نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح ہو کہ عید کا خطبہ سنت ہے اور سنت کی ادائیگی کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں ہے، لہٰذا مذکورہ صورت میں خطبہ اور نماز دونوں درست ہو گئیں، تاہم بالغ ہونا اور دونوں کے لئے ایک ہی شخص کا ہونا بہتر ہے۔’’وفي القنیۃ: واتحاد الخطیب والإمام لیس بشرط علی المختار، وفي الذخیرۃ: لو خطب صبي عاقل وصلی بالغ جاز لکن الأولیٰ الاتحاد کما في شرح الأثار‘‘(۱)’’(لا ینبغي أن یصلي غیر الخطیب) لأنہما کشئ واحد (فإن فعل بأن خطب صبي بإذن السلطان وصلی بالغ جاز) ہو المختار‘‘(۲)(۱) أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ص: ۵۰۸۔(۲) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۳۹، ۴۰۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 272

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز جمعہ کی طرح عید کی نماز کے بعد دو خطبے ہی پڑھنا مسنون ہے اگر کوئی شخص عید کے دن دو خطبوں کی جگہ ایک ہی خطبہ پڑھتا ہے تو ترک سنت کا مرتکب ہوگا، لہٰذا خطبہ کی پوری سنت ادا کرنی چاہئے، تاہم عید کی نماز ہو جائے گی۔’’قولہ: (ویخطب بعدہا خطبتین) اقتداء بفعلہ علیہ الصلاۃ والسلام بخلاف الجمعۃ فإنہ یخطب قبلہا لأن الخطبۃ قبلہا شرط والشرط متقدم أو مقارن، وفي العید لیست بشرط، ولہذا إذا خطب قبلہا صح وکرہ لأنہ خالف السنۃ کما لو ترکہا أصلاً‘‘(۱)’’اعلم أن الخطبۃ سنۃ وتأخیرہا إلی ما بعد الصلاۃ سنۃ أیضاً‘‘(۲)(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳۔(۲) أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب أحکام العیدین‘‘: ص: ۵۲۸۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 271

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح رہے کہ عید میں خطبہ دینا سنت ہے اور ان لوگوں پر جو وہاں موجود ہوں سننا واجب ہے تو اگر امام نے خطبہ نہیں دیا تو ترک سنت کا گناہ ہوگا، تاہم نماز عید ادا ہو جائے گی۔’’(تجب صلاتہما) في الأصح علی (من تجب علیہ الجمعۃ بشرائطہا) المتقدمۃ، (سوی الخطبۃ) فإنہا سنۃ بعدہا قولہ: (فإنہا سنۃ بعدہا) بیان للفرق وہو أنہا فیہا سنۃ لا شرط، وأنہا بعدہا لا قبلہا، بخلاف الجمعۃ، قال في البحر: حتی لو لم یخطب أصلا صح وأساء لترک السنۃ‘‘(۱)’’فإنہا (الخطبۃ) سنۃ بعد الصلاۃ وتجوز الصلاۃ بدونہا وإن خطب الصلاۃ جاز وکرہ‘‘(۲)(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: في الفأل والطیرۃ‘‘: ج ۳، ص: ۴۵، ۴۶۔(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۱۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 270

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: واضح ہو کہ عیدین کے موقع پر خطبے مخصوص نہیں ہیں، بلکہ ایسا خطبہ پڑھنا مسنون ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی حمد وثنا درود شریف عیدین کی مناسبت سے احادیث اور احکام پر مشتمل کوئی بھی خطبہ پڑھا جا سکتا ہے، صورت مذکورہ میں سورۂ فاتحہ کے پڑھنے سے بھی خطبے کی سنت ادا ہو جائے گی، بہتر ہوگا سورۂ فاتحہ کے ساتھ تکبیرات کا بھی اضافہ کر لیا جائے تو پورے خطبے کی سنت ادا ہو جائے گی۔’’فإن أدخل بین التکبیرتین الحمد والتہلیل کان حسنا ولا ینقص من عدد التکبیر شیئاً‘‘(۱)’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زینوا أعیادکم بالتکبیر‘‘(۲)(۱) الإمام الشافعي، کتاب الأم، ’’کتاب صلاۃ العیدین: التکبیر في الخطبۃ في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۴۵۳۔(۲)أخرجہ الطبراني في المعجم الصغیر: ج ۳، ص: ۹۰۴، رقم: ۵۹۹۔

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 269

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: احادیث میں ہے کہ نماز کے بعد خصوصیت سے دعاء قبول ہوتی ہے اس عموم میں نماز عیدین بھی شامل ہے اس لئے اولیٰ ہے کہ نماز عیدین کے بعد دعاء کی جائے خطبہ کے بعد دعاء نہ کی جائے اور اولیٰ یہ ہے کہ سراً دعاء کی جائے اتفاقاً جہراً ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)(۱) عن أبي أمامۃ قال: قیل یا رسول اللّٰہ أي الدعاء أسمع؟ قال: جوف اللیل ودبر الصلوات المکتوبۃ رواہ الترمذي۔ (خطیب تبریزی، مشکاۃ المصابیح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الذکر بعد الصلاۃ، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۸۹، رقم: ۹۶۸)ومن ہنا قال جمع بکراہۃ رفع الصوت بہ۔ وفي الانتصاف حسبک في تعین الإسرار فیہ اقترانہ في الآیۃ بالتضرع فالإخلال بہ کالإخلال بالضراعۃ إلی اللّٰہ تعالٰی، وإن دعاء لا تضرع فیہ ولا خشوع لقلیل الجدوي فکذلک دعاء لا خفیۃ فیہ ولا وقار بصحبہ، وتری کثیرا من أہل زمانک یعتمدون الصراخ في الدعاء خصوصا في الجوامع حتی یعظم اللغط ویشتد وتستک المسامع وتستد ولا یدرون أنہم جمعوا بین بدعتین رفع الصوت في الدعاء وکون ذلک في المسجد۔وفصل آخرون فقالوا: الإخفاء أفضل عند خوف الریاء والإظہار أفضل عند عدم خوفہ، وأولی منہ القول بتقدیم الإخفاء علی الجہر فیما إذا خیف الریاء أو کان في الجہر تشویش علی نحو مصل أو نائم أو قاری أو مشتغل بعلم شرعي، وبتقدیم الجہر علی الإخفاء فیما إذا خلا عن ذلک وکان فیہ قصد تعلیم جاہل۔ (علامہ آلوسي، روح المعاني، ’’سورۃ الأعراف‘‘مکتبہ زکریا، دیوبند: ج ۸، ص: ۲۰۸)فیشہدن جماعۃ المسلمین ودعوتہم۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب وجوب الصلاۃ في الثیاب‘‘: ج ۱، ص: ۵۱، رقم: ۳۵۱)ویشہدن الخیر، ودعوۃ المسلمین۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب العیدین: باب ذکر إباحۃ خروج النساء في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۱،  رقم: ۸۹۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 268

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں بسم اللہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اور پڑھنے والے کو گناہگار کہنا غلط ہے۔ اور بسم اللہ کو اس جگہ لازم و ضروری سمجھنا بھی غلط ہے۔ جیسا بھی مناسب سمجھا جائے جہراً یا سراً پڑھ سکتے ہیں اور نہ بھی پڑھا جائے تو تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔(۱)(۱) فالأخبار قد تواترت  أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقرأ القرآن في خطبتہ لا تخلو عن سورۃ أو آیۃ ثم قال: وإذا قرأ سورۃ تامۃ یتعوذ ثم یسمی قبلہا وإن قرأ آیۃ قیل یتعوذ ثم یسمی الخ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الجمعۃ، مطلب: في نیۃ آخر ظہر بعد صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۳، ص: ۲۱)قولہ: (وسن خطبتان بجلستہ الخ) کما روی عن أبي حنیفۃ أنہ قال: ینبغي أن یخطب خطبۃ خفیفۃ یفتتح بحمد اللہ تعالیٰ ویثني علیہ ویتشہد ویصلي علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ویعظ ویذکر ویقرأ سورۃ ثم یجلس جلستہ خفیفۃ، ثم یقوم فیخطب خطبۃ أخری۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجمعۃ‘‘: ج ۲، ص: ۲۵۸)وفي القنیۃ: قال أبو یوسف في الجامع: ینبغي للخطیب إذا صعد المنبر أن یتعوذ باللہ في نفسہ قبل الخطبۃ۔ (أیضاً: ج ۲، ص: ۲۶۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 267

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدین کے خطبہ میں مستحب ہے کہ پہلے خطبہ کے شروع میں نو بار تکبیر بالجہر متواتر پڑھے۔ اور دوسرے خطبہ کے شروع میں سات مرتبہ تکبیر بالجہر کہے۔(۱)(۱) (ویستحب أن یستفتح الأولیٰ بتسع تکبیرات تتری) أي متتابعات (والثانیۃ بسبع) ہو السنۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸)ویستحب أن یفتح الخطبۃ الأولیٰ بتسع تکبیرات تتریٰ، والثانیۃ بسبع، کذا في الزاہدي۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)ویستحب أن یستفتح الأولیٰ بتسع تکبیرات تتریٰ، والثانیۃ بسبعٍ قال عبد اللّٰہ بن عتبۃ بن مسعود: ہو من النسۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 266

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عید کی نماز کے بعد خطبہ سنت مؤکدہ ہے؛ لہٰذا نماز سے پہلے ہی لوگوں کو تاکید کردی جائے کہ وہ خطبہ سن کر ہی واپس جائیں اور خطبہ کی حیثیت و اہمیت پر بھی روشنی ڈالی جا ئے ۔(۱) اگر چھوٹا گاؤں ہے تو بلا عذر عید کی نماز عیدگاہ کے علاوہ دوسری جگہ نہ پڑھیں، ہاں! شدید عذر کی وجہ سے عید گاہ کے علاوہ دوسری جگہ پر نماز پڑھی جاسکتی ہے اور اگر بڑا قصبہ یا شہر ہو اور عید گاہ میں سب لوگ نہ آسکتے ہوں یا پہونچنے میں پریشانی ہو تو مساجد میں بھی عید کی نماز ادا کر لی جائے۔ چھوٹے گاؤں میں جب کہ بآسانی سب لوگ عید گاہ پہونچ کر نماز ادا کرسکتے ہوں عیدگاہ ہی میں نماز پڑھنی چاہئے؛ لیکن اگر نماز مسجد میں بھی ادا کرلی گئی تو وہاں نماز پڑھنے والوں کی نماز ادا ہوگئی۔(۲) (۱) (ویخطب بعدہا خطبتین) وہما سنۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۷)(۲) عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أنہ أصابہم مطر في یوم عید فصلی بہم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلاۃ العید في المسجد۔ (أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ:      باب یصلي بالناس في المسجد إذا کان یوم مطر‘‘: ج ۱، ص: ۱۶۴، رقم : ۱۱۶۰)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 265

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: صورت مسئولہ میں نماز بھی درست ہوگئی اور خطبہ بھی درست ہوگیا۔(۳)(۳) قولہ: (وہکذا الخ) … ویستفاد من کلامہم أن الخطیب إذا رأی حاجۃ إلی معرفۃ بعض الأحکام فإنہ یعلمہم۔ (ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸)قولہ: (ویعلم الناس فیہا أحکام صدقۃ الفطر) لأنہا شرعت لأجلہ، وقال في السراج الوہاج: وأحکامہا خمسۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)ویعلم الناس صدقۃ الفطر وأحکامہا، وہي خمسۃ … وفي عید النحر یکبر الخطیب ویسبح، ویعظ الناس، ویعلمہم أحکام الذبح والنحر والقربان، کذا في التتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 265

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق: عیدین کے خطبوں میں سنت یہ ہے کہ عیدین کے احکام بیان کئے جائیں، عید الفطر، صدقۃ الفطر، قربانی، کے احکام اور سنن وواجبات بیان کئے جائیں جن میں ترغیب و ترہیب کا ذکر ہو اس لیے یہ ہی بہتر ہے کہ عیدین میں وہی مقررہ خطبے پڑھے جائیں؛ البتہ اگر کسی وجہ سے جمعہ والا خطبہ پڑھ دیا تو خطبہ درست ہوجائے گا۔

(۱) (و) أن (یعلم الناس فیہا أحکام) صدقۃ (الفطر) لیؤدیہا من لم یؤدہا، قولہ: (وہکذا الخ) … ویستفاد من کلامہم أن الخطیب إذا رأی حاجۃ إلی معرفۃ بعض الأحکام؛ فإنہ یعلمہم إیاہا في خطبۃ الجمعۃ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب العیدین، مطلب: أمر الخلیفۃ لا یبقی بعد موتہ‘‘: ج ۳، ص: ۵۸)قولہ: (ویعلم الناس فیہا أحکام صدقۃ الفطر) لأنہا شرعت لأجلہ، وقال في السراج الوہاج: وأحکامہا خمسۃ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ العیدین‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۳)ویعلم الناس صدقۃ الفطر وأحکامہا، وہي خمسۃ … وفي عید النحر یکبر الخطیب ویسبح، ویعظ الناس، ویعلمہم أحکام الذبح والنحر والقربان، کذا في التتار خانیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 8، ص: 264