Frequently Asked Questions
متفرقات
Ref. No. 819
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم-: کسی بھی جاندار کی تصویر لگا نے سے احتراز کیا جائے، اور شناخت کے لیے کوئی دوسرا طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتاہے۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 40/911
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح متعین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1065
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
In Fiqh books, standing up at the time of ‘Hayya-alas-salah’ is regarded as Mustahab. Allama Tahtavi writes that standing up at the time of ‘Hayya-alas-salah’ means one should compulsorily stand up at ‘Hayya Alas Salah’ in any way and he is not allowed to keep sitting after the ‘hayya alas salah’ is called. So, it never means that one is not allowed to stand up before ‘hayya alas salah’.
Hence, imam’s insistence over standing up only at the time of Hayya alas salah and not before is absolutely wrong. You should keep in mind that aligning rows (saff) is wajib (mandatory). And acting upon a wajib is more important than a mustahab. The companions of the prophet (Muhammad) (saws) used to stand up the time when they saw the prophet (saws) coming in masjid. At the same time, hazrat bilal would start takbeer. It denotes that standing up at the beginning of takbeer is also approved. Nevertheless this looks good as regards aligning rows so that the aligning of the rows can be gained before the takbeer gets over.
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ یقول اقیمت الصلوۃ قمنا فعدلنا الصفوف قبل ان یخرج الینا رسول اللہ (مسلم1/220) اشارۃ انہ ھذہ سنۃ معھودۃ عندھم (نووی شرح مسلم 1/221)
It is narrated by hazrat Abu hurairah (ra) that takbeer started, we stood up and aligned rows before the prophet (saws) came out to us. While elaborating this narration, Allama Nawavi writes: it indicates that this (standing up at the beginning of takbeer) is the sunnah in their view. (Nawavi Sharhe-Muslim 1/220). Hazrat Hafiz ibne Hajar writes in his book namely ‘Fat’hul bari Sharhe Bukhari’ narrating from ibne shihab which openly states that they used to stand up in rows at the time takbeer started.
روی عبدالرزاق عن ابن جریج عن ابن شھاب أَنَّ النَّاسَ كَانُوا سَاعَةَ يَقُولُ الْمُؤَذِّنُ اللَّهُ أَكْبَرُ يَقُومُونَ إِلَى الصَّلَاةِ فَلَا يَأْتِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَامَهُ حَتَّى تَعْتَدِلَ الصُّفُوفُ۔ (فتح الباری 2/95)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
خوردونوش
Ref. No. 1012/41-174
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کھانے کے بعد کی مذکورہ دعا تقریبا دس کتب حدیث میں مذکور ہے، اور ہر جگہ بغیر من کے ہے اس لئے بغیر "من" کے ہی پڑھنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 1130/42-349
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کے والد نے جو کچھ جائداد چھوڑی ہے، اس کو 120 حصوں میں تقسیم کریں گے، جن میں سے آپ کے دادا کو 20 حصے، دادی کو 20 حصے، آپ کی والدہ کو 15 حصے، آپ دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک کو 26 حصے(کل 52حصے) اور آپ کی بہن کو 13 حصے ملیں گے۔
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ربوٰ وسود/انشورنس
Ref. No. 1231/543
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ معاملہ سودی ہے، اور ناجائز ہے۔ اگر معاملہ اس طرح کیاجائے کہ ڈالر ابھی دیدیاجائے اور ایک ماہ کے بعد آج کی مارکیٹ کے حساب سے قرض کی ادائیگی کرنی ہو، یا یہ طے کرلیا جائے کہ ایک ماہ کے بعد کرنسی کا مارکیٹ میں جو ریٹ ہوگا وہ ادا کرنا ہوگا تو درست ہے۔ مگر یہ طے کرلینا کہ ایک ماہ کے بعد ڈالر کی قیمت بڑھے یا گھٹے آپ کو 170 کے حساب سے ہی دینا ہوگا یہ سودی معاملہ ہے اور سودی معاملہ حرام ہے۔
قال اللہ تعالی واحل اللہ البیع وحرم الربوا (سورۃ البقرہ 275)۔
وإذا عدم الوصفان الجنس والمعنى المضموم إليه حل التفاضل والنساء، لعدم العلة المحرمة والأصل فيه الإباحة. وإذا وجدا. حرم التفاضل والنساء لوجود العلة. وإذا وجد أحدهما وعدم الآخر حل التفاضل وحرم النساء (الھدایۃ، باب الربا،3/61)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 1354/42-767
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کتاب لکھ کر اس کو کسی کتب خانہ والے کے ہاتھ بیچ دینا اور حق طباعت کا بھی پیسہ لےلینا درست ہے۔نیز اگرصرف حق طباعت کو فروخت کیا جائے تو بھی درست ہے۔ حق طباعت آج کل عرف کی بنا پر ایک ایسا قانونی حق بن چکا ہے جس کا رجسٹریشن ہوتاہے اور اب یہ اعیان و اموال کے درجہ میں ہے، اور ایک مال متقوم ہے۔ بیع کے اندر مبیع کا مال متقوم ہونا ضروری ہے۔ البتہ اگر سافٹ کاپی فروخت کریں اور اس کے ساتھ حق طباعت بھی دیدیں اور دونوں کا پیسہ ایک ہی عقد میں طے کرلیں تو یہ صورت زیادہ بہتر ہے۔ دراصل یہ مسئلہ علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے مگر دارالعلوم دیوبند نے حق طباعت کو مال متقوم مان کر اس کی خریدوفروخت کی اجازت دی ہے۔ اور اسی کو راجح قراردیاہے۔
والحاصل أن القياس في جنس هذه المسائل أن يفعل صاحب الملك ما بدا له مطلقا لأنه يتصرف في خالص ملكه وإن كان يلحق الضرر بغيره، لكن يترك القياس في موضع يتعدى ضرره إلى غيره ضررا فاحشا كما تقدم وهو المراد بالبين فيما ذكر الصدر الشهيد وهو ما يكون سببا للهدم وما يوهن البناء سبب له أو يخرج عن الانتفاع بالكلية وهو ما يمنع من الحوائج الأصلية كسد الضوء بالكلية على ما ذكر في الفرق المتقدم واختاروا الفتوى عليه. (فتح القدیر، مسائل شتی من کتاب القضاء 7/326)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 1584/43-1118
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
It is always better to save the water which is going to waste. Therefore, you can store the masjid’s extra water (going to waste) for your domestic use. There is nothing wrong in it.
(وإن كانت) اللقطة (حقيرة) بحيث يعلم أن صاحبها لا يطلبها (كالنوى وقشور الرمان) والبطيخ في مواضع متفرقة (والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف) لأن إلقاءها إباحة للأخذ دلالة (وللمالك أخذها) لأن التمليك من المجهول لا يصح. (مجمع الانھر، الانتفاع باللقطۃ 1/708)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے وہ مسلمان ہے اور جو اللہ کے علاوہ کس کی پوجا کرے وہ دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے(۱) اور سوال میں صراحت ہے کہ مذکورہ شخص اور اس کے اہل خانہ مندر میں غیراللہ کی پوجا کرتے ہیں؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔(۲) اور سوال میں مذکور دیگر فسقیہ اعمال اس کے مؤید ہیں۔ اور اسلام میں فتاویٰ کی جن کتابوں کو معتبر و معتمد تسلیم کیا جاتا ہے ان میں اس بات کی صراحت ہے کہ جو شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہو یا فسق و فجور میں مبتلا ہو وہ مسلمانوں کے اوقاف کا متولی وذمہ دار نہیں ہوسکتا (۳)؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص کو مسلمانوں کے اوقاف کا متولی یا ذمہ دار بنایا جانا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔
(۱) {وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓاِیَّاہُ} (سورہ بنی اسرائیل : ۲۳) …{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاہع۱۱۰} (سورۃ الکہف: ۱۱۰)
(۲) {وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُو اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۵لا} (سورۃ البینہ: ۵)
قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر یدل علی الکفر، فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ بن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)
(۳)وینزع وجوباً بزازیۃ لو الواقف درر فغیرہ أولی غیر مأمون أو عاجزا أو ظہر بہ فسق إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب: یأثم بتولیۃ الخائن‘‘: ج۶، ص: ۵۷۸)
وإن کا غیر مأمون أخرجہا من یدہ وجعلہا في ید من یثق بدینہ إلخ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۰)
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 1752/43-1464
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مدرسہ کی عمارت میں اگر دینی تعلیم کے اعتبار سے کوئی کمی و کوتاہی نہیں ہورہی ہے اور مدرسہ کے مقاصد وافادیت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑرہا ہے تو وہاں پر اسکولی تعلیم دے سکتے ہیں۔ اور اسکول میں پڑھنے والے بچوں سے فیس بھی لے سکتے ہیں لیکن اساتذہ کی تنخواہ ودیگر ضروریات کے بعد پیسے بچتے ہوں تو اس کو مدرسہ کے مصارف میں استعمال کیا جائے، آپ بلاتعیین کے اس کو اپنی ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتے ہیں۔ چونکہ آپ اور آپ کی اہلیہ دونوں پڑھاتے ہیں، اور نگرانی وانتظامی امور انجام دیتے ہیں اس لئے آپ دونوں اپنی تنخواہ لے سکتے ہیں ۔
المال الموقوف علی المسجد الجامع ان لم تکن للمسجد حاجۃ للمال فللقاضی ان یصرف فی ذلک لکن علی وجہ القرض فیکون دینا فی مال الفئ (الھندیۃ 2/462)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند