والناس العامۃ (ودثر الشجر) دثورا۔ (أورق) وتشعبت خطرتہ۔
(و) دثر (الرسم) وغیرہ۔ (درس) وعفا بہبوب الریاح علیہ، (کتداثر)، یقال: فلان جدہ عاثر، ورسمہ داثر۔
(و) عن ابن شمیل: دثر (الثوب) دثورا: (اتسخ۔ و) دثر (السیف)، إذا (صدیء، فہو داثر)، وہو البعید العہد بالصقال، وہو مجاز۔ (محمد بن محمد، تاج العروس: ج ۱، ص: ۲۸۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص53