سیاست

Ref. No. 839 Alif

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                         

بسم اللہ الرحمن الرحیم-:-:  یوم پیدائش منانا غیراسلامی تصور ہے، اسلام میں بے جا رسم و رواج سے بچنے کی تاکید ہے،  اور ان سے بچنا چاہئے۔ آپ اپنے دوست کو سمجھائیں۔ اگر وہ سمجھدار ہوں گے تو اصرار نہیں کریں گے۔   

واللہ تعالی اعلم  بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

سیاست

Ref. No. 1042/41-211

الجواب وباللہ التوفیق     

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ جگہ کا نام بدلنے میں ممبراسمبلی کے پیش نظر آپ ﷺ کی جانب منسوب کرکے برکت حاصل کرنا ہے، اور منع کرنے والوں کے سامنے اس مقدس نام کی بے حرمتی کا خطرہ ہے؛ پس دونوں اپنی نیت میں سچے ہیں اور اجر کے مستحق ہیں۔ تاہم غالب گمان یہ ہے کہ بعد میں اس کی بے حرمتی ہوگی، اس لئے احتیاط کرنی چاہئے۔ لیکن اگر نام رکھ دیا گیا تو نام لینے پر درود پڑھنا لازم نہیں ہوگا۔  نیز آپسی انتشار سے بچنا ضروری ہے اس کا خیال رہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

سیاست

Ref. No. 2212/44-2338

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ووٹ دینے والوں پر لازم ہے کہ بہت سوچ سمجھ کر کسی ایسے شخص کو ووٹ دیں جو بلا امتیاز اس سرزمین کی تعمیر و ترقی میں سچے دل سے خدمت انجام دے سکے۔ جو شخص پہلے سے کرپٹ ہو یا اس کی بددیانتی ظاہر ہوچکی ہو، اس کو ووٹ دینا جائز نہیں ہے، تاہم اگر کسی ایسے شخص کو ووٹ دیا جو امانت دار تھااور خدمت خلق کاجذبہ رکھتاتھا، یا یہ کہ اس کا حال ظاہر نہیں تھا لیکن امید تھی کہ وہ ملک  کی ترقی میں اہم کردار اداکرے گا، لیکن وہ اس کے برعکس نکلا، توچونکہ  ووٹ دینے والے نے اپنے اعتقاد کے مطابق ایک مستحق اور اہل  کو ووٹ دیا ہے اس لئے اب اگر وہ قائد  کسی کرپشن یا بددیانتی میں مبتلا ہوتاہے تو اس کا گناہ ووٹ دینےوالے پر نہیں آئے گا۔ ہاں اگر  ووٹ امانت ودیانت داری کے بناء پر نہیں دیا گیا بلکہ برادری یا تعصب کی بناء  پر جان بوجھ کر کسی نااہل کو دیاگیاتھا تو ووٹ دینے والے پر گناہ ہوگا، اور اس کو تعاون علی الاثم کہاجائے گا جس کو قرآن میں ممنوع قراردیاگیاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

سیاست

Ref. No. 1908/43-1800

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قتل کا اقرار کرنے کے بعد پھر اس کا انکار کرنا جبکہ گواہ نہ ہوں ایک گونہ شبہہ کا سبب ہے، اور حدود میں شبہہ حد کو ساقط کردیتاہے۔  البتہ اگر گواہوں سے  اس کا قتل ثابت ہوگیا تو پھر قصاص کا حکم   ملکی قانون کے اعتبار سے نافذ ہوگا۔  لیکن اگر ملکی قانون قصاص کا نہ ہو، تو جو بھی سزا مقرر ہو اس سزا کا مستحق ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

سیاست

Ref. No. 1079/42-482

الجواب 
واللہ الموفق:  سیاست شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے؛ بلکہ سیاست بھی دین کا حصہ ہے اور حضرات ا نبیاء دین وسیاست کا جامع ہوتے تھے، آپ ﷺ معلم بھی تھے ، پیغامبر بھي ، ہادی ورسول اور کمانڈر بھی اس کے ساتھ مدینہ کے حاکم اور امت مسلمہ کے قائد بھی تھے ،اسلام اس معاملہ میں خصوصی امتیاز رکھتا ہےاس کی ابتدائی منزل ہی سیاست سے شروع ہوتی ہے اور اس کی تعلیم دینی و سیاسی زندگی کے ہر پہلو کو حاوی ہے، علماء کرام انبیاء کے وارث ہیں اور یہ وراثت انہیں دینی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی مسائل میں بھی حاصل ہے، اس لیے علماء کو سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ مفتی تقی عثمانی صاحب فقہی مقالات میں لکھتے ہیں :موجودہ دور کی گندی سیاست نے الیکشن اور ووٹ کے لفظوں کو اتنا بدنام کردیا ہے کہ ان کے ساتھ مکر و فریب، جھوٹ رشوت اور دغابازی کا تصور لازم ذات ہوکر رہ گیا ہے، اسی لیے اکثر شریف لوگ اس جھنجھٹ میں پڑنے کو مناسب ہی نہیں سمجھتے اور یہ غلط فہمی تو بے حد عام ہے کہ الیکشن اور ووٹوں کی سیاست کا دین و مذہب سے کوئی واسطہ نہیں، یہ غلط فہمی سیدھے سادے لوگوں میں اپنی طبعی شرافت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے، اس کا منشاء اتنا برا نہیں ہے لیکن نتائج بہت برے ہیں، یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ دور کی سیاست بلاشبہ مفاد پرست لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے، لیکن جب تک کچھ صاف ستھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے اس گندگی میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے گا، اس لیے عقلمندی کا تقاضہ یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو مسلسل اسے گندا کررہے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: إن الناس إذا رأوا الظالم فلم یأخذوا علی یدیہ أوشک أن یعمہم اللّہ بعقاب (أبوداوٴد شریف: ۲/۵۹۶) اگر لوگ ظالم کو دیکھ کر اس کا ہاتھ نہ پکڑیں تو کچھ بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام نازل فرمائیں، اگر آپ کھلی آنکھوں دیکھ رہے ہیں کہ ظلم ہورہا ہے اور انتخابات میں حصہ لے کر اس ظلم کو کسی نہ کسی درجہ میں مٹانا آپ کی قدرت میں ہے تو اس حدیث کی رو سے یہ آپ کا فرض ہے کہ خاموش بیٹھنے کے بجائے ظالم کا ہاتھ پکڑکر اس ظلم کو روکنے کی مقدور بھر کوشش کریں۔ (فقہی مقالات ملخصاً: ۲/۲۸۵-۲۸۶) 
۔مفتی تقی عثمانی صاحب کی تحریر بہت واضح ہے کہ علماء اور سنجیدہ فکر اورسماج کی خدمت کرنے والوں کو سیاست میں حصہ لینا چاہیےتاکہ اس کے ذریعہ ظلم کو روکا جاسکے اور مظلوموں کی مدد کی جاسکے۔
جہاں تک اس کا سوال کا تعلق ہے کہ سیاست میں کس طرح آئیں تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ زمینی سطح پر محنت کی جائے، خدمت خلق کے میدان میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لیا جائے ان شاء اللہ مستقبل میں بہترنتائج سامنے آئیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند

سیاست

Ref. No. 2299/45-4186

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حضرت خنساء کے چار بیٹوں کی شہادت کا واقعہ مشہورہے اور مختلف کتب تاریخ میں مذکور ہے ،ابن الاثیر نے اسدالغابۃ میں،ابن حجر نے الاصابۃ میں اور زرکلی نے الاعلام میں اس کو بیان کیا ہے ، تاہم اس پر نقدو تبصرہ کرنے والوں نے نقد بھی کیا ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ خنساء کو ان کے دوسرے شوہر مرداس بن عمر سلمی سے چار بیٹے نہیں تھے بلکہ تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی پھر چار بیٹوں کاشہید ہونا کس طرح صحیح ہوسکتاہے اس میں ان کے ایک بیٹےعباس بن مرداس سلمی مشہور صحابی ہیںانہوں نے غزوۃ حنین میں مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تھا اس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا تھا کہ ان کو دو یہاں تک  کہ وہ راضی ہوجائیں،اس لیے اگر قادسیۃ میں ان کی شرکت ہوتی تومجاہدین قادسیہ میں مورخین ان کے مشہور ہونے کی وجہ سے ضرور ان کا تذکرہ کرتے اس لیے بعض حضرات نے اس  واقعہ پر شک کا اظہار کیاہے۔جب کہ بعض حضرات کہتے ہیں پہلے شوہر کے ایک بیٹا اور دوسرے شوہر کے تین بیٹے شریک تھے ۔تاہم یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ اس پرکسی عقیدہ کی صحت کا مدار موقوف ہو اس لیے اس باب میں مورخین کی روایات کو قبول کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔

وذكر الزبير بن بكار، عن محمد بن الحسين المخزومي، عن عبد الرحمن بن عبد الله، عن أبيه، عن أبي وجزة، عن أبيه، أن الخنساء شهدت القادسية ومعها أربعة بنين لها، فقالت لهم أول الليل: يا بني، إنكم أسلمتم وهاجرتم مختارين والله الذي لا إله غيره إنكم لبنو رجل واحد، كما أنكم بنو امرأة واحدة، ما خنت أباكم ولا فضحت خالكم، ولا هجنت حسبكم، ولا غيرت نسبكم.

وقد تعلمون ما أعد الله للمسلمين من الثواب الجزيل في حرب الكافرين.واعلموا أن الدار الباقية خير من الدار الفانية، يقول الله عَزَّ وَجَلَّ: {يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} . فإذا أصبحتم غدا إن شاء الله سالمين فاغدوا إلى قتال عدوكم مستبصرين، وبالله على أعدائه مستنصرين.وإذا رأيتم الحرب قد شمرت عن ساقها، واضطرمت لظى على سياقها، وجللت نارا على أرواقها، فتيمموا وطيسها، وجالدوا رئيسها عند احتدام خميسها، تظفروا بالغنم والكرامة، في دار الخلد والمقامة.فخرج بنوها قابلين لنصحها، وتقدموا فقاتلوا وهم يرتجزون، وأبلوا بلاء حسنا، واستشهدوا رحمهم الله.فلما بلغها الخبر، قالت: الحمد لله الذي شرفني بقتلهم، وأرجو من ربي أن يجمعني بهم في مستقر رحمته.(اسد الغابۃ،7/89)وقد ذكروا خنساء في الصحابة، وأنها شهدت القادسية، ومعها أربع بنين لها، فاستشهدوا وورثتهم.(الاصابۃ،فی تمییز الصحابۃ،6/126)وكان لها أربعة بنين شهدوا حرب القادسية (6/126) ـ فجعلت تحرضهم على الثبات حتى قتلوا جميعا فقالت: الحمد للَّه الّذي شرفني بقتلهم! (الاعلام للزرکلی،2/86)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

سیاست

Ref. No. 1553/43-1084

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں کسی کو بھی برا بھلا کہنا منع ہےاور اس میں مسلم و غیرمسلم سب برابر ہیں۔ اور لعن و طعن سے بھی کسی کو بھی فائدہ نہیں  ہوتاہے۔البتہ  جس کے کرتوت غلط ہوں اس کو سمجھانا چاہئے اور  اس کے کاموں کو برا کہنا بھی جائز ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

سیاست

Ref. No. 1729/43-1429

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا سوال واضح نہ ہونے کی وجہ سے سمجھ میں نہیں آیا، اس لئے دوبارہ وضاحت کے ساتھ پوری صورت حال تحریرکریں تاکہ جواب میں سہولت ہو۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

سیاست
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ السوال کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کیا مال کے بدلے کافروں کی لاش دینا جائز ہے یا نہیں؟؟؟ مسلمانوں کے ساتھ کافروں کے لاشیں موجود ھوں اس لاشیں کے مقابلے میں کافروں سے پیسے وصول کرناں جائز ہے یا نہیں؟؟؟؟جناب محترم ومکرم اس سوال کا جواب نہے ہے اگر دوبارہ ہ جواب تحریر کرے تو مہربانی ہوگی شکریہ جناب محترم ومکرم