Frequently Asked Questions
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 3410/46-9300
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر مدرسہ یا ادارہ معتبر ہو، اور ان کی دیانت و امانت معروف ہو اوران کے ذبیحہ کا انتظام شریعت کے مطابق ہو، اور وہ واقعی قربانی کرتے ہوں اور گوشت مستحقین کو پہنچاتے ہوں، تو ایسے مدارس یا اداروں کے ذریعے فون، واٹس ایپ یا آن لائن طریقے سے قربانی کروانا شرعاً جائز ہے۔قیمت کا فرق علاقے کے اعتبار سے ہوتا ہے۔مثلاً یوپی، بہار یا ہریانہ میں قربانی کے جانور نسبتاً سستے ہوتے ہیں، خاص طور پر مدارس والے زیادہ تعداد میں بڑے جانور خریدتے ہیں تو ان کو جانور سستے ملتے ہیں۔ اگر واقعی جانور شریعت کے مطابق ہو اور قربانی صحیح طریقے سے ہو رہی ہو، تو قیمت کم ہونے کی وجہ سے دوسری جگہ قربانی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔
ويجوز التوكيل في الأضحية، فيذبح الوكيل عن الموكل." (الفتاویٰ الهندية، ج 5، ص 296)
"ويجوز التوكيل فيها (أي: الأضحية)، كما في سائر القرب." (رد المحتار، ج 6، ص 326)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 3408/46-9302
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ زکوٰۃ صرف ان لوگوں کو دی جا سکتی ہے جو "فقیر" یا "مسکین" ہوں۔ یعنی جن کے پاس نصاب کی مقدار سے کم مال ہو (یعنی تقریباً ساڑھے 52 تولہ چاندی کی مالیت جتنا سونا/چاندی/رقم یا سامانِ تجارت نہ ہو) ، صرف بیوہ ہونا مستحق زکوۃ ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔ بیوہ عورت کے پاس جو سونا یا دیگر زائد اشیا موجود ہیں ان کو بیچ کر اپنا خرچ چلائے ۔ زیورات اگر نصاب کی مقدار کے برابر ہیں تو اس کے لئے مستقل آمدنی نہ ہونے کی بنا پر زکوۃ لینا جائز نہیں ہوجائےگا۔ بلکہ صاحب نصاب ہونے کی وجہ سے خود اس پر زکوۃ کی ادائیگی فرض ہے۔
"أعلمهم أن الله افترض عليهم صدقة تؤخذ من أغنيائهم وترد على فقرائهم."(بخاری، حدیث: 1395)
"من كان مالكًا للنصاب فلا تحل له الزكاة..." (رد المحتار، ج 2، ص 342)
ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابًا فاضلًا عن حاجته الأصلية." (الفتاویٰ الهندیة، جلد 1، ص 188)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 3407/46-9303
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر جانور نر ہو لیکن پیدائشی طور پر خصیتین نہ ہوں، تو ایسے جانورکی قربانی جائز ہے، کیونکہ یہ عیب نہیں بلکہ پیدائشی طور پر اس کی یہ حالت ہے ۔ اور اگر نر جانور کے خصیے بعد میں کاٹ دیے گئے ہوں تاکہ اس کا گوشت لذیذ ہو تو حنفی فقہ میں خصی جانور کی قربانی افضل مانی گئی ہے۔ کیونکہ اس کا گوشت زیادہ لذیذ اور عمدہ ہوتا ہے۔
اوراگر وہ جانور خنثیٰ مشکل ہو (یعنی جس میں نرومادہ کی علامتوں إٰن سے کوئی علامت واضح نہ ہو)، تو اس کی قربانی جائز نہیں ہے لیکن اگر وہ خنثیٰ غیر مشکل ہو (یعنی ایک جنس غالب ہو)، تو اس کی قربانی جائز ہوگی ۔
الخصي من الضحايا أفضل من الفحل، لأنه أطيب لحماً. (رد المحتار، ج 6، ص 326)
ولا تجوز الأضحية بالخنثى، لأنه لا يعرف أنه ذكر أو أنثى."(بدائع الصنائع، ج 5، ص 71)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hajj & Umrah
Ref. No. 3406/46-9304
In the Name of Allah, the Most Gracious, the Most Merciful
The answer to your question is as follows:
If a pilgrim unknowingly passed through Muzdalifah before Fajr and performed the Wuquf (obligatory stay) at Mina and later realized that they did not stay at Muzdalifah at all, a wājib (obligatory act) of Hajj has been missed. This is because staying in Muzdalifah for some time after Fajr is a required obligation of Hajj.
Therefore: If you did not enter Muzdalifah at all and instead offered the Fajr prayer and stayed in Mina, a dum (sacrifice of a sheep or goat) becomes obligatory upon you as a penalty.
However, if you did enter Muzdalifah but mistakenly believed it to be Mina, and performed the Wuquf, and supplications, and prayers there, no dam is required — provided that the location was indeed within the boundaries of Muzdalifah.
And Allah knows best.
Darul Ifta Darul Uloom Waqf, Deoband
Fiqh
Ref. No. 3404/46-9305
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جس زیور کے بنانے کا موصوفہ نے آرڈر دیا ہے اس کی زکوۃ ان پر لازم نہیں ہوگی جب تک کہ ان کے پاس وہ زیور تیار ہوکر نہ آجائے۔ البتہ سال پورا ہونے کے دن جتنے پیسے ان کے پاس تھے اور جو اڈوانس رقم جمع کی تھی وہ سب زکوۃ میں محسوب ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3403/46-9306
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اس طرح کی نوکری میں بظاہر کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی تقریب ہو جو اسلام مخالف نہ ہو تو اس میں شرکت کرکے اپنی حق بات آپ پیش کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی غیراسلامی تقریب ہو تو اس میں شرکت سے گریز کیا جائے اور اگر جانا ضروری ہو تو افعال شرکیہ سے بچتے ہوئے شرکت کی اجازت ہوگی۔ اعمال شرکیہ کے لئے اگر مجبور کیاجائے تو بھی اس کو کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 3402/46-9307
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ مسجد کمیٹی نے موجودہ امام صاحب کا تقرر کیاتھا، اور آئندہ کے امام کا تقرر بھی کمیٹی ہی کرے گی۔ نئے امام کے تقرر کے لئے موجود امام سے اجازت لینا یا مشورہ لینا ضروری نہیں ہے۔ تاہم اگر کمیٹی کا موجودہ امام کے ساتھ تقرری کے وقت کوئی معاہدہ ہوا ہو تو اس کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ معاہدہ کی خلاف ورزی درست نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Hajj & Umrah
Ref. No. 3401/46-9308
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ سرسوں کا تیل خوشبودار تیلوں میں شامل نہیں ہےتاہم اسے سر پر لگانے کی وجہ سے زینت کا درجہ حاصل ہوجاتاہے ، اس لئے اس کے استعمال سے کوئی دم لازم نہ ہوگا البتہ اس کے لگانے سے بھی حالت احرام میں پرہیز کرنا چاہئے۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 190): "ولو ادهن بدهن فإن كان الدهن مطيبا كدهن: البنفسج، والورد، والزئبق، والبان، والحرى، وسائر الأدهان التي فيها الطيب فعليه دم إذا بلغ عضوا كاملا. وحكي عن الشافعي أن البنفسج ليس بطيب، وأنه غير سديد؛ لأنه دهن مطيب فأشبه البان وغيره من الأدهان المطيبة، وإن كان غير مطيب بأن ادهن بزيت أو بشيرج فعليه دم في قول أبي حنيفة، وعند أبي يوسف ومحمد عليه صدقة".
الفتاوى الهندية (1/ 224): "ولايمس طيباً بيده، وإن كان لايقصد به التطيب، كذا في فتاوى قاضي خان ولا يدهن كذا في الهداية".
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3399/46-9309
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر زید نے نومنیشن کے کاغذات میں یہ لکھا ہے کہ میں نے یہ مکان ان دوبچیوں کو دیدیا ہے تو یہ مکان صرف ان دو نابالغ بچوں کا ہی ہوگا اور اس میں کسی وارث کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کاغذات میں یہ ہو کہ میرے مرنے کے بعد یہ مکان میرے دو نابالغ بچوں کو دیاجائے تو پھر اس میں وراثت جاری ہوگی۔ اس لئے کاغذات کو غور سے پڑھ لیاجائے۔ مرنے والے نے اپنی زندگی میں جس کو جو چیز دے کر مالک بنادیا وہ اسی کا ہوگیا اس میں دیگر ورثا کا کوئی حق نہیں ہوگا۔ اور مابقیہ ڈھائی روپئے میں وراثت جاری ہوگی۔
(و) شرائط صحتھا (في الموھوب: أن یکون مقبوضا، غیر مشاع، ممیزا غیر مشغول) کما سیتضح (ورکنھا):ھو (الإیجاب والقبول) کما سیجیئ‘‘. وتحتہ في الرد:’’(قولہ:أن یکون مقبوضا) فلا یثبت الملک للموھوب لہ قبل القبض کما قدمنا. وفي الزیلعي: وأما القبض فلا بد منہ لثبوت الملک، إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق‘‘.(التنویر مع الدر: (کتاب الھبۃ: ١٢/ ٥٣٨:دار الفکر بیروت)
الھبۃ عقد مشروع لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:تھادوا تحابوا وعلی ذلک انعقد الإجماع، وتصح بالإیجاب والقبول والقبض، أما الإیجاب والقبول فلأنہ عقد، والعقد ینعقد بالإیجاب والقبول، والقبض لا بد منہ لثبوت الملک، وقال مالک رحمہ اللہ: یثبت الملک فیہ قبل القبض اعتبارا بالبیع، وعلی ھذا الخلاف الصدقۃ، ولنا قولہ علیہ الصلاۃ والسلام: لا تجوز الھبۃ إلا مقبوضۃ‘‘.(الھدایۃ: کتاب الھبۃ: ٣/ ٢٨٥:رحمانیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Divorce & Separation
Ref. No. 3398/46-9310
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔شوہر کے ساتھ بیوی کا اس امر پر اتفاق ہوا کہ اگر شوہرآئندہ کسی بھی قسم کے ولوگ دیکھے گا تو بیوی پر طلاق ہوگی، تو اس جملہ میں کسی طرح کی کوئی قید نہیں ہے کہ کس قسم کے ولوگ دیکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس لئے عام الفاظ کے مطابق شوہر کے ولوگ دیکھنے سے ایک طلاق واقع ہوگئی اور قسم پوری ہوگئی۔ اب اس کے بعد اگر شوہر ولوگ دیکھتاہے تومزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ صورت مسئولہ میں چونکہ ایک طلاق واقع ہوئی ہے اس لئےشوہر عدت کے اندر رجعت کرسکتاہے۔ اور اگر عدت گزرچکی ہو تو آپسی رضامندی سے نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ البتہ خیال رہے کہ آئندہ شوہر کو صرف دو طلاق کا اختیار رہے گا۔
"(وتنحل) اليمين (بعد) وجود (الشرط مطلقا) لكن إن وجد في الملك طلقت وعتق وإلا لا." (الد المختار، کتاب الطلاق، باب التعلیق، ج:3، ص:355، ط:سعید)
لو حلف لا يدخل دار فلان يحنث بوضع القدمين وإن كان باقي بدنه خارجها. (البحر الرائق شرح كنز الدقائق: (28/2، ط: دار الكتاب الإسلامي)
عن أبي يوسف رحمه الله: رجل حلف بطلاق امرأته أن لا تشرب نبيذاً إلا بإذن فلان، ولا تأكل طعاماً إلا بإذن فلان، قائماً هذا الإذن على شربة واحدة، وعلى لقمة واحدة. (المحيط البرهاني في الفقه النعماني: (370/3، ط: دار الكتب العلمية)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند