Frequently Asked Questions
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 3117/46-6015
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صحیح قول یہی ہے کہ نبی کریم ﷺ تاحیات دنیویہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے، آپ نے کبھی کچھ نہیں لکھا، بلکہ آپ کی وحی اور خطوط وغیرہ لکھنے کے لئے افراد متعین تھے، اور صلح حدیبیہ کے موقع پر مشرکین نے 'رسول اللہ' کا لفظ مٹانے پر اصرار کیا تو معاہدہ کی کتابت کرنے والے صحابی حضرت علی نے معذرت کردی تو بعض حضرات کے مطابق آپ ﷺ نے بطور معجزہ اپنے دست مبارک سے کچھ تحریر فرمایا اور بعض کے مطابق آپ نے تحریر نہیں فرمایا تحریر کا حکم فرمایا۔
بہرحال بقول بعض بطور معجزہ کچھ تحریر کرنا ثابت بھی ہو تو بھی بقیہ زندگی آپ کا اپنے دست مبارک سے کوئی تحریر لکھنا ثابت نہیں ہے۔
قاضی ابولولید باجی اور ان کے متبعین پر فقہاء نے بڑی نکیر کی ہے، اور یہ کہا کہ امام باجی کے قول کا مطلب بھی یہ ہے کہ آپ نے بطور معجزہ لکھاتھا ، یہ مراد بالکل نہیں ہے آپ لکھنا پڑھنا سیکھ گئے تھے، اور یہ حدیث جو نقل کی جاتی ہے کہ "لم یمت علیہ السلام حتی تعلم الکتابۃ" اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
" وَهَكَذَا كَانَ صَلَوَاتُ اللَّهِ وَسَلَامُهُ عَلَيْهِ دَائِمًا أَبَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُحْسِنُ الْكِتَابَةَ، وَلَا يَخُطُّ سَطْرًا وَلَا حَرْفًا بِيَدِهِ، بَلْ كَانَ لَهُ كُتَّابٌ يَكْتُبُونَ بَيْنَ يَدَيْهِ الْوَحْيَ وَالرَّسَائِلَ إِلَى الْأَقَالِيمِ، وَمَنْ زَعَمَ مِنْ مُتَأَخَّرِي الْفُقَهَاءِ -كَالْقَاضِي أَبِي الْوَلِيدِ الْبَاجِيِّ وَمَنْ تَابَعَهُ- أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَتَبَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ: "هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ" فَإِنَّمَا حَمَلَهُ عَلَى ذَلِكَ رِوَايَةٌ فِي صَحِيحِ الْبُخَارِيِّ: (ثُمَّ أَخَذَ فَكَتَبَ): وَهَذِهِ مَحْمُولَةٌ عَلَى الرِّوَايَةِ الْأُخْرَى: ( ثُمَّ أَمَرَ فَكَتَبَ)، وَلِهَذَا اشْتَدَّ النَّكِيرُ بَيْنَ فُقَهَاءِ الْمَغْرِبِ وَالْمَشْرِقِ على من قال بقول الباجي، وتبرؤوا مِنْهُ، وَأَنْشَدُوا فِي ذَلِكَ أَقْوَالًا وَخَطَبُوا بِهِ فِي مَحَافِلِهِمْ، وَإِنَّمَا أَرَادَ الرَّجُلُ -أَعْنِي الْبَاجِيَّ، فِيمَا يَظْهَرُ عَنْهُ -أَنَّهُ كَتَبَ ذَلِكَ عَلَى وَجْهِ الْمُعْجِزَةِ، لَا أَنَّهُ كَانَ يُحْسِنُ الْكِتَابَةَ، وَمَا أَوْرَدَهُ بَعْضُهُمْ مِنَ الْحَدِيثِ أَنَّهُ لَمْ يَمُتْ عَلَيْهِ السَّلَامُ حَتَّى تَعَلَّمَ الْكِتَابَةَ ، فَضَعِيفٌ لَا أَصْلَ لَهُ ". ( تفسير ابن كثير، ٦/ ٢٨٥ – ٢٨٦)
" وَقَدْ تَمَسَّكَ بِظَاهِرِ هَذِهِ الرِّوَايَةِ - يعني رواية يوم الحديبية - أَبُو الْوَلِيدِ الْبَاجِيُّ فَادَّعَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ بِيَدِهِ بَعْدَ أَنْ لَمْ يَكُنْ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَشَنَّعَ عَلَيْهِ عُلَمَاءُ الْأَنْدَلُسِ فِي زَمَانِهِ وَأَنَّ الَّذِي قَالَه مُخَالف الْقُرْآنَ ... وَذكر ابن دِحْيَةَ أَنَّ جَمَاعَةً مِنَ الْعُلَمَاءِ وَافَقُوا الْبَاجِيَّ فِي ذَلِكَ، وَاحْتج بَعضهم لذَلِك بأحاديث، وَأَجَابَ الْجُمْهُورُ عنها بضعفها، وَعَنْ قِصَّةِ الْحُدَيْبِيَةِ بِأَنَّ الْقِصَّةَ وَاحِدَةٌ وَالْكَاتِبُ فِيهَا عَلِيٌّ، وَقَدْ صَرَّحَ فِي حَدِيثِ الْمِسْوَرِ بِأَنَّ عَلِيًّا هُوَ الَّذِي كَتَبَ، فمعنى (كتب) أي : ( أَمَرَ بِالْكِتَابَةِ ) ، وَاللَّهُ أَعْلَمُ " . (فتح الباري لابن حجر ملخصاً، ٧ / ٥٠٣ – ٥٠٤)
"وَما كُنْتَ تَتْلُوا مِنْ قَبْلِهِ مِنْ كِتابٍ، وَلا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ، إِذاً لَارْتابَ الْمُبْطِلُونَ ( العنکبوت، ٤٨) ٥- النبي محمد صلّى الله عليه وسلّم قبل نزول القرآن كان أمياً لايقرأ ولايكتب بشهادة الكتب السماوية المتقدمة، وبمعرفة قومه الذين عايشوه في مكة مدة أربعين عاماً. وأمّية النبي صلّى الله عليه وسلّم دليل قاطع واضح على أن القرآن كلام الله العزيز الحكيم. ثم ذكر النقاش في تفسير هذه الآية عن الشعبي أنه قال: ما مات النبي صلّى الله عليه وسلّم حتى كتب، وقرأ. وقد ثبت في صحيحي البخاري ومسلم أن النبي في صلح الحديبية كتب بيده: محمد بن عبد الله، ومحا كلمة رسول الله، حينما أصر المشركون على عدم كتابتها. قال القرطبي: الصحيح أنه صلّى الله عليه وسلّم ما كتب ولا حرفاً واحداً، وإنما أمر من يكتب، وكذلك ما قرأ ولا تهجى. وقال: «إنا أمة أمّية لانكتب ولانحسب». رواه الشيخان وأبو داود والنسائي عن ابن عمر". (التفسير المنير للزحيلي، ٢١ / ١٣)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبنقرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2938/45-4618
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ موبائل میں قرآن مجید کا پی ڈی ایف یا ایپ رکھنا اور اس کو کھول کر تلاوت کرنا جائز ہے اور اس پر ثواب بھی ملتاہے، قرآن کریم کو بلاچھوئے زبانی پڑھنا بھی جائز ہے تو موبائل میں دیکھ کرپڑھنا بھی جائز ہے، البتہ جب قرآن کریم اسکرین پر کھلاہوا ہو تو اسکرین کو بلا وضو کےہاتھ لگانا جائز نہیں ہے، علاوہ ازیں بہتر ہے کہ قرآن مجید کو براہ راست ہاتھ میں لے کر پڑھاجائے۔
"ولایکره للمحدث قراءة القرآن عن ظهر القلب". (خلاصة الفتاویٰ، ج:۱ ؍ ۱۰۴ )"(و) يحرم (به) أي بالأكبر (وبالأصغر) مس مصحف: أي ما فيه آية كدرهم وجدار، وهل مس نحو التوراة كذلك؟ ظاهر كلامهم لا (إلا بغلاف متجاف) غير مشرز أو بصرة به يفتى، وحل قلبه بعود(قوله: أي ما فيه آية إلخ) أي المراد مطلق ما كتب فيه قرآن مجازاً، من إطلاق اسم الكل على الجزء، أو من باب الإطلاق والتقييد. قال ح: لكن لايحرم في غير المصحف إلا بالمكتوب: أي موضع الكتابة كذا في باب الحيض من البحر، وقيد بالآية؛ لأنه لو كتب ما دونها لايكره مسه كما في حيض، القهستاني وينبغي أن يجري هنا ما جرى في قراءة ما دون آية من الخلاف، والتفصيل المارين هناك بالأولى؛ لأن المس يحرم بالحدث ولو أصغر، بخلاف القراءة فكانت دونه تأمل.... (قوله: غير مشرز) أي غير مخيط به، وهو تفسير للمتجافي قال في المغرب: مصحف مشرز أجزاؤه مشدود بعضها إلى بعض من الشيرازة وليست بعربية اهـ فالمراد بالغلاف ما كان منفصلاً كالخريطة وهي الكيس ونحوها؛ لأن المتصل بالمصحف منه حتى يدخل في بيعه بلا ذكر. وقيل: المراد به الجلد المشرز، وصححه في المحيط والكافي، وصحح الأول في الهداية وكثير من الكتب، وزاد في السراج: أن عليه الفتوى. وفي البحر: أنه أقرب إلى التعظيم. قال والخلاف فيه جار في الكم أيضاً. ففي المحيط: لايكره عند الجمهور، واختاره في الكافي معللاً بأن المس اسم للمباشرة باليد بلا حائل. وفي الهداية: أنه يكره هو الصحيح؛ لأنه تابع له، وعزاه في الخلاصة إلى عامة المشايخ، فهو معارض لما في المحيط فكان هو أولى. اهـ. أقول: بل هو ظاهر الرواية كما في الخانية، والتقييد بالكم اتفاقي فإنه لايجوز مسه ببعض ثياب البدن غير الكم كما في الفتح عن الفتاوى. وفيه قال لي بعض الإخوان: أيجوز بالمنديل الموضوع على العنق؟ قلت: لاأعلم فيه نقلاً. والذي يظهر أنه إذا تحرك طرفه بحركته لايجوز وإلا جاز، لاعتبارهم إياه تبعاً له كبدنه في الأول دون الثاني فيما لو صلى وعليه عمامة بطرفها الملقى نجاسة مانعة، وأقره في النهر والبحرقوله: أو بصرة) راجع للدرهم، والمراد بالصرة ما كانت من غير ثيابه التابعة له. (قوله: وحل قلبه بعود) أي تقليب أوراق المصحف بعود ونحوه لعدم صدق المس عليه (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 173)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
قرآن کریم اور تفسیر
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2191/44-2335
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اردو تفسیر کا نام "معارف القرآن" ہے جس کے مصنف مولانا مفتی شفیع صاحب ہیں،اور ہندی زبان میں معارف القرآن کا ترجمہ مولانا عمران بگیانوی صاحب نے کیا ہے۔ یہ دونوں تفسیریں مارکیٹ میں موجود ہیں۔ مشکوۃ المصابیح کو اردو میں سمجھنے کے لئے 'مظاہر حق جدید' پڑھیں جس کے مرتب مولانا عبداللہ جاوید صاحب ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 847 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: قاری صاحب اپنا وقت فارغ کرکے اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرکے جلسہ میں جاتے ہیں جسکی وجہ سے مدرسہ سے ان کی تنخواہ بھی وضع ہوتی ہے، اس لئے اہل جلسہ کو چاہئے کہ قاری صاحب کو حسب استطاعت ضرور دیں۔تاہم قاری صاحب کا قرآن پڑھنے کی اجرت طے کرنا درست نہیں ہے، اس پر اصرار نہ ہونا چاہئے۔ البتہ سفرخرچ وغیرہ یقینا اہل جلسہ پر ہی لازم ہے، اور اس کا مطالبہ اور تعیین بھی درست ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2046/44-2025
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۔ لحن خفی مکروہ تنزیہی اور لحن جلی مکروہ تحریمی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2071/44-2066
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سجدہ تلاوت کے لئے سجدہ کی آیت کا ذہن میں ہونا یا اس کی نیت کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جو سجدہ ذمہ میں ہے اس کی نیت کرے۔ سجدہ کے وقت سجدوں کے تعداد کے مطابق سجدہ کرلینا کافی ہے، ہر آیت یا یاد ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم بہتر یہی ہے کہ جب آدمی تلاوت کرے تو آیت سجدہ پڑھنے کے بعد تلاوت روک کر سجدہ کرلے پھر آگے پڑھے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف
قرآن کریم اور تفسیر
Ref. No. 2349/44-3537
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ، ابو الشیخ اصفہانی کی العظمۃ مطبوعہ دارالعاصمۃ الریاض، اور امام قرطبی کی التذکرۃ مطبوعہ المنہج للنشر والتوزیع بالریاض ، اور معارف القرآن میں سورہ رحمن کی تفسیر کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔ نیز جنت اور اہل جنت، جنت کی زندگی، جنت کے حسین مناظر کا بھی مطالعہ آپ کے لئے مفید ثابت ہوسکتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مباہلہ کے معنی ایک دوسرے پر لعنت وبددعا کرنے کے ہیں۔ دو افراد یا دو گروہ جو اپنے آپ کو حق بجانب سمجھتے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے مقابلے میں بارگاہ الٰہی میں التجا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خداوند تعالیٰ جھوٹے پر لعنت کرے تاکہ سب کے سامنے واضح ہوجائے کہ کو ن سا فریق حق پرہے۔
قرآن کریم کی سورہ آل عمران میں مباہلہ کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے نصاری کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئیں (۱) اسلام قبول کرو (۲) یا جزیہ ادا کرو (۳) یا جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔ نصاریٰ نے آپس میں مشورہ کرکے شرحبیل، عبد اللہ بن شرحبیل، اور جبار بن قیص کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت کی یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث وتکرار سے کام لیا اتنے میں یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصاریٰ کو مباہلہ کی دعوت اور انھوں نے یہ دعوت قبول کرلی؛ لیکن مقررہ وقت پر انھوں نے مباہلے سے اجتناب کیا؛ کیونکہ انھوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریب ترین افراد یعنی اپنی بیٹی: فاطمہ زہراء، اپنے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ، اپنے نواسوں اور فرزندوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ساتھ لے کر آئے ہیں، چنانچہ شرحبیل نے اپنے دونوں ساتھیوں سے کہاکہ تمہیں معلوم ہے کہ یہ اللہ کانبی ہے اور نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت اور بربادی یقینی ہے؛ اس لیے نجات کا کوئی راستہ تلاش کرو بالآخر ان لوگوں نے صلح کی تجویز منظور کرلی اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت ظاہر ہوگئی۔(۱)
(۱) مفتي محمد شفیع العثمانيؒ، معارف القرآن: ج ۲، ص: ۸۵۔
وکان أہل نجران جاؤا إلی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لیناظروہ في أمر عیسیٰ علیہ السلام فلما لم یقبلوا الحق دعاہم إلی المباہلۃ، فہذا دلیل علی أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قد بأہلہم علی حیاتہ أیضاً۔ (الکشمیري، فیض الباري علی صحیح البخاري، ’’باب قصۃ أہل نجران‘‘: ج ۵، ص: ۱۴۰، رقم: ۴۳۸۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص51