Frequently Asked Questions
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:صورت مسئولہ میں جسم پر میل کچیل ہونے کی وجہ سے پانی کے اعضا تک پہونچنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے، عام طور پر میل کچیل ہونے کی صورت میں بھی پانی اعضا تک پہونچ ہی جاتا ہے اس لیے میل کچیل کے ساتھ بھی وضو اور غسلِ جنابت صحیح ہو جاتا ہے؛ البتہ صفائی ستھرائی کا بھر پور خیال رکھنا چاہئے۔ فطری طور پر انسان صفائی ستھرائی، طہارت وپاکیزگی اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور اسلام ایک دین فطرت ہے جس میں انسانی فطرت کا بھر پور لحاظ ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے صاف ستھرا رہنے والے افراد سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ قول باری تعالیٰ ہے: ’’بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو دوست رکھتا اور بہت پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔ {إن اللّٰہ یحب التوابین ویحب المتطہرین}(۱)
’’ولا یمنع الطہارۃ ونیم … وحناء ولو جرمہ، بہ یفتی ودرن ووسخ۔ قال ابن عابدین: قولہ: (وبہ یفتی) صرح بہ في المنیۃ عن الذخیرۃ في مسألۃ الحناء والطین والدرن معللا بالضرورۃ، قال في شرحہا: ولأن الماء ینفذہ لتخللہ وعدم لزوجتہ و صلابتہ، والمعتبر في جمیع ذلک نفوذ الماء ووصولہ إلی البدن‘‘(۲)
سر اور داڑھی کے بالوں میں جمع ہونے والے میل اور جؤں کا صاف کرنا مستحب ہے۔ ان کی صفائی کے لئے بالوں کو دھونے، تیل لگانے اور کنگھا کرنے کا حکم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بالوں میں کبھی کبھی تیل لگاتے اور کنگھا کرتے تھے جیسا کہ امام ابوداؤدؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
’’آپ B کا فرمان ہے کہ جس کے بال ہوں اسے چاہئے کہ ان کی تکریم کرے (یعنی دیکھ بھال کرے) ’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من کان لہ شعر فلیکرمہ‘‘(۱)
صاحب عون المعبود مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بالوں کی تکریم کا مطلب یہ ہے کہ انہیں دھو کر تیل لگائے اور کنگھی کر کے صاف ستھرا اور خوشنما رکھے، بالوں کو بکھرا ہوا نہ رکھے کیونکہ صفائی ستھرائی اور خوبصورتی مطلوب امر ہے۔(۲)
لہٰذا جسم پر میل کچیل یا سر میں روسی ہونے کی وجہ سے غسل یا وضو میں کوئی خرابی لازم نہیں آتی ہے کیونکہ یہ غسل اور وضو کی ادائیگی کے لئے مانع نہیں ہے۔
(۱) سورۃ البقرۃ: ۲۲۲۔ …
…(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب في أبحاث الغسل‘‘: ج ۱، ص: ۲۸۸، وجماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الطہارۃ: الفصل الأول في فرائض الوضوء‘‘: ج ۱، ص: ۵۳؛ وطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي، ’’کتاب الطہارۃ: فصل في تمام أحکام الوضوء‘‘: ج ، ص: ۶۳۔
(۱) أخرجہ أبوداود، في سننہ، ’’أول کتاب الترجل، باب في إصلاح الشعر‘‘: ج ۲، ص: ۷۶، رقم: ۴۱۶۳۔(کتب خانہ نعیمیہ، دیوبند)
(۲) شمس الحق العظیم آبادي، عون المعبود، ’’باب في إصلاح الشعر‘‘: ج ۹، ص: ۱۱۸۳۔(القاھرۃ: القدس للنشر والتوزیع، مصر)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص191
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:افضل تو یہی ہے کہ غسل کے بعد سوئے۔ تا ہم بغیر غسل کے بھی سونا جائز ہے(۱) حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے ’’کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم إذا أراد أن ینام وہو جنب غسل فرجہ وتوضأ للصلوٰۃ‘‘(۲)
(۱) الجنب إذا أخر الاغتسال إلی وقت الصلوٰۃ لا یأثم کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’ کتاب الطہارۃ، الباب الثاني: في الغسل، و مما یتصل بذلک مسائل،‘‘ ج۱، ص:۶۸، مکتبہ فیصل دیوبند)
(۲)أخرجہ البخاري، في صحیحہ، کتاب الغسل، باب الجنب یتوضأثم ینام، ج۱، ص:۴۳، رقم:۲۵ (مکتبۃ نعیمیۃ دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص285
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:ایام حیض ونفاس میں قرآن کریم کو چھونا یا پڑھنا قطعاً درست نہیں، اور کوئی دوسری دینی کتاب پڑھنا اور سننا دونوں درست ہے۔(۱)
(۱)لَا یَمَسُّہٗ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (الواقعہ:۷۹) ؛ وقال مالک ولا یحمل أحد المصحف بعلاقتہ ولا علی وسادۃ أحد إلا وھو طاھر(مکتبہ بلال دیوبند) (أخرجہ مالک بن انس بن مالک، في الموطا،باب لا یمس القرآن إلا طاھر، ج۱، ص:۱۹۹، رقم :۲۳۶)؛ ولا یجوز لحائض ولا جنب قراء ۃ القرآن لقولہ علیہ السلام لا یقرأ الجنب ولا الحائض شیئا من القرآن۔ (أبوبکر بن علي، الجوہرۃ النیرۃ، ’’باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۶، دارالکتاب دیوبند) ؛ وعن حفصۃ قالت: فلما قدمت أم عطیۃ سألتھا أسمعت النبي ﷺ قالت بأبي نعم۔ و کانت لا تذکرہ إلا قالت: بأبي سمعتہ یقول: یخرج العواتق و ذوات الحذور، أوالعواتق ذوات الحذور والحیّض ولیشھدن الخیر، ودعوۃ المومنین، و یعتزل الحیض المصلی قالت حفصۃ: فقلت الحیض؟ فقالت ألیس تشھد عرفۃ و کذا و کذا۔(أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الحیض، باب شہود الحائض العیدین‘‘ ج۱، ص:۴۶، رقم: ۳۲۴، مکتبہ نعیمیہ دیوبند) ؛ و یکرہ مسُّ کتب التفسیر والفقہ والسنن، لأنھا لا تخلوا عن آیات القرآن۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض‘‘ ج۱، ص:۳۵؛ و ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب: لو أفتی مفت بشيء من ھذا الأقوال‘‘ ج۱، ص:۴۸۸) ؛ ولا تقرأ لحائض ولا الجنب شیئا من القرآن والنفساء کالحائض و یحرم مسھا (حسن بن عمار، مراقي الفلاح شرح نورالإیضاح، ’’باب الحیض والنفاس والاستحاضۃ، ج۱، ص:۵۸المکتبۃ الاسعدی، سہارنپور)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص384
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: قتل کرنا اس کا جائز نہیں تھا اور اس قتل کی وجہ سے وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور فاسق ہوا(۱) توبہ کرنا اور بیوی کے وارثوں سے معاف کرانا اس پر لازم ہے اگر اس نے توبہ کرلی اور معاف کرالیا تو امامت اس کی صحیح ہوگی(۲) ورنہ تو مکروہ تحریمی ہوگی۔(۳)
(۱) الأحق بالإمامۃ تقدیما بل نصبا الأعلم بأحکام الصلوٰۃ فقط صحۃ وفسادا بشرط اجتنابہ للفواحش الظاہرۃ؛ وقال الشامي: الأعلم بالسنۃ أولیٰ إلا أن یطعن في دینہ لأن الناس لایرغبون في الاقتداء بہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار مع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوۃ، باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۴)
{مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ ؔ کَتَبْنَا عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنَّہٗ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاط وَلَقَدْ جَآئَ تْھُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِز ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَہ۳۲ } (سورۃ المائدہ: ۳۲)
(۲) التائب من الذنب کمن لاذنب لہ، الحدیث۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الصلوۃ، باب ذکر التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۳) وفاسق: من الفسق وہو الخروج عن الاستقامۃ، ولعل المراد بہ من یرتکب الکبائر کشارب الخمر والزاني وآکل الربا ونحو ذلک۔ (ابن عابدین، رد المحتارمع الدرالمختار، ’’کتاب الصلوٰۃ: باب الإمامۃ، مطلب في تکرار الجماعۃ في المسجد‘‘: ج۲، ص: ۲۹۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص165
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اوقات مقررہ پر نماز پڑھانا امام کی ذمہ داری ہے، اس میں کوتاہی درست نہیں؛ لیکن امام کے لیے بھی اعذار ہوسکتے ہیں؛ اس لیے اگر امام کو کبھی تاخیر ہوجائے تو صرف پانچ منٹ انتظار میں مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ مسجد میں ہوتے ہوئے بغیر کسی عذر کے وقت مقررہ میں تاخیر امام کی صرف ضد معلوم ہوتی ہے۔ ایسا ہرگز نہ کیا جائے نیز اس بارے میں نمازی حضرات ذمہ داران سے گفتگو کریں، ذمہ داران پر لازم ہے کہ نماز یوں کی پوری رعایت کریں اور جو بھی صورت ہو ذمہ داران و نمازی حضرات کے باہمی مشورہ سے اس کو حل کریں، بلا وجہ دینی امور میں اختلاف اور عوام میں انتشار جائز نہیں ہے۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
ینبغي للمؤذن مراعاۃ الجماعۃ، فإن راٰھم اجتمعوا أقام و إلا انتظرھم۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب الأذان ج۱، ص۴۴۹)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص369
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: اگر عضو کا چوتھائی حصہ کھل گیا تو نماز نہیں ہوگی، اگر اس سے کم ہے تو نماز ہوجائے گی۔ اسی طرح گیلے کپڑے میں ستر صاف نظر آئے، تو نماز نہیں ہوگی، بھر پور احتیاط ضروری ہے۔(۱)
(۱) الثوب الرقیق الذي یصف ما تحتہ لا تجوز الصلوٰۃ فیہ: کذا في التبیین۔ ولو کان علیہ قمیص لیس غیرہ وکان إذا سجد لا یری أحد عورتہ؛ لکن لو نظر إلیہ إنسان من تحتہ رأی عورتہ فہذا لیس بشيء، قلیل الإنکشاف عفو لأن فیہ بلویٰ ولا بلویٰ في الکبیر فلا یجعل عفواً، الربع وما فوقہ کثیر وما دون الربع قلیل: وہو الصحیح۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث: في شروط الصلوٰۃ، الفصل الأول: في الطہارۃ وستر العورۃ‘‘ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
وتجمع بالأجزاء لو في عضو واحد وإلا فبالقدر فإن بلغ ربع أدناہا کأذن منع۔ (ابن عابدین،رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ‘‘: مطلب في النظر إلی وجہ الأمرد، ج ۲، ص: ۸۳، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فإن صلت وربع ساقہا مکشوف أو ثلثہا تعید الصلوٰۃ عند أبي حنیفۃؒ ومحمدؒ وإن کا أقل من الربع لا تعید۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ التي تتقدمہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۳، دار الکتاب، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص265
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مقتدیوں تک آواز پہونچانے کے لیے بلند آواز سے پڑھنا نہ صرف جائز ہے بلکہ ضروری ہے۔(۱)
(۱) اقتداء الناس بالنبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم في مرض موتہ وہو قاعد وہم قیام وہو آخر أحوالہ، فتعین العمل بہ بنائً علی أنہ علیہ الصلاۃ والسلام کان إماماً وأبوبکر مبلغاً للناس تکبیرہ، وبہ استدل علی جواز رفع المؤذنین أصواتہم في الجمعۃ وغیرہما۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ‘‘: ج۱، ص: ۳۶۴)
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 410
Hadith & Sunnah
Ref. No. 798 Alif
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
The Ilm (knowledge) which deals with the worldly matters and requirements is called Dunyavi Ilm. And the Ilm which guides in the matters of the Hereafter is Deeni Ilm. Also worldly knowledge is required to solve worldly problems and fulfill worldly needs. So, there is nothing wrong in such a division of Ilm into two types. However both types of knowledge are of great importance.
And Allah knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
اسلامی عقائد
Ref. No. 39/1056
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غائب کی شہادت معتبر نہیں البتہ اگر آواز پہچانتا ہواور کسی قسم کا شبہ نہ ہو تو ٹیلیفون پر دی گئی خبر معتبر ہوگی۔ خبروشہادت میں فرق بھی ملحوظ رکھاجائے کسی عالم سے بالمشافہ سمجھ لیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 40/916
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند