Frequently Asked Questions
فقہ
Ref. No. 3286/46-9033
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ باغ کو کئی سالوں کے لئے ٹھیکہ پر دینا شرعا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر یہ بلازمین پھلوں کی بیع ہے تو یہ معدوم کی بیع ہے کیونکہ ابھی پھل درختوں پر آئے نہیں ہیں، اور اس کو بیع سلم بھی قرار نہیں دیاجاسکتاہے، اس لئے کہ متعین باغ یا متعین درختوں میں سلم کا معاملہ درست نہیں ہے، نیز اس کے عدم جواز پر صریح احادیث موجود ہیں، اسی کو بیع معاومہ یا بیع سنین سے تعبیرکیاگیا ہے (سنن ترمذی ، باب ماجاء فی المخابرۃ) ۔ اس کے جواز کی ایک صورت یہ ہے کہ اپنے باغ کی خود ہی دیکھ ریکھ کی جائے اور جب پھل آجائیں تو اب اس کی بیع کی جائے۔ جواز کی دوسری صورت یہ ہے کہ جس شخص کو باغ ٹھیکہ پر دینا مقصود ہو باغ کا مالک اس کو باغ مساقاۃ یعنی پیداوار کے حصہ معینہ پر سیرابی کے لئے دیدے اور اپنے لئے پیداوار کا کم حصہ رکھے اور اکثر اس کے لئے رکھے، مثلا ایک فیصد یا پانچ فیصد اپنے لئے رکھے پھر اسی شخص کو وہ زمین ایک بڑی رقم (جو پھلوں کی قیمت کے مساوی ہو) کے بدلے ٹھیکہ پر دیدے اور باغ کے پھل میں جو حصہ مالک نے لے رکھا ہے وہ ٹھیکہ والے کے لئے چاہے تو مباح کردے ، تو اس طرح معاملہ درست ہوجائے گا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3285/46-9012
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ حصن المسلم دعاؤں پر مشتمل ایک کتاب ہے، جس میں تقریبا تمام مواقع کی دعائیں درج ہیں، یہ کتاب عمدہ اور بہت مفید ہے، اور اس کو پڑھ کر ان دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
خوردونوش
Ref. No. 3283/46-9015
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انڈے کے اوپر نجاست کو زائل کرنا ضروری ہے، نجاست کا اثر زائل کرنا ضروری نہیں ہے، پانی سے دھونے سے پاکی حاصل ہوجاتی ہے، کسی پاؤڈر وغیرہ سے داغ کو زائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انڈا پاک ہے ، نجاست کے داغ کے ساتھ اس کو ابال سکتے ہیں اور کھاسکتے ہیں، انڈا ناپاک نہیں ہوگا۔ باقی طبعی طور پر اچھا نہ لگے تو پاؤڈر وغیرہ سے دھونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ نیز اگر انڈے پر ظاہری نجاست دھونے سے زائل ہوگئی، صرف نشان باقی ہے تو ایسے انڈے کو بوائل کرنے سے پانی ناپاک نہیں ہوگا۔
"(قوله: رطوبة الفرج طاهرة) ولذا نقل في التتارخانية أن رطوبة الولد عند الولادة طاهرة، وكذا السخلة إذا خرجت من أمها، وكذا البيضة فلا يتنجس بها الثوب ولا الماء إذا وقعت فيه، لكن يكره التوضؤ به للاختلاف، وكذا الإنفحة هو المختار. وعندهما يتنجس، وهو الاحتياط. اهـ. قلت: وهذا إذا لم يكن معه دم ولم يخالط رطوبة الفرج مذي أو مني من الرجل أو المرأة." (شامی، كتاب الطهارة،باب الأنجاس، ج:1،ص:349،ط:سعيد)
"ورطوبة الفرج طاهرة عند الإمام خلافاً لصاحبيه: وهي رطوبة الولد عند الولادة، ورطوبة الخلة (الخل) إذا خرجت من أمها، وكذا البيضة، فلا يتنجس بها الثوب ولا الماء، لكن يكره التوضؤ به." (الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي، الباب الأول الطهارات، الأعيان الطاهرة،ج:1،ص:294،ط:دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3284/46-9014
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The right to initiate divorce (Talaq) is exclusively granted to the husband in Islamic law. For Khula to be considered valid, the husband's consent is also essential. A divorce or annulment granted solely by a civil court does not dissolve the marriage under Shariah. Consequently, if a woman obtains Khula from a civil court without her husband's consent, it is not recognized as valid in Islamic law, and any subsequent marriage based on such a decree would be considered unlawful.
However, if a woman files her case with an Islamic arbitration council (Darul Qaza), certain circumstances allow a Muslim Qadi (Islamic judge) to dissolve the marriage without the husband's consent. For example, if the husband neglects his marital obligations and refuses to issue a divorce, the Qadi, under specific conditions, can annul the marriage on behalf of the husband. Following such an annulment, the woman is required to observe a waiting period (Iddah) of three menstrual cycles. Once the Iddah is completed, she is free to marry another man of her choice.
"(قال) : والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد." (المبسوط للسرخسي (6 / 173) باب الخلع، ط: دارالمعرفة، بیروت)
"و أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة، و لايستحق العوض بدون القبول." (بدائع، 3 / 145، فصل في حکم الخلع، ط: سعید)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3282/46-9007
ANSWER
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If a person is unable to prostrate on the ground due to knee pain, the obligation of standing (qiyam) in prayer is waived, as standing and bowing (ruku), are the means of prostration (sajdah). Such an individual has the option either to perform the entire prayer while sitting and using gestures or to stand and use gestures for both bowing and prostration. Both options are permissible.
However, the jurists (fuqaha) have recommended performing the entire prayer while sitting in such cases, as it is considered better. Moreover, praying on the ground (while sitting) is deemed superior to praying on a chair.
وفی الذخيرة: رجل بلحقه خراج ان سجد سال وهو قادر علي الركوع والقيام والقرأة يصلي قاعدا يولي" ولو صلي قائما بركوع وقعد وأما بالسجود أجزأه والأول أفضل" لأن القيام والركوع لم يشرعا قربة بنفسها بل ليكونا وسيلتين الي السجود. (رد المحتار، ’’كتاب الصلاة: باب صلاة المريض‘‘: ج 2، ص: 97، سعيد)
(وان تعذر) ليس تعذرهما شرطا بلا تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ قاعدا) وهو أفضل من الايماء قائما لقربة من الأرض. (الدر المختار مع رد المحتار: ج 2، 97، سعيد)
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 3280/46-8097
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ روپئے کی قیمت گھٹنے بڑھنے والی چیز نہیں ہے، جس طرح کہ سونے چاندی ودیگر سامانوں کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ اس لئے مہر میں جو اکیاون روپئے نکاح کے وقت طے ہوئے تھے وہی اکیاون روپئےاب بھی واجب ہوں گے بشرطیکہ ساٹھ سال قبل اقل مہر دس درہم کی مقدار اکیاون روپئے ہو یا اس سے کم ہو۔ ان الدیون تقضی بامثالھا (رد المحتار 3/605)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نکاح و شادی
Ref. No. 3280/46-8097
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ خیال رہے کہ روپئے کی قیمت گھٹنے بڑھنے والی چیز نہیں ہے، جس طرح کہ سونے چاندی ودیگر سامانوں کی قیمتیں گھٹتی بڑھتی رہتی ہیں۔ اس لئے مہر میں جو اکیاون روپئے نکاح کے وقت طے ہوئے تھے وہی اکیاون روپئےاب بھی واجب ہوں گے بشرطیکہ ساٹھ سال قبل اقل مہر دس درہم کی مقدار اکیاون روپئے ہو یا اس سے کم ہو۔ ان الدیون تقضی بامثالھا (رد المحتار 3/605)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 3279/46-9005
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
May Allah accept your noble intentions. The reward of deeds is determined by the sincerity of intentions, and if the intention is pure, your efforts will undoubtedly bring great rewards.
There is no need to establish new principles just for online education. Just as offline education is permissible, online education is equally valid. However, any method of teaching that is impermissible in an offline setting remains impermissible online too. When it comes to women’s education in an online setting, it is imperative to uphold the principles of modesty. Consequently, teaching through video, where the image of an adult woman is visible, is not permissible. However, teaching via audio is acceptable.
To provide a clear understanding and ensure proper guidance, it would be helpful if you detail your proposed system for online education for further assessment.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 3278/46-8088
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی شخص کی مکمل آمدنی حرام و ناجائز ہے، تو اس کے گھر کا کھانا ،پینا اور اس سے ہدیہ لینا ناجائز ہے، اور اگر وہ سمجھانے کے باوجود ناجائز آمدنی ترک نہ کرے تو اس سے ترک تعلق کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Prayer / Friday & Eidain prayers
Ref. No. 3277/46-8085
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قبرستان کا وقف الگ ہے اور عیدگاہ کا وقف الگ ہے، اس لئے بلاضرورت قبرستان کی زمین میں عیدگاہ بنانا بھی درست نہیں ہے، تاہم اگر عیدگاہ میں نماز پڑھی جارہی ہے تو قبروں کے سامنے نماز اداکرنا مکروہ ہے، اس لئے اگر عیدگاہ کی چہاردیواری کے اندر جگہ نہ ملے تو کسی دوسری جگہ نماز اداکرنا بہتر ہے، کیونکہ قبر کے سامنے نماز مکروہ ہے۔
الحنفية قالوا: تكره الصلاة في المقبرة إذا كان القبر بين يدي المصلي؛ بحيث لو صلى صلاة الخاشعين وقع بصره عليه. أما إذا كان خلفه أو فوقه أو تحت ما هو واقف عليه، فلا كراهة على التحقيق. وقد قيدت الكراهة بأن لا يكون في المقبرة موضع أعد للصلاة لا نجاسة فيه ولا قذر، وإلا فلا كراهة، وهذا في غير قبور الأنبياء عليهم السلام، فلا تكره الصلاة عليها مطلقا." (الفقه على المذاهب الأربعة، كتاب الصلاة، ص:161،)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند