Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مزار پر ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھنا مباح ہے، مگر بہتر یہ ہے کہ یا تو مزار کی طرف منہ کرکے بغیر ہاتھ اٹھائے فاتحہ پڑھے، یا قبلہ رخ کھڑے ہوکر ہاتھ اٹھاکر فاتحہ پڑھے۔ فاتحہ سے مراد یہ ہے کہ ایصال ثواب کی غرض سے کچھ قرآن پاک پڑھ کر اس کا ثواب بخش دے۔ اور میت کے لئے دعاء مغفرت کرے، صاحب قبر سے مرادیں مانگنا یا حاجتیں طلب کرنا ناجائز ہیں۔(۱)
(۱) وإذا أراد الدعاء یقوم مستقبل القبلۃ کذا في خزانۃ الفتاوی۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب السادس عشر في زیارۃ القبور‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۴)
وفي حدیث ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، رأیت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في قبر عبد اللّٰہ ذي النجادین الحدیث وفیہ فلما فرغ من دفنہ استقبل القبلۃ رافعاً یدیہ أخرجہ أبو عوانہ في صحیحہ۔ (ابن حجرالعسقلاني، فتح الباري، ’’کتاب الدعوات: قولہ باب الدعاء مستقبل القبلۃ‘‘: ج ۱۱، ص: ۱۶۵، رقم: ۶۳۴۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص356
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ رواج بالکل غیر شرعی اور خلاف شرع ہے کہ مہر ادا کرنے سے پہلے بیوی سے صحبت کرنے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، اس رواج کا ختم کرنا اور عوام کو صحیح مسئلہ بتانا ضروری ہے، مہر کی دو صورتیں ہوتی ہیں۔ (۱) مہر معجل اور دوسرا مہر مؤجل کہلاتا ہے، مہر مؤجل کی ادائے گی عرفاً طلاق کے بعد یا شوہر کے مرنے کے بعد اس کے ترکہ سے ہوتی ہے بہتر ہے کہ صحبت سے پہلے مہر ادا کرے اور مہر معجل کا حکم یہ ہے کہ جب عورت مطالبہ کرے اور شوہر ادا نہ کرے تو بیوی شوہر سے کہہ سکتی ہے کہ جب تک آپ مہر ادا نہیں کریں گے ہمبستر نہیں ہونے دوں گی (وطی نہیں کرنے دوں گی)(۲) اور پہلی رات میں بیوی سے مہر معاف کرانا شوہر کی زیادتی، ظلم اور بزدلی ہے، اگر بیوی دباؤ میں مہر معاف کردیتی ہے؛ اگر وہ دباؤ میں زبان سے کہہ دے کہ میں نے مہر معاف کر دیا، تو مہر معاف نہیں ہوگا، ہاں! اگر بخوشی معاف کردے، تو معاف ہو جاتاہے۔
(۱) {وَ أٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃًط فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَيْْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًاہ۴ } (سورۃ النساء: ۴)
(۲) (التمس ولو خاتما من حدید) یجب حملہا علی أنہ المعجل، وذلک لأن العادۃ عندہم تعجیل بعض المہر قبل الدخول حتی ذہب بعض العلماء إلی أنہ لا یدخل بہا حتی یقدم شیئا لہا تمسکا بمنعہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم علیا أن یدخل بفاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا حتی یعطیہا شیئا فقال: یا رسول اللّٰہ لیس لي شيء فقال: أعطہا درعک فأعطاہا درعہ۔ رواہ أبو داود والنسائي، ومعلوم أن الصداق کان أربعمائۃ درہم وہي فضۃ، لکن المختار الجواز قبلہ لما روت عائشۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہا قالت أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، أن أدخل إمرأۃ علی زوجہا قبل أن یعطیہا شیئا رواہ أبو داود فیحمل المنع المذکور علی الندب۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب النکاح: باب المہر‘‘: ج ۴، ص: ۲۳۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443
اسلامی عقائد
Ref. No. 1758/43-1478
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہمیں ان صاحب کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہے، لہذا ان کے عقیدہ کے بارے میں کچھ نہیں کہاجاسکتا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:بارات وغیرہ کی موجودہ رسمیں غیر شرعی ہیں۔ تاہم کچھ لوگوں کونکاح کے موقع پر بھیجنا ثابت ہے، جن کی تعداد لڑکی والوں کی اجازت پر موقوف ہے، موجودہ طریقے پر ہجوم ثابت نہیں ہے۔(۱)
(۱) في حدیث أنس رضي اللّٰہ عنہ خطبہا علی بعد أن خطبہا أبو بکر رضي اللّٰہ عنہ ثم عمر رضي اللّٰہ عنہ … قال أنس رضي اللّٰہ عنہ ثم دعاني علیہ الصلوٰۃ والسلام بعد أیام فقال أدع لي أبا بکر وعمر وعثمان وعبد الرحمن بن عوف وعدۃ من الأنصار جماعۃ بینہم لہ فلما اجتمعوا وأخذوا مجالسہم الخ۔ (شرح الزقاني مع المواہب اللدنیۃ، ’’ذکر تزویج علی بفاطمۃ رضي اللّٰہ عنہما‘‘: ج ۲، ص: ۳-۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443
اسلامی عقائد
Ref. No. 2552/45-3891
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غلط اور جھوٹ بول کر یا دھوکہ دے کر فتوی لینا، دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے فتوی حاصل کرنا درست نہیں ہے؛ فتوی توانسان خود عمل کرنے کے لئے لیتاہے۔ دوسروں کو تکلیف پہونچانے اور سماج میں رسوا کرنے کے لئے غلط طریقہ سے فتوی حاصل کرنے والا گنہگار اور فاسق ہے، اس کی امامت مکروہ تحریمی ہے، تاہم سوال کے صحیح یا غلط ہونے کی ہمارے پاس کوئی بنیاد اور دلیل نہیں ہے، اس لئے بہتر ہوگا کہ اپنے علاقہ کے دارالالافتاء میں صورت حال بناکر فتوی حاصل کرلیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1656/43-1272
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے، دعاء قنوت کی جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے (اللھم انا نستعینک ۔۔) وہ دعا پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس لئے اس کی جگہ اگر کسی نے کوئی سورہ پڑھ لی، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا سورہ فاتحہ پڑھ لی تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست ہوجائے گی، اس لئے آپ کی نماز درست ہوگئی۔
’’وليس في القنوت دعاء مؤقت، كذا في التبيين. و الأولي أن يقرأ : اللّهم إنا نستعينك و يقرأ بعده اللّهم اهدنا فيمن هديت. و من لم يحسن القنوت يقول: "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة و قنا غذاب النار"، كذا في المحيط. أو يقول: اللّهم اغفرلنا، و يكرر ذلك ثلاثاً، وهو اختيار أبي الليث، كذا في السراجية (الھندیۃ، الباب الثامن في صلاة الوتر، ١/ ١١١، ط: دار الفکر)
(قولہ ویسن الدعاء المشہور) قد منافی بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر، وذکر فی البحر عن الکرخی انّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت، لانہ روی عن الصحابۃ ادعیۃ مختلفۃ، لانّ المؤقت من الدعا یذھب برقۃ القلب… ومن لا یحسن القنوت یقول۔ ربنا اتنا فی الدنیا حسنہ ـ الآیۃ۔ وقال ابو لیث یقول: اللھم اغفرلی یکررھا ثلاثا، وقیل یقول یارب ثلاثا، ذکرہ فی الذخیرۃ۔ (شامی 2/7)
وقولہ ویسن الدعاء المشھور) وھو اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب الیک ونومن بک…الخ ویجوز ان یقتصر فی دعا القنوت علی نحو قولہ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ او یقول یا رب ثلاثا او اللھم اغفرلی ثلاثا لانہ غیر مؤقت فی ظاھر الروایۃ مطلقا سواء کان یحسن الدعا اولا… (حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار (۲۸۰/۱)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:حدیث شریف میں ہے کہ کسی مسلمان کا مال زبردستی، بغیر رضامندی کے لینا حرام ہے ؛ لہٰذا اگر لڑکی والوں سے بغیر رضامندی کے دباؤ بنا کر جہیز کا سامان یا نقد روپیہ لیا جائے تو وہ ناجائز اور حرام ہے۔(۱)
(۱) {وَلَا تَأْکُلُوْٓا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ} (سورۃ البقرہ: ۱۸۸)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا ألا لا یحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب البیوع: باب الغصب والعاریۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص443
اسلامی عقائد
Ref. No. 2536/45-00000
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی شخص کے انتقال ہوجانے کے بعد اس کا تمام تر چھوڑا ہوا مال اس کے ورثہ کا ہوجاتاہے اور مرنے والے کی ملکیت اس پر سے ختم ہوجاتی ہےاب قرضوں کی ادائیگی اور وصیت کے نافذ کرنے کے بعد فوری طورپر ان کی جائداد کو تقسیم کرنا ضروری ہے اس میں کسی قسم کی تاخیر ناجائزاورحرام ہے۔خاص طورپر کسی وارث پر تمام جائداد پر قابض رہنا اور دیگر ورثہ کو محروم کرنا حرام ہے۔{وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ}.. [آل عمران : 133].قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ تعالی نے مغفرت کے اعمال کی طرف جلدی کرنے کا حکم دیا ہے ابن عاشور کہتے ہیں اس کا تعلق تمام اسباب مغفرت اور دخول جنت کے اسباب میں حقوق کی ادائیگی ہے خواہ حقوق اللہ ہو یا حقوق العباد ہو اور حقوق الناس میں ترکہ کی تقسیم بھی ہے مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ وَارِثِهِ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ(ابن ماجہ)عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثًا فَرَضَهُ اللَّهُ، قَطَعَ اللَّهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ (بیہقی)قال العلامة المُناوي: "أفاد أن حرمان الوارث حرام، بل قضية هذا الوعيد أنه كبيرة، وبه صَرَّح الذهبي وغيره"
حدیث میں ہے کہ جو کسی کے میراث کو کاٹے گا یا وراثت سے محروم کرنے کی کوشش کرے گااللہ تعالی جنت کے اس کے حصہ کو ختم کردے گا۔ یہ حدیث میراث نہ دینے وا لوں اور دوسروں ورثہ کو محروم کرنے کے سلسلے میں بہت سخت ہے علامہ مناوی نے لکھاہےکہ وارث کو محروم کرنا نہ صرف حرام ہے بلکہ گناہ کبیرہ ہے ۔نیز میراث سے منع کرنایا اس میں بلا عذر کے تاخیر کرنا دوسروں کے حقو پر دست درازی اور تعدی کرنا اور دوسروں کے حقوق کو چٹ کرجاناہے اور یہ ظلم ہے اور ظلم گناہ کبیرہ ہے جس پر اللہ تعالی نے وعید کا تذکرہ کیاہے ۔عن جابر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ)(مسلم شریف) وروى البخاري عن أبي هريرة رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مَنْ كَانَتْ لَهُ مَظْلَمَةٌ لِأَخِيهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ شَيْءٍ، فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُونَ دِينَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلَمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ».(بخاری )اسی طرح میراث نہ دینا یہ لوگوں کا مال باطل طریقہ سے کھانا ہے جس پر بھی قرآن میں وعید ہے {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ}.. [النساء: 29]عن أبي حميد الساعدي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه» وذلك لما حرم الله مال المسلم على المسلم(مسند احمد 39/18،حدیث نمبر:23605)لا یجوز لاحد أن یتصرف فی ملک غیرہ بلا اذنہ أو وکالتہ منہ أو ولایۃ علیہ وان فعل کان ضامنا(شرح المجلۃ،رستم1/61)
چوں کہ مورث کی جائداد پر قبضہ کرنا اور دوسرے وارثوں کو محروم کرنا یہ گناہ کبیرہ اور ظلم ہے ایسے لوگوں کی نماز یں اللہ تعالی کے یہاں قبول نہیں ہوتی ہیں اگرچہ فریضہ ساقط ہوجاتاہے،وہ ان جائدادوں سے کھارہے ہیں تو ظلما دوسروں کا مال کھارہے رہے ہیںجس پر سخت وعید ناززل ہوئی ہے اس لیے بخت بانو کو چاہیے کہ جلد سے جلد شوہر کے ترکہ کو تمام ورثہ کے درمیان شرعی طورپر تقسیم کردیں اور تاخیر کی تمام ورثہ سے معافی مانگیں لیکن اگر انہوں نے تقسیم نہیں کیا اور فوت گئیں تو اس صورت میں شوہر کی جو جائداد ہے پہلے ان کے ورثہ میں تقسیم ہوگی پھر بخت بانو کے حصے میں جو کچھ آیا ہے اس کو بخت بانو کے ورثہ میں تقسیم کیا جائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس کو خارج از اسلام قرار دیا جائے گا۔(۳
۳) {وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ لَیَقُوْلُنَّ إِنَّمَاکُنَّا نَخُوْضُ وَنَلْعَبُط قُلْ أَبِا اللّٰہِ وَأٰیٰتِہٖ وَرَسُوْلِہٖ کُنْتُمْ تَسْتَھْزِئُ وْنَہ۶۵} (سورۃ التوبہ: ۶۵)
قال البیضاوي: (قد کفرتم) قد أظہر ثم الکفر بإیذاء الرسول والطعن فیہ۔ (عبد اللّٰہ بن عمر البیضاوي: ’’سورۃ التوبۃ: ۶۵‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۵)
{إِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِي الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ وَأَعَدَّلَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًاہ۵۷} (سورۃ الأحزاب: ۵۷)
قال ابن تیمیۃ: إن المسلم یقتل إذا سب من غیر استتابۃ وإن أظہر التوبۃ بعد أخذہ کما ہو مذہب الجمہور۔ (ابن تیمیۃ، ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول، المسألۃ الثالثۃ، فصل: دلیل أن المسلم الساب یقتل بغیر استتابۃ‘‘: ص: ۲۵۷)
قال ابن عابدین: إن من تکلم بکلمۃ الکفر ہازلا أو لاعبا کفر عند الکلِّ ولا اعتبار باعتقادہ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد: باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸)
دار العلوم وقف دیوبند