طلاق و تفریق
Ref. No. 2863/45-4577 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں، "میں نے تمہیں آزاد کردیا" طلاق صریح کے معنی میں ہے، اس سے فوری طلاق واقع ہوجاتی ہے، اور اس میں نیت اور ارادہ کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اسلئے میں نے تمہیں آزاد کردیا پانچ بار کہنے سے بیوی پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی، اور بیوی نکاح سے مکمل طور پر نکل گئی اور حرام ہوگئی۔ اب دونوں کے درمیان علیحدگی لازم ہے۔ بیوی عدت گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ طلاق کے سلسلہ میں مذاق کا اعتبار نہیں، مذاق میں بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ فإذا قال ”رہا کردم“ أي سرحتک یقع بہ الرجعي مع أن أصلہ کنایة أیضًا وما ذاک إلا لأنہ غلب في عرف الناس استعمالہ في الطلاق (شامي: ۴/۵۳۰) عن أبي ھریرةرضي الله عنه قال: قال رسول اللہ صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ”ثلاث جدھن جد وھزلھن جد، النکاح والطلاق والرجعة“، رواہ الترمذي وأبو داود، (مشکاة المصابیح، باب الخلع والطلاق، الفصل الثاني، ص:۲۸۴، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2879/45-4565 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر شوہر نے یہ کہا کہ طلاق دیدوں گا تو اس میں طلاق دینے کا وعدہ ہے، دھمکی ہے، طلاق دینا نہیں ہے، اس لئے اس ممنوعہ کام کے کرنے کے بعد طلاق خود بخود واقع نہیں ہوگی، بلکہ شوہر دھمکی کے مطابق طلاق دے گا تب طلاق واقع ہوگی۔اس لئے اگر شوہر نے اس کام کے کرنے کی اجازت دیدی تو آپ کے لئے اس کام کو کرنا جائز ہے اورمحض دھمکی کے الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ صيغة المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا اغلب في الحال۔ (تنقيح الحامدية،كتاب الطلاق،ج:1،ص:38) وفي المحيط ”لو قال بالعربية :أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا .... “ . سئل نجم الدين عن رجل قال لامرأته :اذهبي إلى بيت أمك .فقالت :”طلاق ده تابروم “فقال :”تو برو من طلاق دمادم فرستم “،قال :لا تطلق ؛لأنه وعد كذا في الخلاصة . (الفتاوى الهندية: 2/ 384مکتبۃرشیدیۃ) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2909/45-4551 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلام میں نکاح ایک پاکیزہ رشتے کا نام ہے،اسلام نے اس کی پائداری پر زور دیا ہے، اور اس کے لیے باہمی الفت ومحبت اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین کی ہے لیکن اگر کسی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان نااتفاقی ہونے لگے تو پہلے دونوں خاندان کے بزرگ کو صلح کرانے کی کوشش کرنی چاہیے؛ کیوںکہ اسلام میں طلاق ناپسندیدہ فعل ہے اور بلا ضرورت اسکا استعمال درست نہیں ہے۔ پھر بھی اگر نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے اور فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو تو ایک طلاق صریح دے کر دونوں کو الگ ہو جانے کا حکم ہے۔ ایک طلاق کے بعد اگر دوبارہ ساتھ رہنا چاہیں تو عدت میں رجوع کے ذریعہ اور عدت کے بعد نکاح کے ذریعہ دونوں ساتھ رہ سکتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا شرعاً گناہ ہے اور ملکی قانون کے مطابق قابل مواخذہ جرم ہے۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔ اب رجعت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ تین طلاق کے بعد بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے اور بیوی پر پردہ لازم ہوجاتاہے۔ یہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔ ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]﴿ فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ﴾ [البقرة: 230] '' أن رجلاً طلق امرأته ثلاثاً، فتزوجت فطلق، فسئل النبي ﷺ: أتحل للأول؟ قال: «لا، حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول»'' (بخاری، 2/791) (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : وَالْقُرْآنُ يَدُلُّ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ عَلَى أَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَةً لَهُ دَخَلَ بِهَا أَوْ لَمْ يَدْخُلْ بِهَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَهُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِامْرَأَتِهِ الَّتِي لَمْ يَدْخُلْ بِهَا أَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا فَقَدْ حُرِّمَتْ عَلَيْهِ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا. (الأم للشافعي (5 / 196، دار المعرفة – بيروت) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2908/45-4550 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔اگر دیوار پر طلاق کے الفاظ شوہر نے نہیں لکھے تو محض اس طرح تصویر پر لفظ طلاق تحریر ونے سے بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ طلاق کے واقع ہونے کے لئے شوہر کا اپنی بیوی کی طرف نسبت کرکے طلاق دینا ضروری ہے، جبکہ صورت مسئولہ میں شوہرنے طلاق نہیں دی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2905/45-4547 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں شوہر کے 'میں تمہیں طلاق احسن دے رہاہوں' کہنے سے بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی۔ شوہر اپنی بیوی سے عدت کے اندر اندر رجعت کرسکتاہے۔ اور عدت گزرنے کے بعد دونوں کی رضامندی سے جدید مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے۔ البتہ شوہر آئندہ صرف دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔ اس لئے سخت مجبوری میں ہی طلاق کا استعمال کرنا چاہئے۔ "(هي استدامة الملك القائم) بلا عوض ما دامت (في العدة) ... (بنحو) متعلق باستدامة (رجعتك) ورددتك ومسكتك بلا نية لأنه صريح (و) بالفعل مع الكراهة (بكل ما يوجب حرمة المصاهرة) كمس. (قوله: بنحو راجعتك) الأولى أن يقول بالقول نحو راجعتك ليعطف عليه قوله الآتي وبالفعل ط، وهذا بيان لركنها وهو قول، أو فعل... (قوله: مع الكراهة) الظاهر أنها تنزيه كما يشير إليه كلام البحر في شرح قوله والطلاق الرجعي لا يحرم الوطء رملي، ويؤيده قوله في الفتح - عند الكلام على قول الشافعي بحرمة الوطء -: إنه عندنا يحل لقيام ملك النكاح من كل وجه، وإنما يزول عند انقضاء العدة فيكون الحل قائماً قبل انقضائها. اهـ. ... (قوله: كمس) أي بشهوة، كما في المنح". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 397) "(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع) ومنع غيره فيها لاشتباه النسب".( الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 409) واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق
Ref. No. 2899/45-4540 بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عبداللہ کے طلاق کے بعد عدت گزار کر عورت اپنی مرضی سے جہاں چاہے نکاح کرسکتی ہے، زید سے نکاح کرنے پر اس کو مجبور نہیں کیاجاسکتاہے، اسی طرح زید پر فاطمہ سے نکاح کرنا لازم نہیں ہے۔ نکاح سے پہلے جو کچھ بات چیت یا ان کے تعلقات تھے وہ غلط تھے مگر زید پر اس کی وجہ سے نکاح کرنا لازم نہیں ہوگا اور فاطمہ سے نکاح نہ کرنے کی صورت میں زید گنہگار نہیں ہوگا۔ نکاح سے پہلے اپنی رائے کبھی بھی تبدیل کرسکتاہے، البتہ اگر کوئی مانع نہ ہو تو نکاح کرلینا مناسب رہے گا۔ واللہ اعلم بالصواب دارالافتاء دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1237/42-554

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال اگر پہلے کوئی طلاق نہیں دی تھی، تو اس خلع سے ایک طلا ق بائن واقع ہوگئی۔ دوبارہ نکاح کرکے دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ شوہر آئندہ دو طلاقوں کا مالک ہوگا۔

وحکمہ ان الواقع بہ ای بالخلع وبلفظ البیع والمباراۃ ولوبلامال وبالطلاق الصریح علی مال طلاق بائن (ردالمحتار باب الخلع ۳/۴۴۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1238/42-553

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب شوہر نے طلاق کو کسی شرط پر معلق کردیا تو اب رجوع کی کوئی شکل نہیں ۔ جب بھی شرط پائی جائے گی، شرعا طلاق واقع ہوگی۔ اب مذکورہ شرط اس وقت پائی گئی جب آپ طلاق کا محل نہیں تھیں  اس لئے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ لیکن جو دیگر شرطیں شوہر نے لگائی تھیں اور آپ نے ان کو پورا نہیں کیا اور اب جبکہ نکاح ہوگیا تب پورا کیا جیسے کہ بہن سے ملاقات کرنا تو اب اس سے طلاق واقع ہوجائے گی۔

وان قال لھا ان کلمت اباعمرو وابایوسف فانت طالق ثلاثا ثم طلقھا واحدۃ فبانت وانقضت عدتھا فکلمت ابا عمرو ثم تزوجھا فکلمت ابا یوسف فھی طالق ثلثا مع الواحدۃ الاولی (ہدایہ ۲/۳۸۸، دارالکتاب دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 1079 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔  بلا وجہ شرعی طلاق دینا  اللہ کے نزدیک سخت ناپسندیدہ عمل ہے، ابغض المباحات الی اللہ الطلاق۔ اس لئے طلاق دینے سے بہر صورت اجتناب کیا جانا چاہیے۔ عورتیں  کمزور اور کم عقل ہوتی ہیں، ان کی غلطیوں کو معاف کردیا جائے۔ نافرمانی حد سے بڑھے تو بستر الگ کردیا جائے، باز نہ آنے پر گھر کے افراد  بیٹھ کر معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کریں ۔ لیکن ان تمام کوششوں کے باوجود طلاق دینا ہی ناگزیر ہو تو عورت کے پاکی کے ایام میں ایک طلاق دے کر اس سے الگ ہوجائے،تین حیض   پورے گذرنے سے پہلے اگر بیوی کو واپس نکاح میں لینا ہو تو رجعت کرلے اور دوگواہوں کی موجودگی میں کہے کہ گواہ رہو میں نے رجعت کرلی، اور اگر تین ماہواری پوری ہوگئی تو اب  عورت نکاح سے نکل  گئی ، اور جس سے  چاہے گی نکاح کرسکے گی۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

طلاق و تفریق

Ref. No. 935/41-68

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جب تک زبان سے  طلاق وغیرہ کے کچھ الفاظ نہیں بولے گا  نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وسوسوں سے پرہیز کریں۔ صبح و شام معوذتین کا ورد کریں ۔اور دعاء کریں  ان شاء اللہ فائدہ ہوگا. 

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند