Frequently Asked Questions
مذاہب اربعہ اور تقلید
الجواب وباللّٰہ التوفیق:سمجھدار عالم کے لیے مطالعہ درست ہے کہ تفسیر کو وہی تحقیق سے پڑ ھ سکتا ہے۔(۲)
(۲) عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من قال في القرآن بغیر علم فلیتبوأ مقعدہ من النار، ہذا حدیث حسن۔ (أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’باب ما جاء في الذي یفسر القرآن برأیہ‘‘: ج ۲، ص: ۱۲۳، رقم: ۲۹۵۲)
قال السیوطي: اختلف الناس في تفسیر القرآن ہل یجوز لکل أحد الخوض فیہ؟ فقال: لا یجوز لأحد أن یتعاطی تفسیر شيء من القرآن وإن کان عالماً أدیباً منسما في معرفۃ الأدلۃ والفقہ والنحو والأخبار والآثار الخ۔ (جلال الدین السیوطي، الإتقان في علوم القرآن، ’’باب النوع الثامن والسبعون‘‘: ج ۴، ص: ۲۱۳)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج2ص261
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:اگر ابتدا میں ’’بسم اللّٰہ‘‘ پڑھنا بھول جائے، تو درمیان میں پڑھنے سے وضو کی سنت تو ادا نہیں ہوگی تاہم پڑھنے کی برکت ’’إن شاء اللّٰہ‘‘ ضرور ملے گی۔
البحر الرائق میں ہے:
’’ولو نسي التسمیۃ في ابتداء الوضوء ثم ذکر ہا في خلالہ فسمي لا تحصل السنۃ‘‘(۱)
شامی میں ہے:
’’قولہ وأما الأکل أي إذا نسیہا في ابتدائہ‘‘ واعلم أن الزیلعي ذکر أنہ لا تحصل السنۃ في الوضوء وقال بخلاف الأکل لأن الوضوء عمل واحد‘‘(۲)
(۱) ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۰۔
(۲) ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ: مطلب الفرق بین الطاعۃ والقربۃ والعبادۃ‘‘: ج ۱، ص: ۲۲۲۔
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص193
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق:غسل میں ایک فرض تو یہ ہے کہ پورے بدن کو اس طرح دھویا جائے کہ بال برابر بھی سوکھا نہ رہ جائے، ناف کا دھونا فرض ہے، ڈاڑھی مونچھ اور ان کے نیچے کی کھال کا دھونا فرض ہے، سرکے بالوں کا دھونا فرض ہے، انگوٹھی اگر تنگ ہو اور کان کے سراخوں میں بالیاں ہوں، تو ان کو حرکت دینا اورہلانا تاکہ پانی پہونچ جائے؛ فرض ہے۔ غرضیکہ ان میں پانی پہونچانا فرض ہے، تاہم مذکورہ تمام فرائض ان تین میںآجاتے ہیں:
(۱) پورے بدن پر اچھی طرح پانی بہانا۔(۲) کلی کرنا۔(۳) ناک میں پانی ڈالنا۔(۱)
(۱) و فرض الغسل غسل فمہ و أنفہ و بدنہ۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الطہارۃ،‘‘ ج۱، ص:۸۶ دارالکتاب دیوبند)؛ و یجب أي یفترض غسل کل ما یمکن من البدن بلا حرج مرۃ کأذن و سرۃ و شارب و حاجب و أثناء لحیۃ و شعر رأس الخ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الطہارۃ، مطلب في أبحاث الغسل،‘‘ ج۱، ص:۲۸۵، مکتبۃ زکریا دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص285
طہارت / وضو و غسل
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مہندی کا رنگ پانی کا ہاتھ لگ جانے سے مانع نہیں مہندی لگے ہوئے بھی پانی ہاتھ تک بلاشبہ چلا جاتا ہے، اس لیے مذکورہ ایام میں مہندی لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کے بعد جو غسل مہندی لگائے ہوئے کیا جائے وہ غسل بھی درست ہے۔(۱)
(۱)جنبٌ اختضب واختضبت امرأتہ بذالک الخضاب قال ابویوسف رحمہ اللّٰہ تعالیٰ لا بأس بہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب الکراہیۃ، الباب العشرون في الزینۃ و اتخاذ الخادم للخدمۃ‘‘ ج۵، ص:۴۱۵) ؛ و بل یطھر ما صبح او خضب بنجس بغسلہ ثلاثا۔ (ابن عابدین، الدر المختار، ’’باب الأنجاس‘‘ج۱، ص:۳۲۹)؛ و المرأۃ التي صبغت أضبعھا بالحناء أوالصرام أوالصباع قال کل ذالک سواء یخرجھم و ضوء ھم۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاوی الہندیہ، ’’کتاب الطہارۃ، الباب الأول: في الوضوء: الفرض الثاني: غسل الیدین‘‘ ج۱، ص:۵۴)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج3 ص385
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب و باللہ التوفیق: صورت مسئولہ میں اگر شرعی طریقہ پر ثابت ہو کہ امام صاحب نے سونا رکھ لیا اور تانبے کی نشتر بنا کر دے دی جو کہ دھوکہ وفریب ہے،(۱) تو ان کی امامت
بوجہ خیانت و فسق مکروہ ہے،(۲) الا یہ کہ وہ توبہ کریں اور سونا واپس کردیں؛(۳) لیکن بغیر شرعی ثبوت کے الزام تراشی درست نہیں ہے۔(۴)
(۱) علامات المنافق ثلث: إذا أحدث کذب وإذا وعد أخلف وإذا أؤتمن خان۔ (أخرجہ البخاري في صحیحہ، ’’ کتاب الإیمان، باب علامۃ المنافق‘‘: ج۱، ص: ۲۴، رقم: ۳۳)
(۲) وحاصلہ إن کان ہوی لایکفر بہ صاحبہ تجوز الصلاۃ خلفہ مع الکراہۃ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلوۃ، الباب الخامس في الإمامۃ، الفصل الثالث في بیان من یصلح إماماً لغیرہ‘‘: ج۱، ص: ۱۴۱)
(۳) قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: التائب من الذنب کمن لاذنب لہ۔ (أخرجہ ابن ماجۃ في سننہ، ’’کتاب الزہد، باب التوبۃ‘‘: ص: ۳۱۳، رقم: ۴۲۵۰)
(۴) عن علي رضی اللّٰہ عنہ قال: البہتان علی البراء أثقل من السموات۔ (علی بن حسام الدین حنفي، کنز العمال، ج۳، ص: ۸۰۲)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص166
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: کسی بزرگ کی وجہ سے جماعت میں تاخیر اسی صورت میں درست ہے جب کہ تاخیر کی وجہ سے وقت مکروہ میں نماز پڑھنی نہ پڑے اور اس بزرگ کی جماعت میں شرکت یا امامت کا انتظار مقتدیوں کو بھی ہو ۔ مذکورہ صورت میں چوں کہ مقتدیوں کو اس انتظار پر ناراضگی ہے؛ اس لیے یہ انتظار درست نہیں ہوا، آئندہ کے لیے امام کو متنبہ کردیا جانا چاہئے۔(۱)
(۱) فالحاصل أن التأخیر القلیل لإعانۃ أہل الخیر غیر مکروہ۔ (ابن عابدین، رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صفۃ الصلاۃ، مطلب في إطالۃ الرکوع للجائي‘‘: ج۲، ص: ۱۹۹)
وینتظر المؤذن الناس، ومقیم للضعیف المستعجل ولا ینتظر رئیس المحلۃ وکبیرہا وینبغي أن یؤذن في أول الوقت ویقیم في وسطہ حتی یفرغ المتوضي من وضوء ہ والمصلي من صلاتہ والمعتصر من قضاء حاجتہ۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثاني في الأذان، الفصل الثاني في کلمات الأذان والإقامۃ وکیفیتہما‘‘: ج۱، ص: ۱۱۴، زکریا دیوبند)
فتاویٰ دارالعلوم وقف دیوبند ج5 ص370
اسلامی عقائد
الجواب وباللّٰہ التوفیق: مردوں کے لیے ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور عورتوں کے لیے چہرہ، ہتھیلی اور پاؤں کے علاوہ پورا جسم ستر ہے، اور پورے ستر کا پردہ لازم ہے۔(۲)
(۲) وعورۃ الرجل ما تحت السرۃ إلی الرکبۃ لقولہ علیہ السلام : عورۃ الرجل ما بین سرّتہ إلی رکبتیہ … وبدن الحرۃ کلہا عورۃ إلا وجہہا وکفیہا لقولہ علیہ السلام: المرأۃ عورۃ واستثناء العضوین للابتداء بإبدائہما۔ (المرغیناني، ہدایۃ، ’’کتاب الصلاۃ: باب شروط الصلاۃ التي تقدمہا‘‘: ج ۱، ص: ۹۲ - ۹۳، مکتبہ: دار الکتاب، دیوبند)
عورۃ الرجل للرجل من تحت السرۃ حتی تجاوز رکبتیہ … بدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا، کذا في المتون۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’کتاب الصلاۃ: الباب الثالث، في شروط الصلاۃ‘‘: الفصل الأول في الطہارۃ وستر العورۃ، ج ۱، ص: ۱۱۵، مکتبہ: زکریا، دیوبند)
فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج4 ص265
نماز / جمعہ و عیدین
الجواب وباللّٰہ التوفیق: نوافل کے سجدہ میں دعا کرنا درست ہے، تاہم نوافل میں صرف وہی دعائیں کرسکتے ہیں جو قرآن و حدیث سے منقول ہوں اور انہیں الفاظ کے ساتھ کی جائیں۔
’’عن أبي ہریرۃ رضياللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال أقرب ما یکون العبد من ربہ وہو ساجد فأکثروا الدعاء‘‘(۲)
’’وأما السجود فاجتہدوا في الدعاء فقمن أن یستجاب لکم‘‘(۳)
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب ما یقال في الرکوع والسجو‘‘: ج ۱، ص: ۱۹۱، رقم: ۴۸۲۔
(۳) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الصلاۃ: باب النہي عن قراء ۃ القرآن في الرکوع والسجود‘‘: ج ۱، ص:۱۹۱، رقم: ۴۷۹۔
فتاوى دار العلوم وقف ديوبند ج 4 ص: 411
Divorce & Separation
Ref. No. 39 / 810
In the name of Allah the most Gracious the most Merciful
The answer to your question is as follows:
After separation, the mother shall have the right to nourish her son up to seven years of his age and her daughter till she has reached the age of puberty, while father would be responsible for their all kinds of expenses. When the boy has reached the age of seven and the daughter the age of puberty then the right of nourishment shall turn to the father. Hence, after the said period, father has right to take the children into his custody.
And Allah Knows best
Darul Ifta
Darul Uloom Waqf Deoband
متفرقات
Ref. No. 1118/42-344
الجواب وباللہ التوفیق
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہاں، زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔ چونکہ زندہ لوگوں کا عمل ابھی جاری ہے، اور جو اس دنیا سے فوت ہوگئے ہیں، وہ ثواب کے زیادہ محتاج ہیں، اس لئے مردہ لوگوں کو ایصال ثواب کیاجاتاہے۔ تاہم زندہ لوگوں کو بھی ایصال ثواب کرسکتے ہیں۔
فإن من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه لغيره من الأموات والأحياء جاز ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا (البحرالرائق 3/63) (بدائع الصنائع 2/212)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند