اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئول عنہا میں شاعر ’’محمد علوی‘‘ کا مقصد معلوم ہوئے بغیر ان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگایا جا سکتا، اس لئے کہ شرعی ضابطہ ہے کہ اگر کسی شخص کے کلام میں ننانویں احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفیٔ کفر کا ہو تو بھی کفر کا فتویٰ وفیصلہ نہیں کیا جا سکتا۔

’’إذا کان في المسئلۃ وجوہ توجب التکفیر، ووجد واحد یمنعہ فعلی المفتي أن یمیل إلی الوجہ الذي یمنع التکفیر تحسیناً للظن بالمسلم‘‘ (۱)

مذکورہ فی السوال اشعار میں کفریہ بات کہی گئی ہے؛ اس لئے کہ قرآن کریم کی آیت ’’ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین‘‘ سے یہ کلام (دو اشعار) معارض ہیں اور اس قسم کے کلام سے کفر یا گناہِ کبیرہ لازم آتا ہے؛ پس مقصد شاعر معلوم ہونے کے بعد ہی صریح بات کہی جا سکتی ہے؛ لہٰذا مقصد معلوم کر کے تحریر فرمائیں؛ نیز اس قسم کے محتمل کلام کی اشاعت اور اسے پڑھنا درست وجائز نہیں ہے۔(۲)

(۱) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الجہاد، باب المرتد، مطلب: ما یشک أنہ ردۃ لا یحکم بہا‘‘: ج ۶، ص: ۳۵۸۔

(۲) إذا کان في المسألۃ وجوہ توجب الکفر ووجہ واحد یمنع، فعلی المفتي

أن یمیل إلیٰ ذلک الوجہ، کذا في الخلاصۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)

 

اسلامی عقائد

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فتوے میں شرعی مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے، اگر اس سے انکار کرنے والے کا منشاء اور غرض یہ ہے کہ فتوی کچھ بھی ہو یعنی شرعی مسئلہ کچھ ہو اس پر عمل نہیں کریں گے؛ بلکہ اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں تو فقہاء نے تصریح کی ہے کہ ایسی صورت میں منکر پر کفر عائد ہوجاتا ہے۔ ’’کما صرح بہ في العالمگیریۃ‘‘ (۱) اور اگر منشاء یہ ہو کہ سوال، واقعہ کے خلاف لکھ کر فتویٰ حاصل کیا گیا ہے، یا مسئلہ غلط لکھا گیا ہے، تو خلاف بولنے والے پر ضروری ہوتا ہے کہ واقعہ کی صحت کو واضح کرے یا فتوے کی غلطی کو کتاب وجزئیات سے ثابت کرے، بغیر ثبوت کے اگر کوئی انکار کرتا ہے، تو اس کی بات قابل توجہ نہیں؛ بلکہ وہ خاطی، اور گنہگار ہے ۔(۲

(۲) إذا جاء أحد الخصمین إلی صاحبہ بفتوی الأئمۃ، فقال صاحبہ: لیس کما أفتوہ أو قال: لا نعمل بہٰذا کان علیہ التعزیر، کذا في الذخیرہ۔ (أیضا:ص: ۲۸۴)

)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

 دار العلوم وقف دیوبند

 

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قرآن کریم کی متعدد آیتوں میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے وہ مسلمان ہے اور جو اللہ کے علاوہ کس کی پوجا کرے وہ دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے(۱) اور سوال میں صراحت ہے کہ مذکورہ شخص اور اس کے اہل خانہ مندر میں غیراللہ کی پوجا کرتے ہیں؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہے۔(۲) اور سوال میں مذکور دیگر فسقیہ اعمال اس کے مؤید ہیں۔ اور اسلام میں فتاویٰ کی جن کتابوں کو معتبر و معتمد تسلیم کیا جاتا ہے ان میں اس بات کی صراحت ہے کہ جو شخص دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہو یا فسق و فجور میں مبتلا ہو وہ مسلمانوں کے اوقاف کا متولی وذمہ دار نہیں ہوسکتا (۳)؛ اس لئے بشرط صحتِ سوال مذکورہ شخص کو مسلمانوں کے اوقاف کا متولی یا ذمہ دار بنایا جانا شرعاً ناجائز وحرام ہے۔

(۱) {وَقَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا ٓاِیَّاہُ} (سورہ بنی اسرائیل : ۲۳) …{فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّلَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًاہع۱۱۰} (سورۃ الکہف: ۱۱۰)

(۲) {وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا  لِیَعْبُدُو اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ ۵لا} (سورۃ البینہ: ۵)

 قال: والکافر إذا صلی بجماعۃ أو أذّن في مسجد أو قال: أنا معتقد حقیقۃ الصلاۃ في جماعۃ یکون مسلما لأنہ أتی بما ہو من خاصیّۃ الإسلام کما أن الإتیان بخاصیَّۃ الکفر یدل علی الکفر، فإن من سجد لصنم أو تزیا بزنارٍ أو لبس قلنسوۃ المجوس یحکم بکفرہ۔ (عبد اللّٰہ بن محمد، الاختیار لتعلیل المختار، ’’فصل فیما یصیر بہ الکافر مسلماً‘‘: ج ۴، ص: ۱۵۰)

(۳)وینزع وجوباً بزازیۃ لو الواقف درر فغیرہ أولی غیر مأمون أو عاجزا أو ظہر بہ فسق إلخ۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الوقف: مطلب: یأثم بتولیۃ الخائن‘‘: ج۶، ص: ۵۷۸)

وإن کا غیر مأمون أخرجہا من یدہ وجعلہا في ید من یثق بدینہ إلخ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الوقف‘‘: ج ۵، ص: ۴۰۰)

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایصال ثواب کے لیے شرعاً نہ کوئی تاریخ مقرر ہے، اور نہ ہی کوئی دن متعین ہے؛ بلکہ ہمہ وقت ایصال ثواب جائز اور درست ہے، پس مذکورہ بالا تمام رسوم غیرشرعی رسوم ہیں، ان رسوم کو ایصال ثواب کے لئے مقرر کرنا اور ان میں مذکورہ کھانوں کو ایصالِ ثواب کے لئے مقرر کرنا شرعاً درست نہیںہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے؛ اس لیے اس کو بدعت ہی کہا جائے گا، جس سے پرہیز کرنا ہر مسلمان پر ضروری ہے۔(۱)

(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
{إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۷)
وقال مجاہد لو انفق انسان ما لہ کلہ في الحق لم یکن مبذراً ولو انفق مدا في غیر حق کان مبذراً۔ (تفسیر ابن کثیر، وقال مجاہد لو انفق انسان ما لہ کلہ في الحق لم یکن مبذراً ولو انفق مدا في غیر حق کان مبذراً۔ (تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ الإسراء: ۲۷‘‘: ج ۲، ص: ۶۹)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص489

اسلامی عقائد

Ref. No. 1585/43-1117

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شادی کی تمام تیاریاں مکمل ہونے کے بعد شادی سے ایک دودن پہلے کچھ ضروری چیزیں بھیج دی جاتی ہیں تاکہ دلہن کا کمرہ سیٹ کرنے میں آسانی ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس کو رشوت کہنا درست نہیں ہے۔

ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لا يجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، وعلى الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنا شرعيا لائقا بهما. وإذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها (الموسوعة الفقهية الكويتية ، 16/166، دار السلاسل)

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ألا لا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه»(" إلا بطيب نفس") أي: بأمر أو رضا منه (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 5/1974، دار الفكر) "والمعتمد البناء على العرف كما علمت (شامی باب المھر 3/157)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:شب برأت وغیرہ کے مواقع پر بدعات سے اجتناب لازم ہے اور دوسروں کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کے لیے کوشش جاری رکھنی چاہئے اس کے لیے لٹریچر وغیرہ لکھنا بھی مفید ہے، لوگوں سے فرداً فرداً کبھی ملاقات کرکے ان کو صحیح طور سے آگاہ کرنا بھی مفید ہے، محنت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعاء بھی کی جائے، ہدایت تو اللہ کا کام ہے بندہ کوشش کرسکتا ہے۔(۱)

(۱) من تعبد للّٰہ تعالیٰ بشيء من ہذہ العبادات الواقعۃ فی غیر أزمانہا فقد تعبد ببدعۃ حقیقیۃ لا إضافیۃ فلا جہۃ لہا إلی المشروع بل غلبت علیہا جہۃ الابتداع فلا ثواب فیہا۔ (أبو اسحاق الشاطبي، الاعتصام، ’’فصل البدع الإضافیۃ ہل یعتد بہا عبادات‘‘: ج ۲، ص: ۲۶)
من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص490

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:فضائل اعمال ہو یا دیگر کوئی کتاب ہو، ایک ہی کتاب کی تعلیم کو ہمیشہ کے لیے لازم سمجھ لینا درست نہیں ہے۔ حسب ضرورت قرآن کریم کے مذکورہ تراجم وتشریحات کو پڑھ کر سنانا بھی بلا شبہ درست ہے۔ لیکن تفسیری نکات پر بغیر علم کے ناواقف کا کلام کرنا درست نہیں ہے۔ بعض علماء نے تفسیری نکات کو بیان کرنے کے لیے پندرہ علوم میں مہارت کو ضروری قرار دیا ہے۔ اپنی رائے سے تفسیر کے اصول کو نظر انداز کر کے کچھ بھی تفسیر کرنا درست نہیں ہے۔(۱) جس جگہ پر کچھ لوگ فضائل اعمال کے پڑھنے پر اصرار کریں اور کچھ لوگ دوسری کتاب کے پڑھنے پر اصرار کریں تو الحمد للہ اوقات نماز پانچ ہیں، کسی وقت پر نماز کے بعد ایک کی اور دوسرے وقت پر دوسری کتاب کی تعلیم متعین کرلی جائے یا اس کے علاوہ کوئی وقت مقرر کرلیا جائے، اسی کو باعث اختلاف بنا لینا درست نہیں ہے۔
فضائل اعمال میں احادیث بھی ہیں اور دیگر واقعات وتشریحات بھی ہیں، صرف حدیث کی کتاب کہنا اور اس پر اصرار درست نہیں ہے۔

(۱) قال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في کتاب اللّٰہ عز وجل برأیہ فأصاب فقد أخطأ۔… … (شیخ عبد اللّٰہ کاپودروي، قواعد التفسیر: ص: ۹۸)
اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال قوم: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً متسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثارالخ۔
من قال: یجوز تفسیرھ لمن کان جامعا للعلوم التي یحتاج المفسر إلیہا وہي خمسۃ عشر علماً:
أحدہا: اللغۃ۔ الثاني: النحو۔ الثالث: التصریف۔ الرابع: الاشتقاق۔ الخامس، والسادس، والسابع: المعاني والبیان والبدیع۔ الثامن: علم القرائات۔ التاسع: أصول الدین۔ العاشر: أصول الفقہ۔ الحادي عشر: أسباب النزول والمنسوخ۔ الثالث: عشر: الفقہ۔ الرابع عشر: الأحادیث۔ المبینۃ۔ الخامس عشر: الموہبۃ۔ (عبد الرحمن أبي بکر، الإتقان في علوم القرآن، ’’النوع الثامن والسبعون: في معرفۃ مشروط الآداب‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص42

اسلامی عقائد

Ref. No. 39 / 850

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر ان صفات کی نسبت کرنے میں غلو سے کام لے اور نبی کے حاضر وناظر وعالم الغیب ہونے اور اللہ کے عالم الغیب وحاضر ناظر ہونے میں کوئی فرق نہ کرے تو اسلام سے خارج ہے، اور اگر دونوں میں فرق کرتا ہے اور تاویل کرتا ہے تو اس کو اسلام سے خارج نہیں کہا جائے گا۔   واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ معمول کا یا قبرستان جاتے ہوئے مذکورہ کلمہ پڑھنے کا شرعاً کوئی ثبوت نہیں۔ اتفاقا ایسا ہو تو اباحت کے درجہ میں ہوگا اور اگر اس طریقہ کو شرعی طریقہ سمجھ کر رسم بنالیا گیا اور ضروری سمجھا گیا تو یہ معمول بدعت میں شمار ہوگا۔(۱)

(۱) وکل ہذہ بدع ومنکرات لا أصل لہا في الدین ولا مستند لہا من الکتاب والسنۃ ویجب علی أہل العلم أن ینکروہا وأن یبطلوا ہذہ العادات ما استطاعوا۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، معارف السنن، ’’باب الشتدید في البول‘‘: ج ۱، ص: ۲۶۶)
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من عمل عملاً لیس علیہ أمرنا فہو رد۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الأقضیۃ: باب نقض الأحکام الباطلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۷۷، رقم: ۱۷۱۸)
ویکرہ الاجتماع علی إحیاء لیلۃ من ہذہ اللیالي۔ (حسن بن عمار، المراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في تحیۃ المسجد وصلاۃ الضحیٰ وإحیاء اللیالي‘‘ص: ۴
۰۲)

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص491

اسلامی عقائد

Ref. No. 1233/42-547

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح اجتماعی دعا کرنا قرون مشہود لہا بالخیر میں ثابت نہیں ہے، اس لئے اس کو رسم بنانا اور جو عورتیں اس میں شریک نہ ہوں ان پر نکیر کرنا اور ان کو ملامت کرنا یہ سب امور غلط ہیں۔ تاہم اگر اتفاقی طور پر اجتماعی دعا کی شکل ہوجائے تو اس میں کوئی گناہ  نہیں ہے۔ کسی امر مندوب پر اصرار  اس امر کو بدعت بنادیتا ہے۔ والاصرار علی المندوب یبلغہ الی حد الکراہۃ  (السعایۃ 2/65 باب صفۃ الصلوۃ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند