Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: درست ہے، اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی۔ تاہم بلا ضرورت استعمال کر نا پسندیدہ نہیں ہے۔(۱)
(۱) الإمام إذا جہر فوق الحاجۃ فقد أساء اھـ۔ والإسائۃ دون الکراہۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: مطلب في رفع المبلغ صوتہ زیادۃ علی الحاجۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۸۹، مکتبہ: ایچ ایم، سعید کراچی، پاکستان)
وإذا جہر الإمام فوق حاجۃ الناس فقد أساء؛ لأن الإمام إنما یجہر لإسماع القوم لیدبروا في قرائتہ لیحصل إحضار القلب، کذا في السراج الوہاج۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الرابع، في صفۃ الصلاۃ، الفصل الثاني: في واجبات الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۹، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
والمستحب أن یجہر بحسب الجماعۃ فإن زاد فوق حاجۃ الجماعۃ فقد أساء۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان واجب الصلاۃ‘‘: ص: ۲۵۳، مکتبہ: شیخ الہند، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص119
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: درود شریف کی تعظیم اولیٰ ہے، تعظیم اس کے پڑھنے ہی میں ہے، جو کہ خلوص قلب سے پڑھا جاتا ہے(۱) امام صاحب کا طریقہ نو ایجاد اور بدعت ہی میں شمار ہوگا،(۲) البتہ بعض لوگ عمل کے طور پر ایسا کرتے ہیں {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُہط ۱۳۷} یا ’’یانور‘‘ ۱۱؍ مرتبہ پڑھ کر انگلی اور انگھوٹھے پر دم کر کے آنکھوں پر پھیرتے ہیں، آنکھوں کی روشنی وحفاظت کے لیے یہ عمل پڑھا جاتا ہے فرض رکعات کا سلام پھیر کر اور یہ عمل جائز ہے۔(۳)
(۱) {إِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِيِّطٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاہ۵۶ } (سورۃ الأحزاب: ۵۶)
(۲) مسح العینین بباطن أنملتي السبابتین بعد تقبیلہما عند سماع قول المؤذن أشہد أن محمدا رسول اللّٰہ، مع قولہ: أشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ، رضیت باللّٰہ ربا، وبالإسلام دینا، وبمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیا، ذکرہ الدیلمي في الفردوس من حدیث أبي بکر الصدیق رضي اللّٰہ عنہ أنہ لما سمع قول المؤذن أشہد أن محمد رسول اللّٰہ قال ہذا، وقبل باطن الأنملتین السبابتین ومسح عینیہ، فقال صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من فعل مثل ما فعل خلیلي فقد حلت علیہ شفاعتي، ولا یصح۔ وکذا ما أوردہ أبو العباس أحمد ابن أبي بکر الرداد الیماني المتصوف في کتابہ ’’موجبات الرحمۃ وعزائم المغفرۃ‘‘ بسند فیہ مجاہیل مع انقطاعہ۔ (شمس الدین أبو الخیر محمد بن عبد الرحمن، المقاصد الحسنہ، ’’حرف المیم‘‘: ج ۱، ص: ۶۰۵)
(۳) {فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ ج وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ہط ۱۳۷} فقال نافع بصرت عیني بالدم علی ہذہ الآیۃ وقد قدم۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر’’البقرۃ: ۱۳۷‘‘ ج ۱، ص: ۳۳۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص422
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: اگر مذکورہ امام کی عادت الائچی یا لونگ ثابت رکھنے کی ہو تو اس سے نماز فاسد نہ ہوگی؛ لیکن یہ عادت نا پسندیدہ ہے اس سے احتراز ضروری ہے اور اگر الائچی یا لونگ کو چبایا اور اس کے ذرات لعاب کے ذریعہ حلق کے اندر چلے گئے تو نماز فاسد ہوگی اور اس حالت میں پڑھی گئیں تمام نمازیں قابل اعادہ ہیں۔(۱)
(۱) و یکرہ وضع شيء لا یذوب في فمہ وہو یمنع القراء ۃ المسنونۃ أو یشغل بالہ کذہب۔ قولہ: لا یذوب احترز بہ عما یذوب کالسکر یکون في فیہ إذا ابتلع ذوبہ فإنہا تفسد، ولو بدون مضغ، ذکرہ السید۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، شرح نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في المکروہات‘‘: ص: ۳۵۵)
ویکرہ أیضا عند الحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ وضع شيء في فمہ لا یمنعہ من القراء ۃ؛ لأنہ یشغل بالہ، وصرح الحنفیۃ بأن یکون ہذا الشيء لا یذوب، فإن کان یذوب کالسکر یکون في فیہ، فإنہ تفسد صلاتہ إذا ابتلع ذوبہ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ، ’’مادۃ: الصلاۃ: الأماکن التي تکرہ الصلاۃ فیہا‘‘: ج ۲۷، ۱۱۶، ط: وزارۃ الأوقاف والشئون الإسلامیۃ، الکویت)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص120
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز پڑھنے میں حرج نہیں،مگر مناسب نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ امام اور مصلّیکے احترام کے خلاف ہے۔ اور دیگر لوگوں کو اشتباہ بھی پیدا ہوگا جس سے بچنا چاہئے، امام کو بھی اس اشتباہ کی بناء پرمنع ہے۔(۱)
(۱) وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ، أنہ کرہ للإمام أن یتنفل في المکان الذي أم فیہ، ولأن ذلک یؤدي إلی اشتباہ الأمر علی الداخل فینبغي أن یتنحی إزالۃ للاشتباہ أو استکثاراً من شہودہ علی ما روي أن مکان المصلي یشہد لہ یوم القیامۃ۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’فصل في بیان ما یستحب للإمام أن یفعلہ عقیب الفراغ من الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۴، زکریا دیوبند)
یکرہ للإمام التنفل في مکانہ بل یتحول مخیراً کما یأتي عن المنیۃ، وکذا یکرہ مکثہ قاعداً في مکانہ مستقبل القبلۃ في صلاۃ لا تطوع بعدہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’قبیل فصل في القراء ۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۴۸، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص347
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللّٰہ التوفیق: جوااور سٹہ کھیلنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے(۲) امام کو چاہئے کہ ایسے برے کاموں سے اجتناب کریں، لیکن اس کے باوجود مقتدیوں کی نمازیں کراہت ِ تحریمی کے ساتھ صحیح ہیں ان کا فریضہ ادا ہوجاتا ہے(۳) اور سنت و نوافل جو کچھ ادا کرے گا وہ بھی ادا ہوں گی۔
(۲) {ٰٓیاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَہ۹۰} (سورۃ المائدۃ: ۹۰)
(۳) ویکرہ تقدیم العبد … والفاسق لأنہ لایہتم لأمر دینہ وإن تقدموا جاز لقولہ علیہ السلام:صلوا خلف کل برو فاجر الخ۔ (المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘‘: ج۱، ص: ۱۲۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص177
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: فرض نماز کے بعد کا وقت خاص طور پر دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہے؛ اس لیے فرض نماز کے بعد دعاء کرنی چاہیے؛ لیکن دعاء ضروری نہیں ہے؛ اس لیے اگر کوئی دعا کئے بغیر اٹھ کر چلا جائے، تو اس پر اعتراض ولعن وطعن نہ کیا جائے؛ تاہم دعاء مانگے بغیر چلے جانے کی عادت بنا لینا اچھا نہیں ہے۔(۱)
(۱) عن أنس رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم أنہ قال: ما من عبد بسط کفیہ في دبر کل صلاۃ ثم یقول: اللہم إلہي وإلہ إبراہیم وإسحاق ویعقوب وإلہ جبریل ومیکائیل وإسرافیل أسألک أن تستجیب دعوتي فإني مضطر وتعصمني في دیني فإني مبتلی وتنالني برحمتک فإني مذنب وتنفي عني الفقر فإني متمسکن إلا کان حقا علی اللّٰہ عز وجل أن لا یرد یدیہ خائبتین۔ (محمد عبد الرحمن، تحفۃ الأحوذي، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایقول الرجل إذا سلم من الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۱)
قال الطیبي: وفیہ أن من أصر علی أمر مندوب، وجعلہ عزما، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر؟ وجاء في حدیث ابن مسعود: ’’إن اللّٰہ -عز وجل- یحب أن تؤتی رخصہ کما یحب أن تؤتی عزائمہ‘‘ اھـ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۶، رقم: ۹۴۶)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص423
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نماز ہو یا خارجِ نماز باریک اور ایسا چست لباس جس سے جسم کی ساخت نظر آئے پہننا حرام ہے اس طور پر اعضاء مخفیہ کا دکھانا بھی حرام اور دیکھنا بھی حرام ہے اگرچہ بلا شہوت ہو اس لیے کہ عورت کے لئے چہرہ پاؤں اور ہاتھ کے علاوہ پورا بدن ڈھانپنا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی اگر کپڑے سے ستر کا رنگ بھی نظر آئے تو اس لباس میں نماز فاسد ہو جاتی ہے اگر نماز پڑھ لی گئی ہو اس کو لوٹانا ضروری ہے، اگر کوئی مرد ایسا لباس پہنتا ہے جس سے اس کے جسم کی بناوٹ ظاہر ہو رہی ہو تو ایسے لباس کو پہن کر نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے تاہم ایسے لباس میں اگر نماز پڑھ لی گئی تو نماز ادا ہوگئی اس نماز کو لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
’’بدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا‘‘(۱)
’’إذا کان الثوب رقیقاً بحیث یصف ما تحتہ أي لون البشرہ لا یحصل بہ ستر العوۃ‘‘(۲)
’’(قولہ: لایصف ما تحتہ) بأن لایری منہ لون البشرۃ احترازا عن الرقیق ونحو الزجاج (قولہ: ولایضر التصاقہ) أي بالألیۃ مثلا، وقولہ: وتشکلہ من عطف المسبب علی السبب۔ وعبارۃ شرح المنیۃ: أما لو کان غلیظا لایری منہ لون البشرۃ إلا أنہ التصق بالعضو وتشکل بشکلہ فصار شکل العضو مرئیا فینبغي أن لایمنع جواز الصلاۃ لحصول الستر‘‘(۳)
’’أنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حذر أہلہ وجمیع المؤمنات من لباس رقیق الثیاب الواصفۃ لأجسامہن بقولہ: کم من کاسیۃ في الدنیا عاریۃ یوم القیامۃ، وفہم منہ أن عقوبۃ لابسۃ ذلک أن تعری یوم القیامۃ‘‘(۴)
’’في تکملۃ فتح الملہم: فکل لباس ینکشف معہ جزء من عورۃ الرجل والمرأۃ، لاتقرہ الشریعۃ الإسلامیۃ … وکذلک اللباس الرقیق أو اللاصق بالجسم الذي یحکی للناظر شکل حصۃ من الجسم الذي یجب سترہ، فہو في حکم ماسبق في الحرمۃ وعدم الجواز‘‘(۱)
’’إذا کان الثوب رقیقًا بحث یصف ماتحتہ أي لون البشرۃ لایحصل بہ سترۃ العورۃ‘‘(۲)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’ ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ فیصل دیوبند۔)
(۲) إبراہیم الحلبي، الحلبي کبیری: ص: ۲۱۴۔)
(۳) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في ستر العورۃ‘‘ج ۱، ص: ۴۱۰۔)
(۴) العیني، عمدۃ القاري شرح البخاري، ’’باب ماکان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یتجوز من اللباس‘‘: ج ۲۲، ص: ۲۰دارالفکر۔)
(۱) المفتي محمد تقي العثماني، تکملۃ فتح الملہم شرح المسلم، ’’کتاب اللباس والزینۃ‘‘: ج ۴، ص: ۸۸۔)
(۲) إبراہیم الحلبي، حلبي کبیري: ص: ۲۱۴۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص121
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سنت ونوافل میں مطلق نیت نماز بھی کافی ہے اور یہ یقین کرنا کہ سنت فجر ہے یا ظہر ہے احوط ہے، اگر سنت رسول اللہ کہے تب بھی کوئی حرج نہیں۔(۱)
(۱) وکفی مطلق نیۃ الصلاۃ وإن لم یقل للّٰہ، لنفل وسنۃ راتبۃ وتراویح علی المعتمد، إذ تعیینہا بوقوعہا وقت الشروع، والتعیین أحوط۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۴، زکریا دیوبند)
أن المختار عند المصنف والمحققین وقوع السنۃ بنیۃ مطلق الصلاۃ … ہذا الإسم أعني اسم السنۃ حادث منا أما ہو صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإنما کان ینوي الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ فقط لا السنۃ، فلما واظب صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الفعل لذلک سمیناہ سنۃ، فمن فعل مثل ذلک الفعل في وقتہ فقد فعل ما سمي بلفظ السنۃ۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۰، زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص348
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 2209/44-2334
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرأت میں ہر طرح کی غلطی سے اور معنی میں تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ قرآن کی تلاوت میں اگر اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، اور ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے تو اس کی اصلاح نہ کرنے کی صورت میں نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں کوئی اتغیر فاحش نہیں پایا گیا لہذا نماز درست ہوگئی، لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔
"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)
"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم “ ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم …، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)
"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: امام کی نماز اصل اور متبوع ہے اور مقتدیوں کی نماز شرعاً امام کے تابع ہوتی ہے، پس امام کی نماز کی کراہت سے مقتدیوں کی نماز بھی مکروہ ہوگی۔(۱) اس وجہ سے فاسق امام کی جگہ کوئی متقی باشرع امام مقرر کرنا چاہئے؛ لیکن مقتدی کی نماز میں کراہت اس صورت میں آئے گی جب کہ دوسرا صالح امام موجود ہو؛ لیکن اگر دوسرا امام موجود نہ ہو تنہا نماز پرھنے کے مقابلے میں اسی کے پیچھے نماز پڑھنا بہتر ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں آئی گی۔(۲)
(۱) حدیث الإمام ضامن … إن صلاۃ الإمام متضمنۃ لصلاۃ المقتدي ولذا اشترط عدم مغایرتہا فإذا صحت صلاۃ الإمام صحت صلاۃ المقتدي إلا لمانع آخر، وإذا فسدت فسدت صلاۃ المقتدي لأنہ متی فسد الشيء فسد مافي ضمنہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، فروع اقتداء متنفل بمتنفل‘‘: ج۱، ص: ۵۹۱)
فبطلان صلاۃ الإمام یقتضي بطلان صلاۃ المقتدي إذ لایتضمن المعدوم الموجود۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمام‘‘: ج۱، ص: ۳۷۴)
(۲) ینبغي أن یکون محل کراہۃ الاقتداء بہم عند وجود غیرہم وإلا فلا کراہۃ کما لا یخفی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘: ج ۱، ص: ۶۱۰)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص178