Frequently Asked Questions
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: وتر کی تیسری رکعت میں رکوع سے قبل تکبیر کے بعد کوئی بھی دعا جو کلام الناس کے مشابہ نہ ہو پڑھی جاسکتی ہے، دعاء قنوت کی جو مشہور دعا وتر میں پڑھی جاتی ہے ’’اللھم إنا نستعینک‘‘ وہ دعا پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ہے۔ اس لیے اس کی جگہ اگر کسی نے کوئی سورہ پڑھ لی، یا کوئی دعا پڑھ لی، یا سورۂ فاتحہ پڑھ لی تو سجدۂ سہو واجب نہیں ہوگا اور نماز درست ہوجائے گی، اس لیے آپ کی نماز درست ہوگئی۔
’’ولیس في القنوت دعاء مؤقت، کذا في التبیین۔ و الأولی أن یقرأ: اللّہم إنا نستعینک، و یقرأ بعدہ :اللّہم اہدنا فیمن ہدیت۔ و من لم یحسن القنوت یقول: رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ کذا في المحیط۔ أو یقول: اللّہم اغفرلنا، و یکرر ذلک ثلاثاً، وہو اختیار أبي اللیث، کذا في السراجیۃ‘‘(۱)
’’(قولہ: ویسن الدعاء المشہور) قدمنا في بحث الواجبات التصریح بذلک عن النھر۔ وذکر في البحر عن الکرخي أنّ القنوت لیس فیہ دعاء مؤقت، لأنہ روي عن الصحابۃ أدعیۃ مختلفۃ، و لأنّ المؤقت من الدعاء یذھب برقۃ القلب … ومن لا یحسن القنوت یقول: ربنا آتنا في الدنیا حسنۃ۔ الآیۃ۔ وقال ابو اللیث یقول: اللھم اغفرلي، یکررھا ثلاثا، وقیل یقول : یارب ثلاثا، ذکرہ في الذخیرۃ اھـ۔‘‘(۲)
’’وھو أن یقول: اللھم انا نستعینک ونستھدیک ونستغفرک ونتوب إلیک ونؤمن بک … الخ ویجوز أن یقتصر في دعاء القنوت علی نحو قولہ: {رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِیْ الآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} أو یقول یا رب ثلاثا أو اللھم اغفرلي ثلاثا لأنہ غیر مؤقت في ظاھر الروایۃ مطلقا سواء کان یحسن الدعاء أولا‘‘(۳)
(۱) جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الھندیۃ، ’’الباب الثامن في صلاۃ الوتر‘‘: ج۱، ص: ۱۷۰، زکریا دیوبند۔)
(۲) ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ، باب الوتر والنوافل‘‘ : ج ۲، ص: ۴۴۲، ۴۴۳۔)
(۳) الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوی علی مراقي الفلاح: ج ۱، ص: ۲۸۰۔)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص326
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نماز عشاء سے قبل چار سنت غیر مؤکدہ ہیں جیسا کہ مظاہر حق میں ہے کہ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز عشاء سے قبل چار رکعت پڑھے گویا اس نے تہجد کی نماز پڑھی اس رات میں اور جو کوئی بعد عشاء چار رکعت پڑھے گویا اس نے چار رکعت شب قدر میں پڑھی۔(۱)
(۱) إن التطوع بالأربع قبل العشاء حسن، لأن التطوع بہا لم یثبت أنہ من السنن الراتبۃ ولو فعل ذلک فحسن۔ (الکاساني، بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع: ج ۱، ص: ۲۸۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج6 ص436
Taharah (Purity) Ablution &Bath
Ref. No. 39 / 812
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
It is permissible to do so to stop the flow of the blood in order that one’s Wudhu does not break.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Miscellaneous
Ref. No. 39/1062
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
Installation of CCTV cameras without a genuine (shariee) reason is not allowed. Today people are using it mostly as fashion. So it should be avoided. Nevertheless, in sensitive areas or wherever it is truly necessitated, installation of CCTV camera is allowable.
And Allah Knows Best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
Islamic Creed (Aqaaid)
Ref. No. 41/1004
In the name of Allah the most gracious the most merciful
The answer to your question is as follows:
An Islamic religious law is called ‘Mas’ala’. Sometimes, the Islamic law is given in answer to a question so the same is called fatwa. So the fatwa is always given to answer to a particular query. Mas’alah includes all types of Islamic laws.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
تجارت و ملازمت
Ref. No. 1004/41-165
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دو بھائی ایک کاروبار میں شریک ہیں۔ ایک بھائی اعتماد کرکے اپنے دوسرے بھائی کو دوا لانے کے لئے بھیجتا ہے تو جتنے روپیوں میں دوا ملی ہے اسی قدر روپئے لینا جائز ہوگا، اس سے زیادہ لینا درست نہیں ہوگا۔
إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة۔ (درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
Ref. No. 1110/42-337
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ یزید کے متعلق احوط یہی ہے کہ سکوت اختیار کیا جائے۔ تفصیلی معلومات کے لئے حکیم الاسلام قاری محمد طیب علیہ الرحمۃ کی کتاب 'شہید کربلا اور یزید' کا مطالعہ کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
احکام سفر
Ref. No. 1217/42-523
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صورت مسئولہ میں جس راستے سے سفر شروع کیا ہے اسی کا اعتبار ہے۔ لہذا مذکورہ شخص مسافر رہے گا اور قصر کرےگا۔
ولو لموضع طريقان أحدهما مدة السفر والآخر أقل قصر في الأول لا الثاني. )(الدر مع الرد باب صلوۃ المسافر 2/123)
"وتعتبر المدة من أي طريق أخذ فيه، كذا في البحر الرائق. فإذا قصد بلدة وإلى مقصده طريقان: أحدهما مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والآخر دونها، فسلك الطريق الأبعد كان مسافراً عندنا، هكذا في فتاوى قاضي خان. وإن سلك الأقصر يتم، كذا في البحر الرائق". الفتاوى الهندية (1/ 138)
"وقال أبو حنيفة: إذا خرج إلى مصر في ثلاثة أيام وأمكنه أن يصل إليه من طريق آخر في يوم واحد قصر". بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 94)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:احادیث کی صراحت سے معلوم ہوتا ہے کہ دل سے تصدیق کرنے اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ایمان ہے، دل سے تصدیق سے مراد یہ ہے کہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ ایک اور واجب الوجود ہے۔ فرشتے، اللہ کی کتابیں، اس کے رسول، یوم آخرت اور تقدیر سب برحق ہیں، اور زبان سے اقرار سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کا رسول ہونے کی زبان سے شہادت دے۔ اگر کوئی آدمی ان امور میں سے کسی کا انکار کردے تو وہ مؤمن نہیں ہے، اور اگر دین اسلام کی کسی چھوٹی یا بڑی چیز کا مذاق بنائے تو اس سے مذکورہ امور کے اعتقاد کا انکار لازم آتا ہے؛ اس لئے ایسا شخص دائرہئ ایمان سے خارج ہوجاتا ہے۔
وہو التصدیق الذي معہ أمن وطمانینۃ لغۃ، وفي الشرع تصدیق القلب بما جاء من عند الرب فکأن المؤمن یجعل بہ نفسہ آمنۃ من العذاب في الدارین، أو من التکذیب والمخالفۃ وہو إفعال من الأمن یقال أمنت وآمنت غیري، ثم یقال: أمنہ إذا صدقہ۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ”کتاب الإیمان“: ج ۱، ص: ۵۰۱)
وقد اختلف ہؤلاء علی أقوال: الأول إن الإیمان إقرار باللسان ومعرفۃ بالقلب وہو قول أبي حنیفۃ وعامۃ الفقہاء وبعض المتکلمین، الثاني: إن الإیمان ہو التصدیق بالقلب واللسان معا وہو قول بشر المریسي وأبي الحسن الأشعري، الثالث: إن الإیمان إقرار باللسان وإخلاص بالقلب۔ (العیني، عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري، ”کتاب الإیمان: باب الإیمان وقول النبي: بني الإسلام علی خمس“: ج ۱، ص: ۴۶۱)
تجارت و ملازمت
Ref. No. 2126/44-2179
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر بینک سے لون لینے کی شدید ضرورت ہے مثلا کاروبار کرنے کے لئے پیسے نہیں ہیں اور غیرسودی قرض دینے والا کوئی نہیں ہے یا سودی قرض لئے بغیر پورے کاروبار کے ڈدوبنے کا اندیشہ ہے تو ایسی شدید مجبوری میں بقدر ضرورت لون لینے کی گنجائش ہے ، لیکن محض کاروبار کی ترقی کے لئے اور کاروبار کو پھیلانے کے لئے سودی قرض لینا جائز نہیں ہے۔ لمٹ بنوانےکی صورت میں بھی سود دینا پڑتاہے ، اگرچہ اس کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اس لئے اس سے بھی بچنا ضروری ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند