Family Matters

Ref. No. 3413/46-9299

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      (۱) مشترکہ خاندانی نظام میں بیٹے باپ کو رقوم دینے یا بھیجنے میں اس کے حوالے سے عرف یہی ہے کہ وہ رقوم باپ ہی کی ملک سمجھی جاتی ہیں ،  لہٰذا ایسی رقوم اور ان کے ذریعہ خریدی گئی جائیداد باپ ہی کی ملکیت شمار ہوگی اور ان کی وفات کے بعد ان کے وفات کے وقت زندہ وارثین میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی لہٰذا مذکورہ 2400 اسکوائر فٹ کا پلاٹ وراثت میں شمار ہوگا۔(۲ )مگر مذکورہ پلاٹ پر مکان بنانے میں  جو بھی خرچ دونوں بھائیوں نے از خود کیا ہے وہ دونوں بھائی مکان کے تبدیل کا خرچہ منہا کر سکتے ہیں۔

إذا عمل رجل في صنعة هو وابنه الذي في عياله مجميع الكسب لذلك الرجل ولده بعد معينا له فيه قيدان احتراز بان كما تشير عبارة المتن الأول أن يكون الابن في عياله الأب الثاني أن يعملا معا في صنعة واحدة إذ لو كان لكل منهما صنعة يعمل فيهما وحده فريحه له (شرح المجلة: سم باز المبحث الثاني: ج 2، ص: 582، ماده: 1398، رشيديه)

(۳)  پورے پلاٹ کی قیمت کے چودہ حصے کئے جائیں گے جن میں سے ٢/٢ حصے پر بھائی کے اور ایک ایک حصہ پر ایک بہن کا حق ہوگا۔

(۴)  اگر مذکورہ دوکانیں بھائیوں کی کمائی سے بنی ہیں تو دوکان کے مٹیریل کے لئے ان ہی کی رضا کافی ہوگی مگر زمین پر ملکیت منتقل کرنے کے حق میں تمام وارثین کا راضی ہونا ضروری ہوگا بہر صورت مسجد کی ملکیت کے لئے مسجد کے نام رجسٹری یا مسجد انتظامیہ کو سپرد یعنی قبضہ کرانے سے پوری ہوگی جو ابھی تک عمل میں نہیں آیا، لہٰذا اب مسجد کی ملکیت تمام وارثین مستحقین کی رضا پر موقوف ہوگی اور ایک مرتبہ راضی ہوکر پلٹ جانا اخلاقا مذموم ہے۔

(۵)  والد کی ملکیت والے  گھر کو یقیناً سب وارثین کے ما بین مذکورہ تقسیم کے مطابق تقسیم کیا جائے گا زبانی وعدہ کافی نہیں ہوگا ہاں باپ نے کسی ایک یا دو بھائیوں کو م کسی مکان یا زمین کا مالک اور قابض بھی بنا دیا تھا تو پھر وہی بھائی اس مکان  و زمین کے مالک ہوں گے باقی کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوگا کیونکہ زندگی میں والد اپنی جائیداد کا مالک ومختار ہوتا ہے جس کو چاہے دے سکتاہے۔ (شامی: ’’وتنح الہبۃ بالقبض الکامل‘‘: ج ٥، ص: ٦٩٠، سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah

Ref. No. 3420/46-9294

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔        مسلمان عام طور پر حلال و حرام کی تمیز رکھتاہے اور حرام مال سے قربانی نہیں کرتاہے،  اور ہم کو کسی کے بارے میں تحقیق کا حکم بھی نہیں ہے۔ اس لئے جب تک یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ کوئی حصہ دار حرام آمدنی والا ہے تب تک دیگر شرکاء کی قربانی کے نہ ہونے کا حکم نہیں لگایا جاسکتا۔ لیکن اگر کسی کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ اس کی کُل یا اکثر آمدنی حرام ہے تو پھر اسے قربانی کے جانور میں شریک  کرنا درست نہیں ہے۔ اب  اگر  اجتماعی قربانی کرانے والوں کو اس کا علم تھا اس کے باوجود انہوں نے حرام آمدنی والوں کو شریک کرلیاتو اس کا وبال انہیں پر ہوگا۔ دیگر شرکاء کو چونکہ اس کا علم ہی نہیں ہوگا، لہٰذا ان پر اس کا وبال نہیں ہوگا۔

وَإِنْ كَانَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ صَبِيًّا أَوْ كَانَ شَرِيكُ السَّبْعِ مَنْ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ كَانَ نَصْرَانِيًّا وَنَحْوَ ذَلِكَ لَا يَجُوزُ لِلْآخَرَيْنِ أَيْضًا كَذَا فِي السِّرَاجِيَّةِ.وَلَوْ كَانَ أَحَدُ الشُّرَكَاءِ ذِمِّيًّا كِتَابِيًّا أَوْ غَيْرَ كِتَابِيٍّ وَهُوَ يُرِيدُ اللَّحْمَ أَوْ يُرِيدُ الْقُرْبَةَ فِي دِينِهِ لَمْ يُجْزِئْهُمْ عِنْدَنَا؛ لِأَنَّ الْكَافِرَ لَا يَتَحَقَّقُ مِنْهُ الْقُرْبَةُ، فَكَانَتْ نِيَّتُهُ مُلْحَقَةً بِالْعَدَمِ، فَكَأَنْ يُرِيدَ اللَّحْمَ وَالْمُسْلِمُ لَوْ أَرَادَ اللَّحْمَ لَا يَجُوزُ عِنْدَنَا۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ٥/٣٠٤)

الْيَقِينُ لاَ يَزُول بِالشَّكِّ۔ (الاشباہ والنظائر : ۱/۲۲۰)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 3418/46-9293

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔       اس طرح کے کاروبار میں جس نے اپنی محنت سے اپنے نیچے کسی کو جوڑا اور اس کی وجہ سے اس کو کوئی رقم ملتی ہے تو وہ جائز ہے، لیکن اس کے بعد والوں پر چونکہ آپ کی کوئی محنت نہیں ہے اس لئے ان  سے فائدہ حاصل کرنا جائز نہیں ہے۔  مثلا بکر نے محنت کرکے علی کو جوڑا تو علی کی وجہ سے اگر اس کو کچھ رقم ملتی ہے تو ٹھیک ہے، اسی طرح علی نے زید پر محنت کی تو زید کی وجہ سے اگر علی کو نفع پہونچے تو درست ہے لیکن زید کی  خریداری کی وجہ سے بکر کو اگر نفع پہنچتاہے تو یہ غلط ہے کیونکہ بکر کی زید پر کوئی محنت نہیں ہے۔   یہ ملٹی لیول مارکیٹنگ کا بزنس ماڈل چین در چین کمیشن کا ہے  جس کی مختلف شکلیں ہر روز وجود میں آتی ہیں، اور اس کو ناجائز قرار دیاگیا ہے۔

"عن سعيد بن عمير الأنصاري قال: سئل رسول الله صلّى الله عليه وسلّم ‌أيّ ‌الكسب أطيب؟ قال:عمل الرجل بيده، وكلّ بيع مبرور." (شعب الإيمان (2/ 84، التوكل بالله عز وجل والتسليم لأمره تعالى في كل شيء ،ط:دار الكتب العلمية)

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام." (فتاوی شامی ، (6/ 63، کتاب الاجارہ، باب الاجارۃ الفاسدہ، مطلب فی اجرۃ الدلال، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Death / Inheritance & Will

Ref. No. 3417/46-9292

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

Every individual has full authority over their property during their lifetime and may distribute it to whomever they wish, in any proportion they choose. Therefore, if a father distributes his property while still alive, he has the right to do so—even if the distribution is unequal—and such a distribution is valid under Islamic law. Nevertheless, equal treatment among heirs is recommended and preferable.

If certain sons assisted their father—while living with him—in constructing a house or acquiring property, their contribution is regarded as an act of goodwill and generosity (tabarru‘). After the father's passing, all sons, including the one who contributed, will inherit equally from those properties.

However, if a son independently built a separate house or purchased property with his own resources, that property will be considered his personal asset, and the other siblings will have no claim to it.

للإنسان أن يتصرف في ماله كيف شاء حال حياته، ما دام عاقلاً بالغاً." (الدر المختار مع رد المحتار (6/62)

"الهبة تنعقد بالإيجاب والقبول والقبض، وتملك بالقبض." (بدائع الصنائع (6/126)

"ويجوز تفضيل بعض الأولاد على بعض في العطية، وإن كان خلاف الأولى."  (رد المحتار (6/61)

"من أنفق على مال غيره بدون إذنه أو بدون عقد، فلا يملك شيئاً." (الدر المختار (5/102)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Prayer / Friday & Eidain prayers

Ref. No. 3416/46-9291

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      ایک پارے کے نصف  آخر  کو پہلی دس رکعتوں میں پڑھنا اور نصف اول کو بعد کی دس رکعتوں میں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اس کی عادت بنالینا مناسب   نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Business & employment

Ref. No. 3415/46-9290

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

(1) If the seller has clearly disclosed certain defects of the item (mabi‘) at the time of sale, then returning the item due to those disclosed defects is not valid. If a buyer returns the item later based on the same defects that were already explained at the time of the contract, the seller is not obligated to accept the return and refund the payment as per Shariah. However, if the seller takes the item back and refunds the money, it would be better in the light of shariah.

(2) If the buyer has already seen the item (mabi‘), the right of cancellation based on inspection (khiyār al-ru’yah) is no longer applicable. However, if a defect becomes apparent later, the buyer will have the right of cancellation based on defect (khiyār al-‘ayb).

(3) Since there is often a difference between the appearance of an item in online photos and its reality, merely seeing an item in pictures does not revoke the right of inspection (khiyār al-ru’yah). Therefore, after receiving the item, the buyer retains the right to inspect it and may choose to return it. However, if the defect has been clearly described in the pictures or written in description, then the buyer does not have the right to return the item on the basis of that defect.

وإن باعه على أنه بريء من كل عيب لا يرد به." ( الهداية، کتاب البيوع، ج3، ص82)

"وَإِنْ بَاعَهُ مَعَ بَيَانِ الْعَيْبِ لَا خِيَارَ لَهُ، لِأَنَّهُ تَصَرَّفَ عَلَى بَيَانِ الْعَيْبِ فَرَضِيَ بِهِ، فَسَقَطَ خِيَارُهُ."( بدائع،ج5، ص201)

"وَلَا خِيَارَ فِي الْمَعِيبِ إِذَا بَيَّنَ لَهُ الْبَائِعُ، لِأَنَّهُ اشْتَرَاهُ وَقَدْ عَلِمَ بِالْعَيْبِ." ( البحر الرائق، ج6، ص 77)

"وَلِمَنْ اشْتَرَى شَيْئًا وَلَمْ يَرَهُ فلہ أَنْ يَرُدَّهُ إِذَا رَآهُ، إِذَا لَمْ يُوَافِقْ وَصْفَهُ." (الهداية، ج3، ص83)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

حدیث و سنت

Ref. No. 3414/46-9289

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔      حالتِ جنابت میں قرآن مجید کی تلاوت سننا جائز ہے، خواہ کسی انسان سے سنے، یا کمپیوٹر، یا موبائل وغیرہ سے سنے۔  تاہم قرآنی آیات کے علاوہ  ذکروادعیہ کا زبان سے پڑھنا بھی جائز ہے۔

"(و) يحرم به (تلاوة القرآن) ۔ (قوله: تلاوة القرآن) أي ولو بعد المضمضة كما يأتي". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 172):

رد المحتار: (293/1، ط: سعید) فلو قرأت الفاتحة على وجه الدعاء أو شيئاً من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم ترد القراءة لا بأس به، كما قدمناه عن العيون لأبي الليث، وأن مفهومه أن ما ليس فيه معنى الدعاء كسورة أبي لهب لا يؤثر فيه قصد غير القرآنية".

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ذبیحہ / قربانی و عقیقہ

Ref. No. 3410/46-9300

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔     اگر مدرسہ یا ادارہ معتبر ہو، اور ان کی دیانت و امانت معروف ہو اوران کے ذبیحہ کا انتظام شریعت کے مطابق ہو، اور وہ واقعی قربانی کرتے ہوں اور گوشت مستحقین کو پہنچاتے ہوں، تو ایسے مدارس یا اداروں کے ذریعے فون، واٹس ایپ یا آن لائن طریقے سے قربانی کروانا شرعاً جائز ہے۔قیمت کا فرق علاقے کے اعتبار سے ہوتا ہے۔مثلاً یوپی، بہار یا ہریانہ میں قربانی کے جانور نسبتاً سستے ہوتے ہیں، خاص طور پر مدارس والے  زیادہ تعداد میں بڑے جانور خریدتے ہیں تو ان کو جانور سستے ملتے ہیں۔ اگر واقعی جانور شریعت کے مطابق ہو اور قربانی صحیح طریقے سے ہو رہی ہو، تو قیمت کم ہونے کی وجہ سے  دوسری جگہ قربانی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔

ويجوز التوكيل في الأضحية، فيذبح الوكيل عن الموكل." (الفتاویٰ الهندية، ج 5، ص 296)

"ويجوز التوكيل فيها (أي: الأضحية)، كما في سائر القرب." (رد المحتار، ج 6، ص 326)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3394/46-9276

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔    ’    ’اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوں کہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے‘‘۔

ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بھی تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ اس لئے بشرط صحت سوال  صورت مسئولہ میں عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی اور وہ اپنے شوہر کے لئے حرام اور اجنبی ہوگئی۔

﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229] ﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230]

'' عن عائشة، أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي صلى الله  عليه وسلم: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول (صحيح البخاري(2/791، ط:قدیمی):

'' عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، فِي هَذَا الْخَبَرِ، قَالَ: فَطَلَّقَهَا ثَلَاثَ تَطْلِيقَاتٍ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْفَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ مَا صُنِعَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلّىالله عليه وسلم سُنَّةٌ''۔ (سنن ابی داؤد ، 1/324، باب فی اللعان)

 عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قُلْتُ لِفَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ: حَدِّثِينِي عَنْ طَلَاقِكِ، قَالَتْ: «طَلَّقَنِي زَوْجِي ثَلَاثًا، وَهُوَ خَارِجٌ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَجَازَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»۔ (سنن ابن ماجه (1 /145):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 3393/46-9275

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔    نشہ کی حالت میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے، اس لئے اگر شوہر نے دو طلاقیں دی ہیں تو دو طلاقیں واقع ہوگئیں۔ اگر میاں بیوی دونوں ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو رجعت کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں ، البتہ شوہر کو آئندہ صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا، آئندہ اگر ایک طلاق بھی دی تو عورت طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

اگر شوہر طلاق کا اقرار کررہاہے تو طلاق واقع ہوگی، اور اگر انکار کررہاہے  اور طلاق پر گواہ بھی نہیں ہیں تو طلاق واقع نہیں ہوگی، تاہم اگر عورت کو یقین ہے کہ شوہر نے دو طلاقیں دی ہیں تو بھی ابھی رجعت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے۔

طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر أو النبيذ. وهو مذهب أصحابنا رحمهم الله تعالى كذا في المحيط (الھندیۃ، جلد1، کتاب الطلاق، الباب الاول، فصل فیمن یقع طلاقہ و فیمن لا یقع طلاقہ، ص: 353، ط: مکتبہ رشیدیہ)

وبه ظهر أن المختار قولهما في جميع الأبواب فافهم. وبين في التحرير حكمه أنه إن كان سكره بطريق محرم لا يبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق والعتاق، والبيع والإقرار، وتزويج الصغار من كفء، والإقراض والاستقراض لأن العقل قائم، وإنما عرض فوات فهم الخطاب بمعصيته، فبقي في حق الإثم ووجوب القضاء۔ (شامی، جلد3، کتاب الطلاق، مطلب فی تعریف السکران و حکمہ، ص: 239، ط: ایچ ایم سعید)

"وَاسْتَشْہِدُوْا شَہِیْدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَاِنْ لَمْ یَکُوْنَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَاَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَآءِ". (البقرۃ، الآیۃ: 282)

"والمرأۃ کا لقاضی إذا سمعتہ أو أخبرہا عدل لا یحل لہا تمکینہ والفتویٰ علی أنہ لیس لہا قتلہ ولا تقتل نفسہا بل تفدی نفسہا بمال أوتھرب (إلی قولہ) فان حلف ولا بینۃ لہا فالإثم علیہ الخ". رد المحتار: (کتاب الطلاق، مطلب فی قول البحر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند