Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 2982/45-4726
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شہوت کا سبب بیوی ہے اوراسی حالت شہوت میں انجانے میں مرد نے بلاحائل بیٹی کو چھودیا اور بیٹی کو چھونے سے شہوت میں اضافہ نہیں ہوا تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت نہ ہوگی۔
تثبت حرمۃ المصاہرۃ بالزنا والمس والنظر بدون نکاح والملک وشبہتہ لان المس والنظرسبب داع الی الوطء فیقام مقامہ احتیاطا ( الفقہ الاسلامی و ادلتہ ۹/۶۶۳۰)
و الجواب ان العلۃ ہو الوطء السبب للولد و ثبوت الحرمۃ بالمس لیس الا لکونہ سببا لہذا الوطء ( فتح القدیر ۳/۲۱۰)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2942/45-4611
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔
احناف کے یہاں شہوت کے ساتھ چھونے سے بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے خواہ مس بالشہوت جان بوجھ کر ہو یا انجانے اور غلطی سے۔
‘‘ولا فرق فيما ذكر بين اللمس والنظر بشهوة بين عمد ونسيان’’ (در مختار مع رد المحتار مع تحقيق دكتور فرفور: ج 8، ص: 119)
ہاں انفرادی واقعہ میں اگر مس بالشہوت سے ثبوت حرمت میں غیر معمولی دشواری ہو اور ثبوت شہوت خطاً ہو عمداً نہ ہو تو مفتی حالات اور قرائن کا جائزہ لے کر مذہب غیر پر عمل کرتے ہوئے عدم وقوع حرمت کا فتویٰ دے سکتا ہے۔
(١)مس بالشہوت سے ثبوت حرمت مصاہرت کی صورت میں ضروری ہے جس کو مس کیا ہے شہوت اور میلان ِجماع بھی اسی سے ہو اگر شہوت کسی دوسری عورت سے اور مس کسی اور کو کیا ہے تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
‘‘والعبرۃ للشہوۃ عند المس والنظر لا بعدھما قلت: ویشترط وقوع الشہوۃ علیہا لا علی غیرہا لما في الفیض لو نظر إلي فرج ابنته بلا شهوة فتمنی جارية مثلها فوقعت له الشهوة علي البنت ثبتت الحرمت وإن وقعت علی من تمناها فلا’’ (رد المحتار: ج 8، ص: 112)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2951/45-4674
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ احناف کے نزدیک غلطی سے بھی مس بالشہوۃ حرمت مصاہرت کا سبب ہے۔ اس لئے اس سلسلہ میں بڑی احتیاط کرنی چاہئے تھی۔ البتہ سبب پائے جانے کے بعد حرمت مصاہرت کا ہی حکم ہوگا۔ شوہر اور بیوی کے درمیان حرمت ثابت ہوچکی ہے اور دونوں کا ایک ساتھ رہنا اب کسی صورت جائز نہیں ہے، شوہر کو چاہئے کہ بیوی کو ایک طلاق دے کر الگ کردے۔ بچوں کا پورا خرچ مع ان کی رہائش ان کے والد کے ذمہ ہے۔ تاہم امام شافعی ؒ کے قول پر فتویٰ دینے کی گنجائش ہے یا نہیں، اس سلسلہ میں قریبی کسی ماہر مفتی سے براہِ راست ملاقات کرکے صورت حال بتاکر مسئلہ معلوم کرلیں۔
قال رجل: یارسول الله إني زینت بامرأة في الجاهلیة، أفأنکح ابنتها؟ قال : لا أری ذلك، و لایصلح أن تنکح امرأة تطلع من ابنتها علی ماتطلع علیه منها". الخ (فتح القدیر، فصل في بیان المحرمات تحت قوله: لأنها نعمة ج:3،ص:221۔
ومن زنی با مرأة حرمت علیه أمها وبنتها". ( ہدایہ اولین، ص ۲۸۹)
حرمة الصهر تثبت بالعقد الجائز وبالوطئ حلالاً کان أو حراماً أو عن شبهة أو زناً".( فتاویٰ تاتارخانیہ: الفصل السابع في أسباب التحریم، ج:۲، ص:618 )
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2955/45-4678
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کو چاہیے کہ جہاں تک ہو سکے اپنا گھر بسانے کی کوشش کرے ، اس لیے کہ بغیر شرعی عذر کے عورت کا خلع کا مطالبہ کرنا گناہ ہے، اور اس پر حدیث شریف میں سخت وعید بیان ہوئی ہے۔ اگرخاندان کے بزرگوں اور بڑوں کے سامنے یہ مسائل رکھے جائیں جوشوہر کو سمجھائیں اورنباہ کی شکل نکل آئے تو بہتر ہے، لیکن اگر کسی صورت گھر بسانا ممکن نہ ہو تو شوہر سے کسی طرح عورت طلاق لینے کی کوشش کرے، اگر شوہر طلاق دینے پر رضامند نہ ہو تو پھر اس کو کچھ مال وغیرہ دے کر یا مہر نہ لیا ہو تو اس کے عوض شوہر کی رضامندی سے خلع لے سکتی ہے۔ جب اس کے حقوق تلف ہورہے ہوں اور نباہ کی شکل نہ بن پائے اور شوہر کی زیادتی کی وجہ سے عورت خلع لینے پر مجبور ہو تو پھروہ گہنگار نہیں ہوگی۔ لیکن یہ خیال رہے کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر کورٹ کا یک طرفہ خلع نامہ جاری کرنا شرعا معتبر نہیں۔
حدثنا سليمان بن حرب ،ثنا حماد ، عن أيوب ، عن أبى قلابة ، عن أبى أسماء ، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " أيما امرأة سألت زوجها طلاقاً في غير ما بأس فحرام عليها رائحة الجنة". (سنن أبي داود (2/ 234)
"اذا تشاق الزوجان و خافا ان لايقيما حدود الله فلا بأس بان تفتدي نفسها منه بمال يخلعهابه، فاذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة، ولزمها المال". (الھندیۃ، كتاب الطلاق ، الباب الثامن في الخلع، 1/ 519 ط:قديمي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند