نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وبا للّٰہ التوفیق: سنت ونوافل میں مطلق نیت نماز بھی کافی ہے اور یہ یقین کرنا کہ سنت فجر ہے یا ظہر ہے احوط ہے، اگر سنت رسول اللہ کہے تب بھی کوئی حرج نہیں۔(۱)

(۱) وکفی مطلق نیۃ الصلاۃ وإن لم یقل للّٰہ، لنفل وسنۃ راتبۃ وتراویح علی المعتمد، إذ تعیینہا بوقوعہا وقت الشروع، والتعیین أحوط۔ (الحصکفي، الدرالمختار مع رد المحتار، ’’باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۲، ص: ۹۴، زکریا دیوبند)
أن المختار عند المصنف والمحققین وقوع السنۃ بنیۃ مطلق الصلاۃ … ہذا الإسم أعني اسم السنۃ حادث منا أما ہو صلی اللّٰہ علیہ وسلم فإنما کان ینوي الصلاۃ للّٰہ تعالیٰ فقط لا السنۃ، فلما واظب صلی اللّٰہ علیہ وسلم علی الفعل لذلک سمیناہ سنۃ، فمن فعل مثل ذلک الفعل في وقتہ فقد فعل ما سمي بلفظ السنۃ۔ (ابن الھمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ، باب النوافل‘‘: ج ۱، ص: ۴۶۰، زکریا دیوبند)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص348

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 2209/44-2334

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قرأت میں ہر طرح کی غلطی سے اور معنی میں تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، بلکہ قرآن کی تلاوت میں اگر اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، اور ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے تو اس کی اصلاح نہ کرنے کی صورت میں نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں کوئی اتغیر فاحش نہیں پایا گیا لہذا نماز درست ہوگئی، لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے۔

"قال في شرح المنیة الکبیر:"القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین". (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)

"وإن غیر المعنی تغیراً فاحشاً فإن قرأ: ” وعصی آدم ربه فغوی “ بنصب میم ” اٰدم ورفع باء ” ربه “……… وما أشبه ذلک لو تعمد به یکفر، وإذا قرأ خطأً فسدت صلاته..." الخ (الفتاوی الخانیة علی هامش الهندیة، ۱: ۱۶۸، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم، وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ: "وعداً علینا إنا کنا غافلین" مکان {فاعلین} ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

"وفي المضمرات: قرأ في الصلاة بخطإ فاحش ثم أعاد وقرأ صحیحاً فصلاته جائزة". (حاشیة الطحطاوي علی الدر المختار،۱: ۲۶۷ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)

"ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً ، قال: عندي صلاته جائزة". (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: امام کی نماز اصل اور متبوع ہے اور مقتدیوں کی نماز شرعاً امام کے تابع ہوتی ہے، پس امام کی نماز کی کراہت سے مقتدیوں کی نماز بھی مکروہ ہوگی۔(۱) اس وجہ سے فاسق امام کی جگہ کوئی متقی باشرع امام مقرر کرنا چاہئے؛ لیکن مقتدی کی نماز میں کراہت اس صورت میں آئے گی جب کہ دوسرا صالح امام موجود ہو؛ لیکن اگر دوسرا امام موجود نہ ہو تنہا نماز پرھنے کے مقابلے میں اسی کے پیچھے نماز پڑھنا بہتر ہے اور اس میں کوئی کراہت نہیں آئی گی۔(۲)

(۱) حدیث الإمام ضامن … إن صلاۃ الإمام متضمنۃ لصلاۃ المقتدي ولذا اشترط عدم مغایرتہا فإذا صحت صلاۃ الإمام صحت صلاۃ المقتدي إلا لمانع آخر، وإذا فسدت فسدت صلاۃ المقتدي لأنہ متی فسد الشيء فسد مافي ضمنہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلوۃ، فروع اقتداء متنفل بمتنفل‘‘: ج۱، ص: ۵۹۱)
فبطلان صلاۃ الإمام یقتضي بطلان صلاۃ المقتدي إذ لایتضمن المعدوم الموجود۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمام‘‘: ج۱، ص: ۳۷۴)
(۲) ینبغي أن یکون محل کراہۃ الاقتداء بہم عند وجود غیرہم وإلا فلا کراہۃ کما لا یخفی۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ‘: ج ۱، ص: ۶۱۰)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص178

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ فی السوال صورت اگر واقعی ہے، تو مسجد کے بناتے وقت لوگوں کا اعتراض نہ کرنا ان کی خوشی کی دلیل ہے، اگرچہ گرام سماج کی زمین کسی شخص کی نہیں ہوتی، تو کسی فرد واحد کے ناراض ہونے سے بھی مسجد کے بنانے میں کوئی حرج نہیں ہوگا ہاں سر کار سے اجازت لینا ضروری ہوگا تبھی وہ مسجد شرعی ہوگی اور اس میں نماز پڑھنے سے نماز باجماعت کا ثواب ملے گا۔(۱)

(۱) أرض وقف علی مسجد والأرض بجنب ذلک المسجد وأرادوا أن یزیدوا في المسجد شیئاً من الأرض جاز لکن یرفعوا الأمر إلی القاضي لیأذن لہم۔۔۔۔۔ وفي الأجناس…(وفي نوادر ہشام) قال: سألت محمد بن الحسن عن نہر قریۃ کثیرۃ الأہل لا یحصی عدد ہم وہو نہر قناۃ أو نہر واد لہم خاصۃ، وأراد قوم أن یعمروا بعض ہذا النہر ویبنوا علیہ مسجداً ولا یضر ذلک بالنہر ولا یتعرض لہم أحد من أہل النہر قال محمد رحمہ اللّٰہ تعالیٰ: یسعہم أن یبنوا ذلک المسجد للعامۃ أو المحلۃ کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الوقف: الباب الحادي عشر في المسجد، الفصل الأول فیما یصیر بہ مسجداً وفي أحکامہ‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۹)
(۱) وکرہ تحریما (الوطء فوقہ، والبول والتغوط) لأنہ مسجد إلی عنان السماء۔ (قولہ الوطء فوقہ) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقہ بالقدم فغیر مکروہ إلا في الکعبۃ لغیر عذر، لقولہم: بکراہۃ الصلاۃ فوقہا۔ ثم رأیت القہستاني نقل عن المفید: کراہۃ الصعود علی سطح المسجد اہـ۔ ویلزمہ کراہۃ الصلاۃ أیضا فوقہ فلیتأمل (قولہ لأنہ مسجد) علۃ لکراہۃ ما ذکر فوقہ۔ قال الزیلعی: ولہذا یصح اقتداء من علی سطح المسجد بمن فیہ إذا لم یتقدم علی الإمام۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، مطلب في أحکام المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۴۲۸)
الصعود علی سطح کل مسجد مکروہ، ولہذا إذا اشتد الحر یکرہ أن یصلوا بالجماعۃ فوقہ إلا إذا ضاق المسجد فحینئذ لا یکرہ الصعود علی سطحہ للضرورۃ، کذا في الغرائب۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الکراہیۃ: الباب الخامس في آداب المسجد‘‘: ج ۵، ص: ۳۷۲، زکریا دیوبند)

 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص515

 

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق:بہتر یہ ہے کہ جو اذان پڑھے وہی تکبیر بھی کہے لیکن اتفاقاً ایک مسجد میں اذان پڑھی اور دوسری میں نماز پڑھی تو یہ درست ہے؛ لیکن اس کی عادت بنالینے میں خلاف اولیٰ پر عمل لازم آئے گا جو اچھا نہیں ہے، نیز اذان دے کر لوگوں کو مسجد میں بلاتا ہے اور خود ہی اس مسجد سے چلا جاتا ہے جو بہتر عمل نہیں ہے کبھی کبھار ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
’’عن زیاد بن الحارث الصدائي قال: أمرني رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ أن أؤذن في صلاۃ الفجر فأذنت فأراد بلال أن یقیم فقال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ  وسلم:
 إن أخا صداء قد أذن ومن أذن فہو یقیم‘‘(۱)
’’أن یؤذن في مسجد واحد ویکرہ أن یؤذن في مسجدین ویصلی في أحدہما لأنہ إذا صلی في المسجد الأول یکون متنفلاً بالأذان في المسجد الثاني والتنفل بالأذان غیر مشروع، ولأن الأذان یختص بالمکتوبات وہو في المسجد الثاني یصلی النافلۃ فلا ینبغي أن یدعو الناس إلی المکتوبۃ وہو لا یساعدہم فیہا‘‘
’’ومنہا أن من أذن فہو الذي یقیم وإن أقام غیرہ: فإن کان یتأذي بذلک یکرہ لأن اکتساب أذی المسلم مکروہ وإن کان لا یتأذي بہ لا یکرہ‘‘(۱)

 

(۱) أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب الصلاۃ: باب ما جاء أن من أذن فہو یقیم‘‘: ج ۱، ص: ۵۰، رقم: ۱۹۹۔
(۱) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ، فصل بیان سنن الأذان، صفات المؤذن‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۵۔

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص155

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی بھی نماز کے بعد دعاء باعث قبولیت ہے؛ لیکن سنن یا خطبہ عید کے بعد اس طرح دعا ثابت نہیں، اس لیے اس کا التزام کرنا اور نہ کرنے والے کو ملامت کرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر اتفاقاً کوئی دعاء کرے خواہ سب مل کر کریں اور اس کو لازم یا شرعاً ضروری نہ سمجھیں تو اس میں بھی مضائقہ نہیں الحاصل التزام درست نہیں ہے۔(۱)

(۱)لأن الشارع إذا لم یعین علیہ شیئاً تیسیراً علیہ کرہ لہ أن یعین۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ: مطلب : السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵، زکریا دیوبند)
ورحم اللّٰہ طائفۃ من المبتدعۃ في بعض أقطار الہند حیث واظبوا علی أن الإمام ومن معہ یقومون بعد المکتوبۃ بعد قرائتہم اللہم أنت السلام ومنک السلام الخ ثم إذا فرغوا من فعل السنن والنوافل یدعوا الإمام عقب الفاتحۃ جہراً بدعاء مرۃً ثانیۃ والمقتدون یؤمنون علی ذلک وقد جری العمل منہم بذلک علی سبیل الالتزام والدوام حتی أن بعض العوام اعتقدوا أن الدعاء بعد السنن والنوافل باجتماع الإمام والمأمومین ضروري واجب حتی أنہم إذا وجدوا من الإمام تاخیراً لأجل اشتغالہ بطویل السنن والنوافل اعترضوا علیہ قائلین: نحن منتظرون للدعاء ثانیاً وہو یطیل صلاتہ وحتی أن متولي المساجد یجبرون الإمام الموظف علی ترویج ہذا الدعاء المذکور بعد السنن والنوافل علی سبیل الالتزام، ومن لم یرض بذلک یعزلونہ عن الإمامۃ ویطعنونہ ولا یصلون خلف من لا یصنع بمثل صنیعہم، وأیم اللّٰہ! أن ہذا أمر محدث فيالدین … وأیضاً ففي ذلک من الحرج ما لایخفی وأیضاً فقد منا أن المندوب ینقلب مکروہاً إذا رفع عن رتبتہ لأن التیمن مستحب في کل شيء من أمور العبادات لکن لما خشی ابن مسعود أن یعتقدوا وجوبہ أشار إلی کراہتہ فکیف بمن أصر علی بدعۃ أو منکر؟ … کان ذلک بدعۃ في الدین محرمۃ۔ (ظفر أحمد العثماني، إعلاء السنن: ج ۳، ص: ۲۰۵)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص424

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: بہشتی زیور میں جو مسئلہ لکھا ہے وہ درست ہے، مسئلہ اسی طرح شامی میں بھی ہے: ’’اعلم أن المانع من الوضوء إن کان من قبل العباد کأسیر منعہ الکفار من الوضوء ومحبوس في السجن ومن قیل لہ أن توضأت قتلتک جاز لہ التیمم ویعید الصلاۃ إذا زال المانع کذا في الدر والوقایۃ وأما إذا کان من قبل اللہ تعالیٰ کالمرض فلا یعید‘‘(۱)

(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: باب التیمم‘‘: ج ۱، ص: ۳۹۹، ۳۹۸۔)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص122

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ظہر سے قبل کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں ان کو ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ہے اور اگر دو رکعت پر سلام پھیر دیا تو یہ سنت شمار نہ ہوگی؛ بلکہ نفل ہو جائے گی اور بعد میں چار رکعت سنت ایک سلام کے ساتھ پڑھنی پڑے گی۔
’’وأربع قبل الظہر إلی قولہ بتسلیمۃ لتعلقہ بقولہ: وأربع، وقال الزیلعي: حتی لو صلاہا بتسلیمتین لا یعتد بہا عن السنۃ‘‘(۱)
عمدۃ الفقہ میں ہے چار رکعت والی سنت مؤکدہ یعنی ظہر وجمعہ سے قبل اور جمعہ کے بعد کو ایک سلام سے پڑھنا ہی سنت مؤکدہ ہے، اگر ان کو دو سلاموں سے ادا کیا، تو وہ چار سنتیں نہیں ہوں گی الگ سے پھر چار سنتیں پڑھنی پڑیں گی۔(۲)

(۱)أحمد بن محمد، مراقي الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في بیان النوافل‘‘: ص: ۳۸۹، دارالکتاب دیوبند۔
(۲) وسن مؤکداً أربع قبل الظہر واربع قبل الجمعۃ وأربع بعدہا بتسلیمۃ  فلو بتسلیمتین لم تنب عن السنۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘:ج ۲، ص: ۴۵۱، زکریادیوبند)
وعن علي رضي اللّٰہ عنہ قال: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یصلی قبل الظہر أربعاً وبعدہا رکعتین الخ۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، أبواب الصلاۃ عن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، باب ما جاء في الأربع قبل الظہر، ص۹۶)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص348