Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر عیدین اور نمازِ جنازہ جمع ہوجائیں، تو پہلے عید کی نماز پڑھی جائے؛ اس لیے کہ عید کی نماز واجب علی العین ہے۔ اور نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے اور عیدکی نماز کے بعد خطبہ عید سے پہلے نماز جنازہ پڑھی جائے پھر خطبہ پڑھی جائے، البتہ اگر مجمع منتشر ہونے کا اندیشہ ہو تو جنازہ کی نماز خطبہ کے بعد پڑھ لی جائے۔(۱)(۱) (وتقدم) صلاتہا (علی صلاۃ الجنازۃ إذا اجتمعا)؛ لأنہ واجب عینا، والجنازۃ کفایۃ، (و) تقدم (صلاۃ الجنازۃ علی الخطبۃ)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۳، ص: ۴۶)وتقدم صلاۃ العید علی صلاۃ الجنازۃ إذا اجتمعتا، وتقدم صلاۃ الجنازۃ علی الخطبۃ، کذا في القنیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۳)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 281
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدین کے دن مذکورہ چیزیں مسنون ہیں:(۱) شرع کے موافق اپنی آرائش کرنا۔ (۲) غسل کرنا۔ (۳) مسواک کرنا۔ (۴) عمدہ سے عمدہ کپڑے نئے ہوں یا دھلے ہوئے ہوں پہننا۔ (۵) خوشبو لگانا۔ (۶) صبح کو بہت سویرے اٹھنا۔ (۷) عیدگاہ میںسویرے سویرے جانا۔ (۸) عیدگاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھجور یا چھوارا کھانا۔ (۹) عیدگاہ جانے سے قبل صدقۃ الفطر ادا کرنا۔ (۱۰) عیدین کی نماز عیدگاہ میں ادا کرنا، شہر کی مسجد میں بلا عذر نہ پڑھنا۔ (۱۱) ایک راستے سے جانا دوسرے راستہ سے واپس ہونا۔ (۱۲) پیدل چل کر عیدگاہ جانا۔ (۱۳) راستہ میں تکبیر تشریق پڑھنا اور عیدالاضحی میں نماز سے پہلے نہ کھانا مستحب ہے۔(۱)(۱) وندب في الفطر ثلاثۃ عشر شیئاً أن یأکل وأن یکون المأکول تمرا ووترا ویغتسل ویستاک ویتطیب ویلبس أحسن ثیابہ ویودي صدقۃ الفطر إن وجبت علیہ ویظہر الفرح والبشاشۃ وکثرۃ الصدقۃ حسب طاقتہ والتبکیر وہو سرعۃ الانتباہ والابتکار وہو المسارعۃ إلی المصلیٰ وصلاۃ الصبح في مسجد حیہ ثم یتوجہ إلی المصلیٰ ماشیا مکبرا سرا ویقطعہ إذا انتہی إلی المصلیٰ في روایۃ، وفي روایۃ أخری إذا افتتح الصلاۃ ویرجع من طریق آخر، وأحکام الأضحیٰ کالفطر لکنہ في الأضحیٰ یؤخر الأکل عن الصلاۃ ویکبر في الطریق جہراً ویعلم الأضحیۃ وتکبیر التشریق في الخطبۃ وتؤخر بعذر إلی ثلاثۃ أیام والتعریف لیس بشيء (حکم تکبیر التشریق ومدتہ ومن تجب علیہ)۔ (حسن الوفائي الشرنبلالي أبوالإخلاص، نور الإیضاح ونجاۃ الأرواح، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ص: ۸۶)قولہ: (وندب یوم الفطر أن یطعم ویغتسل ویستاک ویتطیب ویلبس أحسن ثیابہ) … وزاد في الحاوي القدسي أن من المستحبات التزین وأن یظہر فرحاً وبشاشۃ ویکثر من الصدقۃ حسب طاقتہ وقدرتہ، وزاد في القنیۃ، استحباب التختم والتکبیر وہو سرعۃ الانتباہ والابتکار وہو المسارعۃ إلی المصلی وصلاۃ الغداۃ في مسجد حیۃ والخروج إلی المصلیٰ ماشیا والرجوع في طریق آخر والتہنئۃ بقولہ ’’تقبل اللّٰہ منا ومنکم‘‘ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 280
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر کے دن دو رکعت نماز پڑھی اور اس سے پہلے یا بعد آپ نے کوئی نفل نہیں پڑھی اس لیے احناف کے نزدیک عید کی نماز سے قبل نفل پڑھنا مکروہ ہے۔ عیدگاہ میں ہو یا گھر پر ہو یا کسی اور جگہ پر ہو اور نماز عید ہوجانے کے بعد عیدگاہ میں تو نماز نفل مکروہ ہے گھر میں نفل پڑھنا مکروہ نہیں ہے۔ گھر میں آکر یا عیدگاہ سے الگ ہوکر نماز نفل پڑھ سکتے ہیں۔ نماز عید سے قبل اشراق کی نفل پڑھنا بھی مکروہ ہے البتہ نماز عید کے بعد گھر آکر چاشت کی نماز پڑھ سکتے ہیں۔(۱)(۱) ولا یتنفل قبلہا مطلقاً) … (وکذا) لایتنفل (بعدہا في مصلاہا) فإنہ مکروہ عند العامۃ (وإن) تنفل بعدہا (في البیت جاز)۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: یطلق المستحب علی السنۃ وبالعکس‘‘: ج ۳، ص: ۵۰ تا ۵۲) ولا یتنفل في المصلیٰ قبل صلاۃ العید لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یفعل ذلک مع حرصہ علی الصلاۃ ثم قیل الکراہۃ في المصلیٰ خاصۃ وقیل: فیہ وفي غیرہ عامۃ لأنہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یفعلہ۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۳)قولہ: (ولا یتنفل في المصلی قبل صلاۃ العید) وعامۃ المشائخ علی کراہۃ التنفل قبلہا في المصلیٰ والبیت وبعدہا في المصلیٰ خاصۃ لما في الکتب الستۃ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم خرج فصلی بہم العید لم یصل قبلہا ولا بعدہا۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۷۱)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 279
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اس جگہ پر نماز عید تو درست ہے؛ البتہ حکومت سے اجازت حاصل کرلی جائے تو بہتر ہے تاکہ کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔(۲)(۲) (و) تکرہ في (أرض الغیر بلا رضاہ) وإذا ابتلی بالصلاۃ في أرض الغیر ولیست مزروعۃ أو الطریق إن کانت لمسلم صلی فیہا وإن کانت لکافر صلی في الطریق۔ (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح متن نور الإیضاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘ مکتبہ اسعدی، سہارنپور: ج ۱، ص: ۱۳۰)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 278
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدگاہ جانے سے قبل طاق عدد چھوارے یا کھجوریں ورنہ تو شیریں چیز کھانا مستحب ہے، سوئیوں وغیرہ کی کوئی خصوصیت نہیں ہے؛ بلکہ بے اصل ہے اس کو مسنون نہ سمجھا جائے۔(۱)(۱) قولہ: (حلوا) … ویستحب کون ذلک المطعوم حلوا لما في البخاري أنہ کان علیہ الصلاۃ والسلام لایغدو یوم الفطر حتی یأکل تمرات ویأکلہن وترا۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۳، ص: ۴۸)واستحب في عبد الفطر أن یأکل قبل الخروج إلی المصلیٰ تمیرات ثلاثاً، أو خمساً، أو سبعاً، أو أقل، أو أکثر بعد أن یکون وتراً، وإلا ما شاء من أي حلوٍ کان، کذا في العیني شرح الکنز، ولو لم یأکل قبل الصلاۃ لا یأثم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱) …قولہ: (وندم یوم الفطر أن یطعم الخ) اقتداء بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ویستحب کون ذلک المطعوم حلوا لما روي البخاري: کان علیہ الصلاۃ والسلام لا نعد ویوم الفطر حتی یأکل تمرات ویأکلہن وترا، وأما ما یفعلہ الناس في زماننا من جمع التمر مع اللبن والفطر علیہ فلیس لہ أصل في السنۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۷)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 277
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز عید کے لیے عیدگاہ جانا مسنون ہے اور بلا عذر نہ جانا خلاف سنت ہے تاہم اگر آبادی کی وسعت اور عیدگاہ کے تنگ ہونے کی وجہ سے تمام لوگ عیدگاہ میں نہیں آ سکتے ہیں تو عید کی نماز متعدد مساجد میں ادا کی جاتی ہے اور ایسے لوگ ترک سنت کے گنہگار نہیں ہوں گے اس لیے کہ ان لوگوں کا عیدگاہ نہ جانا عذر کی بنا پر ہے۔(۱)(۱) حتی توصل إلیہ في الجامع ولم یوجہ إلی المصلیٰ فقد ترک السنۃ۔ (إبراہیم بن محمد الحلبي، کبیري، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۵۲۹)فإن کانت صلاۃ العید واجبۃ حتی لو صلی العید في الجامع ولم یتوجہ إلی المصلیٰ فقد ترک السنۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۷۸)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 277
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: بعض نے مکروہ لکھا ہے اور بعض نے عدم کراہت کی تصریح کی ہے، دونوں میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جو مکروہ فرماتے ہیں اس سے مراد مکروہ تنزیہی ہے اور جو کراہت کی نفی کرتے ہیں اس سے مراد مکروہ تحریمی ہے۔مسنون یہ ہے کہ نماز عید الاضحی کے بعد قربانی کے گوشت سے کھائے۔(۱)(۱) ویندب تاخیر أکلہ عنہا أي یندب الإمساک عما یفطر الصائم من صبحہ إلی أن یصلي، فإن الأخبار عن الصحابۃ تواترت في منع الصبیان عن الأکل والأطفال عن الرضاع غداۃ الأضحیٰ الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۶۰)وفي الکبری: الأکل قبل الصلاۃ یوم الأضحی، ہل ہو مکروہ؟ فیہ روایتان، والمختار: أنہ لا یکرہ لکن یستحب لہ أن لا یفعل، کذا في التتارخانیۃ، ویستحب أن یکون أول تناولہم من لحوم الأضاحي التي ہي ضیافۃ اللہ، کذا في العیني، شرح الہدایۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱)(لکن یؤخر الأکل عنہا) للاتباع فیہما وہو مستحب۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 276
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: اس سلسلے میں جو مرفوع روایات ہیں وہ متکلم فیہ ہیں اور جو متکلم فیہ نہیں ہیں وہ مرسل ہیں اس لئے کتب احناف میں بعض میں ترک سلام کو افضل اور بعض میں مباح اور بعض میں مستحب لکھا ہے، احناف نے اس کو اس لئے اختیار نہیں کیا کہ عوام اس کو لوازم خطبہ میں سے سمجھنے لگیں گے جو کہ درست نہیں ہے، نیز ’’إذا خرج الإمام فلا صلاۃ ولا کلام‘‘ میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقعہ پر سلام ملحق بالصلوٰۃ ہوگا یا ملحق بالکلام اور امام کے سلام کرنے سے حاضرین جواب دیں گے جو کہ کلام ہے اور مذکورہ بالا حدیث کی بنا پر ممنوع ہے، تاہم اگر کوئی سلام کرلے تو اس پر بھی ملامت نہ کی جائے۔’’ومن السنۃ جلوسہ في مخدعہ عن یمین المنبر، ولیس السواد، وترک السلام من خروجہ إلیٰ دخولہ في الصلاۃ‘‘(۱)’’والخطیب إذا صعد المنبر لا یسلم علی القوم عندنا، وبہ قال مالک: لأنہ قد سلم عند دخولہ فلا معنی تسلیمہ ثانیا‘‘(۱)’’من أصرّ علی أمر مندوب وجعلہ عزما ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال فکیف من أصر علی بدعۃ أو منکر‘‘(۲)’’عن عطاء عن ابن عباس وابن عمر رضي اللّٰہ عنہم أنہما کانا یکرہان الصلاۃ والکلام یوم الجمعۃ بعد خروج الإمام‘‘(۳)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في قول الخطیب: قال اللّٰہ تعالیٰ: أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم‘‘: ج ۳، ص: ۲۲، ۲۳۔(۱) إبراہیم حلبي، حلبي کبیري: ص: ۵۶۲۔(۲) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الدعاء في التشہد‘‘: ج ۳، ص: ۲۶۔(۳) أخرجہ ابن أبي شیبۃ في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ: في الکلام إذا صعد الإمام المنبر وخطب‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۸، رقم: ۵۲۹۷۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 275
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: دوران خطبہ کلام تو ممنوع ہے ’’إذا خرج الإمام فلا صلوۃ ولا کلام‘‘ کی وجہ سے اور اشارہ کلام نہیں مگر چوں کہ کلام کے مشابہ ہے، اس لئے کراہت سے خالی نہیں۔نیز اشارہ سے سلام مطلقاً ممنوع ہے:’’عن عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ أظنہ مرفوعاً، قال: لیس منا من تشبہ بغیرنا لا تشبہوا بالیہود ولا بالنصاری، فإن تسلیم الیہود الإشارۃ بالأصابع، وإن تسلیم النصاری بالأکف‘‘(۲)اس لئے دوران خطبہ مقتدیوں کو ہاتھ کے اشارہ سے سلام کرنے سے بچنا چاہئے۔(۲) أخرجہ الطبراني في المعجم الأوسط: ج ۵، ص: ۲۹۴، رقم: ۷۳۸۰، بیروت۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 274
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: عیدین کے خطبہ کے لئے مسنون طریقہ یہی ہے کہ عیدین کی نماز کے ادا کرنے کے بعد پڑھا جائے نماز کی ادائیگی سے قبل پڑھنا مکروہ ہے، تاہم اگر پہلے خطبہ دیدیا تو خطبہ اور نماز دونوں درست ہو جائیں گی۔’’اعلم أن الخطبۃ سنۃ وتاخیرہا إلی ما بعد الصلاۃ سنۃ أیضاً‘‘(۳)’’قولہ: (ویخطب بعدہا خطبتین) اقتداء بفعلہ علیہ الصلاۃ والسلام بخلاف الجمعۃ فإنہ یخطب قبلہا لأن الخطبۃ قبلہا شرط والشرط متقدم أو مقارن، وفي العید لیست بشرط، ولہذا إذا خطب قبلہا صح وکرہ لأنہ خالف السنۃ کما لو ترکہا أصلاً‘‘(۱)(۳) أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۲۸۔(۱) ابن نجیم، البحرا الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 273