Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1958/44-1871
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) جعلی دستاویز بناکر نوکری حاصل کرنا سراسر دھوکہ اور فریب ہے، اسلام میں اس کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ (2) البتہ اگر جعلی دستاویز کی بنیاد پر ملازمت مِل جائے اور کام کرنا شروع کردے تو اجرت اور تنخواہ لینا جائز ہوگا، اور وہ آمدنی جوکام کے عوض ہے وہ حرام نہیں ہوگی۔ (3) سرکار نے جس ملازمت پر جس کو رکھا ہے، یہ اسی کی ذمہ داری ہے، اپنی جگہ کسی اور کو مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:« مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا،وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا». (صحيح مسلم:حدیث رقم:294) وقال ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ:وفي حديث ابن مسعودٍ عنِ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم : ”مَنْ غَشَّنا فليس منَّا ، والمكرُ والخِداعُ في النار“. وقد ذكرنا فيما تقدَّم حديث أبي بكر الصدِّيق المرفوع : ”ملعونٌ من ضارَّ مسلماً أو مكرَ به “.خرَّجه الترمذيُّ. (جامع العلوم والحكم :35/ 9) وفي المحيط ومهر البغي في الحديث هو أن يؤاجر أمته على الزنا وما أخذه من المهر فهو حرام عندهما ، وعند الإمام إن أخذه بغير عقد بأن زنى بأمته ، ثم أعطاها شيئا فهو حرام ؛ لأنه أخذه بغير حق وإن استأجرها ليزني بها ، ثم أعطاها مهرها أو ما شرط لها لا بأس بأخذه ؛ لأنه في إجارة فاسدة فيطيب له وإن كان السبب حراما . ( البحر الرائق:8/33،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)
قال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى:وأما ركنها فهو الإيجاب والقبول والارتباط بينهما، وأما شرط جوازها فثلاثة أشياء: أجر معلوم، وعين معلوم، وبدل معلوم، ومحاسنها دفع الحاجة بقليل المنفعة، وأما حكمها فوقوع الملك في البدلين ساعة فساعة. )البحر الرائق:8/3
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:جب اس شخص نے یہ کلمہ کہا کہ ہم کافر ہیں معاذ اللہ تو وہ شخص کافر ہوگیا پس اگر وہ توبہ اور تجدید ایمان نہ کرے تو مسلمان اس کے مرنے جینے میں شریک نہ ہوں۔(۲)
(۲) قال في البحر: والحاصل أن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لا عبا کفر عند الکل، ولا اعتبار باعتقادہ، کما صرح بہ في الخانیۃ، ومن تکلم بہا مخطئاً أو مکرہاً لا یکفر عند الکل، ومن تکلم بہاعامداً عالماً کفر عند الکل۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶،ص: ۳۵۶)
مسلم قال: أنا ملحد یکفر، ولو قال: ما علمت أنہ کفر لا یعذر بہذا۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجباب الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر: ج ۲، ص: ۲۸۹)
تثبت (أي الردۃ بالشہادۃ) ویحکم بہا حتی تبین زوجتہ منہ ویجب تجدید النکاح۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب السیر: باب أحکام المرتدین‘‘: ج ۵، ص: ۲۱۳)
دار الافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 2316/44-3468
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال غیرواضح ہے، والد کے بھائی کتنے تھے، ان کے نام اور سن وفات، تمام بھائیوں کی اولاد اور ان کے نام وغیرہ تفصیل کے ساتھ لکھ کر دوبارہ بھیجیں تاکہ جواب دیاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقریبات کے لیے دن وتاریخ متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اگر کسی دن یا تاریخ کو دیگر تاریخ کے مقابلہ میں باعث ثواب سمجھا جائے اور اس کا التزام کیا جائے جب کہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، تو یہ بدعت ہوگا۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
عن ابن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ قال: أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ثلث یا علي ألا تؤخر ہن: الصلوٰۃ إذا آنت، الجنازۃ إذا حضرت، والأیم إذا وجدت کفوء اً۔ (أخرجہ الحاکم، في مستدرکہ: ج ۲، ص: ۱۷۶، رقم: ۲۶۸۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص439
قرآن کریم اور تفسیر
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن پاک کا ترجمہ دیکھ کر احکام بیان کرنا اور اس کے لیے فتویٰ دینا صحیح نہیں ہے اور {وابتغ بین ذلک سبیلاً} کی یہ حد مقرر کرلینا کہ آواز جماعت خانہ سے باہر نہ جانی چاہئے۔ یہ صحیح نہیں ہے، اس کی جو حد فقہاء نے بیان کی ہے وہ ہی صحیح ہے یعنی صف اول تک آواز پہونچانا ضروری ہے۔ درمختار میں ہے ’’ویجہر الإمام وجوباً بحسب الجماعۃ فإن زاد علیہ أساء‘‘ شامی میں ہے: ’’قولہ فإن زاد علیہ أساء وفي الزاہدي عن أبي جعفر لو زاد علی الحاجۃ فہو أفضل إلا إذا أجہد نفسہ أو آذی غیرہ‘‘۔(۱)
آیت مذکورہ کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ نہ تو تمام نمازوں میں زور سے پڑھو، نہ تمام نمازوں میں آہستہ پڑھو، مغرب، عشاء، فجر میں زور سے پڑھو۔ ’’قولہ: یجہر الإمام وجوبا للمواظبۃ من النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وکان صلی اللّٰہ علیہ وسلم یجہر بالقرآن في الصلوٰۃ کلہا ابتداء کما سیذکرہ الشراح وکان المشرکون یؤذونہ ویسبون من أنزل علیہ فأنزل البعد مثال ولا تجہر بصلو تک ولا تخافت بہا، أي: لا یجہر بہا کلہا ولا تخافت بہا کلہا وابتغ بین ذلک سبیلاً، بأن یجتہد بصلوتک ولا تخافت بہا إلخ‘‘ بعض حضرات فرماتے ہیںکہ اس کی مراد یہ ہے کہ نہ سب نمازوں میں مخفی آواز سے پڑھے، جیسا کہ صبح ومغرب وعشاء میں، کیونکہ ان اوقات میں مشرکین اپنے کاروبار میں مصروف ہوتے ہیں نہ سب کو ظاہر کر کے پڑھو جیسا کہ ظہر وعصر میں بس بعض میں پکار کر پڑھو، بعض میں آہستہ پڑھو۔(۲)
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، فصل في القرآء ۃ‘‘: ج۱، ص: ۵۳۲۔
(۲) (قولہ: وأدنی الجہر إسماع غیرہ وأدنیٰ المخافتۃ إسماع نفسہ) ومن بقربہ، فلو سمع رجل أول رجلان فلیس بجہر والجہر أن یسمع الکل خلاصۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۳۴)
والجہر أن یسمع الکل الخ، أي: کل الصف الأول لا کل المصلین بدلیل ما في القہستاني عن المسعودیۃ أن جہر الإمام إسماع الصف الأول۔ وبہ علم أنہ لا إشکال في کلام الخلاصۃ۔ (’’أیضاً:)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص41
حدیث و سنت
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سائل کو چاہئے کہ مرحومین کے لئے ایصال ثواب کا اہتمام کرے، ہری گھاس سر سبز وشادابی کی علامت ہے، ترقی، امن وعافیت اور پریشانی سے نجات کی طرف اشارہ ہے۔(۱)
(۱) مر النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی قبرین فقال إنہما یعذبان وما یعذبان في کبیر، أما ہذا فکان لا یستنزہ من البول، وأما ہذا فکان یمشي بالنمیمۃ، ثم دعا بعسیب رطب فشقہ بإثنین، ثم غرس علی ہذا واحداً وعلی ہذا واحداً، وقال: لعلہ یخفف عنہما ما لم ییبسا۔ (أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستبراء من البول‘‘: ج ۱، ص: ۱۷، رقم: ۲۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص171
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعوں کا وہ گروپ جو حضرت جبریل علیہ السلام کے وحی لانے میں اور وحی کو صحیح مقام تک پہونچانے میں ان کی غلطی کا قائل ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کو صحیح مانتا ہے اور حضرات صحابہؓ اور خصوصاً شیخین کی توہین کرتا ہے تو صراحتاً قرآن کا منکر ہونے کی وجہ سے اس گروپ پر فتویٰ کفر کا ہے؛ لیکن ہمارے علاقوں میں شیعہ عام طور پر ایسے نہیں ہیں؛ اس لئے مفتیان کرام ان کو مسلمان مانتے ہیں؛ کیونکہ ان کے عقائد پہلے گروپ جیسے نہیں ہیں، پس دوسری قسم کے شیعوں سے تعلقات، سلام وکلام اور ان کی دعوت قبول کرنا درست ہے، اگر وہ اپنے چند خاص پروگراموں میں بلائیں، تو قبول کرلینے کی صورت میں ان کے کسی غیر شرعی یا کسی بدعتی عمل میں شرکت نہ کی جائے اور صحیح بات تک لانے کی سعی کی جائے۔
اور اہانت شیخین جب کہ تمام صحابہؓ کا ان کی فضیلت پر اجماع ہے اور متعدد احادیث ان کی فضیلت میں ہیں اور اگر کوئی گروپ اس طرح کا ہے جو ان کی اہانت کا مرتکب ہو، تو مفتیان کرام نے ایسے گروپ کو فاسق وفاجر کہا ہے۔(۱)
(۱) بہذا ظہر أن الرافضي إن کان ممن یعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرائیل علیہ السلام غلط في الوحي، أو کان ینکر صحبۃ الصدیق، أو یقذف السیدۃ الصدیقۃ فہو کافر لمخالفۃ القواطع المعلومۃ من الدین بالضرورۃ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: فصل في المحرمات، مطلب مہم في وطئی السراري‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۳)
فصل: وأما الشیعۃ فلہم أقسام، منہا: الشیعۃ والرافضۃ والغالیۃ والطاریۃ … أما الغالیۃ فیتفرق منہا إثنتا عشرۃ فرقۃ منہا البیانیۃ والطاریۃ والمنصوریۃ والمغیریۃ والخطابیۃ والمعمریۃ الخ … ومن ذلک تفضیلہم علیاً رضي اللّٰہ عنہ علی جمیع الصحابۃ وتنصیصہم علی إمامتہ بعد النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتبرؤہم من أبي بکر وعمر رضي اللّٰہ عنہما وغیرہما من الصحابۃ الخ۔ (غنیۃ الطالبین: القسم الثاني: العقائد والفرق، فصل في بیان مقالۃ الفرقۃ الضالۃ: ص: ۱۷۹ - ۱۸۰)
نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أو أنکر صحبۃ الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أو اعتقد الألوہیۃ في علي رضي اللّٰہ عنہ أو أن جبرئیل علیہ السلام غلط في الوحي أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: فہم في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۲، ص: ۳۷۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص274
Usury / Insurance
Ref. No. 2647
Answer:
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
In areas where there is such a high probability, it is permissible for Muslims of those areas to adopt this policy for their protection, but in general, it cannot be allowable under normal circumstances.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مجنون شریعت کا مکلف نہیں ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’إن القلم رفع عن المجنون حتی یفیق وعن الصبي حتی یدرک وعن النائم حتی یستیقظ‘‘(۱)
پانی کے مستعمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے نجاست کو زائل کیا گیا ہو یا ثواب کی نیت سے استعمال کیا گیا ہو، مجنون اگر کسی پانی سے وضو کرے ، تو چونکہ وہ شریعت کی نظر میں ثواب کی نیت کرنے کا اہل نہیں ہے، اس لیے اس کی نیت معتبر نہیں ہوگی اور اس کے وضو کرنے سے پانی مستعمل نہیں ہوگا۔
بچہ اگر سمجھ دار ہے، تو اس کے وضو کا پانی مستعمل شمار ہوگا اور اگر وہ سمجھ دار نہیں ہے اور اس کے بدن یا کپڑے وغیرہ پر کوئی نجاست وغیرہ بھی لگی ہوئی نہیں ہے، تو بچہ کے پانی میں ہاتھ ڈالنے یا پانی میں گرنے کی وجہ سے وہ پانی ناپاک نہیں ہوگا ایسے پانی کو وضو، غسلِ جنابت اور کپڑے وغیرہ پاک کرنے کے لئے استعمال کرنا جائز ہے اور اگر بچہ سمجھدار نہیں ہے، تو اس کا حکم بھی مجنون کی طرح ہے یعنی وہ ماء مستعمل شمار نہیں ہوگا۔
’’وإذا أدخل یدہ الصبي في إناء علی قصد إقامۃ (القربۃ)؛ ذکر في ہذہ المسألۃ في شيء من الکتب، وقد وصل إلینا أن ہذہ المسألۃ صارت واقعۃ فاختلف فیہا فتوی الصدر الشہید حسام الدین عمر، وفتوی القاضي الإمام جمال الدین … قال رحمہما اللّٰہ: والأشبہ أن یصیر مستعملا إذا کان الصبي عاقلا؛ لأنہ من أہل القربۃ، ولہذا صح إسلامہ وصحت عباداتہ حتی أمر بالصلاۃ إذا بلغ سبعا ویضرب علیہا إذا بلغ عشرا‘‘(۱)
’’ولو توضأ الصبي یصیر الماء مستعملًا‘‘(۲)
’’وإذا أدخل الصبي یدہ في الإناء علی قصد القربۃ فالأشبہ أن یکون الماء مستعملًا إذا کان الصبي عاقلًا؛ لأنہ من أہل القربۃ‘‘(۳)
خلاصہ:
مجنون یا وہ بچہ جو سمجھدار نہ ہو، پاکی اور ناپاکی کو نہ سمجھتا ہو ایسا بچہ یا مجنون اگر پانی میں ہاتھ ڈال دے، اور دوسرا پانی دستیاب ہو، تو بہتر ہے کہ اس نئے پانی کو وضو، غسل اور کپڑے وغیرہ دھونے میں استعمال کرے؛ اس لئے کہ عام طور پر بچہ اور مجنون پاکی اور ناپاکی میں احتیاط نہیں کر پاتے ہیں۔
علامہ حصکفيؒ نے لکھا ہے: پانی کو اگر حدث اصغر یا اکبر کو دور کرنے یا ثواب کے حصول کے لیے یا فرض کو ساقط کرنے کے لیے استعمال کیا گیا تو وہ پانی بھی ماء مستعمل شمار ہوگا۔
’’(أو) بماء (استعمل لأجل (قربۃ) أي ثواب ولو مع رفع حدث أو من ممیز أو حائض لعادۃ أو عبادۃ أو غسل میت أو ید لأکل أو منہ بنیۃ السنۃ (أو) لأجل (رفع حدث) ولو مع قربۃ کوضوء محدث ولو للتبرد، فلو توضأ متوضئ لتبرد أو تعلیم أو لطین بیدہ لم یصر مستعملًا اتفاقًا کزیادۃ علی الثلاث بلا نیۃ قربۃ وکغسل نحو فخذ أو ثوب طاہر أو دابۃ تؤکل (أو) لأجل (إسقاط فرض) ہو الأصل في الاستعمال کما نبہ‘‘
’’(قولہ: أو من ممیز) أي إذا توضأ یرید بہ التطہیر کما في الخانیۃ وہو معلوم من سیاق الکلام، وظاہرہ أنہ لو لم یرد بہ ذلک لم یصر مستعملًا، تأمل‘‘ (۱)
(۱) برہان الدین محمود بن أحمد، المحیط البرہاني في الفقہ النعماني، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الرابع في المیاہ التي یجوز، ومما یتصل بہذا الفصل، بیان حکم الأسار‘‘: ج ۱، ص: ۱۲۳۔(دارالکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان)
(۲) عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق وحاشیۃ الشلبي، ’’کتاب الطہارۃ: الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۔(زکریا بک ڈپو دیوبند)
(۳) بدرالدین العیني، البنایۃ شرح الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ: المقصود بالماء المستعمل وأقسامہ‘‘: ج ۱، ص: ۴۰۳۔
(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مبحث الماء المستعمل‘‘: ج ۱، ص: ۳۴۸ - ۳۴۹۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص78
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر بدن پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہو، تو اس طرح دھویا جائے کہ بالٹی میں وہ پانی نہ گرے، اس لیے کہ نجاست ملا ہوا پانی ناپاک ہے اور اگر بدن پر کوئی ظاہری نجاست نہ ہو، یا نجاست دور کردی گئی ہو، تو بدن پر جو پانی لگ کر گر رہا ہے وہ مستعمل تو ہے لیکن ناپاک نہیں، فقہاء کی اصطلاح میں اسے طاہر غیر مطہر کہتے ہیں، اگر اس کی چھینٹیں بالٹی میں گر جائیں، تو بالٹی کا پانی ناپاک نہیں ہوگا؛ نیز جنابت کی حالت میں جو نجاست ہوتی ہے وہ حکمی نجاست ہے، حقیقی نجاست وہ ہے جو بدن پر لگی ہو، خواہ جنابت والی نجاست ہو یا دیگر کوئی نجاست لگی ہو، تا ہم بہتر یہ ہے کہ بالٹی اس طرح رکھی جائے کہ اس میں چھینٹیں نہ جائیں اور بیٹھ کر حدیث کے مطابق غسل کرنا چاہیے۔(۱)
(۱) وھو (الماء المستعمل) طاھر ولیس بطھور (علاء الدین الحصکفي، تنویر الأبصار مع الدر، ’’کتاب الطہارۃ، باب المیاہ في تفسیر القربۃ والثواب‘‘ج۱، ص:۳۵۲) ؛ و قال الشامی : قولہ : (وھو طاھر) رواہ محمد عن الإمام، و ھذہ الروایۃ ھی المشھورۃ عنہ، واختارھا المحققون: قالوا: علیھا الفتوی، لا فرق في ذلک بین الجنب والمحدث (ایضاً)
اتفق أصحابنا رحمھم اللّٰہ : أن الماء المستعمل لیس بطھور حتی لا یجوز…التوضؤ بہ، واختلفوا في طھارتہ، قال محمدؒ: ھو طاھر، وھو روایۃ عن أبي حنیفۃؒ، وعلیہ الفتویٰ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الفصل الثاني: فیما لا یجوز بہ التوضؤ‘‘ج۱،ص:۷۵)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص294