نماز / جمعہ و عیدین

الجواب و باللہ التوفیق: فرض نماز میں پہلی رکعت کو چھوٹی اور دوسری رکعت کو بڑی کرنا مکروہ ہے، لیکن سنن ونوافل میں ایسا کرنا مکروہ نہیں ہے اس لیے تراویح میں ایسا کرنا درست ہے۔’’وفي الدرایۃ: و إطالۃ الرکعۃ الثانیۃ علی الأولی بثلاث آیات فصاعداً في الفرائض مکروہ، و في السنن و النوافل لایکرہ؛ لأن أمرہا سہل‘‘(۱)’’و استظہر في النوافل عدم الکراہۃ مطلقاً‘‘’’(قولہ: مطلق) … أطلق في جامع المحبوبي عدم کراہۃ إطالۃ الأولی علی الثانیۃ في السنن و النوافل، لأن أمرہا سہل، و اختارہ أبو الیسر ومشی علیہ في خزانۃ الفتاوی، فکان الظاہر عدم الکراہۃ الخ‘‘(۲)

(۱) فخر الدین عثمان بن علي، تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۵۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في القراء ۃ: مطلب: السنۃ تکون سنۃ عین وسنۃ کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۵۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 58

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرآن پاک مکمل تراویح میں سننا سنت ہے، ضروری نہیں ہے۔(۲) اگر اس کے لیے اچھے قاری ملیں تو اس سنت پر عمل کرنا چاہئے۔ جن جگہوں پر حافظ نہ ملیں یا اچھے پڑھنے والے نہ ہوں وہاں اچھے پڑھنے والے امام سے الم تر کیف سے تراویح پڑھ لینی چاہئے۔ اتنا تیز پڑھنا، کہ الفاظ مکمل طور پر ادا نہ ہوتے ہوں یا پیچھے کھڑے حافظ وعالم کو بھی سمجھ میں نہ آتا ہو، درست نہیں ہے؛(۱) بلکہ نماز کے فاسد ہونے کا بھی خطرہ ہے۔ غلطیاں اور بھول ہو جایا کرتی ہیں؛ اس کے لیے ایک سامع بھی رکھنا چاہئے۔ اور اگر حافظ صاحب سے غلطیاں اور بھول بکثرت صادر ہوتی ہوں، لوگوں کو دشواری ہو اور تقلیل جماعت کا اندیشہ ہو، تو کسی دوسرے حافظ صاحب کا انتظام کرلیا جائے(۲) اور وہ بھی نہ ہوسکے، تو پھرالم ترکیف سے تراویح پڑھ لی جائے۔ (۲) والسنۃ فیہا الختم مرۃ فلایترک لکسل القوم۔ (إبراہیم محمد الحلبي، ملتقی الأبحر، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۸۴؛ وابن نجیم، البحرالرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل‘‘: ج ۳، ص: ۱۱۵؛ وعالم بن العلاء، الفتاویٰ التاتارخانیہ، ’’الفصل الثالث عشر في التراویح‘‘: ج۲، ص: ۳۲۴، زکریا بکڈپو، دیوبند؛ الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)(۱) ورتل القرآن ترتیلا أي إقرأ علی تمہل فإنہ یکون عونا علی فہم القرآن وتدبرہ۔ (ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ المزمل‘‘: ج ۶، ص: ۳۲۹، زکریا بکڈپو، دیوبند)(۲) ولایترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأفضل في زماننا قدر مالایثقل علیہم وأقرہ المصنف وغیرہ وفي المجتبی عن الإمام لو قرأ ثلاثا قصارا أو آیۃ طویلۃ في الفرض فقد أحسن ولم یسئ فما ظنک بالتراویح۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد الحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۷)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 57

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ختم قرآن کے بعد {وَأُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَہ۵} تک پڑھنے کی فقہاء کرام نے اجازت دی ہے اور یہ مستحب ہے اس کے سواء دیگر آیات کا اس وقت پڑھنا منقول نہیں اس کا ترک کر دینا مناسب ہے۔’’ویکرہ الفصل بسورۃ قصیرۃ وأن یقرأ منکوساً إلا إذا ختم فیقرأ من البقرۃ‘‘(۲)’’قال في شرح المنیۃ وفي الولوا لجیۃ من یختم القرآن في الصلاۃ إذا فرغ من المعوذتین في الرکعۃ الأولیٰ یرکع ثم یقرأ في الثانیۃ بالفاتحۃ وشيء من سورۃ البقرۃ لأن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: خیر الناس الحال المرتحل، أي الخاتم المفتتح‘‘(۱)(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب الاستماع للقرآن فرض کفایۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۹۔(۱) أیضاً:

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 56

نماز / جمعہ و عیدین

Ref. No. 3298/46-9049

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  جو امام صاحب مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے مقرر ہیں ان کو حق ہے کہ وہ خود نماز پڑھائیں،  اور اگر کوئی وجہ ہو تو دوسروں کو بھی کسی وقت امامت کے لئے آگے بڑھاسکتے ہیں۔ اگر کوئی علاقہ کی یا دینی شخصیت آجائے کہ جس کے پیچھے عوام نماز پڑھنے کی خواہاں ہو تو امام ان کو نماز پڑھانے کے لئے  موقع دے سکتاہے  ، اور اگر ان کو موقع نہ دے تو کوئی حرج نہیں ہے۔  اگر انتظامیہ نے پہلے سے امام صاحب کو دوسرے عالم سے امامت کے بارے میں کہا  ہو تو امام کو چاہئے کہ ان کو نماز پڑھانے دیں، لیکن اگر انتظامیہ نے پہلے سے کچھ نہیں کہا تو اب ان کوامام پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے۔

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Marriage (Nikah)

Ref. No. 3297/46-9048

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر نکاح کے وقت مہر میں پیسے متعین ہوئے تھے،  مثلا ساٹھ ہزار کا زیور دینا طے ہوا تھا ، تو ایسی صورت میں تیار شدہ زیور  مع اجرت ساٹھ ہزار کا ہوگا۔  اور اگر زیور کی مقدار طے ہوئی تھی مثلا ایک تولہ سونا دینا طے ہوا جس کی قیمت  ساٹھ ہزار ہوتی ہے  تو ایسی صورت میں  ادادئیگی کے وقت ایک تولہ سونا مع اجرت کے لازم ہوگا اور اس میں نکاح کے وقت کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا۔

"و المعتمد البناء على العرف كما علمت." (شامی، (3/157، باب المہر، ط؛ سعید)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

احکام میت / وراثت و وصیت

Ref.  No.  3294/46-9050

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں مرحومہ مالیہ کا کل ترکہ اولا 13 حصوں میں تقسیم کیاجائے گا، جن میں سے ہر ایک بھائی کو 2 حصے اور ہر ایک بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ پھر جو کچھ محمد رفیق کو ملا اس کو اس کی بیوہ اور اولاد کے درمیان ، اور جو کچھ فضل محبوب کو ملا اس کو اس کی بیوہ اور اولاد کےدرمیان اس طرح تقسیم کریں گے کہ بیوہ کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد مابقیہ میں سے بیٹوں کو دوہرا اور بیٹیوں کو اکہرا حصہ دیں گے۔ چھ لاکھ چالیس ہزار کی تقسیم اس طرح ہوگی  کہ  مرحومہ کے ہر ایک بھائی کو 98461 روپئے ، اور ہر ایک بہن کو 49231 روپئے ملیں گے۔ محمد رفیق کے  حصہ کی رقم  میں سے اس کی بیوہ کو 12307 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 12307 روپئے، اور ہر ایک بیٹی کو 6153 روپئے ملین گے۔ اور فضل محبوب کے حصہ کی رقم میں سے اس کی بیوہ کو 12307 روپئے، ہر ایک بیٹے کو 24615 روپئے  اور ایک بیٹی کو 12307 روپئے ملیں گے۔  مالیہ کے بھائی بہن جو ابھی بھی زندہ ہیں ان کی رقم کے وہ خود مالک ہوں گے ،   اپنی زندگی میں  ہی اپنا حصہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے۔  وراثت کی تقسیم ہوجانے کے بعد ہرایک کو اپنے حصہ کا اختیار ہے اگر وہ چاہے تو کسی کو اپنا کل یابعض حصہ دے سکتاہے۔  اور اگر کوئی وراثت کی تقسیم سے پہلے ہی  اپنا حصہ بغیر کسی دباؤ کے چھوڑنا چاہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref.  No.  3292/46-9051

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اسلامی بینک کے اکاونٹ میں جو منافع جمع ہوتے ہیں، ان کی حیثیت متعین کرنے کے بعد ہی اس کے بارے میں جواز و دعدم جواز کے تعلق سے کچھ کہاجاسکتاہے۔ تاہم جس طرح نقد رقم دینا جائز ہے، اسی طرح اس رقم سے کوئی سامان خرید کر دینا بھی جائز ہے۔ نقد رقم ہی دینا ضروری نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں خوشی کے طور پر مٹھائی تقسیم کرنے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ چندہ میں کوئی زبردستی بالکل نہ ہو(۱) اور کوئی بھی ایسی صورت اختیار نہ کی جائے جس سے مسجد کااحترام ختم ہو جائے۔

(۱) عن أبي حرّۃ الرقاشي عن عمہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ألا لاتظلمہا ألا لایحل مال إمرئ إلا بطیب نفس منہ رواہ البیہقي۔ (البغوي، مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب أسماء اللّٰہ، باب الغضب والعاریۃ‘‘: ص: ۲۵۵، رقم: ۲۹۴۶، مکتبہ تھانوی، دیوبند)وقولہ: (وہي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول) ما أحدث علی خلاف الحق الملتقي عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من علم أو عمل أو حال بنوع شبہۃ واستحسان وجعل دینا قویما وصراطاً مستقیماً۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۹)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 55

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: عورتوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ تنہا تروایح کی نماز پڑھ لیں، اگر گھر میں مردوں کی جماعت ہورہی ہے تو جماعت میں بھی شریک ہوسکتی ہیں، لیکن عورتوں کا امامت کرنا درست نہیں ہے۔ عورتوں کی امامت کی کئی صورتیں ہیں، کوئی حافظہ خاتون ہے وہ اپنے گھر کے مردو عورت کی امامت کرے یہ ناجائز ہے؛ اس لیے کہ عورتیں، مردوں کی امامت نہیں کرسکتی ہیں، خیر القرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے؛حضرات صحابیات میں بعض بہت بلند مقام کی حامل تھیں، حضرت عائشہؓ کے عمل وتقوی کا صحابہؓ کی نگاہ میں بلند مقام تھا۔ حضرات صحابہؓ مشکل مسائل میں ان سے رجوع کیا کرتے تھے؛ لیکن کوئی ایک واقعہ بھی ایسا مذکور نہیں ہے کہ عورتوں نے مردوں کی امامت کی ہو۔ حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’أخروہن من حیث أخرہن اللّٰہ‘‘ عورتوں کو پیچھے رکھو جیسے اللہ نے ان کو پیچھے رکھا ہے، حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو مردوں سے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے اور اگر عورت کو مردوں کا امام بنادیا جائے تو عورت کا مردوں کے آگے ہونا لازم ہوگا۔ اعلاء السنن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے: ’’عن علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أنہ قال: لاتؤم المرأۃ، قلت: رجالہ کلہم ثقات‘‘(۱)

اس لیے عورتوں کے لیے مردوں کی امامت کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ گھر میں حافظہ عورت ہے اور مردوں میں کوئی امامت کرنے کا اہل نہیں ہے یا مرد کو زیادہ قرآن یاد نہیں ہے تو بھی عورت اپنے محرم مردوں کی امامت نہیں کرسکتی ہے۔

عورت کی امامت کی دوسری صورت یہ ہے کہ عورت صرف عورتوں کی امامت کرے،حضرات فقہاء نے اس کو مکروہ تحریمی لکھا ہے فتاوی شامی میں ہے۔

’’ ویکرہ تحریما جماعۃ النساء ولو في التراویح إلی قولہ فإن فعلن تقف الإمام و سطہن فلو تقدمت أثمت۔ أفاد أن الصلاۃ صحیحۃ و أنہا إذا توسطت لاتزول الکراہۃ و إنما أرشدوا إلی التوسط لأنہ أقل کراہیۃ التقدم‘‘(۲)

ایک صورت یہ ہے کہ عورت حافظہ ہے اور وہ اپناقرآن یاد رکھنے کے لیے، تراویح کی نماز پڑھانا چاہتی ہے، اس صورت میں بعض حضرات نے گنجائش لکھی ہے؛ لیکن یہاں چند چیز وں کا خیال کرنا ضروری ہوگا: پہلی چیز تو یہ کہ باہر کی عورتوں کو نہ بلایا جائے اور عورت کی آواز اس قدر پست ہو کہ مردو ں تک اس کی آواز نہ پہنچے، اور عورت درمیان میں کھڑی ہو تو ان شرطوں کے ساتھ قرآن یاد کرنے کے پیش نظر جماعت کرنے کی گنجائش ہوگی۔حضرت مفتی نظام الدین صاحبؒ لکھتے ہیں:(الف) آج کل حافظہ عورتوں کے بارے میں اگر اتنی بڑی جماعت کی امامت ہو جس میں آواز معتادآواز سے زائد ہو تمام قیود و شرائط کے باوجود مکروہ تحریمی اور ناجائز رہے گی۔(ب) اگر ماہ رمضان میں حافظہ قرآن عورتوں کی چھوٹی جماعت جس میں آواز معتاد کے اندر اندر رہے اور تمام قیود و شرائط کے اندررہے اور عورت صف سے صرف چار انگل آگے رہے تو الامور بمقاصدہا کے تحت یہ فعل جائز رہے گا۔(ج) اگر ماہ رمضان مبارک میں صرف دو دو تین تین عورتوں کی جماعت جو محض بہ نیت حفظ قرآن پاک اور بطور دور ہو تواور قیود و شرائط کے موافق اور مکان محفوظ کے اندر ہو جس میں آواز اپنی معتاد آواز سے زائد نہ رہے تو بلا شبہ جائز رہے گی بلکہ الامور بمقاصدہا کے تحت مستحسن بھی ہوسکتی ہے۔(۱)(۱) ظفر احمد تھانوی، إعلاء السنن، ’’کتاب الصلاۃ: أبواب الإمامۃ، باب عدم جواز إمامۃ المرأۃ لغیرہ المرأۃ‘‘: ج ۴، ص: ۲۲۱، دار الکتب الاشرفیہ، دیوبند۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب إذا صلی الشافعي قبل الخنفي ہل الأفضل الصلاۃ مع الشافعي أم لا؟‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۶۔وکذلک یکرہ أن یؤم النساء في بیت ولیس معہن رجل ولامحرم منہ مثل زوجتہ وأمتہ وأختہ فإن کانت واحدۃ منہن فلا یکرہ وکذلک إذا أمہنّ في المسجد لایکرہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ‘‘: ج ۱، ص: ۶۱۶) (۱) مفتی نظام الدین، نظام الفتاوی: ج ۶، ص: ۶۷، ایفا پبلیشرز، دہلی۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 53

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: قرآن وحدیث میں جہاں کہیں کسی عمل پر ثواب یا عذاب کا تذکرہ ہے وہ مرد و عورت دونوں کو شامل ہے، عام طور پر {یاایہا الذین آمنوا} کے ذریعہ جوخطاب کیا گیا ہے اس میں عورتیں بھی شامل ہیں، ہاں اگر عورت کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی ضرورت ہوئی تو عورت کو الگ سے بیان کردیا گیا۔ نماز جس طرح مردوں پر فرض ہے، اسی طرح عورتوں پر بھی فرض ہے اسی طرح دیگر عبادات جس طرح مردوں پر فرض ہیں عورتوں پر بھی فرض ہیں حکم میں مردو عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔

اسی طرح رمضان میں جو مخصوص اعمال ہیں ان کا حکم بھی مرد و عورت دونوں کوشامل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اخیر عشرہ میں راتوں کو بیدار رہ کر عبادت کیاکرتے تھے تو آپ ازواج مطہرات کوبھی بیدار کیا کرتے تھے، رمضان میں مخصوص عبادت میں ایک تراویح کی نماز ہے جس کے بارے میں حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’من قام رمضان إیمانا و إحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘(۱) جس نے ایمان و ثواب کی امید پر رمضان میں تراویح کی نماز پڑھی اس کے اگلے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔ تراویح کا یہ حکم جس طرح مردوں سے متعلق ہے اسی طرح عورتوں سے بھی متعلق ہے اسی لیے حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ تروایح کی نمازمردوعورت دونوں کے لیے سنت مؤکدہ ہے۔

’’التراویح سنۃ مؤکدۃ لمواظبۃ الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعا‘‘(۲)

لیکن عام طور پر تراویح کا جس قدر اہتمام مرد حضرات کرتے ہیں عورتوں میں اس قدر اہتمام نہیں دیکھا جاتاہے اورجو عورتیں تنہا گھروں میں فرض نمازوں کا اہتمام کرتی ہیں وہ بھی تراویح کا اس قدر اہتمام نہیں کرتی ہیں جب کہ خیر القرون میں حضرات خواتین بھی تراویح کا اہتمام کرتی تھیں، حضرت عائشہ ؓ اپنے غلام ذکوان کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھتی تھیں۔

خواتین جس طرح دیگر نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتی ہیں اسی طرح تروایح کی نماز بھی ان کے لیے گھروں میں پڑھنا افضل ہے، مرد حضرات مسجد میں تروایح کی نماز پڑھیں گے تو عورتیں تروایح اپنے گھروں میں تنہا تنہا پڑھ لیں گی،لیکن اگر مرد حضرات گھر میں کسی وجہ سے جماعت کرتے ہیں تو اس جماعت میں عورتیں شریک ہوسکتی ہیں، اور اس میں صفوں کی ترتیب وہی ہوگی جو عام نماز میں ہوتی ہے کہ امام کے بعد مردحضرات کی صفیں ہوں گی پھر بچوں کی صفیں ہوں گی اور اس کے بعد عورتوں کی صف ہوگی۔

بعض مرتبہ صرف میاں بیوی تراویح پڑھتے ہیں تو اس صورت میں امام آگے کھڑا ہوگا اوربیوی پیچھے کی صف میں کھڑی ہوگی، اگر میاں بیوی کے ساتھ بچے بھی ہوں تو اگر کئی لڑکے یا محرم مرد ہوں تو  وہ امام کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور عورتیں اس کے پیچھے کھڑی ہوں گی، اگر ایک لڑکا ہے یا ایک مرد ہے تو وہ امام سے تھوڑا پیچھے کھڑا ہوگا اور عورتیں پیچھے کی صف میں کھڑی ہوں ہوگی۔

 اگرنماز پڑھانے والا غیر محرم ہے یا پڑھنے والوں میں محرم،غیر محرم سبھی قسم کے لوگ شامل ہیں تو اس صورت میں عورت پردے سے جماعت میں شریک ہوسکتی ہے۔ بعض مرتبہ گھروں میں گھر کا کوئی غیر محرم فرد تراویح پڑھاتا ہے جس سے عام حالات میں غفلت وجہالت کی بنا پر پردہ نہیں کیا جاتا ہے اگر ایسا شخص نماز پڑھائے جو کہ غیر محرم مثلا گھر میں دیور نماز پڑھائے تو بھی عورت کو پردہ میں تراویح کی نماز پڑھنی چاہیے۔

اگر تراویح پڑھانے والا غیر محرم ہو تو صرف غیر محرم عورتوں کا اس نمازمیں شریک ہونا مکروہ ہے ہاں اگر گھر کے محرم مرد بھی شامل ہوں یا پڑھانے والے کی کوئی محرم عورت ہومثلا پڑھانے والے امام کی ماں یا اس کی بہن بھی نماز پڑھ رہی ہے تو ایسی صورت میں غیر محرم عورتوں کا شریک ہونا درست ہے۔ فتاوی شامی میں ہے۔

’’تکرہ إمامۃ الرجل لہن في بیت لیس معہن رجل غیرہ و لامحرم منہ کأختہ أو زوجتہ أو أمتہ أما اذا کا ن معہن واحد ممن ذکر أو أمہن في المسجد لا یکرہ‘‘(۱)

اگرصرف محرم حضرات نماز پڑھ رہے ہو ں اور نماز میں کوئی غلطی ہوجائے اور عورت حافظہ ہو  مثلاً بھائی بہن دونوں حافظ ہیں اور بھائی نماز پڑھائے تو غلطی پر بہن لقمہ دے یا غیر محرم عورت لقمہ دے دے تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی اس لیے کہ اصح قول کے مطابق عورت کی آواز کا پردہ نہیں ہے تاہم عورت کے لیے بہتر نہیں ہے کہ وہ لقمہ دے بلکہ امام کو چاہیے کہ مقدار فرض پڑھ چکا ہو تو لقمہ کا انتظار کئے بغیر رکوع میں چلاجائے۔

’’في شرح المنیۃ الأشبہ أن صوتہا لیس بعورۃ و إنما یؤدي إلی الفتنۃ کما علل بہ صاحب الہدایۃ و غیرہ في مسئلۃ التلبیۃ و لعلہن إنما منعن من رفع الصوت بالتسبیح في الصلاۃ لہذا المعنی و لایلزم من حرمۃ رفع صوتہا بحضرۃ  الأجانب أن یکون عورۃ‘‘(۱)

(۱) أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب شہر رمضان، باب في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴، رقم: ۱۳۱۷۔(۲) ابن عابدین، ردالمحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۳۔

(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۴۷۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 50