Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 3392/46-9277
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ شریعت میں خلع تبھی معتبر ہوتا ہے جب شوہر خلع منظور کرے یا طلاق دیدے، یا قاضی شرعی (جس کے پاس شرعی اختیار ہو) فسخ نکاح کرے۔ ہماری عدالتوں میں شرعی قاضی نہیں ہیں،اس لئے ان کا یکطرفہ خلع ازخود شرعی طور پر فسخ نکاح کے لئے کافی نہیں ہوگا۔ لہٰذا اگر خلع شرعی طریقے سے نہیں ہوا تھا،تو دوسری شادی شرعاً درست نہیں تھی۔ اس صورت میں آپ ابھی بھی پہلے شوہر کے نکاح میں ہی ہیں۔ آپ کا دعوی ہے کہ شوہر نے طلاق دی تھی اور وہ انکار کررہاہے اور آپ کے پاس نصاب شہادت کامل نہیں ہے تو شوہر کا قول معتبر ہوگا ۔
اس سلسلہ میں بہتر ہوگا کہ آپ تمام کاغذات کے ساتھ کسی معتبر شرعی دارالقضا سے، یا شرعی پنچایت میں معاملہ رکھ کر رجوع کریں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3391/46-9284
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ پردہ کا پورا خیال رکھتے ہوئے خواتین میں شادی شدہ اور غیرشادی کا بیان کرنا درست ہے۔ آپ اپنے ساتھ چند مرد حضرات کو بھی ساتھ رکھتے ہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہیں تو اس طرح خواتین میں بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، تاہم اس کا خیال رہے کہ عورتیں بہت غیرمحتاط ہوتی ہیں ان سے بات کرنے میں آپ کو بہت احتیاط اختیار کرنی چاہئے اور قرآن و حدیث کی باتیں ہی بیان کی جائیں، اپنی تعریف اور تعارف سے مکمل احتراز کیاجائے تاکہ کوئی فتنہ پیدا نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالی آپ کی کوششوں کو کامیاب کرے اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دے۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3389/46-9283
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ آپ نے جانور کو مارکیٹ سے خرید کر اپنی ملکیت قائم کرلی، اب اگر آپ اس کو قربانی کرانے والوں کو بیچتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور یہ کاروبار حلال ہے۔ جو لوگ قربانی کرانے والوں سے پیشگی رقم لے لیتے ہیں پھر جانور ان کے پیسے سےخرید کر اس پر نفع کماتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ان کا یہ کاروبار درست نہیں ہے۔ کیونکہ حضور ﷺ نے فرمایا لاتبع مالیس عندک ۔ لیکن اگر جانور خرید کر اور متعین کرکے بکنگ کرائی جاتی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3388/46-9282
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ والد کے انتقال کے بعد ترکہ کی تقسیم میں جلدی کرنی چاہئے۔ اور ہر ایک کو اپنے حصہ میں ہی تصرف کرنا چاہئے۔ اس لئے اب فوری طور پر وراثت کی تقسیم عمل میں لائی جائے، اور والد کی وفات کے بعد بھائی بہن میں سے جس کی شادی میں جتنا خرچہ ہوا اس کو اس کے حصہ سے منہا کردیا جائے گا۔ والدہ کا جہیزوغیرہ میں زیادہ رقم خرچہ کرنے پر زور دینا جائز نہیں ہے۔ ان کو چاہئے کہ شرعی طور ہر پہلے حصوں کی تقسیم کریں پھر جس کے حصہ میں جتنا آئے اس میں سے ہی اس پر خرچ کیاجائے۔ بھائیوں کو بھی چاہئے کہ اپنی بہن کی شادی میں واجبی خرچ کو پورا کرنے میں والدہ کا تعاون کریں۔
ولایجوز لأحدہما أن یتصرف فی نصیب الآخر إلا بأمرہ وکل واحد منہما کالأجنبی فی نصیب صاحبہ۔ (عالمگیری، کتاب الشرکۃ، الباب الأول، الفصل الأول، زکریا قدیم ۲/۳۰۱، جدید ۲/۳۱۱، ہدایہ اشرفی دیوبند ۲/۶۲۴) أما إذا کان بغیر أمرہ فلأنہ تبرع بإسقاط الحق عنہ فلا یملک أن یجعل ذٰلک مضمونا علیہ۔ (بدائع الصنائع، فصل فی حکم الہبۃ کرچی ۶/۱۳۲، زکریا ۵/۱۸۹)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3387/46-9281
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ پینشن کی رقم متعلقہ ادارہ کی طرف سے عطیہ اور ہدیہ ہے، اس کا مالک وہی ہوگا جس کے نام سے ادارہ پینشن جاری کرے گا، اس میں کوئی وراثت جاری نہیں ہوگی، بلکہ ادارہ جس کے نام سے پینشن جاری کرے گا وہی شخص اس کا مالک ہوگا، دیگرورثہ کا اس میں کوئی حصہ اور حق نہیں ہوگا۔
"أما أصل الحكم فهو ثبوت الملك للموهوب له في الموهوب من غير عوض لأن الهبة تمليك العين من غير عوض فكان حكمها ملك الموهوب من غير عوض." (بدائع الصنائع، کتاب الہبۃ،ج: 6، ص: 127، ط: دار الکتب العلمیۃ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 3386/46-9280
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ ناتھ ڈالے ہوئے جانور کی قربانی کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم اگر نکیل کھینچنے سے جانور کے نتھنے ایسے پھٹ گئے ہوں کہ جس کی وجہ سے اس کا جمال مکمل ختم ہو گیا ہو تو پھر اس کی قربانی جائز نہ ہوگی۔
" وَمِنْ الْمَشَايِخِ مَنْ يَذْكُرُ لِهَذَا الْفَصْلِ أَصْلًا وَيَقُولُ: كُلُّ عَيْبٍ يُزِيلُ الْمَنْفَعَةَ عَلَى الْكَمَالِ أَوْ الْجَمَالِ عَلَى الْكَمَالِ يَمْنَعُ الْأُضْحِيَّةَ، وَمَا لَايَكُونُ بِهَذِهِ الصِّفَةِ لَايَمْنَعُ، ثُمَّ كُلُّ عَيْبٍ يَمْنَعُ الْأُضْحِيَّةَ فَفِي حَقِّ الْمُوسِرِ يَسْتَوِي أَنْ يَشْتَرِيَهَا كَذَلِكَ أَوْ يَشْتَرِيَهَا وَهِيَ سَلِيمَةٌ فَصَارَتْ مَعِيبَةً بِذَلِكَ الْعَيْبِ لَاتَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ، وَفِي حَقِّ الْمُعْسِرِ تَجُوزُ عَلَى كُلِّ حَالٍ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ." (الھندیۃ، كتاب الأضحية، الْبَابُ الْخَامِسُ فِي بَيَانِ مَحَلِّ إقَامَةِ الْوَاجِبِ، ٥ / ۲۹۸ - ۲۹۹، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اجماع و قیاس
Ref. No. 3385/46-9279
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ رمضان کی فضیلت اپنی جگہ ہے اور عشرہ ذی الحجہ کی فضیلت اپنی جگہ ہے، ایک کا دوسرے سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔ علاوہ ازیں رمضان کے روزے فرض ہیں اور عشرہ ذی الحجہ کے روزے مسنون ہیں۔ رمضان المبارک کےنیک اعمال کے ثواب کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ رمضان المبارک میں نیک اعمال کی فضیلت بہت سی احادیث میں وارد ہوئی ہے۔
عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه و سلم قال: ما من أيام أحب إلى الله أن يتعبد له فيها من عشر ذي الحجة، يعدل صيام كل يوم منها بصيام سنة، وقيام كل ليلة منها بقيام ليلة القدر". (سنن الترمذي - (3/ 131
’’من قام رمضان إیمانًا واحتسابًا غفرلہٗ ماتقدم من ذنبہٖ وماتأخر۔‘‘ (المؤطا بروایۃ محمد بن الحسنؒ )
"مَن صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ")صحيح البخاری: 38، ومسلم: 759)
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (قال الله عز وجل: كل عمل ابن آدم له إلا الصيام؛ فإنه لي وأنا أجزي به، والصيام جنّة، وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث، ولا يصخب، فإن سابّه أحد أو قاتله فليقل: إني امرؤ صائم، والذي نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك، للصائم فرحتان يفرحهما: إذا أفطر فرح، وإذا لقي ربه فرح بصومه) رواه البخاري ومسلم.
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
حدیث و سنت
Ref. No. 3384/46-9278
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ نیکیوں کو گناہوں کی جگہ تبدیل کرنے کا ایک مطلب یہی ہے كہ جب بندہ مومن سچی توبہ كركے اپنی اصلاح كرلیتا ہے تو گناہوں كی جگہ نامہٴ اعمال میں نیكیاں لكھ دی جاتی ہیں۔اور دوسرا مطلب یہ ہےكہ اللہ تعالی ایسے شخص کو گناہوں كی جگہ نیكیاں كرنے كی توفیق عطاء فرمادیتا ہے۔قرآن مجید میں ہے : إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا.
(ترجمہ شیخ الہند، سورۃ الفرقان)۔
ذکر کی مجلس میں بیٹھنے پر جو فضائل حاصل ہوتے ہیں وہ مطلق نہیں ہیں کہ بس ادھر آدمی مجلس میں بیٹھا اور ادھر سارے گناہ دھُل گئے۔ بلکہ مجلس ِ ذکر میں بیٹھنے پر ایک خاص قسم کے گناہ یعنی گناہ صغیرہ بخشے جاتے ہیں۔ جن گناہوں کا آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے وہ گناہ کبیرہ ہیں اور گناہ کبیرہ بغیر سچی توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں اور جوشخص صغائر پر اصرار کرتاہے اس کی بھی مغفرت موقوف رہتی ہیں تاآنکہ وہ توبہ کرلے۔ اور توبہ نام ہے تین چیزوں کے مجموعہ کا (۱) گناہ فوراً چھوڑدے (۲) آئندہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم کرے (۳) اورگذشتہ گناہوں پر ندامت کے ساتھ معافی طلب کرے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: محمد اسعد
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طلاق و تفریق
Ref. No. 3381/46-9286
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ جو الفاظ طلاق کے معنی میں صریح ہیں ان میں نیت کا اعتبار نہیں ہوتا ہے ان سے ہر حال میں طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ڈرانے کی نیت معتبر نہیں ہوگی۔ اگر شوہر نے اپنی بیوی کو فون پر تین طلاق دیدی ہے تو عورت پر طلاق مغلظہ واقع ہوگئی، اب ان دونوں میں میاں بیوی کا رشتہ باقی نہیں رہا، اور دونوں اجنبی بن گئے۔ لہذا اگر بیوی مدخولہ ہے تو وہ اپنے شوہر کے اوپر طلاق مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے۔
قال اللہ تعالی : فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ (البقرہ:230)۔
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال ثلٰث جدھن جد و ھزلھن جد النکاح و الطلاق و الرجعۃ اھ (سنن ابی داؤد : (1/ 305)۔
و لو كتب على و جه الرسالة و الخطاب ، كأن يكتب يا فلانة : إذا أتاك كتابي هذا فأنت طالق طلقت بوصول الكتاب جوهرة. اھ(الدرالمختار : (3/ 246)
ان کان الطلاق ثلاثا فی الحرۃ او ثنتيين فی الامة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا و يدخل بها ثم يطلقها او يموت عنها ۔ (الهداية :)اھ (2/ 409
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah
Ref. No. 3382/46-9288
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں آپ کو آپ کی محنت اور کام کرنے کی جوتنخواہ ملتی ہے وہ حلال ہے، اور اس کو نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا بھی جائز ہے اور آپ پر بقدر نصاب ہونے پر زکوۃ کی ادائیگی اور قربانی بھی واجب ہوگی۔ محض اس وجہ سے کہ ڈاکٹر انشورنس کی رقم وصول کرتاہے اس سے آپ کی آمدنی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور آْپ کی تنخواہ حلال ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند