Frequently Asked Questions
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3245/46-8034
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئو لہ میں امام نے قرات مکمل نہیں کی، اور 'حرم' کے بعد دونوں نمازوں میں مفعول کا تذکرہ نہیں کیا یعنی یہ کہا کہ اللہ نے حرام کیا ہے مگر کیا حرام کیا ہے اس کی تصریح نہیں ہے؛ تو ایسی صورت میں معنی میں کوئی خرابی پیدانہیں ہوئی جس سے نماز فاسد ہو، اس لئے دونوں نمازیں درست ہوگئیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Ijmaa & Qiyas
Ref. No. 3241/46-8027
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ این ایف ٹی کے بارے میں پڑھنے سے معلوم ہوا کہ اس میں جاندار یا غیرجاندار تصویر کی خریدوفروخت ملٹی لیول مارکیٹنگ کےطور پرکرپٹو کرنسی کے ذریعہ ہوتی ہے۔ شرعی اعتبار سے ملٹی لیول مارکیٹنگ کا معاملہ ناجائز ہے، اور کرپٹو کرنسی کو ابھی تک حکومت کی ذمہ داری ، منظوری اور کرنسی کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس لئے اگر صرف غیرجاندار کی تصویر کی خریدوفروخت ہو اور معاملہ مروجہ پیسوں میں اور حکومت کی منظورشدہ کرنسی میں قیمت طے کی جائے تو اس حد تک اس میں کوئی خرابی نہیں ہے، لیکن اگر تصویر جاندار کی ہو یاغیرجاندار کی تصویر ہو جس کی قیمت میں کئی لوگ شریک ہوں اور اس میں شاخ در شاخ لوگ جڑتے ہوں ، اور اس کو کسی ملک کی خاص کرنسی میں نہ بیچاجاتاہو تو ایسامعاملہ ناجائز ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3240/46-8007
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مرحومہ کو خواب میں بیمار یا غمزدہ دیکھنا اس بات کا اشارہ دیتاہے کہ ان کو ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہے۔ اس لئے آپ ان کے لئے ایصالِ ثواب اورصدقۂ جاریہ کا اہتمام کریں۔ نیز یہ بھی معلوم کریں کہ ان کے ذمہ کچھ (نماز و روزہ وغیرہ) واجب الاداء تو نہیں ہیں اگر ہوں تو ان کی ادائیگی کی کوشش کریں۔ ان شاء اللہ آپ کے ایصال ثواب اور صدقہ جاریہ کا ان کو پورا فائدہ پہونچے گا اور ان کو قبرکی راحتیں میسر ہوں گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3239/46-8009
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ڈھول باجا اور آلاتِ موسیقی کا استعمال شریعت میں ناجائز ہے اور حمدونعت رسول ﷺ کے ساتھ موسیقی کے استعمال اور بھی برا ہے۔آج کےمروجہ قوالی میں بہت زیادہ مفاسد پائے جاتے ہیں، اس لئے ایسی قوالی جس میں آلات موسیقی کا استعمال بہت نمایاں طور پر کیاگیا ہو، گرچہ قوالی کےمضامین کتنے ہی عمدہ ہوں ، اس کا سننا جائز نہیں ہے۔ ہاں اگر قوالی کے مضامین اچھے اور شریعت کے مطابق ہیں ، عشقیہ اشعار پر مشتمل نہیں ہیں تو ان کو بغیر موسیقی کے سننا جائز ہے۔
"قال الشارح: زاد في الجوهرة: وما يفعله متصوفة زماننا حرام لا يجوز القصد والجلوس إليه ومن قبلهم لم يفعل كذلك، وما نقل أنه - عليه الصلاة والسلام - سمع الشعر لم يدل على إباحة الغناء. ويجوز حمله على الشعر المباح المشتمل على الحكمة والوعظ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/349)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Miscellaneous
Ref. No. 3238/46-8028
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لیٹر آف کریڈٹ کی شرعی حیثیت کفالت اور ضمانت کی ہے یعنی لیٹر آف کریڈٹ جاری کرنے والا بینک گاہک کی جانب سے کفیل اور ضامن بنتاہے اور اس کے عوض بینک اپنی اجرت مثل وصول کرتاہے یہ شرعا درست ہے جس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ بینک بائع سے یہ کہتاہے کہ مشتری کو یہ سامان دے دو اور چار ماہ میں یہ پیسے ادا کردے گا لیکن اگر اس مدت میں اس نے ادا نہ کیا تو بینک خود ادا کرے گا ۔یہاں تک کا معاملہ شرعا درست ہے لیکن صورت مسؤلہ میں گویا بائع 120 دن کے لیٹر آف کریڈٹ سے راضی نہیں ہوتاہے اور وہ اپنی رقم جلدی لینا چاہتاہے اس کے جواب میں گاہک نے اس کو یہ پیش کش کی ہے کہ لیٹر آف کریڈت کا ڈسکاؤنٹ کرائے یعنی وہ بینک سے وہ رقم تیس دن میں وصول کرے اور اس کا ڈسکاؤنٹ چارج گاہک برداشت کرے گا یہ صورت ناجائز ہے اس لیے کہ اس صورت میں بینک گویا گاہک کی جانب سے بطور قرض بائع کو رقم دیتاہے اور گاہک سود کے ساتھ اس قرض کوواپس کرتاہے لہذا بینک سے سودی قرض لینا ہوا اور سودی قرض بلا ضرورت شدیدہ کے لینا جائز نہیں ہے اس لیے یہ دوسری صورت ناجائز ہے ۔تجوز التجارۃ عن طریق فتح الاعتماد فی البنک ویجوز دفع عمولۃ فتح الا عتماد الی البنک تجاہ الخدمات التی یقدمہابشرط ان لا یستلزم دفع فائدۃ ربویۃ ( فقہ البیوع،2/1168( جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ ہمارے پیش نظر یہ رہنا چاہیے کہ محض حالات اور مارکیٹ کی صورت حال دیکھ کر چاہے وہ سودی قرضے پر مشتمل ہو یا ناجائز طریقے پر مشتمل ہو عمل کرنا جائز نہیں ہے بلکہ شریعت کو پیش نظر رکھ اس میں موجود گنجائش پر ہی عمل کرناچاہیے خواہ اس کی وجہ سے کاروبار کا کچھ نقصان کیوں نہ ہوجائے ۔اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے کاروبار کے متبادل پر غور کرنا چاہیے نہ یہ ہے کہ حلال و حرام سے بے پرواہ ہوکر کاروبار کرنا چاہیے ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3237/46-8006
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ نے جو واقعہ نقل کیا ہے وہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ بخاری (5126۔ فتح) و مسلم (2766)
خیال ہے کہ حقوق العباد میں بہت محتاط رہنا چاہئے، تاہم اگر کسی کی حق تلی ہوجائے تو اس سے معافی مانگنا چاہئے، اگر آپ نے معافی مانگنے کا ارادہ کیا مگر اس شخص کا انتقال ہوگیا تو اب اس سے معافی مانگنے کی کوئی شکل تو نہیں ہے، تاہم اس کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے اور اس کی طرف سے صدقہ وغیرہ دینے سے امید ہے کہ اللہ تعالی آپ سے اس بارے میں بازپُرس نہ فرمائیں گے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
زیب و زینت و حجاب
Ref. No. 3236/46-8012
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کا اپنے محرم کے سامنے نہ تو سر کا کھولنا واجب ہے اور نہ ہی چھپانا واجب ہے۔ عورت کا اپنے محارم کے سامنے اپنے سر کو چھپانا احترام و ادب کے طور پر ہوتاہے۔ اس کو شرعی واجب خیال رکھنا تو یقینا غلط ہے تاہم ادب و حترام کے طور پر اگر وکئی عورت اپنے والد اور بڑے بھائی وغیرہ کے سامنے سر کو ڈھانکتی ہے تو اس کو بدعت نہیں کہاجائے گا، کیونکہ ہمارے معاشرہ میں بڑوں کے سامنے سر ڈھانکنا ادب کا حصہ شمارکیاجاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3235/46-8011
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ کا اس لڑکی سے بات چیت کرنا شرعا حرام تھا اور غلط تھا۔ اب شریعت کی اتباع میں اگر آپ نے اس سے بات چیت بند کردی اور اس کی وجہ سے وہ ٹینشن میں آئی اور حادثہ ہوا تو آپ اس کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ اللہ کی رضا کے لئے کام کرتے ہوئے کسی کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ ایکسیڈنٹ مقدر تھا وہ ہوگیا۔ اب آپ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں ، اللہ تعالی ہی گناہوں کو معاف کرنے والے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
مساجد و مدارس
Ref. No. 3233/46-8026
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واقف نے زمین مسجد کے لئے وقف کردی اور اس جگہ مسجد بھی بن گئی تو اب رجوع کرنا درست نہیں ہے۔ وقف تام ہونے کے بعد زمین واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اب واقف اس کا مالک نہیں ہے۔ اگر زبردستی واپس لے گا تو سخت گنہگار ہوگا۔ لیکن اگر واقف زمین کو مسجد کے لئے وقف کرچکاہے اور اس کو واپس نہیں لے رہاہے بلکہ محض مسجد کے نام رجسٹری کرانے سے منع کررہاہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے تاہم اس کوسمجھایاجائے کہ جب زمین وقف کردی ہے تو بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو اس لئے اس کی رجسٹری ضروری ہے، ورنہ بعد میں ورثہ لوگوں کو پریشان کریں گے اور مسجد جو آپ کے لئے صدقہ جاریہ ہے وہ محفوظ نہیں رہے گی۔البتہ اگر وہ رجسٹری کے لئے تیار نہ ہوں تو ایک کاغذ پر ان سے اقرارنامہ لکھوالیاجائے کہ انھوں نے فلاں فلاں گواہوں کی موجودگی میں اتنی زمین مسجد کے لئے وقف کردی ہے تاکہ مستقبل میں ممکن ہے کہ اس کاغذ کی ضرورت پڑے ۔ (۱) پوری زمین خواہ اس پر عمارت ہو یا نہ ہو وقف شدہ ہے، اس کو واپس لینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے۔مسجد میں تواب کوئی تبدیلی بھی نہیں ہوسکتی ہے ۔ (۳،۲) اب اس مسجد میں واقف کا کوئی اختیار باقی نہیں ہے بلکہ وہ مسجد اب اللہ کی ملکیت ہے، اور عام مسلمانوں کو اس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے، جو نمازیں پڑھی گئیں سب درست ہوگئیں اورآئندہ بھی اس میں نماز جاری رکھی جائے۔ واقف کو بالکل اختیار نہیں کہ کسی کو مسجد سے نماز اداکرنے سے روک ٹوک کرسکے۔
نوٹ: اس مسئلہ کو سنجیدگی سے آپسی مشورہ اور بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما". (الھندیۃ، كتاب الوقف ، الفصل الأول في تعريف الوقف ،ج: 2،ص: 350، ط: دار الفكر)
"وإذا كان الملك يزول عندهما يزول بالقول عند أبي يوسف - رحمه الله تعالى - وهو قول الأئمة الثلاثة وهو قول أكثر أهل العلم وعلى هذا مشايخ بلخ وفي المنية وعليه الفتوى كذا في فتح القدير وعليه الفتوى كذا في السراج الوهاج،" (الھندیۃ، کتاب الوقف،الباب الاول فی تعریفه،وسببه وحكمه، ج:2، ص:351، ط:مکتبه رشیدیه)
"وعند الصاحبين وبرأيهما يفتى: إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه. وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته،" (الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي، الباب الخامس:الوقف، الفصل الثالث حكم الوقف، ج:10، ص:7617، ط:دارالفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3231/46-8010
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ۱۔ جب باپ الگ کمائی کرتاہے اور بیٹا الگ کمائی کرتاہے تو ہر ایک اپنی اپنی کمائی کا مالک ہے، کسی کو دوسرے سے حساب مانگنے کا حق نہیں ہے، البتہ اگر والدین محتاج و ضرورتمند ہیں وت ان کا نفقہ اولاد پر لازم ہے۔ ۲۔ والد کے ذریعہ لئے گئے قرض کی ادائیگی اگرچہ بیٹے پر لازم نہیں ہے لیکن اسلام نے غیروں کے ساتھ بھی حسن سلوک وہمدردی کی تعلیم دی ہے۔ والدین اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ اولاد ان کے ساتھ حسن سلوک کرے جیسے انسان سپنے بیوی بچوں کی ضروریات کا خیال رکھتاہے والدین کا بھی خیال رکھے۔ والدین نے یہ قرض اولادکی وجہ سے لیا ہے تو اس کی ادائیگی پر تعاون کرنا باعث اجروثواب بھی ہے اور والدین کی دعاوں کا ذریعہ بھی ۔ ۳۔ قرآن کریم و احادیث میں بدگمانی ، غیبت اور تجسس سے منع کیاگیا اور اس کو گناہ قراردیا۔ نیز قطع تعلق سے منع کیاگیاہے بلکہ صلہ رحمی اور تعلق جوڑنے کا حکم دیاگیا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ (سورۃ الحجرات ۱۲)
وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ (سورۃ الرعد ۲۱) وَ یَقْطَعُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ (سورۃ البقرۃ 27) وقال النبی ﷺ صل من قطعک واحسن الی من اسائ الیک و قل الحق ولو علی نفسک (صحیح الجامع 3769)
اس لئے آپ کے والدین کا یہ عمل شرعا جائز نہیں ہے۔
۴۔ شادی کے بعد شوہر کو اپنی بیوی کو اپنے ساتھ ہی رکھنا چاہئے، اس میں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ علیحدہ رہنے کی صورت میں گناہ میں مبتلا ہونے یا دیگر مفاسد کا اندیشہ ہوتاہے، البتہ اگر والدین ضرورت مند ہیں تو ان کے نفقہ وضروریات کا خیال رکھنا یاجسمانی اعتبار سے کمزور ہیں تو ان کی خدمت کا خیال رکھنا بھی اولاد پر لازم ہے۔ اگرآپ باہر رہتے ہیں اور ازخود ان کی خدمت نہیں کرسکتےتو ان کے لئے کسی خادم وغیرہ کا انتظام کردینا بھی کافی ہے۔
وعلی الرجل الموسر ان ینفق علی ابویہ واجدادہ وجداتھا اذا کانوا فقرا وان خالفوہ فی الدین (الھدایۃ ، باب النفقۃ 2/440)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند