تجارت و ملازمت

Ref. No. 3795/47-9889

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    (۱) شرعی اعتبار سے منافع کی کوئی حدمتعین نہیں ہےبلکہ بائع و مشتری جس قیمت پر راضی ہوجائیں وہ قیمت جائز ہوتی ہے  تاہم معروف کرایہ ہی لینا چاہئے۔ (۲) جھوٹ بولنا تو جائز نہیں ہے کہ میں نے اتنے میں خریدی ہے، البتہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مجھے اتنے میں یہ سامان پڑا ہے، اور آٹھ سو میں میرا نقصان ہوجائے گاوغیرہ۔ تو اس طرح جھوٹ سے احتراز بھی ہوگیا اور مقصد بھی حاصل ہوگیا۔

"(ويضم) البائع (إلى رأس المال) (أجر القصار والصبغ) ... (ويقول: قام علي بكذا، ولايقول: اشتريته)؛ لأنه كذب، وكذا إذا قوم الموروث ونحوه أو باع برقمه لو صادقا في الرقم فتح". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 135):

"(المادة 153) الثمن المسمى هو الثمن الذي يسميه ويعينه العاقدان وقت البيع بالتراضي سواء كان مطابقاً للقيمة الحقيقية أو ناقصاً عنها أو زائداً عليها" (درر الحكام في شرح مجلة الأحكام (1/ 124)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

قرآن کریم اور تفسیر

Ref. No. 3794/47-9888

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق موت اور مرنے کی جگہ دونوں اللہ تعالیٰ کے علم اور تقدیر میں پہلے سے مقرر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی عمر، موت کا وقت اور جگہ لوحِ محفوظ میں پہلے سے لکھ دی ہے۔ علاج، دعا اور احتیاط کرنا تقدیر کا انکار نہیں بلکہ تقدیر ہی کا حصہ ہے، کیونکہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں تقدیر مبرم اور تقدیر معلق۔ اللہ نے یہ اسباب پیدا کیے ہیں کہ بندہ ان کا استعمال کرے۔بہترین علاج سے اگر زندگی بڑھتی ہوئی محسوس ہو تو حقیقت میں وہ بھی اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر ہی کے مطابق ہوتا ہے — یعنی وہ علاج اور اس کا اثر بھی پہلے سے اللہ کے علم میں اور اللہ کا طے کردہ ہوتاہے، چنانچہ علاج سے فائدہ ہوجانا ضروری نہیں ہے ورنہ کوئی بھی نہیں مرتا، اس لئے کہ کوئی مرنا نہیں چاہتا لیکن پھر بھی تمام جتن کرنے کے باوجود مرجاتاہے۔اور بعض مرتبہ انسان بلا کسی علاج کے ایک لمبی زندگی گزارتاہے۔ بہترین علاج کا ملنا، نہ ملنا، علاج کا مفید ہونا ، نہ ہونا وغیرہ امور بھی اللہ کی طرف سے متعین ہیں۔ اور انسان اپنی عمر اور رزق وغیرہ مکمل کرکے ہی اس دنیا سے رخصت ہوتاہے اور اللہ کے مقرر کردہ حالات میں ہی رخصت ہوتاہے۔ جس جگہ اور جس حالت میں موت مقدر ہے وہ حالت پیدا ہوکر رہے گی اور انسان اس جگہ پہونچ کر ہی وفات پائے گا۔ یہ اسلامی عقیدہ ہے اور ایک مسلمان کے لئے اس عقیدہ کو لازم پکڑنا ایمان کا جز ہے۔

وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ (سورۃ لقمان: 34) فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ"(سورۃ النحل: 61)

"عن ابن مسعود قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أيها الناس ليس من شيء يقربكم إلى الجنة ويباعدكم من النار إلا قد أمرتكم به وليس شيء يقربكم من النار ويباعدكم من الجنة إلا قد نهيتكم عنه وإن الروح الأمين وفي رواية وإن روح القدس نفث في روعي أن نفسا لن تموت حتى تستكمل رزقها ألا فاتقوا الله وأجملوا في الطلب ولا يحملنكم استبطاء الرزق أن تطلبوه بمعاصي الله فإنه لا يدرك ما عند الله إلا بطاعته . رواه في شرح السنة والبيهقي في شعب الإيمان إلا أنه لم يذكر وإن روح القدس ." (کتاب الرقاق، باب التوکل و الصبر: ج: 15، ص: 220-221، ط: المشکاة الإسلامیة)

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِۚ-وَ یُنَزِّلُ الْغَیْثَۚ-وَ یَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًاؕ-وَ مَا تَدْرِیْ نَفْسٌۢ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ (سورۃ لقمان ۳۴)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

مساجد و مدارس

Ref. No. 3792/47-9892

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   مسجد اور اس کی تمام چیزیں، جیسے کہ فرش، لوٹے، قالین، بجلی، برتن، وغیرہ، یہ سب وقف ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں مخصوص کی گئی امانت ہیں۔ اس لیے ان کا استعمال صرف اسی مقصد میں جائز ہے جس کے لیے وہ وقف کی گئی ہوں، یعنی مسجد اور عبادت کے کاموں میں ہی استعمال کی جاسکتی ہیں۔ مسجد کا خادم یا مؤذن اگرچہ مسجد کا نگران اور امین ہوتا ہے، لیکن وہ ان چیزوں کا مالک نہیں ہوتا، اس لئے وہ ان چیزوں کو اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتاہے۔ مسجد کے امام اور موذن کے لئے بھی مسجد کی چیزیں مجبوری میں متولی کی اجازت سے استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی۔ تاہم بہتر ہے کہ موبائل کا چارج وغیرہ جیسی ذاتی ضرورت میں مسجد کی چیزیں  استعمال کرنے کے بعد اس کا کچھ معاوضہ بھی مسجد کے فنڈ میں جمع کردیا کریں ۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Fiqh

Ref. No. 3791/47-9891

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں  سخت مجبوری میں دوسری جماعت کا انتظام شروع کیاگیا ہے ، اور تمام نمازیوں کی جماعت میں شرکت کے لئے دوسری جماعت قائم کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا، اس لئے مذکورہ حالات میں جمعہ کی دوسری جماعت قائم کرنے کی گنجائش ہے۔  دراصل جماعت ثانیہ کی ممانعت  جماعت اولی کی اہمیت  مجروح ہونے کی وجہ سے ہے، لیکن اگر جماعت ثانیہ سے جماعت اولی کی اہمیت پر فرق نہ پڑتا ہو تو جماعت ثانیہ میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ 

’’عن الحسن قال: کان أصحاب رسول الله ﷺ  إذا دخلوا المسجد، وقد صلي فیه، صلوافرادی‘‘. (المصنف لابن أبي شیبة، کتاب الصلاة، باب من قال: یصلون فرادی، ولایجمعون. مؤسسة علوم القرآن جدید ۵/۵۵، رقم:۷۱۸۸)

"ولنا أنه علیه الصلاة والسلام کان خرج لیصلح بین قوم، فعاد إلی المسجد وقد صلی أهل المسجد، فرجع إلی منزله فجمع أهله وصلی". ( ردالمحتار، کتاب الصلاة، باب الإمامة، ج۱ ص۸ ۵۱ ۔ط:س ۔ج۱ص۵۵۳۔۱۲)

"قال: (وإذا دخل القوم مسجداً قد صلی فیه أهله کرهت لهم أن یصلوا جماعةً بأذان وإقامة، ولکنهم یصلون وحداناً بغیر أذان وإقامة)؛ لحدیث الحسن: قال: کانت الصحابة إذا فاتتهم الجماعة فمنهم من اتبع الجماعات، ومنهم من صلی في مسجده بغیر أذان ولا إقامة". (مبسوط سرخسی ج۱ ص ۱۳۵)(شامی ج۱ ص۳۶۷ باب الاذان)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 3790/47-9893

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واضح رہے کہ انسان کا اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں سے کسی کو کچھ دینا ہبہ (گفٹ) کہلاتا ہے، ہبہ (گفٹ) کے مکمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہبہ کرنے والا  موہوبہ شیئ  کو موہوب لہ کے نام کرنے کے ساتھ اس کا مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دے۔ اس کے بعد سمجھئے کہ:  (۱)   سسر کا  اپنی خوشی سے، شادی کے موقع پر، بہو کو ملکیت کے طور پر مکان یا زمین وغیرہ دینا درست ہے، اگر بطور مہر دینے کی صراحت کی گئی ہے تو یہ  جائدا مہر میں شمار ہوگی، اور وہ خالص سعدیہ عبنر کی ملکیت ہوگی،  اور اس میں قبضہ ضروری نہیں ہوگا، اور سسر کے انتقال کے بعد اس میں وراثت بھی جاری نہییں ہوگی۔ اور اگر سسر نے بطور ہدیہ وگفٹ وہ جائداد دینے کی بات کہی یا لکھی لیکن قبضہ نہیں دیا تھا تو یہ ہبہ مکمل نہیں ہوگا اور اس زبانی یا کاغذی ہبہ نامہ کا کوئی اعتبار نہیں جائے گا۔  (۲) اگر مہر میں جائداد دی گئی ہے تو اس پر فوری قبضہ ضروری نہیں ہے، اس لئے  اگر کابین نامہ (نکاح نامہ) میں یہ صریح الفاظ درج ہیں کہ چار دیواری پر محیط کل مکان کا 1/5 (پانچواں حصہ) مین گیٹ کے ساتھ سعدیہ عنبر کی ملکیت ہے، تو یہ اس کی ملکیت شمار ہوگی، اور  گیٹ والی جگہ بھی اسی مکان کی چار دیواری کے اندر شمار ہوگی جب تک کہ اسے واضح طور پر مشترکہ راستہ یاعام گزرگاہ قرار نہ دیا گیا ہو،یاکسی اور کے لیے مستقل  حقِ راستہ درج نہ ہو۔چونکہ کابین نامہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ چار دیواری پر محیط کل مکان کا 1/5 حصہ مین گیٹ کے ساتھ…” سعدیہ عنبر کی ملکیت ہے تو اس عبارت میں “مین گیٹ کے ساتھ” کا ذکر وضاحت یعنی شمولیت  کے لیے ہے،نہ کہ ملکیت سے استثناءکے لیے، اور نکاح نامہ میں ہونا بطور مہر ہونے کی دلیل ہے، اس لئے  19 مرلے میں سے سعدیہ عنبر کو پانچواں حصہ بطور مہر کے ملے گا۔

وصح ضمان الولي مهرها ولو) المرأة (صغيرة) ولو عاقدًا؛ لأنه سفير، لكن بشرط صحته؛ فلو في مرض موته وهو وارثه لم يصح، وإلا صحّ من الثلث، وقبول المرأة أو غيرها في مجلس الضمان (وتطلب أيًّا شاءت) من زوجها البالغ، أو الولي الضامن (فإن أدّى رجع على الزوج إن أمر) كما هو حكم الكفالة۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 140):

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

عائلی مسائل

Ref. No. 3789/47-9896

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔جب انسان پر مشکلات یا بیماریاں آتی ہیں، توبعض اوقات یہ  اللہ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہیں ۔ بعض اوقات نفسیاتی دباؤ یا نظر بد ہوتی ہے۔ اور کبھی دعا و صبر سے ہی معاملہ بہتر ہو جاتا ہے۔ لہٰذا سب سے پہلے یقین رکھیں کہ کوئی چیز اللہ کی اجازت کے بغیر نقصان نہیں دے سکتی۔ اس کے لئے آپ خود استخارہ کریں ،  کیونکہ شرعاً اپنا ذاتی استخارہ خود کرنا بہتر ہوتا ہے۔  آپ کے حالات کے لحاظ سے ایک مجرب اور بااثر وظیفہ پیش ہے کہ روزانہ صبح و شام  اول و آخر 11 مرتبہ درودِ ابراہیمی۔ درمیان میں “یَا فَتَّاحُ یَا رَزَّاقُ یَا لَطِیْفُ”  313 مرتبہ پڑھیں۔ آخر میں دعا کریں: “اے اللہ! میرے لیے آسانیاں پیدا فرما، میرے رزق، صحت، اور نصیب میں برکت عطا فرما، اور ہر قسم کی رکاوٹ کو دور فرما۔اس کے علاوہ اپنی حفاظت کے لئے ”روزانہ ان آیات کو پڑھ کر اپنے اوپر دم کریں:  سورۃ الفاتحہ — 1 مرتبہ آیت الکرسی — 1 مرتبہ سورۃ الاخلاص، سورۃ الفلق، سورۃ الناس — 3، 3 مرتبہ آخر میں دونوں ہاتھوں پر دم کر کے پورے جسم پر پھیر لیں۔ اس سے جادو، یا نظرِ بد کےدفعیہ میں کافی فائدہ ہوگا ان شاء اللہ۔ یاد رکھئے کسی بھی چیز کی بندش کرنے والی اور کھولنے والی ذات اللہ تعالی کی ہے،( قرآن میں ہے : مایفتح اللہ للنا من رحمۃ  فلاممسک لھا وما یمسک فلا مرسل لہ من بعدہ الآیۃ۔ وان یمسسک اللہ بضر فلاکاشف لہ الا ھو الآیۃ۔ )لہذا غیراللہ کی طرف سے بندش کا عقیدہ رکھنا جائز نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

تجارت و ملازمت

Ref. No. 3788/47-9895

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔    اگر آپ مختلف حلال اور یونانی معجونوں کو ملا کر، اپنی محنت، تجربہ، اور اضافی اجزاء سے نئی ترکیب تیار کرتے ہیں، اور واضح طور پر بتاتے ہیں کہ یہ دوا آپ کی تیار کردہ ہے، تو ایسی نئی پیکنگ بنا کر بیچنا شرعاً جائز ہے۔ لیکن اگر کمپنی کی دواؤں کو بغیر تبدیلی کے صرف دوبارہ پیک کر کے کمپنی کے نام سے بیچیں تو یہ ناجائز اور دھوکے کا کام ہے۔اور ایسا کرنا ملکی قانون کے خلاف بھی ہے، اور قانون کے خلاف  کوئی کام کرنا جائز نہیں ہے کہ اس میں عزت و مال کے ضیاع کا اندیشہ ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3787/47-9894

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر پہلی میت کی ہڈیاں بوسیدہ ہو کر مٹی میں مل چکی ہوں (یعنی جسم کا کوئی حصہ باقی نہ ہو)، تو اسی قبر میں دوبارہ میت دفنانا جائز ہے۔لیکن جب تک پہلی میت کا جسم یا ہڈیاں باقی ہوں، دوسری میت کو اس میں دفن کرنا ممنوع ہے۔ عام طور پر ۳ سے ۵ سال میں جسم مٹی میں مل جاتا ہے۔لیکن کچھ علاقوں میں نمی یا سخت زمین کی وجہ سے ۷ یا ۸ سال بھی لگ سکتے ہیں۔اس سلسلہ میں ماہرین سے اندازہ لے لیا جائے، اور  اگر قبر کھولنے پر معلوم ہوا کہ پہلی میت ابھی باقی ہے تو مٹی کی آڑ بناکر اس میں دوسری میت  دفن کی جا سکتی ہے۔

"وسئل أبو بكر الأسكافي عن المرأة تقبر في قبر الرجل؟ فقال: إن كان الرجل قد بلي ولم يبق له لحم ولا عظم جاز، وكذا العكس، وإلا فإن كانوا لايجدون بداً يجعلون عظام الأول في موضع، وليجعلوا بينهما حاجزا بالصعید." (حاشية  طحطاوی، ص: 613، ط: دار الکتب العلمیة)

‌"ولا ‌يدفن ‌اثنان أو ثلاثة في قبر واحد إلا عند الحاجة." (الھندیۃ، الباب الحادی والعشرون فی الجنائز، کتاب الصلوٰۃ، ص/166، ج/1، ط/رشیدیہ)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref. No. 3773/47-9842

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مرحومہ  کا کل ترکہ ۳۶ حصوں میں تقسیم ہوگا، جن میں سے شوہر  کو ۹حصے، والدین  میں سے ہر ایک کو چھ ۶ حصے، اور بیٹے کو ۱۰ حصے اور بیٹی کو ۵ حصے ملیں گے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3769/47-9844

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نمازوں کے بعد دعا حدیث سے ثابت ہے، اس لئے اس کو بدعت نہیں کہاجائے گا، اور یہ اختیاری عمل ہے، اس پر کوئی عمل کرے تو بھی ٹھیک ہے  اور اگر عمل نہ کرے تو بھی کوئی حرج نہیں ۔  پنجگانہ نمازوں، اورجمعہ و عیدین  کی نمازوں کے    بعد دعا کرنا  بہ تسلسل بھی درست ہے اور کبھی کبھار ترک کردینا بھی درست ہے، تاہم ترک کرنے پر تنقید کرنا درست نہیں ہے۔آپ کا سوال کہ  عیدین کی نماز وں کے بعد دعا  کیوں ترک نہیں کرتے ، یہ سوال بھی درست نہیں ہے۔ جو دعا کررہے ہیں ان کو کرنے دیجئے اور جو نہیں کرتے ان پر تنقید نہ کیجئے۔ جمعہ وعیدین میں مجمع کثیر ہوتاہے  توبعض مرتبہ  امام تعلیم کی غرض سے جہری  دعا کرتاہے۔  یا اسی طرح اس کا مقصد کچھ اور بھی ہوسکتاہے، اس کے پیچھے پڑنے کی ضرروت نہیں۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند