Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
طلاق و تفریق
Ref. No. 1237/42-554
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر پہلے کوئی طلاق نہیں دی تھی، تو اس خلع سے ایک طلا ق بائن واقع ہوگئی۔ دوبارہ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر آئندہ دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔
وحکمہ ان الواقع بہ ای بالخلع وبلفظ البیع والمباراۃ ولوبلامال وبالطلاق الصریح علی مال طلاق بائن (ردالمحتار باب الخلع ۳/۴۴۴)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1238/42-553
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شوہر نے طلاق کو کسی شرط پر معلق کردیا تو اب رجوع کی کوئی شکل نہیں ۔ جب بھی شرط پائی جائے گی، شرعا طلاق واقع ہوگی۔ اب مذکورہ شرط اس وقت پائی گئی جب آپ طلاق کا محل نہیں تھیں اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن جو دیگر شرطیں شوہر نے لگائی تھیں اور آپ نے ان کو پورا نہیں کیا اور اب جبکہ نکاح ہوگیا تب پورا کیا جیسے کہ بہن سے ملاقات کرنا تو اب اس سے طلاق واقع ہوجائے گی۔
وان قال لھا ان کلمت اباعمرو وابایوسف فانت طالق ثلاثا ثم طلقھا واحدۃ فبانت وانقضت عدتھا فکلمت ابا عمرو ثم تزوجھا فکلمت ابا یوسف فھی طالق ثلثا مع الواحدۃ الاولی (ہدایہ ۲/۳۸۸، دارالکتاب دیوبند)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1079 Alif
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ بلا وجہ شرعی طلاق دینا اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل ہے، ابغض المباحات الی اللہ الطلاق۔ اس لئے طلاق دینے سے بہر صورت اجتناب کیا جانا چاہیے۔ عورتیں کمزور اور کم عقل ہوتی ہیں، ان کی غلطیوں کو معاف کردیا جائے۔ نافرمانی حد سے بڑھے تو بستر الگ کردیا جائے، باز نہ آنے پر گھر کے افراد بیٹھ کر معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کریں ۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود طلاق دینا ہی ناگزیر ہو تو عورت کے پاکی کے ایام میں ایک طلاق دے کر اس سے الگ ہوجائے،تین حیض پورے گذرنے سے پہلے اگر بیوی کو واپس نکاح میں لینا ہو تو رجعت کرلے اور دوگواہوں کی موجودگی میں کہے کہ گواہ رہو میں نے رجعت کرلی، اور اگر تین ماہواری پوری ہوگئی تو اب عورت نکاح سے نکل گئی ، اور جس سے چاہے گی نکاح کرسکے گی۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 935/41-68
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب تک زبان سے طلاق وغیرہ کے کچھ الفاظ نہیں بولے گا نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وسوسوں سے پرہیز کریں۔ صبح و شام معوذتین کا ورد کریں ۔اور دعاء کریں ان شاء اللہ فائدہ ہوگا.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1484/42-949
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اس طرح غلطی سے زبان پرمطلقہ کا لفظ جاری ہونےسے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کے لئے بیوی کی جانب نسبت ضروری ہے جبکہ مذکورہ جملہ اور اس کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔ آپ کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نہیں تھی۔ اس لئے صورت بالا میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔
قال لها: إن خرجت يقع الطلاق فخرجت لم يقع الطلاق لتركه الإضافة لها كذا في القنية في باب فيما يكون تعليقا أو تنجيزا. (الھندیۃ الفصل الثالث فی تعلیق الطلاق بکلمۃ ان 1/439) "لا يقع من غير إضافة إليها". ( شامی، كتاب الطلاق، باب الصريح، 3/273)
(قَوْلُهُ: لِتَرْكِهِ الْإِضَافَةَ) أَيْ الْمَعْنَوِيَّةَ، فَإِنَّهَا الشَّرْطُ، وَالْخِطَابُ مِنْ الْإِضَافَةِ الْمَعْنَوِيَّةِ، وَكَذَا الْإِشَارَةُ نَحْوُ هَذِهِ طَالِقٌ، وَكَذَا نَحْوُ امْرَأَتِي طَالِقٌ، وَزَيْنَبُ طَالِقٌ". (شامی، كتاب الطلاق، باب الصريح، 3/248)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1023/41-192
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں شادی کرتے ہی ایک طلاق بائن واقع ہوچکی ہے۔ اب اگر وہ اس لڑکی کو رکھنا چاہتا ہے تو نکاح ثانی کرنا ضروری ہے۔ نکاح اول کافی نہ ہوگا۔ نیز چودہ سال کا لڑکا مراہق ہوتا ہے جو بالغ کے حکم میں ہے۔ اس لئے نکاح صحیح ہے۔
ان نکحتک فانت طالق وکذا کل امراۃ ویکفی معنی الشرط الا فی المعینۃ باسم او نسب او اشارۃ۔ (ردالمحتار زکریا دیوبند 4/594)
لان المراھق والمراھقۃ کل واحد منھما مشتھی کالبالغ والبالغۃ۔ (فتاوی عثمانی 4/410) (المحیط البرہانی 2/320)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 1485/42-947
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ فقہ حنفی میں نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق زجرا واقع ہوجاتی ہے۔ اگر بہت زیادہ نشہ تھا کہ ہوش وحواس گم تھے تو پھر اس کو طلاق ہی کیوں سوجھی، اس لئے صورت مسئولہ میں ایسی حالت نہیں پائی گئی کہ اس کو بالکل ہی کچھ خبر نہ ہو۔ اگر کوئی شخص اپنی حالت اس طرح بیان کرے تو بھی فقہاء نے زجرا شرابی کی طلاق کو واقع گردانا ہے۔ اس لئے مذکورہ صورت میں جبکہ لفظ جواب آپ کے علاقہ میں بمنزلہ لفظ طلاق کے صریح ہے تو شریعت کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوگئیں ، اب میاں بیوی کا رشتہ باقی نہیں رہا، عورت اپنا نکاح دوسری جگہ کرنے میں آزاد ہے۔
وفي الذخيرة ": طلاق السكران واقع إذا سكر من الخمر والنبيذ، ولو أكره على الشرب فسكر أو شرب للضرورة فذهب عقله يقع طلاقه. وفي جوامع الفقه عن أبي حنيفة: يقع، وبه أخذ شداد ولو ذهب عقله بدواء أو أكل البنج لايقع. (البنایۃ، طلاق السکران 5/300) ولا يقع طلاق السكران منه بمنزلة النائم ومن ذهب عقله بالبنج ولبن الرماك۔ وعن محمد أنه حرام ويحد شاربه ويقع طلاقه إذا سكر منه كما في سائر الأشربة المحرمة (فتح القدیر للکمال، فصل فی الدعوی ولاختلاف والتصرف فیہ 10/99) واختار الكرخي والطحاوي أن طلاق السكران لا يقع؛ لأنه لا قصد له كالنائم، وهذا لأن شرط صحة التصرف العقل، وقد زال فصار كزواله بالبنج وغيره من المباحات ولنا أنه مخاطب شرعا لقوله تعالى {لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى} [النساء: 43] فوجب نفوذ تصرفه؛ ولأنه زال عقله بسبب هو معصية فيجعل باقيا زجرا له بخلاف ما إذا زال بالمباح حتى لو صدع رأسه وزال بالصداع لا يقع طلاقه (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، کتاب الطلاق 2/196)
وروى الطحاوي عن أبي سنان قال: سمعت عمر بن عبد العزيز يقول طلاق السكران والمكره واقع ولأنه قصد إيقاع الطلاق في منكوحته حال أهليته فلا يعرى عن قضيته وهذا لأنه عرف الشرين فاختار أهونهما وهذا علامة القصد والاختيار لأنه غير راض بحكمه وذلك غير مانع من وقوع الطلاق كالهازل. (الغرۃ المنیفۃ فی تحقیق بعض مسائل الامام، کتاب الطلاق 1/153)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 2707/45-4184
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "جا میں نے تجھے چھوڑدیا" یہ جملہ طلاق کے لئے صریح ہے، اس لئے بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں اس جملہ سے بیوی پر طلاق واقع ہوگئی، اگر ایک مرتبہ بولا تو ایک طلاق،اور دو مرتبہ بولا تو دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئیں۔ اب اگر عورت عدت میں ہے اور تین ماہواری ابھی پوری نہیں گزری ہے تو شوہر رجعت کرسکتاہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے تجھ کو اپنی نکاح میں واپس لے لیا یا میاں بیوی والا تعلق قائم کرلے۔پھر یہ دونوں میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں اور نکاح وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ البتہ شوہر آئندہ طلاق دینے میں بہت احتیاط کرے کیونکہ اگر یہ دو طلاق ہوچکیں تو آئندہ صرف ایک طلاق دینے سے عورت بالکل حرام ہوجائے گی اور نکاح بھی نہیں ہوسکے گا۔
وإذا قال رہا کردم أي سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الفرس استعمالہ في الطلاق وقد مر أن الصریح ما لم یستعمل إلا في الطلاق من أي لغةٍ کانت،( فتاوی شامی، كتاب الطلاق)
"(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة ( بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس.
(قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397):
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية". (الفتاوی الهندیة، ج:3، ص: 473، ط: ماجدية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 40/944
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ حکومت کہاں کی ہے اور اس میں موجود جج کون ہے اور طریقہء کار کیا ہے؟ اس لئے مطلقا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا ہے۔ کیا واقعہ پیش آیا اور کہاں پیش آیا تفصیل لکھیں یا کسی مفتی سے بالمشافہ معلوم کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند