نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: احناف کے نزدیک دیکھ کر قرآن پڑھنا مفسد نماز ہے، جن لوگوں نے اس کا مشورہ دیا ہے وہ غلط مشورہ دیا، ممکن ہے کہ کسی دوسرے امام کی پیروی میں انہوں نے ایسا مشورہ دیا ہو لیکن احناف کے یہاں یہ عمل درست نہیں ہے اور اس کی احناف کے یہاں دو علتیں ہیں؛ ایک علت یہ ہے کہ قرآن میں دیکھنا،اوراق کو پلٹنا اور رکوع سجدے میں جاتے وقت قرآن کو رکھنا یہ عمل کثیر ہے اور عمل کثیر مفسد نماز ہے۔
دوسری علت یہ ہے کہ قرآن دیکھ کرپڑھنا یہ درحقیقت تعلیم حاصل کرنا ہے،جس طرح نماز میں کسی زندہ آدمی سے اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو اس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اسی طرح قرآن کے نسخے کے ذریعہ بھی اگر کوئی تعلیم حاصل کرے تو نماز فاسد ہوجائے گی، اس لیے کورونا کا بہانا بنا کر نماز میں قرآن دیکھ کر پڑھنے کا مشورہ دینا درست نہیں ہے، تراویح میں اگر بڑی سورت یاد نہ ہو تو چھوٹی سورت پر اکتفاء کرے، لیکن قرآن دیکھ کر تراویح میں بھی درست نہیں ہے۔ علامہ ابن ہمامؒ نے اس کی صراحت کی ہے وہ لکھتے ہیں:
’’و تحقیقہ أنہ قیاس قراء ۃ ما تعلمہ في الصلاۃ من غیر معلم حي علیہا من معلم بجامع أنہ تلقن من خارج وہو المناط في الأصل‘‘(۱)
’’ولأبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ وجہان:  أحدھما أن حمل المصحف وتقلیب الأوراق، والنظر فیہ، و التفکر لیفھم ما فیہ فیقرأ، عمل کثیر، والعمل الکثیر مفسد؛ لما تبین بعد ھذا، و علی ھذا الطریق لا یفترق الحال (بینھما إذا کان المصحف في یدیہ، أو بین یدیہ، أو قرأ من المحراب)‘‘(۲)

(۱) ابن الہمام، فتح القدیر’’کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیھا‘‘:  ج ۱، ص: ۴۱۲۔
(۲) محمود بن أحمد، المحیط البرہاني:’’کتاب الصلاۃ، الفصل الخامس: باب ما یفسد الصلاۃ و ما لا یفسد‘‘ ج ۲، ص: ۱۵۷۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص118

 

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2706/45-4185

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں نماز درست ہوگئی۔  "لم تقولوا  راعنا"کے معنی ہوئے کہ" کیوں کہتے ہو راعنا"، بلکہ کہو "انظرنا"۔ تو معنی میں  کوئی ایسی خرابی نہیں  پائی گئی  جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے۔

قال فی الدر: ولو زاد کلمةً أو نقص کلمةً ۔۔۔ لم تفسد ما لم یتغیر المعنی الخ (الدر مع الرد: 2/396)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: زنا کے ثبوت شرعی کے لیے چار گواہوں کا ہونا بہت ضروری ہے صرف ایک آدمی یا ایک لڑکے کی گواہی پر یقین کرکے امام مذکور کو بدنام کرنے والے سخت گناہ گار ہیں، اور بغیر شرعی ثبوت کے امام صاحب کو امامت سے ہٹانا درست نہیں متولی اور ذمہ داران مسجد کو چاہئے کہ اس شخص کو بلا کر اس سے معافی مانگے اور اس کو امامت پر برقرار رکھا جائے، کیوںکہ بغیر ثبوت شرعی کے محض بدگمانی پر کسی کو اس کے عہدہ سے الگ کردینا درست نہیں ہے۔(۱)

(۱) {إن الذینَ یَرْمُوْنَ المحصنٰت الغَافِلاتِ المؤمِنَاتِ لعِنُوا في الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم} (النور: ۲۳)
{والذین یَرْمُوْنَ المحصنات ثم لم یأتوا بِاَربعۃ شہداء فاجلِدُوْہُمْ ثمَانین جلدۃ ولا تقبلوا لہم شہادۃً اَبداً واُولئک ہُم الفٰسِقُوْنَ} (سورۃ النور: ۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص271

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس میں دائیں بائیں یا مقتدیوں کی طرف منہ کر کے بیٹھنا سب صورتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔(۱) جیسا بھی امام کو آسان ہو بیٹھ جایا کرے۔(۲)
’’یستحب للإمام التحول لیمین القبلۃ یعني یسار المصلي لتنفل أو ورد وخیرہ في المنیۃ بین تحویلہ یمیناً وشمالاً وأماما وخلفا وذہابہ لبیتہ واستقبالہ الناس بوجہہ‘‘(۳)

(۱) عن أنس بن مالک، قال: أخَّرَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الصلاۃ ذات لیلۃ إلی شطر اللیل، ثم خرج علینا، فلما صلی أقبل علینا بوجہہ، فقال: إن الناس قد صلوا ورقدوا، وإنکم لن تزالوا في صلاۃ ما انتظرتم الصلاۃ، (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب یستقبل الإمام الناس إذ سلّم‘‘: ج۱، ص: ۱۱۷، رقم:۸۴۷)
(۲) و یستحب أن یستقبل بعدہ أي بعد التطوع وعقب الفرض إن لم یکن بعدہ نافلۃ یستقبل الناس إن شاء إن لم یکن في مقابلۃ مصل لما في الصحیحین کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم     إذا صلی أقبل علینا بوجہہ وإن شاء الإمام انحرف عن یسارہ وجعل القبلۃ عن یمینہ وإن شاء انحرف عن یمینہ وجعل القبلۃ عن یسارہ وہذا أولیٰ لما في مسلم: کنا إذا صلینا خلف رسول اللّٰہ أحببنا أن نکون عن یمینہ حتی یقبل علینا بوجہہ۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الأذکار الواردۃ بعد الفرض‘‘: ص: ۱۱۷)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ، مطلب فیما لو زاد علی العدد في التسبیح عقب الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸، مکتبہ: زکریا دیوبند۔

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص421

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: درست ہے، اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔ تاہم بلا ضرورت استعمال کر نا پسندیدہ نہیں ہے۔(۱)

(۱) الإمام إذا جہر فوق الحاجۃ فقد أساء اھـ۔ والإسائۃ دون الکراہۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في رفع المبلغ صوتہ زیادۃ علی الحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۹، مکتبہ: ایچ ایم، سعید کراچی، پاکستان)
وإذا جہر الإمام فوق حاجۃ الناس فقد أساء؛ لأن الإمام إنما یجہر لإسماع القوم لیدبروا في قرائتہ لیحصل إحضار القلب، کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني: في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
والمستحب أن یجہر بحسب الجماعۃ فإن زاد فوق حاجۃ الجماعۃ فقد أساء۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۵۳، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص119

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: درود شریف کی تعظیم اولیٰ ہے، تعظیم اس کے پڑھنے ہی میں ہے، جو کہ خلوص قلب سے پڑھا جاتا ہے(۱) امام صاحب کا طریقہ نو ایجاد اور بدعت ہی میں شمار ہوگا،(۲) البتہ بعض لوگ عمل کے طور پر ایسا کرتے ہیں {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُہط ۱۳۷} یا ’’یانور‘‘ ۱۱؍ مرتبہ پڑھ کر انگلی اور انگھوٹھے پر دم کر کے آنکھوں پر پھیرتے ہیں، آنکھوں کی روشنی وحفاظت کے لیے یہ عمل پڑھا جاتا ہے فرض رکعات کا سلام پھیر کر اور یہ عمل جائز ہے۔(۳)

(۱) {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّطٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاہ۵۶ } (سورۃ الأحزاب: ۵۶)
(۲) مسح العینین بباطن أنملتي السبابتین بعد تقبیلہما عند سماع قول المؤذن أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، مع قولہ: أشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ، رضیت باللّٰہ ربا، وبالإسلام دینا، وبمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیا، ذکرہ الدیلمي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أنہ لما سمع قول المؤذن أشہد أن محمد رسول اللّٰہ قال ہذا، وقبل باطن الأنملتین السبابتین ومسح عینیہ، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من فعل مثل ما فعل خلیلي فقد حلت علیہ شفاعتي، ولا یصح۔ وکذا ما أوردہ أبو العباس أحمد ابن أبي بکر الرداد الیماني المتصوف في کتابہ ’’موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ‘‘ بسند فیہ مجاہیل مع انقطاعہ۔ (شمس الدین أبو الخیر محمد بن عبد الرحمن، المقاصد الحسنہ، ’’حرف المیم‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۵)
(۳) {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہط ۱۳۷} فقال نافع بصرت عیني بالدم علی ہذہ الآیۃ وقد قدم۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر’’البقرۃ: ۱۳۷‘‘ ج ۱، ص: ۳۳۴)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص422

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: اگر مذکورہ امام کی عادت الائچی یا لونگ ثابت رکھنے کی ہو تو اس سے نماز فاسد نہ ہوگی؛ لیکن یہ عادت نا پسندیدہ ہے اس سے احتراز ضروری ہے اور اگر الائچی یا لونگ کو چبایا اور اس کے ذرات لعاب کے ذریعہ حلق کے اندر چلے گئے تو نماز فاسد ہوگی اور اس حالت میں پڑھی گئیں تمام نمازیں قابل اعادہ ہیں۔(۱)

(۱) و یکرہ وضع شيء لا یذوب في فمہ وہو یمنع القراء ۃ المسنونۃ أو یشغل بالہ کذہب۔ قولہ: لا یذوب احترز بہ عما یذوب کالسکر یکون في فیہ إذا ابتلع ذوبہ فإنہا تفسد، ولو بدون مضغ، ذکرہ السید۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۵)
ویکرہ أیضا عند الحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ وضع شيء في فمہ لا یمنعہ من القراء ۃ؛ لأنہ یشغل بالہ، وصرح الحنفیۃ بأن یکون ہذا الشيء لا یذوب، فإن کان یذوب کالسکر یکون في فیہ، فإنہ تفسد صلاتہ إذا ابتلع ذوبہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’مادۃ: الصلاۃ: الأماکن التي تکرہ الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۲۷، ۱۱۶، ط: وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ، الکویت)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص120

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھنے میں حرج نہیں،مگر مناسب نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ امام اور  مصلّیکے احترام کے خلاف ہے۔ اور دیگر لوگوں کو اشتباہ بھی پیدا ہوگا جس سے بچنا چاہئے، امام کو بھی اس اشتباہ کی بناء پرمنع ہے۔(۱)

(۱) وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أنہ کرہ للإمام أن یتنفل في المکان الذي أم فیہ، ولأن ذلک یؤدي إلی اشتباہ الأمر علی الداخل فینبغي أن یتنحی إزالۃ للاشتباہ أو استکثاراً من شہودہ علی ما روي أن مکان المصلي یشہد لہ یوم القیامۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل في بیان ما یستحب للإمام أن یفعلہ عقیب الفراغ من الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۴، زکریا دیوبند)
یکرہ للإمام التنفل في مکانہ بل یتحول مخیراً کما یأتي عن المنیۃ، وکذا یکرہ مکثہ قاعداً في مکانہ مستقبل القبلۃ في صلاۃ لا تطوع بعدہا۔ (الحصکفي،  الدر المختار مع رد المحتار، ’’قبیل فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص347

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللّٰہ التوفیق: جوااور سٹہ کھیلنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے(۲) امام کو چاہئے کہ ایسے برے کاموں سے اجتناب کریں، لیکن اس کے باوجود مقتدیوں کی نمازیں کراہت ِ تحریمی کے ساتھ صحیح ہیں ان کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے(۳) اور سنت و نوافل جو کچھ ادا کرے گا وہ بھی ادا ہوں گی۔

(۲) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَہ۹۰} (سورۃ المائدۃ: ۹۰)
(۳) ویکرہ تقدیم العبد … والفاسق لأنہ لایہتم لأمر دینہ وإن تقدموا جاز لقولہ علیہ السلام:صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۲)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص177

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد کا وقت خاص طور پر دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہے؛ اس لیے فرض نماز کے بعد دعاء کرنی چاہیے؛ لیکن دعاء ضروری نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی دعا کئے بغیر اٹھ کر چلا جائے، تو اس پر اعتراض ولعن وطعن نہ کیا جائے؛ تاہم دعاء مانگے بغیر چلے جانے کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ما من عبد بسط کفیہ في دبر کل صلاۃ ثم یقول: اللہم إلہي وإلہ إبراہیم وإسحاق ویعقوب وإلہ جبریل ومیکائیل وإسرافیل أسألک أن تستجیب دعوتي فإني مضطر وتعصمني في دیني فإني مبتلی وتنالني برحمتک فإني مذنب وتنفي عني الفقر فإني متمسکن إلا کان حقا علی اللّٰہ عز وجل أن لا یرد یدیہ خائبتین۔ (محمد عبد الرحمن، تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایقول الرجل إذا سلم من الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱)
قال الطیبي: وفیہ أن من أصر علی أمر مندوب، وجعلہ عزما، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر؟ وجاء في حدیث ابن مسعود: ’’إن اللّٰہ -عز وجل- یحب أن تؤتی رخصہ کما یحب أن تؤتی عزائمہ‘‘ اھـ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص423