Miscellaneous

Ref. No. 3495/47-9443

In the name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful

The answer to your question is as follows: 

If someone’s belongings are stolen, it is not allowed to go to a spiritual healer (‘āmil) to find out who the thief is. Their methods are not accepted as valid proof in Islamic law. These practitioners often guess based on their own ideas, and people believe them without question. This can lead to an innocent person being wrongly blamed. Even if the guess is sometimes correct, it still doesn’t make the practice right or allowed in Islam. 

''أجمع العلماء علی جوازالرقیۃ عند اجتماع ثلاثۃ شروط: لن یکون بکلام اﷲ تعالیٰ وبأسمائہ وبصفاتہ، وباللسان العربی، أو بما یعرف معناہ من غیرہ، وأن یعتقد أن الرقیۃ لا تؤثر بذاتھا بل بذات اﷲ تعالیٰ.'' (فتح الباری، کتاب الطب:١/١٩٥، دارالفکر)

''منھم أنہ یعرف الامور بمقدمات یستدل بھا علی موافقھا من کلام من یسألہ أو حالہ أو فعلہ وھذا یخصونہ باسم العراف کالمدعی معرفۃالمروق ونحوہ. (رد المختار: مطلب فی الکھانۃ:١/٣٤، سعید)

''لایأخذ الفال من المصحف.'' (شرح الفقہ الاکبر:١٤٩، قدیمی).

ففی فتح الله الحميد المجيد في شرح كتاب التوحيد: منهم من كان يزعم أنه يعرف الأمور بمقدمات أسباب يستدل بها على مواقعها من كلام من يسأله أو فعله أو حاله وهذا يخصونه باسم العراف كالذي يدعي معرفة الشيء المسروق و مكان الضالة و نحوهما. روى مسلم في صحيحه عن بعض أزواج النبي - صلى الله عليه وسلم - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أتى عرافاً فسأله عن شيء فصدقه لم تقبل له صلاة أربعين يوماً" و عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أتى كاهناً فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد" رواه أبو داود اھ(ص: 327)

و فی حاشية ابن عابدين: و منهم أنه يعرف الأمور بمقدمات يستدل بها على موافقها من كلام من يسأله أو حاله أو فعله و هذا يخصونه باسم العراف كالمدعي معرفة المسروق و نحوه، و حديث "من أتى كاهنا" يشمل العراف و المنجم. (1/ 45)۔

و فی حاشية ابن عابدين: و العراف: المنجم. و قال الخطابي: هو الذي يتعاطى معرفة مكان المسروق و الضالة و نحوهما اهـ. و الحاصل أن الكاهن من يدعي معرفة الغيب بأسباب و هي مختلفة فلذا انقسم إلى أنواع متعددة كالعراف و الرمال و المنجم: و هو الذي يخبر عن المستقبل بطلوع النجم و غروبه، و الذي يضرب بالحصى، و الذي يدعي أن له صاحبا من الجن يخبره عما سيكون، و الكل مذموم شرعا ، محكوم عليهم و على مصدقهم بالكفراھ. (4/ 242)۔

"عن أبي ذر رضي الله عنه أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «‌لا ‌يرمي ‌رجل ‌رجلا بالفسوق، ولا يرميه بالكفر، إلا ارتدت عليه، إن لم يكن صاحبه كذلك»." (صحیح البخاری، کتاب الادب،باب ماینہی من السباب اللعان،ج:8،ص:15،الرقم:6045،ط:السلطانیہ مصر)

And Allah knows best.

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf, Deoband

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3494/47-9441

In the name of Allah, the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

If the details mentioned in the question are accurate, and the boy is free from any blasphemous or heretical Shia beliefs, then he is considered a sound Muslim. In such a case, it is permissible for a Sunni Muslim girl to marry him. However, the girl's family should carefully and confidently ascertain his beliefs. If, in the future, he adopts misguided Shia doctrines or begins to promote or preach them, it could seriously harm the marriage.

It is important to remember that marriage is a lifelong partnership, and religious harmony plays a vital role in its success. Therefore, both families should engage in open and honest discussions before the marriage to ensure that potential ideological or religious differences do not negatively impact their future life together.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Divorce & Separation

Ref. No. 3492/47-9440

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ [اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے]۔

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں اور نکاح بالکلیہ ختم ہوچکا ہے۔ پہلی طلاق کے بعد دوسری اور تیسری طلاق بھی عدت کے دوران دی گئی ہیں اس لئے عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی۔ مذکورہ عورت عدت گزارنے کے بعد آزاد ہے، اپنی مرضی سے  جہاں چاہے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔       

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3493/47-9444

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔اگر بیوی آپ کے حقوق ادانہیں کرتی اور بات نہیں مانتی تو گھر کے بڑوں اور بزرگوں سے اس سلسلہ میں مشورہ کریں، اگر پھر بھی بات نہ بنے اور اس کے رویہ میں کوئی تبدیلی محسوس نہ ہو تو اس کو ایک طلاق دے کر عدت گزارنے کے لئے چھوڑدیں۔ اور اگر چاہیں تو اس کو طلاق نہ دیں اور دوسری شادی کرلیں جو آپ کی ضرورت پوری کرسکے ۔ آپ کے پاس دوسری شادی کرنے کا معقول عذر ہے بشرطیکہ اسلامی قانون کے مطابق دونوں میں عدل کرنے کی اہلیت واستطاعت آپ کے اندر موجود ہو     ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Family Matters

Ref. No. 3491/47-9442

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      والدہ کے جو زیورات آپ کے پاس ہیں اگر آپ ان کی قیمت سے والدہ کا علاج کرانا چاہتی ہیں تو دیگر ورثاء کے سامنے اس بات کی صراحت کرکے ان کے علاج میں خرچ کرسکتی ہیں۔ اور ان کے علاج کے بعد جو بچے گا وہ محفوظ رکھاجائے گا ، والدہ کے  انتقال کے بعد اس کو تمام ورثا ءمیں شرعی حصص کے اعتبار سے تقسیم  کیاجائے گا۔   

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

Miscellaneous

Ref. No. 3490/47-9422

In the name of Allah, the most Gracious the most merciful

The answer to your question is as follows:

Engaging in any activity that may compromise one’s dignity, honor, or wealth is prohibited in Shari'ah. Respecting and complying with the laws of the land is an obligation upon every citizen. Therefore, illegal construction should be strictly avoided.

However, if a person rents out rooms in their own property or flat—even if the construction has not been officially approved by the government—the rental income will not be considered haram (unlawful) according to Shari'ah. While such construction may be deemed illegal under civil law, Shari'ah recognizes the owner's right to use and benefit from their property. As such, the act itself is not impermissible, and the income generated from it will not be regarded as haram.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband 

طلاق و تفریق

Ref. No. 3489/47-9421

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      بیوی کے علاوہ دیگر عورتوں کو ہمیشہ کے لئے  حرام کہنایمین کلما کے درجہ میں ہے، لہذا آپ اپنی قسم کی وجہ سے دوسری شادی نہیں کرسکتے۔  اگر آپ نے ہمیشہ کا لفظ استعمال نہ کیا ہوتا تو قسم کا کفارہ دینے سے مسئلہ کا حل نکل جاتا۔ اس لئے آپ اپنے الفاظ پر غور کرلیں۔

من حرّم أي علی نفسہ ․․․․ شیئاً ․․․․ ثم فعلہ ․․․․․ کفّر لیمینہ لما تقرّر أن تحریم الحلال یمین ․․․․․ کل حلّ أو حلال اللہ أو حلال المسلمین عليّ حرام ․․․․ فہو علی الطعام والشراب ولکن الفتوی فی زماننا علی أنہ تبین امرأتہ․․․․ وإن لم تکن امرأتہ وقت الیمین․․․․ فیمین الخ (درمختار مع ردّ المحتار: 5/000، کتاب الأیمان، مطبوعہ: مکتبہ زکریا، دیوبند)

الایمان مبنیۃ علی الالفاظ (قواعد الفقہ ص 65)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3488/47-9420

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      کفو کا مطلب یہ ہے کہ  لڑکا دین،دیانت، نسب، پیشہ ، مال اور تعلیم میں لڑ کی کے ہم پلہ ہو ، اس سے کم نہ ہو۔  نیز  کفاءت میں مرد کی جانب کا اعتبار ہے یعنی لڑکے کا لڑکی کے ہم پلہ اور برابر ہونا ضروری ہے۔  لڑکی کا لڑکے کے برابر ہونا ضروری نہیں ہے۔ لہذا  سوال میں ذکرکردہ   احوال کی روشنی میں ،  مذکور لڑکا مذکورہ لڑکی کا کفو نہیں ہے۔

"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول، سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر، غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض۔ ( بدائع الصنائع،  2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید )

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نکاح و شادی

Ref. No. 3487/47-9423

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      متعدد بیویوں کے درمیان   صرف رات کے اوقات میں برابری ضروری ہے، رات میں سب کو برابر وقت دینا شوہر پر واجب ہے،اس میں کوتاہی نہیں کرنی چاہئے، تاہم  دن کے اوقات میں یہ پابندی نہیں ہے۔   دن کے اوقات میں دیگر بیویوں کے پاس جانے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ  صحبت کی اجازت نہیں ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اس عورت کی حق تلفی ہوگی جس کے لئے وہ  دن متعین ہے۔

"(ويقيم عند كل واحدة منهن يوماً وليلةً) لكن إنما تلزمه التسوية في الليل، حتى لو جاء للأولى بعد الغروب وللثانية بعد العشاء فقد ترك القسم، ولا يجامعها في غير نوبتها، وكذا لايدخل عليها إلا لعيادتها ولو اشتد، ففي الجوهرة: لا بأس أن يقيم عندها حتى تشفي أو تموت، انتهى، يعني إذا لم يكن عندها من يؤنسها.

 (قوله: لكن إلخ) قال في الفتح: لانعلم خلافاً في أن العدل الواجب في البيتوتة والتأنيس في اليوم والليلة، وليس المراد أن يضبط زمان النهار، فبقدر ما عاشر فيه إحداهما يعاشر الأخرى، بل ذلك في البيتوتة، وأما النهار ففي الجملة اهـ يعني لو مكث عند واحدة أكثر النهار كفاه أن يمكث عند الثانية ولو أقل منه بخلافه في الليل، نهر (قوله: ولا يجامعها في غير نوبتها) أي ولو نهاراً ط".  (شامی، کتاب النکاح، باب القسم بين الزوجات، ج: 3،صفحه:207، ط: ایچ، ایم، سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Islamic Creed (Aqaaid)

Ref. No. 3484/47-9426

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔       رقم جمع کرنے کی حیثیت شرعی قرض کی ہے۔ اور قرض پر   مشروط یا غیرمشروط  نفع حاصل کرنا  شرعا سود کے زمرے میں  آتاہے۔ اس لئے پیسے جمع کرکے قرعہ اندازی کے ذریعہ جو انعام دیاجاتاہے وہ قرض  پر نفع لینے کی وجہ سے سود میں داخل ہے  جوبلاشبہ ناجائز و حرام ہے۔ اس لئے اس  طرح کے  غیر شرعی اور ناجائز معاملات میں حصہ دار بننا اور انعام لینا جائز نہیں ہے۔

کما في اعلاء السنن : عن فضالة بن عبيد، أنه قال: كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا أهـ (ج 14 ص510 ط: ادارة القرآن)۔ وفي الدر المختار: و في الأشباه كل قرض جر نفعاً حرام اھ (ج5 ص166، ط:سعید)۔ وفي رد المحتار: تحت (قولہ کل قرض جر نفعاً حرام) إذا كان مشروطاً ( إلى قوله ) وان لم يكن النفع مشروطاً في القرض فعلى قول الکرخی لا بأس به اھ (ج 5، ص166، ط: سعید)۔ وفي فقه البيوع : الثالث ما جرى به عمل بعض التجار أنهم يعطون جوائز لعملا ئھم الذين اشتروا منهم كمية مخصوصة، ولو في صفقات مختلفة ، وقد تعطی هذه الجوائز بقدر الكمية لكل أحد، وقد تعطى بالقرعة (إلى قوله) فھی هبة مبتداة موعودة من البائع لتشجيع الناس على أن يشتروا البضائع منه، وجواز اخذها مشروط بأن لا يكون البائع زاد في ثمن البضاعة من اجل هذه الجوائز والا صار نوعا من القمار، لأن ما زاد على ثمن المثل انما طولب به على سبيل الغرر (إلى قوله) وكذلك ان كان الثمن ثمن المثل ، فإنه يشترط أن يكون المشتري يقصد شراء البضاعة حقيقۃ ولا يشتريها لمجرد احتمال الحصول على الجائزة والا ففيه شبهة القمار اهـ ( ج ۲ ص ۷۷ ، مكتبه معارف القرآن)۔ وفي رد المحتار: ويردونها على اربابها ان عرفوهم والا تصدقوا بھا،لان الكسب الخبيث التصدق اذا تعذر الرد على صاحبہ اھ (ج6، ص،385،ط:سعید)۔

    واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند