Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے رمضان کے روزے کو فرض کیا اور میں نے اس کی راتوں کے جاگنے یعنی تراویح کو مسنون کیا ہے۔(۱)
یحی بن سعید قطان ؒ سے مروی ہے کہ حضرت عمر نے ایک شخص کو حکم دیا کہ لوگوں کو مسجد نبوی میں بیس رکعت تراویح پڑھائیں۔(۲)
حضرت سائب بن یزید سے روایت ہے کہ حضرت عمر کے عہد خلافت میں صحابہ و تابعین رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاکرتے تھے۔(۳)
ائمہ اربعہ میں امام احمدؒ، امام شافعیؒ اور امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک تراویح بیس رکعت ہے،امام مالک کے نزدیک چھتیس رکعت ہے۔(۴)
آج تک حرمین شریفین میں اسی سنت پر عمل ہورہا ہے، خلفاء راشدین کے زمانہ سے آج تک کوئی دور ایسا نہیں گزرا جس میں تراویح بیس رکعت سے کم پڑھی گئی ہو۔معلوم ہو اکہ تراویح بیس رکعت ہی سنت ہے اس لیے تراویح بیس رکعت ہی پڑھنا چاہئے۔امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک تراویح کی نمازسنت مؤکدہ ہے جس کا چھوڑنا جائز نہیں تراویح میںدو چیزیں علیحدہ علیحدہ سنت ہیں،پورے رمضان تراویح پڑھنا،یہ ایک الگ سنت ہے اور تراویح میں قرآن ختم کرنا یہ علیحدہ سنت ہے۔(۱) أخرجہ احمد، في مسندہ، حدیث عبدالرحمن بن عوف الزہری، ’’کتاب الصلاۃ‘‘: ج ۳، ص: ۱۹۸، رقم: ۱۶۶۔(۲) أخرجہ ابن أبي شیبہ، في مصنفہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب کم یصلی في رمضان من رکعۃ‘‘: ج ۵، ص: ۲۲۳، رقم: ۷۷۶۴۔(۳) أخرجہ البیہقي، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما روي في عدد رکعات القیام‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۶، رقم: ۴۳۹۰۔(۴) والمختار عند أبي عبد اللّٰہ رحمہ اللّٰہ فیہا عشرون رکعۃً، وبہذا قال الثوري وأبو حنیفۃ، والشافعي، وقال مالک: ستۃ وثلاثون۔ (ابن قدامہ، المغني، ’’کتاب الصلاۃ: باب الساعات التي نہي عن الصلاۃ فیہا فصل‘‘: ج ۲، ص: ۳۶۶، دار الکتب العلمیۃ، بروت)وأما قدرہا فعشرون رکعۃ في عشر تسلیمات في خمس ترویحات کل تسلیمتین ترویحۃ وہذا قول عامۃ العلماء وقال مالک في قول ستۃ وعشرون رکعۃ والصحیح قول العامۃ لما روي أن عمر رضی اللّٰہ عنہ جمع أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في شہر رمضان علی أبي بن کعب فصلی بہم في کل لیلۃ رکعۃ ولم ینکر علیہ أحد فیکون إجماعاً منہم علی ذلک۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 49
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی نماز سنت مؤکدہ ہے؛ اس لیے نیت سنت مؤکدہ کی یا نماز تراویح کی کرنی چاہیے اگر کسی نے نفل کی نیت سے تراویح کی نماز پڑھادی تو بھی نماز درست ہوجائے گی۔(۱)
’’منہا نیۃ التراویح أونیۃ قیام رمضان أو نیۃ سنۃ الوقت ولو نوی الصلاۃ مطلقا أو نوی التطوع، قال بعض المشائخ: لا یجوز لأنہا سنۃ و السنۃ لا تتأدی بنیۃ مطلق الصلاۃ أو نیۃ التطوع، و استدلوا بما روي الحسن عن أبي حنیفۃ أن رکعتي الفجر لا تتأدی إلا بنیۃ السنۃ، وقال عامۃ مشائخنا: إن التراویح و سائر السنن تتأدی بمطلق النیۃ و لأنہا و إن کا نت سنۃ لا تخرج عن کونہا نافلۃ و النوافل تتأدی بمطلق النیۃ إلا أن الاحتیاط أن ینوي التراویح أو سنۃ الوقت أو قیام رمضان احترازا عن موضع الخلاف‘‘(۲)
(۱) وکفی مطلق نیۃ الصلاۃ وإن لم یقل للّٰہ بفضل وسنۃ راتبۃ وتراویح علی المعتمد إذ تعیینہا بوقوعہا وقت الشروع والتعیین أحوط (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ، مطلب في حضور القلب والخشوع‘‘: ج ۲، ص:۹۵)
(۲) الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۶۴۵۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 48
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: بشرطِ صحت سوال زید کی امامت تراویح میں مکروہ ہے باشرع اور صحیح قرآن پڑھنے والے کو امام بنایا جائے جو نمازیں پڑھی گئیں وہ ادا ہوگئیں۔(۲)
(۲) کرہ إمامۃ الفاسق … فتجب إہانتہ شرعاً فلایعظم بتقدیمہ للإمامۃ، تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراہۃ في الفاسق تحریمیۃ۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’ کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في في بیان الأحق بالإمامۃ‘‘: ص: ۳۰۳)صلی خلف فاسق أو مبتدع نال فضل الجماعۃ، قولہ: نال فضل الجماعۃ أفاد أن الصلاۃ خلفہما أولیٰ من الإنفراد لکن لا ینال کما ینال خلف تقي ورع۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب، البدعۃ خمسۃ أقسام‘‘: ج ۲، ص: ۳۰۱، سعید)ولا یجوز إمامۃ الألثغ الذي لا یقدر علی التکلم ببعض الحروف إلا لمثلہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۴)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 47
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: ختم قرآن پراور روزانہ تراویح کے ختم پر دعاء مسنون ومستحب ہے، کیوں کہ تراویح بھی مستقل نماز ہے، حدیث میں ہے یہ وقت اجابت کا ہے۔(۲)
’’عن ثابت أن أنس بن مالک کان إذا ختم القرآن جمع أہلہ وولدہ فدعا لہم‘‘(۱)
(۲) عن معاذ بن جبل أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أخذ بیدہ قال یا معاذ واللّٰہ إني لأحبک فقال أوصیک یا معاذ لا تدعن في دبر کل صلاۃ تقول اللّٰہم اعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک۔ (أخرجہ أبي داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب في الاستغفار‘‘: ج ۱، ص: ۲۱۲، رقم: ۱۵۲۲)(۱) الطبراني، في المعجم الکبیر: ج ۱، ص: ۲۹۱، دار الکتب العلمیۃ، بروت۔
عن مغیرۃ بن شعبۃ رضي اللّٰہ عنہ، أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یقول دبر کل صلاۃ مکتوبۃ لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد الخ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان: باب الذکر بعد الصلاۃ‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۷، رقم: ۸۴۴، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 46
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں سنت چھوڑ کر نماز تراویح میں شامل ہو جائے اور سنن بعد میں پڑھے۔(۱)
(۱) ورکعتان قبل الصبح وبعد الظہر والمغرب والعشاء شرعت البعد فیہ لجیر النقصان۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مطلب في السنن والنوافل‘‘: ج ۲، ص: ۴۵۲)
لأن السنۃ من لواحق الفریضۃ وتوابعہا ومکملاتہا فلم تکن أجنبیۃ عنہا فما یفعل بعدہا یطلق علیہ أنہ عقیب الفریضۃ الخ۔ (أیضاً: )
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 46
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کا وقت مقرر ہے، یعنی عشاء کے بعد سے صبح صادق کے طلوع ہونے تک، اگر صبح صادق سے پہلے خبر آجائے، تو حسب استطاعت تراویح پڑھ سکتے ہیں، البتہ وقت نکلنے کے بعد تراویح کی قضاء نہیں ہے، لیکن اگر وقت کے بعد بھی کوئی شخص تراویح پڑھے گا، تو وہ نفل نماز ہو جائے گی۔(۱)
(۱) حکم التراویح فی أنہا لا تقضی إذا فاتت لحکم بقیۃ رواتب اللیل لأنہا منہا، لأن القضاء من خواص الفرض۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)إذا فاتت التراویح لا تقضي بجماعۃ ولا بغیرہا وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۱۷۶)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 45
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللہ التوفیق: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف میں جماعت کے ساتھ جو نماز پڑھائی وہ نماز تراویح تھی نماز تہجد نہیں تھی، کیوں کہ آپ نے بیس رکعت دو رات تک جماعت کے ساتھ پڑھائی، بیس رکعت تراویح ہی ہوتی ہیں تہجد نہیں۔(۲)
(۲) وإن کانت لم تکن في عہد أبي بکر فقد صلاہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وإنما أشفاقاً من أن تفرض علیٰ أمتہ وکان عمر ممن تنبہ علیہا وسنہا علی الدوام فلہ أجر وأجر من عمل بہا إلی یوم القیمۃ۔
عن عائشۃ أن رسول اللّٰہ علیہ وسلم في المسجد ذات لیلۃ فصلی بصلاتہ ناس ثم صلی من القابلۃ فکثر الناس اجتمعوا من اللیلۃ الثالثۃ أو الرابعۃ فلم یخرج إلیہم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلما أصبح قال قد رأیت الذي صنعتم فلم یمعنی من الخروج إلیکم إلا أني خشیت أن یفرض علیکم قال وذلک في رمضان۔ (أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ: باب الترغیب في قیام رمضان وہو التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۹، رقم: ۷۶۱، دالاشاعت، یوبند)
أخرجہ أبو داؤد، في سننہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب تفریع أبواب شہر رمضان، باب في قیام شہر رمضان‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۴ - ۱۹۵، رقم: ۱۳۷۳؛ وأخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التہجد: باب تحریض النبي صلاۃ اللیل والنوافل من غیر إیجاب‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲۹، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوي دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 44.
Hadith & Sunnah
Ref. No. 3292/46-9024
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ "ثاقب " عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے روشن ،چمک دار ، "مُحسِن" عربی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے: احسان کرنے والا۔ "اسرائیل" یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے، یہ ”اسرا“ اور”ایل“ دو لفظوں سے مرکب ہے، جس کا معنی ہے عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔ معنی کے اعتبار سے یہ سب نام اچھے ہیں، اس لئے ان میں سے کوئی بھی نام رکھنا درست ہے۔ انگریزی میں آپ اس طرح لکھ سکتے ہیں۔ Saqib, Muhsin, Israeel.
(2) مفرد نام رکھنا ہی ضروری نہیں ہے، بلکہ مرکب نام رکھنا بھی درست ہے بشرطیکہ معنی میں کوئی خرابی نہ ہو، البتہ نام رکھنے میں بہتر یہ ہے کہ صحابہ و تابعین کے ناموں سے انتخاب کیاجائے؛ وہ نام اچھے بھی ہوتے ہیں اور ان میں برکت بھی ہوتی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 3206/46-9017
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی جسم واعضاء سے منزہ ہے لیکن قرآن و حدیث میں اللہ تعالی کے کچھ صفات متشابہات واردہوئی ہیں، کہ جن کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاترہے۔ پس ان صفات باری تعالٰی کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات اللہ تعالٰی کے لیے قرآن وحدیث میں ثابت ہیں، ان صفات کو ثابت مانیں گے اور جن صفات کی نفی کی گئی ہے ان کی نفی کریں گے۔ صورت مسئولہ میں پیر کی انگلی ناک وغیرہ چوں کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن و حدیث میں ثابت نہیں ہیں، تو ان کا انکار کرنے سےکفر لازم نہیں آئے گا۔ اس طرح کی چیزوں میں بہت زیادہ غور و خوض مناسب نہیں ہے۔ شرح الطحاویہ میں ہے:
والواجب ان ينظر في هذا الباب اعنى فى باب الصفات فما اثبته الله ورسوله اثبتناہ و ما نفاه الله ورسوله نفيناه ) (شرح الطحاوية ١٦٨)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 3206/46-9013
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اللہ تعالی جسم واعضاء سے منزہ ہے لیکن قرآن و حدیث میں اللہ تعالی کے کچھ صفات متشابہات واردہوئی ہیں، کہ جن کی کنہ اور حقیقت کا ادراک انسانی عقل سے بالاترہے۔ پس ان صفات باری تعالٰی کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا مسلک یہ ہے کہ جو صفات اللہ تعالٰی کے لیے قرآن وحدیث میں ثابت ہیں، ان صفات کو ثابت مانیں گے اور جن صفات کی نفی کی گئی ہے ان کی نفی کریں گے۔ صورت مسئولہ میں پیر کی انگلی ناک وغیرہ چوں کہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن و حدیث میں ثابت نہیں ہیں، تو ان کا انکار کرنے سےکفر لازم نہیں آئے گا۔ اس طرح کی چیزوں میں بہت زیادہ غور و خوض مناسب نہیں ہے۔
شرح الطحاویہ میں ہے: والواجب ان ينظر في هذا الباب اعنى فى باب الصفات فما اثبته الله ورسوله اثبتناہ و ما نفاه الله ورسوله نفيناه ) (شرح الطحاوية ١٦٨)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند