Frequently Asked Questions
اسلامی عقائد
Ref. No. 39/1056
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ غائب کی شہادت معتبر نہیں البتہ اگر آواز پہچانتا ہواور کسی قسم کا شبہ نہ ہو تو ٹیلیفون پر دی گئی خبر معتبر ہوگی۔ خبروشہادت میں فرق بھی ملحوظ رکھاجائے کسی عالم سے بالمشافہ سمجھ لیں۔ واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
متفرقات
Ref. No. 40/916
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ پولیو کی دوا میں جب تک تحقیق سے کسی غلط چیز کی ملاوٹ کا ثبوت نہ ہوجائے اس کو ناجائز نہیں کہا جائے گا۔ حکومت کا یہ اقدام ملک سے پولیو کے خاتمے کے لئے ہے اور اس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہے، اس لئے بلاوجہ اس میں شبہ کرنا مناسب نہیں ۔
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
Ref. No. 1117/42-343
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ نابالغ کی امامت درست نہیں ، اس لئے جن لوگوں نے نابالغ کی اقتداء میں نماز پڑھی وہ اس نماز کو لوٹائیں۔
و لايصح اقتداء رجل بامرأة وخنثی وصبي مطلقاً ولو في جنازة ونفل علی الأصح (درمختار مع الشامی: 1/577
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
فقہ
ربوٰ وسود/انشورنس
ذبیحہ / قربانی و عقیقہ
Ref. No. 2342/44-3526
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ رگوں سے نکلنے والا خون ناپاک ہے، اور وہ جس جگہ بھی لگے گا اس کو ناپاک کردے گا، لہذا گردن کے گوشت یا کسی بھی حصہ کے گوشت پراگر خون لگا ہوا ہے تو وہ ناپاک ہے، اس کو دھونا لازم ہے، اگر بغیر دھوئے پکایا گیا تو اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا۔ چھری پر لگاہوا خون اگر کھال پر یا گوشت پر صاف کردیا گیا ہو تو ج خون آلود ہے وہ ناپاک ہوگااور باقی گوشت پاک ہوگا۔
﴿ قُلۡ لَّاۤ اَجِدُ فِیۡ مَاۤ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ مَیۡتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوۡحًا اَوْ لَحْمَ خِنۡزِیۡرٍ فَاِنَّہٗ ِجْسٌ﴾ (پارہ 8،سورۃ الانعام، آیت 451)
وَمَا يَبْقَى مِنْ الدَّمِ فِي عُرُوقِ الذَّكَاةِ بَعْدَ الذَّبْحِ لَا يُفْسِدُ الثَّوْبَ وَإِنْ فَحُشَ. كَذَا فِي فَتَاوَى قَاضِي خَانْ وَكَذَا الدَّمُ الَّذِي يَبْقَى فِي اللَّحْمِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِمَسْفُوحٍ. هَكَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ۔ (الفتاویٰ الہندیۃ : ١/٤٦)
”وقولہ تعالی( أو دما مسفوحا )یدل علی أن المحرم من الدم ما کان مسفوحا (احکام القرآن،مطلب فی لحوم الابل الجلالة،ج3،ص 33،مطبوعہ کراچی) ومالزق من الدم السائل باللحم فھونجس (فتاوی عالمگیری،الفصل الثانی ،ج01،ص46،مطبوعہ کوئٹہ)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:آتش بازی اور پٹاخے چھوڑنا اور نام ونمود کے لیے اپنی کمائی برباد کرنا، حرام کاموں میں لگانا، مال برباد اور گناہ لازم کا مصداق ہے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی کمائی جائز کاموں میں خرچ کریں، البتہ نکاح کے اعلان کے لئے شرعی حدود میں گنجائش ہے۔(۱)
(۱) {وَالَّذِیْنَ إِذَآ أَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاہ۶۷} (سورۃ الفرقان: ۶۷)
{إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا إِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِط} (سورۃ الإسراء: ۲۷)
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص436
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق:شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے، صحابۂ کرامؓ، حضرات ائمہ اور اسلاف عظام سے بھی ثابت نہیں ہے۔ مگر بعض مرتبہ حالات اور وطنی غیر مسلم پڑوسیوں کی وجہ سے اپنی اجتماعیت اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کے لئے بھی کچھ کرنا ضروری ہوجاتا ہے اس لحاظ کے ساتھ کہ حدود شرعی سے تجاوز نہ ہو اور اس کو عقیدہ نہ بنا لیا جائے۔پس اس بات کا خیال رکھتے ہوئے وقتِ ضرورت امور مذکور کے کرنے کی گنجائش ہے اور اختلاف اس پر مناسب نہیں ہوگا۔(۱)
(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ علیہ وسلم: من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو رد۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح: باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)
المولود الذي شاع في ہذا العصر …… ولم یکن لہ أصل من الشریعۃ الغراء۔ (علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي، ’’أبواب العیدین، باب ما جاء في التکبیر في العیدین‘‘: ج ۱، ص: ۵۶۸)
ونظیر ذلک فعل کثیر عند ذکر مولدہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ووضع أمہ لہ من القیام۔ وہو أیضاً: بدعۃ لم یرد فیہ شيء بہ علی أن الناس إنما یفعلون ذلک تعظیماً لہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فالعوام معذورون لذلک بخلاف الخواص۔ (أحمد بن محمد، الفتاویٰ الحدیثیۃ: ج ۱، ص: ۵۸)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص488
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سمجھدار عالم کے لیے مطالعہ درست ہے کہ تفسیر کو وہی تحقیق سے پڑ ھ سکتا ہے۔(۲)
(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار، ہذا حدیث حسن۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء في الذي یفسر القرآن برأیہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۳، رقم: ۲۹۵۲)
قال السیوطي: اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً منسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثار الخ۔ (جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن، ’’باب النوع الثامن والسبعون‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص261
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ابتدا میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا بھول جائے، تو درمیان میں پڑھنے سے وضو کی سنت تو ادا نہیں ہوگی تاہم پڑھنے کی برکت ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ ضرور ملے گی۔
البحر الرائق میں ہے:
’’ولو نسي التسمیۃ في ابتداء الوضوء ثم ذکر ہا في خلالہ فسمي لا تحصل السنۃ‘‘(۱)
شامی میں ہے:
’’قولہ وأما الأکل أي إذا نسیہا في ابتدائہ‘‘ واعلم أن الزیلعي ذکر أنہ لا تحصل السنۃ في الوضوء وقال بخلاف الأکل لأن الوضوء عمل واحد‘‘(۲)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب الفرق بین الطاعۃ والقربۃ والعبادۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص193