Divorce & Separation

Ref. No. 3198/46-7042

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If a husband fails to fulfill his wife’s marital rights, or he is physically abusive, and makes unjust demands, the wife may seek khula by relinquishing her mahr or offering additional amount to the husband. If the husband refuses to grant talaq (divorce) or khula, the woman should seek recourse through the court (Dar-ul-Qaza) for resolution.

In such cases, if a Muslim judge (Qazi), after carefully considering all the facts and evidences, annuls the marriage under the Muslim Marriages Act, 1939, based on the principles of Faskh (annulment of marriage), this annulment will be legally valid. Once the woman has completed her iddah (waiting period) she will be free to remarry at her discretion.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Divorce & Separation

Ref. No. 3190/46-7032

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  طلاق کے لئے کنائی الفاظ استعمال کرتے وقت متصلاً اگر طلاق کی نیت نہیں تھی تو طلاق واقع نہیں ہوئی، بعد میں نیت کا اعتبار نہیں ہوگا، پھر شوہر نے اپنی بیوی کو صریح دو طلاقیں دیں۔ اور پھر نکاح وغیرہ کر کے دونوں میاں بیوی کے طور پر رہنے لگے تو معاملہ بھی درست ہو گیا، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں زید کا نکاح درست ہو گیا اور بچے اسی کی جانب منسوب ہوں گے۔ اور دونوں کا نکاح اب بھی باقی ہے، دونوں کو چاہئے کہ میاں بیوی کے طور پر دونوں ایک ساتھ رہیں اور ذہن کو تمام شکوک وشبہات سے پاک رکھیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3136/46-6042

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

 (In Islam, Nikah (marriage) is considered a sacred bond, and Islam emphasizes its stability by encouraging mutual love, affection, and fulfillment of each other's rights. However, if for some reasons, there is discord between the husband and wife, the elders of both families should first attempt to reconcile, as divorce is regarded as a disliked act in Islam, and its unnecessary use is not appropriate.

If there is no way for reconciliation and there is a fear of discord and conflict, then Islam permits separating with one explicit divorce (Talaq). After one divorce, if they wish to reunite, they can do so during the Iddah (waiting period) through reconciliation or after the Iddah by remarrying.

Issuing three divorces at once is considered a sin in Islamic law and is also a punishable offense under the country's legal system.)

 

In our common usage, the word "Azad" (free) is clearly used to mean divorce. Therefore, even without the intention, one revocable divorce (Talaq-e-Raj'i) has taken place. The husband then gave a second divorce and reconciled, and later gave a third conditional divorce which was fulfilled. As a result, all three irrevocable divorces (Talaq-e-Mughallazah) have occurred, making it forbidden and sinful for both of you to continue living together, and the Nikah (marriage) is also prohibited.

Now, the woman is all the way free, and after completing her Iddah (waiting period), she may marry another man if she wishes to do so.

And Allah knows best

Darul Ifta

darul Uloom Waqf Deoband

Divorce & Separation

Ref. No. 3102/46-5097

In the name of Allah the most Gracious het most Merciful

The answer to your question is as follows:

If a husband and wife have a disagreement, and the husband has not explicitly or implicitly issued a divorce, they remain legally married, and the marriage is still valid. Merely living apart for several years does not constitute a divorce. However, if the husband has issued a divorce or made any indication with the intention of divorce, please provide clear details in writing before asking the question again.

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Divorce & Separation

Ref. No. 3074/46-4925

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شوہرنے بیوی سے تنگ آکر اس طرح کا جملہ محض جان چھڑانے کے لئے بولا ہے ، اس سے بیوی کو  ماں کے ساتھ کسی چیز میں تشبیہ دینا یا طلاق دینا یا ظہار وغیرہ کی نیت نہیں ہے، اس لئے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی اور رشتہ پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا  اور اس سے ظہار بھی نہیں ہوگا، تاہم اس طرح کا جملہ بیوی کے لئے بولنا یعنی بیوی کو ماں کہنا ناپسندیدہ ہے ، اس لئے شوہر کو چاہئے کہ  آئندہ اس طرح کا لفظ استعمال کرنے سے  اجتناب کرے۔

وإن نوى بأنت علي مثل أمي) أو كأمي وكذا لو حذف علي، خانية ( براً أو ظهاراً أو طلاقاً صحت نيته ) ووقع ما نواه؛ لأنه كناية ( وإلا ) ينو شيئاً أو حذف الكاف، ويكره قوله: أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه" (قوله:حذف الكاف ) بأن قال أنت أمي، ومن بعض الظن جعله من باب زيد أسد، در منتقى عن القهستاني، قلت: ويدل عليه ما نذكره عن الفتح من أنه لا بد من التصريح بالأداة، (قوله: لغا )؛ لأنه مجمل في حق التشبيه، فما لم يتبين مراد مخصوص لا يحكم بشيء، فتح (قوله: ويكره الخ ) جزم بالكراهة تبعاً للبحر و النهر، والذي في الفتح: وفي أنت أمي لايكون مظاهراً، وينبغي أن يكون مكروهاً، فقد صرحوا بأن قوله لزوجته: يا أخية مكروه، وفيه حديث رواه أبو داود أن رسول الله سمع رجلاً يقول لامرأته: يا أخية، فكره ذلك ونهى عنه، ومعنى النهي قربه من لفظ التشبيه، ولولا هذا الحديث لأمكن أن يقول: هو ظهار؛ لأن التشبيه في أنت أمي أقوى منه مع ذكر الأداة، ولفظ يا أخية استعارة بلا شك، وهي مبنية على التشبيه، لكن الحديث أفاد كونه ليعين ظهاراً حيث لم يبين فيه حكماً سوى الكراهة والنهي، فعلم أنه لا بد في كونه ظهاراً من التصريح بأداة التشبيه شرعاً، ومثله أن يقول لها: يا بنتي أو يا أختي ونحوه". (الدر المختار مع رد المحتار (3 / 470)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3063/46-4895

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

The wife demanded khula from her husband and husband accepted it, so the khula with one Talaq e Bain did happen. It is not necessary to have a witness for Khula, just as it is not necessary to have a witness for divorce, and just as divorce takes place over the phone, Khula is also valid over the phone.

"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول۔"

(بدائع الصنائع ، ج:۳،ص:۱۴۵ ،فصل فی شرائط رکن الطلاق،ط:سعید)

"وأما كون الخلع بائنًا فلما روى الدارقطني في كتاب "غريب الحديث" الذي صنفه عن عبد الرزاق عن معمر عن المغيرة عن إبراهيم النخعي أنه قال: الخلع تطليقة بائنة، وإبراهيم قد أدرك الصحابة وزاحمهم في الفتوى، فيجوز تقليده، أو يحمل على أنه شيء رواه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؛ لأنه من قرن العدول فيحمل أمره على الصلاح صيانة عن الجزاف والكذب، انتهى." (البناية شرح الهداية:٥/٥٠٩)

"إذا كان الطالق بائنًا دون الثالث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها." (الفتاوى الهندية، ج:۱، ص:۴۷۲ ط: ماجدیة)

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf Deoband

Divorce & Separation

Ref. No. 3023/46-4816

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب تک صریح لفظوں میں طلاق کا تلفظ نہ ہو یا طلاق کے  مناسب  لفظ میں طلاق کی  نیت نہ کی جائے، صرف طلاق کا وہم یا وسوسہ آنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3018/46-4811

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔  ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔  ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔

شوہر نے جب تین طلاقیں دیدیں تو تینوں واقع ہوگئیں،وقوع طلاق کے لئے  بیوی کا سننا ضروری نہیں ہے۔ شوہرنے جتنی طلاقیں زبان سے نکالی ہیں وہ ساری واقع ہوں گی۔  طلاق کے بعد میاں بیوی اجنبی ہوجاتے ہیں، ان کا آپس میں ملاقات کرنا اور ایک دوسرے کو دیکھنا بھی حرام ہوجاتاہے۔ طلاق ہوجانے کے بعد  شریعت نے فوری طور پر الگ ہوجانے کا حکم  دیا ہے، اس سلسلہ میں بڑوں کی بات قطعا غیرمعتبر اور اللہ کے حکم کو بدلنے والی بات ہے۔  جو لوگ اللہ کے حکم کے  خلاف کریں گے یا اس میں تعاون کریں گے سب کے سب گنہگار ہوں گے۔اس لئے  جن بڑوں نے یہ مشورہ دیا ان پر اور جھوٹے گواہوں پر اور شوہر سمیت جو لوگ اس فیصلہ سے راضی تھے سب پر توبہ واستغفار لازم ہے۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3009/46-4792

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کا محض خیال آنا اور اس پر طلاق کی نیت کرلینا وقوع طلاق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر صریح لفظ طلاق کے لئے استعمال کیاجائے تو اس میں نیت کی ضروررت نہیں ہوتی اور اگر کوئی لفظ کنائی بولا تو اس میں طلاق دینے کی نیت ہو گی تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں ۔ پس صورت مسئولہ میں چونکہ کسی لفظ کا تلفظ نہیں کیا اس وجہ سے صرف طلاق کا خیال آنے اور اس پر نیت کرلینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ اس لئے آپ کی نیت طلاق کی ہو یا تعلیق طلاق کی بلاتلفظ کے دونوں غیرمعتبر ہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Divorce & Separation

Ref. No. 3008/46-4794

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ طلاق کالفظ دیکھنا اور اس پر طلاق کی نیت کرنا وقوع طلاق کے لئے کافی نہیں ہے۔ وقوع طلاق کے لئے زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اگر صریح لفظ طلاق کے لئے استعمال کیاجائے تو اس میں نیت کی ضروررت نہیں ہوتی اور اگر کوئی لفظ کنائی بولاجائے تو اس میں طلاق دینے کی نیت ہو گی تو طلاق ہوتی ہے ورنہ نہیں ۔ پس صورت مسئولہ میں چونکہ کسی لفظ کا تلفظ نہیں کیا  ، دوسرے کی طلاق کو دیکھ کر اس میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نیت کرنا معتبر نہیں ہے، اس لئے وسوسہ سے باہر نکلئے اور آئندہ اس طرح کی باتوں پر دھیان نہ دیجئے، آپ کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے۔ ایسی ویڈیو اور آڈیو محفوظ کرنے اور چلانے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند