Frequently Asked Questions
Business & employment
Ref. No. 1911/44-2263
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
If the shopkeeper already agreed upon giving you 2/% commission while he does not overcharge the customers, then this amount received from the shopkeeper is permissible as a broker's wages, and if it is not pre-agreed, then this amount is permissible too as a reward. Shopkeepers do this so that electricians can take their customers to those shops. However, if the shopkeeper increases the price of the goods, then it is not permissible to do so. And if the electrician doesn't go along, still he gets the commission then it's not allowable.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
طہارت / وضو و غسل
Ref. No. 2251/44-2400
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ انگور، کشمش اور کھجور سے یعنی شراب سے بنا ہوا الکحل حرام ہے اس کا استعمال دواؤں میں جائز نہیں ہے۔ لیکن ہماری معلومات کے مطابق ہومیوپیتھک دواؤں میں جو الکحل استعمال ہوتاہے وہ دوسری چیزوں سے بناہوتاہے، اس لئے میو پیتھک دواؤں کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 2۔ وضو کرنے کے بعد اگر ہومیوپیتھک دوا کھائی تو اس سے وضو نہیں ٹوٹے گا، البتہ نماز سے پہلے اچھی طرح کلی کرلینا بہتر ہے تاکہ اس میں جو ایک قسم کی بدبو ہوتی ہے وہ زائل ہوجائے۔
وإن معظم الکحول التي تستعمل الیوم في الأدویة والعطور وغیرہا لا تتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الحبوب أو القشور أو البترول وغیرہ، کما ذکرنا في باب بیع الخمر من کتاب البیوع، وحینئذٍ ہناک فسحة في الأخذ بقول أبي حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالیٰ عند عموم البلویٰ، واللّٰہ سبحانہ أعلم۔ (تکملة فتح الملہم، کتاب الأشربة / حکم الکحول المسکرة ۳/۶۰۸ مکتبة دار العلوم کراچی،حاشیہ فتاوی دار العلوم: ۱۶/ ۱۲۹)
"(و) ينقضه (إغماء) ومنه الغشي (وجنون وسكر) بأن يدخل في مشيه تمايل ولو بأكل الحشيشة. (الدر المختار: (نواقض الوضو، ج: 1، ص: 143، ط: ایچ ایم سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:مروجہ میلاد بدعت ہے، کہ اس میں بے بنیاد روایات پڑھی جاتی ہیں ایسی میلادوں سے پرہیز ضروری ہے۔(۱)
(۱) وشر الأمور محدثاتہا، وکل بدعۃ ضلالۃ۔ وفي روایۃ: وشر الأمور محدثاتہا وکل محدثۃ بدعۃ۔ (أخرجہ أحمد، في مسندہ، مسند جابر بن عبد اللّٰہ -رضي اللّٰہ عنہ-: ج ۲۲، ص: ۲۳۷، رقم: ۱۴۳۳۴)
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: وإیاکم ومحدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔ (أخرجہ أبو داود، في سننہ، ’’کتاب السنۃ: باب لزوم السنۃ‘‘: ج ۲، ص: ۶۳۵، رقم: ۴۶۰۷)… من أحدث في الإسلام رأیا لم یکن لہ من الکتاب والسنۃ سند ظاہر أو خفي ملفوظ أو مستنبط فہو مردود۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۶، رقم: ۱۴۰)
ومن جملۃ ما أحدثوہ من البدع مع اعتقادہم أن ذلک من أکبر العبادات وأظہر الشعائر ما یفعلونہ في شہر ربیع الأول من المولد وقد احتوی علی بدع ومحرمات جملۃ۔ (موسوعۃ الرد علی الصوفیۃ، ’’البدع الحولیۃ‘‘: ج ۲۲، ص: ۱۹۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص431
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس موضوع سے متعلق ایک کتاب ’’عقد الجید في أحکام الاجتہاد والتقلید‘‘ کے نام سے آن لائن موجود ہے، اس کو نیٹ سے لوڈ کر کے مطالعہ کر لیا جائے۔(۲) دوسری کتاب ’’اجتہاد وتقلید‘‘ ہے جو حجۃ الاسلام اکیڈمی دار العلوم وقف دیوبند سے شائع ہوئی ہے۔(۱) تیسری کتاب ’’تقلید کی شرعی حیثیت‘‘ ہے۔(۲) ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں۔ پہلی کتاب عربی اور باقی دونوں اردو میں ہیں۔
(۲) مصنفہ: الشاہ ولی اللہ محدث الدہلوی۔
(۱) مصنفہ: حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ۔تحقیق و تخریج: محمد حسنین ارشد قاسمی
(۲) مصنفہ: مفتي محمد تقي العثماني۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص255
اسلامی عقائد
Ref. No. 2681/45-0000
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ واللہ الموفق: صحابہ کرام کے وہ اقوال جن کی صراحت قرآن وحدیث میں نہ ہو وہ دو طرح کے ہیں ایک تووہ جو عقل سے ماوری ہیں جنہیں غیر قیاسی کہا جا تاہے دوسری قسم وہ جن کا تعلق عقل و فہم سے ہو جن کو قیاسی کہا جاتاہے غیر قیاسی مسائل میں اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے وہ بہر صورت قابل حجت ہے اس لیے کہ وہ فقہاء کی تصریحات کے مطابق مرفوع کے حکم میں ہے جیسے تعداد رکعات اور قیامت کی علامت وغیرہ جب کہ قیاسی مسائل میں اگر کسی صحابی کا قول مل جائے تو بھی دو شرطوں کے ساتھ قابل حجت ہے پہلی شرط یہ کہ وہ قول احکام شرع کے خلاف نہ ہوں دوسری شرط یہ ہے کہ کسی دوسرے صحابی کا قول اس کے خلاف نہ ہو یا خود راوی کا عمل ا س کے خلاف نہ ہو ۔امام ابوحنیفہ سے اس سلسلے میں منقول ہے کہ صحابہ کے اقوال میں اگر اختلاف ہو تو ہم صحابہ کے اقوال میں سےکسی قول کو اختیار کرتے ہیں اور صحابہ کے اقوال سے ہم باہر نہیں نکلتے ہیں ہاں اگر تابعین کے اقوال ہو تو ہم اس میں مز احمت کرتے ہیں خود امام ا حمد کا بھی یہی مسلک ہے کہ وہ صحابہ کے اقوال میں سے ہی کسی کے قول کو لیتے ہیں ۔
ظهر من الصَّحَابَة الْفَتْوَى بِالرَّأْيِ ظهورا لَا يُمكن إِنْكَاره والرأي قد يخطىء فَكَانَ فَتْوَى الْوَاحِد مِنْهُم مُحْتملا مترددا بَين الصَّوَاب وَالْخَطَأ وَلَا يجوز ترك الرَّأْي بِمثلِهِ كَمَا لَا يتْرك بقول التَّابِعِيّ وكما لَا يتْرك أحد الْمُجْتَهدين فِي عصر رَأْيه بقول مُجْتَهد آخروَالدَّلِيل على أَن الْخَطَأ مُحْتَمل فِي فتواهم مَا رُوِيَ أَن عمر سُئِلَ عَن مَسْأَلَة فَأجَاب فَقَالَ رجل هَذَا هُوَ الصَّوَاب
فَقَالَ وَالله مَا يدْرِي عمر أَن هَذَا هُوَ الصَّوَاب أَو الْخَطَأ وَلَكِنِّي لم آل عَن الْحق وَقَالَ ابْن مَسْعُود رَضِي الله عَنهُ فِيمَا أجَاب بِهِ فِي المفوضة وَإِن كَانَ خطأ فمني وَمن الشَّيْطَان(اصول السرخسی،2/107)قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :" إذا كان الصحابي من الفقهاء المعروفين بالفقه فإن قوله حجة بشرطين :الشرط الأول : ألا يخالف قول الله ورسوله ؛ فإن خالف قول الله ورسوله وجب طرحه والأخذ بما قال الله ورسوله .الشرط الثاني : ألا يخالف قول صحابي آخر ؛ فإن خالف قول صحابي آخر وجب النظر في الراجح ؛ لأنه ليس قول أحدهما أولى بالقبول من الآخر " انتهى من "لقاء الباب المفتوح" (59 /24) ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اے سی کے پائپ سے نکلنے والاپانی پاک ہے، اس سے وضو اور غسل جائز ہے؛ اس لیے کہ یہ ماء مطلق کے حکم میں ہے۔
’’(یرفع الحدث) مطلقا (بماء مطلق) ہو ما یتبادر عند الإطلاق (کماء سماء وأودیۃ وعیون وآبار وبحار وثلج مذاب) بحیث یتقاطر وبرد وجمد وندا، ہذا تقسیم باعتبار ما یشاہد وإلا فالکل من السماء {ألم تر أن اللّٰہ أنزل من السماء ماء} (سورۃ الحج: ۶۳)‘‘(۱)
’’وأما الماء الذي یقطر من الکرم فیجوز التوضی بہ لأنہ ماء یخرج من غیر علاج ذکرہ في جوامع أبي یوسف رحمہ اللّٰہ وفي الکتاب إشارۃ إلیہ حیث شرط الاعتصار‘‘(۲)
’’وقد استدل علی جواز الطہارۃ بماء الثلج والبرد بما ثبت في الصحیحین عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کان یسکت بین تکبیرۃ الإحرام والقراء ۃ سکتۃ یقول فیہا أشیاء منہا اللہم اغسل خطایای بالماء والثلج والبرد وفي روایۃ بماء الثلج والبرد ولا یجوز بماء الملح، وہو یجمد في الصیف، ویذوب في الشتاء عکس الماء‘‘(۳)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المیاہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۲۳۔
(۲) المرغیناني، الہدایۃ، ’’کتاب الطہارۃ:باب الماء الذي یجوز بہ الوضوء ومالا یجوز بہ‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۔
(۳) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ: الوضوء بماء السماء‘‘: ج ۱، ص: ۷۱۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص180
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:خفین کے اوپر جو کچھ بھی پہنا یا باندھا جائے اس پر مسح درست ہونے کے لئے متعدد شرائط ہیں:
(۱) خفین کے اوپر جو پہنا ہے وہ چمڑے کا ہی ہو، وہ ٹخنوں تک ہو اور بغیر باندھے رک جائے اس پر مسح درست ہے، اگر وہ چمڑے کا نہ ہو؛ لیکن مسح کے وقت پانی کا اثر نیچے پہنے ہوئے خفین تک پہونچ جائے، تو بھی مسح درست ہے اور اگر نہ چمڑے کا ہو اور نہ ہی مسح کے وقت خفین تک پانی کا اثر پہونچے، تو مسح درست نہیں ہے۔
(۲) خفین کے اوپر جو پہنا ہے، وہ چمڑے کے علاوہ کسی چیز کا ہو؛ لیکن اتنا موٹا اور سخت ہو کہ اس سے پانی نہ چھنے، بغیر باندھے پیر پر رک جائے اور صرف اسے پہن کر تین چار میل چلنے سے وہ نہ پھٹے، تو اس پر مسح درست ہے، اگر وہ ایسا نہ ہو، تو اس پر مسح درست نہیں ہے، ہاں اگر پانی کا اثر خفین تک پہونچ جائے، تو مسح درست ہے۔
(۳) اوپر والا موزہ وغیرہ اس وقت پہنا ہو جب تک وہ طہارت باقی ہو جس پر خفین پہنے تھے یعنی خفین کے بعد حدث لاحق ہونے سے پہلے ہی اوپر والا موزہ وغیرہ پہن لیا ہو۔
’’الحنفیۃ اشترطوا في صحۃ المسح علی الأعلٰی ثلاثۃ شروط: أحدہا أن یکون جلداً فإن لم یکن جلداً ووصل الماء إلی الخف الذي تحتہ کفی وإن لم یصل الماء إلی الخف لا یکفی، ثانیہا أن یکون الأعلی صالحاً للمشی علیہ منفرداً فإن لم یکن صالحاً لم یصح المسح علیہ إلا إذا وصل البلل إلی الخف الأسفل، ثالثہا: أن یلبس الأعلیٰ علی الطہارۃ التي لبس علیہا الخف الأسفل بحیث یتقدم لبس الأعلیٰ علی الحدث والمسح علی الأسفل‘‘ (۱)
’’یجوز المسح علیہ لو کان ثخینا بحیث یمکن أن یمشي معہ فرسخاً من غیر تجلید ولاتنعیل وإن کان رقیقاً فمع التجلید أو التنعیل‘‘ (۲)
(۱) عبد الرحمن الجزیري، کتاب الفقہ علی المذاہب الأربعۃ،: ج ۱، ص: ۱۳۲۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ، لبنان)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار مع الدر المختار، ’’کتاب الطہارۃ: باب المسح علی الخفین‘‘: ج ۱، ص: ۴۳۸۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص278
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ڈھائی ماہ کا حمل ساقط ہونے کے بعد جو خون آیا وہ نفاس نہیں ہے ’’والسقط إن ظہر بعض خلقہ ولد (کنز الدقائق) وقال تعلیقاً علیہ في البحر لا یستبین خلقہ إلا في مائۃ وعشرین یوماً۔ والمراد نفخ الروح و إلا فالمشاہد ظہور خلقتہ قبلہا، قید بقولہ: إن ظہر لأنہ لو لم یظہر من خلقہ شيء فلا یکون ولداً، ولا تثبت ہذ الأحکام فلا نفاس لہا‘‘(۱) اور مذکورہ عورت چوںکہ معتادہ ہے اس لیے آنے والے خون میں سے عادت کے موافق حیض وطہر کے ایام کی تعیین کی جائے گی ’’و إن کانت صاحبۃ عادۃ فعادتہا في الحیض حیضہا وعادتھا في الطہر طہر ہا‘‘ و تکون مستحاضۃ في أیام طھرھا۔(۲)
(۱)ابن نجیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۷۹(دارالکتاب دیوبند)
(۲) جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب السابع: في الدماء المختصۃ بالنساء، الفصل الأول: في الحیض، و منھا: تقدم نصاب الطہر‘‘ ج۱، ص:۹۱
علاء الدین الکاساني، بدائع الصنائع، فی ترتیب الشرائع، ’’کتاب الطہارۃ، فصل: في تفسیر الحیض، والنفاس، والاستحاضۃ، دم الحامل لیس بحیض‘‘ ج۱، ص:۱۶۱مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص376
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مذکورہ شخص کی امامت میں جو نمازیں ادا ہوئیں وہ صحیح ہوگئیں اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔(۲)
(۲) قال المرغیناني: تجوز الصلاۃ خلف صاحب ہوی وبدعۃ و لا تجوز خلف الرافضي والجہمي والقدري والمشبہۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج ۱، ص: ۱۴۱)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص257
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت اسلامیہ میں اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور اذان سننے کے بعد جماعت کے لیے جانا واجب ہے؛ جیسا کہ در مختار میں ہے:
’’من سمع الأذان بأن یقول بلسانہ کمقالتہ … فیقطع قراء ۃ القرآن لو کان یقرأ بمنزلہ ویجیب لو أذان مسجدہ … قال في الفتح أي مؤذن یجیب باللسان استحبابا أووجوبا والذي ینبغي إجابۃ الأول سواء کان مؤذن مسجدہ أو غیرہ‘‘(۱)
مرد ہو یا عورت جو کوئی اذان کی آواز سنے اسے چاہئے کہ مؤذن جو الفاظ کہے ان ہی کو دہرائے
لیکن جب مؤذن ’’حي علی الصلوٰۃ‘‘ اور حي علی الفلاح‘‘ کہے تو سننے والا ’’لاحول ولا قوۃ إلا باللّٰہ‘‘ کہے گا؛ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’عن أبي سعید الخدري أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال: إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذن: وأیضاً: قال یحي وحدثني بعض إخواننا: أنہ قال:لما قال حي علی الصلوٰۃ قال: لا حول ولا قوۃ إلا باللّٰہ وقال: ہکذا سمعنا نبیکم صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول‘‘(۲)
مذکورہ عبارتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانیں جو دی جاتی ہیں ان اذانوں کا جواب دینا بھی مستحب ہے اس لیے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مطلقاً اذان سننے والے کو جواب دینے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔
در مختار میں ہے کہ: کیا نماز کی اذان کے علاوہ دیگر اذانوں مثلاً بچے کی پیدائش کی اذان کا بھی جواب دیا جائے گا؟ پھر اس کا جواب خود دیا کہ میں نے اس مسئلہ پر اپنے ائمہ میں سے کسی کی تصریح نہیں دیکھی مگر ظاہر ہے کہ دیگر اذانوں کا جواب بھی دیا جائے گا۔
’’ھل یجیب اذان غیر الصلوٰۃ کالأذان للمولود؟ لم أرہ لأئمتنا والظاہر نعم‘‘(۱)
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۵-۷۰۔
(۲) أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الأذان، باب ما یقول إذا سمع المنادی‘‘: ج۱ ، ص: ۸۶، رقم ۶۱۱، ۶۱۳۔
(۱) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب الأذان، مطلب في کراہۃ تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج ۲، ص: ۶۶۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص144