طلاق و تفریق

Ref. No. 3229/46-8021

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  یہ عام بول چال کے الفاظ ہیں، اس سے کسی کے ذہن میں طلاق کے معنی کاخیال بھی نہیں آتاہے، اس لئے اس سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔ 

وركنه لفظ مخصوص».  (قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه." (شامی، کتاب الطلاق ج:3، ص:230، ط :سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

Innovations

Ref. No. 3227/46-7095

Answer 

In the name of Allah the most Gracious the most Merciful

The answer to your question is as follows:

If the stock market involves investments in lawful (halal) business activities, and profits are distributed based on a fair percentage without the involvement of interest (riba) or gambling (qimar), engaging in such stock market trading is permissible (halal). However, investing in businesses that are considered unlawful (haram), setting a fixed return on investments, or engaging in any transactions that involve interest or gambling is prohibited (haram).

And Allah knows best

Darul Ifta

Darul Uloom Waqf deoband

ربوٰ وسود/انشورنس

Ref. No. 3230/46-8008

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سونے اور چاندی کی جو ثمن کی حیثیت  ہے وہی حیثیت اگر کسی چیز کو حاصل ہوجائے تو اس میں کاروبار کرنے یا تبادلہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔  بٹ کوائن ایک ڈیجیٹل کرنسی ہے جسے کسی حکومت یا مرکزی ادارے کی حمایت حاصل نہیں ہے۔بٹ کوائن کو ابھی سونے اور چاندی جیسی ثمنیت کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔  اس لئے  اس کی  خریدوفروخت  سے علماء نے منع کیا ہے، کیونکہ بٹ کوائن کی قیمتوں میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اس میں سرمایہ کاری کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بنگلہ دیشی ٹکہ سے ڈالرخریدنا یا کسی ملک کی کرنسی سے دوسرے ملک کی کرنسی کی خریدوفروخت اس شرط کے ساتھ  جائز ہے کہ  معاملہ دونوں طرف نقد ہو یا کم از کم ایک طرف نقد ہو اور دوسری طرف کرنسی میں معاملہ طے ہوجائے۔ سونے چاندی کی خریدوفروخت کے احکام الگ ہیں اور کرنسی کی خریدوفروخت کے احکام الگ ہیں۔  

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

متفرقات

Ref. No. 3226/46-7096

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  شاید مرحوم کے ذمہ کچھ روزوں اور نمازوں کی قضا تھی، جن کاوہ خواب میں آکرکفارہ اداکرنے کا مطالبہ کررہے ہیں، اگر اس کے بارے میں کچھ معلوم ہو اور ٓپ اپنی طرف سے کفارہ اداکردیں تو مرحوم کے حق میں بہتر ہوگا ۔ اور اگرقضا روزوں اور نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہو تو اپنی مرضی سے جو کچھ میسر ہو صدقہ کردیں یا کچھ مسکینوں کو کھانے کھلادیں، تو امید ہے کہ کچھ تلافی ہوجائے گی۔ 

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

زیب و زینت و حجاب

Ref. No. 3224/46-7094

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ محرم رشتہ داروں کے سامنے عورت کے لیے سر ، بال، گردن، کان، بازو، ہاتھ ، پاؤں ، پنڈلی، ، چہرہ اور گردن سے متصل سینہ کا اوپری حصہ کھولنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ چہر ہ اور ہاتھ پاؤں کے سوا باقی اعضاءکو محارم کے سامنے بھی  ڈھکا رکھا جائے۔ نیز محرم عورتوں کے   پیٹ، کمر اور  پیٹھ اور گھٹنے کا بھی پردہ ہے ان اعضاء کی  طرف  بھی دیکھنا جائز نہیں ہے۔

ینظر الرجل من ذوات محارمہ إلی الوجہ والرأس والصدر․․․ ولا ینظر إلی ظہرہا وبطنہا وفخذہا (ہدایہ: ۴۶۱/۴) قال فی الشامی:وقال الرحمتی: الظہر ما قابل البطن من تحت الصدر إلی السرة․․․ أی فما حاذی الصدر لیس من الظہر الذی ہو عورة اھ ومقتضی ہذا أن الصدر وما قابلہ من الخلف لیس من العورة وأن الثدی أیضًا غیر عورة وسیأتی فی الحظر والإباحة أنہ یجوز أن ینظر من أمة غیرہ ما ینظر من محرمہ، ولا شبہة أنہ یجوز النظر إلی صدر محرمة وثدیہا فلا یکون فی عورة منہا ولا من الأمة (شامی: ۷۷/۲، ط: زکریا دیوبند)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: گنہگاری کا شبہ بے محل ہے، وہ گنہگار نہیں ہوں گے؛ بلکہ ثواب ہی کے مستحق ہوں گے۔(۱)

(۱) {لاَ یُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ} (سورۃ البقرۃ: ۲۸۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 443.

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: نماز تراویح کا وقت نماز عشاء کے بعد سے شروع ہوتا ہے؛ اس لیے صورت مسئولہ میں نماز عشاء، تو درست ہو گئی، لیکن وقت سے پہلے پڑھی جانے کی وجہ سے تراویح درست نہیں ہوئی، در مختار میں ہے۔

’’ووقتہا بعد صلاۃ العشاء إلی الفجر قبل الوتر وبعدہ‘‘(۱)

اس کی شرح میں علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

’’قدر لفظ صلاۃ إشارۃ إلی أن المراد بالعشاء الصلاۃ لا وقتہا وإلی ما في النہر من أن المراد مابعد الخروج منہا حتی لو بني التراویح علیہا لا یصح وہو الأصح‘‘(۲)

(۱) الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح: ج ۱، ص: ۴۹۳۔(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص۹۴ - ۴۹۳۔ووقتہا ما بعد صلاۃ العشاء علی الصحیح إلی طلوع الفجر و لتبعیتہا للعشاء یصح تقدیم الوتر علی التراویح وتأخیرہ عنہا وہو أفضل حتی لو تبین فساد العشاء دون التراویح والوتر۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی المراقي، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۳)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 43.

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: تراویح کی قضا نہیں ہے اور اگر وقت گزر نے کے بعد تراویح کی قضاء کی تو نفل کا ثواب ملے گا۔ تراویح کی سنت ادا نہ ہوگی ایسے میں جو پارہ چھوٹ گیا اس کو پڑھ لے یا سن لے پورے قرآن کا ثواب تو مل جائے گا مگر سنت تراویح میں قرآن کے پورا سننے کا ثواب نہ ملے گا۔(۱)

(۱) ولا تقضي إذا فاتت أصلاً ولا وحدہ في الأصح (فإن قضاہا کانت نفلا مستحبا ولیس بتراویح) کسنۃ مغرب وعشاء، قولہ: کسنۃ مغرب وعشاء أي حکم التراویح في أنہا لا تقضی إذا فاتت إلخ کحکم بقیۃ رواتب اللیل لأنہا منہا لأن القضاء من خواص الفرض وسنۃ الفجر بشرطہا۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل: مبحث التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۴۹۵)

ولا تقضی التراویح أصلا بفواتہا عن وقتہا منفردا ولا بجماعۃ علی الأصح۔ (أحمد بن إسماعیل، الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۶)

فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 42.

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: اگر وتر کی جماعت سے پہلے چھوٹی ہوئی تراویح کے ادا کرنے کا موقع نہ ملے تو وتر کے بعد چھوٹی ہوئی رکعات تراویح کو پورا کرے۔(۲)

(۲) قولہ: یصح تقدیم الوتر علی التراویح الخ وقیل وقتہا بعد العشاء قبل الوتر وبہ قال عامۃ مشایخ بخاري وأثر الخلاف یظہر فیما لو فاتتہ ترویحۃ لو اشتغل بہا یفوتہ الوتر بالجماعۃ یشتغل بالترویحۃ علی قول مشایخ بخاري وبالوتر علی قول غیرہم۔ (أحمد بن إسماعیل الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في صلاۃ التراویح‘‘: ص: ۴۱۳)التراویح سنۃ للرجال والنساء ووقتہا بعد صلاۃ العشاء قبل الوتر وبعدہ في الأصح، فلو فاتہ بعضہا وقام الإمام إلی الوتر أوتر معہ ثم صلی ما فاتہ۔ (الحصکفي، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الوتر والنوافل، مبحث صلاۃ التراویح‘‘: ج ۲، ص: ۹۴ - ۴۹۳)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 41

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللہ التوفیق: ایک مسجد میں بیک وقت دو تراویح کی نماز ادا کرنا مثلا ایک جماعت اوپر کی منزل میں اور دوسری نیچے کی منزل میں مکروہ ہے۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک مسجد میں تراویح کی دو جماعتیں کرنا بھی مکروہ ہے۔ حضرات فقہاء نے ایک مسجد میں تراویح کے تکرار کو مکروہ قرار دیا ہے۔ اس میں دوسرے مفاسد بھی ہیں بسا اوقات اوپر کی منزل میں تین پارے یومیہ پڑھے جاتے ہیں اس لیے زیادہ تر حضرات اوپر تراویح پڑھ کر دس دن میں فارغ ہوجاتے ہیں اور تراویح کی اصل جماعت جو تحتانی منزل پہ ہوتی ہے وہ بے رونق ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب ایک مسجد میں دو جماعت ہوتی ہیں تو لوگ دونوں امام کی قرأت کا موازنہ کرنے لگتے ہیں اس سے کبھی کبھی انتشار اور خلفشار بھی پیدا ہوتا ہے؛ اس لیے بہتر ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے اور دوسری جماعت مسجد سے علاحدہ کسی مقام پر کرلی جائے۔

’’ولو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ‘‘(۱)

(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب التاسع في النوافل، فصل في التراویح‘‘: ج ۱، ص: ۱۷۶۔ویکرہ تکرار الجماعۃ بأذان وإقامۃ في مسجد محلۃ۔ (الحصکفي، رد المحتار علی الدر المختار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۲۸۸)فتاوى دار العلوم وقف ديوبند: ج 7، ص: 40