Frequently Asked Questions
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3147/46-6091
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عالمی منڈی میں جو سونے کی خریدوفروخت ہوتی ہے وہ ناجائز ہے اس لئے کہ مجلس عقد میں سونے پر قبضہ نہیں پایا جاتا، اس کے علاوہ عالمی منڈی میں منافع کی بعض شکل وہ ہے جس میں صرف قیمت کا اتارچڑھاؤ سے منافع کمانا مقصود ہوتاہے جس کے لئے ایک معاہدہ ہوتاہے کہ اوپر جانے پر فلاں قیمت اور نیچے جانے پر فلاں قیمت پر در اصل قمار کی بھی ایک شکل ہے لہذا آن لائن سونے کی بیع خواہ فیوچرٹریڈنگ کے طور پر ہو یا کسی دوسرے فرم میں ہو تمام صورتیں قبضہ نہ پائے جانے کی وجہ سے ناجائز ہیں۔
جنسا بجنس او بغیر جنس ویشترط عدم التاجیل والخیار والتماثل ای التساوی وزنا والتقابض بلابراجم لا بالتخلیۃ قبل الافتراق وھو شرط بقائہ علی الصحیح (ردالمحتار 5/257)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام میت / وراثت و وصیت
Ref. No. 3146/46-6047
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سب سے پہلے چند اصولی باتیں سمجھ لیجئے تاکہ جواب سمجھنے میں آسانی ہو۔ 1۔ ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد کا مالک ہوتا ہے وہ اپنی مرضی سے جس کو کتنا چاہے دے سکتاہے، یعنی ہبہ کرسکتاہے تاہم ہبہ صحیح ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کا اپنی زندگی میں ہی مالک بنادیاجائے، لہذا اگر کسی نے زبانی ہبہ کیا لیکن رجسٹریشن وغیرہ کے ساتھ مالک نہیں بنایا تو وہ یہ وعدہ ہے، ہبہ نہیں ہے اور اس زبانی ہبہ کا اس کے مرنے کے بعد کوئی اعتبار نہیں ہوگا اور کسی کا دعوی مسموع نہیں ہوگا۔ 2۔ آدمی اپنی زندگی میں اپنی جائداد اپنے ورثہ میں تقسیم کرسکتاہے اور ورثہ کو دینے میں بقدر ضرورت کمی بیشی بھی کرسکتاہے۔3۔ کسی مصلحت سے رجسٹریشن کرادینا ملکیت کی دلیل نہیں ہے، لہذا جس کے نام پر کوئی پلاٹ رجسٹرد ہے اگر دینے والے نے مالک بنایا ہے اور کہا ہے کہ یہ خالص تمہارا ہے تو وہ موہوب لہ کا ہوگا۔ 4۔ باپ کی وراثت اس کی بیوی اور اولاد میں تقسیم ہوتی ہے، پوتے اور پوتیاں وغیرہ اس میں شامل نہیں ہوتی ہیں۔ 5۔ اگر مرحوم نے اپنی زندگی میں جائداد تقسیم کی اور اس موقع پر پوتوں یا پوتیوں میں سے کسی کو کچھ دے کر مالک بنادیا تو وہ خاص اسی کا ہوگا، یعنی اگر دادا نے اپنی زندگی میں پوتوں کو کوئی پلاٹ وغیرہ ہبہ کیا تھا تو اس کے مرنے کے بعد بھی وہ پوتوں کی ہی ہوگی۔ 6۔ باپ کی وراثت میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی حصہ دار ہیں، لہذا اگر کسی کے بیٹوں نے اپنے باپ کی پراپرٹی آپس میں یعنی بھائیوں میں تقسیم کی اور بہنوں کو حصہ نہیں دیا تو وہ شرعی تقسیم نہیں کہلائے گی۔
اب صورت مسئولہ میں اگر دادا شیخ محمد نے اپنی زندگی میں اپنی جائداد اپنے تین بیٹوں اور دوبیٹیوں میں تقسیم کردیا اور ہر ایک کو مالک بنادیا تو ہبہ تام ہوگیا اور ہر ایک اپنے حصہ کا جو اس کو دیاگیا مالک بن گیا۔ شیخ عبید کو جو جائداد ملی وہ اس کا مالک ہوگیا اب اس حصہ پر شیخ محمد کا کوئی اختیار باقی نہیں رہا۔ لہذا شیخ عبید کے مرنے کے بعد اس کے حصہ کی جائداد اس کی بیوی ، بیٹے ، بیٹیوں اور والدین میں شریعت کے مطابق تقسیم ہوگی۔ اب اس جائداد کا اگر دادا دادی نے اپنی رضامندی سے صرف مرحوم کی بیوی اور اس کےلڑکوں کو مالک بنادیا تو یہ غیرشرعی تقسیم ہوگی اور اب دوبارہ تقسیم کریں گے اور بیٹیوں کو بھی شامل کیاجائے گا۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ ان کا جو حصہ شیخ عبید کی جائداد میں بنتاہے وہ شیخ عبید کی بیوی اور بیٹوں میں بطور ہبہ تقسیم ہوگی اور اس میں شیخ عبید کی بیٹیاں شامل نہیں ہوں گی ، لیکن اس کے علاوہ شیخ عبیدکی بقیہ جائداد میں بیٹوں کے ساتھ بیٹیاں بھی حصہ دار ہوں گی۔ اس سلسلہ میں بہتر ہوگا کہ کسی قریبی دارالقضا یا دارالافتا سے رجوع کرکے مسئلہ کو اچھی طرح سمجھ لیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3145/46-6033
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ معذور اپنے عذر کے اعتبار سے نماز میں بیٹھ سکتاہے، جس قدر ممکن ہو قیام کرے اور جب تھک جائے تو بیٹھ جائے، ایساکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ نمازجماعت کے ساتھ مسجد میں ہی اداکرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Business & employment
Ref. No. 3144/46-6089
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
Your explanation effectively captures the essence of consulting services. The primary goal of your firm is to equip clients with the insights they need to better understand their financial landscape and make informed investment decisions.
By evaluating financial metrics like EBITDA, you can gauge a company's performance and its ability to manage interest, taxes, and other financial responsibilities. Your role in verifying the accuracy of the data provided is crucial, as it enables clients to make decisions based on reliable information.
The importance of your position cannot be overstated; accurate information is the foundation upon which any company can build its financial future. However, your work is allowed as per the ruling of Islamic Shariah.
If you would like to explore any specific aspects of this field further or need additional clarification, please don’t hesitate to reach out!
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نماز / جمعہ و عیدین
Ref. No. 3143/46-6044
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ بلاعذرنچلی منزل کو خالی چھوڑکر اوپر کی منزل میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، کیونکہ دوسری منزل پر جماعت مسجد کی اصل وضع اور امت کے متوارث عمل کے خلاف ہے، نیز نچلی منزل کا خالی رہنا احترامِ مسجد کے بھی خلاف ہے۔ نماز نچلی منزل میں ہی جماعت سے پڑھی جائے پھر نچلی منزل جب پُر ہوجائے تو دوسری منزل پر مقتدی حضرات چلے جائیں۔ البتہ اگرکوئی عذر ہو مثلا نچلی منزل میں صفائی وغیرہ کا کام چل رہاہو تو دوسری منزل میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اور مقتدی کچھ نیچے کچھ اوپر کی منزلوں میں اقتداکریں تو اس کی گنجائش ہے۔ جب تک ایک منزل مکمل طور سے پُر نہ ہوجائے دوسری منزل میں نہیں جانا چاہئے۔ اور صفوں کی ترتیب کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔
’’الصعود على سطح كل مسجد مكروه، و لهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بالجماعة فوقه، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذٍ لايكره الصعود على سطحه للضرورة، كذا في الغرائب‘‘. (الھندیۃ ٥/ ٣٢٢، ط: رشيدية)
’’و كذا الصعود علي سطح كل مسجد مكروه، و لهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بجماعة فوق السطح، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذٍ لايكره الصعود على سطحه للضرورة، و أما شدة الحر فلأنها لاتوجب الضرورة ط، و إنما يحصل به زيادة المشقة و بها يزداد الأجر. كله من المحيط و غيره‘‘(نصاب الاحتساب، الباب الخامس عشر في ما يحتسب في المسجد، ص: ٣٢، قلمي)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3142/46-6034
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یہ بے معنی سا لفظ ہے، اس لئے بہتر ہے کہ کوئی اچھے معنی والا لفظ دیکھ کر نام رکھاجائے۔ اور نام رکھنے کے معاملہ میں صحابہ اور بزرگان دین کے ناموں کا انتخاب کرنا چاہئے ۔ نام میں جدت پیداکرنے کے لئے مہمل الفاظ کا انتخاب بالکل غیرمناسب ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
تجارت و ملازمت
Ref. No. 3141/46-6041
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کسی کمپنی کا کاروبار اور اس میں سرمایہ کاری کا طریقہ شریعت کے مطابق ہے یعنی جس میوچول فنڈ میں منیجر حلال کمپنی میں پیسہ لگاتا ہے،نفع و نقصان میں شرکاء شریک ہوتے ہیں ، اور نفع کو فی صد کے حساب سے تقسیم کیاجاتاہے ، نیز بینک میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی ہے تو اس میں پیسہ لگانا جائز ہے۔ اب یہ تمام تفصیلات کا علم پہلے حاصل کرلیں پھر پیسے لگائیں، آگر آپ نے تحقیق کئے بغیر پیسے لگادئے تو اب تحقیق کریں اگر اسلامی اصول و ضوابط کے مطابق سرمایہ کاری درست ہو تو اس کا فائدہ استعمال کرنا بھی درست ہوگا، ورنہ اپنی رقم لے کر فائدہ کی رقم کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Usury / Insurance
Ref. No. 3153/46-6030
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The prohibition of gambling and interest (usury) is clearly established in the Quran and Hadith, and all the dealings based on gambling and interest are haram and unlawful. Medical health insurance often contains elements of gambling or interest, which is why it is generally considered impermissible under Sharia. If a medical issue arises within a specified period, the insured receives money with interest; conversely, if no disease develops, the deposited amount is not refunded, thus it also falls under the definition of gambling.
However, if a company deems health insurance compulsory, employees may only utilize medical benefits to the extent of the amount collected through the insurance. Getting more than this amount would not be permissible. In cases of financial hardship or lack of resources for treatment, there is some allowance based on necessity.
This raises the question of what Muslims should do in such situations. The answer is that the community organizations should establish a structured plan for medical assistance and raise a fund to support vulnerable Muslims facing serious health issues. In India, for example, numerous schools, spiritual centers, and charitable organizations operate on public donations, contributing significantly to community welfare. A similar fund can be raised specifically for medical assistance to benefit the poor.
Additionally, the aid of the government should be sought. For programs or medical cards through which the government allocates funds for treatment, it is advisable to consult with experts to get maximum benefit.
And Allah knows best
Darul Uloom Waqf Deoband
Divorce & Separation
Ref. No. 3136/46-6042
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
(In Islam, Nikah (marriage) is considered a sacred bond, and Islam emphasizes its stability by encouraging mutual love, affection, and fulfillment of each other's rights. However, if for some reasons, there is discord between the husband and wife, the elders of both families should first attempt to reconcile, as divorce is regarded as a disliked act in Islam, and its unnecessary use is not appropriate.
If there is no way for reconciliation and there is a fear of discord and conflict, then Islam permits separating with one explicit divorce (Talaq). After one divorce, if they wish to reunite, they can do so during the Iddah (waiting period) through reconciliation or after the Iddah by remarrying.
Issuing three divorces at once is considered a sin in Islamic law and is also a punishable offense under the country's legal system.)
In our common usage, the word "Azad" (free) is clearly used to mean divorce. Therefore, even without the intention, one revocable divorce (Talaq-e-Raj'i) has taken place. The husband then gave a second divorce and reconciled, and later gave a third conditional divorce which was fulfilled. As a result, all three irrevocable divorces (Talaq-e-Mughallazah) have occurred, making it forbidden and sinful for both of you to continue living together, and the Nikah (marriage) is also prohibited.
Now, the woman is all the way free, and after completing her Iddah (waiting period), she may marry another man if she wishes to do so.
And Allah knows best
Darul Ifta
darul Uloom Waqf Deoband
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 3135/46-6032
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت مطہرہ نے زکوٰۃ کے مصارف متعین کردیئے ہیں، ان مصارف کے علاوہ کسی دوسری جگہ زکوٰۃ کی رقم خرچ نہیں کی جاسکتی۔ زکوۃ میں تملیک ضروری ہے یعنی زکوۃ دینے والوں پر لازم ہے کہ زکوۃ کسی مستحق شخص کی ملکیت میں دیں، بلا تملیک مال کو کسی غریب پر خرچ کردینے سے بھی زکوۃ ادا نہیں ہوتی ہے، نیز زکوۃ کی رقم براہ راست رفاہی کاموں میں بھی استعمال نہیں کی جاسکتی ہے۔ لہذا سیاسی پارٹی کے عام چندہ میں زکوۃ کی رقم دینے سے زکوۃ ادا نہیں ہوگی۔ہاں اگرکوئی سیاسی آدمی زکوۃ کی رقم جمع کرکے فقراء و مساکین اورمستحق بیواؤں میں تملیک کے طور پر تقسیم کرے تو اس کی گنجائش ہے۔ اس سلسلہ میں لوگوں میں بیداری لائی جائے کہ سیاسی جماعت کے عام چندہ میں زکوۃ کی رقم نہ دیں، ورنہ زکوۃ ادانہیں ہوگی۔
"أما تفسيرها فهي تمليك المال من فقير مسلم غير هاشمي، ولا مولاه بشرط قطع المنفعة عن المملك من كل وجه لله تعالى ." (الفتاوي الهندية، ص: 170، ج:1،کتاب الزکاۃ،ألباب الأول،ط:دار الفكر،بيروت)
"وَ لَايَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَا يَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَا يُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَلَا يُشْتَرَى بِهَا عَبْدٌ يُعْتَقُ، وَلَا يَدْفَعُ إلَى أَصْلِهِ، وَإِنْ عَلَا، وَفَرْعِهِ، وَإِنْ سَفَلَ كَذَا فِي الْكَافِي." (الھندیۃ، كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الْمَصَارِفِ، ١ / ١٨٨، ط: ظار الفكر)
"وَ لَا يَخْرُجُ عَنْ الْعُهْدَةِ بِالْعَزْلِ بَلْ بِالْأَدَاءِ لِلْفُقَرَاءِ." (شامي، كتاب الزكوة، ٢ / ٢٧٠، ط: دار الفكر)
"وَ يُشْتَرَطُ أَنْ يَكُونَ الصَّرْفُ (تَمْلِيكًا) لَا إبَاحَةً كَمَا مَرَّ." (شامي، كتاب الزكوة، باب مصرف الزكوة و العشر، ٢ / ٣٤٤، ط: دار الفكر)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند