Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 3545/47-9550
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جن لوگوں سے پردہ لازم ہے، ان سے عورت ہر حال میں پردہ کرے گی، عدت کے زمانہ میں بھی پردہ لازم ہے اور عدت کے بعد بھی پردہ لازم ہے۔ اگر عورت عدت گزاررہی ہے تو جو لوگ غیر محرم ہیں ان کو چاہئے کہ اس سے دور رہیں اور سامنے نہ آئیں۔ شوہرنے کتنی طلاق دی ہے وغیرہ وضاحت دوبارہ لکھ کر بھیجیں تاکہ تفصیل سے جواب دیاجاسکے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 3544/47-9549
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ اگر ساڑھے پانچ دن پر سرخ خون بند ہوجاتاہے اور ہلکا سبز رنگ کی تری نظر آتی ہے، تو اگر یہ تری دس دن سے متجاوز ہوتی ہے تو ساڑھے پانچ دن حیض کے ہوں گے اور باقی استحاضہ کے ہوں گے۔ اور اگر یہ سبز رنگ کی تری دس دن حیض کے مکمل ہونے سے پہلے بند ہوجاتی ہے تو یہ حیض ہی ایام شمار ہوں گے اور ان کے بند ہونے کے بعد ہی عورت حیض سے پاک ہوگی۔ ہلکے سبز رنگ کا مادہ بھی خون ہی کے حکم میں ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
The Holy Qur’an & Interpretation
Ref. No. 3543/47-9548
In the name of Allah, the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Before marriage, one should make proper inquiries about each other and proceed with the consultation of the family. The Shar‘i ruling on this matter is as follows:
If the man was already married and his first wife was from the People of the Book (e.g., a Christian), according to Shari‘ah, he may marry a second time without divorcing her — provided that she is a follower of true Christianity. However, if she is an atheist or a disbeliever outside the People of the Book, such a marriage would not be valid, and continuing to live together would be unlawful.
If, in order to marry you, he recited the Islamic testimony of faith (Shahadah), then according to Shari‘ah, he will be regarded as a Muslim and the marriage will be valid. And his marriage with the first wife also remains valid.
However, if you have been deceived and wish, in accordance with Shari‘ah, to seek Khula (mutual separation) or to approach the court for annulment of the marriage, you are permitted to do so.
ولو أسلم زوج الكتابية بقي نكاحها. (ولو أسلم زوج الكتابية) ولو مآلاً كما مر (بقي نكاحها) لأنه يجوز له التزوج بها ابتداء فالبقاء أولى لأنه أسهل، ولذا شرطت الشهادة فيه ابتداء لا بقاء." (النهر الفائق شرح كنز الدقائق) ، كتاب النكاح، باب نكاح الكافر، 2/ 289 الناشر: دار الكتب العلمية)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 3538/47-9539
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ نیل پالش لگانے سے ناخن تک پانی نہیں پہنچتا ہے جبکہ اعضا تک پانی پہنچانا فرض ہے، اس لئے وضو و غسل دونوں میں ناخن تک پانی نہ پہنچنے کی وجہ سے پاکی حاصل نہیں ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی رنگ لگایا جائے کہ جو ناخن تک پانی کے پہنچنے سے مانع نہ ہو تو اس کو لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے، عضو تک پانی پہنچ جائے گا اور طہارت حاصل ہوجائے گی۔
" في فتاوى ما وراء النهر: إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز. وسئل الدبوسي عمن عجن فأصاب يده عجين فيبس وتوضأ قال: يجزيه إذا كان قليلا. كذا في الزاهدي وما تحت الأظافير من أعضاء الوضوء حتى لو كان فيه عجين يجب إيصال الماء إلى ما تحته. كذا في الخلاصة وأكثر المعتبرات. ذكر الشيخ الإمام الزاهد أبو نصر الصفار في شرحه أن الظفر إذا كان طويلا بحيث يستر رأس الأنملة يجب إيصال الماء إلى ما تحته وإن كان قصيرا لايجب. كذا في المحيط. ولو طالت أظفاره حتى خرجت عن رءوس الأصابع وجب غسلها قولا واحدا. كذا في فتح القدير. وفي الجامع الصغير سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لايستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي. كذا في الذخيرة وكذا الخباز إذا كان وافر الأظفار. كذا في الزاهدي ناقلا عن الجامع الأصغر. والخضاب إذا تجسد ويبس يمنع تمام الوضوء والغسل. كذا في السراج الوهاج ناقلاً عن الوجيز". (الفتاوى الهندية (ج:1، ص:4، ط:دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3539/47-9538
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) اگر نماز کے دوران یہ یاد نہ رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھ لیں اور کتنی باقی رہ گئیں تو اگر یہ پہلی بار بھول ہوئی ہے تو نماز توڑ کر دوبارہ پڑھے اور اگر ایسا ہوتارہتاہے تو اس صورت میں سب سے کم تعداد جو یقینی ہو اس کے مطابق نماز ادا کی جائے اور ہر اس رکعت پر قعدہ کیاجائے جس کے آخری رکعت ہونے کا گمان ہو۔ چنانچہ اگر دوسری اور تیسری میں شبہہ ہے تو دو رکعتیں تو یقینی طور پر ہوچکی ہیں تو دو کے حساب سے مزید دو رکعتیں پڑھے، مگر دونوں رکعتوں کے بعد قعدہ کرے کیونکہ ہوسکتاہے یہ تیسری رکعت ہو اور ہوسکتاہے یہ چوتھی ہو اور ایک رکعت ملانے سے چار ہوگئی ہوں، اور یہ اس لئے کہ قعدہ اخیرہ فرض ہے اگر وہ چھوٹ گیا تو سجدہ سہو کے باوجود نماز درست نہیں ہوگی۔ (۲) غیروں کے طرز پر یوم پیدائش کی مبارک باد دینے سے احتراز کرنا چاہئے تاہم اگر اس موقع پر عمر کا تذکرہ آنے پر عمر میں برکت کی دعا دی جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کے لئے باقاعدہ تقریب منعقد کرنے، کیک کاٹنے وغیرہ امور میں غیروں کی مشابہت ہے جس سے بچنا لازم ہے۔
(وإذا شك) في صلاته (من لم يكن ذلك) أي الشك (عادة له)، وقيل: من لم يشك في صلاة قط بعد بلوغه، وعليه أكثر المشايخ، بحر عن الخلاصة، (كم صلى استأنف) بعمل مناف وبالسلام قاعداً أولى؛ لأنه المحل (وإن كثر) شكه (عمل بغالب ظنه إن كان) له ظن للحرج (وإلا أخذ بالأقل)؛ لتيقنه.
(قوله: وإلا) أي وإن لم يغلب على ظنه شيء، فلو شك أنها أولى الظهر أو ثانيته يجعلها الأولى ثم يقعد لاحتمال أنها الثانية ثم يصلي ركعة ثم يقعد لما قلنا، ثم يصلي ركعةً ويقعد لاحتمال أنها الرابعة، ثم يصلي أخرى ويقعد لما قلنا، فيأتي بأربع قعدات قعدتان مفروضتان وهما الثالثة والرابعة، وقعدتان واجبتان؛ ولو شك أنها الثانية أو الثالثة أتمها وقعد ثم صلى أخرى وقعد ثم الرابعة وقعد، وتمامه في البحر وسيذكر عن السراج أنه يسجد للسهو".( الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 92
’’قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔‘‘ (المسند الجامع، (الجھاد)ج:۱۰،ص:۷۱۶،رقم الحدیث:۸۱۲۷،دار الجیل، بیروت)
’’وَلَا تَرْکَنُوْا إِلٰی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ أَوْلِیَاء ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ۔‘‘ (ہود:۱۱۳)
مشکاۃ المصابیح میں ہے:’’عن بلال بن الحارث المزنی قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم : من أحیا سنۃ من سنتی قد أمیتت بعدی فإن لہٗ من الأجر مثل أجور من عمل بہا من غیر أن ینقص من أجورہم شیئًا ومن ابتدع بدعۃً ضلالۃً لا یرضاہا اللّٰہ ورسولہ کان علیہ من الإثم مثل آثام من عمل بہا لا ینقص من أوزارہم شیئا۔‘‘ (رواہ الترمذی:۳۰/۱، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الثانی، ط؛ قدیمی
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3511/47-9499
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بشرط صحت سوال، واضح رہے کہ والد کی جائداد میں اس کی تمام اولاد بیٹے ہوں یا بیٹی سب کا شرعا حصہ ہوتاہے، قرآن مجید میں ہے:۔ للرجال نصیب مماترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والاقربون مما قل منہ او کثر (سورۃ النساء ۷) ۔ لہذا آپ کے والد کی کل جائداد کے شرعا سات حصے کئے جائیں گے جن میں سے دو حصے ایک بیٹے کے ہوں گے اور پانچ حصے ہر ایک بیٹی کے ہوں گے۔ (سراجی ص ۱۲)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
آداب و اخلاق
Ref. No. 3540/47-9537
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) اگر آپ کو لگتاہے کہ آپ نے غلط کیاتھا اور آپ نے اس پر ظلم کیا ہے تو صرف اللہ سے توبہ کافی نہیں ہے، آپ کو اس شخص سے معافی مانگنی پڑے گی، کیونکہ حقوق العباد میں بندوں سے معافی ہوسکتی ہے۔ (۲) اللہ سے اپنے اس عمل پر توبہ بھی کریں اور اس شخص سے معافی بھی مانگیں۔ (۳) اگر معافی مانگنے میں خطرہ ہے تو ساتھ میں کسی کو لے کر جائیں ، اور اگر آپ اس معاملہ کا ذکر ہی نہیں کرناچاہتے تو کوئی گفٹ دیدیں جس سے وہ خوش ہوجائے تو اس سے بھی معافی ہوسکتی ہے۔
قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ ﷺ: مَنْ كَانَتْ عِنْدَهُ مَظْلِمَةٌ لِأَخِيْهِ مِنْ عِرْضِهِ أَوْ مِنْ شَيْءٍ فَلْيَتَحَلَّلْهُ مِنْهُ الْيَوْمَ، قَبْلَ أَنْ لَا يَكُوْنَ دِيْنَارٌ وَلَا دِرْهَمٌ، إِنْ كَانَ لَهُ عَمَلٌ صَالِحٌ أُخِذَ مِنْهُ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ حَسَنَاتٌ أُخِذَ مِنْ سَيِّئَاتِ صَاحِبِهِ فَحُمِلَ عَلَيْهِ. (بخاری، حدیث: 2449)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3541/47-9535
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ آپ کے سوالات بہت حساس اور نازک ہیں، اس سلسلہ میں بہتر ہوگا کہ آپ کسی معتبر قریبی دارالافتاء یا دارالقضا ءجاکر کسی ماہر مفتی کے سامنے اپنے یہی سوالات رکھیں ، وہ فقہ الاقلیات کی روشنی میں ہر مسئلہ کو اور ہر جز ءکو واضح کریں گے، اور آپ کی مشکل حل ہوجائے گی ان شاء اللہ ۔ اور آپ کو اسلامی احکام اور شرعی حدود سےآگاہی بھی حاصل ہوجائے گی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 3542/47-9536
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ تجدید ایمان کے وقت اس جملہ یا اس عقیدہ کو دُہرانا لازم نہیں ہے جس سے کفر لازم آیاتھا۔ صرف کلمہ یقین کے ساتھ پڑھ لینا اور درست عقیدہ کا اعادہ کرلینا کافی ہے، اور گزشتہ عمل سے اجمالا توبہ کرلینا کافی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3537/47-9533
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) یہ کہنا کہ میں کاروبار میں شرکت نہیں چاہتا تھا آپ کے والد کی وجہ سے کاروبار میں شریک ہوا ، عاقل بالغ ہوش مند انسان کے لیے درست نہیں ہے، انسان کسی کی ترغیب پر ہی کاروبار میں شامل ہوتا ہے لیکن ۔ اپنی مرضی اور اختیار سے ہوتا ہے اورذمہ داری تمام تر خود کی ہوتی ہے۔ (۲) شرکت کا ضابط تو یہی ہے کہ پہلے اصل سرمایہ واپس کیا جائے اور اس کے بعد جو نفع بچے اس کی تقسیم کی جائے ۔ لیکن تمام صورت حال کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شرکت کا معاملہ اور حساب مکمل ہو گیا ہے اور نفع کی تقسیم بھی ہوگئی ہے، اب پیسے کی واپسی میں بلڈر غیر شرعی عمل اختیار کر رہا ہے اس لیے آپ کی والدہ کی تجویزپرشرعا عمل نہیں ہوسکتا ہے، ہاں آپ کے چچا اخلاقی طور پر راضی ہو جائیں تو بہتر ہے، بلڈر کوچاہئے کہ معاہدہ کے مطابق تمام پیسے واپس کرے، جو پیسے انہوں نے کاٹے ہیں وہ غیر شرعی ہیں، انہیں اپنا معاملہ شرعی بنیادوں پر حل کرانا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند