ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 2959/45-4713

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  سودی رقم کا حکم یہ ہے کہ بلانیتِ ثواب فقراء و مساکین وغیرہ پر صدقہ کردیاجائے ، اسی طرح اگر اس رقم سے اصلاحی کتابیں  یا درسی کتابیں یا ضرورت کی اشیاء خرید کر غریب طلبہ میں تقسیم کردی جائیں اور ان کو مالک بنادیاجائے  تو اس کی بھی گنجائش ہے ۔  سودی رقم  بعینہ صرف کرنا لازم نہیں ہے۔

''والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، و إلا فإن علم عين الحرام فلا يحل له، وتصدق به بنية صاحبه''. (شامی، مطلب فيمن ورث مالاً حراماً، ٥/ ٥٥،ط: سعيد)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2961/45-4712

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر کوئی پورا جانور ایک ساتھ لیتاہے تو اس کو 13000 میں یعنی  ایک ہزار کی رعایت کے ساتھ  بیچنے والا  بیچ دیگا، تاکہ خریدار اپنی قربانی ادا  کرے اور اپنے اہل خانہ کو شریک کرلے۔ اور اگر ایک جانور میں مختلف لوگوں کو  2000 کے حساب سے شریک کرکے 14000 کا جانور قربانی میں ذبح کیاجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس لئے اس طرح کا اعلان نکالنے اور اس کے مطابق جانور بیچنے اور خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2972/45-4709

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اولاد اس دنیا کی بہت بڑی نعمت ہے، اور شریعت میں زیادہ اولاد والا ہونا پسندیدہ ہے، نیز شریعت نے بلا کسی وجہ کے اسقاط حمل کو ممنوع قراردیاہے۔آپ کے بعض بچے صحتمند بھی ہیں اس لئے یہ خدشہ ظاہر کرنا کہ کہیں خدانخواستہ پیداہونے والا بچہ بھی اسی بیماری کا شکار ہو بے معنی ہوجاتاہے۔ اس لئے آپ صدقہ وخیرات کی کثرت رکھیں اور دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالی ہونے والے بچہ کو صحتمند بنائے۔صورت مسئولہ میں   محض ایک خدشہ کی بناء پر اسقاط حمل کی اجازت نہیں ہے۔  

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل" (الموسوعة الفقهیة الکویتیة (۳۰/ ۲۸۵)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 2967/45-4707

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   قربانی کے جانور کی کھال  جب تک فروخت نہ کی جائے اس کا حکم مختلف ہے،  خود قربانی کرنے والا اپنے  استعمال  میں لاسکتاہے اور کسی امیر و غریب کو ہدیہ کردے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ تاہم اگر اس کو فروخت کردیا گیا تو اس کی قیمت کا تصدق واجب ہوجاتاہے۔  اس لئے اگر کھال مسجد کو استعمال کے لئے دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن عام طور پر مسجد کو کھال دینے کا مطلب ہوتاہے کہ متولی اس کھال کو بیچ کر اس کی رقم مسجد میں استعمال کرے اور ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ مسجد واجبی صدقہ کا مصرف نہیں ہے، واجبی صدقہ کا مصرف مستحق زکوٰة غریب شخص ہے یعنی اس کو تملیکاً دینا واجب ہے اور مسجد میں قیمت صرف کردینے سے تملیک شرعی کا تحقق نہیں ہوتاہے۔  اس لیے مسجد کے لئے کھال کا جمع کرنا ہی درست نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص  اپنی قربانی کی کھال  امام یا مؤذن یا کسی کو بھی ہدیہ کے طور پر دیدے  اور وہ اس کو بیچ کر اپنے علاج وغیرہ میں استعمال کرے تو اس کی گنجائش ہے۔

وعند أبي يوسف لا ينفذ لما ذكرنا فيما قبل الذبح ويتصدق بثمنه؛ لأن القربة ذهبت عنه فيتصدق به ولأنه استفاده بسبب محظور وهو البيع فلا يخلو عن خبث فكان سبيله التصدق وله أن ينتفع بجلد أضحيته في بيته بأن يجعله سقاء أو فروا أو غير ذلك

(بدائع الصنائع، كتاب التضحية ، فصل في بيان ما يستحب قبل التضحية وبعدها وما يكره ، ج : 5 ص : 81 ط : دارالكتب العلمية)

وكذلك لا يشترى به اللحم، ولا بأس ببيعة بالدارهم ليتصدق بها، وليس له أن يبيعها بالدارهم لينفقه على نفسه، الخانية: أو عياله، م: ولو فعل ذلك تصدق بثمنها (التاتارخانیۃ كتاب الاضحية، الفصل: الانتفاع بالاضحية:440/17، فاروقية) (الهندية:كتاب الاضحية، الباب السادس، في بيان ما يستحب في الاضحية والاتنفاع بها:347/5، دار الفكر)’’(فإن بيع اللحم أو الجلد به) أي بمستهلك (أو بدارهم تصدق بثمنه)‘‘.( التنويرمع الدر:  كتاب الاضحية:543/9، رشيدية)

’’لایصرف إلی بناء نحو مسجد إلخ‘‘.  (قولہ:نحو مسجد کبناء القناط والسقیات إلخ) وکل مالاتملک فیہ‘‘.(التنویر مع الدر، کتاب الاضحیۃ:62/2،بیروت)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2964/45-4706

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے  جو رقم چندہ سے جمع کی جائے اس میں دینےوالوں کی نیت خاص مسجد  اور مصالح مسجد کے لئے ہی دینے کی  ہوتی ہے، لہذا اس کو دوسرے مصارف میں لگانا چندہ دہندگان کے منشا کے منافی ہے، اس لئے اس رقم کو مسجد ہی میں لگایا جائے، تاہم جو رقم صراحت کے ساتھ دوسرے دینی کاموں کے لئے ہی جمع کی گئی ہو اس کو  مسجد کمیٹی کے مشورہ  سے مسجد کے تحت چلنے والے دوسرے دینی کاموں میں بھی  لگایا جاسکتاہے۔ مسجد کے لئے جمع کی گئی رقم کو مسجد ہی میں استعمال کیاجائے گا اور اگر اس رقم کی فی الحال ضرورت نہ ہو تو بھی اس کو مسجد ہی کے آئندہ استعمال کے لئے محفوظ رکھاجائے گا اس رقم کو کسی دوسرے مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے یہاں تک کہ دوسری مسجد میں بھی لگانا درست نہیں ہے۔ 

"فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة." (شامی، کتاب الوقف ،ج:4 ص:343 ط:سعید)

"على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة." ) شامی، كتاب الوقف ج:4،ص:445،ط:سعيد)

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زکوۃ / صدقہ و فطرہ

Ref. No. 2968/45-4705

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔آپ نے جس سے دو سو روپئے لئے تھے، اس ی کو لوٹانا ضروری ہے، تاہم اگر کسی طرح بھی اس کا سراغ نہ ملے اور پیسے لوٹانے کی کوئی شکل نہ ہو تو  اس شخص کی طرف سے دو سو روپئے صدقہ کردیں، تو اس طرح آپ بریء الذمہ ہوسکتے ہیں، تاہم خیال رہے کہ اگر کبھی بھی اس کا پتہ چل گیا یا ملاقات ہوگئی تو اس کودو سو روپئے لوٹانا ضروری ہوگا الا یہ کہ وہ صدقہ کی اجازت دیدے، اگر اجازت نہ دے گا تو اس کو دو سو روپئے لوٹانے ہوں گے اوراب  وہ صدقہ آپ کی طرف سے شمارہو گا۔

ثم بعد تعريف المدة المذكورة الملتقط مخير بين أن يحفظها حسبة وبين أن يتصدق بها فإن جاء صاحبها فأمضى الصدقة يكون له ثوابها وإن لم يمضها ضمن الملتقط أو المسكين إن شاء لو هلكت في يده فإن ضمن الملتقط لا يرجع على الفقير وإن ضمن الفقير لا يرجع على الملتقط وإن كانت اللقطة في يد الملتقط أو المسكين قائمة أخذها منه، كذا في شرح مجمع البحرين. (الھندیة: (کتاب اللقطۃ، 289/2، ط: دار الفکر) (فينتفع) الرافع (بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه ۔۔۔۔ (فإن جاء مالكها) بعد التصدق (خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها (أو تضمينه۔ (الدر المختار: (279/4- 280، ط: دار الفکر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 2966/45-4704

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بشرط صحت سوال ایسے شخص کا سماجی بائیکاٹ ضروری ہے ،  اس قدر گھناؤنی حرکت کے باوجود اس  کے گھر آناجانا بڑی ہی بے غیرتی کی بات ہے،  ایمان کا تقاضہ ہے کہ اس سنگین گناہ کے مرتکب کے ساتھ کوئی تعلق نہ رکھاجائے ، یہاں تک کہ جولوگ تعلق رکھتے ہیں ان کو بھی منع کیاجائے، اور اس شخص  کی بیوی کو بھی سمجھایاجائےکہ وہ اب حرام کا مرتکب ہورہی ہے،  اس کے لئے اپنے شوہرکے ساتھ رہنا قطعا  ناجائز اورشرعی طور پر حرام ہے۔  پنچایت  میں اس کو پیش کرکے اس سے توبہ کرائی جائے، اگر وہ بیوی کو طلاق دے کر الگ کردے اور اپنے گناہ پر نادم ہوکر توبہ کرلے اور پھر  اس کے بائیکاٹ کو ختم کردیاجائے  تو اس کی گنجائش ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 2965/45-4703

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درج ذیل آیات کو اپنا معمول بنالیں، روزانہ صبح کو ایک مرتبہ پڑھ کر اپنے سینے پر دم کرلیا کریں، اور ایک لیٹر پانی پر بھی دم کرلیں، اورشام تک تھوڑا تھوڑا پیتے رہیں ، ان شاء اللہ بہت فائدہ ہوگا۔

فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ".

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ * الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ * لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

-"إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ".

-"يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ".

الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

-"بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَهُ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ".

____

 بارش اور بجلی کے وقت یہ آیات پڑھا کریں۔ بالخصوص آیت نمبر 13، کا ابتدائی حصہ بار بار دہرائیں۔

{ لَهُۥ مُعَقِّبَـٰت مِّنۢ بَیۡنِ یَدَیۡهِ وَمِنۡ خَلۡفِهِۦ یَحۡفَظُونَهُۥ مِنۡ أَمۡرِ ٱللَّهِۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتَّىٰ یُغَیِّرُوا۟ مَا بِأَنفُسِهِمۡۗ وَإِذَاۤ أَرَادَ ٱللَّهُ بِقَوۡم سُوۤء فَلَا مَرَدَّ لَهُۥۚ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِۦ مِن وَالٍ * هُوَ ٱلَّذِی یُرِیكُمُ ٱلۡبَرۡقَ خَوۡفا وَطَمَعا وَیُنشِئُ ٱلسَّحَابَ ٱلثِّقَالَ *  وَیُسَبِّحُ ٱلرَّعۡدُ بِحَمۡدِهِۦ وَٱلۡمَلَـٰۤىِٕكَةُ مِنۡ خِیفَتِهِۦ وَیُرۡسِلُ ٱلصَّوَ ٰاعِقَ فَیُصِیبُ بِهَا مَن یَشَاۤءُ وَهُمۡ یُجَـٰدِلُونَ فِی ٱللَّهِ وَهُوَ شَدِیدُ ٱلۡمِحَالِ * } [Surah Ar-Raʿd: 11-13]

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

حج و عمرہ

Ref. No. 2969/45-4702

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔حج کی استطاعت مکمل طور پر پائے جانے کی صورت میں حج فرض ہوجاتاہے، اس لئے جلد از جلد اس کی ادائیگی  کرلینی چاہئے، اور اگر کسی نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا اور ٹال دیا تو اس کے ذمہ حج فرض باقی رہے گا۔ پھر اگر  مال ختم ہوگیا اور غریب ہوگیا تو بھی حج اس پر فرض ہی رہے گا۔ یعنی ایک مرتبہ حج فرض ہوجانے کے بعد ادائیگی کے بغیر ذمہ سے حج ساقط نہیں ہوگا۔ لہذا اگر موت سے پہلے استطاعت ہوجائے تو حج اداکرلے اور اگر موت تک استطاعت نہ ہوئی تومرنے سے پہلے  حج بدل کی وصیت کرکے جائے تاکہ اس کے تہائی مال سے حج بدل کرادیاجائے۔

وکذلک لو لم یحج حتی افتقرتقرر وجوبہ دینا في ذمتہ بالاتفاق ولا یسقط عنہ بالفقر (غنیة الناسک ص۳۳ ومثلہ في الہندیة وغیرہا)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 2970/45-4701

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں کل ترکہ کو 15 حصوں میں تقسیم کریں گے جن  میں سے ہر ایک بیٹی کوپانچ پانچ حصے دیئے جائیں گے،  اور ایک ایک حصہ پانچوں بھتیجوں کو دیاجائے گا، اور بھتیجیاں محروم ہوں گی۔  

ومن لا فرض لھا من الاناث واخوھا عصبۃ لاتصیر عصبۃ باخیھا کالعم والعمۃ المال کلہ لعم دون العمۃ۔( سراجی، باب العصبات ص23)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند