طلاق و تفریق

Ref. No. 3169/46-7000

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب تک زبان سے طلاق دینے کا یقین نہ ہو طلاق واقع نہیں ہوگی، خواہ اس نے واقع میں طلاق دے دی ہو۔ یہ وسوسہ  اور وہم ہے کہ شاید زبان سے طلاق دیدی شاید زبان سے نہیں دل ہی دل میں دی۔ شاید میں حرام رشتہ  سے منسلک ہوں، شاید یہ بچہ میرا نہیں ہے،وغیرہ ؛ یہ سب وساوس و اوہام  ہیں ۔ اس طرح کے وسوسے سے باہر نکلنے کی کوشش کریں ورنہ زندگی بہت مشکل ہوجائے گی۔ کبھی میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی شدت میں شوہر اپنے دل میں صد فی صد بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کرلیتاہے  اور بعد میں اس کو ایسا لگتاہے کہ میں نے اس وقت شاید زبان سے بھی طلاق دیدی تھی تو بھی جب تک یقین نہ ہو کہ زبان سے طلاق دی ہے کوئی طلاق واقع نہیں گی۔ یقین نہ ہونا ہی شک کہلاتاہے۔  ہاں جو شک کا مریض نہ ہو تو اس کے حق میں غالب گمان بھی یقین کے درجہ میں ہوتاہے۔

ومنھا شک ھل طلق أم لا لم یقع قال الحموي قال المصنف في فتواہ ولا اعتبار بالشک (الأشباہ: ۱۰۸) قال في الأشباہ إلا أن یکون أکبر ظنہ علی خلافہواللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Hajj & Umrah

Ref. No. 3167/46-6093

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  عمرہ کرانے کے لئے ذمہ دار نے جو رقم طے کرکے لے لی وہ اس کی ہے اب وہ اس رقم کو اپنے استعمال میں لائے یا سرمایہ کاری میں لگائے  اس کو مکمل تصرف کا حق ہے۔ اس رقم کے بدلے میں وہ عمرہ کرانے کا پابند ہے چاہے عمرہ  میں جمع شدہ رقم سے کم خرچ ہو یا زیادہ۔ اس لئے عمرہ ایجینٹ کا آپ سے رقم وصول کرکے اس کو سرمایہ کاری میں لگانا درست ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3168/46-6094

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  کریڈٹ کارڈ  میں بینک کی طرف سے جو رقم بطور قرض کارڈہولڈر کو دی جاتی ہے  اس میں ایک میعاد مقرر ہوتی ہے کہ اس میعاد سے پہلے اگر قرض کی رقم اداکردی جائے تو کارڈ ہولڈر پر کوئی اضافی رقم بطور سود دینا نہیں پڑتی ۔ لہذا اگر کسی کو اپنے اوپر اعتماد ہو کہ وہ سود لازم ہونے سے پہلے ہی قرض کی رقم اداکردے گا تو اس کے لئے کریڈٹ  کارڈ بنوانا جائز ہے، البتہ کمپنی  اگر حلال کاروبار بھی کرتی ہے اور کریڈٹ کارڈ سے سود بھی کماتی ہے تو غالب آمدنی کے حلال ہونے کی صورت میں اس میں ملازمت کرنا جائز ہے اور وہاں کی چیزوں کو استعمال کرنا بھی جائز ہوگا۔ اور اگر کمپنی  صرف اپنے سودی منافع سے چلتی ہے تو پھر اس میں ملازمت کرنا اور وہاں کی چیزوں کا استعمال جائز نہیں ہوگا۔ اور جب تک اس کے ذریعہ آمدنی کے بارے میں تحقیق نہ ہو اس میں کام کرنے سے حتراز کیاجائے۔   

وما لا یبطل بالشرط الفاسد القرض بأن أقرضتک ہذہ المأة بشرط أن تخدمني شہرًا مثلاً فإنہ لا یبطل بہذا الشرط وذلک لأن الشروط الفاسدة من باب الربا وأنہ یختص بالمبادلة المالیّة، وہذہ العقود کلہا لیست بمعاوضة مالیة فلا توٴثر فیہا الشروط الفاسدة الخ (البحر الرائق ۶/۳۱۲، کتاب البیع باب المتفرقات، ط: زکریا، وللمزد من التفصیل راجع: الفتاوی العثمانیة (۳/۳۵۲، فصل فی البطاقات وأحکامہا، ط: نعیمیہ دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Red. No. 3172/46-7003

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر لڑکا اسلامی عقائد کا حامل ہے اور اس کے عقائد اہل سنت والجماعت والے ہیں اور اپنے شیعہ عقائد سے توبہ کرچکاہے تو اس سے نکاح میں کوئی حرج نہیں ۔ تاہم  والدین کی مرضی نہ ہو تو ضد نہیں کرنی چاہئے۔ والدین اپنے تجربات کی بنا پراپنے بچے کو مستقبل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ جوانی میں  لوگ عام طور پر جذباتی اور ضدی  ہوتے ہیں؛صحیح فیصلہ نہیں کرپاتے  اور پھرنتیجہ اس کا اچھا نہیں ہوتاہے؛  اس لئے والدین کی مرضی کو مقدم رکھنا بہتر ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

متفرقات

Ref. No. 3173/46-7002

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر موٹر مسجد کے لئے کسی نے وقف کیا ہو تو اس کو مسجد کے لئے ہی استعمال کیاجائے گا، اس سے مدرسہ میں پانی بھرنا جائز نہیں ہوگا، اور مسجد کا متولی مسجد کے سامان کا منتظم ہوتاہے وہ مالک نہیں ہوتاہے کہ جیسا چاہے تصرف کرسکے۔ البتہ اگر مسجد کےمصلین سے  چندہ لے کر موٹر خریداگیاہے اور چندہ سے ہی اس کا بجلی بل اداکیاجاتاہے تو نماز کے وقت ایک اعلان کرکے مصلین سےاجازت لی جاسکتی ہے ، اگر مصلین راضی ہوں تو اس کی گنجائش ہوگی، ورنہ مدرسہ اپنا کوئی اور انتظام کرے۔

 مراعاة غرض الواقفین واجبة (رد المحتار: ۶/۶۶۵، ط زکریا دیوبند) شرط الواقف کنص الشارع․ (۶/۶۴۹، ط زکریا دیوبند)

”متولی المسجد لیس لہ أن یحمل سراج المسجد إلی بیتہ ولہ أن یحملہ من البیت إلی المسجد“ کذا في فتاوی قاضي خان اھ (فتاوی عالمگیري: ۲:۴۶۲ مطبوعہ مکتبہ زکریا دیوبند)، ”ولا تجوز إعارة أدواتہ لمسجد آخر اھ“ (الأشباہ والنظائر ص۴۷۱ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)، ”ولا تجوز إعارة الوقف والإسکان فیہ کذا في محیط السرخسي“ اھ (فتاوی عالمگیري ۲:۴۲۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3175/46-7001

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسبوق کو اگر اپنا مسبوق ہونا یاد تھا اس کے باوجود اس نے امام کے ساتھ سجدہ سہو کا سلام پھیردیا تو اس کی نماز فاسد ہوگئی ، اس کو اپنی نماز لوٹانی پڑے گی۔ البتہ اگر اس کو یہ یاد نہیں رہا کہ اس کی رکعتیں چھوٹ گئی ہیں اور بھول کر امام کے ساتھ سلام پھیردیا تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوگی۔ اور اس کی وجہ سے کوئی الگ سے سجدہ سہو اس پر لازم نہ ہوگا، کیونکہ یہ ابھی امام کی اقتداء میں نماز پڑھ رہاہے۔

فان سلم فان کان  عامدا فسدت والا لا، ولا سجود علیہ ان سلم سہوا قبل الامام او معہ۔۔۔ ولو سلم علی ظن ان علیہ ان یسلم فہو سلام عمد یمنع البناء (شامی 2/82)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

بدعات و منکرات

Ref. No. 3163/46-6092

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی مسلم معمار کے لئے شراب خانہ میں   تعمیر ی کام کرنا مناسب نہیں ہے تاہم اس کی اجرت اس کے لئے   حلال ہے ۔ اگر آپ اپنے  فن تعمیر میں ماہر ہیں توآپ کے لئے دوسری جگہ کام ملنا مشکل نہیں ہوگا۔ اس لئے دوسری جگہ کی تلاش بھی کرتے رہیں۔

الأجرة إنما تکون فی مقابلة العمل.(شامی، باب المہر / مطلب فیما أنفق علی معتدة الغیر 4/307 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنیٰ لہ بیعة أو کنیسةً جاز ویطیب لہ الأجر. (الفتاویٰ الہندیة،الإجارة / الباب الخامس عشر، الفصل الرابع 4/250 زکریا)ولو استأجر الذمی مسلمًا لیبنی لہ بیعةً،أو صومعةً، أو کنیسةً جاز، ویطیب لہ الأجر.(الفتاویٰ التاتارخانیة ۱۳۱/۱۵زکریا)

و) جاز تعمير كنيسة و (حمل خمر ذمي) بنفسه أو دابته (بأجر) لا عصرها لقيام المعصية بعينه۔ (قوله لا عصرها لقيام المعصية بعينه) فيه منافاة ظاهرة لقوله سابقا لأن المعصية لا تقوم بعينه ط وهو مناف أيضا لما قدمناه عن الزيلعي من جواز استئجاره لعصر العنب أو قطعه، ولعل المراد هنا عصر العنب على قصد الخمرية فإن عين هذا الفعل معصية بهذا القصد، ولذا أعاد الضمير على الخمر مع أن العصر للعنب حقيقة فلا ينافي ما مر من جواز بيع العصير واستئجاره على عصر العنب هذا ما ظهر لي فتأمل." (شامی، کتاب الحظر و الاباحہ ج نمبر ۶ ص نمبر ۳۹۱،ایچ ایم سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3162/46-6053

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بینک اسٹیٹمنٹ کے ذریعہ اس رقم کو جانا جاسکتاہے۔ یا جب سود کی رقم بینک میں آئے اور اس کا میسیج آپ کو ملے تو اتنی رقم کسی لفافہ میں رکھ دیاکریں یا اسی وقت اتنی رقم کسی غریب کو دیدیاکریں۔ انٹرسٹ کی رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے، بلکہ اس کو بلانیت ثواب کسی غریب کو مالک بنادینا ضروری ہے۔ کسی رفاہی کام میں بھی اس کو استعمال نہیں کیاجاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

خوردونوش

Ref. No. 3161/46-6054

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   صرف شک کی بناء پر کوئی حکم نہیں لگایا جاسکتاہے اور نہ ہی کسی حلال کو حرام کہاجاسکتاہے۔ البتہ اگر آپ کو مذکورہ شک واقع ہوا تو ایسی جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں اور استغفار بھی کریں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No. 3160/46-6055

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

One does not own his or her parts of the body like eyes, kidney etc; therefore he cannot gift it to anyone. It is unlawful to take out cornea from a donated eye and transplant in the eye of other person.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband