مساجد و مدارس

Ref. No. 2133/44-2183

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واقف نے جو زمین وقف کی ہے اس کے پیچھے جانے کے لئے  راستہ تو ضروردیاہوگا، اگر اس کا دوسری طرف راستہ موجود ہے تو  پھر وقف شدہ زمین سے گلی کا مطالبہ کیوں کیاگیا ہے۔ خیال رہے کہ ایک بار وقف جب مکمل ہوجاتاہے تو کسی کو بھی اس میں اختیار نہیں رہتاہے، اس لئے وقف شدہ زمین سے راستہ کا مطالبہ درست نہیں ہے، اور اس کا عوض لے کر راستہ دینا  بھی درست نہیں  ہے۔

نوٹ: اس سلسلہ میں قریبی مفتیان کرام سے اس جگہ کا معائنہ کرالیاجائے تو بہتر ہوگا۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2715/45-4463

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مناسب پردہ کے ساتھ عورتوں کا مسجد کے لئے کام کرنا بنیت ثواب درست ہے۔ مَردوں سے اختلاط اور بے پردگی سے گریز کیاجائے۔ مسجد تعمیر ہونے کے بعد عورتوں کا مسجد میں بطور شکرانہ دو رکعت نماز پڑھنے کا اگر کسی دن ایسے وقت میں نظم کردیاجائے کہ مردوں سے اختلاط  نہ ہو اور پردہ کے ساتھ عورتیں آئیں تو اس کی گنجائش ہوگی۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 2714/45-4462

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجدکے لئے جب گاؤں کے افراد نے طے کیا ہے کہ ہم ہی اپنے پیسے سے مسجد بنائیں گے اور دوسرے گاؤں والوں سے پیسے نہیں لیں گے اور سب لوگ اپنی خوشی سے مسجد میں پیسے لگا رہے ہیں تواس میں دوسرے گاؤں کے لوگوں کو زبردستی نہ کرنی  چاہئے، اور فتنہ وفساد سے گریز کرنا چاہئے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’الخلاف شر‘‘ اختلاف بری شیئ ہے، اس لئے دوسرے گاؤں والوں کو پیار محبت سے سمجھا دیا جائے اورمنع کر دیا جائے۔

تاہم اس کا خیال رہے کہ اگر گاؤں والوں سے زبردستی چندہ لیا گیا یا متعین رقم ان پر لازم کردی گئی یا مسجد کی تعمیر میں ان کے وقت پر پیسہ نہ دینے کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہو تو اس طرح کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1658/43-1239

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف بالائی منزل وقف کرنا درست  ہے۔ البتہ مسجدشرعی ہونے  کے لئے ضروری ہے  کہ وہ نیچے سے اوپر تک مسجد  یا مصالح مسجد کے لئے ہو،مسجدِ شرعی اوپر آسمان تک اور نیچے تحت الثریٰ تک مسجد ہوتی ہے، اس لئے صرف بالائی منزل مسجد کے لئے وقف کرناگوکہ  درست  ہوگیا  مگر یہ مسجد شرعی نہ ہوگی ، اور مسجد شرعی کا ثواب اس سے حاصل نہ ہوگا۔  

و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقاً بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه) وعليه (فلايجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولاتطيينه بنجس (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره وينبغي لداخله تعاهد نعله وخفه، وصلاته فيهما أفضل (لا) يكره ما ذكر (فوق بيت) جعل (فيه مسجد) بل ولا فيه؛ لأنه ليس بمسجد شرعاً. (و) أما (المتخذ لصلاة جنازة أو عيد) فهو (مسجد في حق جواز الاقتداء) وإن انفصل الصفوف رفقاً بالناس (لا في حق غيره) به يفتى نهاية (فحل دخوله لجنب وحائض) كفناء مسجد ورباط ومدرسة ومساجد حياض وأسواق لا قوارع.

 قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته بيتاً للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحاً، نعم سيأتي متناً في كتاب الوقف أنه لو جعل تحته سرداباً بالمصالحة جاز تأمل ... (قوله: لايكره ما ذكر) أي من الوطء والبول والتغوط نهر (قوله: فوق بيت إلخ) أي فوق مسجد البيت: أي موضع أعد للسنن والنوافل، بأن يتخذ له محراب وينظف ويطيب كما أمر به صلى الله عليه وسلم، فهذا مندوب لكل مسلم، كما في الكرماني وغيره قهستاني، فهو كما لو بال على سطح بيت فيه مصحف وذلك لايكره كما في جامع البرهاني معراج... (قوله: وأسواق) أي غير نافذة يجعلون مصطبة للصلاة فيها ح وذلك كالتي تجعل في خان التجار". الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1577/43-1116

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر فوت شدہ کی بیوی یا اولاد ضرورتمند ہیں تو ان  کی مدد کرنی چاہئے جبکہ ادارہ کے قیام کے اولین مقاصد میں سے  غریبوں کی مدد کرناہے۔  اور زکوۃ وغیرہ کی رقم بھی بطور وظیفہ  دی جاسکتی ہے۔ اگر کوئی کاروبار کرنا چاہے تو اس کو بڑی رقم بھی دی جاسکتی ہے، ورنہ وظیفہ متعین کرنے میں اور ہر ماہ تھوڑا تھوڑا دینے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔   

قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة (سورہٴ توبہ آیت: ۶۰) ، ولا إلی غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ ((شامی کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۵، ۲۹۶، ط: مکتبة زکریا دیوبند) ۔

. و يكره أن يدفع إلى رجل ماتى درهم فصاعدا وان دفعه جاز.(الھندیۃ 1/188) . و كره اعطاء فقير نصابا أو أكثر الا إذا كان المدفوع إليه مديونا أو كان صاحب عيال. (شامی 2/74) .واذا أهدي للصبي شيء وعلم انه له: فليس للوالدين الأكل منه بغير حاجة كما في الملتقط ”  (الاشباۃ والنظائر 339)

اذَا کَانَ یَعُوْلُ یَتِیْمًا وَیَجْعَلُ مَا یَکْسُوْہُ وَیُطْعِمُہ مِنْ زکوٰةِ مالہ فَفي الکسوةِ لاشکَّ في الجوازِ لِوُجودِ الرُّکْنِ وَہُوَ التَّملیکُ، وأمّا الطعامُ فَمَا یَدفعہ الیہ بِیَدِہ یَجوزُ أیضاً لِما قُلنا بِخلافِ مَا یأکُلہ بِلا دفعٍ الیہ(شامی 3/172)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 2374/44-3586

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  محض شک و شبہہ کی بنا پر اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فیصلہ کرنا درست نہیں ہے،۔ بعض مرتبہ حقیقت حال کا علم نہ ہونے کی وجہ سے محسوس ہوتاہے کہ وہ جھوٹ بول رہاہے جبکہ وہ سچ بول رہاہوتاہے ۔ اس لئے محض شک کی بناپر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتاہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

مساجد و مدارس

Ref. No. 1100 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر مائک دینے والے نے یہ صراحت کردی  ہو کہ اذان ہی کے لئے خاص ہے، اذان کے علاوہ کوئی کام اس سے نہ لیاجائے تو دوسرا کوئی کام درست نہیں۔ اور اگر ایسا نہیں ہے اور منشاء دینی کام  ہے تو مذکورہ تمام امور درست ہیں۔ کذا فی الاوقاف من الفتاوی۔ واللہ تعالی اعلم

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 1059 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔بائع اور مشتری کے درمیان جب بات طے ہوگئی تھی تو اب بائع کا زیادہ کا مطالبہ کرنا سراسرظلم ہے۔ اور زائد رقم ظلما لی گئی رقم ہے جو ناجائز ہے۔  

رہا اس کا مسجد میں چٹائی  وغیرہ میں خرچ کرنا تو چونکہ اس کی ملکیت میں جائز رقم بھی ہے اس لئے بلا تعیین صرف کردینا درست ہوا۔ اور اگر اس کی نیت اسی زائد آمدنی سے پچاس ہزار دینے کی تھی تو اس نے سخت گناہ کا کام کیا ہے اس پر توبہ و استغفار لازم ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 39 / 844

الجواب وباللہ التوفیق                                                                                                                                                        

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کے لئے جو بھی مقصد مفید ہو اس مقصد سے بنانے  کی اجازت ہے۔ آپ کے پیش نظر جو مقصد ہو اس کی وضاحت کرکے مسئلہ معلوم کرلیں کہ اس مقصد  کے لئے مسجد میں تہخانہ بنانا کیسا ہے، ان شاء اللہ اس کا حکم لکھ دیا جائے گا۔  واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 41/841

الجواب وباللہ التوفیق 

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر وہ زمین پوری مسجد کے لئے وقف ہے اور مسجد بنائے جانے سے پہلے ہی نیچے یا اوپر کرایہ کے لئے مکان یا دوکان بنائی جائے اور اس کا کرایہ مصالح مسجد میں استعمال ہو تو اس طرح کرنے کی گنجائش ہے۔ اگر زمین مسجد کے لئے وقف نہیں ہے یا اوپر کی دوکان مصالح مسجد کے لئے نہیں ہے تو یہ نماز گاہ کے حکم میں ہے ،یہ  شرعی مسجد نہیں کہلائے گی۔

 لوبنی فوقہ بیتا للامام لایضر لانہ من المصالح ، اما لو تمت المسجدیۃ ثم اراد البناء منع (شامی ۴/۳۵۸ فرع بناء بیتا للامام فوق المسجد)   

واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند