احکام سفر

Ref. No. 2958/45-4694

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  آپ مسافت سفر پر نوکری کررہے ہیں، اس لئے جب پندرہ دن سے کم ٹھہرنے کی نیت ہو تو قصر کریں اورجب پندرہ دن یا اس سے زیادہ ٹھہرنے کی نیت ہو تو  اتمام یعنی پوری چار رکعتیں پڑھیں۔ اور اگر  مقام ملازمت میں کتنے دن قیام کرنا ہے متعین نہ ہو  تو قصر کرتے رہیں یہاں  تک کہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ہوجائے۔  اگر ایک ہفتہ ٹھہرنے کی نیت تھی پھر ایک ہفتہ کے بعد دس دن مزید ٹھہرنے کی ضرورت پڑگئی تو ان تمام دنوں میں قصر کرتارہے گا کیونکہ اس نے پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت ایک ساتھ نہیں کی ۔

و لايزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية۔"

(الھندیۃ، كتاب الصلوة،الباب الخامس عشر:1/ 139،ط:دارالفكر)

من خرج من عمارة موضع إقامتہ قاصداً مسیرة ثلاثة أیام ولیالیھا ……صلی الفرض الرباعي رکعتین …حتی یدخل موضع مقامہ أو ینوي إقامہ نصف شھر بموضع صالح لھا فیقصر إن نوی في أقل منہ أو …بموضعین مستقلین (تنویر الأبصار مع الدر والرد، کتاب الصلاة، باب صلاة المسافر، ۲: ۵۹۹- ۶۰۶) ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 1096 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص دہلی میں مسافر اور دیوبند میں مقیم کہلائے گا، دہلی میں قصر اور دیوبند میں پوری نماز پڑھے، وطن اصلی﴿دیوبند﴾ پہونچتے ہی سفر ختم ہوجاتا ہے؛ ہدایہ۔  واللہ اعلم بالصواب

 

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 2562/45-3911

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قصر نماز کے لیے مسافت سفر کا ہونالازم ہے محض سفر کی نیت کرنا کافی نہیں ہے چوں کہ جس جگہ کا ارادہ تھا وہ جگہ مساف قصر پر نہیں ہے اس لیے قصر کرنا جائزنہیں تھا اس لیے پڑھی گئی ظہر کی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔ علامہ کاسانی نے لکھا ہے کہ مسافر ہونے کے لیے تین شرطیں ہیں پہلی شرط یہ ہے کہ سفر کی نیت ہو اگر سفر کی نیت نہ ہو اور پوری دنیا کا چکر لگالے تو مسافر نہیں ہوگا دوسری شرط یہ ہے کہ مسافت سفر ہوا اگر سفر کی نیت ہو لیکن مسافت سفر مکمل نہیں ہے تو وہ مسافر نہیں ہوگا تیسری شرط ہے کہ اپنی آبادی سے نکل جائے محض ارادہ سفر قصر کے لیے کافی نہیں ہے۔

الحکم معلق بالسفر فكان المعتبر مسيرة ثلاثة أيام على قصد السفر وقد وجد والثاني: نية مدة السفر لأن السير قديكون سفرا و قد لا يكون؛ لأن الإنسان قد يخرج من مصره إلى موضع لإصلاح الضيعة ثم تبدو له حاجة أخرى إلى المجاوزة عنه إلى موضع آخر ليس بينهما مدة سفر ثم وثم إلى أن يقطع مسافة بعيدة أكثر من مدة السفر لا لقصد السفر فلا بد من النية للتمييز والثالث: الخروج من عمران المصر فلا يصير مسافرابمجردنية السفر مالم يخرج من عمران المصر (بدائع الصنائع ، 1/ 94)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام سفر

Ref. No. 1877/43-1736

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دن و رات میں ہر ایک مرد و عورت پر پانچ نمازیں فرض ہیں،  اس لئے اگر کسی جگہ کسی نماز کا وقت نہیں آیا تو بھی قریبی ممالک کا وقت محسوب ہوگا اور پانچ نمازیں اس کے حساب سے پڑھنی ہوں گی۔ لہذا صورت مسئولہ میں حامد پر مغرب کی نماز فرض ہوگی اور اس کی قضاء کرنی ہوگی۔

 مطلب في فاقد وقت العشاء كأهل بلغار.(قوله: فإن فيها يطلع الفجر قبل غروب الشفق) مقتضاه أنه فقد وقت العشاء والوتر فقط وليس كذلك، بل فقد وقت الفجر أيضا؛ لأن ابتداء وقت الصبح طلوع الفجر، وطلوع الفجر يستدعي سبق الظلام ولا ظلام مع بقاء الشفق أفاده ح.۔ ۔ ۔ أقول: الخلاف المنقول بين مشايخ المذهب إنما هو في وجوب العشاء والوتر فقط، ولم نر أحدا منهم تعرض لقضاء الفجر في هذه الصورة، ۔۔۔(قوله: فيقدر لهما) هذا موجود في نسخ المتن المجردة ساقط من المنح، ولم أر من سبقه إليه سوى صاحب الفيض، حيث قال: ولو كانوا في بلدة يطلع فيها الفجر قبل غيبوبة الشفق لا يجب عليهم صلاة العشاء لعدم السبب، وقيل يجب ويقدر الوقت. اهـ.۔۔۔۔ولأن هذه المسألة نقلوا فيها الاختلاف بين ثلاثة من مشايخنا وهم البقالي والحلواني والبرهان الكبير فأفتى البقالي بعدم الوجوب، وكان الحلواني يفتي بوجوب القضاء ثم وافق البقالي لما أرسل إليه الحلواني من يسأله عمن أسقط صلاة من الخمس أيكفر؟ فأجاب السائل بقوله: من قطعت يداه أو رجلاه كم فروض وضوئه؟ فقال له: ثلاث، لفوات المحل، قال فكذلك الصلاة، فبلغ الحلواني ذلك فاستحسنه ورجع إلى قول البقالي بعدم الوجوب. وأما البرهان الكبير فقال بالوجوب، لكن قال في الظهيرية وغيرها: لا ينوي القضاء في الصحيح لفقد وقت الأداء. واعترضه الزيلعي بأن الوجوب بدون السبب لا يعقل، وبأنه إذا لم ينو القضاء يكون أداء ضرورة، وهوأي الأداء فرض الوقت ولم يقل به أحد، إذ لا يبقى وقت العشاء بعد طلوع الفجر إجماعا. اهـ. وأيضا فإن من جملة بلادهم ما يطلع فيها الفجر كما غربت الشمس كما في الزيلعي وغيره، فلم يوجد وقت قبل الفجر يمكن فيه الأداء.۔۔۔۔ (قوله: وأوسعا المقال) أي كل من الشرنبلالي والبرهان الحلبي لكن الشرنبلالي نقل كلام البرهان الحلبي برمته فلذا نسب إليه الإيساع. ۔ ۔(قوله: ومنعا ما ذكره الكمال) أما الذي ذكره الكمال فهو قوله ومن لا يوجد عندهم وقت العشاء أفتى البقالي بعدم الوجوب عليهم لعدم السبب كما يسقط غسل اليدين من الوضوء عن مقطوعهما من المرفقين ۔۔۔۔والأحسن في الجواب عن المحقق الكمال ابن الهمام أنه لم يذكر حديث الدجال ليقيس عليه مسألتنا أو يلحقها به دلالة، وإنما ذكره دليلا على افتراض الصلوات الخمس وإن لم يوجد السبب افتراضا عاما؛ لأن قوله وما روي معطوف على قوله ما تواطأت عليه أخبار الإسراء، وما أورده عليه من عدم الافتراض على الحائض والكافر يجاب عنه بما قاله المحشي من ورود النص بإخراجهما من العموم. ۔ هذا وقد أقر ما ذكره المحقق تلميذاhه العلامتان المحققان ابن أمير حاج والشيخ قاسم. والحاصل أنهما قولان مصححان، ويتأيد القول بالوجوب بأنه قال به إمام مجتهد وهو الإمام الشافعي كما نقله في الحلية عن المتولي عنه۔ (الدر المختار مع حاشية ابن عابدين، کتاب الصلوٰۃ ، مطلب في فاقد وقت العشاء كأهل بلغار، ج:1، ص : 362، مط : سعید )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام سفر

Ref. No. 2149/44-2233

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر سفر کے ارادہ سے نکلا اور سفر کی مسافت شرعی پوری نہیں کی اور واپس آگیا، تو واپسی میں وہ مسافر نہیں رہا، البتہ جو نمازیں واپسی کے ارادہ سے قبل  قصر کی ہیں ان کو دوبارہ اداکرنا ضروری نہیں ہے۔

 اما اذا لم یسر ثلاثۃ ایام فعزم علی الرجوع او نوی الاقامۃ یصیر مقیما وان کان فی المفازۃ  (الھندیۃ 1/199 الباب الخامس عشر فی صلوۃ المسافر، زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 955

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم: بشرط صحت سوال یہ طالب علم  پورے  ہفتہ مسافر کی حالت میں رہے گا، اور نماز قصر کرے گا۔ اس نے مدرسہ میں آتے جاتے رہنے کی نیت کی ہے، پورے سال ایک ہی سفر میں ٹھہرنے کی نیت نہیں ہے اس لئے جب تک  ١٥ /دن یا اس سے زیادہ کی نیت سے نہیں ٹھہرے گا وہ قصر ہی کرتا رہے گا۔   واللہ اعلم بالصوا ب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 39/1105

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   

سفر شرعی کی مسافت  یعنی 48 میل (78کلومیٹر)  یا اس سے زائد کا سفرکرنا کسی بھی عورت کے لئے  محرم کے بغیر جائز نہیں ۔ حدیث میں ہے: ?لا تسافر امرأة ثلاثة أیام إلا ومعہا محرم أو زوج۔ اس لئے مذکورہ صورت اختیار کرنا درست نہیں ہے۔  جب تک کسی محرم  کے ساتھ  جانے کا انتظام نہ ہوجائے  اس وقت تک عورت پر حج فرض نہیں ۔  

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 857/41-000

الجواب وباللہ التوفیق      

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں چونکہ آپ کا ارادہ مسافت سفر کا نہیں ہے، اس لئے آپ مقیم ہیں، نماز میں اتمام کریں۔ہاں اگر 36 میل سفر کرنے کے بعد 40 میل کا سفر کیا ، اور اب گھر لوٹنا ہے تو چونکہ مسافت سفر پوری ہے ، اسلئے واپسی میں آپ مسافر شمار ہوں گے اور قصر کریں گے۔

(من خرج من عمارة موضع إقامته) (قاصدا) ولو كافرا، ومن طاف الدنيا بلا قصد لم يقصر، (قوله قاصدا) أشار به مع قوله خرج إلى أنه لو خرج ولم يقصد أو قصد ولم يخرج لا يكون مسافرا ح. (شامی 2/122)

لا يصح القصر إلا إذا نوى السفر، فنية السفر شرط لصحة القصر باتفاق، ولكن يشترط لنية السفر أمران: أحدهما: أن ينوي قطع تلك المسافة بتمامها من أول سفره، فلو خرج هائماً على وجهه لا يدري أين يتوجه لا يقصر، ولو طاف الأرض كلها، لأنه لم يقصد قطع المسافة۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ 1/429)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام سفر

Ref. No. 2500/45-3821

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    اگر آپ پہلےسےمقیم ہیں تو صرف احتمال کی وجہ سے مسافر نہیں ہوں گے جب تک کہ سفر کا آغاز نہ کردیں، اور سفر کا آغاز کرتے ہی آپ قصر شروع کردیں گے گرچہ درمیان سے واپس آنا پڑ جائے، اسی طرح اگر آپ مسافر ہیں اور کسی جگہ قیام کا پندرہ دن پختہ ارادہ نہیں ہے تو آپ مسافر ہی ہیں، جب آپ نے قیام کیا تو اس وقت نیت آپ کی پندرہ دن سے زیادہ ٹھہرنے کی ہے اور احتمال ہے کہ سفر پر جانا پڑ جائے  تو اس احتمال سے اقامت ختم نہیں ہوگی۔ اور اگر صرف 14 دن قیام کی نیت تھی پھرسفرمیں جانےکاارادہ تھااس احتمال کے ساتھ کہ اگر اجازت نہیں ملی تو رک جاؤں گا تو آپ مسافر ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

احکام سفر

Ref. No. 2780/45-4349

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ کے راستہ میں نکلنے کا مصداق اصل جہاد فی سبیل اللہ ہے، لیکن حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی کی خاطر جد وجہد کرنا ہر طرح کے وجوہ خیر کو اختیار کرنا، نیز گناہوں سے بچنے کی صورتیں اختیار کرنا بھی اس کا مصداق ہے۔ سوال میں مذکور تمام صورتیں اگر خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہیں تو یہ بھی اللہ کے راستہ میں نکلنے کا مصداق ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند