Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ختم قرآن پراور روزانہ تراویح کے ختم پر دعاء مسنون ومستحب ہے، کیوں کہ تراویح بھی مستقل نماز ہے، حدیث میں ہے یہ وقت اجابت کا ہے۔(۲)
’’عن ثابت أن أنس بن مالک کان إذا ختم القرآن جمع أہلہ وولدہ فدعا لہم‘‘(۱)
(۲) عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ قال یا معاذ واللّٰہ إني لأحبک فقال أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول اللّٰہم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔ (أخرجہ أبي داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في الاستغفار‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۲۲)(۱) الطبراني، في المعجم الکبیر: ج ۱، ص: ۲۹۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت۔
عن مغیرۃ بن شعبۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول دبر کل صلاۃ مکتوبۃ لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۴، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 46
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں سنت چھوڑ کر نماز تراویح میں شامل ہو جائے اور سنن بعد میں پڑھے۔(۱)
(۱) ورکعتان قبل الصبح وبعد الظہر والمغرب والعشاء شرعت البعد فیہ لجیر النقصان۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲)
لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ الخ۔ (أیضاً: )
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 46
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کا وقت مقرر ہے، یعنی عشاء کے بعد سے صبح صادق کے طلوع ہونے تک، اگر صبح صادق سے پہلے خبر آجائے، تو حسب استطاعت تراویح پڑھ سکتے ہیں، البتہ وقت نکلنے کے بعد تراویح کی قضاء نہیں ہے، لیکن اگر وقت کے بعد بھی کوئی شخص تراویح پڑھے گا، تو وہ نفل نماز ہو جائے گی۔(۱)
(۱) حکم التراویح فی أنہا لا تقضی إذا فاتت لحکم بقیۃ رواتب اللیل لأنہا منہا، لأن القضاء من خواص الفرض۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)إذا فاتت التراویح لا تقضي بجماعۃ ولا بغیرہا وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 45
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھائی وہ نماز تراویح تھی نماز تہجد نہیں تھی، کیوں کہ آپ نے بیس رکعت دو رات تک جماعت کے ساتھ پڑھائی، بیس رکعت تراویح ہی ہوتی ہیں تہجد نہیں۔(۲)
(۲) وإن کانت لم تکن في عہد أبي بکر فقد صلاہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإنما أشفاقاً من أن تفرض علیٰ أمتہ وکان عمر ممن تنبہ علیہا وسنہا علی الدوام فلہ أجر وأجر من عمل بہا إلی یوم القیمۃ۔
عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم في المسجد ذات لیلۃ فصلی بصلاتہ ناس ثم صلی من القابلۃ فکثر الناس اجتمعوا من اللیلۃ الثالثۃ أو الرابعۃ فلم یخرج إلیہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما أصبح قال قد رأیت الذي صنعتم فلم یمعنی من الخروج إلیکم إلا أني خشیت أن یفرض علیکم قال وذلک في رمضان۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب الترغیب في قیام رمضان وہو التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹، رقم: ۷۶۱، دالاشاعت، یوبند)
أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب شہر رمضان، باب في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴ - ۱۹۵، رقم: ۱۳۷۳؛ وأخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التہجد: باب تحریض النبي صلاۃ اللیل والنوافل من غیر إیجاب‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲۹، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 44.
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3292/46-9024
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "ثاقب " عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے روشن ،چمک دار ، "مُحسِن" عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے: احسان کرنے والا۔ "اسرائیل" یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے، یہ ”اسرا“ اور”ایل“ دو لفظوں سے مرکب ہے، جس کا معنی ہے عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ معنی کے اعتبار سے یہ سب نام اچھے ہیں، اس لئے ان میں سے کوئی بھی نام رکھنا درست ہے۔ انگریزی میں آپ اس طرح لکھ سکتے ہیں۔ Saqib, Muhsin, Israeel.
(2) مفرد نام رکھنا ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ مرکب نام رکھنا بھی درست ہے بشرطیکہ معنی میں کوئی خرابی نہ ہو، البتہ نام رکھنے میں بہتر یہ ہے کہ صحابہ و تابعین کے ناموں سے انتخاب کیاجائے؛ وہ نام اچھے بھی ہوتے ہیں اور ان میں برکت بھی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 3206/46-9017
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی جسم واعضاء سے منزہ ہے لیکن قرآن و حدیث میں اللہ تعالی کے کچھ صفات متشابہات واردہوئی ہیں، کہ جن کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاترہے۔ پس ان صفات باری تعالٰی کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات اللہ تعالٰی کے لیے قرآن وحدیث میں ثابت ہیں، ان صفات کو ثابت مانیں گے اور جن صفات کی نفی کی گئی ہے ان کی نفی کریں گے۔ صورت مسئولہ میں پیر کی انگلی ناک وغیرہ چوں کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن و حدیث میں ثابت نہیں ہیں، تو ان کا انکار کرنے سےکفر لازم نہیں آئے گا۔ اس طرح کی چیزوں میں بہت زیادہ غور و خوض مناسب نہیں ہے۔ شرح الطحاویہ میں ہے:
والواجب ان ينظر في هذا الباب اعنى فى باب الصفات فما اثبته الله ورسوله اثبتناہ و ما نفاه الله ورسوله نفيناه ) (شرح الطحاوية ١٦٨)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 3206/46-9013
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی جسم واعضاء سے منزہ ہے لیکن قرآن و حدیث میں اللہ تعالی کے کچھ صفات متشابہات واردہوئی ہیں، کہ جن کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاترہے۔ پس ان صفات باری تعالٰی کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات اللہ تعالٰی کے لیے قرآن وحدیث میں ثابت ہیں، ان صفات کو ثابت مانیں گے اور جن صفات کی نفی کی گئی ہے ان کی نفی کریں گے۔ صورت مسئولہ میں پیر کی انگلی ناک وغیرہ چوں کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن و حدیث میں ثابت نہیں ہیں، تو ان کا انکار کرنے سےکفر لازم نہیں آئے گا۔ اس طرح کی چیزوں میں بہت زیادہ غور و خوض مناسب نہیں ہے۔
شرح الطحاویہ میں ہے: والواجب ان ينظر في هذا الباب اعنى فى باب الصفات فما اثبته الله ورسوله اثبتناہ و ما نفاه الله ورسوله نفيناه ) (شرح الطحاوية ١٦٨)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3282/46-9007
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کوئی شخص گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے زمین پر بیٹھ کر سجدہ نہیں کر سکتا ہے تو ایسی صورت میں قیام کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے اس لئے کہ قیام ورکوع سجدہ کے لئے وسیلہ ہیں ایسے شخص کو اختیار ہے چاہے مکمل نماز بیٹھ کر اشارہ سے پڑھے یا قیام ورکوع اور سجدہ اشارہ سے کرے، دونوں صورتیں جائز ہیں، البتہ فقہاء نے ایسی صورت میں پوری نماز بیٹھ کر پڑھنے کو بہتر قرار دیا ہے اور کرسی کے مقابلہ زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھنا افضل ہے۔
وفی الذخيرة: رجل بلحقه خراج ان سجد سال وهو قادر علي الركوع والقيام والقرأة يصلي قاعدا يولي" ولو صلي قائما بركوع وقعد وأما بالسجود أجزأه والأول أفضل" لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسها بل ليكونا وسيلتين الي السجود. (رد المحتار، ’’كتاب الصلاة: باب صلاة المريض‘‘: ج 2، ص: 97، سعيد)
(وان تعذر) ليس تعذرهما شرطا بلا تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ قاعدا) وهو أفضل من الايماء قائما لقربة من الأرض. (الدر المختار مع رد المحتار: ج 2، 97، سعيد)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3287/46-9013
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بے شمار لوگ فوت ہوئے مگرآپ کا معمول غائبانہ نماز جنازہ کا نہیں تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات کے بعد دور دراز علاقوں میں مقیم صحابہ سے بھی غائبانہ نماز جنازہ ثابت نہیں ہے۔ اس لئے ویڈیو کال پر نماز جنازہ پڑھنا یا جنازہ کی نماز کی اقتداء کرنا درست نہیں ہے، اس طرح کے رواج کو جلد ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ (2) مسجد میں کچھ صفیں خالی ہیں ان کو چھوڑ کر مسجد کی دیوار سے متصل مسجد کے باہر صف بنانا مکروہ ہے البتہ نماز درست ہوجائے گی۔ لیکن اگرمسجد اور باہر کی صفوں کے درمیان گزرگاہ ہے تو پھر اس طرح قتداء درست نہ ہوگی بلکہ پہلے مسجد کی صفوں کو پُرکرنا ضروری ہوگا۔
(1) فلاتصح علی غائب وصلاة النبي صلی الله علیه وسلم علی النجاشي لغویة أوخصوصیة(شامی، باب صلاۃ الجنازۃ، 2/209،ط:سعید)
عن عمران بن حصین أنّ النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن أخاکم النجاشي توفي فقوموا فصلّوا علیہ، فقام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، وصفّوا خلفہ فکبروا اربعًا وہم لا یظنّون إلا إن جنازتہ بین یدیہ رواہ ابن حبان کما في نصب الرایة وفي روایة: فصلینا خلفہ ونحن لا نری إلا أن الجنازة قُدّامنا (فتح الباري، نقلاً عن إعلاء السنن)
أخرج الحاکم وصحّحہ عن النبي - علیہ السلام- أنہ قال: کان آدم رجلاً أشعر طوالا کأنہ نخلة سحوق فلمّا حضرہ الموت، نزلت الملائکة بحنوطہ․․․ فلما مات علیہ الصلاة والسلام․․․ صلّوا علیہ (الطحطاوي علی المراقي: ۱/۵۸۰)
(2) في الدر المختار: (ويمنع من الاقتداء) صف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو ارتفاعهن قدر قامة الرجل مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقا، كأن قام في الطريق ثلاثة، وكذا اثنان عند الثاني لا واحد اتفاقا لأنه لكراهة صلاته صار وجوده. كعدمه في حق من خلفه.اھ وفي رد المحتار: (قوله إلا إذا اتصلت الصفوف) الاستثناء عائد إلى الطريق والنهر دون الخلاء لأن الصفوف إذا اتصلت في الصحراء لم يوجد الخلاءتأمل، وكذا لو اصطفوا على طول الطريق صح إذا لم يكن بين الإمام والقوم مقدار ما تمر فيه العجلة، وكذا بين كل صف وصف كما في الخانية وغيرها.اھ (1/ 584)۔ وفی الطحطاوی: وأن لایفصل بین الإمام والماموم نہر یمر فیه الزوروق (إلی قوله) ولا طریق تمر فیة العجلة ولیس فیه صفوف متصلة ولامنع فی الصلاة فاصل یسع فیه صفین علی المفتی بهاھ (۱/ ۱۵۹)۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3290/46-9018
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) سورہ فاتحہ کی ایک آیت یا آیت کے ایک جزء کے تکرار سے نماز صحیح ہوجاتی ہے، ہاں اکثر فاتحہ کے تکرار سے سجدہ سہو واجب ہوجاتاہے، البتہ فرض کی آخری دو رکعت میں واجب نہیں ہوتاہے، (2) فرض نماز میں سورہ فاتحہ کے علاوہ دوسری سورتوں میں آیتوں کا تکرار بلاضرورت و عذر مکروہ ہے، البتہ عذر ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (3) سورہ فاتحہ اور دیگر سورتوں کا تکرار سنن و نوافل میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔
فلو قرآھا فی رکعۃ من الاولین مرتین وجب سجود السھو لتاخیر الواجب (ردالمحتار 2/152)
وفی الھندیۃ واذا کرر آیۃ واحدۃ مرارا فان کان التطوع الذی یصلی وحدہ فذالک غیرمکروہ وان کان فی الصلوۃ المفروضۃ فھو مکروہ فی حالۃ الاختیار واما فی حالۃ العذر والنسیان فلاباس (الھندیۃ 1/107)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند