Frequently Asked Questions
طلاق و تفریق
Ref. No. 3380/46-9287
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) حالت کفر میں کھائی ہوئی قسم کا اعتبار نہیں ہے، اس کی وجہ سے حالت اسلام میں نکاح کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (۲) حالت اسلام میں کھائی ہوئی قسم کا اعتبار کیاجائے گا اور چونکہ کلما کی قسم ہے کہ جب بھی کسی عورت سے نکاح کرے تو اس کو طلاق واقع ہو، لہذا اس صورت میں حالت اسلام میں نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر نکاح ہوتے ہی طلاق واقع ہوجائے گی، حالت ارتداد میں جو کچھ عمل کیا اس کا اعتبار نہیں ہے۔ البتہ فضولی کے نکاح کی گنجائش ہے۔ فضولی کے نکاح کی تفصیل کسی عالم سے بالمشافہ سمجھ لی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Slaughtering / Qurbani & Aqeeqah
Ref. No. 3376/46-9258
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ کرایہ پر دی ہوئی چیز جب تک کرایہ پر ہوتی ہے وہ حاجت اصلیہ سے زائد شمار ہوتی ہے۔ لہذا آپ کا کرایہ پر دیا ہوا ذاتی مکان جب تک کرایہ پر ہے زائد ازضرورت شمار ہوگا اور اس کی قیمت کو نصاب میں شامل کیاجائے گا اور ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے :"(سوال ۲۰)جس کے پاس ایک ہی مکان ہو، لیکن اس میں خود نہیں رہتا ہے کرایہ پر دے رکھاہے اور وہ خود کرایہ کے گھر میں رہتا ہے تو قربانی کے متعلق مال داری میں اس گھر کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا؟
(الجواب)اپنا گھر چاہے کرایہ پر دیا ہو یا مفت یا خالی پڑا ہو اورخود د وسرے مکان میں کرایہ پر رہتا ہے یا مفت ہر ایک صورت میں قربانی اور فطرہ کے متعلق مال داری میں اس مکان کی قیمت کااعتبار ہوگا؛ کیوں کہ یہ مکان فی الحال حاجت اصلیہ سے زائد ہے ۔" (فتاوی رحیمیہ 10/31دارالاشاعت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
عائلی مسائل
Ref. No. 3421/46-9285
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ (۱) نکاح ہوجانے کے بعد بلا وجہ شرعی اپنی بیٹی کو اس کے شوہر کے خلاف اکسانا ہرگز جائز نہیں ہے۔ (۲) اپنے داماد پر دباو ڈال کر اور دھمکیاں دے کر اس سے تفویض طلاق لکھوانا بھی درست نہیں ہے۔ تاہم اگر شوہر نے تفویض طلاق لکھدی تو وہ معتبر ہوگی۔ (۳) لڑکی کا مال لڑکی کا ہے اس میں اس کے نانا کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے۔ یہاں تک کہ باپ بھی اس میں تصرف کا حق نہیں رکھتاہے۔ اگر کسی نے کوئی چیز ہدیہ میں اس بچی کو دی ہو تو وہ ہدیہ کی چیز خالص اسی بچی کی ہے جو باپ کے قبضہ میں رہے گی۔ اس کے باپ پر زبردستی کرکے اس بچی کا کوئی سامان لینا نانا کے لئے ناجائز و حرام ہے۔ (۴) لڑکی کا باپ اگر لڑکی کا مکمل خیال رکھتاہے اور شرعی طور پر کوئی مسئلہ نہیں ہے تو پھر نانا کا اس طرح ہرمعاملہ میں دخل اندازی کرنا گناہ عظیم ہے۔ باپ نے اگر مناسب سمجھ کر بچی کا ہدیہ لے لیا تو اس کو واپس کرنے کے لئے خسر کا زبردستی کرنا جائز نہیں ہے۔ باپ فی الحال اس ہدیہ کو چھپاکر رکھ سکتاہے تاکہ بعد میں بچی کو دے سکے۔ (۵) میاں بیوی کے معاملات میں بلاوجہ شرعی خسر کا اپنا حکم چلانا جائز نہیں ہے۔ (۶) اگر باپ کسی غیرشرعی امر کے لئے مصر ہے تو عورت کو چاہئے کہ اپنے شوہر کا ساتھ دے، اگر باپ کا ساتھ دے گی تو ناشزہ شمار ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3378/46-9259
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ چونکہ اس بنجر زمین کو نہ کرایہ پر دے سکتے ہیں اور نہ ہی اس میں کاشت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس کو فروخت کرسکتے ہیں تو اس پر زکوۃ واجب نہ ہوگی۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Zakat / Charity / Aid
Ref. No. 3377/46-9261
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ صرف سونا ہو تو سونے کا نصاب معتبر ہے اور سونا چاندی اور اموال تجارت جمع ہونے کی صورت میں چاندی کے نصاب کا اعتبار کیا گیا ہے اور اس کی وجہ انفع للفقرائ ہونا ہے۔ یعنی زکاۃ کے وجوب میں فقراء کی حاجت کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے، چنانچہ جس میں فقراء کا فائدہ ہو فقہاء کرام نے اس کو اختیار کیا ہے، چونکہ موجودہ دور میں چاندی کا نصاب کم ہے، لہٰذاچاندی کا اعتبار کرکے زکاۃ واجب ہونے کی صورت میں فقراء کا فائدہ زیادہ ہوگا۔ نیز سونا چاندی رقم اور اموال تجارت ثمنیت میں برابر ہیں۔ لہذا ان سب میں چالیسواں حصہ زکوۃ میں نکالنا ضروری ہوتاہے۔ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کا طریقہ سونے کو چاندی کے ساتھ ملا کر اور چاندی کو سونے کے ساتھ ملاکر زکاۃ نکالنے کا تھا‘‘۔
یعنی اگر سونا یا چاندی میں سے کوئی ایک نصاب کو نہ پہنچے، لیکن دونوں کو ملاکر کسی ایک کے نصاب کو پہنچ جائے تو صحابہ کرام اس کی زکاۃ ادا کیا کرتے تھے۔اس لئے آج کل چاندی کو معیار بنایاجائے گا اور چاندی کے حساب سے اگر کوئی صاحب نصاب ہے تو اس پر زکوۃ کی ادائیگی واجب ہوگی۔
""فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال. وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر".(بدائع الصنائع " (2/ 19):)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
Fiqh
Ref. No. 3395/46-9260
In the name of Allah the most Gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Yes, it is permissible to do so. Offering a sacrifice on behalf of the Prophet Muhammad ﷺ is allowed and considered a virtuous (recommended) act. It is performed as a gesture of love, reverence, and devotion.
If you are sacrificing a buffalo—which allows for up to seven participants—you may dedicate one share with the intention of offering it on behalf of the Prophet ﷺ.
Sacrificing on behalf of the Prophet ﷺ and the righteous predecessors (may Allah have mercy on them), with the intention of conveying the reward to them, is valid and commendable, and it carries spiritual reward.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
نکاح و شادی
Ref. No. 3375/46-9262
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ شرعی طور پر دونوں بیویوں کو برابر حقوق دینا شوہر پر لازم ہے۔ لیکن اگر آپ اس سے طلاق لے کر دوسری جگہ شادی کرنا چاہتی ہیں تو اس سلسلہ میں کسی قریبی شرعی دارالقضا سے رجوع کریں؛ دارالقضا میں اختلافی مسائل کو اچھی طرح حل کیاجاتاہے اور دونوں فریق کی بات سن کر فیصلہ کیاجاتاہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 3368/46-9234
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: زید کی اجازت اور زید کے ایجاب یا قبول سے اگر نکاح ہوگا تو فوری طلاق واقع ہوجائے گی۔ اس لئے زید کی اجازت کے بغیر ہی کوئی اس کا نکاح کراسکتاہے۔ مثلا راشد نے زید سے کوئی اجازت نہیں لی اور دوگواہوں کی موجودگی میں ہندہ سے کہا کہ میں نےزید کا نکاح تم سے کردیا ہندہ نے کہا کہ میں نے قبول کیا۔ تو یہ نکاح منعقد ہوگیا۔ اب راشد زید کو اطلاع کرے کہ میں نے تیرا نکاح ہندہ سے کردیا تو زید اپنی جیب سے کچھ پیسے نکال کر راشد کو کہے کہ مہر کے یہ پیسے ہندہ کو پہنچادو، تو اس طرح نکاح پر رضامندی ہوجائے گی ، اور پھر زید ہندہ سے جاکر تنہائی میں مل سکتاہے۔ اگر بغیر مہر اداکئے بھی ہندہ سے ملاقات کرلیتاہے تو بھی رضامندی پائی گئی نکاح درست ہوگیا۔ لیکن ان تمام صورتوں میں زبان سے نکاح کرنے یا نکاح کو قبول کرنے کی بات نہ کہے۔
"أن نكاح الفضولي صحيح موقوف على الإجازة بالقول أو بالفعل." (شامی، کتاب طلاق،ج:3،ص:242،ط:دارالفکربیروت)
وفيه أيضاً: "(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر (وضعا للمضي) لأن الماضي أدل على التحقيق (كزوجت) نفسي أو بنتي أو موكلتي منك." (کتاب النکاح،ج:3،ص:9،ط:دارالفکربیروت)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 3374/46-9263
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ مرحوم والدین کے لئے ایصالِ ثواب و دعائے مغفرت کی ضرورت ہے ۔ اور مرحوم بھائیوں نے اگر کچھ نصیحتیں یا وصیتیں کی ہوں تو ان پر عمل درآمد کرکے ان کی ارواح کو تسکین بخشیں، بالخصوص وراثت سے متعلق حقوق کی ادائیگی اور معاملات کی درستگی پر توجہ دیں۔ان کی اولاد اگرہوں تو ان کے ساتھ حسن سلوک کا معاملہ کئےجانے کی طرف بھی اشارہ ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
بدعات و منکرات
Ref. No. 3373/46-9246
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم: ۔ قبروں میں کچی اینٹ اور بانس وغیرہ کا استعمال کرنا چاہئے، پکی اینٹ یا سیمنٹ کے بلاک استعما ل کرنے سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئے، تاہم اگر قبر کی مٹی بہت نرم ہے اور قبر کی دیواریں گرنے کا اندیشہ ہے تو ایسی ضرورت میں پکی اینٹ اور سیمنٹ کے بلاک استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ پکی اینٹ یا سیمنٹیڈ بلاک کی دیواروں کو اگرمٹی سے لیپ دیاجائے تو بہتر ہے۔
ویسوي اللبن علیہ والقصب لا الآجر المطبوخ (الدر) وفي الرد: ونصّوا علی استحباب القصب فیہا کاللبن (رد المحتار: ۳/ ۴۱۲، زکریا)
ويكره الآجر ودفوف الخشب، لما روي عن إبراهيم النخعي أنه قال: كانوا يستحبون اللبن والقصب على القبور، وكانوا يكرهون الآجر" انتهى. ( 1 / 318(بدائع الصنائع" للكاساني1/318)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند