نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ریشمی کپڑا پہننا حرام ہے اس صورت میں نماز مکروہ ہوگی اور ریشم کو بچھاکر اس پر نماز پڑھنا اس کو فقہاء نے جائز کہا ہے۔ ’’کما ورد في المختار بخلاف الصلاۃ علی السجادۃ منہ إلی من الحریر لأن الحرام ہو اللبس دون الانتفاع‘‘ احتیاط یہ ہے کہ ریشم کے کپڑے پر نماز نہ پڑھی جائے کہ یہ ہی تقویٰ ہے۔ لیکن اگر اس کپڑے پر نماز پڑھ لی تو ادا ہوگئی اس کا اعادہ ضروری نہیں۔
’’عن عبد اللّٰہ بن زریر یعني  الغافقي أنہ سمع علي بن أبي طالب یقول: إن نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ حریراً فجعلہ في یمینہ، وأخذ ذہبا فجعلہ في شمالہ، ثم قال:إن ہذین حرام علی ذکور أمتي‘‘(۱)
’’عن سوید بن غفلۃ، أن عمر بن الخطاب خطب بالجابیۃ، فقال نہی نبي اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن لبس الحریر إلا موضع إصبعین، أو ثلاث، أو أربع‘‘(۲)
’’عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما یلبس الحریر في الدنیا من لاخلاق لہ في الآخرۃ‘‘(۳)

(۱) أخرجہ أبوداود، فی سننہ، ’’کتاب اللباس، باب في الحریر للنساء‘‘: ج ۲، ص۵۶۱قم:۴۰۵۷، مکتبہ نعیمیہ)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس والزینۃ، باب: تحریم استعمال إناء الذھب و الفضۃ‘‘:ج۲، ص۱۹۲ رقم: ۲۰۶۹، اعزازیہ دیوبند۔)
(۳) محمد بن إسماعیل، الصحیح البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب اللباس، باب لبس الحریر وافتراشہ للجال و قدر ما یجوز منہ‘‘: ج۲، ص۸۶۷ رقم: ۵۸۳۵۔مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص112

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب واللّٰہ الموفق: فقہا احناف کے یہاں قنوت نازلہ کے سلسلے میں دوطرح کی روایات ہیں ایک تو تمام جہری نمازوں میں دعائے قنوت پڑھنے کی بات مذکورہ ہے؛ چناں چہ علامہ حصکفی لکھتے ہیں :
’’فیقنت الامام فی الجہریۃ‘‘(۲)
ملتقی میں ہے: ’’فیقنت الإمام في الصلاۃ الجہریۃ‘‘(۳)
علامہ انور شاہ کشمیریؒ کی بھی یہی رائے ہے:
’’فإن الشیخ العیني رحمہ اللّٰہ تعالٰی نقل عن الطحاوي ما یدل علی أنہا ثابتۃ عندنا أیضاً، وقنوت النازلۃ عندنا في الجہریۃ، کما في شرح الہدایۃ للأمیر الإتقاني، وفي شرح شمس الدین النووي: جوازہا في الصلوات مطلقاً‘‘(۱)
دوسری رائے یہ ہے کہ صرف فجر کی نماز میں قنوت نازلہ پڑھنا درست ہے، باقی جہری نمازوں میں قنوت نازلہ نہیں ہے۔ علامہ شامی نے اسی کو راجح قرار دیا، انہوں نے ایک خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ اصل فقہاء احناف کے یہاں فجر ہے اسی کو غلطی سے جہر کردیا گیا؛ لیکن چوں کہ متعدد کتابوں میں ہے اس لیے دوسرا خیال یہ ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس سلسلے میں احناف کے یہاں دو روایات ہوں ’’ولعل في المسئلۃ قولین‘‘(۲) اکثر ارباب فتاوی نے اسی دوسری رائے کو ترجیح دی ہے کہ صرف فجر کی نماز میں دعائے قنوت کا اہتمام کیاجائے لیکن اگر کبھی یا کسی جگہ مغرب میں بھی دعائے قنوت پڑھی گئی تو فقہاء کی عبارات کی روشنی میں اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔

(۲) ابن عابدین، الدر المختار، ’’باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۲، ص:۴۴۸، زکریا دیوبند۔)
(۳)إبراھیم الحلبي، ملتقی الأبحر علی ہامش المجمع: ج ۱، ص: ۱۲۹۔)
(۱) الکشمیري، فیض الباري: ج ۲، ص: ۳۷۶۔)
(۲)ابن عابدین، منحۃ الخالق علی ہامش البحر: ج ۲، ص: ۴۴۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص341

نماز / جمعہ و عیدین
coming soon....

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر اس کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر ہٹادیا گیا تو یہ عمل کثیر نہیں ہوا اس لیے نماز فاسد نہیں ہوگی اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔ (۱)

(۱) ویدفعہ ہو رخصۃ فترکہ أفضل … بتسبیح أو جہر بقراء ۃ أو إشارۃ أي بالید أو الرأس أو العین۔ ولایزاد علیہا عندنا۔ أي علی الإشارۃ بما ذکر۔ (الحصکفي ،  رد المحتار علی الدرالمختار، ’’باب مایفسد الصلاۃ‘‘: ج۲، ص: ۴۰۳، زکریا)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص113

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ الموفق: مسلمانوں پر اگر کوئی بڑی آفت و مصیبت آئے یا دشمنوں کی طرف سے تکلیف کا سامنا کرناپڑے تو اس موقع پر دعائے قنوت پڑھنے کا اہتمام کیا جانا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر قراء کی شہادت کے موقع پر ایک مہینہ تک دعائے قنوت کا اہتمام کیا تھا جس میں آپ نے قبیلہ رعل و ذکوان پر بدعائیں کی تھیں۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ فجر کی نماز کی دوسری رکعت میںرکوع کے بعد سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر امام کھڑا ہوجائے اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت پڑھے، اور مقتدی حضرات آہستہ سے آمین کہیں پھر دعا سے فارغ ہوکر اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں۔
دعا قنوت یہ ہے:
’’اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِيْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِيْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِيْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِيْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ،  وَإِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ وَّالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ الْکَرِیْمِ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلِلْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَاجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الْإِیْمَانَ وَالْحِکْمَۃَ، وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّۃِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِيْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ وَأَنْ یُّوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِيْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ  عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ؛ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَۃَ وَالْمُشْرِکِیْنَ لَا سِیَمَا الرَّافِضَۃَ وَمَنْ حَذَا حَذْوَھُمْ مِنَ الْأَحْزَابِ وَالْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَائَ کَمِنَ الطُّلَّابِ وَالْعُلَمَآئِ وَالْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذيْ لَا تَرُدُّہ  عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْن۔
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت  الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماؤنا علی القنوت للنازلۃ، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموي أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، ’’درالمختار، کتاب الصلاۃ: مطلب:في القنوت للنازلۃ‘‘: ج ۲، ص: ۵۴۲۔)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص343

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: محلہ کے لوگوں نے جب عالم صاحب کو آگے بڑھادیا، تو اجازت ہوگئی، اب امام صاحب سے صراحۃً اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے، نماز بہرصورت درست ہوگئی۔(۱)

(۱)  عن أوس بن ضمعج، عن أبي مسعود، أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:… لایؤم الرجل في سلطانہ و لایجلس علی تکرمتہ في بیتہ إلا بإذنہ، ہذا حدیث حسن۔ (أخرجہ الترمذي في سننہ، أبواب الأدب عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب‘‘: ج ۵، ص: ۹۹، رقم: ۲۷۷۲، وکذا في أبواب الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۲۳۵)
(ولایؤمن الرجل الرجل في سلطانہ) أي: في مظہر سلطنتہ ومحل ولایتہ، أو فیما یملکہ، أو في محل یکون في حکمہ، ویعضد ہذا التأویل الروایۃ الأخری في أہلہ، وروایۃ أبي داؤد في بیتہ ولا سلطانہ، ولذا کان ابن عمر یصلي خلف الحجاج، وصح عن ابن عمر أن إمام المسجد مقدم علی غیر السلطان، وتحریرہ أن الجماعۃ شرعت لاجتماع المؤمنین علی الطاعۃ وتآلفہم وتوادہم، فإذا أم الرجل الرجل في سلطانہ أفضی ذلک إلی توہین أمر السلطنۃ، وخلع ربقۃ الطاعۃ، وکذلک إذا أمہ في قومہ وأہلہ أدی ذلک إلی التباغض والتقاطع، وظہور الخلاف الذي شرع لدفعہ الاجتماع، فلا یتقدم رجل علی ذي السلطنۃ، لا سیما في الأعیاد والجمعات، ولا علی إمام الحي ورب البیت إلا بالإذن۔ قالہ الطیبي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۳، ص: ۱۷۵، رقم: ۱۱۱۷)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص265

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بلا ضرورت کھنکھارنے سے نماز مکروہ ہوتی ہے اگر ضرورت ہو مثلاً آواز بند ہوگئی، سانس رک گئی یا پڑھنا مشکل ہوجائے تو کھنکھارنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کھنکھار کر آواز کو درست کرسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کھنکھارنے کے ساتھ کوئی آواز نہ نکلے اور اگر کھنکھاریا کھانسی کے ساتھ بلا اضطرار دو حرف نکل بھی گئے مثلاً اُح کی آواز نکل گئی تو نماز فاسد ہوجائے گی البتہ اضطرار کی حالت مستثنیٰ ہے۔(۱)

(۱) عقب العارض الاضطراري بالاختیاري (یفسدہا التکلم) … (قولہ: والتنحنح) ہو أن یقول: أح بالفتح والضم۔ بحر۔ (قولہ: بحرفین) یعلم حکم الزائد علیہما بالأولی، لکن یوہم أن الزائد لو کان بعذر یفسد، ویخالفہ ظاہر مافي النہایۃ عن المحیط، من أنہ إن لم یکن مدفوعاً إلیہ بل لإصلاح الحلق؛ لیتمکن من القراء ۃ إن ظہر لہ حروف۔ ( الحصکفي ، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا‘‘: ج۲، ص:۳۷۰ و ۳۷۶)
یفسد الصلاۃ، التنحنح بلاعذر بأن لم یکن مدفوعاً إلیہ وحصل منہ حروف، ہکذا في التبیین، ولو لم یظہر لہ حروف، فإنہ لایفسد اتفاقا لکنہ مکروہ، کذا في البحر الرائق و إن کان بعذر، بأن کان مدفوعا إلیہ، لا تفسد لعدم إمکان الاحتراز عنہ، وکذا الأنین والتأوہ إذا کان بعذر بأن کان لایملک نفسہ، فصار کالعطاس والجشاء۔ ولو عطس أو تجشأ فحصل منہ کلام، لا تفسد، کذا في محیط السرخسي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ج۱، ص: ۱۵۹، ۱۶۰ مکتبہ فیصل دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص113

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ذاتی مفاد اور کسی سیاسی غرض سے کسی مسجد کے امام کو جس سے کوئی شرعی اختلاف نہیں ہے، الگ یا معزول نہیں کیا جا سکتا یہ بہت بری بات ہے کہ معمولی سے  اختلاف یا ذاتی مفاد کو امام پر یا امامت پر اتارا جائے اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں سے بچا جائے کہ یہ حرکت غیر اخلاقی اور غیر شرعی ہے، اگر واقعی امام صاحب میں کوئی کمی ہے، تو ان کو بصد ادب واحترام معروف وسہل انداز میں تمام احترامات کے ساتھ متوجہ کر دینا چاہئے۔ بغیر وجہ شرعی کے موجود ہ امام کو معزول اور الگ کرنا جائز نہیں ہے۔(۱)

(۱) عن عمر و بن الحارث بن المصطلق قال: کان یقال أشد الناس عذابا یوم القیامۃ إثنان إمرأۃ عصت زوجہا، وإمام قوم وہم لہ کارہون، قال ہناد: قال جریر: قال منصور: فسألنا عن أمر الإمام فقیل لنا: إنما عني بہذا الأئمۃ الظلمۃ، فأما من أقام السنۃ، فإنما الإثم علیٰ من کرہہ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ماجاء في من أم قوماً وہم لہ کارہون‘‘: ج۱، ص: ۶۶،رقم:۳۵۹)
ولوأم قوماً وہم لہ کارہون، إن الکراہۃ لفساد فیہ، أو لأنہم أحق بالإمامۃ منہ کرہ لہ ذلک تحریماً (إلیٰ قولہ) وإن ہو أحق لا، والکراہۃ علیہم الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۸)
وفي جامع الفصولین بغض عالمًا أو فقیہًا بلا سبب ظاہر خیف علیہ الکفر۔…(جامع الفصولین، الباب الثامن والثلثون في مسائل کلمات الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۹)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص266

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے، ان میں سے اگر کوئی عضو چوتھائی یا اس سے زیادہ کھل گیا اور ایک رکن کی مقدار کھلا رہا تو نماز فاسد ہوجائے گی، صورت مسئولہ میں اگر ہاتھوں کو اوڑھنی میں اس طرح چھپا لیا جاتا ہے کہ ان کا چوتھائی یا اس سے زیادہ حصہ نہیں کھلتا یا کھل کر ایک رکن کی مقدار نہیں رہتا تو نماز درست ہوجائے گی لیکن کچھ کھلے رہنے میں بھی کراہت ہے اس لئے احتیاط اسی میں ہے کہ نماز میں پوری آستین کی قمیص پہنی جائے۔(۱)

(۱) ویمنع) حتی انعقادہا (کشف ربع عضو) قدر أداء رکن بلا صنعہ (من عورۃ غلیظۃ أو خفیفۃ) علی المعتمد (والغلیظۃ قبل ودبر وما حولہما، والخفیفۃ ما عدا ذلک) من الرجل والمرأۃ، وتجمع بالأجزاء لو في عضو واحد، وإلا فبالقدر؛ فإن بلغ ربع أدناہا کأذن منع۔ (قولہ: ویمنع إلخ) ہذا تفصیل ما أجملہ بقولہ وستر عورتہ ح (قولہ: حتی انعقادہا) منصوب عطفا علی محذوف: أي ویمنع صحۃ الصلاۃ حتی انعقادہا۔ والحاصل أنہ یمنع الصلاۃ في الابتداء ویرفعہا في البقاء  (قولہ: قدر أداء رکن) أي بسنتہ منیۃ۔ قال شارحہا: وذلک قدر ثلاث تسبیحات۔ ۱ہـ۔ وکأنہ قید بذلک حملا للرکن علی القصیر منہ للاحتیاط، وإلا فالقعود الأخیر والقیام المشتمل علی القراء ۃ المسنونۃ أکثر من ذلک۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’ باب شروط الصلاۃ‘‘: ج۲، ص:۸۱-۸۳)
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص115

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: دونوں صورتوں میں نماز بلاشبہ صحیح اور درست ہو جائے گی۔(۲)

(۲) عن عبد اللّٰہ بن مسعود رضي اللّٰہ عنہ قال: قال لنا علیہ السلام: یؤم القوم أقرأہم لکتاب اللّٰہ وأقدمہم قراء ۃ۔ (أخرجہ مسلم في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب من أحق بالإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۳۶، رقم: ۶۷۳)
الأحق بالإمامۃ الأعلم بأحکام الصلاۃ ثم الأحسن تلاوۃ، وتجویداً للقراء ۃ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۴، ۲۹۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص267