اسلامی عقائد

Ref. No. 1945/44-1875

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  پختہ زمین جیسے کہ ٹائل والے یا سیمنٹ والے فرش یا چھت پر نجاست اگر خشک ہوجائے  اور اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے تو وہ فرش پاک ہے۔ اور اس پر نماز پڑھنا درست ہے۔

البحر الرائق: (237/1، ط: دار الكتاب الاسلامي)

وإن كان اللبن مفروشا فجف قبل أن يقلع طهر بمنزلة الحيطان، وفي النهاية إن كانت الآجرة مفروشة في الأرض فحكمها حكم الأرض، وإن كانت موضوعة تنقل وتحول، فإن كانت النجاسة على الجانب الذي يلي الأرض جازت الصلاة عليها، وإن كانت النجاسة على الجانب الذي قام عليه المصلي لا تجوز صلاته.

الهندیة: (43/1، ط: دار الفکر)

" الأرض إذا تنجست ببول واحتاج الناس إلی غسلها، فإن کانت رخوةً یصب الماء علیها ثلاثاً فتطهر، وإن کانت صلبةً قالوا: یصب الماء علیها وتدلك ثم تنشف بصوف أوخرقة، یفعل کذلك ثلاث مرات فتطهر، وإن صب علیها ماء کثیر حتی تفرقت النجاسة ولم یبق ریحها ولا لونها وترکت حتی جفت تطهر، کذا في فتاویٰ قاضی خان".

و فیھا أیضاً: (44/1، ط: دار الفکر)

’’( ومنها ) الجفاف وزوال الأثر الأرض تطهر باليبس وذهاب الأثر للصلاة لا للتيمم. هكذا في الكافي. ولا فرق بين الجفاف بالشمس والنار والريح والظل‘‘.

المحیط البرھانی: (200/1، ط: دار الکتب العلمیة)

البول إذا أصاب الأرض واحتیج إلی الغسل یصب الماء علیه ثم یدلك وینشف ذلك بصوف أو خرقة فإذا فعل ذلك ثلاثاً طهر، وإن لم یفعل ذلك ولكن صب علیه ماء کثیر حتی عرف أنه زالت النجاسة ولایوجد في ذلك لون ولا ریح، ثم ترک حتی نشفته الأرض کان طاهراً".

واللہ اعلم بالصواب

کتبہ: محمد اسعد جلال

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

اسلامی عقائد

Ref. No. 2182/44-2288

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ Hala Maryam   لکھ سکتے ہیں۔  اللہ تعالی بچی کو سلامت رکھے، واالدین کی آنکھوں کے لئے ٹھنڈک بنائے ۔ آمین

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

اسلامی عقائد

الجواب وباللّٰہ التوفیق:نیاز کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ کسی بزرگ یا میت کے نام پر کھانا وغیرہ پکا کر کھلایا جائے اس سے اس کا تقرب مقصود ہو تو یہ ناجائز اور حرام ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کھانا وغیرہ صرف اللہ کے نام پر پکایا جائے اور غرباء کو کھلایا جائے اور اس کا ثواب کسی میت یا مردہ کو بخش دیں یہ جائز ہے۔ پہلی صورت میں وہ کھانا حرام اور دوسری صورت میں جائز ہے۔ اگر کھانا نذر کا ہو تو صرف غرباء کے لئے جائز ہوگا۔ (۱) چھٹی کی دعوت کو لازم سمجھنا اور اس میں طرح طرح کی رسمیں بالکل درست نہیں، البتہ بچہ کی خوشی پر کسی بھی روز دعوت مسنون ہے؛ اس لئے عقیقہ کرنا جائز ہے۔ شادی کے پہلے دن حسب موقع وحسبِ ضرورت دعوت کرنا درست ہے جب کہ کوئی غیرشرعی امر نہ ہوتا ہو، البتہ شادی کے بعد کی دعوت ولیمہ مسنون ہے۔ سالگرہ پر کیک وغیرہ کاٹنا غیرقوموں کے طریقہ کو اختیار کرنا ہے جو جائز نہیں؛ البتہ اگر پیدائش کے دن یا کسی بھی دن اللہ تعالیٰ کی نعمت پر اس کا شکر ادا کیا جائے اور احباب وغرباء کی دعوت بھی ہو، تو کوئی حرج نہیں ہے؛ لیکن اس کو مروجہ سالگرہ کا رنگ نہ دیا جائے۔ (۱)

(۱) واعلم أن النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام وما یؤخذ من الدراہم والشمع والزیت ونحوہا إلی ضرائح الأولیاء الکرام تقربا إلیہم فہو بالإجماع باطل وحرام ما لم یقصدوا صرفہا لفقراء الأنام۔ (ابن عابدین، الد المختارمع رد المحتار، ’’کتاب الصوم: باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، مطلب: في النذر الذي یقع للأموات من أکثر العوام‘‘: ج ۳، ص: ۴۲۷)(۱) عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من أحدث في أمرنا ہذا ما لیس فیہ فہو ردٌّ۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور‘‘: ج ۱، ص: ۳۷۱، رقم: ۲۶۹۷)  

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص343

قرآن کریم اور تفسیر

الجواب وباللّٰہ التوفیق:آیت مذکورہ کی تفسیر تو یہ ہے کہ کافروں نے کہا کہ اپنے معبودوں کی حمایت پرجمے رہنا اور نوح کے بہکانے میں نہ آنا ’’لاتذرن‘‘، نہ چھوڑو، ودکو، اور نہ سواع کو اور نہ یغوث کو اور یعوق اور نسر کو ، یہ پانچوں نام ان کے پانچ بتوں کے ہیں۔ ہر مطلب کا ایک الگ الگ بت بنا رکھا تھا بعض روایات میں ہے کہ پہلے زمانہ میں کچھ بزرگ لوگ تھے ان کے انتقال کے بعد شیطان کے اغواء سے ان کی تصویریں بطور یادگار بناکر کھڑی کرلیں پھر ان کی تعظیم ہونے لگی۔شدہ شدہ پرستش کرنے لگے، مذکورہ تفسیر جس کا سوال میں تذکرہ ہے۔ تفسیر بالرائے ہے اور صحیح نہیں ہے اس قسم کی تفسیر لکھنے والا گنہگار ہے اور اس کی لکھی ہوئی تفسیر کے پڑھنے اور دیکھنے سے بھی احتراز ضروری ہے۔(۱)

(۱) وقال نوح: {وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ أٰلِھَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لاَ سُوَاعًا۵لا وَّ لاَ یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ہج ۲۳} (سورۃ نوح: ۲۳)
عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد أما ودُّ کانت لکلب بدومۃ الجندل وأما سواعٌ کانت لہذیل وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجوف (بالجرف) عند سبإٍ وأما یعوق فکانت لہمدان وأما نسرٌ فکانت لحمیر لآل ذي الکلاع أسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ہلکوا أوحی الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ العلم عبدت۔ (أخرجہ البخاري، في صحیحہ، ’’کتاب التفسیر: سورۃ إنا أرسلناک، باب وداً ولا سواعاً ولا یغوث‘‘: ج ۲، ص: ۷۳۲، رقم: ۴۹۲۰)
وَقالُوا لا تَذَرُنَّ آلِہَتَکُمْ أي عبادتہا۔ وَلا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلا سُواعاً وَلا یَغُوثَ وَیَعُوقَ وَنَسْراً وَلا تَذَرُنَّ ہؤلاء خصوصاً، قیل ہي أسماء رجال صالحین کانوا بین آدم ونوح، فلما ماتوا صوروا تبرکاً بہم، فلما طال الزمان عبدوا۔ وقد انتقلت إلی العرب فکان ود لکلب، وسواع لہمدان، ویغوث لمذحج، ویعوق لمراد، ونسر لحمیر۔ (ناصر الدین، أنوار التنزیل: ج ۵، ص: ۲۵۰)
عن ابن جریج، وقال عطائٌ عن ابن عباس: صارت الأوثان التي کانت في قوم نوح في العرب بعد: أما ود فکانت لکلب بدومۃ الجندل، وأما سواع فکانت لہذیل، وأما یغوث فکانت لمراد ثم لبني غطیف بالجرف عند سبأ، وأما یعوق فکانت لہمدان، وأما نسر فکانت لحمیر لاَل ذی کلاع، وہي أسماء رجال صالحین من قوم نوح علیہ السلام۔ فلما ہلکوا أوحي الشیطان إلی قومہم أن انصبوا إلی مجالسہم التي کانوا یجلسون أنصابا وسموہا بأسمائہم ففعلوا فلم تعبد حتی إذا ہلک أولئک وتنسخ (ونسخ) العلم عبدت۔ (أبو الفداء إسماعیل ابن کثیر، تفسیر ابن کثیر، ’’سورۃ التوبۃ: ۲۳‘‘: ج ۸، ص: ۲۳۴)
من تکلم (في القرآن) أي: في معناہ أو قرائتہ (برأیہ) أي: من تلقاء نفسہ من غیر تتبع أقوال الأئمۃ من أہل اللغۃ والعربیۃ المطابقۃ للقواعد الشرعیۃ، بل بحسب ما یقتضیہ عقلہ، وہو مما یتوقف علی النقل بأنہ لا مجال للعقل فیہ کأسباب النزول والناسخ والمنسوخ وما یتعلق بالقصص والأحکام، أو بحسب ما یقتضیہ ظاہر النقل، وہو مما یتوقف علی العقل کالمتشابہات التی أخذ المجسمۃ بظواہرہا، وأعرضوا عن استحالۃ ذلک في العقول، أو بحسب ما یقتضیہ بعض العلوم الإلہیۃ مع عدم معرفتہ ببقیتہا وبالعلوم الشرعیۃ فیما یحتاج لذلک۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۴۴۵، رقم: ۲۳۴)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص30

حدیث و سنت

الجواب وباللّٰہ التوفیق:یہ ارشاد گرامی تو صغیرہ گناہوں کے بارے میں اطمینان ویقین دلاتا ہے، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے ہیں، ان احادیث کا یہ مطلب نہیں کہ ان کے بھروسے پر گناہ کرنے لگے؛ بلکہ اپنے گناہوں پر نادم ہوں اور پاک باز بننے کی سعی کریں، تویہ چیز اس میں مددگار ثابت ہوگی۔(۳)

(۳) إن المراد بہذا وأمثالہ غفران الصغائر۔ (عمدۃ القاري، ’’کتاب الطہارۃ: باب الاستنثار في الوضوء‘‘: ج ۳، ص: ۱۳، رقم: ۱۶۰؛ علامہ أنور شاہ الکشمیري، العرف الشذي علی الترمذي: ج ۱، ص: ۴)
یکفر کل شيء إلا الدین ظاہر أنہ یکفر الکبائر حقوق اللّٰہ أیضاً: والمشہور إنہا لا تکفر إلا بالتوبۃ۔ (شبیر أحمد العثماني، فتح الملہم: ج ۳، ص: ۴۱۲)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص78

فقہ

الجواب وباللّٰہ التوفیق:دنیاوی علم سے مراد وہ علم ہے، جس کا تعلق اس دنیا کے مسائل وضروریات سے ہے اور دینی علم سے مراد وہ علم ہے، جس کا تعلق آخرت کے مسائل وضروریات سے ہے۔ اپنی دنیاوی زندگی کے مسائل کو سمجھنے، انھیں حل کرنے اور دنیاوی ضروریات پوری کرنے کے لیے دنیاوی علم بھی ضروری ہے، علم کو دو حصوں میں اس طرح تقسیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔(۱)

(۱) عن یحیٰ بن حسان سمعت الشافعي یقول: العلم علمان: علم الدین وہو الفقہ، وعلم الدنیا وہو الطب وما سواہ من الشعر وغیرہ فعناء وعبثٌ۔ (شمس الدین، سیر أعلام النبلاء: ج ۸، ص: ۲۵۲)
وعن الحسن قال: (العلم علمان فعلم في القلب فذاک العلم النافع وعلم علی اللسان فذاک حجۃ اللّٰہ عز وجل علی ابن آدم)۔ رواہ الدارمي۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب العلم: الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۴، رقم: ۲۷۰)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص164

نماز / جمعہ و عیدین

الجواب وباللّٰہ التوفیق:ہر جگہ موجود ہونا اور سننا یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اور اللہ ہی کی خصوصیت ہے۔ ان میں کوئی اللہ کا شریک نہیں ہے، البتہ ملائکہ سیاحین ہیں۔ جو درود شریف کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیتے ہیں، مسجد میں بآواز بلند اجتماعی طور سے یہ عمل کتاب وسنت اجماع وقیاس سے ثابت نہیں ہے۔ اس سے مسجد میں نمازیوں کی نماز میں، کتاب اللہ پڑھنے والوں کی تلاوت میں بھی خلل ہوتا ہے۔ ویسے بے شمار بے حساب درود شریف ہیں، ’’صلی اللّٰہ علیک یارسول اللّٰہ وسلم علیک یا حبیب اللّٰہ‘‘ روضۂ اقدس کے سامنے پڑھنا چاہئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں زندہ ہیں اور دنیا کی زندگی سے افضل واکمل زندگی ہے۔ یہ درود ماثور ہے، لیکن مستند صحیح حدیث سے نہیں ہے، افضل درود نماز والا ہے۔(۱)
(۱) رجل تزوج امرأۃ ولم یحضر الشہود، قال: ’’خدایرا ورسول را گواہ کردم‘‘ أو قال: ’’خدائے را وفرشتگان گواہ کردم‘‘ کفر ولو قال فشتہ ’’دست راست را گواہ کردم وفرشتہ دست جب را گواہ کردم‘‘ لا یکفر کذا في فصول العمادیۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، منہا: ما یتعلق بالإیمان والإسلام‘‘: ج ۲، ص: ۲۶۶)
وعن أبی ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من صلی علي عند قبري سمعتہ ومن صلی علي نائیاً أبلغتہ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، ’’باب الصلاۃ علی النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۱، ص: ۳۳۰، رقم: ۹۳۴)


 فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص370

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:وضو نماز کے لیے شرط ہے، وقتِ نماز کے لیے نہیں، ہاں معذورین کا مسئلہ الگ ہے؛ لہٰذا وقت سے پہلے وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ بلکہ ہر وقت باوضو رہنا مستحسن ہے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اکثر باوضو رہا کرتے تھے اور پہلے وضو سے دوسرے وقت کی نماز بھی پڑھ لیا کرتے تھے۔ حدیث میں ہے:
’’عن أنس رضي اللّٰہ عنہ، قال: کان أصحاب النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ینتظرون العشاء حتی تخفق رؤسہم ثم یصلون ولا یتوضؤن رواہ أبوداود والترمذي‘‘(۱)
’’عن سلیمان بن بریدۃ عن أبیہ أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی الصلوات یوم الفتح بوضوء واحد ومسح علی خفیہ، فقال لہ عمر لقد صنعت الیوم شیئاً لم تکن تصنعہ قال عَمَداً صنعتہ یا عمر‘‘
’’الشرح في ہذا الحدیث أنواع من العلم، منہا جواز المسح علی الخف وجواز الصلوات المفروضات والنوافل بوضوء واحد ما لم یحدث وہذا جائز باجماع من یعتد بہ‘‘(۲)

(۱) مشکوٰۃ المصابیح، ’’کتاب الطہارۃ: باب ما یوجب الوضوء‘‘: ج ۱،ص: ۴۱، رقم: ۳۱۷۔(مکتبۃ اشرفیہ، دیوبند)
(۲) النووي، حاشیۃ النووي علی مسلم، ’’کتاب الطہارۃ: باب جواز الصلوات کلہا بوضوء واحد‘‘: ج ۱، ص: ۱۳۵۔(بیروت، دارالکتب العلمیۃ ، لبنان)

 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص186

مساجد و مدارس

Ref. No. 2714/45-4462

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجدکے لئے جب گاؤں کے افراد نے طے کیا ہے کہ ہم ہی اپنے پیسے سے مسجد بنائیں گے اور دوسرے گاؤں والوں سے پیسے نہیں لیں گے اور سب لوگ اپنی خوشی سے مسجد میں پیسے لگا رہے ہیں تواس میں دوسرے گاؤں کے لوگوں کو زبردستی نہ کرنی  چاہئے، اور فتنہ وفساد سے گریز کرنا چاہئے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ’’الخلاف شر‘‘ اختلاف بری شیئ ہے، اس لئے دوسرے گاؤں والوں کو پیار محبت سے سمجھا دیا جائے اورمنع کر دیا جائے۔

تاہم اس کا خیال رہے کہ اگر گاؤں والوں سے زبردستی چندہ لیا گیا یا متعین رقم ان پر لازم کردی گئی یا مسجد کی تعمیر میں ان کے وقت پر پیسہ نہ دینے کی وجہ سے تاخیر ہو رہی ہو تو اس طرح کی شرط لگانا درست نہیں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

طہارت / وضو و غسل

الجواب وباللّٰہ التوفیق:جنبی (ناپاک) اور حائضہ ونفساء عورت کے لیے مسجد کے اندر جانا جائز نہیں ہے(۲) کیونکہ مسجد کعبۃ اللہ کا ایک نمونہ ہے، اور ذکر الٰہی کی جگہ ہے، قرآن میں وارد ہے ’’وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَائِرَ اللّٰہِ فَإنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ‘‘ (۳)

(۲) یحرم بالحدث الأکبر دخول مسجد۔ (ابن عابدین، الدر المحتار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب: یوم عرفۃ أفضل من یوم الجمعۃ، ج۱،ص:۳۱۱) ؛ ولا تدخل المسجد و کذا الجنب لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: فإنی لا أحل المسجد لحائض ولا جنب۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الطہارات، باب الحیض والاستحاضۃ‘‘ ج۱،ص:۱۶۸)            (۳) سورۃ الحج:۳۲
 

فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص381