Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 3381/46-9286
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جو الفاظ طلاق کے معنی میں صریح ہیں ان میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا ہے ان سے ہر حال میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ڈرانے کی نیت معتبر نہیں ہوگی۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو فون پر تین طلاق دیدی ہے تو عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی، اب ان دونوں میں میاں بیوی کا رشتہ باقی نہیں رہا، اور دونوں اجنبی بن گئے۔ لہذا اگر بیوی مدخولہ ہے تو وہ اپنے شوہر کے اوپر طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے۔
قال اللہ تعالی : فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (البقرہ:230)۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال ثلٰث جدھن جد و ھزلھن جد النکاح و الطلاق و الرجعۃ اھ (سنن ابی داؤد : (1/ 305)۔
و لو كتب على و جه الرسالة و الخطاب ، كأن يكتب يا فلانة : إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. اھ(الدرالمختار : (3/ 246)
ان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ او ثنتيين فی الامة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا و يدخل بها ثم يطلقها او يموت عنها ۔ (الهداية :)اھ (2/ 409
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3380/46-9287
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) حالت کفر میں کھائی ہوئی قسم کا اعتبار نہیں ہے، اس کی وجہ سے حالت اسلام میں نکاح کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (۲) حالت اسلام میں کھائی ہوئی قسم کا اعتبار کیاجائے گا اور چونکہ کلما کی قسم ہے کہ جب بھی کسی عورت سے نکاح کرے تو اس کو طلاق واقع ہو، لہذا اس صورت میں حالت اسلام میں نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر نکاح ہوتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی، حالت ارتداد میں جو کچھ عمل کیا اس کا اعتبار نہیں ہے۔ البتہ فضولی کے نکاح کی گنجائش ہے۔ فضولی کے نکاح کی تفصیل کسی عالم سے بالمشافہ سمجھ لی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3361/46-9241
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: شوہر کا قول کہ تم میری زندگی سے ختم ہو، کنائی ہے، طلاق کی نیت سے یا مذاکرہ طلاق کے وقت بولنے سے اس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے شوہر نے اگر طلاق کی نیت سے یہ جملہ کہا یا طلاق کی بات کے دوران ایسا کہا تو اس سے ایک طلاق بائن واقع ہوگئی۔اور نکاح ختم ہوگیا۔ نکاح ختم ہونے کے بعد دوبارہ اس جملہ سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ اب اگر دونوں میاں بیوی باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور شرعی گواہان کے روبرو دوبارہ عقد کرکے رہ سکتے ہیں ، البتہ آئندہ کے لیے شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ تاہم اگرشوہرکی نیت طلاق کی نہیں تھی اور نہ ہی مذاکرۂ طلاق تھا تو اس صورت میں مذکورہ جملے سے ایک طلاق بھی واقع نہیں ہوئی۔
"(كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال)، وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب. ۔ ۔ ۔ قوله: وهي حالة مذاكرة الطلاق) أشار به إلى ما في النهر من أن دلالة الحال تعم دلالة المقال قال: وعلى هذا فتفسر المذاكرة بسؤال الطلاق أو تقديم الإيقاع، كما في اعتدي ثلاثاً وقال قبله المذاكرة أن تسأله هي أو أجنبي الطلاق (شامی، باب الکنایات،3/296،297 ط: سعید)
قال): ولو قال: أنت مني بائن أو بتة أو خلية أو برية، فإن لم ينو الطلاق لايقع الطلاق؛ لأنه تكلم بكلام محتمل". (المبسوط للسرخسی، 6 / 72،باب ما تقع به الفرقة مما يشبه الطلاق،ط؛دار المعرفة – بيروت)
لا) يلحق البائن (البائن) إذا أمكن جعله إخباراً عن الأول كأنت بائن بائن، أو أبنتك بتطليقة فلا يقع؛ لأنه إخبار، فلا ضرورة في جعله إنشاء. ۔ ۔ ۔ ۔ قوله: لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية؛ لأنه هو الذي ليس ظاهراً في إنشاء الطلاق، كذا في الفتح، (فتاوی شامی، باب الکنایات، 3/308 ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3357/46-9230
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: عورت کو حالت حیض میں طلاق دینا سخت گناہ اور ناجائز ہے،تاہم اگر کسی نے حالت حیض میں طلاق دے دی تو طلاق واقع ہوجائے گی،لیکن اگر شوہر نے ایک یا دو طلاقیں صریح دی ہیں تو شوہر پر واجب ہوگا کہ وہ مطلقہ سے زبانی رجوع کرلے۔ رجوع کرنے کے بعد جب ماہواری ختم ہوجائے ،اس کے بعد مزید ایک طہر آئے،پھر دوبارہ ماہواری کے بعد طہر آجائے تو اس طہر میں اگر طلاق دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کو عدت میں شمار نہیں کیاجائے گا بلکہ اس حیض کے بعد پاکی کا زمانہ ٓئے گا پھر جب ماہواری شروع ہوگی تو وہ حیض عدت میں شمار کریں گے، اور تین حیض مکمل گزرجانے کے بعد عورت کی عدت پوری ہوجائے گی۔
"عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، «أنه طلق امرأته وهي حائض على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: مره فليراجعها، ثم ليمسكها حتى تطهر، ثم تحيض، ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد، وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء." (صحیح البخاری، کتاب الطلاق،ج:7،ص:41،ط:سعید)
"(والبدعي ثلاث متفرقة أو ثنتان بمرة أو مرتين)...أو) واحدة في (حيض موطوءة)...(وتجب رجعتها) على الأصح (فيه) أي في الحيض رفعا للمعصية (فإذا طهرت) طلقها (إن شاء) أو أمسكها."
(قوله فإذا طهرت طلقها إن شاء) ظاهر عبارته أنه يطلقها في الطهر الذي طلقها في حيضه، وهو موافق لما ذكره الطحاوي، وهو رواية عن الإمام لأن أثر الطلاق انعدم بالمراجعة فكأنه لم يطلقها في هذه الحيضة فيسن تطليقها في طهرها لكن المذكور في الأصل وهو ظاهر الرواية كما في الكافي وظاهر المذهب، وقول الكل كما في فتح القدير إنه إذا راجعها في الحيض أمسك عن طلاقها حتى تطهر ثم تحيض ثم تطهر فيطلقها ثانية. ولا يطلقها في الطهر الذي يطلقها في حيضه لأنه بدعي، كذا في البحر والمنح، وعبارة المصنف تحتمله. اهـ. ح. ويدل لظاهر الرواية حديث الصحيحين «مر ابنك فليراجعها ثم ليمسكها حتى تطهر ثم تحيض فتطهر، فإن بدا له أن يطلقها فليطلقها قبل أن يمسها فتلك العدة كما أمر الله عز وجل» بحر." (الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین: کتاب الطلاق،ج:3،ص:232،233،ط:سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبندBottoTop of Form
طلاق و تفریق
Ref. No. 3346/46-9242
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مذکورہ میں شوہر نے متعدد بار لفظ آزاد استعمال کیا ہے تاہم ہر بار لفظآزاد کا سیاق و سباق کچھ ایسا رہا جس کی بنا پر لفظ آزاد سے طلاق کے معنی مراد لینا یقینی نہیں ہے۔ مثلا تو آزاد ہے میری بات مان یا نہ مان / تو آزاد ہے اپنے رشتہ داروں کے یہاں جاسکتی ہے / اگر گھر کے اندر مجھکقو نہیں آنے دوگی تو تم آزاد ہو کہ گھر کا کرایہ کا خود ہی بندوبست کرو / اگر اپنی من مانی ہی کرنی ہے تو تم آزاد ہو جو چاہے کرو ۔ ان تمام جملوں سے سیاق و سباق کی بنا پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لفظ آزاد اگرچہ صریح ہے مگر اصلا کنائی ہونے کی بناپر سیاق و سباق سے معنی بدل جاتے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3274/46-8089
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کو 'تیاگ' کا معنی معلوم تھا کہ اس کے معنی چھوڑنے کے آتے ہیں، پھر بھی آپ نے اپنی بیوی کے لئے اس کا استعمال کیا، جس طرح اردو میں چھوڑنا طلاق کے لئے صریح ہے، اسی طرح ہندی کا لفظ 'تیاگ' بیوی کی جانب منسوب کرکے بولنا بھی صریح ہی ہے، اس لئے صورت مسئولہ میں ایک طلاق واقع ہوگئی، خیال رہے کہ مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ ان الفاظ کے بولنے سے پہلے مسئلہ معلوم کرنا چاہئے ۔ ایک طلاق کے بعد دورانِ عدت رجعت کرکے دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، اور اگر عدت (تین ماہواری) گزرچکی ہے توآپسی رضامندی سے دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ۪ فَاِمْسَاکٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌۢ بِاِحْسَانٍ۔۔۔۔الخ (القرآن الکریم: (البقرة، الآیۃ: 229) واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقة رجعیة او تطلیقتین فلہ ان یراجعھا فی عدتھا۔ (الھدایة: (کتاب الطلاق، 394/2) فان طلقھا ولم یراجعھا بل ترکھا حتی انقضت عدتھا بانت وھذا عندنا۔ (بدائع الصنائع: (180/3) اذا کان الطلاق بائنا دون الثلاث فلہ ان یتزوجھا فی العدۃوبعد انقضاءالعدۃ۔ (الفتاوی الھندیۃ: (473/1)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3264/46-8076
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں جملہ نمبر چار اور پانچ سے دو طلاقیں واقع ہوئیں لیکن آخری جملہ میں صرف لفظ طلاق کس موقع پر بولا گیا اگر طلاق کی بات کے دوران بولا گیا تو اس سے تیسری طلاق واقع ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3229/46-8021
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ عام بول چال کے الفاظ ہیں، اس سے کسی کے ذہن میں طلاق کے معنی کاخیال بھی نہیں آتاہے، اس لئے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
وركنه لفظ مخصوص». (قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه." (شامی، کتاب الطلاق ج:3، ص:230، ط :سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3217/46-7080
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔
بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں عورت پر شرعا تین طلاقیں واقع ہوگئیں، نکاح بالکلیہ ختم ہوگیا اور رجعت کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہی اور تین طلاق کے بعد نکاح بھی نہیں ہوسکتاہے، اس لئے اب عورت آزاد ہے، عدت کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
فان طلقھا فلاتحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ (القرآن)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3185/46-7028
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بیوی کا مقصد داڑھی کی سنت کا مذاق اڑانا نہیں تھا بلکہ داڑھی اچھی نہ لگنےپر اپنے غصہ کا اظہار تھا تو سخت گنہگار ہوئی مگر ایمان باقی ہے۔ اور اگر داڑھی کا مذاق اڑانا ہی مقصود تھا توپھر تجدید ایمان وتجدید نکاح لازم ہوگا۔ إن کان تہاوٴنا بالسنة یکفر (الھندیۃ 2/265)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند