Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 38/812
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم: چالیس قدم پر اجروثواب احادیث سے ثابت ہے(مسنداحمد)، نماز جنازہ کی ثنا ء میں "وجل ثناؤک" بھی منقول ہے، اور مذکورہ دونوں امور استحباب کے درجہ میں ہیں۔ تفصیل کے لئے ردالمحتار اور الموسوعۃ الفقہیہ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 39 / 846
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ درود ابراہیمی سب درودوں میں افضل ہے وہی پڑھنا چاہئے، تاہم جب اس کو پڑھنا مشکل ہو تو آپ پڑھیں: "اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم"۔ دعاء ماثورہ کی جگہ پڑھیں: "ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار"/ یا "اللھم اغفرلی" تین بار پڑھیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 1000/41-190
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
Then answer to your question is as follows:
The way to keep a Miswak is to keep it upright, not horizontal on the ground. ولایضعہ بل ینصبہ والا فخطر الجنون۔ (درمختار مع الرد1/235
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
فقہ
Ref. No. 1580/43-1112
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صلاتک ایپ ہم نے استعمال کیا ہے، اور دائمی کلینڈر سے اس کو چیک کیا توبہت مناسب ایپ لگا۔ اس لئے اس ایپ کو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اوقات صلوۃ میں اس پر اعتبار کیا جاسکتاہے البتہ اس طرح کے تمام ایپ نیٹ سے مربوط ہوتے ہیں ، اس ایپ کو کھولنے سے پہلے موبائل کا انٹرنیٹ اور لوکیشن (Location)بھی چیک کرلیں تاکہ صحیح وقت کی معرفت حاصل ہوسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ عورت نے جب کہ اسلام قبول کرلیا، تو وہ مسلمان ہوگئی مندر جانے کی وجہ سے وہ کافر نہیں ہوگی(۱) (اگر وہ مورتی کی پوجا نہیں کرتی) البتہ گناہگار ضرور ہے۔ ایسی مسلمان گناہگار عورت سے جو نکاح گواہوں کی موجودگی میں ہوا وہ صحیح ہوگیا اور اگر وہ پوجا کرتی ہے، تو مسلمان نہیں ہے اور اس سے کیا ہوا نکاح باقی نہیں رہا۔(۲)
(۱) {مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ ج وَلَھُمْ عَذَاب’‘ عَظِیْمٌ ہ۱۰۶}(سورۃ النحل، آیۃ: ۱۰۶)
ومنہا أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلماً فلا یجوز للمسلم أن ینکح المشرکۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع، ’’کتاب النکاح: فصل أن لا تکون المرأۃ مشرکۃ إذا کان الرجل مسلماً‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۰)
(۲) قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر، یدل علی الکفر فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ ابن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 1955/44-1878
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Falak means ‘sky’ ‘Heaven,’ Zuha means ‘light,’ ‘morning light’, and Aye-noor means ‘moonlight’. Ay is a Turkish word which means moon, and Noor is an Arabic word which means light. So aye-noor means 'moonlight'.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال غیر مسلم کے مرنے اور اس کی تیرھویں میں شریک ہونے سے مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا؛ البتہ گناہگار ہوتا ہے۔(۱
(۱) و إذا مات الکافر قال لوالدہ أو قریبہ في تعزیتہ أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک أي أصلحک بالإسلام ورزقک ولدا مسلما لأن الخیریۃ بہ تظہر، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس عشر في الکسب‘‘: ج ۵، ص: ۳۴۸)
جار یہودي أو مجوسي مات ابن لہ أو قریب ینبغي أن یعزبہ ویقول أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک وکان أصلحک اللّٰہ بالإسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۷)
ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
)
نوٹ: ہاں کوئی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو ان کی رسموں میں شرکت نہیں کرنی چاہئے؛ اس لئے کہ ان کی رسموں میں شرکت باعث گناہ ہے، اور ان کی رسوم وعقائد کو دل سے برا سمجھنا چاہئے؛ اس لئے کہ ان کے باطل عقائد کو صحیح سمجھنے اور ان کی غیر شرعی رسموں پر رضامندی سے ایمان ہی خطرہ میں پڑجاتا ہے۔
الجواب صحیح:
دار العلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شیعہ حضرات میں جو لوگ یا جماعتیں مذکورہ نظریات رکھتی ہیں وہ سب اسلام سے خارج ہیں۔(۱)
(۱) نعم لا شک في تکفیر من قذف السیدۃ عائشۃ - رضی اللہ تعالی عنہا - أو أنکر صحبۃ الصدیق، أو اعتقد الألوہیۃ في عليّ، أو أن جبریل غلط في الوحي، أو نحو ذلک من الکفر الصریح المخالف للقرآن۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد مطلب مہم: في حکم سب الشیخین‘‘: ج ۶، ص: ۳۷۸)
ویجب إکفار الروافض في قولہم: برجعۃ الأموات إلی الدنیا وبتناسخ الأرواح وبانتقال روح الإلہ إلی الأئمۃ وبقولہم: في خروج إمام باطن وبتعطیلہم الأمر والنہي إلی أن یخرج الإمام الباطن وبقولہم: إن جبریل -علیہ السلام- غلط في الوحي إلی محمد -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- دون علي بن أبي طالب -رضي اللّٰہ عنہ- وہؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الإسلام، وأحکامہم أحکام المرتدین، کذا في الظہیریۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: أحکام المرتدین، ومنہا: ما یتعلق بالأنبیاء علیہم الصلاۃ والسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص228
اسلامی عقائد
الجواب وبا اللّٰہ التوفیق:بیری کی لکڑی کا قبر کے اندر رکھنا ثابت نہیں اس کو ضروری سمجھنا بدعت ہے نیز یہ خیال بھی صحیح نہیں کہ مردہ اس کے سہارے سے اٹھ کر بیٹھتا ہے یا یہ کہ مسواک کرتا ہے یہ من گھڑت باتیں ہیں، (۱) البتہ تدفین سے فارغ ہونے کے بعد قبر پر تھوڑی دیر میت کے لئے دعائے مغفرت کرنی چاہئے جو ثابت ہے۔ (۲)
(۱) عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا-، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحۃ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸؛ مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ص:۲۷، رقم: ۱۴۰)
من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (’’أیضاً‘‘)
(۲) عن عثمان رضي اللّٰہ عنہ کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا فرغ من دفن المیت وقف علیہ فقال: استغفروا لأخیکم ثم سلوا لہ بالتثبیت فإنہ الآن یسأل، رواہ أبو داود۔ (مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الإیمان: باب إثبات عذاب القبر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶رقم: ۱۳۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص353
اسلامی عقائد
Ref. No. 2428/45-3692
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ کوئی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے، بعض مرتبہ بہت چھوٹی چیز کو لوگ اپنی انا کا مسئلہ بنالیتے ہیں، اس کی وجہ سے طلاق تک نوبت پہونچ جاتی ہے، اس سلسلہ میں دونوں کو ہی خیال کرنا چاہئے، زید چونکہ اس گھر کا داماد ہے ، اور داماد کا درجہ بیٹے جیسا ہوتاہے، اس لئے اگر ساس و سسر انہیں اسی مکان میں بُلائیں تو وہاں جاکر بیوی کو لے آنا چاہئے ۔ ہاں اگر زید کسی معقول بنیاد پر اس گھر میں نہ جانا چاہتاہو تو سسرال والوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے ، ضد کوئی اچھی چیز نہیں ہے، اس میں دونوں فریق کا نقصان ہوتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند